Tuesday 5 September 2017

برما میں اسلام اور کفر کی جنگ یا روهنگیا نسل اور راخائن نسل کا تنازعہ؟

روھینگیا کسی جگہ کا نہیں بلکہ ایک نسل کا نام ھے۔ روھینگیا نسل کی اکثریت مسلمان ھے اور تھوڑے سے ھندو ھیں۔

برما میں مسلمانوں کی کل تعداد 20 لاکھ سے اوپر ھے جس میں 13 لاکھ روھینگیا مسلمان ھیں جو برما کے صوبے آراکان میں آباد ھیں۔

برما کے صوبے آراکان کے علاقے کے اصل باشندے راخائن نسل کے لوگوں ھیں۔ راخائن کا تعلق بدھ مذھب سے ھے۔

اراکان صوبے میں روھینگیا مسلمانوں کے لوگوں کی آبادی تقریبا راخائن نسل  کے برابر ھوچکی ھے۔

راخائن نسل کے لوگوں کو یہ خطرہ ھے کہ روھینگیا مسلمان ان پر اکثریت حاصل کر لینگے اس لیے وہ ان سے شدید نفرت کرتے ھیں۔ وھاں انکو بنگالی کہا جاتا ھے۔

روھنگیا مسلمان بنگالی النسل ھیں جنہیں انگریزوں نے اپنے برما پر قبضے کے دوران بنگال سے لیجا کر برما کے علاقے ارکان میں آباد کیا۔

بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں کو برما میں شہریت ملنے کا حق نہیں ھے۔

انگریزوں کے برما پر قبضے کے دور سے برما کے صوبے آراکان میں رھائش پذیر ھونے کے باوجود انھیں وھاں غیر قانونی شہری تصور کیا جاتا ھے۔

ارکان کے علاقہ کی سرحد بنگلہ دیش کے ساتھ ملتی ھے۔ ارکان کے علاقہ پر قابض ھونے کے بعد بنگالی النسل روھنگیا مسلمان اب ارکان کو الگ ملک بنانا چاھتے ھیں۔

جیسے پاکستان میں ھندکو کے علاقے خیبر پختونخواہ پر افغان النسل پٹھان قبضہ کرنے کے بعد اب خیبر پختونخواہ کو الگ ملک گریٹر پختونستان بنانا چاھتے ھیں۔

جیسے پاکستان میں بروھیوں کے علاقے بلوچستان پر کرد النسل بلوچ قبضہ کرنے کے بعد اب بلوچستان کو الگ ملک آزاد بلوچستان بنانا چاھتے ھیں۔

جیسے پاکستان میں سندھیوں کے علاقے کراچی پر ھندوستانی مھاجر قبضہ کرنے کے بعد اب کراچی کو الگ ملک جناح پور بنانا چاھتے ھیں۔

مطلب یہ ھے کہ برما میں اسلام اور کفر کی نہیں بلکہ بنگالی النسل روهنگیا قبضہ گیروں اور برما کے صوبے آراکان کے علاقے کے اصل باشندوں ' راخائن نسل کے لوگوں کی جنگ ھے۔

بنگالی النسل روهنگیا قبضہ گیروں کے مسلمان اور آراکان کے علاقے کے اصل باشندوں ' راخائن کے بدھ مذھب سے تعلق کی وجہ سے باھمی تنازعہ کو مذھبی جنگ کا تصور دیا جا رھا ھے۔

میانمار یا برما ساڑھے 5 کروڑ آبادی والا ملک ھے جسکی سرحدیں چین ' انڈیا ' بنگلہ دیش ' تھائی لینڈ اور لاؤس سے ملتی ھیں۔ اس کے ایک طرف سمندر ھے۔

میانمار اپنی 5 لاکھ فوج کے ساتھ دنیا کی 12ویں بڑی فوجی قوت ھے جسکی ایک تگڑی بحریہ اور ائر فورس بھی ھے۔

میانمار میں راخائن نسل کے لوگوں اور بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں میں کئی عشروں سے تناؤ کی سی کیفیت ھے اور ھلکی پھلکی جھڑپیں ھوتی رھی ھیں۔

1962 سے 2011 تک برما پر فوجی حکومت رھی اور حالات کنٹرول میں رھے۔

لیکن 2012ء میں جیسے ھی ملک کا تمام نظام نو منتخب جمہوری حکومت نے سنبھالا بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں اور راخائن نسل کے بدھوں کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے۔

کہا جاتا ھے کہ 3 بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں نے ایک راخائن نسل عورت کا ریپ کر کے اس کو قتل کر دیا۔ جواباً راخائن نسل نے بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں پر حملہ کر کے 10 مسلمان قتل کردئیے۔

