Tuesday 7 November 2017

“نظریہ پاکستان” اور “دو قومی نظریہ” میں فرق ھیں۔


پانچ ھزار سال پہلے دنیا میں تین تہذیبیں وجود میں آگئی تھیں۔ ان میں سے ایک نیل دریا کے کنارے مصر میں مصری تہذیب۔ دوسری دجلہ اور فرات دریاؤں کے کنارے عراق میں میسوپوٹامیہ کی تہذیب۔ تیسری سندھ ' جہلم ' چناب ' راوی ' بیاس ' ستلج ' سرسوتی دریاؤں کے کنارے وادیء سندھ کی تہذیب۔ وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کو پہلے سپتا سندھو کہا جاتا رھا اور اب پاکستان کہا جاتا ھے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے مسلم دنیا کا دوسرا اور دنیا کا چھٹہ بڑا ملک ھے۔ مسلم دنیا کا واحد اور دنیا کی آٹھ ایٹمی طاقتوں میں سے ایک طاقت ھے۔ مسلم دنیا کی دوسری اور دنیا کی آٹھویں بڑی فوجی طاقت ھے۔ رقبہ کے لحاظ سے دنیا کا تیتیسواں ' جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کا ترتالیسواں ' پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا پچیسواں اور معیشت کے لحاظ سے دنیا کا چوتیسواں بڑا ملک ھے اور 2050 میں دنیا کی سولھویں بڑی معیشت ھوگا۔ انشاء اللہ۔ لیکن پاکستان کا وجود “نظریہ پاکستان” کی بنیاد پر ھے یا “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر؟ “نظریہ پاکستان” اور “دو قومی نظریہ” چونکہ دو مختلف نظریے ھیں اس لیے اس امر کا احاطہ کرنا ضروری ھے کہ؛ “دو قومی نظریہ” کیا ھے اور “نظریہ پاکستان” کیا ھے؟

چوھدری رحمت علی گجر ایک مسلمان پنجابی تھے جو پاکستان کی ریاست کے قیام کے ابتدائی حامیوں میں سے ایک تھے اور “نظریہ پاکستان” کے بانی تھے۔ ان کا شمار موجودہ پاکستان کو قائم کرنے کے لئے "پاکستان" کے نام  کے تخلیق کار کے طور پر  کیا جاتا ھے اور انہیں پاکستان کی تحریک کے بانی کے طور پر یاد کیا جاتا ھے۔ انہیں 1933 کے ایک مشہور پمفلٹ "ابھی یا کبھی نہیں؛ ھم رھتے ھیں یا ھمیشہ کے لئے ھلاک کردیے جائیں گے"؟ کے مصنف کے طور پر جانا جاتا ھے۔ اس پمفلٹ کو پاکستان کے اعلامیہ کے طور پر جانا جاتا ھے۔ پمفلٹ ایک مشہور بیان کے ساتھ شروع ھوتا ھے؛

"بھارت کی تاریخ کے اس اھم دور میں جب برطانوی اور بھارتی سیاستدان اس ملک کے لیے ایک وفاقی آئین کی بنیادیں بچھانے جا رھے ھیں تو ھم ھمارے مشترکہ ورثے کے نام پر  ' ھمارے تین کروڑ مسلمان بھائیوں (پنجاب ' سندھ ' بلوچستان ' سرحد ' کشمیر  کے باشندے) کی جانب سے ' اس اپیل کے ذریعے آپسے مخاطب ھیں ' جو پاکستان کے رھنے والے ھیں ۔ جس سے مراد ھے بھارت کے پانچ شمال مغربی یونٹس مطلب: پنجاب ' افغانیہ (صوبہ سرحد اور فاٹا کے علاقے) ' کشمیر ' سندھ ' بلوچستان"۔

