Monday 20 November 2017

گھناؤنی بین الاقوامی سازش ’’آزاد بلوچستان‘‘. تحریر : توصیف احمد خان

حال ھی میں سوئیزرلینڈ’ امریکہ اور انگلینڈ میں گاڑیوں اور سڑکوں پر لگائے گے نام نہاد ”آزاد بلوچستان “ کے پوسٹر اور بینرز ایسا معاملہ نہیں جسے آسانی سے نظرانداز کردیاجائے’ اسے محض بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کا کام بھی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ ایسا محسوس ھوتا ھے کہ یہ پاکستان کے خلاف ایک منظم سازش کا حصہ ھے جس میں ان بلوچ عناصر کو استعمال کیا گیا ھے جبکہ وہ خود بھی استعمال ھونے کیلئے تیار ھیں۔ اس معاملے کا گہری نظر سے جائزہ لیتے ھیں تو معلوم ھوتا ھے کہ اس کے پس پردہ کچھ عالمی طاقتیں بھی ھیں جن کا مقصد اسرائیل کو پورے خطے میں تسلط دلاناھے۔ اسکے لئے جو منصوبے بنائے گئے ھیں آزاد بلوچستان کے نعرے کا اسی سے تعلق ھے۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے اس بارے میں باقاعدہ فضا ھموار کی جارھی ھے۔ عراق ‘ شام ‘ یمن ‘ لیبیا اور دیگر ممالک کا بحران اس سلسلے کی کڑی ھے۔ ان منصوبوں میں طے کیا گیا ھے کہ پورے مشرق وسطیٰ کو ایسے چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کردیاجائے جو آپس میں لڑ تے رھیں اور اسرائیل کی تابعداری کریں۔ گذشتہ چند برسوں سے مغربی میڈیا میں ان منصوبوں کی بازگشت اکثر سننے میں آتی رھی ھے۔

گلوبل ریسرچ کی ایک رپورٹ میں مشرق وسطیٰ کی سرحدوں کی ازسرنو تشکیل کی تفصیل دی گئی ھے۔ کہا گیا ھے کہ یہ ایک نئے مشرق وسطیٰ کا پراجیکٹ ھے۔ ایک سابق امریکی یہودی کرنل رالف پیٹر کی کتاب میں بھی ”خونیں سرحدیں “ کے عنوان سے ایک مضمون شامل ھے جس میں نئے مشرق وسطیٰ کا ایک نقشہ دیاگیا ھے’ جو سراسر عالم اسلام کی تباھی و بربادی کا منصوبہ ھے۔ منصوبے میں عرب ممالک کے علاوہ پاکستان ‘ ایران ‘ افغانستان اور ترکی کو بھی شامل کیا گیا ھے۔ اس کا دعویٰ ھے کہ ملکوں کی سرحدیں کبھی جامد نہیں رھیں’ ان میں ردوبدل ھوتا رھتا ھے۔ اسی یہودی نے پاکستان اور سعودی عرب کو غیر حقیقی مملکتیں قرار دیا ھے۔ 29 ستمبر 2013 کے نیویارک ٹائمز کے سنڈے ریویو میں رابن رائٹ کا ایک تجزیہ ھے جس میں سعودی عرب’ شام ‘ لیبیا ‘ یمن اور عراق کو 14ممالک میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا ھے ‘ جو فرقہ ورانہ بنیادوں پر قائم ھونگے۔ شیعہ اور سنی کے علاوہ کردوں کو بھی ان میں حصہ دار بنانے کا ذکر ھے۔ سعودی عرب اور پاکستان کو غیر حقیقی ممالک قرار دیتے ھوئے انکی بڑے پیمانے پر ٹوٹ پھوٹ کا ذکر ھے۔ یہ تمام فریق اپنی شرانگیزی میں اس حد تک آگے چلے گئے ھیں کہ انھوں نے اسلام کے مقدس ترین مقامات یعنی مکہ اور مدینہ کے بارے میں بھی ایک منصوبہ تیار کیا ھے۔ منصوبہ یہ ھے کہ ان دونوں شہروں کے نظم و نسق کیلئے ایک کونسل بنادی جائے جس میں تمام مسلم ممالک اور تحریکوں کو نمائندگی حاصل ھو اور سب کو باری باری اختیارات حاصل ھوں۔ اس کونسل کی حیثیت ویٹی کن کی سی ھوگی جہاں اسلام کے مستقبل کے بارے میں بحث و مباحثہ بھی کیا جائےگا۔ موجودہ سعودی مملکت کو ریاض اور اردگرد کے علاقوں تک محدود کردیا گیا ھے۔