تاھم کچھ دیگر ذرائع کے مطابق بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں کے کئی گاؤں تباہ کیے گئے۔ 650 کے قریب بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں کو قتل کیا گیا جبکہ 80 ھزار بے گھر ھوئے۔

حکومت نے کرفیو لگا کر اراکان صوبے کا کنٹرول فوج کے حوالے کر دیا۔ جس سے فسادات تو کم ھوگئے لیکن بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ھوگئیں۔

حالات مزید خراب ھوئے تو بنگالی النسل روھینگیا مسلمان علاقہ چھوڑنے لگے۔

2016ء تک کم از کم 1 لاکھ بنگالی النسل روھینگیا کشتیوں کے ذریعے مختلف ملکوں میں پناہ لے چکے تھے جن میں ملائیشیا ' آسٹریلیا اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔

جولائی 2017ء تک کم از کم 73 ھزار بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش کی سرحد عبور کر کے وھاں پناہ لے لی۔

اس وقت 4 لاکھ کے قریب بنگالی النسل روھینگیا مسلمان دنیا کے مختلف ملکوں میں پناہ گزین ھیں۔

لیکن پچھلے ایک ھفتے سے برمی فوج بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں کے خلاف آپریشن کر رھی ھے۔

آپریشن کے نتیجے میں اب تک کم از کم 400 بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ھے۔ جبکہ ان کے 2600 گھر جلائے گئے ھیں۔

 جبکہ اسی دوران کم از کم 26 مختلف چوکیوں پر بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں کے حملے میں درجنوں سیکورٹی اھلکار بھی ہلاک ھوئے ھیں۔

صرف ایک ھفتے میں 73000 مزید بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی ھے۔

حیران کن انداز میں بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں پر ھونے والے ظلم پر اس وقت سب سے زیادہ شور امریکہ اور اس کے اتحادی مچا رھے ھیں۔

امریکن نیوز ایجنسیوں کے مطابق راخائن نسل ملیشیاء اور برمی فوج ملکر بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں کے خلاف آپریشن کر رھی ھیں۔

امریکہ اور برطانیہ کے دباؤ پر اقوام متحدہ کی معائنہ کار ٹیم کو میانمار بھیجا گیا جس کو میانمار حکومت نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

مختلف امریکی تنظیموں نے بیان دیا کہ روھیینگیا مسلمانوں کے مکمل قتل عام کا خطرہ ھے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور یو ایس ڈپارٹمنٹ آف سٹیٹ کے مطابق روھیینگیا مسلمانوں کے قتل عام میں میانمار حکومت راخائن نسل بدھوں کا ساتھ دے رھی ھے۔

میانمار حکومت نے الزام لگایا ھے کہ بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں نے 2300 گھر جلادئیے تو انسانی حقوق کی تنظیم ھیومن رائٹس واچ نے فوراً اسکی تردید کرتے ھوئے بیان دیا کہ سیٹیلائٹ سے لی گئی تصاویر سے یہ ظاھر ھوتا ھے کہ آگ میانمار کی فوج نے لگائی ھے۔

اقوم متحدہ کے خصوصی نمائندے یانگ ھی لی کے مطابق میانمار کی حکومت روھینگیا مسلمانوں کو مکمل طور پر ختم کر دینا چاھتی ھے۔

پوپ فرانسس نے بھی بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں کے قتل عام کی پرزور مذمت کی ھے۔

اور تو اور عراق ' شام اور کشمیر میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام پر چپ رھنے والی ملالہ بھی بول پڑی ھے اور عالمی برادری سے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی ھے۔

کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

برما ایک انتہائی اھم سٹریٹیجک لوکیشن پر واقع ھے۔ یہاں پر چین اور بھارت اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کی تگ و دو کر رھے ھیں اور چین اپنی بے پناہ سرمایہ کاری کی بدولت بھارت پر حاوی ھے۔

میانمار میں چینی اثرورسوخ امریکہ کے لیے ناقابل برداشت ھے۔ امریکہ کی پوری کوشش ھے کہ اقوام متحدہ کی امن فوج کے نام پر وہ میانمار میں ڈیرے ڈال لے تاکہ چین کی ناکہ بندی کر سکے۔

یہ ھے اصل وجہ جس کے لیے امریکہ اور برطانیہ پاگل ھو رھے ھیں۔

آپ نوٹ کیجیے میانمار میں قائم جمہوری حکومت کی کرتا دھرتا آنگ سان سو کو فوجی حکومت ختم کرنے پر امریکہ نے امن کے نوبل انعام سے نوازا تھا اور اس وقت اسی کے حکم پر فوج روھینگیا مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رھی ھے۔

