Monday 9 April 2018

پاکستان کے ھر علاقے میں پنجابی کے لیے معاملات اور مسائل مختلف ھیں۔

پاکستان میں پنجابی کی آبادی 60% ھے۔ پنجابی صرف پنجاب کی ھی سب سے بڑی آبادی نہیں ھیں بلکہ خیبر پختونخواہ کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے پختون علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے بلوچ علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' سندھ کی دوسری بڑی آبادی ' کراچی کی دوسری بڑی آبادی بھی پنجابی ھی ھیں۔ اس لیے پاکستان کے ھر علاقے کے حساب سے پنجابی کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات اور مسائل مختلف ھیں۔

جنوبی پنجاب میں بلوچ نے اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے اور جنوبی پنجاب میں بلوچوں کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے جنوبی پنجاب میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک پنجابی کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات کے لحاظ سے بڑا مسئلہ بلوچ ھیں۔

دیہی سندھ میں بلوچ نے اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے اور دیہی سندھ میں بلوچوں کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے دیہی سندھ میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک پنجابی کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات کے لحاظ سے بڑا مسئلہ بلوچ ھیں۔

بلوچستان کے بلوچ علاقے میں بلوچ نے اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے اور بلوچستان کے بلوچ علاقے میں بلوچوں کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے بلوچستان کے بلوچ علاقے میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک  پنجابی کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات کے لحاظ سے بڑا مسئلہ بلوچ ھیں۔

بلوچستان کے پشتون علاقے میں پشتون نے اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے اور بلوچستان کے پشتون علاقے میں پشتونوں کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے بلوچستان کے پشتون علاقے میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک  پنجابی کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات  کے لحاظ سے بڑا مسئلہ پشتون ھیں۔

خیبر پختونخواہ کے پختون علاقے میں پختون نے اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے اور خیبر پختونخواہ  کے پختون علاقے میں پختونوں کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے خیبر پختونخواہ کے پختون علاقے میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک  پنجابی کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات  کے لحاظ سے بڑا مسئلہ پختون ھیں۔

کراچی میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر نے اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی ھے اور کراچی میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے کراچی میں رھنے والے پنجابی کے نزدیک  پنجابی کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات  کے لحاظ سے بڑا مسئلہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ھیں۔

جبکہ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی کا مسئلہ یہ ھے کہ؛ ویسے تو پنجاب میں پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر بڑی تعدا میں آباد ھیں۔ سیاست ' صحافت ' سرکاری نوکریوں میں ان کو بھرپور حصہ دیا جاتا ھے۔ زمین اور جائیداد بھی ان کے پاس بہت ھے لیکن وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب میں چونکہ پنجابیوں کی آبادی بہت زیادہ ھے۔ اس لیے وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب میں پنجابیوں کو پٹھانوں ' بلوچوں اور ھندوستانی مھاجر وں سے سماجی ' سیاسی ' معاشی اور انتظامی طور پر نہ کوئی بڑا نقصان ھوتا ھے اور نہ فوری طور پر کوئی بڑا خطرہ ھے۔ اس لیے وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کا پنجابی ' پنجابی قوم پرست بن کر وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب سے باھر رھنے والے پنجابی کے مسائل کا احساس کرنے کے بجائے برادریوں کے چکر میں پھنسا رھتا ھے۔

اس وقت جتنی پنجابی قوم پرستی کراچی ' سندھ ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' بلوچستان کے بلوچ علاقے اور جنوبی پنجاب کے علاقے کے پنجابی میں ھے ' وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی میں اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ھونی۔ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کا پنجابی تو پنجابی بول لینے کو ھی پنجابی قوم پرستی سمجھ لیتا ھے۔ اس سے اگے اس کی عقل کام ھی نہیں کرتی۔ برادری کی بنیاد پر آپس میں محاذ آرائی کرتے رھنے کی وجہ سے وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی ' پنجاب بھی تباہ کر رھے ھیں اور پنجابی قوم کو بھی برباد کر رھے ھیں۔

دوسری طرف فوج ' سول سروسز ' سیاست ' صحافت میں وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی کا غلبہ ھے اور ملک کی منصوبہ بندی اور حکمرانی میں اھم کردار فوج ' سول سروسز ' سیاست ' صحافت کا ھوتا ھے۔ لیکن وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کا پنجابی چونکہ پنجابی قوم پرست نہیں ھے اور اس کو ھندوستانی مھاجر ' بلوچ ' پٹھان سے براہ راست کوئی تکلیف بھی نہیں ھے۔ اس لیے وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی کی سوچ ' سمجھ اور شعور میں کراچی ' دیہی سندھ ' جنوبی پنجاب ' بلوچستان کے بلوچ علاقے ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' خیبر پختونخواہ کے پختون علاقے میں رھنے والے پنجابی کے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات اور مسائل کے بارے میں احساس ھی نہیں ھے۔ جس کی وجہ سے کراچی ' دیہی سندھ ' جنوبی پنجاب ' بلوچستان کے بلوچ علاقے ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' خیبر پختونخواہ کے پختون علاقے میں رھنے والے پنجابی ذلیل و خوار ھو رھے ھیں۔

وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب سے باھر رھنے والے پنجابی کے لیے گو کہ اپنے اپنے رھائشی علاقے کی نسبت سے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات کے لحاظ سے مسئلہ کہیں بلوچ ھیں ' کہیں پشتون ھیں ' کہیں پختون ھیں ' کہیں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ھیں لیکن چونکہ پنجابی ھونے کی وجہ سے پٹھان ' بلوچ ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کے ظلم اور زیادتیوں کا نشانہ ھیں۔ اس لیے انہیں وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب سے باھر مختلف علاقوں میں رھنے والے پنجابی کے مسائل کا ادراک بھی ھے اور احساس بھی ھے جبکہ وہ پنجابی ھونے کے ساتھ ساتھ پنجابی قوم پرست بھی ھیں۔ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی کو چونکہ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب سے باھر رھنے والے پنجابی کے مسائل کا نہ ادراک ھے اور نہ احساس ھے۔ اس لیے وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب میں بیٹھ کر وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب سے باھر رھنے والے پنجابی کے مسائل میں تعاون کرنے کے بجائے اپنے فرسودہ فلسفے جھاڑتا رھتا ھے۔ لہٰذا وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب سے باھر رھنے والے پنجابی ' وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی سے امیدیں وابستہ کرنے کے بجائے  کراچی ' دیہی سندھ ' جنوبی پنجاب ' بلوچستان کے بلوچ علاقے ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' خیبر پختونخواہ کے پختون علاقے میں رھنے والے پنجابی آپس میں رابطہ کا کوئی طریقہ اختیار کریں اور آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کرکے خود اپنا مشترکہ پروگرام بنائیں تو وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی کو احساس ھوگا کہ کہیں وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب سے باھر رھنے والا پنجابی وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی کے خلاف ھی نہ ھوجائے۔ اس سے فوج ' سول سروسز ' سیاست ' صحافت سے وابستہ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی پر دباؤ پڑے گا کہ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب سے باھر رھنے والے پنجابی کے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات اور مسائل کو سمجھا جائے اور ان پر دھیان دیا جائے۔

وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی کو ویسے خود بھی اپنے مستقبل کا خیال کرنا چاھیے۔ اس کو معلوم ھونا چاھیے کہ 2040 میں پاکستان کی آبادی 40 کروڑ ھو جانی ھے اور پنجاب کی آبادی 24 کروڑ ھو جانی ھے۔ جبکہ آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب میں ھونا ھے۔ اس لیے وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب میں آبادی زیادہ اور زمین کم ھونے کی وجہ سے اور صنعت ' تجارت ' سرکاری نوکری ' پرائویٹ نوکری ' ھنرمندی ' ٹھیکیداری کے شعبوں کو اختیار کرنے کی وجہ سے وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب میں سے پنجابی کو باھر جانا پڑنا ھے۔ اس لیے 2040 تک پنجابی نے صرف پنجاب کی ھی بڑی آبادی نہیں رھنا ' کراچی میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں سے زیادہ پنجابی ھو جانے ھیں۔ سندھ میں سندھی بولنے والے سماٹوں سے زیادہ پنجابی ھو جانے ھیں۔ خیبر پختونخواہ میں پختو  بولنے والے افغانیوں سے زیادہ پنجابی ھو جانے ھیں۔ بلوچستان کے پشتون علاقے میں پشتو بولنے والے افغانیوں سے زیادہ پنجابی ھو جانے ھیں۔ بلوچستان کے بلوچ علاقے میں بلوچی بولنے والے کردستانیوں سے زیادہ پنجابی ھو جانے ھیں۔ جب وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی ' سندھ ' کراچی ' خیبر پختونخواہ ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' بلوچستان کے بلوچ علاقے میں جائیں گے تو پھر وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی کو معلوم ھوجائے گا کہ؛ قوم پرستی کیا ھوتی ھے؟ جبکہ یہ بھی سمجھ آجائے گا کہ؛ پنجابی قوم پرست بنے بغیر نہ عزت محفوظ رہ سکتی ھے ' نہ جان محفوظ رہ سکتی ھے ' نہ مال محفوظ رہ سکتا ھے ' نہ گھر آباد ھو سکتا اے اور نہ کاروبار کیا جا سکتا ھے۔

