Wednesday, 18 January 2017

اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے بارے میں جواب طلب چار باتیں۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا شور و غوغا رھتا ھے کہ؛

1۔ ھمارے آباؤ اجداد نے پاکستان بنایا۔
2۔ پنجابی تو 13 اگست کو سو کر 14 اگست کو اٹھے تو پنجابیوں کو بنا بنایا پاکستان مل گیا۔
3۔ ھمارے آباؤ اجداد نے پاکستان کے لیے 20 لاکھ جانوں کو قربان کیا۔
4۔ ھمارے آباؤ اجداد خون کی ندیاں پھلانگ کر پاکستان آئے۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی چرب زبانی ' پاکستان کو بنانے اور اسلام کو بچانے کی طوطا کہانی کے سحر کا شکار پنجابی چونکہ ھر دور میں ان اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے ھاتھوں بے وقوف بنتے آَئے ھیں۔ اس لیے ان اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے شور و غوغا کا جائزہ لینا ضروری ھے کہ انکا شور و غوغا حقیقت پر مبنی ھے یا انکی دغا بازی ' عیاری اور مکاری ھے۔

1۔ ھمارے آباؤ اجداد نے پاکستان بنایا۔

اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے آباؤ اجداد نے 14 اگست 1947 کو پاکستان بنایا تھا تو پھر انکے آباؤ اجداد پاکستان بنانے کے بعد 1950 تک یوپی ' سی پی میں ھی کیوں بیٹھے رھے؟

2۔ پنجابی تو 13 اگست کو سو کر 14 اگست کو اٹھے تو پنجابیوں کو بنا بنایا پاکستان مل گیا۔

جب 14 اگست 1947 کو پاکستان اور بھارت کے قیام کا اعلان کیا گیا تو اس وقت پنجابی نہ پاکستان میں تھے اور نہ بھارت میں۔ پاکستان کے قیام کے 2 دن کے بعد 17 اگست 1947 کو پنجاب کو تقسیم کرکے 17 مسلمان پنجابیوں کی اکثریت والے اضلاع پاکستان میں شامل کردیے گئے اور 12 ھندو پنجابیوں و سکھ پنجابیوں کی اکثریت والے اضلاع بھارت میں شامل کردیے گئے۔ جبکہ پاکستان کا نام تجویز کرنے والے چوھدری رحمت علی گجر کے پیش کردہ پلان کے مطابق پنجاب کو تقسیم کیے بغیر ھی پاکستان میں شامل کرنا تھا۔

3۔ ھمارے آباؤ اجداد نے پاکستان کے لیے 20 لاکھ جانوں کو قربان کیا۔

20 لاکھ جانوں کی قربانی تو پنجابیوں کی ھوئی تھی نہ کہ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی۔ کیونکہ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی تو 1950 سے پاکستان آنا شروع ھوئے۔ جبکہ 17 اگست 1947 کو پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے مسلمان پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ جسکی وجہ سے مار دھاڑ ' لوٹ مار اور قتل و غارتگری کا سلسلہ شروع ھوا ' جس میں 20 لاکھ پنجابی مارے گئے۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی قتل و غارتگری قرار دی جاتی ھے۔ جبکہ 2 کروڑ پنجابیوں نے نقل مکانی کی۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی نقل مکانی قرار دی جاتی ھے۔

4۔ ھمارے آباؤ اجداد خون کی ندیاں پھلانگ کر پاکستان آئے۔

انکے آباؤ اجداد کو خون کی ندیاں پھلانگ کر پاکستان میں دوسری قوموں کی زمین پر آنے کی کیا ضرورت تھی؟ پاکستان کے قیام کے بعد پنجابیوں نے تو پنجاب کی مسلم پنجاب اور نان مسلم پنجاب میں تقسیم کے بعد دوسری قوموں کی زمین پر جاکر قبضے نہیں کیے بلکہ اپنی پنجاب کی ھی زمین میں نقل مکانی کرلی اور نہ پاکستان میں شامل ھونے والی دوسری قوموں بنگالی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ نے دوسری قوموں کی زمین پر جاکر قبضے کیے۔ پاکستان کے قیام کے وقت جس طرح پنجاب کو مسلم پنجاب اور نان مسلم پنجاب میں تقسیم کیا گیا اسی طرح یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو چاھیئے تھا کہ یوپی اور سی پی کے علاقوں کو بھی مسلم یوپی ' سی پی اور نان مسلم یوپی ' سی پی میں تقسیم کرواتے اور اپنی یوپی ' سی پی کی ھی زمین میں نقل مکانی کرتے لیکن یوپی ' سی پی کے مسلمانوں نے 1950 میں ھونے والے لیاقت۔نہرو پیکٹ کی آڑ لیکر پاکستان آنا شروع کریا اور پنجاب و سندھ کے بڑے بڑے شہروں ' پاکستان کی حکومت ' پاکستان کی سیاست ' پاکستان کی صحافت ' سرکاری نوکریوں ' زمینوں ' جائیدادوں پر قبضہ کر لیا۔

پاکستان میں سیاسی اور ملٹری لیڈر شپ اب پنجابی کے پاس ھی رھے گی۔

پاکستان سے 1971 میں بنگال کے الگ ھونے تک پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ مھاجر لیاقت علی خان سے لیکر ' مھاجر مودودی و مھاجر نورانی' بنگالی مجیب و بنگالی بھاشانی ' سندھی بھٹو و سندھی جی۔ایم سید' پٹھان غفار خان ' ولی خان و پٹھان قیوم خان' بلوچ خیر بخش مری' بلوچ اکبر بگٹی' بروھی عطاء اللہ مینگل کے پاس رھی. ایک بھی قومی سطح کا پنجابی سیاسی لیڈر نہیں تھا. ملٹری لیڈرشپ پٹھان ایوب خان ' پٹھان یحی خان' بلوچستان کے ھزارھ موسی خان کے ھاتھ میں رھی. ایک بھی پنجابی فوج کا سربراہ نہیں بنا تھا.

آج 2017 میں بنگال تو ھے نہیں. بلوچ لیڈرشپ بلوچ خیر بخش مری' بلوچ اکبر بگٹی' بروھی عطاء اللہ مینگل کے معیار کی طرح قومی سطح کی نہیں ھے ' بلکہ سکڑ کر بلوچستان کے اندر تک محدود اور قبائل کی حد تک اثر انداز ھونے والی رہ گئی ھے. پختون لیڈرشپ بھی پٹھان غفار خان ' ولی خان و پٹھان قیوم خان کے معیار کی طرح قومی سطح کی نہیں ھے ' بلکہ سکڑ کر خیبر پختونخواہ کے اندر تک محدود اور آپس میں الجھی ھوئی ھے. سندھی لیڈرشپ بھی سندھی ذالفقار و بے نظیر بھٹو و سندھی جی۔ایم سید کے معیار کی طرح قومی سطح کی نہیں ھے ' بلکہ سکڑ کر دیہی سندھ کے اندر تک محدود اور آپس میں الجھی ھوئی ھے.

سندھی اس وقت سیاسی طور پر صوبائی سطح کی سیاسی لیڈرشپ سے بھی محروم ھیں. مستقبل میں سندھی سیاسی لیڈرشپ کا معیار مزید گر کر ضلعوں کی سطح پر آتا نظر آرھا ھے. بلوچوں اور پختونوں کی طرح سندھیوں کی سیاسی لیڈرشپ بھی مختلف علاقوں اور ضلعوں کی حد تک محدود اور قبائل میں منتشر نظر آئے گی.

مھاجر اس وقت الطاف حسین کی قیادت میں متحد اور ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے متحرک ھیں. اس لحاظ سے مھاجر کی سیاسی پوزیشن سندھی' پٹھان اور بلوچ سے زیادھ بھتر ھے لیکن الطاف حسین کا پاکستان آنا ممکن نہیں. مھاجر کے پاس مشرف ' الطاف حسین کا متبادل لیڈر تھا لیکن مقدمات میں پھنسنے کے بعد اب مشرف کی گلوخلاصی ممکن نہیں. مستقبل میں مھاجر بھی سیاسی قیادت کے اس ھی بحران میں مبتلا ھوکر منتشر ھو جائیں گے جس طرح سے بلوچ' پٹھان اور سندھی قومی سطح کی لیڈرشپ سے محروم ھونے کے بعد ' سیاسی قیادت کے بحران کی وجہ سے منتشر ھیں.