چوھدری رحمت علی پاکستان کے تصور کے لئے ایک اھم شخصیت تھے۔ وہ اپنی بالغ زندگی کا سب سے زیادہ عرصہ برطانیہ میں رھے۔ وہ پاکستان کے قیام کے بعد اپنے ملک میں رھنے کا منصوبہ بنا کر اپریل 1948 ء میں پاکستان واپس آئے۔ لیکن پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے اور کشمیر کو پاکستان میں شامل نہ کرنے کی وجہ سے وہ 1933 میں اپنے پمفلٹ "ابھی یا کبھی نہیں؛ ھم رھتے ھیں یا ھمیشہ کے لئے ھلاک کردیے جائیں گے"؟ میں تجویز کردہ پاکستان جسکا مطالبہ لاھور کی 1940 کی قرارداد میں بھی کیا گیا تھا کے بجائے ایک چھوٹے پاکستان پر زیادہ خوش نہیں تھے۔ لہذا وہ پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے اور پاکستان میں کشمیر کو شامل نہ کرنے کی وجہ سے ایک نامکمل پاکستان اور پاکستان میں بنگال کو شامل کرنے جبکہ یوپی ' سی پی کے لوگوں کو پاکستان کی حکومت 'سرکاری ملازمتوں اور سیاست میں شامل کرلینے کی وجہ سے نامناسب پاکستان کو تخلیق کرنے پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کرنے لگے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے پمفلٹ "ابھی یا کبھی نہیں؛ ھم رھتے ھیں یا ھمیشہ کے لئے ھلاک کردیے جائیں گے"؟ میں بنگال کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم وطن "بنگستان" کے نام سے تجویز کیا تھا۔ "عثمانستان"  کے نام سے ایک مسلم ملک دکن اور یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کے لیے تجویز کیا تھا اور "دینیاس"  کے نام سے ایک ملک جنوبی ایشیا کے مختلف مذاھب کے لوگوں کے لیے تجویز کیا تھا۔ جبکہ اپنے پمفلٹ بعنوان "ابھی یا کبھی نہیں؛ ھم رھتے ھیں یا ھمیشہ کے لئے ھلاک کردیے جائیں گے"؟ میں لفظ "پاکستان" بھارت کے پانچ شمال مغربی یونٹس مطلب: پنجاب (بغیر تقسیم کے) ' افغانیہ (صوبہ سرحد اور فاٹا کے علاقے) ' کشمیر ' سندھ ' بلوچستان کے لیے تجویز کیا تھا"۔ نتیجے کے طور پر  پاکستان کے اس وقت کے اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے ' اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان وزیر اعظم لیاقت علی خان کی طرف سے چوھدری رحمت علی گجر کو پاکستان کا غدار قرار دے کر پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ انکا سامان ضبط کر لیا گیا۔ انہیں پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان میں صرف چھہ ماہ رھنا نصیب ھوا اور وہ اکتوبر 1948 میں خالی ھاتھ برطانیہ کے لئے روانہ ھوئے۔ انہوں نے فروری 1951 ء میں وفات پائی اور برطانیہ میں کیمبرج کے نیومارکیٹ روڈ قبرستان میں 20 فروری کو سپرد خاک کر دیا گیا۔

جہاں تک “دو قومی نظریہ” کی بات ھے تو؛ برٹش انڈیا کے مسلم اکثریتی صوبوں پنجاب ' سندھ ' بلوچستان ' شمال مغربی فرنٹیئر صوبہ یا سرحد (جسے اب 2010 سے خیبر پختونخوا کہا جاتا ھے) اور مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی طرف سے 1937 کے انتخابات میں جمہوریت کو ایک خطرے کے طور پر نہیں دیکھا گیا تھا۔ لیکن سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمان اپنے صوبوں میں اقلیت میں تھے۔ اس لیے برٹش انڈیا میں جمہوریت کو اپنے لیے نقصاندہ سمجھتے تھے۔ جمہوری برٹش انڈیا میں خود کو نقصان سے بچانے کے لیے انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت پر قابض ھونا شروع کردیا اور برٹش انڈیا کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی تحریک شروع کردی اور برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک کی تشکیل کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ دراصل سینٹرل برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کو اپنی نوابی خطرے میں پڑتی دکھائی دینے لگی تھی۔ اسی لیے سینٹرل برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کو معلوم ھوا کہ یہ مسلمان ھیں اور ایک علیحدہ قوم ھیں۔ ورنہ انکے آباؤ اجداد کو 800 سال تک ھندوؤں پر حکمرانی کرنے کے باوجود بھی علیحدہ قوم ھونے کا احساس نہیں ھوا تھا اور نہ ھی 1300 سال تک کے عرصے کے دوران کبھی کسی مسلمان عالم نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم قرار دیا تھا۔

