Thursday, 27 September 2018

What is the problem with Foreign Policy Making of Pakistan?


How Pakistan will be able to make a unanimous Foreign Policy when Sammat, Brahui, Hindko, Gilgati Baltistani, Kashmiri, Kohistani, Chitrali, Sawati, Derawali, Gujrati, Rajasthani has no influence on the national policymaking of Pakistan due to the inefficient role of their elite.

Baloch has no ability to participate in the national affairs of Pakistan due to the conspirator behavior of their elite. The elite of Pathan and Hindustani Muhajir has a dominating role in the national policymaking of Pakistan. But, Pathan elite has Pro Afghan inclination and their interests are restricted for the social, economic, political domination of Pathan in the national affairs of Pakistan.

Hindustani Muhajir elite has its contacts with India and the other Anti-Pakistan States and Non-State Actors due to their interest in social, economic, political domination of Hindustani Muhajir in the national affairs of Pakistan and desire of total control on Karachi.

Punjabi is the 60% population of Pakistan, therefore, the Punjabi elite has the prime duty and responsibility to form the National and Foreign Policy. But, the elite of Punjabi does not have the ability of national policymaking of Pakistan due to clones and psychological slaves of Gunga Jumna Culture, Urdu Speaking, Hindustani Muhajir and habitual to follow and implement the policy articulated, communicated, expressed, formulated by the Hindustani Muhajir.

پاکستان میں پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت کو پروموٹ کیوں نہیں ھونے‌ دیا جاتا؟

پاکستان کی %60 آبادی پنجابی ھے۔ لیکن پاکستان میں اردو زبان اور مذھبی انتہا پسندی کو پروموٹ کرنے کے لیے پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت کو پروموٹ نہیں ھونے‌ دیا جاتا۔ کیونکہ؛

1۔ پاکستانی پنجاب میں اردو زبان اور مذھبی انتہا پسندی کے بجائے اگر پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت پروموٹ ھو گئی تو پھر؛ کیا پاکستان کی %60 آبادی پنجابی ھونے کی وجہ سے پاکستان کی زبان اور پاکستان کی ثقافت ' پنجابی نہیں ھو جانی؟

2۔ پاکستانی پنجاب میں اردو زبان اور مذھبی انتہا پسندی کے بجائے اگر پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت پروموٹ ھو گئی تو پھر؛ کیا پنجابی نے پنجابی قوم پرست نہیں بن جانا؟

3۔ پاکستان کی سب سے بڑی اور مسلم امہ کی تیسری بڑی لسانی آبادی ' مسلمان پنجابی ' اگر پنجابی قوم پرست بن گئے تو پھر؛ کیا جنوبی ایشیاء کی تیسری بڑی اور دنیا کی نوویں بڑی قوم ، پنجابی قوم نے ایک نہیں ھو جانا؟

4۔ پنجابی قوم اگر ایک ھو گئی تو پھر؛ کیا 1947 میں تقسیم کیے جانے‌ والے پنجاب نے ایک نہیں ھو جانا؟ کیا انڈیا کے قبضے والے پنجاب کے پاکستانی پنجاب کے ساتھ مل جانے کو انڈیا برداشت کر لے گا؟

5۔ پنجاب کے ایک ھو جانے سے؛ کیا انڈیا کے قبضے والا کشمیر بھی انڈیا سے آزاد ھوکر پاکستان میں ھی نہیں آ جانا؟ کیا انڈیا کے قبضے والے کشمیر کے پاکستان میں شامل ھو جانے کو بھی انڈیا برداشت کر لے گا؟

6۔ انڈیا کے قبضے والے پنجاب اور انڈیا کے قبضے والے کشمیر کے پاکستان میں شامل ھو جانے سے؛ کیا مراٹھی قوم ' تیلگو قوم ' تامل قوم ' گجراتی قوم ' کنڑا قوم ' ملایالم قوم ' اڑیہ قوم ' راجستھانی قوم ' آسامی قوم نے بھی ھندوستانی قوم (اتر پردیش کے گنگا جمنا کلچر کے ھندی بولنے والوں) سے آزاد نہیں جانا؟