پنجاب اس وقت پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سیاسی قیادت میں نہ صرف خود کفیل بلکہ مضبوط و مستحکم ھے. نواز شریف کی شکل میں قومی سطح کی لیڈرشپ موجود ھے جسکا ھم پلہ سیاستدان بلوچ ' پٹھان ' مھاجر اور سندھی کے پاس نہیں ھے۔ پنجاب میں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کی جڑیں انتہائی مظنوط ھیں جو اب پھیل کر پختونخواہ کے ھزارھ بیلٹ اور بلوچستان پر بھی اپنا اثر بڑھا رھی ھیں۔ جبکہ دیہی سندھ کی دوسری بڑی آبادی اور شہری سندھ کی بھی دوسری بڑی آبادی ' پنجابی کی سپورٹ ویسے ھی نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے ساتھ ھے۔

قصہ مختصر! پاکستان میں سیاسی اور ملٹری لیڈر شپ اب پنجاب اور پنجابی کے پاس ھے۔ ملک میں فوجی مداخلت کا بھی کوئی امکان نہیں کیونکہ پنجاب کی سیاسی قیادت نہ تو فوج کو سیاسی امور میں مداخلت کرنے دے گی اور نہ ھی جمہوری عمل کی بساط لپیٹنے دے گی اور نہ ھی پنجابی ملٹری لیڈرشپ اپنے فرائض چھوڑ کر سیاسی امور میں مداخلت کرنا پسند کرے گی۔

بحرحال ! جب حکومتی اداروں کی کارکردگی کو بنیاد بنا کر اور ان اداروں کو پنجابی ادارے کہہ کہہ کر یا دوسرے شوشے چھوڑ چھوڑ کر پنجابیوں کو سندھیوں ' بلوچوں ' پٹھانوں یا مھاجروں کی طرف سے گالیاں دی جاتی ھیں اور سرائیکی سازش کے ذریعے پنجاب کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازشیں کی جاتی ھیں تو بات سیاسی مفاھمت کے بجائے محاذآرائی کی طرف نکل جاتی ھے. اس لیے سندھیوں ' بلوچوں ' پٹھانوں اور مھاجروں کو طے کرنا ھوگا کہ وہ پنجاب اور پنجابیوں کے ساتھ سیاسی مفاھمت کرنا چاھتے ھیں یا محاذآرائی؟

سندھی ' مھاجر اور پٹھان کو قومی اور بین الاقوامی معاملات سے فارغ کرکے صرف مقامی اور صوبائی معاملات اور سیاست تک محدود کردیا گیا تو سندھی ' مھاجر اور پٹھان آرام و سکون کے ساتھ اپنی اوقات میں رھیں گے. پھر یہ سیاست کریں گے سازشیں نہیں. بلیک میل کرنے اور عملی کام کر کے دکھانے میں زمین آسمان کا فرق ھے. اب سندھی سندھودیش ' مھاجر جناح پور ' بلوچ آزاد بلوچستان اور پٹھان پختونستان والے نعرہ کو عملی شکل دیں تاکہ ان کو دال روٹی کے بھاؤ کا پتہ چلے.

پاکستان میں سندھیوں کی آبادی صرف 12٪ ' مھاجروں کی 8٪ ' پٹھانوں کی 8٪ اور بلوچوں کی 4٪ ھے لیکن اس کے باوجود 60٪ پنجابیوں نے پاکستان کے وسع تر مفاد کی خاطر اور پاکستان کی چھوٹی قوموں کو شیر و شکر کرکے پاکستانی قوم بننے کا موقع دینے کے لیے کبھی مھاجروں ' کبھی پٹھانوں اور کبھی سندھیوں کو 60٪ پنجابیوں پر حکومت کرنے کا بار بار موقع دیا ' جس کی وجہ سے مھاجروں ' پٹھانوں ' بلوچوں اور خاص طور پر سندھیوں کی عادت خراب ھوگئی اور دل بار بار مرکز پر حکومت کرنے کو مچلنے لگا لیکن اب مستقبل میں سندھی ' مھاجر ' بلوچ اور پٹھان کے پاس مقامی اور صوبائی معاملات کی حد تک ھی سیاست اور حکومت کرنے کی گنجائش ھے. قومی اور بین الاقوامی معاملات اور سیاست کو بھتر ھے کہ اب یہ سندھی ' بلوچ ' مھاجر اور پٹھان ایک ماضی کا سہانہ خواب سمجھ کر صرف تذکرے ھی کیا کریں.

در حقیقت ' سندھی ' مھاجر ' بلوچ اور پٹھان کو معلوم ھونا چاھیئے کہ خیبرپختونخواھ کا علاقہ افغان قوم اور پنجابی قوم کے درمیان بفر زون ھے۔ جس میں مختلف قبائل رھائش پذیر ھیں۔ ان قبائل کو قوم نہیں کہا جاسکتا۔ البتا ھندکو قبائل کے افراد خیبرپختونخواھ کے اصل باشندے ھیں۔

بلوچستان کا علاقہ ایرانی قوم اور پنجابی قوم کے درمیان بفر زون ھے۔ جس میں مختلف قبائل رھائش پذیر ھیں۔ ان قبائل کو قوم نہیں کہا جاسکتا۔ البتا براھوی قبائل کے افراد بلوچستان کے اصل باشندے ھیں۔

سندھ کا علاقہ ایک ایسی کالونی ھے۔ جس میں سماٹ سندھیوں کے علاوھ بلوچ' سید ' پنجابی ' پٹھان ' راجستھانی ' گجراتی ' یوپی والے ' سی پی والے ' بہاری ' گلگتی ' کشمیری ' سواتی وغیرھ بے شمار برادریاں آباد ھیں۔ اس لیے ان برادریوں کو قوم نہیں کہا جاسکتا۔ البتا سماٹ قبائل کے افراد سندھ کے اصل باشندے ھیں۔

پاکستان میں قوم صرف پنجابی ھی ھے اور پنجابی قوم کی آبادی پاکستان کی کل آبادی کا 60٪ ھے۔

پنجابیو !!! اے تواڈے نال ھو کی رے آ اے تے ھو کیوں رے آ اے؟


کراچی وچ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجراں دی سماجی تے سیاسی بالادستی اے۔ کراچی وچ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجراں دی پالیسی اے کہ کراچی وچ رین والے پنجابیاں نوں "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھو"۔

دیہی سندھ وچ کردستانی نزاد بلوچاں تے عربی نزاداں دی سماجی تے سیاسی بالادستی اے۔ دیہی سندھ وچ کردستانی نزاد بلوچاں تے عربی نزاداں دی پالیسی اے کہ دیہی سندھ وچ رین والے پنجابیاں نوں "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھو"۔

جنوبی پنجاب وچ کردستانی نزاد بلوچاں تے عربی نزاداں دی سماجی تے سیاسی بالادستی اے۔ جنوبی پنجاب وچ کردستانی نزاد بلوچاں تے عربی نزاداں دی پالیسی اے کہ جنوبی پنجاب وچ رین والے پنجابیاں نوں "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھو"۔

بلوچستان دے بلوچ علاقے وچ کردستانی نزاد بلوچاں دی سماجی تے سیاسی بالادستی اے۔ بلوچستان دے بلوچ علاقے وچ کردستانی نزاد بلوچاں دی پالیسی اے کہ بلوچستان دے بلوچ علاقے وچ رین والے پنجابیاں نوں "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھو"۔

بلوچستان دے پشتون علاقے وچ افغانی نزاد پشتوناں دی سماجی تے سیاسی بالادستی اے۔ بلوچستان دے پشتون علاقے وچ افغانی نزاد پشتوناں دی پالیسی اے کہ بلوچستان دے پشتون علاقے وچ رین والے پنجابیاں نوں "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھو"۔

خیبر پختونخوا وچ افغانستانی نزاد پختوناں دی سماجی تے سیاسی بالادستی اے۔ خیبر پختونخوا دے پختون علاقے وچ افغانستانی نزاد پختوناں دی پالیسی اے کہ خیبر پختونخوا دے پختون علاقے وچ رین والے پنجابیاں نوں "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھو"۔

وسطی پنجاب تے شمالی پنجاب وچ وی اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر تے افغانستانی نزاد پٹھان اپنی اپنی سماجی تے سیاسی بالادستی قائم کردے جا رئے نے۔ پنجاب وچ وی اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجراں تے افغانستانی نزاد پٹھاناں دی پالیسی اے کہ وسطی پنجاب تے شمالی پنجاب وچ وی پنجابیاں نوں "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھو"۔

پنجابیاں نوں اردو بولن والے ھندوستانی مھاجراں '  کردستانی نزاد بلوچاں ' افغانستانی نزاد پشتوناں ' پختوناں ' پٹھاناں ' دیہی سندھ تے جنوبی پنجاب دے عربی نزاداں نے ایس لئی "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھیا" ھویا اے کہ پنجابی ' پاکستان وچ ھر جگہ ' سماجی تے سیاسی طور تے ماڑا اے۔ ایس لئی سماجی تے سیاسی طور تے تگڑے ھون دے کرکے اردو بولن والے ھندوستانی مھاجراں '  کردستانی نزاد بلوچاں ' افغانستانی نزاد پشتوناں ' پختوناں ' پٹھاناں ' دیہی سندھ تے جنوبی پنجاب دے عربی نزاداں نے پنجابیاں نوں پاکستان وچ ھر تھاں تے "تن کے تے ٹھوک وجا کے رکھیا" ھویا اے۔

اردو بولن والے ھندوستانی مھاجر '  کردستانی نزاد بلوچ ' افغانستانی نزاد پشتون ' پختون ' پٹھان ' دیہی سندھ تے جنوبی پنجاب دے عربی نزاد ایس لئی سماجی تے سیاسی طور تے تگڑے نے کہ اناں نے اپنی اپنی قوم نوں "قوم پرستی دا سیاسی شعور" دے کے تگڑا کیتا ھویا اے۔ پنجابی ایس لئی سماجی تے سیاسی طور تے ماڑے نے کہ پنجابیاں نے اپنی قوم نوں "قوم پرستی دا سیاسی شعور نہ دے کے" آپ ای ماڑا کیتا ھویا اے۔

Tuesday, 17 January 2017

سندھ کے گورنر کی نامزدگی کے لیے وفاقی حکومت کی ترجیحات کیا ھونگی؟

آئین کے مطابق کسی بھی صوبے کے گورنر کی نامزدگی کا اختیار وزیرِ اعظم کے پاس ھے اور گورنر کے پاس وفاقی یا صوبائی اداروں کے انتظامی اختیارات نہیں ھوتے ' اس لیے گورنر انتظامی طور پر غیر موثر ھی رھتا ھے۔ لیکن گورنر چونکہ صوبے میں وفاق کا نمائندہ ھوتا ھے اس لیے وفاقی حکومت بوقتِ ضرورت انتظامی حکم کے ذریعے ' صوبے میں وزیرِ اعلیٰ کے صوبائی اداروں پر انتظامی اختیارات کے متوازی ' گورنر کو وفاقی حکومت کی سرپرستی  اور خاص طور پر صوبے میں واقع وفاقی اداروں کا تعاون دلواکر ' صوبے میں وزیرِ اعلیٰ کے مقابل طاقتور انتظامی گورنر بھی بنا سکتی ھے۔