سینٹرل برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ  کے لیے سب سے مشکل کام یہ تھا کہ مسلم اکثریتی صوبوں کے مسلمانوں کو برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک تشکیل دینے کی حمایت کرنے کے لیے کیسے قائل کیا جائے؟ آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت پر قابض سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں نے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے اتحاد کو مظبوط اور منظم کرنے کے مشن کی ابتدا کی۔ اس بات کا بھرپور چرچا شروع کیا کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمان ایک قوم ھیں۔ نہ صرف انکا مذھب ایک ھے بلکہ انکی زبان بھی ایک ھی ھے ' انکی ثقافت بھی ایک ھی ھے اور انکا سیاسی مفاد بھی ایک ھی ھیں۔ بلاشبہ یہ ایک مذھب انکا دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والا اسلامی فلسفہ تھا۔ ایک زبان انکی اردو زبان تھی۔ ایک ثقافت انکی گنگا جمنا کی ثقافت تھی اور ایک سیاسی مفاد انکا نئے مسلم ملک میں سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں کو برتری حاصل ھونا تھا۔

ایک ھی مذھب ھونے کے باوجود برٹش انڈیا کے مسلمان دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والے اسلامی فلسفہ سے ھٹ کر مختلف مذھبی نقطہ نظر رکھتے تھے۔ انکی زبانیں الگ الگ تھیں۔ انکی ثقافتیں الگ الگ تھیں۔ انکی اپنی اپنی انفرادی تاریخ تھی۔ انکی اپنی اپنی منفرد قومی شناختیں تھیں اور انکے اپنے اپنے سیاسی مفادات تھے۔ اس لیے تمام مسلم حلقوں میں “دو قومی نظریہ” کو پذیرائی حاصل نہ ھوسکی۔ مثال کے طور پر 1937 کے انتخابات میں “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر مہم کو چلایا گیا لیکن آل انڈیا مسلم لیگ کو تمام مسلم اکثریت کے صوبوں میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1937 کے انتخابات میں صرف 4.6 فیصد مسلمانوں نے مسلم لیگ کے لئے ووٹ دیا اور مسلم لیگ نے پنجاب میں 84 نشستوں میں سے صرف 2 ' سندھ میں مسلمانوں کے لئے محفوظ 33 نشستوں میں سے 3 ' بنگال کی 117 نشستوں میں سے 39 اور شمال مغربی فرنٹیئر صوبہ یا سرحد (جسے اب 2010 سے خیبر پختونخوا کہا جاتا ھے) میں کوئی بھی نشست حاصل نہیں کی۔ اس طرح پاکستان کے قیام سے صرف ایک دھائی پہلے برٹش انڈیا کے مسلمانوں نے تقریبا متفقہ طور پر “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ملک کے خیال کو مسترد کردیا تھا۔

سال 1940 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے لاھور میں اپنا سالانہ اجلاس منقعد کیا۔ جہاں نظریات کا اختلاف واضح طور پر نظر آتا تھا۔ سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں نے “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ملک بنانے کے حامیوں کا ایک گروپ بنایا۔ جبکہ مسلم اکثریت والے صوبوں بنگال ' پنجاب ' سندھ ' سرحد اور بلوچستان کے رھنماؤں نے لسانی ' ثقافتی اور نسلی تحفظ کی حمایت کی بنیاد پر دوسرے گروپ کی تشکیل کی اور 1937 کے انتخابات کے نتائج سے آگاہ کیا۔ مسلم اکثریت والے صوبوں کے رھنماؤں نے سالانہ اجلاس میں اپنی بالا دستی رکھی اور اپنی خود مختاری کی خواھشات کو قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں بنگالی قوم پرست اے ۔ کے فضل الحق کی طرف سے اجلاس میں ایک قرارداد پیش کی گئی۔ تاھم فضل الحق کی طرف سے اجلاس میں قرارداد پیش کرنے سے پہلے مسلم لیگ کے رھنما محمد علی جناح نے بھارت کے مسلمانوں کے جذبات کو جذباتی کرنے کی کوشش کی۔ لاھور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں تقریر کرتے ھوئے انہوں نے کہا؛

