قوم
کو عزت و احترام اپنی زبان کو فروغ دینے سے ملتا ھے۔ عام پنجابی تو پنجابی زبان ھی
بولتا ھے لیکن پنجابی اشرافیہ کا حال یہ ھے کہ اپنی پنجاب کی زبان پنجابی کو چھوڑے
ھوئے اور اترپردیش کی زبان اردو کو اختیار کیے ھوئے ھے۔
پنجابی
اشرافیہ کو ماؤزے تنگ کے اپنی چینی زبان کے ساتھ محبت سے سبق حاصل کرنا چاھیئے۔
ماؤزے تنگ کو انگریزی زبان پر عبور تھا۔ مغرب میں چھپنے والی ھر اچھی کتاب منگوا
کر پڑھتے تھے۔
رچرڈ
نکسن 1972ء میں ماؤزے تنگ سے ملنے گئے تو ماؤ نے انہیں ان کی کتابیں دکھائیں۔ نکسن
یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ماؤزے تنگ نے نہ صرف ان کی کتابیں پڑھ رکھی تھیں بلکہ
اوراق پر ”فٹ نوٹس“ بھی تھے اور بعض جگہوں پر سوالیہ نشان بھی تھے۔
اس
تمام تر انگریزی دانی کے باوجود ماؤزے تنگ نے پوری زندگی کسی دوسرے شخص کے سامنے
انگریزی کا ایک لفظ نہیں بولا۔ اس کی وجہ چین اور چینی زبان سے محبت تھی۔
ماؤزے
تنگ کہتے تھے”میں دنیا کو بتانا چاھتا ھوں چین گونگا نہیں‘ اس کی ایک زبان ھے
اور اگر دنیا ھمارے قریب آنا چاھتی ھے‘ ھمیں سمجھنا چاھتی ھے تو اسے ھماری زبان
سمجھنا اور جاننا ھوگی“۔
No comments:
Post a Comment