7۔ پاکستان اب بھی %60 پنجابی آبادی کا ملک ھے۔ اگر انڈیا کے قبضے والے پنجاب اور انڈیا کے قبضے والا کشمیر بھی پاکستان میں شامل ھو جاتے ھیں تو پھر؛ کیا پاکستان میں پنجابی آبادی %85 نہیں ھو جانی؟

8۔ انڈیا کے قبضے والے پنجاب اور انڈیا کے قبضے والے کشمیر کے پاکستان میں شامل ھو جانے سے پاکستان میں پنجابی آبادی کے %60 سے بڑہ کر %85 ھو جانے سے؛ مسلمان پٹھان ' مسلمان بلوچ اور مسلمان اردو بولنے والے ھندوستانی کا کیا بنے گا؟

9۔ پنجابی قوم کے ایک ھو جانے سے پنجابی فوج کے مقابلے کی فوج جنوبی ایشیاء ' وسطی ایشیاء ' مشرقِ وسطہ اور افریقہ میں کسی ملک کے پاس نہیں ھونی۔ کیا بین الاقوامی طاقتیں یہ برداشت کر لیں گی؟

کسی بھی قوم کو سماجی طور پر مظبوط اور سیاسی طور پر طاقتور کرنے میں اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کا کردار بڑا اھم ھوتا ھے۔ اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا میں کام کرنے والے 2 قسم کے لوگ ھوتے ھیں۔ ایک پالیسی بنانے والے لوگ اور دوسرے پالیسی کو نافذ کرنے والے لوگ ھوتے ھیں۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا میں پالیسی کو نافذ کرنے والے تو پنجابی ھی زیادہ ھیں۔ لیکن پالیسی بنانے کے کام کو تو پاکستان کے بنتے ھی یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔ اب بھی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا میں یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی ھی بالادستی ھے یا پھر اردو بولنے والے یوپی ' سی پی والوں کا رنگ پکڑ لینے والے پنجابی بالادستی میں ھیں۔ جو یوپی ' سی پی والوں کا رنگ پکڑ لینے کی وجہ سے گنگا جمنا ثقافت اور اردو زبان کے ذھنی غلام بنے ھوئے ھیں۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کی پالیسی بنانے والے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی اور اردو بولنے والے یوپی ' سی پی والوں کا رنگ پکڑ لینے والے پنجابی ' انگریز کے پنجاب پر قبضے کے وقت کی اس فائل کو پکڑے بیٹھے ھیں کہ؛ اگر پنجاب میں اردو کے بجائے پنجابی کو پروموٹ کیا گیا تو "پنجابی قوم پرستی" نے پھر سے جاگ جانا ھے۔

جس کی وجہ سے مذھبی طور پر الگ الگ ھونے‌ کے باوجود بھی مسلمان پنجابیوں ' سکھ پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں اور کرسچن پنجابیوں نے ایک جیسی زبان ' ایک جیسی ثقافت اور ایک جیسی تاریخ ھونے کی وجہ سے آپس میں پھر اکٹھے ھوجانا ھے۔

جبکہ مسلمان پٹھان ' مسلمان بلوچ ' مسلمان اردو بولنے والے ھندوستانی ' انڈیا اور انٹرنیشنل پاور پلیئرز بھی ڈرتے ھیں کہ؛ مسلمان پنجابیوں ' سکھ پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں اور کرسچن پنجابیوں کے ایک جیسی زبان ' ایک جیسی ثقافت اور ایک جیسی تاریخ ھونے کی وجہ سے آپس میں پھر اکٹھے ھونے سے پنجابی قوم نے مذھب میں تقسیم ھونے کے بجائے "سیکولر پنجابی قوم" بن جانا ھے۔

جس کی وجہ سے پنجابی قوم نے پاکستان کی سب سے بڑی ' جنوبی ایشیاء کی تیسری بڑی اور دنیا کی نوویں بڑی قوم ھونے‌ کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کی سب سے زیادہ طاقتور قوم بن جانا ھے۔ پنجابی قوم کے مارشل قوم ھونے‌ کے ساتھ ساتھ طاقتور قوم بن جانے کی وجہ سے پنجابی قوم کو پھر کسی نے بھی اپنے کنٹرول میں نہیں رکھ سکنا۔