وفاق میں 2013 سے پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ھے جبکہ صوبہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت ھے۔ سندھ میں پی پی پی کا سیاسی اثر دیہی سندھ کی سندھی آبادی اور قومی اسمبلی کی 41 نشستوں پر ھے اور ایم کیو ایم کا سیاسی اثر کراچی کی مھاجر آبادی اور قومی اسمبلی کی 20 نشستوں پر ھے جبکہ پنجاب کی 150 نشستوں پر سیاسی اثر پاکستان مسلم لیگ ن کا ھے اور پاکستان مسلم لیگ ن نے پنجاب سے ھی وفاقی حکومت بنانے کے لیے نشستوں کی مقررہ تعداد 137 حاصل کی ھوئی ھے۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے پاس خیبر پختونخواہ کی 35 ' بلوچستان کی  14 اور فاٹا کی 12 نشستوں میں سے بھی نشستیں ھیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن کو پنجاب کی سیاسی پارٹی ھونے کی وجہ سے پنجاب کی 150 نشستوں میں سے کثیر تعداد میں نشستیں آسانی سے مل جاتی ھیں جبکہ دیہی سندھ کی قومی اسمبلی کی 41 نشستوں اور کراچی کی 20 نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ ن کو پنجاب جتنی محنت کرنے کے باوجود بھی پی پی پی کے دیہی سندھ کی سیاسی پارٹی ھونے اور سندھی قوم پرستی کی وجہ سے جبکہ ایم کیو ایم کے کراچی کی سیاسی پارٹی ھونے اور مھاجر قوم پرستی کی وجہ سے چند نشستوں سے زیادہ نشستیں نہیں ملتیں۔ اس لیے پاکستان مسلم لیگ ن سندھ میں سیاسی عدم دلچسپی کی وجہ سے کراچی میں ایم کیو ایم اور سندھ کے دیہی علاقوں میں پی پی پی کے ساتھ سیاسی مقابلے سے گریز کر رھی ھے۔

پاکستان مسلم لیگ ن نے 2013 میں وفاقی حکومت بنانے کے بعد بھی پی پی پی کی وفاقی حکومت کی طرف سے نامزد کردہ ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کو ھی سندھ میں گورنر رھنے دیا تھا۔ لیکن سندھ میں اغوا ' بھتہ غوری ' ٹارگٹ کلنگ ' دھشتگردی اور ایم کیو ایم کی ملک دشمن سرگرمیوں کے خلاف رینجرس کے آپریشن کی وجہ سے اور سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کے اغوا ' بھتہ غوری ' ٹارگٹ کلنگ ' دھشتگری میں ملوث عناصر کے ساتھ روابط اور ایم کیو ایم کے ساتھ تعاون کی وجہ سے ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کو ھٹا کر ایک عمر رسیدہ ' غیر سیاسی اور غیر موثر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کو سندھ کا گورنر نامزد کردیا تھا۔

سعید الزمان صدیقی کے انتقال کے بعد اب وفاقی حکومت نے سندھ کا نیا گورنر نامزد کرنا ھے لیکن سوال یہ ھے کہ؛ سندھ کے گورنر کی نامزدگی کے لیے وفاقی حکومت کی ترجیحات کیا ھونگی؟

1۔ اگر سندھ میں سیاسی عدم دلچسپی کی وجہ سے کراچی میں ایم کیو ایم اور سندھ کے دیہی علاقوں میں پی پی پی کے ساتھ  پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاسی مقابلے سے گریز کرنے کی پالیسی برقرار ھے تو پھر پاکستان مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کی ترجیح غیر سیاسی اور غیر موثر شخص کو سندھ کا گورنر نامزد کرنا ھوگی۔

2۔ اگر کراچی میں اغوا ' بھتہ غوری ' ٹارگٹ کلنگ ' دھشتگردی اور ایم کیو ایم کی ملک دشمن سرگرمیوں کے خلاف رینجرس کے انتطامی آپریشن کی وجہ سے رینجرس کو کراچی کے عوام کی عوامی حمایت کے ساتھ ساتھ سیاسی حمایت دلوانے ' کراچی میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سیاسی دلچسپی لینے اور ایم کیو ایم کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاسی مقابلہ کرنے کی پالیسی بن رھی ھے تو پھر پاکستان مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کی ترجیح ایسے سیاسی اور موثر شخص کو سندھ کا گورنر نامزد کرنا ھوگی جو کراچی میں رھنے والے پنجابیوں ' پٹھانوں ' گجراتیوں ' راجستھانیوں ' سندھیوں ' بروھیوں اور بلوچوں  کے آپس میں روابط کروا کر متحرک اور متحد کرکے کراچی پر قابض اور ایم کیو ایم کے اصل کرتا دھرتا افراد ' یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں اور بہاریوں کی بالادستی سے نجات دلوا سکے تاکہ کراچی میں رھنے والے پنجابی ' پٹھان ' گجراتی ' راجستھانی ' سندھی ' بروھی اور بلوچ  پاکستان مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے کراچی کی سیاست کرسکیں۔

3۔ اگر سندھ کے دیہی علاقوں میں بھی اغوا ' بھتہ غوری ' ٹارگٹ کلنگ ' دھشتگردی اور پی پی پی کی ملک دشمن سرگرمیوں کے خلاف رینجرس کا انتطامی آپریشن متوقع ھے اور رینجرس کو سندھ کے دیہی علاقوں کے عوام کی عوامی حمایت کے ساتھ ساتھ سیاسی حمایت دلوانے ' سندھ کے دیہی علاقوں میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سیاسی دلچسپی لینے اور پی پی پی کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاسی مقابلہ کرنے کی پالیسی بن رھی ھے تو پھر پاکستان مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کی ترجیح ایسے سیاسی اور موثر شخص کو سندھ کا گورنر نامزد کرنا ھوگی جو دیہی سندھ میں رھنے والے سماٹ سندھیوں ' پنجابیوں ' پٹھانوں ' گجراتیوں ' راجستھانیوں اور  بروھیوں کے آپس میں روابط کروا کر متحرک اور متحد کرکے دیہی سندھ پر قابض اور پی پی پی کے اصل کرتا دھرتا افراد ' بلوچ نزاد سندھیوں اور عربی نزاد سندھیوں کی بالادستی سے نجات دلوا سکے تاکہ دیہی سندھ میں رھنے والے سماٹ سندھی ' پنجابی ' پٹھان ' گجراتی ' راجستھانی اور  بروھی پاکستان مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے دیہی سندھ کی سیاست کرسکیں۔

 4۔ اگر بیک وقت کراچی اور سندھ کے دیہی علاقوں میں اغوا ' بھتہ غوری ' ٹارگٹ کلنگ ' دھشتگردی ' ایم کیو ایم اور پی پی پی کی ملک دشمن سرگرمیوں کے خلاف رینجرس کے انتطامی آپریشن کو کراچی اور دیہی سندھ کے عوام کی عوامی حمایت کے ساتھ ساتھ سیاسی حمایت دلوانے ' پاکستان مسلم لیگ ن   کے بیک وقت کراچی اور سندھ کے دیہی علاقوں میں سیاسی دلچسپی لینے ' ایم کیو ایم اور پی پی پی کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاسی مقابلہ کرنے کی پالیسی بن رھی ھے تو پھر پاکستان مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کی ترجیح ایسے سیاسی اور موثر شخص کو سندھ کا گورنر نامزد کرنا ھوگی جو کراچی میں رھنے والے پنجابیوں ' پٹھانوں ' گجراتیوں ' راجستھانیوں ' سندھیوں ' بروھیوں اور بلوچوں کے آپس میں روابط کروا کر متحرک اور متحد کرکے کراچی پر قابض اور ایم کیو ایم کے اصل کرتا دھرتا افراد ' یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں اور بہاریوں کی بالادستی سے نجات دلوا سکے تاکہ کراچی میں رھنے والے پنجابی ' پٹھان ' گجراتی ' راجستھانی ' سندھی ' بروھی اور بلوچ  پاکستان مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے کراچی کی سیاست کرسکیں اور دیہی سندھ میں رھنے والے سماٹ سندھیوں ' پنجابیوں ' پٹھانوں ' گجراتیوں ' راجستھانیوں اور بروھیوں کے آپس میں روابط کروا کر متحرک اور متحد کرکے دیہی سندھ پر قابض اور پی پی پی کے اصل کرتا دھرتا افراد ' بلوچ نزاد سندھیوں اور عربی نزاد سندھیوں کی بالادستی سے نجات دلوا سکے تاکہ دیہی سندھ میں رھنے والے سماٹ سندھی ' پنجابی ' پٹھان ' گجراتی ' راجستھانی اور بروھی پاکستان مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے دیہی سندھ کی سیاست کرسکیں۔

در اصل سندھ میں برادریوں کے مسئلوں اور لسانی بنیاد پر تنازعات کی وجہ سندھ میں سندھ کی سطح کی سیاسی جماعت کا نہ ھونا ھے۔ سندھ کی دس بڑی برادریوں کا جائزہ لیا جائے تو سندھ ' 1۔ سماٹ 2۔ پنجابی 3۔ پٹھان 4۔ بروھی 5۔ گجراتی 6۔ راجستھانی 7۔ بہاری 8۔ بلوچ نزاد سندھی 9۔ عربی نزاد سندھی 10۔ یوپی ' سی پی والوں کی برادریوں کا صوبہ ھے۔

