Monday, 30 April 2018

کیا اسٹیبلشمنٹ اور خلائی مخلوق ایک ھی کرادا ھیں یا الگ الگ کردار ھیں؟

مشرف نے 1999 سے 2008 تک حکومت کی۔ زرداری نے 2008 سے 2013 تک حکومت کی۔ مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے دل کھول کر پاکستان میں کرپشن کی۔ نواز شریف کی حکومت 2013 سے شروع ھوئی۔ نواز شریف نے 2013 میں حکومت سمبھالنے کے بعد مشرف اور زرداری کی حکومت کے دور میں ھونے والی کرپشن کا حساب کتاب کرنا تھا۔

چونکہ 2013 کے انتخاب سے پہلے ھی مشرف اور زرداری کو معلوم تھا کہ انتخاب ھونے کی صورت میں کامیاب نواز شریف نے ھوجانا ھے۔ اس لیے مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے 2013 کے انتخاب سے پہلے سے ھی 2013 کے انتخاب کروانے کے بجائے ملک میں مارشل لاء لگوانے یا پھر ٹیکنوکریٹ حکومت بنوانے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کردی۔ اسکے لیے انتخابات ملتوی کرنے کے حربے استعمال کیے گئے لیکن اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز کیانی کے خود کو سیاست سے دور رکھنے اور آئین پر عملدرآمد کرنے کی وجہ سے 2013 کے انتخاب ھوگئے اور حکومت نواز شریف کی بن گئی۔

2013 کے انتخابات کے بعد حکومت سمبھالتے ھی نواز شریف کو 1999 سے لیکر 2008 تک مشرف کے اور 2008 سے 2013 تک زرداری کے اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں تعینات کردہ کرپٹ فوجی و سول سرکاری افسروں سے نجات حاصل کرنا چاھیے تھی اور سیاستدانوں کی کرپشن کے خلاف کاروائی کرنی چاھیے تھی لیکن نواز شریف اس میں ناکام رھا۔

نواز شریف کے 2013 میں حکومت سمبھالنے کے بعد مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے اپنے اپنے دور میں کمائے گئے سرمایہ کا بڑا حصہ خود کو اور اپنے ساتھوں کو بچانے پر لگانا شروع کردیا۔ مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے میڈیا ھاؤس خریدے ' اینکر ' صحافی ' تجزیہ نگار بھرتی کیے۔ پہلے طاھر القادری کے ذریعے میدان سجایا۔ پھر عمران خان کو آگے کرنا شروع کیا۔ اپنے اقتدار کے دور میں بدعنوانیوں میں ملوث رھنے والے ساتھوں کو عمران خان کی پارٹی میں شامل کروایا۔ اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکیسی میں موجود اپنے ساتھیوں کو ' جنہیں اب نواز شریف خلائی مخلوق  کے خطاب سے مخاطب کرتا ھے ' نواز شریف کی مخالفت اور عمران خان کی حمایت پر لگایا۔ عمران خان کے جلسے ھوئے ' جلوس ھوئے ' دھرنے ھوئے۔ مشرف اور زرداری بچے رھے۔ حکومت میں ھونے کے باوجود التا احتساب نواز شریف کا شروع ھوگیا۔

اب پھر سے ملک میں انتخاب ھونے ھیں۔ چونکہ مشرف ' زرداری اور عمران خان کے باھم مشترکہ پروگرام بنا کر اور اپنے اپنے زیرِ اثر پاکستان کے مختلف علاقوں میں نواز شریف کا مقابلہ کرکے پاکستان کی وفاقی حکومت بنانے کے امکانات نہیں ھیں اور حکومت نواز شریف کی ھی بنتی نظر آرھی ھے۔ اس لیے اب ایک بار پھر سے انتخاب پر دھیان دینے سے زیادہ ملک میں مارشل لاء لگوانے یا پھر ٹیکنوکریٹ حکومت بنوانے کے لیے بھاگ دوڑ شروع ھے۔ اسکے لیے انتخابات ملتوی کرنے کے حربے استعمال کیے جارھے ھیں۔

2013 میں نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد اسٹیبلشنٹ کا سربراہ پہلے جنرل راحیل شریف تھا۔ اب جنرل قمر جاوید باجوہ ھے۔ مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسر اور سیاستدان تو عمران خان کو اور اسٹیبلشمنٹ و بیوروکیسی میں موجود اپنے ساتھیوں کو ' جنہیں اب نواز شریف خلائی مخلوق کے خطاب سے مخاطب کرتا ھے ' استعمال کرکے نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے نا اھل کروانے ' ن لیگ کی صدارت سے ھٹوانے ' انتخابات کے لیے تاحیات نا اھل قرار دلوانے کے لیے سرگرم رھے اور بعد ازاں کامیاب بھی ھوگئے لیکن پھر بھی پاکستان کا وزیرِ اعظم اور ن لیگ کا صدر نواز شریف کے نامزد کردہ افراد ھی ھیں۔ ن لیگ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ھوئی ھے اور نواز شریف خود بھی اس وقت ن لیگ کے قائد کے طور پر بھرپور سیاسی سرگرمیاں انجام دے رھا ھے بلکہ روز بروز اپنی مقبولیت میں اٖضافہ کرتا جا رھا ھے۔ 

چیف آف آرمی اسٹاف کی منظوری کے بعد فوج اگر واضح پروگرام اور پالیسی  کے ساتھ ادارے  کے طور پر نواز شریف کی مخالف ھوتی تو پہلے جنرل راحیل شریف نے یا اب جنرل قمر جاوید باجوہ نے نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کردی ھوتی اور ن لیگ بھی ٹوٹ پھوٹ گئی ھوتی۔ اس لیے امکانات یہ ھی ھیں کہ چیف آف آرمی اسٹاف کے خود کو سیاست سے دور رکھنے اور آئین پر عملدرآمد کرنے کی وجہ سے نہ ملک میں مارشل لاء لگنا ھے۔ نہ ٹیکنوکریٹ حکومت بننی ھے۔ نہ انتخابات ملتوی ھونے ھیں۔ اس لیے 2013 کی طرح 2018 کے انتخاب بھی ھوجانے ھیں اور انتخاب میں چیف آف آرمی اسٹاف نے نہ تو نواز شریف کو انتخاب جتوانے کے لیے فوج کے ادارے کو استعمال ھونے دینا ھے اور نہ نواز شریف کو انتخاب میں ھروانے کے لیے عمران خان ' مشرف ' زرداری  کے ساتھوں کی مدد کرنے کے لیے فوج کے ادارے کو استعمال ھونے دینا ھے۔ البتہ مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسر اور سیاستدان ' انکے اسٹیبلشمنٹ و بیوروکیسی میں موجود ساتھی ' جنہیں اب نواز شریف خلائی مخلوق کے خطاب سے مخاطب کرتا ھے اور انکے خریدے ھوئے میڈیا ھاؤس اور انکے بھرتی کیے گئے اینکر ' صحافی ' تجزیہ نگار اپنا کام ضرور جاری رکھیں  گے۔

چیف آف آرمی اسٹاف کی منظوری کے بعد فوج کے واضح پروگرام اور پالیسی کے ساتھ ادارے کے طور پر نواز شریف کی مخالف کے امکانات اس لیے نہیں ھین کہ؛ نواز شریف کے وزاتِ اعظمیٰ ' ن لیگ کی صدارت ' انتخاب کے لیے نا اھل ھونے کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف کی طرف سے اگر فوج کے ادارے کو استعمال کرکے نواز شریف کے تائید کنندہ ن لیگ  کے اراکین کی حکومت نہ بننے دینے کے لیے عمران خان ' مشرف ' زرداری  کے کرپٹ ساتھوں کی مدد کرکے پاکستان میں مخلوط حکومت بنوا دینے کی صورت میں نواز شریف اور ن لیگ کے لیے عوام کی اخلاقی اور سیاسی حمایت میں اضافہ ھوجانا ھے۔ جبکہ عمران خان ' مشرف ' زرداری  کے کرپٹ ساتھوں کی مدد سے تشکیل پانے والی مخلوط حکومت نے نہ ٖصرف پھر سے کرپشن شروع کردینی ھے بلکہ انکی حکومتی کارکردگی بھی ناقص ھونی ھے۔ جس کی وجہ سے نواز شریف اور ن لیگ ایک بہت بڑا سیاسی خطرہ بن جائیں گے۔ جو پاکستان کی مخلوط حکومت چلنے نہیں دیں گے۔ پاکستان کے انتظامی اور معاشی معاملات تو ویسے ھی 2013 سے نواز شریف کو وزاتِ اعظمیٰ ' ن لیگ کی صدارت ' انتخاب  کے لیے نا اھل کروانے کی سرگرمیوں کی وجہ سے تباہ اور برباد ھو ھی رھے ھیں لہٰذا مستقبل میں مزید تباہ اور برباد ھوں  گے۔ کیونکہ سیاسی عدمِ استحکام کا اثر سب سے زیادہ ملک کے انتظامی اور معاشی معاملات پر ھی پڑا کرتا ھے۔ جبکہ سیاسی بحران ملک کے انتظامی اور معاشی معاملات کو تباہ اور برباد کردیتے ھیں۔

پاکستان کے اس داخلی سیاسی بحران میں بین الاقوامی طاقتوں کی دخل اندازی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پنجاب کی آبادی پاکستان کی 60٪ آبادی ھے۔ صرف پنجاب سے ھی قومی اسمبلی کی نشستیں جیت کر پاکستان کی وفاقی حکومت بنائی جاسکتی ھے۔ بلکہ 2013 کے انتخاب میں نواز شریف نے پنجاب سے ھی قومی اسمبلی کی نشستیں جیت کر پاکستان کی وفاقی حکومت بنالی تھی۔ نواز شریف کے پنجاب کی عوام کے مقبول ترین سیاسی رھنما ھونے کی وجہ سے نواز شریف کی وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھلی کے بعد پنجاب میں سیاست کا تندور گرم ھوگیا ھے۔ جب تندور گرم ھوتا ھے تو پڑوسی بھی روٹیاں لگا لیتے ھیں۔ اس لیے اب یہ ناممکن ھے کہ؛ پڑوسی روٹیاں نہ لگائیں۔ بلکہ پنجاب میں گرم ھونے والے سیاست کے تندور پر تو لگتا ھے کہ؛ امریکہ ' چین اور روس نے بھی روٹیاں لگانے والوں میں شامل ھو جانا ھے۔ جبکہ سیاست کے تندور کو زیادہ دیر تک اور زیادہ گرم رکھنے کے لیے کچھ  نے تو تندور میں ایندھن بھی ڈالنا شروع کر دینا ھے۔ دراصل پاکستان میں " نیو گریٹ گیم " کا کھیل اپنے عروج پر ھے۔ پاکستان میں اس کھیل کے اھم بین الاقوامی کھلاڑی امریکہ اور چین ھیں جبکہ پاکستان میں سے قومی سطح  کے کھلاڑی پاکستان کی فوج کا سربراہ ھونے کی وجہ سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاکستان میں سب سے زیادہ عوامی حمایت حاصل ھونے اور خاص طور پر پنجاب سے عوامی حمایت حاصل ھونے کی وجہ سے نواز شریف ھیں۔ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے واضح طور پر کھل کر امریکن کیمپ یا چینی کیمپ کی طرف سے کھیل کھیلنے کا فیصلہ کرنے تک اب پاکستان میں سیاسی انتشار میں روز با روز اضافہ ھوتا جانا ھے۔


پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مفاد میں تو بہتر یہ ھی تھا کہ وزیرِ اعظم ھوتے ھوئے نواز شریف اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ باھمی مشاورت  کے ساتھ واضح طور پر امریکن یا چینی کیمپ میں جانے کا فیصلہ کرتے۔ لیکن نواز شریف کے وزیرِ اعظم کے طور پر برطرفی کے بعد جو صورتحال پیدا ھو چکی ھے ' اسکے بعد زیادہ امکانات تو یہ ھی ھیں کہ اب نواز شریف اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ واضح طور پر امریکن یا چینی کیمپ میں جانے کا فیصلہ اپنے اپنے طور پر کریں گے۔ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے پاکستان کے قومی کھلاڑی ھونے کی وجہ سے الگ الگ کیمپ میں جانے کی صورت میں پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے درمیان ٹکراؤ ھوگا جس سے نقصان پاکستان اور پاکستان کے عوام کا ھوگا۔ جبکہ ایک ھی کیمپ میں جانے کی صورت میں پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے درمیان باھمی تعاون کا طریقہ کار بلآخر طے کرنا ھی پڑنا ھے۔