"مسلمانان (مسلمان) فاتح ' تاجر اور مبلغین کے طور پر بھارت آئے تھے۔ وہ اپنے ساتھ اپنی ثقافت اور تہذیب لائے تھے۔ انہوں نے بھارت میں اصلاح اور اصلاحات کیں. آج برطانوی بھارت میں سو ملین مسلمان دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلم آبادی کا سب سے بڑا حصہ ھیں۔ ھم زبان اور ثقافت ' تہذیب اور تمدن ' آرٹ اور فن تعمیر ' نام اور کیلنڈر ' قدر اور تناسب ' قوانین اور اخلاق ' استعداد اور امتیاز ' تاریخ اور روایات ھیں۔ ھمارے پاس زندگی کا اپنا منفرد نقطہ نظر ھے۔ بین الاقوامی قانون کے تمام اصولوں کے مطابق ھم ایک قوم ھیں۔

مسلم قومیت کے اس طرح کے پرجوش الفاظ کے باوجود نہ محمد علی جناح نے اور نہ ھی مسلم لیگ کے کسی دوسرے رھنما نے “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ملک کی قراداد پیش کی۔ کیونکہ سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں کو 1937 کے انتخابات میں “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر شکست کی تازہ یادوں کی وجہ سے مسلم اکثریت کے صوبوں کی قیادت سے ایسی مانگ کے لئے حمایت کا یقین نہیں تھا۔ اس کے بجائے مسلم اکثریت والے ایک صوبے بنگال کے ایک رھنما فضل الحق کی طرف سے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ریاست کے الفاظ کو نظر انداز کرتے ھوئے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے مستقبل کے لئے ایک قرارداد پیش کی کہ؛ جغرافیائی طور پر ملحق اکائیوں کی علاقائی حدبندی کر کے ان کی آئینی تشکیل اس طرح کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ھیں ' جیسا کہ ھندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے ' ان کو آزاد ریاستوں میں گروہ بند کر دیا جائےاور اس طرح تشکیل پانے والی یہ اکائیاں مکمل آزاد اور خودمختار ھوں گی۔ ان اکائیوں میں موجود خطوں کے آئین میں اقلیتوں کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذھبی ' ثقافتی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب ' مؤثر اور لازمی اقدامات یقینی بنائے جائیں گے اور ھندوستان کے دوسرے حصے جہاں مسلمان اقلیت میں ھیں ' آئین میں ان کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذھبی ' ثقافتی ' معاشی ' سیاسی ' انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب ' مؤثر اور لازمی اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔ مسلم لیگ نے رسمی طور پر 23 مارچ 1940 کو لاھور میں اس قرارداد کو اپنایا۔ مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رھنما چوھدری خلیق الزماں ' پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ' سرحد سے سردار اورنگ زیب 'سندھ سے سر عبداللہ ھارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ قرارداد 23 مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔

اپریل سن 1941 میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قراردادِ لاھور کو جماعت کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ھوئی۔ لیکن اُس وقت بھی ان علاقوں کی واضح نشاندھی نہیں کی گئی تھی ' جن پر مشتمل علیحدہ مسلم مملکتوں کا مطالبہ کیا جارھا تھا۔ پہلی بار پاکستان کے مطالبے کے لیے علاقوں کی نشاندھی 7 اپریل سن 1946 کو دلی کے تین روزہ کنونشن میں کی گئی۔ جس میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم لیگی اراکین نے شرکت کی تھی۔ اس کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبنٹ مشن کے وفد کے سامنے مسلم لیگ کا مطالبہ پیش کرنے کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی۔ جس کا مسودہ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے دو اراکین چوھدری خلیق الزماں اور حسن اصفہانی نے تیار کیا تھا۔ اس قراداد میں واضح طور پر پاکستان میں شامل کئے جانے والے علاقوں کی نشاندھی کی گئی تھی۔ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب ' سرحد ' سندھ اور بلوچستان۔ تعجب کی بات ھے کہ اس قرارداد میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ حالانکہ شمال مغرب میں مسلم اکثریت والا علاقہ تھا اور پنجاب سے جڑا ھوا تھا۔ یہ بات بے حد اھم ھے کہ دلی کنونشن کی اس قرارداد میں دو مملکتوں کا ذکر یکسر حذف کر دیا گیا تھا۔ جو قراردادِ لاھور میں بہت واضح طور پر تھا۔ اس کی جگہ پاکستان کی واحد مملکت کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا۔