اس لیے مسلمان اردو بولنے والے ھندوستانیوں ' انڈیا اور کجھ انٹرنیشنل پاور پلیئرز کی کوشش ھے کہ؛ پنجاب میں پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت کو پروموٹ ھونے‌ سے روکنے کے لیے اور پنجابی قوم کو مذھب کی بنیاد پر تقسیم کرکے رکھنے کے لیے "پراکسی پولیٹکس" کر کے پنجاب میں اردو زبان کو اور مذھبی انتہا پسندی کو پروموٹ کیا جائے۔ جبکہ مسلمان پٹھان اور مسلمان بلوچ کی کوشش ھے کہ؛ پنجابی قوم کو پنجابی زبان کے لہجوں اور پنجاب کو علاقوں میں تقسیم کیا جائے۔

Tuesday, 25 September 2018

پنجاب کی اور پنجاب میں پنجابیوں کی آبادی کیسے کم کی جائے؟

پنجاب کی آبادی 109,989,000 ھے۔ پنجاب میں پنجابیوں کی تعدا 99,375,061 ھے۔ جبکہ 10,613,939 غیر پنجابی رھتے ھیں۔ ان میں سے اردو بولنے والے 5,356,464 ' پشتو بولنے والے2,177,781 ' بلوچی بولنے والے 912,908 ' سندھی بولنے والے 164,983 ھیں۔

سندھ کی آبادی 47,855,000 ھے۔ اس میں 2,541,100 پنجابی ھیں۔ خیبر پختونخوا کی آبادی 30,509,000 تھی لیکن فاٹا کی 4,993,000 آبادی کے انضام کے بعد اب خیبر پختونخوا کی آبادی 35,502,000 ھوچکی ھے۔ اس میں 802,115,4 پنجابی ھیں۔ بلوچستان کی آبادی 12,335,000 ھے۔ اس میں 139,385 پنجابی ھیں۔

پنجاب میں چونکہ پنجابی آبادی زیادہ ھے۔ اردو' پشتو ' بلوچی ' سندھی بولنے والے کم ھیں۔ پنجابی اس لیے برادری کی بنیاد پر آپس میں محاذ آرائی کرتے رھتے ھیں۔ اس کے علاوہ پنجاب کی آبادی زیادہ ھے جبکہ سندھ ' خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی آبادی پنجاب کے مقابلے میں بہت کم ھے۔

برادری کی بنیاد پر پنجابیوں کی آپس کی محاذ آرائی ختم کرنے جبکہ پنجاب اور دوسرے صوبوں کے درمیان آبادی کے بہت زیادہ فرق کو کم کرنے کے لیے ضروری ھے کہ؛

1۔ ایک کروڑ سندھیوں کو سندھ سے پنجاب میں منتقل کیا جائے اور پنجاب میں سے دو کروڑ پنجابیوں کو سندھ منتقل کردیا جائے۔

2۔ ایک کروڑ پشتونوں کو خیبر پختونخوا سے پنجاب میں منتقل کیا جائے اور پنجاب میں سے دو کروڑ پنجابیوں کو خیبر پختونخوا منتقل کردیا جائے۔

3۔ پچاس لاکھ بلوچوں اور پشتونوں کو بلوچستان سے پنجاب میں منتقل کیا جائے اور پنجاب میں سے ایک کروڑ پنجابیوں کو بلوچستان منتقل کردیا جائے۔

اس طرح غیر پنجابیوں کی پنجاب میں تعداد ایک کروڑ کے بجائے 3 کروڑ 50 لاکھ ھوجائے گی۔ جبکہ 5 کروڑ پنجابیوں کو دوسرے صوبوں میں منتقل کرنے سے پنجاب میں پنجابیوں کی تعداد 10 کروڑ کے بجائے 5 کروڑ رہ جائے گی۔ اس کے علاوہ پنجاب کی آبادی بھی 11 کروڑ کے بجائے 8 کروڑ 50 لاکھ رہ جائے گی۔ جبکہ سندھ ' خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی آبادی جو کہ اب 9 کروڑ 50 لاکھ ھے۔ وہ 3 کروڑ آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے 12 کروڑ 50 لاکھ ھونے سے پنجاب کی آبادی سے زیادہ ھوجائے گی۔