Saturday, 28 April 2018

سندھ ‘ بلوچستان ‘ خیبرپختونخوا کے مزید صوبے بنائے جائیں۔


پنجاب ‘ پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ اور پنجابی ‘ پاکستان کی سب سے بڑی قوم ھے۔ اس لیے پنجابی قوم کو بھی پاکستان پر راج کرنے کا ویسے ھی حق ھے جیسے اترپردیش کے ھندی - اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو حق ھے کہ؛ بھارت کی سب سے بڑی قوم ھونے کے ناطے بھارت پر راج کریں۔ خود اپنے آپ کو متحد رکھیں اور دوسری قوموں کو علاقوں اور زبانوں کے لہجوں کی بنیاد پر تقسیم کرتے رھیں۔

بھارت میں ھندی - اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے بھارت کی 20٪ آبادی ھوتے ھوئے تیلگو ' تامل ' ملایالم ' مراٹھی ' گجراتی ' راجستھانی ' کنڑا ' اڑیہ ' آسامی ' بھوجپوری ' بنگالی اور پنجابی قوموں  کو اپنی بالادستی میں رکھا ھوا ھے لیکن پاکستان کی 60٪ پنجابی آبادی والی پنجابی قوم ' پاکستان کے 3 صوبوں میں رھنے والے پٹھانوں ' بلوچوں اور اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے میں ناکام ھے۔

بھارت میں اس وقت بھی اترپردیش کے صوبے کی آبادی 22 کروڑ 80 لاکھ ھے۔ جبکہ اس وقت سارے پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ھے۔ لیکن اس کے باوجود اترپردیش کو تقسیم کرکے مزید صوبے نہیں بنائے جا رھے۔ بلکہ بھارت کی دوسری قوموں کو علاقوں اور زبانوں کے لہجوں کی بنیاد پر تقسیم کیا جا رھا ھے۔ تاکہ اترپردیش کے ھندی - اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے خلاف بھارت میں کوئی قوم کھڑی نہ ھو سکے۔ لیکن پاکستان میں گنگا الٹی بہہ رھی ھے۔ چھوٹے صوبوں کے لوگ تو پنجاب اور پنجابیوں کو اپنے نیچے لگائے رکھنے کے لیے پنجاب کو علاقوں اور پنجابی زبان کے لہجوں کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاھتے ھی ھیں۔ لیکن پنجاب کے اندر رھنے والے کچھ پنجاب دشمن بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد گیلانی ' قریشی ' عباسی بھی پنجاب کو تقسیم کرکے پنجاب کو تباہ اور پنجابی قوم کو برباد کرنے پر تلے بیٹھے ھیں۔

اگر صوبے بنانے سے امن ‘ سکون اور خوشحالی آجاتی ھے تو علاقے کے لحاظ سے بلوچستان ‘ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ھے۔ جبکہ بلوچستان میں بلوچوں کے علاوہ براھوئی اور پشتون بھی رھتے ھیں۔ اس لیے بلوچستان کے 3 صوبے ; کوئٹہ ‘ قلات ‘ مکران بنا دینے چاھئیں۔ تاکہ بلوچستان میں امن ‘ سکون اور خوشحالی آجائے اور بلوچستان کے براھوئی ‘ پشتون اور بلوچ ترقی کرسکیں۔

پاکستان میں سندھ صوبہ آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا صوبہ ھے۔ جبکہ سندھ میں سندھیوں کے علاوہ پنجابی ‘ پٹھان ‘ بلوچ ‘براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ‘ راجستھانی ‘ یوپی والے ‘ سی پی والے اور بہاری بھی رھتے ھیں۔ اس لیے سندھ کے بھی 3 صوبے؛ کراچی ‘ حیدرآباد ‘ سکھر بنا دینے چاھئیں۔ تاکہ سندھ میں امن ‘ سکون اور خوشحالی آجائے اور سندھ کے سندھی ' پنجابی ‘ پٹھان ‘ بلوچ ‘براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' جترالی ' سواتی ' گجراتی ‘ راجستھانی ‘ یوپی والے ‘ سی پی والے اور بہاری ترقی کرسکیں۔

خیبر پختونخوا 1901 تک پنجاب کا ھی حصہ تھا۔ انگریز نے پنجاب کے مغربی علاقوں کو پنجاب سے الگ کر کے نارتھ ویسٹرن فرنٹیر پرووینس ( صوبہ سرحد ) بنا دیا تھا۔ جس کا نام بلوچ آصف زرداری کی پارٹی پی پی پی کی حکومت کے دور میں 2010 میں صوبہ سرحد کے بجائے خیبر پختونخوا کر دیا گیا۔ خیبر پختونخوا کے بھی 3 صوبے; پشاور ‘ ایبٹ آباد ‘ ڈیرہ اسماعیل خان بنا دینے چاھئیں۔ تاکہ خیبر پختونخوا میں امن ‘ سکون اور خوشحالی آجائے اور خیبر پختونخوا کے پختون ' ھندکو پنجابی ' ڈیرہ والی پنجابی ' کوھستانی ' چترالی اور سواتی ترقی کرسکیں۔ 

Friday, 27 April 2018

آصف زرداری کا 2018 کے انتخاب میں کیا کردار ھوگا؟

پاکستان میں 2008 سے 2013 تک پاکستان کی وفاقی جبکہ سندھ کی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت پی پی پی کی رھی۔ خیبر پختونخواہ میں پی پی پی اور اے این پی کی مخلوط حکومت رھی اور آصف زرداری پاکستان کا صدر رھا۔ اس لیے 2013 کے انتخاب کے وقت سندھ کے اور جنوبی پنجاب کے بلوچوں اور عربی نزاد سیدوں کی حمایت حاصل ھونے کے علاوہ آصف زرداری کی سیاسی پارٹی پی پی پی کا خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں بھی وجود تھا جبکہ پنجاب میں ن لیگ کے بعد پی پی پی ھی دوسری بڑی سیاسی پارٹی تھی۔

لیکن 2013 کے انتخاب میں نہ صرف پی پی پی کا خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے صفایا ھوگیا بلکہ پنجاب میں بھی ن لیگ کے بعد پی پی پی دوسری بڑی سیاسی پارٹی نہ رھی اور پی ٹی آئی نے پی پی پی کی جگہ لے لی۔ اس لیے 2013 کے مقابلے میں 2018 میں سیاسی طور پر آصف زرداری کی سیاسی حیثیت بہت کمزور ھے۔ اب 2018 کے انتخاب میں پی پی پی کا خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ھی نہیں بلکہ پنجاب میں بھی وجود نہ ھونے کی وجہ سے پی پی پی کا اور آصف زرداری کا سیاسی کردار سمٹ کر سندھ تک محدود ھوچکا ھے بلکہ دیہی سندھ تک محدود ھوچکا ھے۔

2013 کے انتخاب میں آصف زرداری سندھ کی حکومت بنانے میں آسانی سے کامیاب ھوگیا تھا لیکن اب 2013 کے بعد سے لیکر دیہی سندھ میں آصف زرداری کے لیے اور سندھ کی حکومت کے لیے انتہائی نا پسندیدگی پائی جاتی ھے۔ جبکہ کراچی میں پہلے سے ھی آصف زرداری اور پی پی پی کا اثر نہ ھونے کے برابر تھا لیکن 2013 سے لیکر  سندھ حکومت کی کراچی میں لوٹ مار کی وجہ سے بالکل ختم ھوچکا ھے۔

اس لیے نواز شریف نے اگر دیہی سندھ میں سے سیاسی حمایت حاصل کرلی یا سندھ کے سماٹ اور سید خود کو متحد اور منظم کرنے میں کامیاب ھوگئے تو پھر 2018 کے انتخاب میں آصف زرداری کی حمایت صرف دیہی سندھ کے بلوچوں تک محدود ھوجانی ھے اور آصف زرداری نے تنہا سندھ کی حکومت بنانے کے قابل نہیں رھنا اور سندھ کی آئندھ حکومت مخلوط بنے گی۔

اس کے علاوہ نگراں حکومت کے قائم ھوتے ھی 2013 سے لیکر سندھ کی صوبائی حکومت کی طرف سے کی جانے والی کرپشن کے خلاف نیب کی کاروائی کے امکانات بھی ھیں۔ جسکی وجہ سے پی پی پی کے اھم رھنماؤں کی گرفتاری ھوجانی ھے۔ اس لیے 2013 کے انتخاب کے مقابلے میں 2018 کے انتخاب میں آصف زرداری کا کردار نہ ھونے کے برابر ھے۔

Tuesday, 24 April 2018

پرویز مشرف کا 2018 کے انتخاب میں کیا کردار ھوگا؟

پاکستان میں 1999 میں مارشل لاء نافذ کرنے کے بعد طویل عرصے تک پاکستان کا حکمراں رھنے کی وجہ سے فوج میں لابی مظبوط ھونے کی بنا پر پرویز مشرف کو 2013 کے انتخاب کے وقت فوج سے حمایت حاصل تھی جبکہ پرویز مشرف کی تزئین اور آرائش کردہ مھاجر سیاسی پارٹی ایم کیو ایم بھی طویل عرصے تک پرویز مشرف کی آشیرباد سے پاکستان کی وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومت میں اھم شراکت دار رھنے اور کراچی پر مکمل طور پر قابض رھنے کی وجہ سے مظبوط تھی۔ اس لیے پرویز مشرف کو کراچی کے مھاجروں کی بھی سپورٹ حاصل تھی۔ جبکہ پرویز مشرف کی 2002 کے انتخابات کے وقت بنائی گئی اور 2002 سے لیکر 2008 تک پاکستان کے وفاق اور پاکستان کے چاروں صوبوں پر حکمراں رھنے والی ق لیگ کے بھی کچھ آثار خاص طور پر پنجاب میں اور کسی حد تک سندھ میں موجود تھے۔

لیکن اب 2018 کے انتخاب میں فوج میں سے پرویز مشرف کے تعینات کردہ اعلیٰ افسروں کے ریٹارڈ ھو جانے کی وجہ سے پرویز مشرف کی فوج میں لابی اتنی مظبوط نہیں ھے جتنی 2013 کے انتخاب میں مظبوط تھی۔ پنجاب میں سے ق لیگ کا وجود ختم ھوچکا ھے۔ پرویز مشرف کی اپنی مسلم لیگ کا وجود صرف کاغذی جماعت جیسا ھے۔ جبکہ ایم کیو ایم کے تتر بتتر ھوجانے کی وجہ سے اور 2013 سے 2018 تک پاکستان کی وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومت میں مھاجروں کو شراکت نہ ملنے اور کراچی کے معاملات میں بالادستی ختم ھوجانے کی وجہ سے کراچی کا مھاجر بھی سیاسی طور پر مفلوک الحال ھے۔ اس لیے 2013 کے مقابلے میں 2018 میں سیاسی طور پر پرویز مشرف کی سیاسی حیثیت بہت کمزور ھے۔


پرویز مشرف 2013 میں انتخابات کے وقت پاکستان آیا تھا تو نگراں حکومت کے ھوتے ھوئے بھی عدالت میں پیشیاں اور ذلت سمیٹتا رھا اور انتہائی ذلیل اور خوار ھونے کے بعد بڑی مشکل سے علاج کے بہانے پاکستان سے باھر جانے میں کامیاب ھوا۔ اب 2018 میں نہ مشرف کی 2013 جیسی سپورٹ فوج میں ھے نہ اس وقت کراچی کے مھاجر سیاسی طور پر اتنے مظبوط ھیں جتنے 2013 میں تھے۔ نہ ق لیگ کا وجود باقی بچا ھے۔ جبکہ خود عدالتی مفرور بھی ھے۔ اس لیے اب اگر 2018 کے انتخابات کے لیے پرویز مشرف پاکستان آیا تو 2013 سے زیادہ ذلیل اورخوار ھوگا اور عدالتی مفرور ھونے کی وجہ سے شاید دوبارہ پاکستان سے جا بھی نہ پائے۔ اس لیے 2013 کے انتخاب کے مقابلے میں 2018 کے انتخاب میں پرویز مشرف کا کردار نہ ھونے کے برابر ھے۔