ان منصوبوں کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں بھی شرانگیزی کی گئی ھے۔ ان قوتوں نے طے کیا ھے کہ سابقہ صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختونخوا کو افغانستان کے حوالے کردیا جائے۔ شمال مغربی سرحدی قبائل افغانستان کے ساتھ مل جائیں گے۔ منصوبے میں بلوچستان کو ایک آزاد ریاست کے طور پر دکھایاگیا ھے۔ مغربی ممالک میں آزاد بلوچستان کے حوالے سے چلائی جانے والی مہم بھی اسی منصوبے کا حصہ معلوم ھوتی ھے۔ ھم پاکستان کے بعض لیڈروں کے بیانات پر غور کریں تو ایسا محسوس ھوتا ھے کہ ان کا منصوبے سے گہرا تعلق ھے۔ اس سلسلہ میں بلوچ لیڈر محمود خان اچکزئی اور سرحدی گاندھی غفار خان کے پوتے اسفند یار ولی کے بیانات خاص طور پر قابل غور ھیں۔ محمود اچکزئی نے کچھ عرصہ پہلے بیان دیاتھا کہ کوئی مائی کالال افغان مہاجرین کو کے پی کے سے نہیں نکال سکتا کیونکہ یہ انکا بھی علاقہ ھے۔ اس بیان سے تاثر ملتا ھے کہ مسٹر اچکزئی نہ صرف منصوبے سے پوری طرح آگاہ ھیں بلکہ اس پر عملدرآمد کی ابتداء بھی کی جارھی ھے۔ اسی طرح اسفندیارولی بھی خود کو افغانی قرار دیتے ھیں اور اپنے آپ کو افغانستان کا حصہ سمجھتے ھیں۔ ایسی ھی صورتحال انکے والد ولی خان اور دادا غفار خان کے حوالے سے تھی۔

منصوبے سے یہ تاثر بھی ملتا ھے کہ آزاد بلوچستان کی حالیہ مہم گہری بین الاقوامی سازش ھے جس میں اسرائیل کا کردار اھم ھے۔ مذکورہ مہم اس منصوبے پر عملدرآمد کا پیش خیمہ بھی ھو سکتی ھے۔ منصوبے میں پاکستان کا وجود بہت مختصر سے علاقے پر مشتمل دکھایاگیا ھے۔ یہ علاقہ دریائے سندھ کا مشرقی حصہ ھے جو پنجاب اور سندھ کے کچھ علاقوں پر مشتمل ھے۔ تاھم اس میں مغربی کنارے سے کراچی کو بھی شامل کیا گیا ھے۔ منصوبہ سازوں نے قرار دیا ھے کہ اس کے بعد پاکستان فطری ریاست بن سکے گا۔ پاکستان اور دیگر ممالک کے حوالے سے کرنل پیٹرر الف نے جو نقشہ تیار کیا ھے وہ جون 2006ء میں امریکہ کے ”آرمڈ فورسز جرنل“ میں شائع ھو چکا ھے۔ بتایا گیا ھے کہ یہ سرکاری دستاویز نہیں لیکن اسے سینئر فوجی افسروں کیلئے ناٹو کے ڈیفنس کالج میں تربیتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ھے۔ اس سے اس کی اھمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ھے۔ یہ ان نقشوں میں سے ایک ھے جن میں مشرق وسطیٰ کے ممالک کی سرحدوں کو پہلی جنگ عظیم والی پوزیشن پر دکھایا گیا ھے جب امریکہ میں ووڈرو ولسن صدر تھے۔ ان نقشوں کو نیشنل وار اکیڈمی اور فوجی منصوبہ بندی میں استعمال کیے جانے کا بھی امکان ھے۔ منصوبہ سازوں کا خیال ھے کہ اس پر عملدرآمد کی صورت میں مشرق وسطیٰ کا مسئلہ حل ھو جائے گا۔

اس قسم کے نقشے پر اسلامی ممالک میں صرف ترکی نے احتجاج کیا تھا۔ 15 ستمبر 2006ء میں ترکی کی طرف سے جو پریس ریلیز جاری کیا گیا اس میں نقشے پر بہت برھمی کا اظہار کیا گیا ‘ جو ناٹو کے روم (اٹلی) میں ملٹری کالج میں آویزاں تھا۔ نقشے میں ترکی کے حصے بخرے کرنے کا بھی ذکر ھے جسے دیکھ کر ترکی فوجی افسر غصے میں آ گئے۔ بتایا گیا ھے کہ ناٹو کالج میں آویزاں کرنے سے پہلے نقشے کو کسی نہ کسی حد تک امریکی نیشنل وار اکیڈمی کی منظوری بھی حاصل تھی۔ اس وقت کے ترک چیف آف سٹاف نے امریکی چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف سے رابطہ کیا اور ان سے نقشے کے بارے میں احتجاج کیا۔ تاھم امریکی حکام نے یقین دلایا کہ یہ نقشہ علاقے میں امریکی پالیسی کی عکاسی نہیں کرتا۔ یہ وضاحت افغانستان میں ناٹو کی فوج کے اقدامات کے بالکل برعکس ھے۔اگرچہ ”ٹرانسپورٹ فار لندن “ نے آزاد بلوچستان کی اشتہاری مہم پر پاکستان سے معذرت کرلی ھے مگر یہ ایسا معاملہ نہیں جسے محض ایک معذرت سے ٹالا جاسکتا ھو۔ یہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ھے جس پر پاکستان کے عوام اور حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ھے۔

No comments:

Post a Comment