غالباً بہت کم لوگوں کو اس کا علم ھے کہ مولوی فضل الحق کی طرف سے 23 مارچ کو پیش کردہ قراردادِ لاھور کا اصل مسودہ اس زمانہ کے پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلی سر سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا۔ یونینسٹ پارٹی اس زمانہ میں پنجاب میں مسلم لیگ کی اتحادی جماعت تھی اور سر سکندر حیات خان یونینسٹ پارٹی کے صدر تھے۔ سر سکندر حیات خان نے قرارداد کے اصل مسودہ میں بر صغیر میں ایک مرکزی حکومت کی بنیاد پر عملی طور پر کنفڈریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب اس مسودہ پر مسلم لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی میں غور کیا گیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے خود اس مسودہ میں بر صغیر میں واحد مرکزی حکومت کا ذکر یکسر کاٹ دیا۔ سر سکندر حیات خان اس بات پر سخت ناراض تھے اور انہوں نے 11 مارچ سن 1941 کو پنجاب کی اسمبلی میں صاف صاف کہا تھا کہ ان کا "پاکستان کا نظریہ" جناح صاحب کے نظریہ سے بنیادی طور پر مختلف ھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ھندوستان میں ایک طرف ھندو راج اور دوسری طرف مسلم راج کی بنیاد پر تقسیم کے سخت خلاف ھیں اور وہ ایسی تباہ کن تقسیم کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ مگر ایسا نہ ھوا۔ سر سکندر حیات خان دوسرے سال سن 1942 میں انتقال کر گئے ' یوں پنجاب میں محمد علی جناح کو شدید مخالفت کے اٹھتے ھوئے حصار سے نجات مل گئی۔

سن 1946 کے دلی کنونشن میں پاکستان کے مطالبہ کی قرارداد حسین شھید سہروردی نے پیش کی اور یو پی کے مسلم لیگی رھنما چوھدری خلیق الزماں نے اس کی تائد کی تھی۔ قراردادِ لاھور پیش کرنے والے مولوی فضل الحق اس کنونشن میں شریک نہیں ھوئے کیونکہ انہیں سن 1941 میں مسلم لیگ سےخارج کردیا گیا تھا۔ دلی کنونشن میں بنگال کے رھنما ابو الہاشم نے اس قرارداد کی پر زور مخالفت کی اور یہ دلیل پیش کی کہ یہ قرارداد "لاھور کی قرارداد" سے بالکل مختلف ھے۔ جو مسلم لیگ کے آئین کا حصہ ھے- ان کا کہنا تھا کہ "قراردادِ لاھور" میں واضح طور پرشمال مغربی اور مشرقی حصے میں مسلمانوں کے لیے دو مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا لہذا دلی کنونشن کو مسلم لیگ کی اس بنیادی قرارداد میں ترمیم کا قطعی کوئی اختیار نہیں۔ ابوالہاشم کے مطابق قائد اعظم نے اسی کنونشن میں اور بعد میں بمبئی میں ایک ملاقات میں یہ وضاحت کی تھی کہ اس وقت چونکہ برصغیر میں دو الگ الگ دستور ساز اسمبلیوں کے قیام کی بات ھورھی  ھے لہذا دلی کنونشن کی قرارداد میں ایک مملکت کا ذکر کیا گیا ھے۔ البتہ جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی آئین مرتب کرے گی تو وہ اس مسئلہ کی حتمی ثالث ھوگی اور اسے دو علیحدہ مملکتوں کے قیام کے فیصلہ کا پورا اختیار ھوگا۔ لیکن پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے نہ تو قائد اعظم کی زندگی میں اور نہ اس وقت جب سن 1956 میں ملک کا پہلا آئین منظور ھورھا تھا ' بر صغیر میں مسلمانوں کی دو آزاد اور خود مختار مملکتوں کے قیام پر غور کیا۔ 25 سال کی سیاسی اتھل پتھل و کشمکش اور سن 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ کی تباھی کے بعد البتہ برصغیر میں مسلمانوں کی دو الگ الگ مملکتیں ابھریں جن کا مطالبہ "قراردادِ لاھور" کی صورت میں آج بھی محفوظ ھے۔