Sunday, 23 September 2018

پاکستان اور ھندوستان میں جنگ تو ھونی ھی ھے۔

پاکستان اور ھندوستان کا  1947 سے لیکر اب تک جو حال ھے۔ اس کے نتیجے میں صلاح مشورے سے امن ھونے کی امید نہیں ھے۔ اس لیے جنگ تو ھونی ھی ھے۔ اس کے بغیر بات کسی طرف نہیں لگنی۔ ھندوستان کا زیادہ دھیان پاکستان میں "پراکسی وار" پر رھنا ھے۔ پاکستان کے بنتے ھی ھندوستان نے پاکستان کے صوبہ سرحد میں  "پشتونستان" کی سازش شروع کردی تھی۔ اس کے بعد بلوچستان میں "آزاد بلوچستان" کی سازش بھی شروع کردی۔ 1965 کی ھندوستان اور پاکستان کی جنگ کے بعد سندھ میں "سندھودیش" کی سازش بھی شروع کردی۔ 1986 سے  پاکستان کے سب سے بڑے اور بندرگاہ والے شھر کراچی میں "جناح پور" کی سازش بھی شروع کردی۔ اب جنوبی پنجاب میں "سرائیکی" سازش بھی کر رھا ھے۔

پاکستان کو بھی ھندوستان کی پاکستان میں "پراکسی وار" کے جواب میں ھندوستان میں "پراکسی وار" کرنی چاھیے تھی لیکن؛ پاکستان کے بننے سے لیکر 1977 میں جنرل ضیاء الحق کے پاکستان کی فوج کا پہلا پنجابی سپاہ سالار اور پاکستان کا پہلا پنجابی فوجی حکمران بننے سے پہلے اور 1990 میں نواز شریف کے پاکستان کا پہلا پنجابی سیاسی رھنما اور پاکستان کا وزیرِ اعظم بننے تک پاکستان پر جو ھندوستانی مھاجر ' پٹھان اور سندھی حکمراں رھے تھے۔ انہوں نے ھندوستان کی پاکستان میں "پراکسی وار" کے جواب میں ھندوستان میں "پراکسی وار" نہیں کی۔ بلکہ ھندوستان کی پاکستان میں "پراکسی وار" کو پاکستان کی سب سے بڑی آبادی پنجابی کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرتے رھے اور پاکستان پر حکمرانی کرکے اپنے مفاد حاصل کرتے رھے۔

پاکستان کے ھندوستانی مھاجر ' پٹھان اور سندھی حکمرانوں نے اس لیے ھندوستان میں "پراکسی وار" نہیں کی کہ؛ پہلے ھی پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی تھی۔ اس لیے پاکستان کی ھندوستان میں "پراکسی وار" کے ذریعے ھندوستان کی 25٪ ھندی آبادی سے اگر 75٪ آبادی تیلگو ' تامل ' ملایالم ' مراٹھی ' گجراتی ' راجستھانی ' کنڑا ' اڑیہ ' آسامی ' بھوجپوری قوموں کو جبکہ بنگالی اور پنجابی کو ھندوستان میں "پراکسی وار" کے ذریعے آزاد کروایا جاتا تو پھر ھندوستان کے قبضے سے آزاد ھوکر پنجابیوں نے پاکستان کی 60٪ آبادی کے ساتھ مل جانا تھا۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی پنجابی آبادی 80٪ ھو جانے کی وجہ سے پاکستان نے عملی طور پر پنجابستان بن جانا تھا۔ جہاں ھندوستانی مھاجر ' پٹھان ' بلوچ ' سندھی نے اقلیت بن جانا تھا اور ان سے پاکستان پر حکمرانی نہیں ھوپانی تھی۔