Saturday, 21 April 2018

کیا پاکستان کی مستقبل کی سیاست مزید تباھی اور بربادی لائے گی؟

پاکستان کی سیاست 4 افراد مھاجر مشرف ' بلوچ آصف زرداری ' پٹھان عمران خان ' پنجابی نواز شریف کے گرد گھوم رھی تھی۔ مھاجر مشرف اب پاکستان کی سیاست سے فارغ ھوچکا ھے۔ مھاجروں کے پاس اب مشرف کا متبادل لیڈر بھی نہیں ھے۔ اس لیے مھاجروں کا اب پاکستان کی مستقبل کی سیاست میں کوئی کردار نظر نہیں آتا۔

بلوچ آصف زرداری اب جون 2018 میں سندھ حکومت کی مدت ختم ھونے کے بعد فارغ ھونے والا ھے۔ سندھ کے بلوچوں اور جنوبی پنجاب کے بلوچوں کے پاس بلوچ آصف زرداری کا متبادل لیڈر بھی نہیں ھے۔ اس لیے سندھ کے بلوچوں اور جنوبی پنجاب کے بلوچوں کا اب پاکستان کی مستقبل کی سیاست میں کوئی کردار نظر نہیں آتا۔

پٹھان عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی نے جولائی 2018 میں ھونے والے انتخابات میں 2013 کے مقابلے میں نہ صرف پنجاب سے کم نشستیں لینی ھیں۔ بلکہ خیبر پختونخواہ سے بھی نشستیں نہیں لے پانیں۔ خیبر پختونخواہ سے ن لیگ ' جے یو آئی ' اے این پی اور آزاد امیدواروں نے پٹھان عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی کو خیبر پختونخواہ سے بری طرح شکست دے دینی ھے۔ جبکہ بلوچستان ' سندھ اور کراچی میں ویسے ھی پٹھان عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی کا وجود نہیں ھے۔ اس لیے پٹھان عمران خان نے 2018 کے انتخاب کے بعد پاکستان کی سیاست سے فارغ ھو جانا ھے۔ پٹھان قیادت خیبر پختونخواہ میں اسفند یار ولی اور بلوچستان میں محمود اچکزئی جیسے مقامی سیاستدانوں تک محدود رھنی ھے۔ جبکہ پنجاب ' سندھ اور کراچی کے پٹھانوں کا اب پاکستان کی مستقبل کی سیاست میں کوئی کردار نظر نہیں آتا۔

پنجابی نواز شریف کو وزاتِ اعظمیٰ ' ن لیگ کی صدارت ' انتخاب کے لیے نا اھل کرنے کے باوجود پاکستان کی سیاست سے نہیں نکالا جا پا رھا۔ پنجاب میں مھاجر مشرف ' بلوچ آصف زرداری ' پٹھان عمران خان مل کر بھی پنجابی نواز شریف کے تائید کردہ اراکین کو شکست نہیں دے پائیں گے۔ پنجاب کی آئندہ صوبائی حکومت پنجابی نواز شریف کے تائید کردہ اراکین ھی بناتے نظر آرھے ھیں۔ پاکستان کی وفاقی حکومت بنانے کے لیے 137 نشستیں درکار ھوتی ھیں۔ پنجاب میں پاکستان کی قومی اسمبلی کی 144 نشستیں ھیں۔ وزاتِ اعظمیٰ ' ن لیگ کی صدارت ' انتخاب کے لیے نا اھل کروانے والوں کی کوششوں کے باوجود پنجابی نواز شریف کے تائید کنندگان یا تو پنجاب سے ھی نشستیں حاصل کرکے پاکستان کی وفاقی حکومت بنالیں گے یا پھر پاکستان کی بننے والی مخلوط حکومت کی 100 سے زیادہ نشستوں کے ساتھ واحد جماعت کی صورت میں بہت مظبوط اپوزیشن ھوں گے۔ اس صورت میں پنجابی نواز شریف کو وزاتِ اعظمیٰ ' ن لیگ کی صدارت ' انتخاب کے لیے نا اھل کروانے والوں کے لیے پنجابی نواز شریف ایک بہت بڑا سیاسی خطرہ بن جائے گا۔ جو نہ تو پاکستان کی مخلوط حکومت چلنے دے گا اور نہ پنجابی نواز شریف کو وزاتِ اعظمیٰ ' ن لیگ کی صدارت ' انتخاب کے لیے نا اھل کروانے والوں کو چین سے رھنے دے گا۔ پاکستان کے انتظامی اور معاشی معاملات تو ویسے ھی 2013 سے پنجابی نواز شریف کو وزاتِ اعظمیٰ ' ن لیگ کی صدارت ' انتخاب کے لیے نا اھل کروانے کی سرگرمیوں کی وجہ سے تباہ اور برباد ھو ھی رھے ھیں لہٰذا مستقبل میں مزید تباہ اور برباد ھوں گے۔ کیونکہ سیاسی عدمِ استحکام کا اثر سب سے زیادہ ملک کے انتظامی اور معاشی معاملات پر ھی پڑا کرتا ھے۔ جبکہ سیاسی بحران ملک کے انتظامی اور معاشی معاملات کو تباہ اور برباد کردیتے ھیں۔

Thursday, 19 April 2018

پاکستان میں ھونے والے سیاسی کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار کیا ھوگا؟

سیاست کے کھیل میں عوام کا ' سیاسی کارکنوں کا ' صحافیوں کا ' اسٹیبلشمنٹ کا اپنا اپنا کردار ھوتا ھے۔ پاکستان میں ھونے والے موجودہ سیاسی کھیل میں سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کے طرزِ عمل سے یہ تاثر ابھر رھا ھے کہ یہ کھیل؛ پٹھان عمران خان ' بلوچ آصف زرداری ' مھاجر مشرف بمقابلہ پنجابی نواز شریف یا بمقابلہ پنجاب یا بمقابلہ پنجابی سیاسی کھیل ھے۔

بمقابلہ پنجابی نواز شریف یا بمقابلہ پنجاب یا بمقابلہ پنجابی سیاسی کھیل کی وجہ سے پٹھان صحافی پٹھان عمران خان کو ' بلوچ صحافی بلوچ آصف زرداری کو ' مھاجر صحافی مھاجر مشرف کو بڑہ چڑہ کر سپورٹ کر رھے ھیں۔ جبکہ پنجابی نواز شریف کی مخالفت کے لیے باھم متفق اور ھم آواز ھیں۔ اس مہم میں البتہ انہوں نے نواز شریف کے مخالف کچھ پنجابی بھی اپنے ساتھ شریک کیے ھوئے ھیں۔

بمقابلہ پنجابی نواز شریف یا بمقابلہ پنجاب یا بمقابلہ پنجابی سیاسی کھیل کی وجہ سے پٹھان سیاسی کارکن پٹھان عمران خان کو ' بلوچ سیاسی کارکن بلوچ آصف زرداری کو ' مھاجر سیاسی کارکن مھاجر مشرف کو بڑہ چڑہ کر سپورٹ کر نے لگے ھیں۔ جبکہ پنجابی نواز شریف کی مخالفت کے لیے باھم متفق اور ھم آواز ھیں۔ اس مہم میں البتہ انہوں نے نواز شریف کے مخالف کچھ پنجابی بھی اپنے ساتھ شریک کیے ھوئے ھیں۔

ان وجوھات کی بنا پر؛ پاکستان کی عوام کی صف بندی پٹھان ' بلوچ ' مھاجر بمقابلہ پنجابی نواز شریف یا پنجاب یا پنجابی ھوتی جا رھی ھے۔ اسٹیبلشمنٹ چونکہ عوام کے جذبات ' سیاسی کارکنوں کی رائے ' صحافیوں کی سوچ سے متاثر ھوا کرتی ھے۔ اس لیے امکان ھے کہ؛ بمقابلہ پنجابی نواز شریف یا بمقابلہ پنجاب یا بمقابلہ پنجابی سیاسی کھیل کی وجہ سے اب اسٹیبلشمنٹ میں بھی سیاسی محاذ آرائی ھوسکتی ھے۔ پٹھان اسٹیبلشمنٹ پٹھان عمران خان کو ' بلوچ اسٹیبلشمنٹ بلوچ آصف زرداری کو ' مھاجر اسٹیبلشمنٹ مھاجر مشرف کو بڑہ چڑہ کر سپورٹ کر ے گی۔

بمقابلہ پنجابی نواز شریف یا بمقابلہ پنجاب یا بمقابلہ پنجابی سیاسی کھیل میں پنجابی عوام ' پنجابی سیاسی کارکنوں ' پنجابی صحافیوں ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی اکثریت ابھی تک گومگو کے عالم میں ھے۔ جبکہ سماٹ ' ھندکو اور بروھی بھی پاکستان کی سیاست میں ھونے والی نئی صف بندی کو غور سے دیکھ رھے ھیں۔

پاکستان کی 60٪ آبادی چونکہ پنجابی ھے۔ اس لیے پاکستان میں ھونے والے موجودہ سیاست کے کھیل میں فیصلہ کن کردار بہرحال پنجابی عوام ' پنجابی سیاسی کارکنوں ' پنجابی صحافیوں ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ کا ھی ھوگا۔

پاکستان میں ھونے والے موجودہ سیاسی کھیل میں سے پنجابی نواز شریف کے نکل جانے کی صورت میں یا پنجابی نواز شریف کو سیاسی کھیل میں سے نکال دینے کی صورت میں مستقبل کا سیاسی کھیل بمقابلہ پنجابی نواز شریف یا بمقابلہ پنجاب یا بمقابلہ پنجابی سیاسی کھیل کے بجائے بمقابلہ پنجاب یا بمقابلہ پنجابی سیاسی کھیل میں بھی تبدیل ھوسکتا ھے۔

Wednesday, 18 April 2018

ادھم سنگھ ' جلیانوالہ باغ اور جنرل ڈائر

مشرقی پنجاب میں مھاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد کا ایک باغ ہے جہاں 13 اپریل 1919ء کو انگریز فوج نے سینکڑوں پنجابی حریت پسندوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس قتل عام کا باعث رسوائے زمانہ رولٹ ایکٹ مجریہ 21 مارچ 1919 ء تھا۔ رولٹ ایکٹ کے ذریعے پنجابیوں کی رہی سہی آزادی بھی سلب کر لی گئی تھی۔ سارے پنجاب میں مظاہروں اور ہڑتالوں کے ذریعے رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج کیا جا رہا تھا اور امرتسر میں بھی بغاوت کی سی حالت تھی۔

13 اپریل 1919ء بروز اتوار امرتسر کے شہری شام کے 4 بجے اپنے رہنماؤں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے لیے جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے۔ حکومت نے جلسے جلوسوں پر تین روز قبل پابندی لگا دی تھی۔ جلیانوالہ باغ دو سو گز لمبا اور ایک سو گز چوڑا تھا۔ اس کے چاروں طرف دیوار تھی اور دیوار کے ساتھ ہی مکانات تھے۔ باہر نکلنے کے لیے ایک چھوٹا سا تنگ راستہ تھا۔ تمام باغ کچھا کھچ بھرا ہوا تھا اور لوگ مقرریں کی تقرریں سن رہے تھے۔ 13 اپریل کو شام ساڑھے چار بجے تک امرتسر اور گرد و نواح سے تقریباً پندرہ سے بیس ہزار تک افراد باغ میں جمع ہو چکے تھے۔

پانچ بج کر پندرہ منٹ پر جنرل ڈائر نے پچاس فوجیوں اور دو آرمرڈ گاڑیوں کے ساتھ جلیانوالہ باغ پہنچ کر کسی اشتعال کے بغیر مجمع پر فائرنگ کا حکم دیا۔ اس حکم پر عمل ہوا اور چند منٹوں میں سینکڑوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لاتعداد لوگوں نے باغ کے کونے میں بنے ہوئے کنویں میں چھلانگیں لگائیں تاکہ اپنی جانیں بچا سکیں لیکن ان پر بھی فائرنگ کر دی گئی۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق کنویں سے ایک سو بیس لاشیں نکالی گئیں اور باقی نہ نکالی جا سکیں۔

فائرنگ بیس منٹ جاری رہی جس کے بعد جنرل ڈائر اور ان کے ماتحت فوجی واپس روانہ ہو گئے۔ اس دوران تھری ناٹ تھری کے 1650 راؤنڈ فائر کئے گئے۔ جنرل ڈائر کے اندازے کے مطابق فائر کی گئی چھ گولیوں میں سے ایک گولی جانلیوا ثابت ہوئی اور اس حساب سے مرنے والوں کی تعداد دو سو سے تین سو تھی جبکہ برطانوی حکومت کے ریکارڈ کے مطابق مرنے والوں کی تعداد تین سو اناسی اور زخمیوں کی تعداد بارہ سو تھی۔ تاہم غیر سرکاری اعداد و شمار اس کے برعکس ہیں۔ پنڈت مدن موہن مالویہ کا ' جنہوں نے اس واقعہ کے فوراً بعد امرتسر پہنچ کر اپنے ساتھیوں کی مدد سے اعداد و شمار جمع کئے ' ان کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی۔ اتنے بے گناہ لوگوں کی جان لینے والا جنرل ڈائر المناک انجام سے نہ بچ سکا اور 13مارچ 1940 کو اودھم سنگھ نے اسے لندن جا کر کیفر کردار تک پہنچا دیا۔