دیہی سندھ کی سیاسی جماعت پی پی پی ھے جو کہ نہ صرف بلوچ نزاد سندھی آصف زرداری کے کنٹرول میں ھے بلکہ پی پی پی پر کنٹرول بھی بلوچ نزاد سندھیوں کا ھی ھے۔ سماٹ سندھیوں ' عربی نزاد سندھیوں اور بروھیوں کی پی پی پی میں حیثیت ثانوی ھے۔ جبکہ دیہی سندھ میں آباد پنجابیوں کو پی پی پی میں لیا ھی نہیں جاتا۔ حالانکہ سماٹ سندھیوں اور بلوچ نزاد سندھیوں کے بعد دیہی سندھ کی تیسری بڑی برادری دیہی سندھ میں آباد پنجابی ھیں۔

کراچی کی سیاسی جماعت ایم کیو ایم ھے جو کہ نہ صرف یوپی کے الظاف حسین کے کنٹرول میں ھے بلکہ ایم کیو ایم پر کنٹرول بھی یوپی ' سی پی والوں کا ھی ھے۔ گجراتیوں ' راجستھانیوں اور بہاریوں کی ایم کیو ایم میں حیثیت ثانوی ھے۔ جبکہ کراچی میں آباد پنجابیوں اور پٹھانوں کو ایم کیو ایم کے مھاجروں کی جماعت ھونے کی وجہ سے ایم کیو ایم میں لیا ھی نہیں جاتا۔ حالانکہ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے بعد کراچی کی دوسر بڑی برادری کراچی میں آباد پنجابی اور تیسری بڑی برادری کراچی میں آباد پٹھان ھیں۔

پی پی پی دیہی سندھ کی سیاسی جماعت ھے اور ایم کیو ایم کراچی کی سیاسی جماعت ھے۔ اس لیے سندھ میں سندھ کی سطح کی کوئی سیاسی جماعت نہیں ھے۔ جبکہ سندھ کے سماٹ ' پنجابی ' پٹھان ' بروھی ' گجراتی  اور راجستھانی سندھ کی سیاست میں بے بس اور بے کس ھیں۔

الطاف حسین کے پاکستان سے باھر رھنے اور پاکستان مخالف حرکتوں کی وجہ سے کراچی میں ایم کیو ایم نے ٹکڑیوں میں بٹ کر بکھرنا شروع کردیا ھے ۔ کراچی میں آباد پنجابیوں اور پٹھانوں کو تو ایم کیو ایم میں لیا ھی نہیں جاتا تھا لیکن اب گجراتیوں ' راجستھانیوں اور بہاریوں نے بھی ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرنا شروع کردی ھے۔

آصف زرداری کے فوج کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کی دھمکی دینے
اور پی پی پی کے لیڈروں کے سندھ میں اغوا ' بھتہ غوری ' ٹارگٹ کلنگ ' دھشتگردی ' رشوت خوری اور ملک دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے دیہی سندھ میں پی پی پی کے ووٹر ' ورکر اور سپورٹر پی پی پی سے مایوس ھوتے جارھے ھیں۔ دیہی سندھ میں آباد پنجابیوں کو تو پی پی پی میں لیا ھی نہیں جاتا تھا۔ لیکن اب سماٹ سندھیوں ' عربی نزاد سندھیوں اور بروھیوں نے بھی پی پی پی سے علیحدگی اختیار کرنے کے لیے سوچنا شروع کردیا ھے۔

سندھ میں رھنے والے %42 سماٹ سندھی ھیں ' جو کہ سندھ کے اصل باشندے ھیں۔
%19 مھاجر ھیں ' جو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ' بہاری ' گجراتی ' راجستھانی اور دکنی ھیں۔
%16 کردستانی نزاد سندھی ھیں ' جو خود کو بلوچ کہلواتے ھیں۔
%10 پنجابی ' %7 پٹھان ' %4 دیگر ھیں۔
%2 عربی نزاد سندھی ھیں ' جو خود کو عباسی ' انصاری ' گیلانی ' جیلانی ' قریشی ' صدیقی وغیرہ کہلواتے ھیں۔

ایم کیو ایم کے کراچی کی سطح تک اور پی پی پی کے دیہی سندھ کے علاقوں کی حد تک محدود سیاسی جماعتیں ھونے کی وجہ سے سندھ میں سندھ کی سطح کی سیاسی پارٹی نہیں ھے۔ اس لیے سندھ کے سماٹ سندھی ' پنجابی ' پٹھان ' بروھی ' عربی نزاد سندھی ' گجراتی ' راجستھانی اور بہاری کو پاکستان مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کر نے سے پاکستان مسلم لیگ ن کراچی اور دیہی سندھ کے علاقوں کی جماعت بن جانے کی وجہ سے سندھ کی سطح کی اور سندھ کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن سکتی ھے۔

Monday, 16 January 2017

جنوبی پنجاب کے جاگیرداروں سے جاگیریں اور دریا کے کچے کی زمینیں واپس لینا کیوں ضروری ھے؟

بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد مخدوموں ' گیلانیوں ' قریشیوں ' عباسیوں نے انگریزوں کے پنجاب پر قبضے کے دوران پنجاب اور پنجابیوں کے خلاف بھرپور سازشیں کیں ' جس پر انگریز سرکار نے انعام کے طور پر جنوبی پنجاب میں ان کو جاگیریں اور دریا کے کچے کی زمینیں دیں۔

جنوبی پنجاب کے علاقے بہاول پور میں آباد عربی نزاد قبیلے عباسی کے نواب ' نواب آف بہاول پور نے انگریز کے ساتھ "وفادار" نبھائی- لہذا انگریز سرکار نے پاکستان کے قیام تک بہاول پور کی ریاست کا والی عربی نزاد قبیلے عباسی کو بنائے رکھا۔

جنوبی پنجاب کے علاقے ملتان میں آباد عربی نزاد قبیلے قریشی کے سربراہ اور گدی نشین مخدوم شاہ محمود نے رائے احمد کھرل کی انگریزوں کے خلاف پنجاب کی آزادی کی تحریک میں انگریز کمشنر کومقامی آبادی کی بے چینی کے متعلق معلومات اور اطلاعات پہنچائیں اور سرکاری فوج کی مدد کے لیے پچیس سو سواروں کی ایک ملتانی پلٹن تیار کر کے دی- لہذا انگریزوں نے اس “ خدمت “ کے عوض اسے قیمتی جاگیر' نقد انعام اور آٹھ کنویں زمین عطاء کی-

جنوبی پنجاب کے علاقے ملتان میں آباد عربی نزاد قبیلے گیلانی کے سربراہ اور گدی نشین مخدوم سید نور شاہ نے انگریز سرکار کا ساتھ دیا۔ لہذا انگریز سرکار نے اس “ خدمت “ کے عوض خلعت اور سند سے نوازا اور بعد میں کاسہ لیسی کے صلے گیلانی خاندان کو جاگیریں بھی ملیں-

جنوبی پنجاب کے علاقے ملتان میں آباد پٹھان قبیلے کے گردیزی خاندان نے انگریز سرکار کا بھرپور ساتھ دیا۔ لہذا انگریز سرکار نے انگریز کی " مدد " کر نے کے صلے میں جاگیریں عطاء کیں-

جنوبی پنجاب کے علاقے خان گڑھ میں آباد پٹھان قبیلے کے نوابزادگان کے جد امجد اللہ داد خان نے انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کو کچلنے میں انگریزوں کا بھرپور ساتھ دیا- لہذا نگریز سرکار نے اس “ خدمت “ کے عوض اسے دو بار خصوصی خلعت دی اور انعام میں جاگیریں عطاء کیں-

جنوبی پنجاب میں آباد بلوچ قبیلے مزاری کے سردار امام بخش مزاری نے کھل کر انگریزوں کا ساتھ دیا- لہذا انگریز سرکار نے انگریز کی " مدد " کر نے کے صلے میں اسے سر کا خطاب دیا اور جاگیریں عطا کیں-

جنوبی پنجاب میں آباد بلوچ قبیلے دریشک کے سردار بجاران خان دریشک نے انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کے خلاف لڑنے کے لیے دریشکوں کا ایک خصوصی دستہ انگریزوں کے پاس بھیجا- لہذا انگریز سرکار نے انگریز کی " مدد " کر نے کے صلے میں دریشکوں کو جاگیریں عطا کیں-

ان بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد مخدوم ' گیلانی ' قریشی ' عباسی جاگیرداروں نے "سیکولر پنجاب کو ریلیجیس پنجاب" میں تبدیل کرنے کے لیے پنجابی مسلمانوں کو سکھ پنجابیوں اور ھندو پنجابیوں سے بدظن اور متنفر کرنے کی بھی سازشیں کیں۔

یہ بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد مخدوم ' گیلانی ' قریشی ' عباسی جاگیردار اس وقت بھی اپنے اپنے علاقوں میں رھنے والے پنجابیوں پر ظلم اور زیادتیاں کرواتے رھتے ھیں۔

یہ بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد مخدوم ' گیلانی ' قریشی ' عباسی جاگیردار اب پنجاب کو تقسیم اور پنجابیوں کو آپس میں لڑوانے کے لیے "سرائیکی سازش" بھی کر رھے ھیں۔

پنجاب کے بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد مخدوم ' گیلانی ' قریشی ' عباسی جاگیرداروں سے جاگیریں اور دریا کے کچے کی زمینیں واپس لے لی جائیں تو پنجاب میں "سرائیکی سازش" کا انجام کیا ھو گا؟

پنجاب کے بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد مخدوم ' گیلانی ' قریشی ' عباسی جاگیرداروں سے جاگیریں اور دریا کے کچے کی زمینیں واپس لے لی جائیں تو کیا یہ پھر بھی اپنے اپنے علاقوں میں رھنے والے پنجابیوں پر ظلم اور زیادتیاں کروا سکیں گے؟