پاکستان میں مسئلہ یہ رھا کہ؛ 1947 میں پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے 20 لاکھ پنجابی مارے گئے تھے اور 2 کروڑ پنجابی اجڑ گئے تھے۔ پنجابیوں کے دربدر ھونے کی وجہ سے ھندوستانی مھاجر ' پٹھان ' بلوچ ' سندھی نہ صرف پاکستان پر راج کرتے رھے بلکہ پنجاب کو بلیک میل بھی کرتے رھے اور پنجابیوں کو گالیاں بھی دیتے رھے۔ پنجابی 1947 میں اجڑنے اور دربدر ھونے کے بعد اب پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ھو گئے ھیں۔ پاکستان پر بھی اور پاکستان کی حکمرانی پر بھی اب پنجابی نے کنٹرول کرلیا ھے۔ لیکن ھندوستان میں "پراکسی وار" کرنے کے لیے پنجابی کے پاس اب وقت نہیں ھے۔ کیونکہ "پراکسی وار" کا رزلٹ 10 - 15 سال بعد آنے لگتا ھے۔ جبکہ ھندوستان کی طرف سے  "پراکسی وار" کے ذریعے ھندوستانی مھاجر ' پٹھان ' سندھی اور بلوچ کی نظریاتی برین واشنگ کرنے کی وجہ سے ان کی عادت پنجاب اور پنجابی کے ساتھ پنگا لینے والی بن چکی ھے۔ اس لیے پاکستان کے پاس ھندوستان کا مقابلہ کرنے کے لیے اب چارہ ایٹمی ھتھیار ھی ھیں۔

ھندوستان نے پاکستان میں اگر "پراکسی وار" کو مزید بڑھایا (جو کہ امریکہ کی سی پیک کا راستہ روکنے کی فرمائش کی وجہ سے ھندوستان کو بڑھانی ھی پڑنی ھے) تو پھر پاکستان نے ھندوستان کے ساتھ لڑائی تو شروع کر ھی دینی ھے۔ (پیچھے سے سی پیک کا راستہ روکنے کی وجہ سے چین کی پشت پناھی بھی تو پاکستان کو حاصل ھونی ھے)۔ ھندوستان نے پراکسی وار  ' زبان درازی ' بین الاقوامی فورم پر پروپیگنڈہ کرنے پر زیادہ زور دینا ھے۔ جبکہ پاکستان نے پراکسی وار  ' زبان درازی ' بین الاقوامی فورم پر پروپیگنڈہ کرنے کے چکر میں زیادہ پڑنا نہیں ھے۔ اس لیے لڑائی شروع ھونے کے بعد پاکستان نے سیدھا سیدھا ھندوستان پر ایٹمی ھتھیار پھینک دینے ھیں۔

پاکستان اور ھندوستان کی سرحد جڑی ھوئی ھے۔ اس لیے ایٹمی ھتھیاروں کو روکنے والا سسٹم ھندوستان کے کام نہیں آنا۔ جبکہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں ھندوستان اور پاکستان کا جو سرحدی علاقہ ھے۔ وہ غیر آباد ھے۔ اس علاقے میں ھندوستان کی فوج نے اگر پیش قدمی کی کہ وہ سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاقے کو پنجاب سے کاٹ دے تاکہ ان علاقوں میں ھندوستان کی "پراکسی وار" کے ذریعے تیار کیے گئے کراچی میں " جناح پور" ' سندھ میں "سندھیودیش" ' جنوبی پنجاب میں "سرائیکی" سازش والے کھلاڑی اپنے اپنے علاقوں کا کنٹرول سمبھال سکیں تو پھر پاکستان نے ھندوستان کی فوج کے ساتھ غیر آباد سرحدی علاقے میں زمینی جنگ نہیں لڑنی بلکہ علاقے کے غیر آباد ھونے کی وجہ سے پاکستان کی طرف سے بنائے گئے چھوٹے ایٹمی ھتھیار پاکستان نے سیدھے سیدھے ٹھوک دینے ھیں۔