1920 میں جلیانوالہ باغ کو پانچ لاکھ ساٹھ ہزار چار سو بیالیس روپے میں خرید لیا گیا لیکن برصغیر کی آزادی تک یہاں یادگار تعمیر نہ کی جا سکی۔ آزادی کے فوراً بعد اس یادگار کی تعمیر شروع ہوئی جو 1961 میں مکمل ہوئی جس پر سوا نو لاکھ روپے خرچ اٹھا اور اسے شعلہ آزادی کا نام دیا گیا اور اس کا افتتاح ڈاکٹر راجندر پرشاد نے کیا جو جمہوریہ بھارت کے پہلے صدر تھے۔ مرکزی یادگار کی انچائی تیس فٹ ہے۔

سانحہ جلیانوالہ باغ جدید انسانی تاریخ اور آزادی کی تحریکوں کا سب سے المناک واقعہ ہے جو حکمرانوں کی سنگدلی اور تنگ نظری کا مظہر بھی ہے۔ جلیانوالہ باغ کا پورا ماحول اب بھی بنا پوچھے خاموشی سے تمام داستان بیان کر دیتا ہے۔

پنجاب تباہ ' پنجابی قوم برباد اور پنجابی " بستہ ب بدمعاش " کیسے بنا؟

جب "3 جون 1947 کے لارڈ ماونٹ بیٹن پلان" کی سفارشات کے بعد برطانیہ کی پارلیمنٹ کے " انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ 15 جولائی 1947" کے تحت 15 اگست 1947 کو پاکستان اور بھارت کے قیام کا اعلان کیا گیا تو اس وقت پنجاب نہ پاکستان میں تھا اور نہ بھارت میں تھا۔ پاکستان کا قیام 15 اگست 1947 کو عمل میں آیا اور پنجاب کو 17 اگست 1947 کو تقسیم کرکے پاکستان اور بھارت میں شامل کیا گیا۔ اس لیے پاکستان کے قیام کے 2 دن کے بعد 17 اگست 1947 کو پنجابیوں کو بتایا گیا کہ پنجاب کے کون سے اضلاع پاکستان میں شامل کردیے گئے ھیں اور کون سے اضلاع بھارت میں شامل کردیے گئے ھیں۔ جبکہ پنجاب کو تقسیم کرنے والی 10 ارکان پر مشتمل کمیٹی میں قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کسی مسلمان پنجابی کو شامل نہیں کیا تھا۔ بحرحال 17 اگست 1947 کو پنجاب کو تقسیم کرکے 17 مسلم پنجابی اکثریتی اضلاع پاکستان میں شامل کردیے گئے اور 12 ھندو پنجابی و سکھ پنجابی اکثریتی اضلاع بھارت میں شامل کردیے گئے۔

پاکستان کے قائم ھونے کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی آبادی بنگالی ھونی تھی اور دوسری بڑی آبادی پنجابی ھونی تھی۔ اس لیے پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کا گورنر جنرل بنگالی کو بننا چاھیے تھا جبکہ وزیرِ اعظم پنجابی ھونا چاھیے تھا۔ لیکن 15 اگست کو پاکستان کے قیام کے اعلان سے ایک دن پہلے ھی ٹھٹھہ کے علاقے جھرک میں پیدا ھونے والے سندھی خوجے جناح پونجا کے بیٹے محمد علی نے ' جسے قائد اعظم بھی کہا جاتا تھا ' 14 اگست کو پاکستان کے گورنر جنرل کا حلف اٹھا لیا اور اترپردیش سے کراچی پہنچ جانے والے اردو بولنے والے ھندوستانی لیاقت علی خاں کو پاکستان کا وزیرِ اعظم بنا کر سندھ میں پاکستان کے قیام کا جشن منانا شروع کریا گیا۔ جبکہ پنجاب میں پنجابی پنجاب کی تقسیم کا اعلان ھو جانے کی وجہ سے ایک دوسرے کی لاشیں گرا رھے تھے اور پنجاب کے علاقوں کی بھارت اور پاکستان میں بندر باٹ کا انتظار کر رھے تھے۔

17 اگست 1947 کو پنجاب کی تقسیم ھوجانے کی وجہ سے مسلمان پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کو ' جو سارے پنجاب میں آپس میں مل جل کر رھتے تھے ' پنجاب کے مسلم اور غیر مسلم قرار دیے جانے والے علاقوں میں نقل مکانی شروع کرنا پڑی۔ جسکی وجہ سے مزید مار دھاڑ ' لوٹ مار اور قتل و غارتگری کا سلسلہ شروع ھوا اور اگست سے لیکر دسمبر 1947 تک 20 لاکھ پنجابی مارے گئے۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی قتل و غارتگری قرار دی جاتی ھے۔ جبکہ 2 کروڑ پنجابیوں نے نقل مکانی کی۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی نقل مکانی قرار دی جاتی ھے۔ سندھی محمد علی جناح نے پاکستان بنانے کے لیے پنجاب تقسیم کروا دیا۔ 20 لاکھ پنجابی مروا دیے۔ 2 کروڑ پنجابی بے گھر کروا دیے۔ پنجاب میں پنجابیوں کی سیاسی پارٹی یونینسٹ کو ھرانے اور آل انڈیا مسلم لیگ کو 1946 کا الیکشن جتوانے کے لیے سندھی محمد علی جناح نے پنجاب میں مذھبی نفرت کی جو آگ لگائی ' پنجابی قوم اب تک اس میں جل رھی ھے۔

سندھی محمد علی جناح نے برطانوی ایجنڈے اور یوپی ' سی پی والوں کے سیاسی مفادات پر کام کر کے جو ظلم پنجابی قوم پر کیا اس نے پنجاب کو تباہ اور پنجابی قوم کو برباد کردیا۔ جبکہ پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے 20 لاکھ پنجابیوں کے مارے جانے اور 2 کروڑ پنجابیوں کے بے گھر ھوجانے کا فائدہ اٹھاتے ھوئے عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھیوں ' ھندوستانی مھاجروں ‘ پٹھانوں ‘ بلوچوں نے خود تو حکومت کے سیاسی و انتظامی عہدوں ' زمینوں ' جائدادوں پر قبضے کرنے اور لوٹ مار کرنے جبکہ الزام پنجابیوں پر لگا لگا کر پنجابیوں کی ایسی تسی کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا تاکہ مغربی پاکستان سے ایک ھزار میل دور بیٹھی پاکستان کی سب سے بڑی آبادی مشرقی پاکستان کے بنگالی یہ سمجھیں کہ مغربی پاکستان میں قبضہ گیری اور لوٹ مار مغربی پاکستان کی سب سے بڑی آبادی پنجابی کر رھی ھے۔ اس تاثر کو یقینی بنانے کے لیے منظم طور پر یہ پروپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ پاکستان کا وزیرِ اعظم لیاقت علی خاں مشرقی پنجاب کے علاقے کرنال میں پیدا ھوا اس لیے وہ پنجابی ھے۔ جس سے بنگالیوں کی پنجابیوں سے شکایت نے جنم لیا کہ پنجابی قوم نے اپنے لیے تو پاکستان کی وزارتِ اعظمٰی لے لی لیکن پاکستان کا گورنر جنرل بننے کا حق بنگالیوں کے بجائے سندھیوں کو دلوا دیا۔

پنجابیوں کے اجڑے ' برباد اور بے گھر ھونے اور حکومت کے سیاسی عھدوں پر نہ ھونے کی وجہ سے پنجابیوں کے خلاف حکومتی سطح پر ھونے والے پروپیگنڈہ کا پنجابیوں کی طرف سے جواب نہ دے پانے اور خاموش رھنے کی وجہ سے یہ سلسلہ مسلسل جاری رھا۔ اس لیے بنگالیوں کے ساتھ ساتھ مغربی پاکستان ھی کے سماٹ ' ھندکو ' بروھی نے بھی اس پر یقین کرنا شروع کرلیا۔ لہٰذا پنجابی " بستہ ب بدمعاش " بن گیا۔ قبضہ گیری اور لوٹ مار عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھی ' ھندوستانی مھاجر ‘ پٹھان ‘ بلوچ کرتے رھے۔ کھاتے میں پنجابیوں کے پڑتا رھا۔ بلکہ صحیح معلومات نہ ھونے کی وجہ سے عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھی ' ھندوستانی مھاجر ‘ پٹھان ‘ بلوچ کے ساتھ ساتھ بنگالی اور سماٹ ' ھندکو ' بروھی نے بھی یہ سلسلہ شروع کردیا اور پنجابی کا " بستہ ب بدمعاش " والا کھاتہ بڑھتا گیا۔

پاکستان کے قائم ھونے کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی آبادی بنگالی تھی اور دوسری بڑی آبادی پنجابی تھی۔ اس لیے پاکستان کے قیام کے بعد مشرقی پاکستان کی سرکاری زبان تو بنگالی ھونی چاھیے تھی جبکہ مغربی پاکستان کی نہ سہی تو پنجاب کی سرکاری زبان پنجابی ھونی چاھیے تھی۔ لیکن پاکستان کے سندھی گورنر جنرل قائدِ اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی عوام سے انکی اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق بھی چھین لیا اور 21 مارچ 1948 کو رمنا ریس کورس ڈھاکہ میں سندھی محمد علی جناح نے انگریزی زبان میں تقریر کرتے ھوئے مشرقی پاکستان کی اکثریتی زبان بولنے والے بنگالیوں سے کہا کہ پاکستان کی سرکاری اور تعلیمی زبان اردو اور صرف اردو ھو گی اور اس بات کی مخالفت کرنے والے ملک دشمن تصور ھوں گے۔ اس لیے پاکستان کی سب سے بڑی آبادی بنگالی اور دوسری بڑی آبادی پنجابی کے لیے پاکستان میں اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے بجائے اردو میں تعلیم حاصل کرنا قانونی حکم بن گیا جس کی خلاف ورزی جرم قرار پائی۔ 

پاکستان کے اردو بولنے والے ھندوستانی وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے مزید اقدامات کرتے ھوئے گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دیکر مشرقی پاکستان کی ثقافت اور مغربی پاکستان کی اصل قوموں کی وادیء سندھ کی ثقافت کی جگہ اتر پردیش کی ثقافت کو فروغ دیکر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے سماجی گرفت مظبوط کرنے کی راہ بھی ھموار کردی۔ جبکہ پاکستان کا دارالحکومت کراچی میں ھونے لیکن مغربی پاکستان کے خطے کی سب سے بڑی قوم پنجابی کے ھونے کی وجہ سے پنجابی قوم کو حکومتی طور بھی بے بس اور اپنے تسلط میں رکھنے کے لیے 25 جنوری 1949 کو پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کے بعد ژوب میں پیدا ھونے والے ' پشاور میں رھائش پذیر اور علیگڑہ کے پڑھے ھوئے ایک کاکڑ پٹھان سردار عبدالرب نشتر کو پنجاب کا گورنر نامزد کرکے پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے سیاسی گرفت مظبوط کرنے کی راہ بھی ھموار کردی۔

پاکستان پر حکومتی گرفت ھونے کی وجہ سے پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی بنگالی اور پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی پر اپنی سماجی اور سیاسی گرفت مظبوط کرنے کے بعد پاکستان کے اردو بولنے والے ھندوستانی وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے اتر پردیش میں واقع علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان لاکر پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا کر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے انتظامی گرفت مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔ لہٰذا اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی پاکستان میں سماجی ' سیاسی ' انتظامی گرفت مظبوط ھونے کی وجہ سے پاکستان کی حکومت کے اداروں ' پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی صحافت پر دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل یوپی ' سی پی کے سرکاری ملازم افسروں اور کلرکوں ' سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا غلبہ ھوگیا۔ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کو پاکستان لانا اس وقت کے اردو بولنے والے ھندوستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کی سازش اور لسانی ترجیح تھی کہ جب ملک معاشی طور پر سنبھل رھا تھا تو پاکستان کو بنانے کے لیے کی جانے والی پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے مغربی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے ھندو پنجابیوں و سکھ پنجابیوں اور مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کی آبادکاری کے لیے 1950 میں کیے جانے والے لیاقت - نہرو پیکٹ کی آڑ لیکر ھندوستان سے پلے پلائے مھاجروں کو لا کر کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد کرنا شروع کردیا اور انہیں متروقہ املاک میں سے مکانات ' زمینیں ' جائیدادیں دینے کے علاوہ سرکاری نوکریاں دینی شروع کردی گئیں۔ 

