Monday 30 April 2018

کیا اسٹیبلشمنٹ اور خلائی مخلوق ایک ھی کرادا ھیں یا الگ الگ کردار ھیں؟

مشرف نے 1999 سے 2008 تک حکومت کی۔ زرداری نے 2008 سے 2013 تک حکومت کی۔ مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے دل کھول کر پاکستان میں کرپشن کی۔ نواز شریف کی حکومت 2013 سے شروع ھوئی۔ نواز شریف نے 2013 میں حکومت سمبھالنے کے بعد مشرف اور زرداری کی حکومت کے دور میں ھونے والی کرپشن کا حساب کتاب کرنا تھا۔

چونکہ 2013 کے انتخاب سے پہلے ھی مشرف اور زرداری کو معلوم تھا کہ انتخاب ھونے کی صورت میں کامیاب نواز شریف نے ھوجانا ھے۔ اس لیے مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے 2013 کے انتخاب سے پہلے سے ھی 2013 کے انتخاب کروانے کے بجائے ملک میں مارشل لاء لگوانے یا پھر ٹیکنوکریٹ حکومت بنوانے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کردی۔ اسکے لیے انتخابات ملتوی کرنے کے حربے استعمال کیے گئے لیکن اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز کیانی کے خود کو سیاست سے دور رکھنے اور آئین پر عملدرآمد کرنے کی وجہ سے 2013 کے انتخاب ھوگئے اور حکومت نواز شریف کی بن گئی۔

2013 کے انتخابات کے بعد حکومت سمبھالتے ھی نواز شریف کو 1999 سے لیکر 2008 تک مشرف کے اور 2008 سے 2013 تک زرداری کے اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں تعینات کردہ کرپٹ فوجی و سول سرکاری افسروں سے نجات حاصل کرنا چاھیے تھی اور سیاستدانوں کی کرپشن کے خلاف کاروائی کرنی چاھیے تھی لیکن نواز شریف اس میں ناکام رھا۔

نواز شریف کے 2013 میں حکومت سمبھالنے کے بعد مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے اپنے اپنے دور میں کمائے گئے سرمایہ کا بڑا حصہ خود کو اور اپنے ساتھوں کو بچانے پر لگانا شروع کردیا۔ مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے میڈیا ھاؤس خریدے ' اینکر ' صحافی ' تجزیہ نگار بھرتی کیے۔ پہلے طاھر القادری کے ذریعے میدان سجایا۔ پھر عمران خان کو آگے کرنا شروع کیا۔ اپنے اقتدار کے دور میں بدعنوانیوں میں ملوث رھنے والے ساتھوں کو عمران خان کی پارٹی میں شامل کروایا۔ اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکیسی میں موجود اپنے ساتھیوں کو ' جنہیں اب نواز شریف خلائی مخلوق  کے خطاب سے مخاطب کرتا ھے ' نواز شریف کی مخالفت اور عمران خان کی حمایت پر لگایا۔ عمران خان کے جلسے ھوئے ' جلوس ھوئے ' دھرنے ھوئے۔ مشرف اور زرداری بچے رھے۔ حکومت میں ھونے کے باوجود التا احتساب نواز شریف کا شروع ھوگیا۔

اب پھر سے ملک میں انتخاب ھونے ھیں۔ چونکہ مشرف ' زرداری اور عمران خان کے باھم مشترکہ پروگرام بنا کر اور اپنے اپنے زیرِ اثر پاکستان کے مختلف علاقوں میں نواز شریف کا مقابلہ کرکے پاکستان کی وفاقی حکومت بنانے کے امکانات نہیں ھیں اور حکومت نواز شریف کی ھی بنتی نظر آرھی ھے۔ اس لیے اب ایک بار پھر سے انتخاب پر دھیان دینے سے زیادہ ملک میں مارشل لاء لگوانے یا پھر ٹیکنوکریٹ حکومت بنوانے کے لیے بھاگ دوڑ شروع ھے۔ اسکے لیے انتخابات ملتوی کرنے کے حربے استعمال کیے جارھے ھیں۔

