Thursday 14 September 2017

پاکستان میں برادریوں کے باھمی تعلقات اور تنازعات پر دھیان دینے کی ضرورت ھے۔


قومون کی اپنی زمین ' زبان ' رسم و رواج ھوتے ھیں۔ پاکستان وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین پر قائم ھے۔ وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کی درجہ بندی وادئ سندھ کی تہذیب کے پنجابی خطے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے سماٹ خطے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے ھندکو خطے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے براھوئی خطے کے طور پر کی جاسکتی ھے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے اصل باشندے پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی ھیں۔ پاکستان ' پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں کا ملک ھے۔ پاکستان کی پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں کو اردو زبان بولنے پر مجبور کر کے ' گنگا جمنا کی رسمیں اختیار کرنے پر مجبور کر کے ' یوپی ' سی پی کے رواج اختیار کرنے پر مجبور کر کے ' پاکستانی قوم کیسے بنایا جا سکتا ھے؟

جناح نے پاکستان بنانے کے لیے پنجاب تقسیم کروا دیا۔ 20 لاکھ پنجابی مروا دیے۔ 2 کروڑ پنجابی بے گھر کروا دیے۔ سندھ میں سے سماٹ سندھی ھندؤں کو نکال دیا۔ مذھبی نفرت کی جو آگ جناح نے لگائی ' اس میں پنجابی قوم اب تک جل رھی ھے۔ جناح نے برٹش ایجنڈے اور یوپی ' سی پی والوں کے سیاسی مفادات پر کام کر کے ' جو ظلم پنجابی قوم پر کیا ' اس کا انجام اچھا نہیں۔ اسلام کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے سے پاکستان میں اسلام بھی سیاست زدہ ھو چکا ھے اور اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کے باوجود سات دھائیوں  کے بعد بھی نہ پاکستانی نام کی قوم بن سکی اور نہ بنتی نظر آ رھی ھے۔

چونکہ"دو قومی نظریہ" کو وجود میں لانے والا طبقہ یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ تھی۔ اس لیے 1971 میں مسلمان بنگالیوں کے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرکے بنگالی قوم کا ملک بنگلہ دیش بنانے اور 1984 میں یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ کی طرف سے مھاجر تشخص اختیار کرکے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے "مھاجر قومی موومنٹ" کے نام سے سیاسی جماعت بنا لینے کے بعد پاکستان کی زمین کی اصل وارث اور مالک پنجابی ' سماٹ ' ھندکو اور براھوئی قوموں کے لیے "دو قومی نظریہ" کی تو بلکل ھی نہ کوئی افادیت رھتی ھے اور نہ ھی کوئی اھمیت رھتی ھے۔

مذھب کی بنیاد پر "دو قومی نظریہ"  کا مسئلہ پنجاب ' سندھ ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان کا نہیں تھا۔ مذھب کی بنیاد پر "دو قومی نظریہ"  کا مسئلہ اتر پردیش کا تھا اور اب بھی ھے۔ "دو قومی نظریہ"  پر ملک بننا تھا تو اتر پردیش کو مسلم اتر پردیش اور غیر مسلم اتر پردیش میں تقسیم کرکے بننا تھا۔ نہ کہ پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں کی زمین پر بننا تھا اور پنجاب کو تقسیم کرکے بننا تھا۔ جو کہ پہلے سے ھی مسلم اکثریتی علاقے تھے۔

بہرحال اس وقت پاکستان میں دو مذھبی قومیں نہیں ھیں۔ کیونکہ پاکستان کی 97٪ آبادی مسلمان ھونے کی وجہ سے پاکستان مذھبی نظریہ کی بنیاد پر ایک ھی مذھبی نظریہ والوں کی واضح اکثرت کا ملک ھے۔ جبکہ پاکستان لسانی نظریہ کی بنیاد پر چار قوموں پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں کا ملک ھے۔ بلکہ کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریاں بھی پاکستان کی شہری ھیں۔

پہلے بھی "دو قومی نظریہ"  پنجاب ' سندھ ' خیبر پختونخوا ' بلوچستان کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ اتر پردیش کا مسئلہ تھا اور اب بھی اتر پردیش کا مسئلہ ھے۔ اس لیے اتر پردیش والے جانیں اور اتر پردیش والوں کا مسئلہ جانے۔ پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قومیں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریاں اپنے مسئلے پر دھیان دیں۔

چونکہ پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قومیں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی الگ الگ علاقوں میں رھنے کے بجائے پاکستان کے ھر علاقے میں مل جل کر رہ رھے ھیں۔ اس لیے پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریوں کے باھمی تعلقات اور تنازعات پر دھیان دینے کی ضرورت ھے۔ نہ کہ اتر پردیش کے "دو قومی نظریہ"  پر بحث و مباحثہ کرتے رھنے کی ضرورت ھے۔

No comments:

Post a Comment