Wednesday 18 April 2018

ادھم سنگھ ' جلیانوالہ باغ اور جنرل ڈائر

مشرقی پنجاب میں مھاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد کا ایک باغ ہے جہاں 13 اپریل 1919ء کو انگریز فوج نے سینکڑوں پنجابی حریت پسندوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس قتل عام کا باعث رسوائے زمانہ رولٹ ایکٹ مجریہ 21 مارچ 1919 ء تھا۔ رولٹ ایکٹ کے ذریعے پنجابیوں کی رہی سہی آزادی بھی سلب کر لی گئی تھی۔ سارے پنجاب میں مظاہروں اور ہڑتالوں کے ذریعے رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج کیا جا رہا تھا اور امرتسر میں بھی بغاوت کی سی حالت تھی۔

13 اپریل 1919ء بروز اتوار امرتسر کے شہری شام کے 4 بجے اپنے رہنماؤں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے لیے جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے۔ حکومت نے جلسے جلوسوں پر تین روز قبل پابندی لگا دی تھی۔ جلیانوالہ باغ دو سو گز لمبا اور ایک سو گز چوڑا تھا۔ اس کے چاروں طرف دیوار تھی اور دیوار کے ساتھ ہی مکانات تھے۔ باہر نکلنے کے لیے ایک چھوٹا سا تنگ راستہ تھا۔ تمام باغ کچھا کھچ بھرا ہوا تھا اور لوگ مقرریں کی تقرریں سن رہے تھے۔ 13 اپریل کو شام ساڑھے چار بجے تک امرتسر اور گرد و نواح سے تقریباً پندرہ سے بیس ہزار تک افراد باغ میں جمع ہو چکے تھے۔

پانچ بج کر پندرہ منٹ پر جنرل ڈائر نے پچاس فوجیوں اور دو آرمرڈ گاڑیوں کے ساتھ جلیانوالہ باغ پہنچ کر کسی اشتعال کے بغیر مجمع پر فائرنگ کا حکم دیا۔ اس حکم پر عمل ہوا اور چند منٹوں میں سینکڑوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لاتعداد لوگوں نے باغ کے کونے میں بنے ہوئے کنویں میں چھلانگیں لگائیں تاکہ اپنی جانیں بچا سکیں لیکن ان پر بھی فائرنگ کر دی گئی۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق کنویں سے ایک سو بیس لاشیں نکالی گئیں اور باقی نہ نکالی جا سکیں۔

فائرنگ بیس منٹ جاری رہی جس کے بعد جنرل ڈائر اور ان کے ماتحت فوجی واپس روانہ ہو گئے۔ اس دوران تھری ناٹ تھری کے 1650 راؤنڈ فائر کئے گئے۔ جنرل ڈائر کے اندازے کے مطابق فائر کی گئی چھ گولیوں میں سے ایک گولی جانلیوا ثابت ہوئی اور اس حساب سے مرنے والوں کی تعداد دو سو سے تین سو تھی جبکہ برطانوی حکومت کے ریکارڈ کے مطابق مرنے والوں کی تعداد تین سو اناسی اور زخمیوں کی تعداد بارہ سو تھی۔ تاہم غیر سرکاری اعداد و شمار اس کے برعکس ہیں۔ پنڈت مدن موہن مالویہ کا ' جنہوں نے اس واقعہ کے فوراً بعد امرتسر پہنچ کر اپنے ساتھیوں کی مدد سے اعداد و شمار جمع کئے ' ان کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی۔ اتنے بے گناہ لوگوں کی جان لینے والا جنرل ڈائر المناک انجام سے نہ بچ سکا اور 13مارچ 1940 کو اودھم سنگھ نے اسے لندن جا کر کیفر کردار تک پہنچا دیا۔

1920 میں جلیانوالہ باغ کو پانچ لاکھ ساٹھ ہزار چار سو بیالیس روپے میں خرید لیا گیا لیکن برصغیر کی آزادی تک یہاں یادگار تعمیر نہ کی جا سکی۔ آزادی کے فوراً بعد اس یادگار کی تعمیر شروع ہوئی جو 1961 میں مکمل ہوئی جس پر سوا نو لاکھ روپے خرچ اٹھا اور اسے شعلہ آزادی کا نام دیا گیا اور اس کا افتتاح ڈاکٹر راجندر پرشاد نے کیا جو جمہوریہ بھارت کے پہلے صدر تھے۔ مرکزی یادگار کی انچائی تیس فٹ ہے۔

سانحہ جلیانوالہ باغ جدید انسانی تاریخ اور آزادی کی تحریکوں کا سب سے المناک واقعہ ہے جو حکمرانوں کی سنگدلی اور تنگ نظری کا مظہر بھی ہے۔ جلیانوالہ باغ کا پورا ماحول اب بھی بنا پوچھے خاموشی سے تمام داستان بیان کر دیتا ہے۔

No comments:

Post a Comment