2013 میں نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد اسٹیبلشنٹ کا سربراہ پہلے جنرل راحیل شریف تھا۔ اب جنرل قمر جاوید باجوہ ھے۔ مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسر اور سیاستدان تو عمران خان کو اور اسٹیبلشمنٹ و بیوروکیسی میں موجود اپنے ساتھیوں کو ' جنہیں اب نواز شریف خلائی مخلوق کے خطاب سے مخاطب کرتا ھے ' استعمال کرکے نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے نا اھل کروانے ' ن لیگ کی صدارت سے ھٹوانے ' انتخابات کے لیے تاحیات نا اھل قرار دلوانے کے لیے سرگرم رھے اور بعد ازاں کامیاب بھی ھوگئے لیکن پھر بھی پاکستان کا وزیرِ اعظم اور ن لیگ کا صدر نواز شریف کے نامزد کردہ افراد ھی ھیں۔ ن لیگ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ھوئی ھے اور نواز شریف خود بھی اس وقت ن لیگ کے قائد کے طور پر بھرپور سیاسی سرگرمیاں انجام دے رھا ھے بلکہ روز بروز اپنی مقبولیت میں اٖضافہ کرتا جا رھا ھے۔ 

چیف آف آرمی اسٹاف کی منظوری کے بعد فوج اگر واضح پروگرام اور پالیسی  کے ساتھ ادارے  کے طور پر نواز شریف کی مخالف ھوتی تو پہلے جنرل راحیل شریف نے یا اب جنرل قمر جاوید باجوہ نے نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کردی ھوتی اور ن لیگ بھی ٹوٹ پھوٹ گئی ھوتی۔ اس لیے امکانات یہ ھی ھیں کہ چیف آف آرمی اسٹاف کے خود کو سیاست سے دور رکھنے اور آئین پر عملدرآمد کرنے کی وجہ سے نہ ملک میں مارشل لاء لگنا ھے۔ نہ ٹیکنوکریٹ حکومت بننی ھے۔ نہ انتخابات ملتوی ھونے ھیں۔ اس لیے 2013 کی طرح 2018 کے انتخاب بھی ھوجانے ھیں اور انتخاب میں چیف آف آرمی اسٹاف نے نہ تو نواز شریف کو انتخاب جتوانے کے لیے فوج کے ادارے کو استعمال ھونے دینا ھے اور نہ نواز شریف کو انتخاب میں ھروانے کے لیے عمران خان ' مشرف ' زرداری  کے ساتھوں کی مدد کرنے کے لیے فوج کے ادارے کو استعمال ھونے دینا ھے۔ البتہ مشرف ' زرداری اور انکے دور میں حکومت میں رھنے والے با اختیار فوجی و سول سرکاری افسر اور سیاستدان ' انکے اسٹیبلشمنٹ و بیوروکیسی میں موجود ساتھی ' جنہیں اب نواز شریف خلائی مخلوق کے خطاب سے مخاطب کرتا ھے اور انکے خریدے ھوئے میڈیا ھاؤس اور انکے بھرتی کیے گئے اینکر ' صحافی ' تجزیہ نگار اپنا کام ضرور جاری رکھیں  گے۔

چیف آف آرمی اسٹاف کی منظوری کے بعد فوج کے واضح پروگرام اور پالیسی کے ساتھ ادارے کے طور پر نواز شریف کی مخالف کے امکانات اس لیے نہیں ھین کہ؛ نواز شریف کے وزاتِ اعظمیٰ ' ن لیگ کی صدارت ' انتخاب کے لیے نا اھل ھونے کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف کی طرف سے اگر فوج کے ادارے کو استعمال کرکے نواز شریف کے تائید کنندہ ن لیگ  کے اراکین کی حکومت نہ بننے دینے کے لیے عمران خان ' مشرف ' زرداری  کے کرپٹ ساتھوں کی مدد کرکے پاکستان میں مخلوط حکومت بنوا دینے کی صورت میں نواز شریف اور ن لیگ کے لیے عوام کی اخلاقی اور سیاسی حمایت میں اضافہ ھوجانا ھے۔ جبکہ عمران خان ' مشرف ' زرداری  کے کرپٹ ساتھوں کی مدد سے تشکیل پانے والی مخلوط حکومت نے نہ ٖصرف پھر سے کرپشن شروع کردینی ھے بلکہ انکی حکومتی کارکردگی بھی ناقص ھونی ھے۔ جس کی وجہ سے نواز شریف اور ن لیگ ایک بہت بڑا سیاسی خطرہ بن جائیں گے۔ جو پاکستان کی مخلوط حکومت چلنے نہیں دیں گے۔ پاکستان کے انتظامی اور معاشی معاملات تو ویسے ھی 2013 سے نواز شریف کو وزاتِ اعظمیٰ ' ن لیگ کی صدارت ' انتخاب  کے لیے نا اھل کروانے کی سرگرمیوں کی وجہ سے تباہ اور برباد ھو ھی رھے ھیں لہٰذا مستقبل میں مزید تباہ اور برباد ھوں  گے۔ کیونکہ سیاسی عدمِ استحکام کا اثر سب سے زیادہ ملک کے انتظامی اور معاشی معاملات پر ھی پڑا کرتا ھے۔ جبکہ سیاسی بحران ملک کے انتظامی اور معاشی معاملات کو تباہ اور برباد کردیتے ھیں۔