پاکستان کا قیام " 3 جون 1947 کے کیبنٹ مشن" کی سفارشات کے بعد برطانیہ کی پارلیمنٹ کے " انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ 1947" کے تحت وجود میں آیا۔جب 14 اگست 1947 کو پاکستان اور 15 اگست 1947 کو بھارت کے قیام کا اعلان کیا گیا تو اس وقت پنجاب نہ پاکستان میں تھا اور نہ بھارت میں۔ پاکستان کے قیام کے 3 دن کے بعد 17 اگست 1947 کو پنجاب کو تقسیم کرکے 17 مسلم پنجابی اکثریتی اضلاع پاکستان میں شامل کردیے گئے اور 12 ھندو پنجابی و سکھ پنجابی اکثریتی اضلاع بھارت میں شامل کردیے گئے۔ پنجاب چونکہ مسلمان پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کی ملی جلی آبادی والا علاقہ تھا۔ اس لیے پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے مسلمان پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ جسکی وجہ سے مار دھاڑ ' لوٹ مار اور قتل و غارتگری کا سلسلہ شروع ھوا؛ جس میں 20 لاکھ پنجابی مارے گئے۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی قتل و غارتگری قرار دی جاتی ھے۔ جبکہ 2 کروڑ پنجابیوں نے نقل مکانی کی۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی نقل مکانی قرار دی جاتی ھے۔

در اصل برٹش انڈیا کی سب سے بڑی قوم اردو ھندی- بولے والے ھندوستانی (یوپی ' سی پی والے ) تھے۔ دوسری بڑی قوم بنگالی تھے۔ جبکہ پنجابی تیسری ' تیلگو چوتھی ' مراٹھی پانچویں ' تامل چھٹی ' گجراتی ساتویں ' کنڑا آٹھویں ' ملایالم نویں ' اڑیہ دسویں بڑی قوم تھے۔ برٹش انڈیا میں “دو قومی نظریہ” کو بنیاد بنا کر ' دوسری بڑی قوم بنگالی اور تیسری بڑی قوم پنجابی کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کر کے مسلمان بنگالیوں اور مسلمان پنجابیوں کو پاکستان میں شامل کر کے ایک تو انڈیا کی دوسری اور تیسری بڑی قوم کو تقسیم کر دیا گیا۔ دوسرا برٹش انڈیا کی چوتھی ' پانچویں ' چھٹی ' ساتویں ' آٹھویں ' نویں ' دسویں بڑی قوم کو ھندی بولے والے ھندوستانیوں کی بالادستی میں دے دیا گیا۔ تیسرا اردو بولے والے ھندوستانی مسلمانوں کو پاکستان لا کر ' پاکستان کا وزیرِ اعظم اردو بولے والے ھندوستانی کو بنا دیا گیا۔ پاکستان کی قومی زبان بھی گنگا جمنا کلچر والے ھندوستانیوں کی زبان اردو کو بنا دیا گیا۔ پاکستان کا قومی لباس بھی گنگا جمنا کلچر والوں کی شیروانی اور پاجامہ بنا دیا گیا۔ پاکستان کی حکومت ' دستور ساز اسمبلی ' اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت ' شہری علاقوں ' تعلیمی اداروں پر  اردو بولے والے ھندوستانیوں کی بالادستی قائم کروا دی گئی۔

