Tuesday 21 November 2017

پنجابی زبان اور معاشرتی رویے ۔ تحریر : شاھد صدیقی

کچھ عرصہ پیشتر صوبہ پنجاب میں ساھیوال کے ایک سکول نے طلباء کو ایک ھدایت نامہ جاری کیا ھے جس میں ان سے یہ کہا گیا ھے کہ وہ سکول میں اورسکول کے باھر خراب قسم کی زبان استعمال کرنے سے باز رھیں۔ اسی نوٹ میں مزید یہ وضاحت کی گئی کہ اس خراب زبان میں طعنے’ گالم گلوچ’ نفرت انگیز باتیں اورپنجابی شامل ھے۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ واقعہ ساھیوال شہر میں پیش آیا جہاں سے احمدخان کھرل نے برطانوی راج کے خلاف پنجابی مزاحمت کا پرچم بلند کیا تھا۔ پنجابی کے حوالے سے اس طعن آمیز رویے کے پیچھے کیاعوامل کارفرما ھیں اس کیلئے ایک سنجیدہ علمی تجزیے کی ضرورت ھے۔ جس میں کچھ بنیادی سوالات کی گرھیں کھولنا ھوںگی مثلاً: زبان کا تصور کیا ھے؟ زبان اوراس کے بولنے والوں کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ھے؟ کسی زبان کو برتر یا کم تر کیوں قرار دیا جاتا ھے؟ زبان کی نمو اورافزائش میں تعلیمی اداروں کا کیا کردار ھے؟۔ پنجاب کے شہروں کی اشرافیہ جان بوجھ کر پنجابی کو کیوں نظرانداز کررھی ھے؟

زبان کے متعلق ایک قدامت پسندانہ تصور یہ ھے کہ یہ محض ابلاغ کا ایک ذریعہ ھے اور یہ ایک غیرفعال ((passive ‘ غیرجانبدارانہ (neutral) اورحتیٰ کہ ایک غیرسیاسی (apolitical) چیز ھے۔ اس قدامت پسند نظریہ کا ایک اھم مفروضہ یہ ھے کہ کچھ زبانیں اعلیٰ وبرتر ھیں اور کچھ زبانیں کم تر درجے کی ھوتی ھیں۔ زبان کے اس فرسودہ تصور کو سیپر (Sapir)اور وورف (Whorf) کی اھم تحقیق نے رد کر دیا۔ اس تحقیق کے مطابق زبان ھرگز غیرفعال (passive) اور غیر جانبدار (neutral) شے نھیں ھے اور نہ ھی اس کا کام محض خیالات ’ محسوسات اور جذبات کی ترسیل ھے بلکہ زبان حقیقتوں کی تشکیل (construction of realities) اور ان کے تسلسل (perpetuation) میں اھم کردار ادا کرتی ھے۔ اس طرح زبان ایک ایسے اظہاریے کے طور پر ابھرتی ھے جس کا براہِ راست تعلق طاقت اور سیاست سے ھے۔

اس بات کا ادراک بھی بہت ضروری ھے کہ زبان بولنے والے کے معاشی و معاشرتی مرتبے کا تعلق براہ راست اس کی زبان کی قدرومنزلت سے منسلک ھے۔ اگر کسی مخصوص گروہ کا معاشی و معاشرتی رتبہ بلند ھے تو اس کی زبان بھی بہت اعلیٰ و ارفع اور طاقتور سمجھی جاتی ھے۔ اس سے یہ بات تو کلی طور پر واضح ھو جاتی ھے کہ کوئی زبان کم تر یا بر تر نہیں ھوتی بلکہ زبان بولنے والے کا معاشی و معاشرتی مرتبہ ھی زبان کی معاشرتی حیثیت کا تعین کرتا ھے۔ تمام زبانیں مساوات کی بنیاد پر ایک جیسی ھیں اوران سب کااحترام کیا جانا ضروری ھے۔

پنجابی زبان متحدہ ھندوستان کے بٹوارے سے پہلے بھی سماجی ’ سیاسی اورمعاشرتی حالات کے ستم کا شکار  رھی ھے۔ ھندوستان میں بادشاھوں کی سرپرستی کی وجہ سے فارسی طاقتوروں کی زبان بن گئی اور عدالتوں میں بھی یہی زبان استعمال ھوتی رھی۔ اردو اپنی ساخت اور ذخیرۂ الفاظ کے باعث فارسی کے بہت قریب تھی اور اسی طرح معنویاتی سطح پر پنجابی کے ساتھ خاصی قربت رکھتی تھی اوراسی طرح اردو ھندی کے لئے بھی قابلِ فہم تھی۔ اردو کی اس کثیرالجہتی خصوصیت نے اسے ھندوستان کے مخصوص حصوں اورخصوصاً مسلمانوں میں خاصا مقبول بنا دیا۔ کوئی بھی زبان مافی الضمیر کی ترسیل کے علاوہ انفرادی اور قومی سطح پر شناخت (Identity) کا ایک اھم نشان ھے۔ انسانی تاریخ میں سامراجی قوتوں نے جہاں جہاں قبضہ کیا وھاں کی مقامی زبان کو دانستہ استعمار کا نشانہ بنایا۔ یہی وجہ ھے کہ فارسی جو اس وقت علم وفن کی زبان سمجھی جاتی تھی‘ کو نشانہ بنایا گیا۔