Wednesday, 11 January 2017

پنجابیو!!! جگت ماں بولی دیہاڑ 21 فروری 2017 دی تیاری کرو۔

مئی 2009 نوں یونائیثڈ نیشنز دی جنرل اسمبلی نے اپنے A/RES/61/266 دے فیصلے وچ اپنے سنگی دیساں نوں " جگ دیاں ساریاں ورتیاں جان والیاں بولیاں نوں بچان تے ودھان لئی آکھیا"۔

پنجابی قوم پرستاں نوں چائی دا اے کہ سرکار کولوں پنجابی زبان نوں پنجاب دی دفتری تے تعلیمی زبان منوان لئی 21 فروری 2017 دے جگت ماں بولی دیہاڑ نوں لاھور وچ منان دی تیاری ھن توں ای شروع کردِین۔

پنجابی قوم پرست پنجاب دے پریس کلباں دے عہدیداراں تے معروف صحافیاں ' پنجاب دے بار کونسلاں دے عہدیداراں تے معروف وکیلاں ' پنجاب دے چیمبر آف کامرس دے عہدیداراں تے معروف صنعتکاراں تے تاجراں ' پنجاب دی یونیورسٹیاں دی اسٹاف یونیناں دے عہدیداراں تے معروف پروفیسراں ' لیکچراراں ' طالب علماں ' پنجاب دے کالیجاں دی اسٹاف یونیناں دے عہدیداراں تے معروف پروفیسراں ' لیکچراراں ' طالب علماں ' پنجاب دی سیاسی پارٹیاں دے عہدیداراں تے معروف سیاستداناں ' قومی تے صوبائی اسمبلیاں دے ممبراں نال رابطے کرکے 21 فروری 2017 دے جگت ماں بولی دیہاڑ نوں کامیاب کرن لئی رابطے شروع کردین تاکہ 21 فروری 2017 دے جگت ماں بولی دیہاڑ نوں لاھور وچ منا کے تے کامیاب کرکے سرکار کولوں پنجابی زبان نوں پنجاب دی دفتری تے تعلیمی زبان منوایا جاسکے۔

21 فروری 2017 دے لاھور وچ منائے جان والے جگت ماں بولی دیہاڑ وچ شامل ھون لئی جے ساری دنیا چوں پنجابیاں دے وفد وی آجان تے بڑی ودھیا گل ھوجاوے گی۔

افغانستان کا تفصیلی تعارف

افغانستان ایشیا کا ایک ملک ہے۔ جس کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ افغانستان ہے۔ اس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان ' مغرب میں ایران ' شمال مشرق میں چین ' شمال میں ترکمانستان ' ازبکستان اور تاجکستان ہیں۔ اردگرد کے تمام ممالک سے افغانستان کے تاریخی ' مذہبی اور ثقافتی تعلق بہت گہرا ہے۔ افغانستان کے بیشتر لوگ مسلمان ہیں۔ یہ ملک بالترتیب ایرانیوں ' یونانیوں ' عربوں ' ترکوں ' منگولوں ' برطانیوں ' روسیوں کے قبضے میں رہا ہے اور اب امریکہ کے قبضے میں ہے۔ ایک ملک کے طور پر 1747ء میں احمد شاہ درانی کے دور میں یہ درانی سلطنت کے قیام کے ساتھ افغانستان کے نام سے ابھرا۔

1919ء میں شاه امان الله خان کی قیادت میں انگریزوں سے افغانستان نے آزادی حاصل کی۔ جس کے بعد افغانستان صحیح معنوں میں ایک ملک بن گیا۔ مگر انگریزوں کے دور میں اس کے بیشتر علاقے حقیقت میں آزاد ہی تھے اور برطانیہ نے کبھی اس پر مکمل قبضہ نہیں رکھا لیکن آج افغانستان امریکی قبضہ میں ہے اور بظاہر ایک آزاد ملک اور حکومت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

افغانستان 1979 سے مسلسل جنگ کی سی حالت میں ہے جس نے اس کو تباہ کر دیا ہے اور اس کی کئی نسلوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ یہ تباہی کبھی غیروں کے ہاتھوں ہوئی اور کبھی خانہ جنگی سے یہ صورتحال پیدا ہوئی۔

افغانستان کا زیادہ رقبہ پتھریلا پہاڑی علاقہ ہے۔ اگرچہ افغانستان کے پاس تیل یا دوسرے وسائل کی کمی ہے مگر اس کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ وہ وسطی ایشیاء ' جنوبی ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ہے اور تینوں خطوں سے ہمیشہ اس کا نسلی ' مذہبی اور ثقافتی تعلق رہا ہے اور جنگی لحاظ سے اور علاقے میں اپنا دباؤ رکھنے کے لیے ہمیشہ اہم رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اس پر اپنا قبضہ یا اثر رکھنے کی کوشش کی ہے۔

قبل اسلام ' فارس کے بادشاہ شاپور اول کا سکہ۔ زمانہ: تیسری صدی عیسوی کا افغانستان

افغانستان میں پچاس ہزار سال پہلے بھی انسانی آبادی موجود تھی اور اس کی زراعت بھی دنیا کی اولین زراعت میں شامل ہے۔ سن 2000 قبل مسیح میں آریاؤں نے افغانستان کو تاراج کیا۔ جسے ایرانیوں نے ان سے چھین لیا۔ اس کے بعد یہ عرصہ تک سلطنت فارس کا حصہ رہا۔ 329 قبل مسیح میں اس کے کئی حصے ایرانیوں سے سکندر اعظم نے چھین لیے جس میں بلخ شامل ہے مگر یونانیوں کا یہ قبضہ زیادہ دیر نہ رہا۔ 642 عیسوی تک یہ علاقہ وقتاً فوقتاً ہنوں ' منگولوں ' ساسانیوں اور ایرانیوں کے پاس رہا۔ جس کے بعد اس علاقے کو مسلمانوں نے فتح کر لیا۔ مسلمانوں کی اس فتح کو تاریخ میں عربوں کی فتح سمجھا جاتا ہے جو غلط ہے کیونکہ مسلمانوں میں کئی اقوام کے لوگ شامل تھے۔ اسلام سے پہلے یہاں کے لوگ بدھ مت اور کچھ قبائلی مذاہب کے پیروکار تھے۔

اسلامی دور سے احمد شاہ درانی (ابدالی) (642ء سے 1747ء) تک کا افغانستان

642ء میں مسلمانوں نے اس علاقے کو فتح کیا مگر یہاں کے حکمران علاقائی لوگوں کو ہی بنایا۔ پہلے یہ حکمرانی خراسانی عربوں کے پاس رہی۔ 998ء میں محمود غزنوی نے ان سے اقتدار چھین لیا۔ غوریوں نے 1146ء میں غزنویوں کو شکست دی۔ اور انہیں غزنی کے علاقے تک محدود کر دیا۔ یہ سب مسلمان تھے مگر 1219ء میں چنگیز خانی منگولوں نے افغانستان کو تاراج کر دیا۔ ھرات ' غزنی اور بلخ مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ منگول بعد میں خود مسلمان ہو گئے حتیٰ کہ تیمور نے چودھویں صدی میں ایک عظیم سلطنت قائم کر لی۔ اسی کی اولاد سے شہنشاہ بابر نے کابل کو سولہویں صدی کے شروع میں پہلی دفعہ اپنا دارالحکومت قرار دیا۔

سولہویں صدی سے اٹھارویں صدی تک افغانستان کئی حصوں میں تقسیم رہا۔ شمالی حصہ پر ازبک ' مغربی حصے (ھرات سمیت) پر ایرانی صفویوں اور مشرقی حصہ پر مغل اور پشتون قابض رہے۔ 1709ء میں پشتونوں نے میرویس خان هوتک کی قیادت میں صفویوں کے خلاف جنگ لڑی اور 1719ء سے 1729ء تک افغانستان بلکہ ایرانی شہر اصفہان پر قبضہ رکھا۔ 1729ء میں ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے انھیں واپس دھکیلا اور ان کے قبضے سے تمام علاقے چھڑائے حتیٰ کہ 1738ء میں قندھار اور غزنی پر بھی قبضہ کر لیا۔ جو 1747ء تک جاری رہا۔ پشتونوں اور فارسی بولنے والوں کی یہ کشمکش آج بھی جاری ہے حالانکہ دونوں مسلمان ہیں۔

افغانستان  میں درانی سلطنت ( 1747ء سے 1823ء)

احمد شاہ درانی کو بجا طور پر افغانستان کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ احمد شاہ درانی کو احمد شاہ ابدالی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جون 1747ء میں نادر شاہ قتل ہوگیا
' جس کے بعد لویہ جرگہ نے ابدالی قبیلہ کے احمد شاہ درانی کو سربراہ چن لیا۔ پہلے قندھار میں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد احمد شاہ درانی نے تمام تر قوت افغانستان کو ایک ملک بنانے پر صرف کی۔

درانی سلطنت میں موجودہ ایران ' افغانستان ' پاکستان اور بھارت کے کچھ علاقے شامل تھے۔ احمد شاہ درانی کی سلطنت میں ایران کے شہر مشہد سے لے کر کشمیر اور موجودہ بھارت کے شہر دہلی تک کے علاقے شامل تھے۔ احمد شاہ درانی کا ایک اہم کارنامہ جنوری 1761ء میں پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو شکست دینا تھا لیکن اس جنگ کے بعد سکھوں نے پنجاب میں اثر بڑھانا شروع کیا اور آھستہ آھستہ پنجاب کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا لیکن اس وقت تک افغانستان کو ایک مضبوط ملک کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔

افغانستان پر 1772ء تک احمد شاہ درانی اور اس کے بعد اس کی اولاد کی حکومت رہی۔ اس کی اولاد میں ایوب شاہ کو 1823ء میں قتل کر دیا گیا۔ بعد میں کابل کی حکومت محمد شاہ اور پھر 1826ء میں دوست محمد خان کے پاس چلی گئی۔

افغانستان  میں یورپی اثر (1823ء۔1919ء)

امیر دوست محمد خان نے 1826ء میں کابل کی حکومت سنبھالنے کے بعد روس اور ایران سے تعلقات بڑھانا شروع کیے کیونکہ مھاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب میں حکومت قائم کرنے کے بعد اور درانی سلطنت کے قبضے سے پنجاب کے علاقے آزاد کروانے کے بعد افغانستان کی سرحوں پر  دباؤ بڑھادیا تھا جبکہ انگریزوں نے بھی افغانستان میں اپنا اثر  پڑھانا شروع کردیا تھا۔

گوکہ روس اور بحرِ ھند میں کئی ہزار میل کا فاصلہ تھا اور وسطی ایشیاء کے شہروں مرو ' خیوا ' بخارا اور تاشقند کو مغرب میں زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے مگر انگریز یہ جانتے تھے کہ روسی بحرِ ھند پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے روسیوں کو روکنے اور افغانستان میں اپنا اثر بڑھانے کے لیے انگریزوں کی مکارانہ جدوجہد کو "عظیم چالبازیوں" (دی گریٹ گیم)  کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

افغانستان پر  اپنا اثر  پڑھانے کے لیے انگریزوں نے دو جنگیں لڑیں۔ پہلی جنگ  1839ء سے 1842ء تک ہوئی اور انگریزوں نے کابل پر قبضہ کر کے دوست محمد خان کو گرفتار کر لیا۔ لیکن بحر ھند سے کابل تک انگریز فوج کو رسد کی فراقمی میں مشکلات کی وجہ سے انگریز فوج کی جنگی صلاحیت کمزور پڑنے پر افغانیوں نے برطانوی فوج کے ایک حصے کو مکمل طور پر قتل کر دیا جو سولہ ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ اسی وجہ سے مجبوراً انگریزوں نے دوست محمد خان کو رہا کر دیا اور 1843 ء میں سندھ کو فتح کرنے کے بعد اور کوئٹہ میں فوجی چھاؤنی قائم کرکے بحر ھند سے کابل تک انگریز فوج کے لیے رسد کی فراھمی کو موثر بنایا۔ جبکہ پنجاب کے حکمراں مھاراجہ رنجیٹ سنگھ کے 1939 ء میں انتقال کے بعد پنجاب میں حکمرانی کے انتشار اور بحران کا فائدہ اٹھاتے ھوئے 1849 ء میں پنجاب پر بھی قبضہ کرلیا۔ جسکے بعد دوسری جنگ 1878ء سے 1880ء تک اس وقت ہوئی جب امیر شیر علی نے برطانوی سفارت کاروں کو کابل میں رہنے کی اجازت نہ دی۔

اس جنگ میں انگریزوں کی کامیابی کے بعد انگریزوں کی ایما پر1880ء میں امیر عبدالرحمٰن نے افغانستان کا اقتدار حاصل کیا مگر عملاً کابل کے خارجی معاملات انگریزوں کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اسی اثر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے روس کی سرحد کو پنجاب کی سرحد سے الگ کرنے کے لیے پنجاب کے کچھ علاقے افغانستان میں شامل کرنے جبکہ پنجاب کے کچھ مغربی اور افغانستان کے کچھ مشرقی علاقوں کو ملا کر پنجابیوں اور پشتونوں کا ایک مخلوط علاقہ بنانے کے لیے افغانستان کے ساتھ 1893 ء  میں پنجاب اور افغانستان کی سرحدوں کے تعین کا معاہدہ بھی کیا جسے "ڈیورنڈ لائن" کہا جاتا ہے۔ جسکے بعد 1901 ء  میں پنجاب کے مغربی علاقوں کو پنجاب سے الگ کرکے شمال مغربی سرحدی صوبہ تشکیل دے دیا۔

امیر عبدالرحمٰن کے بیٹے امیر حبیب اللہ خان بعد میں افغانستان کے بادشاہ ہوئے۔ ان کے دور میں افغانستان میں مغربی مدرسے کھلے اور انگریزوں کا اثر مزید بڑھ گیا۔ اگرچہ بظاہر انگریزوں نے افغانستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا۔ 1907ء میں امیر حبیب اللہ خان نے انگریزوں کی دعوت پر برطانوی ھند کا دورہ بھی کیا۔ اسی مغربی دوستی اور اثر کی وجہ سے امیر حبیب اللہ خان کو اس کے رشتہ داروں نے 20 فروری 1919ء کو قتل کر دیا۔ اس کے قتل کے بعد اس کا بیٹا امان اللہ خان بادشاہ بن گیا اور انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی مگر 19 اگست 1919ء کو امان اللہ خان اور انگریزوں کے درمیان راولپنڈی میں ایک معاہدہ ہوا جس میں انگریزوں نے افغانستان پر اپنا کنٹرول ختم کیا اور افغانستان میں ان کا اثر تقریباً ختم ہو گیا۔ 19 اگست 1919ء کو اسی وجہ سے افغانستان کی یومِ آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔

آزادی کے بعد (1919ء-1978ء) تک کا افغانستان

امان اللہ خان (دورِ اقتدار: 1919ء-1929ء)  نے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اصلاحات کیں اور مغربی دنیا سے تعلقات قائم کیے۔ اصلاحات میں بنیادی تعلیم کا لازمی قرار دینا اور مغربی طرز کی دیگر اصلاحات شامل تھیں۔ اس نے 1921ء میں افغانستان میں ہوائی فوج بھی بنائی جس کے جہاز روس سے آئے لیکن افواج کی تربیت ترکی اور فرانس سے کروائی گئی۔

1927ء میں امان اللہ خان نے یورپ اور ترکی کا دورہ بھی کیا جس میں اس نے مغربی مادی ترقی کا جائزہ لیا اور افغانستان میں ویسی ترقی کی خواہش کی مگر قبائل میں بغاوت پھوٹ پڑی اور افغان اس کے سخت خلاف ہو گئے۔ شنواری قبائل نے نومبر 1928ء میں جلال آباد سے بغاوت شروع کی اور دوسرے لوگوں کو ساتھ ملا کر کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ شمال سے تاجک بھی کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ امان اللہ خان پہلے قندھار بھاگا اور فوج تیار کرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہوا جس کے بعد وہ بھارت فرار ہو گیا۔ وہاں سے پہلے اطالیہ اور بعد میں سوئٹزرلینڈ میں پناہ لی جہاں 1960ء میں وفات پائی۔

اس بغاوت کے دوران جنوری 1929ء میں حبیب اللہ کلاکانی عرف بچہ سقا نے کابل پر قبضہ کیا اور حبیب اللہ شاہ غازی کے نام سے حکومت قائم کی مگر اکتوبر 1929ء میں جنرل نادر خان کی فوج نے کابل کو گھیر لیا جس پر بچہ سقا فرار ہو کر اپنے گاؤں چلا گیا۔ جنرل نادر خان کو انگریزوں کی مکمل حمایت حاصل تھی جنہوں نے اسے ہتھیار اور پیسہ دیا تھا۔ اس کے علاوہ انگریزوں نے جنرل نادر خان کو ایک ہزار افراد کی فوج بھی تیار کر کے دی تھی جو وزیرستانی قبائلیوں پر مشتمل تھی۔ نادر خان نے قرآن کو ضامن بنا کر بچہ سقا کو پناہ اور معافی دی مگر جب وہ کابل آیا تو اسے قتل کروا دیا۔

نادر خان کا دورِ اقتدار: 1929ء۔1933ء تک کا تھا۔ نادر خان ' امان اللہ خان کا رشتہ دار تھا۔ اس نے نادر شاہ کے نام سے 1929ء میں افغانستان کا تخت سنبھالا۔ مگر 1933ء میں کابل کے ایک طالب علم نے اسے قتل کر دیا۔ جس کے بعد اسکا انیس سالہ بیٹا ظاہر شاہ بادشاہ بن گیا۔

ظاہر شاہ کا دورِ اقتدار: 1933ء۔1973ء تک کا تھا۔ ظاہر شاہ  نے چالیس سال تک افغانستان پر حکومت کی۔ وہ افغانستان کا آخری بادشاہ تھا۔ اس نے کئی وزیر اعظم بدلے جن کی مدد سے اس نے حکومت کی۔ جن میں سے ایک سردار محمد داؤد خان (المعروف سردار داؤد) تھا جو اس کا کزن تھا۔ سردار داؤد نے روس اور بھارت سے تعلقات بڑھائے۔ اسے پاکستان سے نفرت تھی۔ پاکستان سے تعلقات کی خرابی کی وجہ سے افغانستان کو اقتصادی مشکلات ہوئیں تو سردار داؤد کو 1963ء میں استعفا دینا پڑا۔ مگر سردار داؤد (دورِصدارت: 1973ء-1978ء) نے دس سال بعد 17 جولائی 1973ء کو ایک فوجی بغاوت میں افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ اس بغاوت کو روس (اس وقت سوویت یونین) کی مدد حاصل تھی۔