چونکہ”دو قومی نظریہ” کو وجود میں لانے والا طبقہ یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ تھی۔ اس لیے 1971 میں مسلمان بنگالیوں کے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرکے بنگالی قوم کا ملک بنگلہ دیش بنانے اور 1984 میں یوپی ' سی پی کی مسلمان اشرافیہ کی طرف سے مھاجر تشخص اختیار کرکے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے "مھاجر قومی موومنٹ" کے نام سے سیاسی جماعت بنا لینے کے بعد پاکستان کی زمین کی اصل وارث اور مالک پنجابی ‘ سندھی ‘ ھندکو ‘ براھوئی قوموں کے لیے “دو قومی نظریہ” کی تو بلکل ھی نہ کوئی افادیت رھتی ھے اور نہ ھی کوئی اھمیت رھتی ھے۔ ویسے بھی مذھب کی بنیاد پر “دو قومی نظریہ”  کا مسئلہ پنجاب ' سندھ ' خیبر پختونخوا ' بلوچستان کا نہیں تھا۔ مذھب کی بنیاد پر “دو قومی نظریہ”  کا مسئلہ اتر پردیش کا تھا اور اب بھی ھے۔ “دو قومی نظریہ”  پر ملک بننا تھا تو اتر پردیش کو مسلم اتر پردیش اور غیر مسلم اتر پردیش میں تقسیم کرکے بننا تھا۔ نہ کہ پنجابی ‘ سندھی ‘ ھندکو ‘ براھوئی قوموں کی زمین پر بننا تھا اور پنجاب کو تقسیم کرکے بننا تھا۔ جو کہ پہلے سے ھی مسلم اکثریتی علاقے تھے۔

بہرحال اس وقت پاکستان میں "دو مذھبی قومیں" نہیں ھیں۔ کیونکہ پاکستان کی 97٪ آبادی مسلمان ھونے کی وجہ سے پاکستان مذھبی نظریہ کی بنیاد پر "ایک ھی مذھبی نظریہ" والوں کی واضح اکثرت کا ملک ھے۔ جبکہ پاکستان لسانی نظریہ کی بنیاد پر چار قوموں پنجابی ‘ سندھی ‘ ھندکو ‘ براھوئی قوموں کا ملک ھے۔ بلکہ کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ کوھستانی ' چترالی ‘ سواتی ' ڈیرہ والی ' راجستھانی ‘ گجراتی ‘ پٹھان ‘ بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریاں بھی پاکستان کی شہری ھیں۔ پہلے بھی “دو قومی نظریہ”  پنجاب ' سندھ ' خیبر پختونخوا ' بلوچستان کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ اتر پردیش کا مسئلہ تھا اور اب بھی اتر پردیش کا مسئلہ ھے۔ اس لیے اتر پردیش والے جانیں اور اتر پردیش والوں کا مسئلہ جانے۔ پنجابی ‘ سندھی ‘ ھندکو ‘ براھوئی قومیں اور کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ کوھستانی ‘ چترالی ‘ سواتی ‘ ڈیرہ والی ‘ راجستھانی ‘ گجراتی ‘ پٹھان ‘ بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریاں اپنے مسئلے پر دھیان دیں۔ چونکہ پنجابی ‘ سندھی ‘ ھندکو ‘ براھوئی قومیں اور کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ کوھستانی ‘ چترالی ‘ سواتی ‘ ڈیرہ والی ‘ راجستھانی ‘ گجراتی ‘ پٹھان ‘ بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی الگ الگ علاقوں میں رھنے کے بجائے پاکستان کے ھر علاقے میں مل جل کر رہ رھے ھیں۔ اس لیے انہیں برادریوں کے باھمی تعلقات اور تنازعات پر دھیان دینے کی ضرورت ھے۔ نہ کہ اتر پردیش کے “دو قومی نظریہ”  پر بحث و مباحثہ کرتے رھنے اور "نظریہ پاکستان" پر “دو قومی نظریہ” کو فوقیت دیتے رھنے کی ضرورت ھے۔

قوموں کی اپنی زمین ' زبان ' رسم و رواج ھوتے ھیں۔ پاکستان وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین پر قائم ھے۔ پاکستان کی 97٪ آبادی مسلمان ھے۔ پاکستان ' پنجابی ‘ سندھی ‘ ھندکو ‘ براھوئی ' کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ کوھستانی ‘ چترالی ‘ سواتی ‘ ڈیرہ والی ‘ راجستھانی ‘ گجراتی ‘ پٹھان ‘ بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریوں کا ملک ھے۔ پاکستان میں امن ' استحکام اور خوشحالی جبکہ پاکستان کی عوام کو مطمعن ' مستحکم اور متحد رکھنے کے لیے ضروری ھے کہ پاکستان کی پنجابی ‘ سندھی ‘ ھندکو ‘ براھوئی ' کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ کوھستانی ‘ چترالی ‘ سواتی ‘ ڈیرہ والی ‘ راجستھانی ‘ گجراتی ‘ پٹھان ‘ بلوچ ' اردو بولنے والی ھندوستانی برادریوں سے “دو قومی نظریہ” کے بجائے “نظریہ پاکستان” پر عمل کروایا جائے۔