پاکستان کے قائم ھوتے کے بعد سے افغانی نزاد پٹھانوں کو پٹھان غفار خان ' کردستانی نزاد بلوچوں کو بلوچ خیر بخش مری ' 1972 سے بلوچ سندھیوں اور عربی نزاد سندھیوں کو عربی نزاد جی - ایم سید ' 1986 سے یوپی ‘ سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کو مھاجر الطاف حسین نے “Proxy of Foreign Sponsored Intellectual Terrorism”  کا کھیل ' کھیل کر اپنی “Intellectual Corruption” کے ذریعے گمراہ کرکے ' انکی سوچ کو تباہ کردیا تھا۔ اس لیے بلوچستان کے بلوچ علاقے اور سندھ کے سندھی علاقے میں بلوچ ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے پٹھان علاقے میں پٹھان ‘ کراچی کے مہاجر علاقے میں اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر ‘ مقامی سطح پر اپنی سماجی اور معاشی بالادستی قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ بروھی ' سماٹ اور ھندکو قوموں پر اپنا سیاسی راج قائم رکھنا چاھتے ھیں۔ ان کو اپنے ذاتی مفادات سے اتنی زیادہ غرض ھے کہ پاکستان کے اجتماعی مفادات کو بھی یہ نہ صرف نظر انداز کر رھے ھیں بلکہ پاکستان دشمن عناصر کی سرپرستی اور تعاون لینے اور ان کے لیے پَراکْسی پولیٹکس کرنے کو بھی غلط نہیں سمجھتے۔

بلوچ ‘ پٹھان اور اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر کی عادت بن چکی ھے کہ ایک تو بروھی ' سماٹ اور ھندکو پر اپنا سماجی ' سیاسی اور معاشی تسلط برقرار رکھا جائے۔ دوسرا کراچی ' سندھ ‘ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں رھنے والے پنجابی پر ظلم اور زیادتی کی جائے۔ تیسرا پنجاب اور پنجابی قوم پر الزامات لگا کر ' تنقید کرکے ' توھین کرکے ' گالیاں دے کر ' گندے حربوں کے ذریعے پنجاب اور پنجابی قوم کو بلیک میل کیا جائے۔ چوتھا یہ کہ پاکستان کے سماجی اور معاشی استحکام کے خلاف سازشیں کرکے ذاتی فوائد حاصل کیے جائیں۔ بلوچ ‘ پٹھان اور اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر سیاستدانوں اور صحافیوں نے اپنا وطیرہ بنایا ھوا ھے کہ ھر وقت پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کے الفاظ ادا کرکے ' جھوٹے قصے ' کہانیاں تراش کر الزام تراشیاں کرتے رھتے ھیں۔ پنجاب اور پنجابی کو گالیاں دیتے رھتے ھیں۔ اپنے اپنے علاقے میں رھنے والے پنجابیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کرنے پر اکساتے رھتے ھیں۔ اپنے علاقوں میں پنجابیوں پر ظلم اور زیادتیاں کرتے رھتےھیں۔ اپنے علاقوں میں کاروبار کرنے والے پنجابیوں کو واپس پنجاب نقل مکانی کرنے پر مجبور کرتے رھتے ھیں بلکہ پنجابیوں کی لاشیں تک پنجاب بھیجتے رھتے ھیں۔


کراچی ' دیہی سندھ ' جنوبی پنجاب ' بلوچستان کے بلوچ علاقے ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' خیبر پختونخواہ کے پختون علاقے میں رھنے والے پنجابی کو فوج ' سول سروسز ' سیاست ' صحافت میں شریک کرنے سے گریز کیا جاتا ھے۔ اگر وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے پنجابی کے ساتھ ساتھ کراچی ' دیہی سندھ ' جنوبی پنجاب ' بلوچستان کے بلوچ علاقے ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' خیبر پختونخواہ کے پختون علاقے میں رھنے والے پنجابی کو بھی فوج ' سول سروسز ' سیاست ' صحافت میں شریک کیا جائے بلکہ خصوصی طور پر شریک کیا جائے تاکہ ملک کی منصوبہ بندی اور حکمرانی میں شریک ھوسکے تو پھر ھندوستانی مھاجر ' بلوچ ' پٹھان کی اجارہ داری ' بلیک میلنگ اور بدمعاشی بھی ختم کی جاسکتی ھے اور پاکستان میں سے فتنہ اور فساد ختم کرکے پاکستان کو مظبوط ' مستحکم اور خوشحال ملک بھی بنایا جا سکتا ھے۔ ورنہ پاکستان کو تباہ و برباد کرنے میں براہِ راست ھندوستانی مھاجر ' بلوچ ' پٹھان کے ساتھ ساتھ بلا واسطہ طور پر وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کا فوج ' سول سروسز ' سیاست ' صحافت میں موجود پنجابی بھی برابر کا شریک ھے۔

No comments:

Post a Comment