ظاہر شاہ فرار ہو کر اطالیہ چلا گیا۔27 اپریل 1978ء کو سردار داؤد کو ایک اور بغاوت میں قتل کر دیا گیا اور نور محمد ترہ کئی صدر بن گیا۔ اس بغاوت کو بھی روس کی مدد سے ممکن بنایا گیا۔ نور محمد ترہ کئی کی حکومت نے کمیونزم کو رائج کرنے کی کوشش کی اور روس کی ہر میدان میں مدد لی ' جن میں سڑکوں کی تعمیر سے لے کر فوجی مدد تک سب کچھ شامل تھا۔ روس کی یہ کامیابی امریکہ کو کبھی پسند نہیں آئی چنانچہ سی آئی اے نے اسلامی قوتوں کو مضبوط کرنا شروع کیا۔ جس سے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے۔ نتیجتاً 1979ء میں روس نے افغانستان کی حکومت کی دعوت پر افغانستان میں اپنی فوج اتار دی اور عملاً افغانستان پر اسی طرح روس کا قبضہ ہو گیا جس طرح آج کل امریکہ کا قبضہ ہے۔

افغانستان پر  روسی قبضہ اور جہاد

افغانی کمیونسٹ حکومت  نے روس کی کمیونسٹ پارٹی کی طرز پر غیر اسلامی نظریات کی ترویج کی۔ یہ تبدیلیاں افغانی معاشرہ سے بالکل مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ افغانستان میں حالات جب بہت خراب ہو گئے تو افغانی کمیونسٹ حکومت کی دعوت پر روس نے اپنی فوج افغانستان میں اتار دی۔25 دسمبر، 1979ء کو روسی فوج کابل میں داخل ہوگئی۔ افغانستان میں مجاہدین نے ان کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ امریکہ نے ان مجاہدین کو خوب مدد فراہم کی مگر امریکہ کا مقصد اسلام کی خدمت نہیں بلکہ روس کے خلاف ایک قوت کو مضبوط کرنا تھا۔ امریکہ کو پاکستان کو بھی ساتھ ملانا پڑا۔ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو بھی امریکہ نے روس کے خلاف استعمال کیا۔ افغان مجاہدین اسلام سے مخلص تھے مگر امریکہ انھیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتا رہا۔ امریکی سی آئی اے ' پاکستان اور سعودی عرب نے اس دوران اپنا اپنا کردار ادا کیا جس میں ان ممالک کے کچھ مفادات مشترک تھے اور کچھ ذاتی۔ اس جہاد کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کو 1989ء میں مکمل طور پر افغانستان سے نکلنا پڑا بلکہ بعض دانشوروں کے خیال میں روس کے ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ یہی تھی۔ اس سلسلے میں روس ' افغانستان اور پاکستان کے درمیان 1988ء میں جنیوا معاہدہ ہوا تھا۔

افغانستان  روسیوں کے بعد

روس نے افغانستان سے فوج نکالنے کے بعد بھی اس وقت کی نجیب اللہ حکومت کی مدد جاری رکھی مگر 18 اپریل 1992ء کو مجاہدین کے ایک گروہ نے جنرل عبدالرشید دوستم اور احمد شاہ مسعود کی قیادت میں کابل پر قبضہ کر لیا اور افغانستان کو اسلامی جمہوریہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ مگر امریکی اسلحہ کی مدد سے مجاہدین کے مختلف گروہوں کے درمیان اقتدار کے حصول کے لیے خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اس وقت ایک اسلامی جہادی کونسل بنائی گئی جس کی قیادت پہلے صبغت اللہ مجددی اور بعد میں برہان الدین ربانی نے کی مگر مجاہدین کی آپس کی لڑائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بیرونی طاقتوں نے پشتو اور فارسی بولنے والوں کی باہمی منافرت کا خوب فائدہ اٹھایا۔ اس وقت کی حکومت میں پشتونوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی جس سے ان میں شدید احساسِ محرومی پیدا ہوا۔

پاکستان اور افغانستان کے کچھ علما نے مدرسوں کے طلبا کو منظم کرنا شروع کیا جن کو بعد میں طالبان کہا جانے لگا۔ پاکستانی فوج کے جنرل نصیر اللہ بابر طلبا کو استعمال کرنے کے خیال کے بانی تھے۔ 1996ء میں طالبان کے رہنما ملا محمد عمر نے کابل پر قبضہ کیا۔ انھوں نے افغانستان کو اسلامی امارت قرار دیا اور طالبان نے انھیں امیر المومنین تسلیم کر لیا۔ طالبان نے 2000ء تک افغانستان کے پچانوے فی صد علاقے پر قبضہ کر کے ایک اسلامی حکومت قائم کی۔ اس زمانے میں افغانستان میں نسبتاً امن قائم رہا اور پوست کی کاشت بھی نہ ہوئی۔ طالبان کو بجز پاکستان اور سعودی عرب کے کسی نے تسلیم نہ کیا اور مغربی دنیا نے شمالی اتحاد کی مدد جاری رکھی جو افغانستان کے شمال میں کچھ اختیار رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک خالص اسلامی حکومت مغربی دنیا اور بھارت کو ہرگز قبول نہ تھی۔ یاد رہے کہ طالبان سے پہلے بھارت کو افغانستان میں خاصا عمل دخل تھا۔ طالبان کے دور میں پاکستان کا اثر افغانستان میں بڑھ گیا اور پچاس سال میں پہلی دفعہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ایک طرح سے دوستانہ امن قائم رہا۔ مگر پاکستان نے طالبان کے خلاف امریکہ کی مدد کر کے نہ صرف طالبان کا اعتماد کھویا بلکہ ایک پاکستان دشمن اور بھارت دوست حکومت افغانستان میں قائم ہو گئی۔

افغانستان میں امریکی قبضہ اور حالاتِ حاضرہ

طالبان کے دور میں کچھ ایسے لوگوں نے افغانستان میں اپنے اڈے بنائے جو پہلے امریکہ کے منظورِ نظر تھے مگر جب امریکہ کو ان کی ضرورت نہ رہی تو وہ یکایک امریکہ کی نظر میں دہشت گردوں میں تبدیل ہو گئے۔ ان میں اسامہ بن لادن اور اس کے حواری شامل تھے۔ جو افغان میں روس کے خلاف جہاد میں سرگرم تھے۔ 11 ستمبر 2001ء کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر  کے حادثے کا الزام اسامہ بن لادن اور القاعدہ پر لگایا گیا۔ ان لوگوں کو طالبان نے پناہ دے رکھی تھی اور افغانی روایات کے مطابق انھیں دشمن کے حوالے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس بہانے 7 اکتوبر، 2001ء کو امریکہ نے افغانستان پر پاکستان کی مدد سے حملہ کر دیا اور افغانستان پر قبضہ کر لیا۔

امریکہ نے بعد میں عراق پر بھی قبضہ کیا جس سے سوچا جا سکتا ہے کہ ایک تو اس نے عراق پر حملہ سے پہلے افغانستان میں ایسی حکومت کو ختم کیا جہاں سے ممکنہ مدد عراق کو جہاد کے نام پر مل سکتی تھی۔ دوسرے افغانستان اور عراق پر قبضہ کر کے اور پاکستان کو دباؤ میں رکھ کر امریکہ نے ایران اور کسی حد تک اسلام کے مرکز سعودی عرب کو گھیرے میں لے لیا۔ خلیج فارس میں اتنی زیادہ امریکی بحری طاقت قائم ہو گئی جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ امریکی ایما پر جرمنی کے شہر بون میں ایک افغانی حکومت کا قیام عمل میں آیا جس کے سربراہ حامد کرزئی تھے ۔ 9 اکتوبر، 2004ء کو حامد کرزئی کو افغانستان کا صدر چن لیا گیا۔ اس وقت افغانستان میں اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت قائم ہے۔ افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوج تاحال موجود ہے جو افغانستان کی اصل حاکم ہے۔ بھارت کا اثرو رسوخ افغانستان میں بہت زیادہ ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت اور امریکہ پاکستان کے صوبے بلوچستان جیسے علاقوں میں پرتشدد کاروائیوں اور دہشت گردی کو خوب فروغ دے رہے ہیں۔ 13 اور 14مئی 2007ء کو افغانی و امریکی فوج اور پاکستانی افواج میں آپس میں پہلی باقاعدہ جھڑپ ہوچکی ہے جس میں کچھ پاکستانی اور کچھ امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ یہاں یہ یاد رہے کہ امریکہ وقتاً فوقتاً پاکستانی علاقے میں متعدد بار میزائیل پھینک چکا ہے جس سے سو سے زائد پاکستانی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ کاروائیاں بعینہ اسی طرز پر ہوتی ہیں جیسے اسرائیل جنوبی لبنان میں کرتا ہے۔

افغانستان کا جغرافیائی نقشہ

افغانستان چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے جس کا کوئی ساحلِ سمندر نہیں۔ اس کی سمندری تجارت اسی لیے پاکستان کے ذریعے ہوتی ہے۔ زیادہ علاقہ پہاڑی ہے جو زیادہ تر کوہ ہندوکش پر مشتمل ہے۔ افغانستان میں پانی کی شدید کمی ہے اگرچہ چار دریا ہیں جن کے نام دریائے آمو ' دریائے کابل ' دریائے ہلمند اور ھریرود ہیں۔ اونچا ترین مقام نوشک ہے جو 24,557 فٹ بلند ہے اور ترچ میر کے بعد کوہ ہندوکش کا دوسرا اونچا پہاڑ ہے۔ سطح سمندر سے سب سے کم بلند علاقہ (پست ترین مقام) دریائے آمو ہے جو صرف 846 فٹ بلند ہے۔

افغانستان کی جغرافیائی سرحد 5529 کلومیٹر لمبی ہے جس میں سب سے زیادہ علاقہ (2,640 کلومیٹر) پاکستان کے ساتھ لگتا ہے۔ %12 علاقہ زراعت کے قابل ہے مگر صرف %0.22 علاقہ زیرِ کاشت ہے۔ چونکہ زیادہ علاقہ پہاڑی ہے اس لیے زلزلے کثرت سے آتے ہیں۔