"نظریہ پاکستان" پر “دو قومی نظریہ” کو فوقیت دیکر ' اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے ' اترپردیش کی تہذیب کو پاکستان کی تہذیب بنانے ' لکھنو کی ثقافت کو پاکستان کی ثقافت بنانے کی کوششیں اور سازشیں کرنے کے باوجود نہ پاکستانی نام کی قوم بن سکی اور نہ بنتی نظر آ رھی ھے۔ بلکہ اسلام کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے سے پاکستان میں اسلام بھی سیاست زدہ ھو چکا ھے۔ پنجابی ‘ سندھی ‘ ھندکو ‘ براھوئی ' کشمیری ‘ گلگتی بلتستانی ‘ کوھستانی ‘ چترالی ‘ سواتی ‘ ڈیرہ والی ‘ راجستھانی ‘ گجراتی ‘ پٹھان ‘ بلوچ خود کو پاکستان کے شھری قرار دیتے ھیں اور پاکستان کے باشندے ھونے میں فخر محسوس کرتے ھیں لیکن سات دھائیوں کے بعد بھی اردو زبان کے بجائے اپنی اپنی زبان سے محبت کرتے ھیں۔ اترپردیش کی تہذیب کے بجائے اپنی اپنی تہذیب پر ناز کرتے ھیں۔ لکھنو کی ثقافت کے بجائے اپنی اپنی ثقافت برقرار رکھے ھوئے ھیں۔ اس لیے سپتا سندھو  یا وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین یا پاکستان کو  سیاسی اور سماجی طور پر مضبوط ' معاشی اور اقتصادی طور پر مستحکم  ملک بنانے کے لیے “نظریہ پاکستان” اور “دو قومی نظریہ” کے ابہام کو ختم کرنے کے لیے ضروری ھے کہ؛

پاکستان میں واقع زمین کی تاریخ کو نصاب میں پڑھایا جائے تاکہ وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کے باشندے ‘ خاص طور پر نوجوان نسل اپنے اپنے شاندار ماضی سے آگاہ ھوسکیں۔

پاکستان میں واقع زمین کے باشندوں کی تہذیب کو نصاب میں پڑھایا جائے تاکہ وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کے باشندے ‘ خاص طور پر نوجوان نسل اپنی اپنی شاندار تہذیب پر فخر کرسکیں۔

پاکستان میں واقع زمین کے باشندوں کی ثقافت کو نصاب میں پڑھایا جائے تاکہ وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کے باشندے ‘ خاص طور پر نوجوان نسل اپنی اپنی شاندار ثقافت کو اختیار کرسکیں۔

پاکستان میں واقع زمین کے باشندوں کو انکی اپنی زبان میں نصاب پڑھایا جائے تاکہ وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کے باشندے ‘ خاص طور پر نوجوان نسل اپنی اپنی شاندار زبان کو بولنا شروع کرسکیں۔

پاکستان میں واقع زمین پر پیدا ھونے والی عظیم شخصیات کا نصاب میں بتایا اور پڑھایا جائے تاکہ وادئ سندھ کی تہذیب والی زمین کے باشندے ‘ خاص طور پر نوجوان نسل اپنی اپنی عظیم شخصیات کے نقشَ قدم پر چل کر اپنی تہذیب کی عزت ' اپنی ثقافت کا احترام ' اپنی زبان کو بولنے ' اپنی عوام سے محبت کرنے والے بن جائیں ' بیرونی حملہ آوروں اور قبضہ گیروں کو ھیرو کے بجائے غاصب سمجھنا شروع کردیں ' بیرونی حملہ آوروں اور قبضہ گیروں کے راستے کی رکاوٹ بن جائیں۔ اپنی زمین کی حفاظت کریں اور اپنے وطن کو ترقی یافتہ ' مظبوط ' مستحکم اور خوشحال وطن بنائیں۔

No comments:

Post a Comment