انگریزوں نے سندھ میں فارسی کو سندھی سے بدل کر اس سے چھٹکارا حاصل کر لیا لیکن پنجاب میں حیران کن طور پر فارسی کو پنجابی سے نہیں بدلا گیا بلکہ یہاں پر فارسی کی جگہ اردو نے لے لی۔ ایک توجیہہ جو ایک انگریز افسر نے اپنے خط میں دی یہ تھی کہ اردو پنجابی ھی کی ایک بہتر شکل ھے۔ اس طرح اردو کو زبان (Language) اور پنجابی کو ایک بولی (dialect) کا درجہ دیاگیا۔ جس سے اس کا معاشرتی رتبہ زبان کے مقابلے میں کم ھوگیا۔ اس بات کا فہم بھی بہت ضروری ھے کہ عصر حاضر میں زبانوں کا جائزہ ان کی لسانی خوبیوں یا خامیوں کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ انھیں معاشرتی’ سیاسی اور معاشی پہلوئوں کی بنیاد پر پرکھا جاتا ھے۔

تحریک پاکستان کے دوران زبانیں سیاسی شناخت کے طور پر استعمال کی گئیں۔ ھندی’ اردو اور پنجابی کو ھندوستان کی تین بڑی آبادیوں یعنی ھندوئوں’ مسلمانوں اورسکھوں سے جوڑا گیا۔ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد جن کی مادری زبان پنجابی تھی انہوں نے سیاسی’ سماجی اور معاشی عوامل کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا۔ دوسرا اھم پہلو یہ ھے کہ انفرادی اور قومی سطح پر  زبان ایک اھم شناختی اظہاریہ ھے۔ 1947ء کو آزادی کے بعد قومی زبان کا اھم سوال اٹھایا گیا اور تحریک پاکستان میں جذباتی تعلق کی بنیاد پر اردو کو قومی زبان کے درجے پر فائز کیا گیا۔ دو بہت بڑی زبانیں بنگالی اور پنجابی ' قومی زبان کے اس اھم مرتبے پر فائز نہ ھوسکیں۔ بنگالیوں کا یہ پُرزور مطالبہ تھا کہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی زبان کو بھی یہ درجہ دیاجائے۔ تاھم پنجابی آبادی نے اردو سے والہانہ وابستگی کی بنا پر پنجابی زبان کی حمایت میں کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ اسکی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ پنجاب کی ایک بڑی تعداد فوج میں تھی اوریوں یہ طاقت کے مرکز کے قریب تھی۔ پنجابی اشرفیہ کی ایک بڑی تعدادطاقت کے مرکزی دھارے کے گروھوں میں شامل رھنا چاھتی تھی اوراسی وجہ سے انہوں نے پنجابی کو تیاگ دیا۔

یہ بات حیران کن ھے کہ سندھی سکولوں میں ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ھے اسی طرح خیبرپختونخوا کے کچھ سکولوں میں پشتو بھی پڑھائی جاتی ھے لیکن پنجابی ' پاکستان میں سکول کی تعلیم کاحصہ کبھی نہیں رھی ھے۔ ایسا کیوں ھے؟ کیا اندرونی طور پر اس زبان کے ساتھ کوئی مسئلہ ھے؟ یا یہ لوگوں کے معاشرتی رویوں کی وجہ سے ھے جنہوں نے غیر رسمی طور پر  زندگی میں پنجابی کے لسانی وظیفے کو غیر اھم سمجھا ھے۔ پنجابی زبان سے دُوری کا معاملہ پنجاب کے شہریوں میں بہت نمایاں ھے جہاں والدین گھروں میں اپنے بچوں سے اردو میں گفتگو کرتے ھیں اوراسے باعث امتیاز سمجھتے ھیں۔ یوں اس بات کا اندیشہ ھے کہ بہت سے پنجابی خاندانوں کی آنے والی نسلیں پنجابی زبان کھو بیٹھیں گی۔

ابتدائی تعلیم میں مادری زبان کے کردار کے متعلق اچھی خاصی تحقیق موجود ھے۔ جس کے مطابق بچے کے ذھن میں چیزوں کے تصورات مادری زبان کے استعمال سے زیادہ واضح ھوتے ھیں۔ اگر ھم پنجابی زبان کی بحالی چاھتے ھیں تو اسے پنجاب کے سکولوں میں ایک مضمون کے طور پر شامل کرنا ھو گا۔ یہ بات بھی اھم ھے کہ طلبہ کو یہ بتایا جائے کہ کوئی زبان بھی کم تر یا ادنیٰ نہیں ھوتی۔ تمام زبانیں برابر ھیں اور سب کا ھی احترام کیا جانا چاھیے۔

اسی طرح صوبائی سطح پر اس بات کو سمجھنا بھی بہت اھم ھے کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل251 بہت واضح الفاظ میں یہ کہتا ھے کہ؛ صوبائی زبان کی تدریس اورفروغ کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں گے۔ اس آرٹیکل کے مطابق ” قومی زبان کا تشخص متاثر کئے بغیر صوبائی اسمبلی قانون کے مطابق ایسے اقدامات کی تشخیص کرے گی جن سے قومی زبان کے علاوہ صوبائی زبان کی تدریس’ فروغ اوراستعمال کو جلا ملے گی۔ ‘‘ اب یہ صوبائی اسمبلیوں کی ذمہ داری ھے کہ وہ صوبوں میں زبان کی تدریس اورفروغ کیلئے قوانین پاس کریں۔ پاکستان مختلف زبانوں کا گلدستہ ھے جس میں ھر زبان کا اپنا رنگ اپنی خوشبو اور اپنا ذائقہ ھے۔ اگر اس گلدستے کے رنگوں کو شاداب رکھنا ھے تو ھمیں قومی زبان کے علاوہ پاکستان کے مختلف حصوں میں بولی جانے والی زبانوں کی افزائش کا بھی اھتمام کرنا ھو گا۔

No comments:

Post a Comment