پاکستان کے اس داخلی سیاسی بحران میں بین الاقوامی طاقتوں کی دخل اندازی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پنجاب کی آبادی پاکستان کی 60٪ آبادی ھے۔ صرف پنجاب سے ھی قومی اسمبلی کی نشستیں جیت کر پاکستان کی وفاقی حکومت بنائی جاسکتی ھے۔ بلکہ 2013 کے انتخاب میں نواز شریف نے پنجاب سے ھی قومی اسمبلی کی نشستیں جیت کر پاکستان کی وفاقی حکومت بنالی تھی۔ نواز شریف کے پنجاب کی عوام کے مقبول ترین سیاسی رھنما ھونے کی وجہ سے نواز شریف کی وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھلی کے بعد پنجاب میں سیاست کا تندور گرم ھوگیا ھے۔ جب تندور گرم ھوتا ھے تو پڑوسی بھی روٹیاں لگا لیتے ھیں۔ اس لیے اب یہ ناممکن ھے کہ؛ پڑوسی روٹیاں نہ لگائیں۔ بلکہ پنجاب میں گرم ھونے والے سیاست کے تندور پر تو لگتا ھے کہ؛ امریکہ ' چین اور روس نے بھی روٹیاں لگانے والوں میں شامل ھو جانا ھے۔ جبکہ سیاست کے تندور کو زیادہ دیر تک اور زیادہ گرم رکھنے کے لیے کچھ  نے تو تندور میں ایندھن بھی ڈالنا شروع کر دینا ھے۔ دراصل پاکستان میں " نیو گریٹ گیم " کا کھیل اپنے عروج پر ھے۔ پاکستان میں اس کھیل کے اھم بین الاقوامی کھلاڑی امریکہ اور چین ھیں جبکہ پاکستان میں سے قومی سطح  کے کھلاڑی پاکستان کی فوج کا سربراہ ھونے کی وجہ سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاکستان میں سب سے زیادہ عوامی حمایت حاصل ھونے اور خاص طور پر پنجاب سے عوامی حمایت حاصل ھونے کی وجہ سے نواز شریف ھیں۔ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے واضح طور پر کھل کر امریکن کیمپ یا چینی کیمپ کی طرف سے کھیل کھیلنے کا فیصلہ کرنے تک اب پاکستان میں سیاسی انتشار میں روز با روز اضافہ ھوتا جانا ھے۔


پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مفاد میں تو بہتر یہ ھی تھا کہ وزیرِ اعظم ھوتے ھوئے نواز شریف اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ باھمی مشاورت  کے ساتھ واضح طور پر امریکن یا چینی کیمپ میں جانے کا فیصلہ کرتے۔ لیکن نواز شریف کے وزیرِ اعظم کے طور پر برطرفی کے بعد جو صورتحال پیدا ھو چکی ھے ' اسکے بعد زیادہ امکانات تو یہ ھی ھیں کہ اب نواز شریف اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ واضح طور پر امریکن یا چینی کیمپ میں جانے کا فیصلہ اپنے اپنے طور پر کریں گے۔ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے پاکستان کے قومی کھلاڑی ھونے کی وجہ سے الگ الگ کیمپ میں جانے کی صورت میں پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے درمیان ٹکراؤ ھوگا جس سے نقصان پاکستان اور پاکستان کے عوام کا ھوگا۔ جبکہ ایک ھی کیمپ میں جانے کی صورت میں پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے درمیان باھمی تعاون کا طریقہ کار بلآخر طے کرنا ھی پڑنا ھے۔

No comments:

Post a Comment