پاکستان کے سیدھا سیدھا ھندوستان کو ایٹمی ھتھیاروں سے ٹھوکنے کے جواب میں ھندوستان چاھے جو بھی کرلے لیکن ایک مسئلہ نفسیات کا بھی ھے۔ پاکستان کی طرف سے جنگ پنجابیوں نے لڑنی ھے نہ کہ؛  ھندوستانی مھاجر ' پٹھان ' سندھی اور بلوچ نے لڑنی ھے۔ پنجابی جنگ کے وقت نہ مارنے سے ڈرتے ھیں اور نہ مرنے سے ڈرتے ھیں۔ مار دیا تو غازی۔ مر گئے تو شھید۔ جبکہ ھندوستانیوں کی نفسیات "زبانی پنگا" لینے اور "سازشیں" کرنے والی ھے۔ مارنے اور مرنے سے ڈرتے ھیں۔ اس لیے ھندوستانیوں کی نفسیات مارنے اور مرنے والی نہیں ھے۔

1947 کونسا دور ھے۔ 1947 میں سازش پنجاب اور پنجابی قوم کے دشمنوں کی تھی۔ لیکن پنجابیوں نے آپس میں ھی لڑکر 20 لاکھ پنجابی مار دیے اور 2 کروڑ پنجابی اجاڑ دیے۔ اس کے بعد ایسے بھول گئے کہ؛ جیسے 1947 میں کجھ ھوا ھی نہیں تھا۔ جبکہ تھوڑے وقت میں ھونے والی یہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی قتل و غارتگری تھی اور سب سے بڑا اجاڑہ تھا۔ جس نے پنجاب بھی تقسیم کردیا اور پنجابی قوم کو بھی دربدر کر دیا۔

1947 میں تو پنجابی آپس میں لڑے تھے لیکن اب ایک تو بات پنجابیوں کے آپس میں لڑنے کی نہیں ھے اور دوسرا ھندوستان کی پراکسی وار  ' زبان درازی ' بین الاقوامی فورم پر پروپیگنڈہ کرتے رھنے سے لیکن "کشمیر اور ھندوستان کے قبضے والے پنجاب کا مسئلہ" حل نہ کرنے بلکہ چناب اور جہلم دریا پر ڈیم بنا کر پنجاب کا پانی روکنے کی وجہ سے پنجابی بیزار بھی بیٹھے ھیں۔ جبکہ سی پیک کا راستہ روکنے کی امریکہ والی فرمائش اس وقت ھندوستان کے گلے پڑ چکی ھے۔

اگر ھندوستان نے امریکہ کی سی پیک کا راستہ روکنے کی فرمائش پوری نہ کی تو پھر امریکہ کیا کرے گا؟ اگر ھندوستان نے امریکہ کی سی پیک کا راستہ روکنے کی فرمائش پوری کی تو پھر پاکستان کیا کرے گا؟ یہ صورتحال دیکھ کر لگتا تو یہ ھی ھے کہ؛ جنگ تو ھوگی۔ جنگ روکنے اور صلاح و مشورے سے امن کے لیے ھندوستان کے پاس ایک ھی راستہ ھے کہ؛ ھندوستان ' امریکہ کو چھوڑ کر چین کے ساتھ مل جائے لیکن پھر مسئلہ یہ ھونا ھے کہ؛ کشمیر کو اور ھندوستان کے قبضے والے پنجاب کو آزاد کرنے کی پاکستان کی فرمائش ھندوستان کو ماننا پڑے گی۔