ھندوستان مھاجروں کو پاکستان لانے پر سے دھیان ھٹانے کے لیے کہ؛ وہ ھندوستان سے آئے ھیں یا مشرقی پنجاب سے آئے ھیں؟ حکومتی سطح پر حکمت عملی یہ اختیار کی گئی کہ مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرکے ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کی جگہ پنجاب میں آنے والے مسلمان پنجابیوں کو پنجابی کے بجائے مھاجر قرار دیا جانے لگا اور انہیں پنجاب کے بجائے ھندوستان سے آنے والے مھاجر کہا جانے لگا۔ یہ پروپیگنڈہ سرکاری نشریاتی ذرائع سے کیا گیا۔ اس کی وجہ سے تفریق ھی نہ رھی کہ کون سا مسلمان مشرقی پنجاب سے آیا ھے اور کس کو ھندوستان سے لایا گیا ھے۔ مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرکے ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کی جگہ مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرکے مغربی پنجاب آنے والے مسلمان پنجابیوں کو پنجابی کے بجائے مھاجر قرار دینے کی وجہ سے ان پنجابیوں کی اپنی پنجابی شناخت بھی ختم کردی گئی۔ لیکن دوسری طرف حکمت عملی یہ اختیار کی گئی کہ جب بھی ھندوستانی مھاجروں کی قبضہ گیری اور لوٹ مار کی بات کی جاتی تو مشرقی پنجاب کے مھاجر بنائے گئے پنجابی کے کھاتے میں یہ کہہ کر ڈال دی جاتی کہ یہ قبضہ گیری اور لوٹ مار مھاجر پنجابی کرتے ھیں۔ جبکہ بھارت کی سرپرستی میں پٹھان غفار خان ' بلوچ خیر بخش مری ' عربی نزاد جی - ایم سید ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر الطاف حسین کے " قوم پرستی" کے نام پر " مفاد پرستی" اور "ذھنی دھشتگردی" والے فلسفے سے پنجاب اور پنجابی قوم پر بے بنیاد الزامات لگا کر ' بے جا تنقید کرکے ' تذلیل کرکے ' توھین کرکے ' گالیاں دے کر ' گندے حربوں کے ذریعے پنجاب اور پنجابی قوم کو بلیک میل کرنے کے عمل نے تو پنجابی کو " بستہ ب بدمعاش " بنانے کے سلسلہ کو بہت زیادہ فروغ دے دیا۔

Tuesday, 17 April 2018

پنجابی سیاستدان ' صحافی ' بیوروکریٹ کے پنجابی قوم پرست بننے سے کیا ھوگا؟

پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھے۔ پنجاب کی اکثریتی آبادی ھونے کے علاوہ پنجاب سے باھر بھی ھر علاقے؛ خیبرپختونخواہ ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' بلوچستان کے بلوچ علاقے ' سندھ ' کراچی کی دوسری بڑی آبادی پنجابی ھے۔

پنجابی سیاستدان ' پنجابی صحافی اور پنجابی بیوروکریٹ اگر ذھنی طور پر پنجابی قوم پرست بن جائے تو؛ پاکستان میں سماجی استحکام آجائے۔ پاکستان میں سیاسی استحکام آجائے۔ پاکستان میں معاشی استحکام آجائے۔ پاکستان میں انتظامی استحکام آجائے۔

پاکستان وادیء سندھ کی زمین پر قائم ھے۔ وادیء سندھ کی زمین پر قابض پاکستان کی ظالم قوموں؛ پٹھان ' بلوچ ' مھاجر کو ظلم کرنے کا موقع نہ ملے۔ ھندکو ' بروھی اور سماٹ پر اپنا سماجی ' سیاسی اور معاشی تسلط برقرار نہ رکھ سکیں۔ وادیء سندھ کی زمین کی اصل قوموں لیکن پاکستان کی مظلوم قوموں؛ سماٹ ' ھندکو ' بروھی کو انصاف مل جائے۔

پٹھان ' بلوچ ' مھاجر پاکستان  کے سماجی ' سیاسی ' معاشی اور انتظامی استحکام  کے خلاف سازشیں کرکے پاکستان  کے دشمنوں سے ذاتی فوائد حاصل نہ کر سکیں۔

پٹھان ' بلوچ ' مھاجر اشرافیہ کو اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے  کے لیے پاکستان کے دشمنوں سے سازباز کرکے پاکستان دشمنی  کے اقدامات کرنے کا موقع نہ ملے۔

پٹھان ' بلوچ ' مھاجر سیاستدانوں اور صحافیوں کو پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج  کے الفاظ ادا کرکے پٹھان ' بلوچ ' مھاجر عوام کو پنجاب اور پنجابیوں  کے خلاف ورغلانے اور گالیاں دلوانے کا موقع نہ ملے۔

پٹھان ' بلوچ ' مھاجر اپنے زیرِ اثر  علاقے میں پنجابیوں پر ظلم و زیادتی نہ کر سکیں۔ پنجاب اور پنجابی قوم پر الزامات لگا کر ' تنقید کرکے ' توھین کرکے گالیاں دے کر ' گندے حربوں  کے ذریعے پنجاب اور پنجابی قوم کو بلیک میل نہ کر سکیں۔

Monday, 16 April 2018

پاکستان دشمن سرگرمیوں کا سیاسی طور پرتدارک کون کرے گا؟

پاکستان کے قائم ھوتے ھی یوپی کا اردو بولنے والا ھندوستانی لیاقت علی خاں پاکستان کا وزیرِ اعظم بن گیا۔ سندھی محمد علی جناح پاکستان کا گورنر جنرل بن گیا۔ پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے 20 لاکھ پنجابیوں کے مارے جانے اور 2 کروڑ پنجابیوں کے بے گھر ھوجانے کا فائدہ اٹھاتے ھوئے ھندوستانی مھاجروں ‘ پٹھانوں ‘ بلوچوں نے خود تو قبضہ کرنے اور لوٹ مار کرنے جبکہ الزام پنجابی پر لگا لگا کر پنجابیوں کی ایسی تسی کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔

پنجابیوں کے اجڑے ' برباد اور بے گھر ھونے کی وجہ سے پنجابیوں کی طرف سے جواب نہ دے پانے اور خاموش رھنے کی وجہ سے یہ سلسلہ مسلسل جاری رھا۔ اس لیے سماٹ ' ھندکو ' براھوئی نے بھی اس پر یقین کرنا شروع کردیا۔ لہٰذا پنجابی " بستہ ب بدمعاش " بن گیا۔ قبضہ گیری اور لوٹ مار ھندوستانی مھاجر ‘ پٹھان ‘ بلوچ کرتے رھے۔ کھاتے میں پنجابیوں کے پڑتا رھا۔ بلکہ صحیح معلومات نہ ھونے کی وجہ سے ھندوستانی مھاجر ‘ پٹھان ‘ بلوچ کے ساتھ ساتھ سماٹ ' ھندکو ' براھوئی نے بھی یہ سلسلہ شروع کردیا اور پنجابی کا " بستہ ب بدمعاش " والا کھاتہ بڑھتا گیا۔

بھارت کی سرپرستی میں پٹھان غفار خان ' بلوچ خیر بخش مری ' عربی نزاد جی - ایم سید ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر الطاف حسین کے " قوم پرستی" کے نام پر " مفاد پرستی" اور "ذھنی دھشتگردی" والے فلسفے سے پنجاب اور پنجابی قوم پر بے بنیاد الزامات لگا کر ' بے جا تنقید کرکے ' تذلیل کرکے ' توھین کرکے ' گالیاں دے کر ' گندے حربوں کے ذریعے پنجاب اور پنجابی قوم کو بلیک میل کرنے کی وجہ سے بھی پنجابی کو " بستہ ب بدمعاش " بنانے کے سلسلے نے مزید فروغ دیا۔

دراصل پاکستان کے قائم ھوتے کے بعد سے افغانی نزاد پٹھانوں کو پٹھان غفار خان ' کردستانی نزاد بلوچوں کو بلوچ خیر بخش مری ' 1972 سے بلوچ سندھیوں اور عربی نزاد سندھیوں کو عربی نزاد جی - ایم سید ' 1986 سے یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کو مھاجر الطاف حسین نے بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کی پاکستان میں " سیاسی پراکسی" کا کھیل ' کھیل کر "دانشورانہ دھشت گردی" کے ذریعے گمراہ کرکے ' انکی سوچ کو تباہ کردیا تھا۔ اس لیے کراچی کی یوپی ‘ سی پی کی اردو بولنے والی ھندوستانی مھاجر اشرافیہ ' سندھ کے دیہی علاقے اور پنجاب کے جنوبی علاقے کی عربی نزاد اشرافیہ ‘ بلوچستان کے بلوچ علاقے ‘ سندھ کے دیہی علاقے اور پنجاب کے جنوبی علاقے کی کردستانی نزاد بلوچ اشرافیہ ‘ خیبر پختونخواہ ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' شمالی اور سینٹرل پنجاب کی افغانی نزاد پٹھان اشرافیہ کو اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے دشمنوں سے سازباز کرکے پاکستان دشمنی کے اقدامات کرنے میں آسانی رھتی ھے۔

ھندوستانی مھاجر اشرافیہ ' عربی نزاد اشرافیہ ‘ کردستانی نزاد بلوچ اشرافیہ ‘ افغانی نزاد پٹھان اشرافیہ نے اپنا وطیرہ بنائے رکھا کہ ھر وقت پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کے الفاظ ادا کرکے پنجاب اور پنجابی کو گالیاں دی جائیں۔ الزام تراشیاں کی جائیں اور اپنے اپنے علاقے میں رھنے والے پنجابیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کی جائے۔ تاکہ ایک تو پنجاب اور پنجابی قوم پر الزامات لگا کر ' تنقید کرکے ' توھین کرکے ' گالیاں دے کر ' گندے حربوں کے ذریعے پنجاب اور پنجابی قوم کو بلیک میل کیا جائے۔ دوسرا ھندکو ' براھوئی اور سماٹ پر اپنا سماجی ' سیاسی اور معاشی تسلط برقرار رکھا جائے۔ تیسرا پاکستان کے سماجی ' سیاسی ' معاشی اور انتظامی استحکام کے خلاف سازشیں کرکے پاکستان کے دشمنوں سے ذاتی فوائد حاصل کیے جائیں۔ لیکن پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج اب تک انکی سازشوں اور پاکستان دشمن سرگرمیوں کا سیاسی طور پر تدارک کرنے میں ناکام رھی ھے۔ جبکہ انتظامی اقدامات سے انکی سازشوں اور پاکستان دشمن سرگرمیوں کو عارضی طور پر روکا تو جاتا رھا لیکن ختم نہیں کیا جاسکا۔

چیئرمین جوائینٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے اپریل 2018 میں بتایا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را" نے 2015 سے پاکستان میں سی ۔ پیک منصوبوں کو ختم کرنے کے لئے بھی 500 ملین ڈالر سے زائد کی رقم سے خصوصی طور پر ایک نیا سیل قائم کیا ھوا ھے۔ بھارت چونکہ عرصہ دراز سے "جسمانی دھشت گردی" کے علاوہ پاکستان میں "دانشورانہ دھشت گردی" اور "سیاسی پراکسی" میں بھی ملوث ھے۔ اس لیے سوال اٹھتا ھے کہ؛ پاکستان کی فوج نے "پاکستان میں بھارت کی جسمانی دھشت گردی" کے خلاف تو کارروائی کرنے کے لئے آپریشن شروع کیا ھوا ھے۔ لیکن پاکستان کی حکومت ' پاکستان کی فوج ' آئی ایس آئی ' ایم آئی ' آئی بی نے بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کی پاکستان میں "دانشورانہ دھشت گردی" اور سیاسی پراکسی" کا مقابلہ کرنے کے لئے اب تک کیا اقدامات کیے ھیں؟

