Sunday 1 April 2018

پٹھانوں کے " وادیء سندھ " کی زمین پر قبضے۔


وادیء سندھ سے مراد 1936 میں وجود میں آنے والا صوبہ سندھ نہیں بلکہ دریائے سندھ اور اسکے معاون دریاؤں جہلم ' چناب ' راوی ' ستلج اور کابل کے آس پاس کے میدانی علاقوں کو عرف عام میں "وادیء سندھ" کہا جاتا ھے۔ "وادیء سندھ" کا علاقہ مغرب میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے لے کر مشرق میں گنگا جمنا تہذیب کے حامل اتر پردیش کی سرحد دریائے جمنا اور شمال میں شمالی افغانستان کے علاقہ بدخشاں سے لے کر جنوب میں بھارتی ریاست مہاراشٹر کی سرحد تک پھیلا ھوا ھے۔

وادیء سندھ ' ھمالیہ' قراقرم اور ھندوکش کے پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والے دریاؤں سے سیراب ھوتی ھے اور ان پہاڑی سلسلوں کے جنوب میں واقع ھے۔ زرخیز زمین ' مناسب پانی اور موزوں درجۂ حرارت کی وجہ سے وادیء سندھ زراعت اور انسانی رھائش کے لیے موزوں ھے۔ اسی وجہ سے انسان کی ابتدائی بستیاں وادیء سندھ میں بسیں جو بالآخر وادیء سندھ کی تہذیب "انڈس ویلی سولائزیشن" کہلائیں۔

پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' بونیری ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی کو وادیء سندھ کی تہذیب "انڈس ویلی سولائزیشن" یا "سپت سندھو" کے قدیمی باشندے ھیں۔ موجودہ پاکستان ' افغانستان کا مشرقی حصہ ' راجستھان اور گجرات کا مغربی حصہ "وادیء سندھ" میں شمار ھوتا ھے۔

افغانستان ' پاکستان اور دیگر ممالک میں افغانیوں ' پختونوں ' پشتونوں اور پٹھانوں کی کل آبادی 5 کروڑ 4 لاکھ 50 ھزار  ھے۔ افغانستان کی 3 کروڑ 25 لاکھ آبادی میں سے افغانیوں کی آبادی ایک کروڑ 36 لاکھ 50 ھزار  تھی۔ جبکہ ایک کروڑ 88 لاکھ 50 ھزار آبادی میں سے 87 لاکھ 75 ھزار تاجک ' 29 لاکھ 25 ھزار ازبک ' 26 لاکھ ھزارہ ' 13 لاکھ ایمک ' 9 لاکھ 75 ھزار ترکمان تھے۔ لیکن 30 لاکھ افغانیوں کے پاکستان اور 6 لاکھ 50 ھزار افغانیوں کے ایران اور دیگر ممالک میں چلے جانے کی وجہ سے اب افغانستان میں صرف ایک کروڑ افغانی بچے ھیں۔

پچھلے ھزار سال کی تاریخ بتاتی ھے کہ افغانیوں نے اپنی دھرتی افغانستانی کو ترقی دے کر حلال رزق کے ذرائع پیدا کرنے کے بجائے دوسری قوموں کی دھرتی پر قبضے اور وسائل کی لوٹ کی۔ افغانیوں نے ترک نسل کے غزنوی خاندان کی  1008 میں ' غوری خاندان کی 1187   میں ' خاندانِ غلاماں کی 1211 میں ' خلجی خاندان کی 1290 میں ' تغلق خاندان کی 1320 میں ' سید خاندان کی  1414 میں ' لودھی خاندان کی 1451 میں " وادیء سندھ " کی زمین پر قبضے کے دوران معاونت کرکے اور مدد حاصل کرکے سب سے پہلے " وادیء سندھ " کے علاقے واخان ' کافرستان ' نورستان ' اسمار ' موھمند ' لال پورہ ' استانیہ ' چمن ' نوچغائی ' وزیرستان ' بلند خیل ' کرم ' باجوڑ ' سوات ' بنیر ' دیر ' چلاس اور چترال پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد 1526 میں افغانستان ' پنجاب اور دھلی پر مغل بادشاہ بابر کے قبضے کی وجہ سے ترک نسل کے دھلی سلطانہ کا زوال  شروع ھوا تو منگول نسل کے مغل بادشاھوں کی معاونت کرکے اور مدد حاصل کرکے ایبٹ آباد ' بنوں ' بٹگرام ' تور غر ' شانگلہ ' صوابی ' لکی مروت ' مالاکنڈ ' مانسہرہ ' مردان ' نوشہرہ ' ٹانک ' پشاور ' چارسدہ ' ڈیرہ اسماعیل خان ' کرک ' کوھاٹ ' کوھستان ' ھری پور ' ھزارہ ' ھنگو پر قبضہ کرنا شروع کیا اور 1747ء میں افغانستان  کے نام سے احمد شاہ ابدالی کی درانی سلطنت کے قیام کے بعد ان قبضوں کو نہ صرف تیز کردیا بلکہ مستقل کرنا بھی شروع کردیا۔ اب پنجاب ' سندھ اور کراچی کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرنے میں مصروف ھیں۔ افغانیوں کی عادت ھے کہ کسی علاقہ پر قبضہ کے بعد اس دھرتی کو اپنی دھرتی اور اس قوم کے وسائل کو اپنے وسائل قرار دے کر جس قوم کی دھرتی پر قبضہ کیا ھو اس قوم پر الزام تراشی شروع کردیتے ھیں کہ وہ پٹھانوں کے ساتھ ظلم ' زیادتی اور نا انصافی کر رھے ھیں۔

افغانیوں کے اپنی دھرتی افغانستان کو ترقی دے کر حلال رزق کے ذرائع پیدا کرنے کے بجائے دوسری قوموں کی دھرتی پر قبضے اور وسائل کی لوٹ مار کرنے کے لالچ کا نتیجہ یہ نکلا ھے کہ 5 کروڑ 4 لاکھ 50 ھزار افغانی ' پختون ' پشتون ' پٹھان اس وقت افغانستان ' فاٹا ' بلوچستان ' خیبر پختونخوا ' پنجاب ' سندھ  ' کراچی ' ایران اور دوسرے ممالک میں بکھر چکے ھیں۔ اس لیے افغانیوں کا افغانستان میں تاجک ' ھزارہ ' ایمک ' ازبک ' ترکمان کے ساتھ ' خیبر پختونخوا میں پختونوں کا ھندکو پنجابیوں کے ساتھ ' بلوچستان میں پشتونوں کا بلوچوں کے ساتھ ' پٹھانوں کا پنجاب میں پنجابیوں  کے ساتھ ' سندھ میں سندھیوں  کے ساتھ اور کراچی میں مھاجروں  کے ساتھ سیاسی ' سماجی اور معاشی ٹکراؤ ھے۔ جبکہ ایران اور دوسرے ممالک میں کوئی اھمیت اور قدر نہیں ھے۔ اس لیے افغانیوں کا اپنے وطن افغانستان ' پختونوں کا خیبر پختونخوا ' پشتونوں کا بلوچستان اور پٹھانوں کا پنجاب ' سندھ اور کراچی میں سیاسی ' سماجی اور معاشی مستقبل تاریک ھی نظر آتا ھے۔

No comments:

Post a Comment