پاکستان تے ھندوستان وچ جنگ تے ھونی ای اے۔

پاکستان تے ھندوستان دا  1947 توں لے کے ھن تک جیہڑا حال اے۔ ایس دے نتیجے وچ صلاح مشورے نال امن ھون دی امید نئیں اے۔ ایس کرکے جنگ تے ھونی ای اے۔ ایس توں بغیر گل کسے پاسے نئیں لگنی۔ ھندوستان دا بوھتا دھیان پاکستان وچ "پراکسی وار" تے ریہیا اے۔ پاکستان دے بن دے آں ای ھندوستان نے پاکستان دے صوبہ سرحد وچ  "پشتونستان" دی سازش شروع کر دتی سی۔ اوس توں بعد بلوچستان وچ "آزاد بلوچستان" دی سازش وی شروع کردتی۔ 1965 دی ھندوستان تے پاکستان دی جنگ توں بعد سندھ وچ "سندھودیش" دی سازش وی شروع کردتی۔ 1986 توں  پاکستان دے سب توں وڈے تے بندرگاہ والے شھر کراچی وچ "جناح پور" دی سازش وی شروع کردتی۔ ھن جنوبی پنجاب وچ "سرائیکی" سازش وی کر ریا اے۔

پاکستان نوں وی ھندوستان دی پاکستان وچ "پراکسی وار" دے جواب وچ ھندوستان وچ "پراکسی وار" کرنی چائی دی سی پر؛ پاکستان دے بنن توں لے کے 1977 وچ جنرل ضیاء الحق دے پاکستان دی فوج دا پہلا پنجابی سپاہ سالار تے پاکستان دا پہلا پنجابی فوجی حکمران بنن توں پہلے تے 1990 وچ نواز شریف دے پاکستان دا پہلا پنجابی سیاسی رھنما تے پاکستان دا وزیرِ اعظم بنن تک پاکستان تے جیہڑے ھندوستانی مھاجر ' پٹھان تے سندھی حکمراں رئے سن۔ اناں نے ھندوستان دی پاکستان وچ "پراکسی وار" دے جواب وچ ھندوستان وچ "پراکسی وار" نئیں کیتی۔ بلکہ ھندوستان دی پاکستان وچ "پراکسی وار" نوں پاکستان دی سب توں وڈی آبادی پنجابی نوں بلیک میل کرن لئی استعمال کردے رئے تے پاکستان تے حکمرانی کرکے اپنے مفاد حاصل کردے رئے۔

پاکستان دے ھندوستانی مھاجر ' پٹھان تے سندھی حکمراناں نے ایس لئی ھندوستان وچ "پراکسی وار" نئیں کیتی کہ؛ پہلے ای پاکستان دی 60٪ آبادی پنجابی سی۔ ایس لئی پاکستان دی ھندوستان وچ "پراکسی وار" دے کرکے ھندوستان دی 25٪ ھندی آبادی کولوں جے 75٪ آبادی تیلگو ' تامل ' ملایالم ' مراٹھی ' گجراتی ' راجستھانی ' کنڑا ' اڑیہ ' آسامی ' بھوجپوری قوماں نوں جد کہ بنگالی تے پنجابی نوں ھندوستان وچ "پراکسی وار" کرکے آزاد کروایا جاندا تے فے ھندوستان دے قبضے توں آزاد ھوکے پنجابیاں نے پاکستان دی 60٪ آبادی نال مل جانا سی۔ جیس نال پاکستان دی پنجابی آبادی 80٪ ھو جان دے کرکے پاکستان نے عملی طور تے پنجابستان بن جانا سی۔ جتھے ھندوستانی مھاجر ' پٹھان ' بلوچ ' سندھی نے اقلیت بن جانا سی تے اناں کولوں پاکستان تے حکمرانی نئیں کر ھونی سی۔

پاکستان وچ مسئلہ اے ریہیا کہ؛ 1947 وچ پنجاب دی ونڈ دے کرکے 20 لکھ پنجابی مارے گئے سن تے 2 کروڑ پنجابی اجڑ گئے سن۔ پنجابیاں دے دربدر ھون دے کرکے ھندوستانی مھاجر ' پٹھان ' بلوچ ' سندھی نہ صرف پاکستان تے راج کردے رئے بلکہ پنجاب نوں بلیک میل وی کردے رئے تے پنجابیاں نوں گالاں وی کڈھدے رئے۔ پنجابی 1947 وچ اجڑن تے دربدر ھون توں بعد ھن فے اپنے پیراں تے کھڑے ھو گئے نے۔ پاکستان تے وی تے پاکستان دی حکمرانی تے وی ھن پنجابی نے کنٹرول کرلیا اے پر ھندوستان وچ "پراکسی وار" کرن لئی پنجابی کول ھن وقت نئیں اے۔ کونکہ "پراکسی وار" دا رزلٹ 10 - 15 سال بعد آن لگدا اے۔ جد کہ "پراکسی وار" نال ھندوستان ولوں ھندوستانی مھاجر ' پٹھان ' سندھی تے بلوچ دی نظریاتی برین واشنگ کرن دے کرکے اناں دی عادت پنجاب تے پنجابی نال پنگا لین والی بن چکی اے۔ ایس لئی پاکستان کول ھندوستان دا مقابلہ کرن لئی ھن چارہ ایٹمی ھتھیار ای نے۔