اگر اقدامات نہیں کیے گئے تو اس سے یہ ھی ظاھر ھوتا ھے کہ؛ کراچی کی یوپی ‘ سی پی کی اردو بولنے والی ھندوستانی مھاجر اشرافیہ ' سندھ کے دیہی علاقے اور پنجاب کے جنوبی علاقے کی عربی نزاد اشرافیہ ‘ بلوچستان کے بلوچ علاقے ‘ سندھ کے دیہی علاقے اور پنجاب کے جنوبی علاقے کی کردستانی نزاد بلوچ اشرافیہ ‘ خیبر پختونخواہ ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' شمالی اور سینٹرل پنجاب کی افغانی نزاد پٹھان اشرافیہ کو اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے دشمنوں سے سازباز کرکے پاکستان دشمنی کے اقدامات کرنے ' پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کے الفاظ ادا کرکے پنجاب اور پنجابی کو گالیاں دینے ' الزام تراشیاں کرنے ' اپنے اپنے علاقے میں رھنے والے پنجابیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کرنے ' قتل و غارتگری کرنے ' پنجاب اور پنجابی قوم کو بلیک میل کرنے کی اجازت دی گئی ھے۔ اگر ایسا ھے تو کیوں؟ کیا اس میں ھی پاکستان کی سلامتی ' پاکستان کی بہتری اور پاکستان کا مفاد ھے؟ یا پنجابی اشرافیہ اب تک ھندوستانی مھاجر اشرافیہ ' عربی نزاد اشرافیہ ‘ کردستانی نزاد بلوچ اشرافیہ ‘ افغانی نزاد پٹھان اشرافیہ کے سامنے بے بس ھے؟

Sunday, 15 April 2018

ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی میں اخلاق اور قانون کے علمبرداروں کا کردار

ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے اخلاق کے علمبرداروں ' قانون کے علمبرداروں اور سیاست کے علمبرداروں کا اپنا اپنا کردار ھوتا ھے۔ کسی ایک علمبردار کے کردار کے ناقص ھونے سے ناقص اثرات براہِ راست ملک اور عوام پر پڑتے ھیں۔ خاص طور پر اخلاق اور قانون کے علمبرداروں کا کردار ناقص ھونے سے ملک تباہ اور عوام برباد ھو جاتی ھے۔

اخلاق کے علمبرداروں کو اخلاق کے اور قانون کے علمبرداروں کو قانون کے دائرے سے نکل کر امور انجام نہیں دینے چاھئیں۔ کیونکہ پھر سیاست کا دائرہ شروع ھوجاتا ھے اور سیاست کا دائرہ اخلاق اور قانون کا نہیں طاقت کا دائرہ ھوتا ھے۔ سیاست کے دائرے میں امور عوامی طاقت سے ھی انجام پاتے ھیں۔

دنیا بھر میں سیاست کے علمبردار عوامی طاقت کے دائرے میں رہ کر امور انجام دیتے ھیں۔ سیاست کے علمبرداروں کے عوامی طاقت کے دائرے سے نکل کر امور انجام دینے سے اخلاق یا قانون کا دائرہ شروع ھوجاتا ھے۔ اس لیے سیاستدان پھر سیاستدان نہیں رھتے۔ اخلاق کے علمبردار یا قانون کے علمبردار بن جاتے ھیں۔

عوام کی حمایت صرف سیاستدانوں کو ھی نہیں اخلاق کے علمبرداروں اور قانون کے علمبرداروں کو بھی حاصل ھوتی ھے۔ لیکن اخلاق کے علمبرداروں اور قانون کے علمبرداروں کو عوام کی حمایت اس وقت ھی حاصل ھوتی ھے جب اخلاق کے علمبردار اخلاق کے اور قانون کے علمبردار قانون کے دائرے میں رہ کر امور انجام دیں۔

اخلاق کے علمبرداروں اور قانون کے علمبرداروں کو عوام کی حمایت حاصل ھونے سے اخلاق کے علمبردار اور قانون کے علمبردار اپنے امور بے خوف و خطر اور بہتر طور پر انجام دیتے ھیں۔ جس کی وجہ سے سیاست کے علمبردار عوامی طاقت کے دائرے میں اپنے سیاسی امور اخلاق اور قانون کے مطابق انجام دینے پر مجبور رھتے ھیں۔ کیونکہ اخلاق اور قانون کے مطابق امور انجام نہ دینے کی صورت میں عوامی حمایت سے محروم ھونا پڑتا ھے۔

اخلاق کے علمبرداروں کے اخلاق کے اور قانون کے علمبرداروں کے قانون کے دائرے سے نکل کر امور انجام دینے کی وجہ سے اخلاق کے علمبرداروں اور قانون کے علمبرداروں کو عوام کی حمایت سے محروم ھونا پڑتا ھے۔ جس کی وجہ سے سیاست کے علمبرداروں کو عوامی طاقت کے دائرے میں اپنے سیاسی امور اخلاق اور قانون سے بالاتر رہ کر انجام دینے کا موقع مل جاتا ھے۔ اس لیے ملک میں افراتفری اور عوام میں انتشار پیدا ھوجاتا ھے۔ جس سے ملک تباہ اور عوام برباد ھو جاتی ھے۔

Friday, 13 April 2018

کراچی میں وفاقی اداروں کے دفاتر میں ملازمین کوٹہ کے مطابق ھونے چاھیئں۔


پاکستان کا دارالخلافہ تو اسلام آباد ھے لیکن پاکستان کے وفاقی اداروں کے دفاتر اسلام آباد کے بعد سب سے زیادہ کراچی میں ھیں۔ اس لیے ھی کراچی کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ھے۔

پاکستان کے 1973 کے آئین کے مطابق پاکستان کی وفاقی ملازمتوں میں پنجاب کا کوٹہ 50٪ ھے۔ خیبر پختونخواہ کا کوٹہ 5۔11٪ ھے۔ سندھ دیہی کا کوٹہ 4۔11٪ ھے۔ سندھ شھری کا کوٹہ 6۔7٪ ھے۔ فاٹا کا کوٹہ 4٪ ھے۔ بلوچستان کا کوٹہ 5۔3٪ ھے۔ آزاد کشمیر کا کوٹہ 2٪ ھے۔

پاکستان کی وفاقی ملازمتوں کے کوٹہ کے مطابق کراچی میں واقع وفاقی حکومت کے دفاتر میں محکمے کے سربراہ سے لیکر نچلی سطح کے ملازمین کی تعداد پاکستان کے 1973 کے آئین کے مطابق مختص کیے گئے کوٹہ کے مطابق ھونی چاھیے۔

اس لحاظ سے کراچی میں پاکستان کے وفاقی اداروں کے دفاتر میں 200 ملازمین میں سے؛

100 ملازمین پنجاب کے پنجابی ھونے چاھئیں۔

23 ملازمین خیبر پختونخواہ کے ھندکو پنجابی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' بونیری ' ڈیرہ والی اور پختون ھونے چاھئیں۔

23 ملازمین دیہی سندھ کے سماٹ ' پنجابی ' بلوچ ' براھوئی ' عربی نزاد ' راجستھانی ' گجراتی ھونے چاھئیں۔

15 ملازمین شھری سندھ کے سماٹ ' پنجابی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' بونیری ' ڈیرہ والی ' پٹھان ' قبائلی ' براھوئی ' بلوچ ' عربی نزاد ' گجراتی ' راجستھانی ' بہاری ' یوپی ' سی پی کے ھونے چاھئیں۔

8 ملازمین فاٹا کے قبائلی ھونے چاھئیں۔

7 ملازمین بلوچستان کے براھوئی ' پنجابی ' بلوچ اور پشتون ھونے چاھئیں۔

4 ملازمین کشمیر کے کشمیری ھونے چاھئیں۔

بہتر تو یہ ھے کہ اسلام آباد اور کراچی سمیت پاکستان بھر میں ھر جگہ پاکستان کے وفاقی اداروں کے دفاتر میں ملازمین اسی تناسب میں تعینات ھوں۔ اس سے پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' بونیری ' ڈیرہ والی ' پٹھان ' قبائلی ' بلوچ ' عربی نزاد ' گجراتی ' راجستھانی ' بہاری ' یوپی ' سی پی کے وفاقی اداروں کے ملازمین میں آپس کی قربت اور پیار و محبت بڑھے گا اور پاکستان کے وفاقی اداروں کے دفاتر میں کام بہتر طریقے سے انجام پائے گا۔ جس سے پاکستان کی ترقی ھوگی اور پاکستان کی عوام خوشحال ھوگی۔

Thursday, 12 April 2018

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان پاکستان پر کیسے قابض ھوئے؟

برٹش انڈیا کے مسلم اکثریتی صوبوں پنجاب ' سندھ ' بلوچستان ' شمال مغربی فرنٹیئر صوبہ یا سرحد (جسے اب 2010 سے خیبر پختونخواہ کہا جاتا ھے) اور مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی طرف سے 1937 کے انتخابات میں جمہوریت کو ایک خطرے کے طور پر نہیں دیکھا گیا تھا۔ لیکن سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمان اپنے صوبوں میں اقلیت میں تھے۔ اس لیے برٹش انڈیا میں جمہوریت کو اپنی سماجی برتری اور سیاسی بالادستی کے لیے نقصاندہ سمجھتے تھے۔ جمہوری انڈیا میں خود کو نقصان سے بچانے کے لیے انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت پر قابض ھونا شروع کردیا اور برٹش انڈیا کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی تحریک شروع کردی اور برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک کی تشکیل کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ دراصل سینٹرل برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کو اپنی نوابی خطرے میں پڑتی دکھائی دینے لگی تھی۔ اسی لیے سینٹرل برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ کو معلوم ھوا کہ یہ مسلمان ھیں اور ایک علیحدہ قوم ھیں۔ ورنہ انکے آباؤ اجداد کو 800 سال تک ھندوؤں پر حکمرانی کرنے کے باوجود بھی علیحدہ قوم ھونے کا احساس نہیں ھوا تھا اور نہ ھی 1300 سال تک کے عرصے کے دوران کبھی کسی مسلمان عالم نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم قرار دیا تھا۔


سینٹرل برٹش انڈیا کی مسلمان اشرافیہ  کے لیے سب سے مشکل کام یہ تھا کہ مسلم اکثریتی صوبوں کے مسلمانوں کو برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک تشکیل دینے کی حمایت کرنے کے لیے کیسے قائل کیا جائے؟ آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت پر قابض سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں نے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے اتحاد کو مظبوط اور منظم کرنے کے مشن کی ابتدا کی۔ اس بات کا بھرپور چرچا شروع کیا کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمان ایک قوم ھیں۔ نہ صرف انکا مذھب ایک ھے بلکہ انکی زبان بھی ایک ھی ھے۔ انکی ثقافت بھی ایک ھی ھے اور انکا سیاسی مفاد بھی ایک ھی ھیں۔ بلاشبہ یہ ایک مذھب انکا دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والا اسلامی فلسفہ تھا۔ ایک زبان انکی اردو زبان تھی۔ ایک ثقافت انکی گنگا جمنا کی ثقافت تھی اور ایک سیاسی مفاد انکا نئے مسلم ملک میں سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں کو برتری حاصل ھونا تھا۔

پاکستان کے قیام کے بعد اتر پردیش کا رھنے والا آل انڈیا مسلم لیگ کا جنرل سیکریٹری ' اردو بولنے والا ھندوستانی ' لیاقت علی خان پاکستان کا وزیرِاعظم بن گیا۔ پاکستان کی تشکیل کا مقصد اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرہ تشکیل دینا بتایا گیا تھا۔ جسکے لیے پنجابی قوم کو مذھب کی بنیاد پر لڑوا کر پنجاب کو تقسیم کروا کر 20 لاکھ پنجابی مروائے گئے۔ 2 کروڑ پنجابی بے گھر کروائے گئے۔ لیکن پاکستان کے قائم ھونے کے بعد سب سے پہلے پاکستان کی ھی عوام سے انکے اپنے علاقوں پر انکا اپنا حکمرانی کا حق چھینا گیا۔ جسکے لیے 22 اگست 1947 کو جناح صاحب نے سرحد کی متخب حکومت برخاست کردی۔ 26 اپریل 1948 کو جناح صاحب کی ھدایت کی روشنی میں گو رنر ھدایت اللہ نے سندھ میں ایوب کھوڑو کی متخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ھوئے بلکہ مزید اضافہ کرتے ھوئے ' لیاقت علی خان نے 25 جنوری 1949 کو پنجاب کی منتخب اسمبلی کو ھی تحلیل کر دیا- یعنی ملک کے وجود میں آنے کے ڈیڑھ سال کے اندر اندر عوام کے منتخب کردہ جمہوری اداروں اور نمائندوں کا دھڑن تختہ کر دیا گیا۔