اس وقت کئی چینی کمپنیاں میانمار میں کام کر رھی ھیں۔ لیکن میانمار کی حکومت کا دعوی ھے کہ چین وھاں باغیوں کو بھی سپورٹ کر رھا ھے جو میانمار فوج پر حملے کر رھےھیں۔

چین اس وقت کم از کم 30 ھزار بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں کو اپنے کیمپوں میں پناہ دے چکا ھے۔

چین نے میانمار حکومت کو پیش کش کی ھے کہ وہ بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں کے معاملہ پر بنگلہ دیش کے ساتھ انکے معاملات حل کر سکتا ھے لیکن میانمار حکومت نے چینی پیشکش مسترد کر دی ھے۔

بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ کم از کم 2 لاکھ بنگالی النسل روھینگیا مسلمان اس وقت بھی پاکستان میں مقیم ھیں جو مختلف وقتوں میں پاکستان آئے تھے۔

موجودہ مسئلے پر پاکستان کا ردعمل فلحال دفتر خارجہ کے ایک بیان تک ھی محدود ھے۔

سوشل میڈیا پر بیٹھے کچھ مجاھدین کو پاک فوج پر تنقید کرنےکا نیا بہانہ مل گیا ھے۔ انکی خواھش ھے کہ پاک فوج فوری طور پر میانمار پر حملہ کر دے۔

انکو غالباً علم ھی نہیں کہ ھماری کوئی سرحد میانمار سے نہیں ملتی۔ اگر فضائی حملہ کرنا چاھیں تو انڈیا اور چین اپنی فضائی حدود میانمار کے خلاف ھرگز استعمال نہیں کرنے دینگے کیونکہ دونوں نے وھاں بہت بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ھے۔ نہ ھی بنگلہ دیش کو اس معاملے میں قائل کیا جا سکتا ھے جو فوجی قوت کے لحاظ سے میانمار سے بہت کمزور اور خوفزدہ ھے۔

اگر حملوں کی بات کی جائے تو پاکستان نے اب تک افغانستان پر حملہ نہیں کیا جو اپنی پراکسی کے ذریعے اب تک کم از کم 50 ھزار پاکستانیوں کی جانیں لے چکا ھے۔ ممالک پر حملے کرنا بچوں کا کھیل نہیں ھوتا۔
میانمار کو فوجی امداد دینے والے سب سے بڑے ممالک چین ' انڈیا اور روس ھیں۔

پاکستان کو چاھئے کہ چین ' میانمار ' بنگلہ دیش اور روس کو قائل کرے کہ اگر اس مسئلے کو حل نہیں کیا گیا تو امریکہ امن فوج کے نام پر یہاں بھی ڈیرے ڈال لے گا اور امریکہ جہاں بیٹھ جائے پھر وھاں سے مشکل سے ھی جاتا ھے۔

پاکستان ' تھائی لینڈ اور ملاایشیاء جیسے ممالک سے بات کرے کہ اگر یہ ظلم بند نہ کیا گیا تو وھاں بسنے والے مینمار کے شہریوں کو واپس بھیج دیا جائیگا۔ یاد رھے کہ صرف ان دو ممالک میں کم از کم 18 لاکھ کے قریب لوگ کام کرتے ھیں جنکی واپسی میانمار کی حکومت کسی بھی طرح برداشت نہیں کر سکتی۔

اگر میانمار کی حکومت قائل نہیں ھوتی تو روس اور چین فوجی امداد بند کریں۔

پاکستان سمیت بڑے اسلامی ممالک کے سربراھان میانمار کے دورے کریں۔ کسی ریاست کے سربراہ کا دورہ بہت اھمیت رکھتا ھے۔ ایسے دوروں کا اثر فوری طور پر نظر آئیگا۔

مجاھدین کی مدد سے وھاں بنگالی النسل روھینگیا مسلمانوں کی گوریلا جنگ سود مند نہیں رھے گی کیونکہ طاقت کا توازن بری طرح سے خلاف ہے۔ 5 لاکھ باقاعدہ فوج اور لاکھوں کی راخائن نسل ملیشیا کے مقابلے میں ایسی کسی کوشش کے نتیجے میں ان مسلمانوں پر مزید تباھی آئیگی۔

کئی دھائیوں سے جاری یہ کشمکش اگر پھر بھی ختم نہیں ھوتی تو امریکہ کی نام نہاد امن فوج کو بلانے کے بجائے دنیا کے 56 اسلامی ممالک ان 10/12 لاکھ بے وطن اور مظلوم مسلمانوں کو آپس میں تقیسم کر لیں۔

No comments:

Post a Comment