افغانستان کے علاقے میں سونا ' چاندی ' کوئلہ ' تانبا ' کانسی ' کرومائیٹ ' زنک ' سلفر ' لوہا ' قیمتی پتھر اور نمک پائے جاتے ہیں۔ تیل کے بھی وسیع ذخائر ہیں۔ یہ تمام قدرتی وسائل مسلسل جنگ کی وجہ سے کبھی استعمال نہیں ہو سکے۔افغانستان کا موسم شدید ہے یعنی گرمیوں میں شدید گرمی اور سردیوں میں شدید سردی ہوتی ہے مگر سردیاں زیادہ شدید ہیں۔ کابل میں دو سے تین ماہ برف پڑی رہتی ہے۔ جلال آباد اور اس سے نیچے کا موسم نسبتاً گرم ہے۔ زیادہ بارشیں گرمیوں میں ہوتی ہیں جب برصغیر میں مون سون ہوتا ہے۔

افغانستان کی معیشت

افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ روس اور امریکہ کی کشمکش اور اس علاقے میں ان کے مزموم مقاصد ہیں۔ افغانستان مسلسل جنگ کا شکار رہا ہے اور اسے معاشی ترقی کی مہلت ہی نہیں ملی۔ افغانستان کی خاصی آبادی ایران اور پاکستان کو ہجرت کر گئی تھی جن میں سے کچھ اب واپس آنا شروع ہوئے ہیں مگر ہجرت نے ان کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے اور نئی پود کو پڑھنے لکھنے اور کوئی ہنر سیکھنے کے مواقع بھی کم ہی ملے ہیں۔

افغانستان میں جن لوگوں نے ہجرت نہیں بھی کی ' انھیں جنگ نے مصروف رکھا۔ مجبوراً اسلحہ کی تجارت اور افیم و پوست کی تجارت ہی ان کا بطور سلسلہ روزگار مقدر بنی۔ ایک بڑی تعداد اسمگلنگ سے بھی وابستہ ہوئی۔ بہت معمولی تعداد پوست کے علاوہ دوسری اجناس بھی کاشت کرتی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق 2001ء کے بعد معیشت نے خاصی ترقی کی ہے مگر اس سلسلے میں کوئی قابلِ اعتماد اعدادوشمار نہیں ملتے۔ البتہ افغانستان سے باہر  رہنے والے افغانیوں نے اب کچھ سرمایہ کاری شروع کی ہے مثلاً 2005ء میں دبئی کے ایک افغانی خاندان نے ڈھائی کروڑ ڈالر سے کوکا کولا کا ایک پلانٹ افغانستان میں لگایا ہے۔

افغانستان کو ابھی غیر ملکی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور 2006ء میں زرِ مبادلہ کے بیرونی ذخائر صرف پچاس کروڑ امریکی ڈالر کے لگ بھگ تھے۔ افراطِ زر افغانستان کا ایک بنیادی مسئلہ رہا ہے اور افغانی روپیہ کی قیمت بھی مسلسل گرتی رہی ہے مگر اب حالات کچھ بہتر ہیں۔ 2003ء کے بعد 14 نئے بنک بھی کھلے ہیں جن میں کئی غیر ملکی بنک بھی شامل ہیں۔ کابل کی ترقی کے لیے بھی نو ارب امریکہ ڈالر مہیا کیے گئے ہیں۔

افغانستان کئی بین الاقوامی اداروں کا رکن ہے اور حال ہی میں سارک کا رکن بھی بنا ہے۔ ایک اہم پیش رفت قدرتی گیس کی دریافت ہے جس کا استعمال اور فروخت بڑے پیمانے پر شروع ہونے کی امید ہے۔

افغانستان کی انتظامی تقسیم

افغانستان میں صوبے کو ولایت کہتے ہیں مثلاً ولایت بدخشان۔ افغانستان کو کل چونتیس ولایات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن کے نام نیچے دیے گئے ہیں۔
بدخشاں
بادغیس
بغلان
بلخ
بامیان
دایکندی
فراہ
فاریاب
غزنی
غور
ہلمند
ہرات
جوزجان
کابل
قندھار
کاپیسا
خوست
کنڑ
قندوز
لغمان
لوگر
ننگرہار
نیمروز
نورستان
اروزگان
پکتیا
پکتیکا
پنجشیر
پروان
سمنگان
سرپل
تخار
وردک
زابل

افغانستان
کے مشہور شہر

افغانستان کے مرکزی ادارہ برائے شماریات کے مطابق آبادی کے حساب سے 2006ء میں افغانستان کے بارہ بڑے شہر درج ذیل ہیں۔ آبادی بھی ان کے ساتھ دی گئی ہے۔
کابل - 2,536,300
قندھار - 450,300
ھرات - 349,000
مزار شریف - 300,600
قندوز - 264,100
طالقان - 196,400
پلِ خمری - 180,800
جلال آباد - 168,600
چاریکار - 153,500
شبرغان - 143,900
غزنی - 141,000
سرِپل - 136,000

افغانستان کی ثقافت

افغانی ثقافت کی تین اہم بنیادیں ہیں۔ ایرانی ثقافت ' پشتون ثقافت اور اسلام۔ اس میں اسلام کا اثر سب سے زیادہ ہے۔ افغانیوں کے لیے ان کا ملک ' قبیلہ سے وفاداری ' مذہب ' اپنا شجرہ نسب اور سب سے بڑھ کر آزادی بہت اہم ہیں۔ مذہب کے ساتھ ساتھ شاعری اور موسیقی بھی ان کی زندگی میں اہمیت رکھتے ہیں۔

افغانستان ایک تاریخ رکھتا ہے جس کے نشان جابجا آثارِ قدیمہ کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ بز کشی ان کا قومی کھیل ہے جو پولو سے ملتا جلتا ہے۔ اگرچہ تعلیم کی شرح کم ہے مگر قرآن و مذہب کی تعلیم اور شاعری خصوصاً قدیم فارسی شاعری ان کی زندگی اور خیالات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

افغانستان کی سرزمین کو قدیم زمانے میں خراسان بھی کہا جاتا تھا۔ اب خراسان ایران کے ایک حصے کو کہا جاتا ہے مگر یہ دونوں علاقے (ایرانی اور افغانی خراسان) تاریخی طور پر ہمیشہ متعلق رہے ہیں۔ افغانی خراسان نے بڑے اہم لوگوں کو جنم دیا ہے جن کو عام لوگ عرب سمجھتے ہیں۔ مثلاً امام ابو حنیفہ کے قریبی اجداد کا تعلق افغانستان سے تھا۔ اسی طرح بو علی سینا جسے اسلامی اور مغربی دنیاؤں میں اپنے وقت کا سب سے بڑا طبیب اور حکیم گردانا جاتا ہے ' کا تعلق بلخ سے تھا۔ بو علی سینا کے والد نے عرب کو ہجرت کی تھی۔ مولانا رومی کی پیدائش اور تعلیم بھی بلخ ہی میں ہوئی تھی۔ مشہور فلسفی ابو الحسن الفارابی کا تعلق افغانستان کے صوبہ فاریاب سے تھا۔ پندرہویں صدی کے مشہور فارسی صوفی شاعر نور الدین عبدالرحمٰن جامی کا تعلق افغانستان کے صوبہ غور کے گاؤں جام سے تھا۔

افغانستان کے کھانے بھی لاجواب ہوتے ہیں جن میں سے افغانی یا کابلی پلاؤ ' خمیری روٹی اور تکے کباب شاید دنیا میں اپنی قسم کے مزیدار ترین کھانوں میں شامل ہیں جو دیگر علاقوں میں بھی مقبول ہیں۔ مذہب کو افغانستان میں بہت اہمیت حاصل ہے اور ان کی چار اہم چھٹیاں عیدالفطر  ' عیدالاضحیٰ ' عاشورہ اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مذہبی نوعیت کی ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کا یومِ آزادی ( 19اگست) اور نوروز (21 مارچ) بھی چھٹیوں میں شامل ہیں۔

افغانستان میں نسلیں

افغانستان کے لوگ نسلاً پشتون ' تاجک ' ھزارہ ' ایمک ' ازبک ' ترکی ' بلوچی ' کھوار  زبان بولنے والی قوم کھو اور دیگر لوگ بھی آباد ہیں۔ دیگر لوگوں میں نورستانی ' پشائی ' براھوی وغیرہ شامل ہیں۔

افغانستان کے نسلی گروہوں کی آبادی

پشتون 42%
تاجک 27%
ہزارہ 9%
ازبک 9%
ایماق 4%
ترکمان 3%
بلوچ 2%
دیگر (پاشایی ' نورستانی ' عرب ' براہوی ' پامیری ' گرجر  وغیرہ) 4%

افغانستان کی زبانیں

افغانستان میں %42 لوگوں کی مادري زبان پشتو اور %27 لوگوں کی مادري زبان فارسي ہے اور باقی %30 فیصد لوگ ازبک ' ترکمن ' نورستانی ' بلوچی وغیرہ بولتے ہیں۔ نورستانی اور بلوچی سمیت تیس کے قریب علاقائی زبانیں ہیں جو 4% کے قریب لوگ بولتے ہیں۔

افغانستان ایک ایسا ملک ہے جس میں دو یا زیادہ زبانیں جاننا ایک عام بات ہے۔ پشتو بولنے والے لوگوں کے علاقے زیادہ تر پاکستانی سرحد سے قریب ہیں۔ یعنی ملک کے جنوب مشرق اور جنوب میں ہیں۔

افغانستان میں مختلف مذاہب کا تناسب

افغانستان کے %99 لوگ مسلمان ہیں جن میں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ایک لاکھ کے قریب ہندو اور سکھ بھی ہیں جو کابل ' قندھار اور جلال آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