لیاقت علی خان نے گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دیکر پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی ' مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے شدید احتجاج کے باوجود ' اتر پردیش کی زبان اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیکر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے سماجی گرفت مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔

25 جنوری 1949 کو پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی کے صوبہ پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کے بعد ژوب میں پیدا ھونے والے ' پشاور میں رھائش پذیر اور علیگڑہ کے پڑھے ھوئے ایک کاکڑ پٹھان سردار عبدالرب نشتر کو پنجاب کا گورنر نامزد کرکے پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے سیاسی گرفت مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔

پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی بنگالی اور پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی پر اپنی سماجی اور سیاسی گرفت مظبوط کرنے کے بعد اتر پردیش میں واقع علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان لاکر پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا کر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیےانتظامی گرفت مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔ لہٰذا اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی پاکستان میں سماجی ' سیاسی ' انتظامی گرفت مظبوط ھونے کی وجہ سے پاکستان کی حکومت کے اداروں ' پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی صحافت پر دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل یوپی ' سی پی کے سرکاری ملازم افسروں اور کلرکوں ' سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا غلبہ ھوگیا۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کو پاکستان لانا اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی سازش اور لسانی ترجیح تھی کہ جب ملک معاشی طور پر سنبھل رھا تھا تو پاکستان کو بنانے کے لیے کی جانے والی پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے مغربی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے ھندو پنجابیوں و سکھ پنجابیوں اور مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کی آبادکاری کے لیے 1950 میں کیے جانے والے لیاقت - نہرو پیکٹ کی آڑ لیکر ھندوستان سے پلے پلائے مھاجروں کو لا کر کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد کرنا شروع کردیا۔

اب یہ یوپی ' سی پی کا اردو بولنے والا ھندوستانی لسانی طبقہ پاکستان کے معاشی حب کراچی پر مکمل طور پر قابض اور لسانی عصبیت کا شکار ھے۔ گذشتہ تین دھائیوں سے ایم کیو ایم کے نام سے مھاجر لسانی دھشتگرد سیاسی پارٹی بنا کر کراچی کو ملک سے الگ کرنے کی سازشیں کر رھا ھے۔ حیدرآباد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں آباد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی بھی انکی سازشوں کی پشت پناھی اور تعاون کرتے ھیں۔ تاکہ کراچی کو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا آزاد ملک "جناح پور" بنایا جائے۔

پاکستان بنانے کے لیے جب پنجاب کو تقسیم کیا گیا تو پنجاب کے مغرب کی طرف سے ھندو پنجابی اور سکھ پنجابی اپنے تمام کے تمام خاندانوں سمیت پنجاب کے مشرق کی طرف منتقل ھوئے۔ پنجاب کے مشرق کی طرف سے مسلمان پنجابی اپنے تمام کے تمام خاندانوں سمیت پنجاب کے مغرب کی طرف منتقل ھوئے۔ لیکن پاکستان آنے والے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے خاندان تو کیا بلکہ گھر کے ھی چند افراد پاکستان آگئے اور باقی ھندوستان میں ھی رھے۔ اسی لیے پاکستان پر قابض اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے ابھی تک ھندوستان میں اپنے خاندان کے افراد سے رابطے رھتے ھیں۔ جسکی وجہ سے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے اور بھارت کی آلہ کاری کرنے میں انہیں آسانی رھتی ھے۔

پاکستان اصل میں یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں کی شکارگاہ اور ٹرانزٹ کیمپ رھا ھے۔ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ' مسلمان ھونے اور پاکستان کو بنانے کا نعرہ مار کر یوپی ' سی پی سے پاکستان آتے رھے۔ پاکستان اور اسلام کا لبادہ اوڑہ کر پاکستان کی سیاست ' صحافت ' حکومت ' فارن افیئرس ' سول بیوروکریسی ' ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور بڑے بڑے شہروں پر قابض ھوتے رھے۔ پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے پر عمل کرکے پاکستان کو برباد کرکے ' پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کو تباہ کرکے اور پاکستان میں لوٹ مار کرنے کے بعد امریکہ ' برطانیہ ' کنیڈا ' متحدہ عرب امارت کو اپنا مستقل ٹھکانہ بناتے رھے۔

دراصل 1950 میں لیاقت - نہرو پیکٹ کے ھوتے ھی انڈیا نے دورمار پلاننگ کی تھی اور ان اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو ایک سازش کے تحت پاکستان بھیجا گیا تھا۔ پاکستان کی پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ عوام نے آنکھیں بند کیے رکھیں اور ملک کی ریڑھ کی ھڈی کراچی پر انڈین ایجنٹوں کا قبضہ ھوگیا۔

بین الاقوامی روابط ھونے کی وجہ سے پاکستان کے دشمنوں سے ساز باز کرکے پاکستان کے اندر سازشیں کرنا اور بین الاقوامی امور میں دلالی کرنا یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھوندوستانی مھاجروں کا پسندیدہ مشغلہ ھے۔ چونکہ شھری علاقوں’ سیاست’ صحافت’ صنعت’ تجارت’ سرکاری عھدوں اور تعلیمی مراکز پر ان یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا کنٹرول ھے۔ اس لیے اپنی باتیں منوانے کے لئے ھڑتالوں ' جلاؤ گھیراؤ اور جلسے جلوسوں میں ھر وقت مصروف رھتے ھیں- پنجابی' سندھی ' پٹھان ' بلوچ میں سے جو بھی ان کے آگے گردن اٹھائے کی کوشش کرے اس کے گلے پڑ جاتے ھیں اوراس کو ھندوّں کا ایجنٹ ' اسلام کا مخالف اور پاکستان دشمن بنا دیتے ھیں۔ 

اردو بولنے والا ھندوستانی جب نعرہ لگاتا ھے کہ؛ "پاکستان فرسٹ" تو اس سے مراد صرف "کراچی " ھوتا ھے۔ پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کے علاقے پنجاب ' دیہی سندھ ' کے پی کے ' بلوچستان نہیں ھوتے۔ جن سے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو کوئی دلچسپی نہیں۔

اردو بولنے والا ھندوستانی جب نعرہ لگاتا ھے کہ؛ "کراچی والے" تو اس سے مراد صرف " کراچی کا اردو بولنے والا ھندوستانی مھاجر" ھوتا ھے۔ نہ کہ کراچی میں رھنے والے پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ بھی۔ جن سے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو کوئی دلچسپی نہیں۔

اردو بولنے والا ھندوستانی جب نعرہ لگاتا ھے کہ؛ "پاکستانیت کو فروغ دیا جائے" تو اس سے مراد "اردو زبان ' یوپی ' سی پی کی تہذیب اور گنگا جمنا کی ثقافت" ھوتا ھے۔ نہ کہ پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کی زبان ' تہذیب اور ثقافت بھی۔ جس سے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو کوئی دلچسپی نہیں۔

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ھیں۔ کیونکہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا کام پاکستان کے بننے سے لیکر ھی امریکہ ' برطانیا اور ھندوستان کی دلالی کرنا رھا ھے اور اب بھی کر رھے ھیں۔ جبکہ اسلام اور پاکستان کے نعرے لگا لگا کر پنجاب اور پنجابی قوم کو بیواقوف بھی بناتے رھے ھیں۔ حالانکہ نہ یہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ھیں اور نہ پاکستان کی تعمیر ' ترقی ' خوشحالی اور سلامتی سے ان کو دلچسپی ھے۔

پاکستان میں 12 صوبے بنا دیے جائیں۔

پاکستان میں پنجابی کی آبادی 60% ھے۔ پنجابی صرف پنجاب کی ھی سب سے بڑی آبادی نہیں ھیں بلکہ خیبر پختونخواہ کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے پختون علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے بلوچ علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' سندھ کی دوسری بڑی آبادی ' کراچی کی دوسری بڑی آبادی بھی پنجابی ھی ھیں۔ اس لیے پاکستان کے ھر علاقے کے حساب سے پنجابی کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات اور مسائل مختلف ھیں۔

جنوبی پنجاب میں بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد مخدوموں ' گیلانیوں ' قریشیوں ' عباسیوں  نے ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی پر اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے جبکہ ان کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے جنوبی پنجاب میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک  پنجابی کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات کے لحاظ سے بڑا مسئلہ بلوچ ' پٹھان اور عربی نزاد مخدوم ' گیلانی ' قریشی ' عباسی ھیں۔

دیہی سندھ میں بلوچوں اور سیدوں نے سماٹ پر اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے جبکہ ان کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے دیہی سندھ میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک  پنجابی کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات کے لحاظ سے بڑا مسئلہ بلوچ اور سید ھیں۔

بلوچستان کے بلوچ علاقے میں بلوچ نے بروھیوں پر اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے جبکہ ان کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے بلوچستان کے بلوچ علاقے میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک  پنجابی کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات کے لحاظ سے بڑا مسئلہ بلوچ ھیں۔

بلوچستان کے پشتون علاقے میں پشتون نے بروھیوں پر اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے جبکہ ان کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے بلوچستان کے پشتون علاقے میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک  پنجابی کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات  کے لحاظ سے بڑا مسئلہ پشتون ھیں۔

خیبر پختونخواہ کے پختون علاقے میں پختون نے ھندکو پنجابی پر اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے جبکہ ان کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے خیبر پختونخواہ کے پختون علاقے میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک  پنجابی کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات  کے لحاظ سے بڑا مسئلہ پختون ھیں۔

کراچی میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر  نے کراچی میں رھنے والے پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' بروھی ' گجراتی ' راجستھانی پر اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے جبکہ ان کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے کراچی میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک  پنجابی کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات  کے لحاظ سے بڑا مسئلہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ھیں۔

فوج ' سول سروسز ' سیاست ' صحافت میں وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی کا غلبہ ھے۔ ملک کی منصوبہ بندی اور حکمرانی میں اھم کردار فوج ' سول سروسز ' سیاست ' صحافت کا ھوتا ھے۔ لیکن وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کا پنجابی چونکہ پنجابی قوم پرست نہیں ھے اور اس کو ھندوستانی مھاجر ' بلوچ ' پٹھان سے براہ راست کوئی تکلیف بھی نہیں ھے۔ اس لیے وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی کی سوچ ' سمجھ اور شعور میں کراچی ' دیہی سندھ ' جنوبی پنجاب ' بلوچستان کے بلوچ علاقے ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' خیبر پختونخواہ کے پختون علاقے میں رھنے والے پنجابی کے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات اور مسائل کے بارے میں احساس ھی نہیں ھے بلکہ اسے ان علاقوں کے سماجی مسائل اور سیاسی معاملات کا بھی علم نہیں ھے۔ جس کی وجہ سے کراچی ' دیہی سندھ ' جنوبی پنجاب ' بلوچستان کے بلوچ علاقے ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' خیبر پختونخواہ کے پختون علاقے میں رھنے والے پنجابی ذلیل و خوار ھو رھے ھیں۔ جبکہ ھندکو پر پختونوں ' سماٹ پر بلوچوں اور سیدوں ' بروھی پر بلوچوں ' گجراتی اور راجستھانی  پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی بالادستی قائم ھوگئی ھے۔

وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی کا مسئلہ یہ ھے کہ؛ ویسے تو پنجاب میں پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر اور عربی نزاد بڑی تعدا میں آباد ھیں۔ سیاست ' صحافت ' سرکاری نوکریوں میں ان کو بھرپور حصہ دیا جاتا ھے۔ زمین اور جائیداد بھی ان کے پاس بہت ھے لیکن وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب میں چونکہ پنجابیوں کی آبادی بہت زیادہ ھے۔ اس لیے وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب میں پنجابیوں کو پٹھانوں ' بلوچوں ' ھندوستانی مھاجر وں ' عربی نزادوں سے سماجی ' سیاسی ' معاشی اور انتظامی طور پر نہ کوئی بڑا نقصان ھوتا ھے اور نہ فوری طور پر کوئی بڑا خطرہ ھے۔ اس لیے وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کا پنجابی ' پنجابی قوم پرست بن کر وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب سے باھر رھنے والے پنجابی کے مسائل اور ھندکو پنجابیوں پر پختونوں ' سماٹ پر بلوچوں اور سیدوں ' بروھی پر بلوچوں ' گجراتی اور راجستھانی  پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی زیادتیوں کا احساس کرنے  کے بجائے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے اور برادریوں کے چکر میں پھنسا رھتا ھے۔

اس وقت جتنی پنجابی قوم پرستی کراچی ' سندھ ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' بلوچستان کے بلوچ علاقے اور جنوبی پنجاب کے علاقے کے پنجابی میں ھے ' وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی میں اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ھونی۔ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کا پنجابی تو پنجابی بول لینے کو ھی پنجابی قوم پرستی سمجھ لیتا ھے۔ اس سے اگے اس کی عقل کام ھی نہیں کرتی۔ برادری کی بنیاد پر آپس میں محاذ آرائی کرتے رھنے کی وجہ سے وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی ' پنجاب بھی تباہ کر رھے ھیں اور پنجابی قوم کو بھی برباد کر رھے ھیں۔ جبکہ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب سے باھر رھنے والے پنجابیوں کے علاوہ ھندکو پنجابیوں ' سماٹ ' بروھی ' گجراتی اور راجستھانی کی تباھی اور بربادی میں نادانستہ طور پر  پٹھانوں ' بلوچوں ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے آلہء کار بنے ھوئے ھیں۔ 

اس لیے پاکستان میں اگر بہاولپور ڈویژن پر مشتمل صوبہ جنوب مشرقی پنجاب ' ڈیرہ غازی خان ڈویژن اور ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن پر مشتمل صوبہ جنوب مغربی پنجاب۔ ملتان ڈویژن اور فیصل آباد ڈویژن پر مشتمل صوبہ وسطی پنجاب۔ گوجرانوالہ ڈویژن ' لاھور ڈویژن اور ساھیوال ڈویژن پر مشتمل صوبہ شمال مشرقی پنجاب۔ راولپنڈی ڈویژن ' سرگودھا ڈویژن ' کوھاٹ ڈویژن اور بنوں ڈویژن پر مشتمل صوبہ شمال مغربی پنجاب۔ ھزارہ ڈویژن ' مردان ڈویژن ' مالاکنڈ ڈویژن اور پشاور ڈویژن پر مشتمل صوبہ ھندکو۔ شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان پر مشتمل صوبہ پختونخوا۔ ژوب ڈویژن ' کوئٹہ ڈویژن اور سبی ڈویژن پر مشتمل صوبہ پشتونخوا۔ قلات ڈویژن اور مکران ڈویژن پر مشتمل صوبہ براھوستان۔ نصیر آباد ڈویژن اور لاڑکانہ ڈویژن پر مشتمل صوبہ سرائیکستان۔ سکھر ڈویژن ' حیدرآباد ڈویژن اور میرپور خاص ڈویژن پر مشتمل صوبہ سماٹستان۔ کراچی ڈویژن پر مشتمل صوبہ کراچی بنا دیئے جائیں تو ؛

01۔ جنوب مشرقی پنجاب صوبے میں پنجابی کی آبادی سب سے زیادہ ھوگی جبکہ دوسرے نمبر پر آبادی عباسیوں اور عربی نزاد مخدوموں کی ملا کر ھوگی۔

02۔ جنوب مغربی پنجاب صوبے میں پنجابی کی آبادی سب سے زیادہ ھوگی جبکہ دوسرے نمبر پر آبادی بلوچوں اور پٹھانوں کی ملا کر ھوگی۔

03۔ وسطی پنجاب صوبے میں پنجابی کی آبادی سب سے زیادہ ھوگی جبکہ دوسرے نمبر پر آبادی عربی نزاد مخدوموں ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں ' بلوچوں اور پٹھانوں کی ملا کر ھوگی۔

04۔ شمال مشرقی پنجاب صوبے میں پنجابی کی آبادی سب سے زیادہ ھوگی جبکہ دوسرے نمبر پر آبادی اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی ھوگی۔

05۔ شمالی مغربی پنجاب صوبے میں پنجابی کی آبادی سب سے زیادہ ھوگی جبکہ دوسرے نمبر پر آبادی پٹھان کی ھوگی۔

06۔ ھندکو صوبے میں ھندکو پنجابی کی آبادی سب سے زیادہ ھوگی جبکہ دوسرے نمبر پر آبادی پختون کی ھوگی۔

07۔ پختونخوا صوبے میں پختون کی آبادی سب سے زیادہ ھوگی جبکہ دوسرے نمبر پر آبادی پنجابی کی ھوگی۔

08۔ پشتونخوا صوبے میں پشتون کی آبادی سب سے زیادہ ھوگی جبکہ دوسرے نمبر پر آبادی پنجابی کی ھوگی۔

09۔ براھوستان صوبے میں بروھی کی آبادی سب سے زیادہ ھوگی جبکہ دوسرے نمبر پر آبادی پنجابی کی ھوگی۔

10۔ سرائیکستان صوبے میں بلوچ کی آبادی سب سے زیادہ ھوگی جبکہ دوسرے نمبر پر آبادی سماٹ کی ھوگی۔

11۔ سماٹستان صوبے میں سماٹ کی آبادی سب سے زیادہ ھوگی جبکہ دوسرے نمبر پر آبادی پنجابی کی ھوگی۔

12۔ کراچی صوبے میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی آبادی سب سے زیادہ ھوگی جبکہ دوسرے نمبر پر آبادی پنجابی کی ھوگی۔

پاکستان کے 12 صوبے بنانے سے 6 صوبوں جنوبی مشرقی پنجاب ' جنوب مغربی پنجاب ' وسطی پنجاب ' شمالی مشرقی پنجاب ' شمالی مغربی پنجاب ' ھندکو صوبوں میں پنجابی نے اکثریتی آبادی رھنا ھے اور ھر صوبے میں پنجابی کا صرف ایک ھی واضح حریف ھوگا جس کو پنجابی اچھی طرح سمبھال کر رکھ سکے گا تاکہ وہ پنجابی قوم کے خلاف سازشیں اور شرارتیں نہ کرے۔

پاکستان کے 12 صوبوں میں سے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی اکثریت صرف ایک صوبے کراچی میں ھوگی۔ سماٹ کی اکثریت صرف ایک صوبے سماٹستان میں ھوگی۔ بلوچ کی اکثریت صرف ایک صوبے سرائیکستان میں ھوگی۔ بروھی کی اکثریت صرف ایک صوبے براھوستان میں ھوگی۔ پشتون کی اکثریت صرف ایک صوبے پشتونخوا میں ھوگی۔ پختون کی اکثریت صرف ایک صوبے پختونخوا میں ھوگی۔ صوبہ پختونخوا ' صوبہ پشتونخوا ' صوبہ سماٹستان ' صوبہ کراچی میں پنجابی کی آبادی صوبے کی دوسری بڑی آبادی ھوگی اور ھر صوبے میں پنجابی کا صرف ایک ھی واضح حریف ھوگا جس کو پنجابی اچھی طرح سمبھال کر رکھ سکے گا تاکہ وہ پنجابی قوم کے خلاف سازشیں اور شرارتیں نہ کرے۔

سماٹ اور بروھی کے ساتھ چونکہ پنجابی قوم کے مراسم اب بھی اچھے ھیں اس لیے 12 صوبے بننے کے بعد مزید خوشگوار ھو جائیں گے۔ کراچی صوبے میں پاک فوج کی ایک کور ' پاک بحریہ کے اھم اڈوں ' پاک فضائیہ کے اھم اڈوں ' وفاقی اداروں کے دفاتر ' پرائیویٹ کمپنیوں کے ھیڈ آفیسوں میں پنجابیوں کی اکثریت ھے اور کراچی کی صنعت ' تجارت ' ٹرانسپورٹ اور ھنرمندی کے شعبوں میں پنجابیوں کی سرمایہ کاری ھے۔ اس لیے کراچی میں پنجابی کو انتظامی اور معاشی بالادستی تو ابھی بھی ھے لیکن کراچی کے صوبہ بننے کے بعد اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی اکثریت کے ھوتے ھوئے بھی کراچی صوبے کی دوسری بڑی آبادی ھونے کی وجہ سے پنجابیوں نے گجراتی ' راجستھانی ' سماٹ ' بروھی کے ساتھ اتحاد کرکے کراچی صوبہ پر اپنی سیاسی بالادستی قائم کر لینی ھے۔ اس طرح پاکستان کے 12 صوبوں میں سے 9 صوبوں پر پنجابی کو مکمل کنٹرول ھوگا۔

جبکہ 3 صوبوں پختونخوا ' پشتونخوا ' سرائیکستان میں پنجابی کی آبادی انتہائی کم ھوگی اور ان صوبوں کی جغرافیائی اھمیت بھی نہیں ھوگی اور یہ صوبے پاکستان کے سب سے زیادہ پسماندہ صوبے ھونے کے ساتھ ساتھ قبائلی صوبے ھونے کی وجہ سے بد امنی اور بد حالی کا شکار رھیں گے۔ اس لیے پختونوں ' پشتونوں اور بلوچوں کی طرف سے اور انکے صوبوں کی طرف سے پنجابی قوم کو کوئی نقصان نہیں ھونا۔ پختونوں ' پشتونوں اور بلوچوں نے ویسے بھی وادیء سندھ کی زمین پر بنے پاکستان پر باھر سے آکر قبضہ کیا تھا اور اب بھی ان کا مزاج قبضہ گیری والا ھے۔ اس لیے مستقبل میں بھی ان سے ذراعت ' صنعت ' تجارت ' ھنرمندی جیسے شعبوں میں کردار ادا کرکے پاکستان کی معیشت مظبوط کرنے کی امید نہیں ھے۔ اس لیے پنجابی قوم کو انکی طرف زیادہ دھیان دینے کی ضرورت بھی نہیں رھنی۔

پاکستان کے 12 صوبے بنانے سے پاکستان کی سینٹ میں بھی اکثریت پنجابی کی ھوجائے گی۔ 6 صوبوں جنوبی مشرقی پنجاب ' جنوب مغربی پنجاب ' وسطی پنجاب ' شمالی مشرقی پنجاب ' شمالی مغربی پنجاب ' ھندکو میں پنجابی کی آبادی صوبے کی اکثریتی آبادی ھونے جبکہ 4 صوبوں پختونخوا ' پشتونخوا ' سماٹستان اور کراچی میں پنجابی کی آبادی صوبے کی دوسری بڑی آبادی ھونے کی وجہ سے بلکہ کراچی صوبے پر بھی گجراتی ' راجستھانی ' سماٹ ' بروھی کے ساتھ اتحاد کرکے کراچی صوبہ پر اپنی سیاسی بالادستی قائم کر لینے کی وجہ سے ایک تو پاکستان کے 12 میں سے 9 صوبوں میں پنجابی بالادستی رھے گی اور دوسرا وفاقی حکومت بھی کسی نہ کسی صوبے کا پنجابی ھی بنائے گا۔

پاکستان کی وفاقی حکومت اور پاکستان کی سینٹ میں پنجابی کی اکثریت کی وجہ سے پاکستان کے تمام 12 صوبوں کے گورنر پنجابی ھوں گے۔ چیف سیکریٹری پنجابی ھوں گے۔ انسپکٹر جنرل پولیس پنجابی ھوں گے۔ صوبائی سیکریٹریوں کی اکثریت پنجابی کی ھوگی۔ بلکہ ڈی سی اور ایس پی تک کی اکثریت پنجابی کی ھی ھوگی۔ اس لیے پاکستان کے 12 صوبوں کے پنجابی سیاستدانوں ' صحافیوں اور سرکاری افسروں کا آپس میں رابطہ اور تعاون بڑھے گا۔ اس سے پنجابی قوم پرستی مزید فروغ پائے گی۔ جبکہ پاکستان کے اور پنجابی قوم کے دشمنوں ' پٹھان ' بلوچ اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا آپس میں رابطے میں رھنا اور آپس میں متحد ھونا مشکل ھو جائے گا۔


پاکستان کے 12 صوبے بنانے سے ھندکو پنجابیوں کو پختونوں ' سماٹ کو بلوچوں اور سیدوں ' بروھی کو بلوچوں ' گجراتی اور راجستھانی کو اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی بالادستی سے نجات ملے گی۔ جس سے وادیء سندھ کی اصل قوموں پنجابی ' ھندکو ' سماٹ ' بروھی ' گجراتی ' راجستھانی کے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی طور پر مستحکم اور مظبوط ھونے سے پاکستان ترقی کرے گا اور پاکستان میں خوشحالی بڑھے گی۔