ھندوستان نے پاکستان وچ جے "پراکسی وار" نوں ھور ودھایا (جیہڑا کہ امریکہ دی سی پیک دا رستہ ڈکن لئی فرمائش دے کرکے ھندوستان نوں ودھانا ای پینا اے) تے فے پاکستان نے ھندوستان نال ڈانگو ڈانگی تے ھو ای جانا اے ۔ (پچھوں سی پیک دا رستہ ڈکن دے کرکے چین دی پٹھ وی تے پاکستان نوں ھونی اے)۔ ھندوستان نے پراکسی وار  ' زبان درازی ' بین الاقوامی فورم تے پروپیگنڈہ کرن تے بوھتا زور دینا اے۔ جد کہ پاکستان نے پراکسی وار  ' زبان درازی ' بین الاقوامی فورم تے پروپیگنڈہ کرن دے چکر وچ بوھتا پینا نئیں اے۔ ایس لئی ڈانگو ڈانگی ھون توں بعد پاکستان نے سدھا سدھا ھندوستان نوں ایٹمی ھتھیاراں نال ٹھوک دینا اے۔

پاکستان تے ھندوستان دی سرحد جڑی ھوئی اے۔ ایس لئی ایٹمی ھتھیاراں نوں روکن والا سسٹم ھندوستان دے کم نئیں آنا۔ جد کہ سندھ تے جنوبی پنجاب وچ ھندوستان تے پاکستان دا جیہڑا سرحدی علاقہ اے او غیر آباد اے۔ اوس علاقے وچ ھندوستان دی فون جے وڑی کہ او سندھ تے جنوبی پنجاب دے علاقہ نوں پنجاب نالوں کٹ دین تاکہ اناں علاقیاں وچ ھندوستان دی "پراکسی وار" نال تیار کیتے گئے کراچی وچ " جناح پور" ' سندھ وچ "سندھیودیش" ' جنوبی پنجاب وچ "سرائیکی" سازش والے کھلاڑی اپنے اپنے علاقیاں دا کنٹرول سمبھال سکن تے فے پاکستان نے ھندوستان دی فوج نال غیر آباد سرحدی علاقہ وچ زمینی جنگ نئیں لڑنی بلکہ علاقے دے غیر آباد ھون دے کرکے پاکستان ولوں بنائے گئے چھوٹے ایٹمی ھتھیار پاکستان نے سدھے سدھے ٹھوک دینے نے۔

پاکستان دے سدھا سدھا ھندوستان نوں ایٹمی ھتھیاراں نال ٹھوکن دے جواب وچ ھندوستان بھاویں جو وی کرلے پر اک مسئلہ نفسیات دا وی اے۔ پاکستان ولوں جنگ پنجابیاں نے لڑنی اے نہ کہ؛  ھندوستانی مھاجر ' پٹھان ' سندھی تے بلوچ نے لڑنی اے۔ پنجابی جنگ ویلے نہ مارن توں ڈردے نے تے نہ مرن توں ڈردے نے۔ مار دتا تے غازی۔ مر گئے تے شھید۔ جد کہ ھندوستانیاں دی نفسیات "زبانی پنگا" لین تے "سازشیاں" کرن والی اے۔ مارن تے مرن توں ڈردے نے ایس لئی ھندوستانیاں دی نفسیات مارن تے مرن والی نئیں اے۔

1947 کیہڑا دور اے۔ 1947 وچ سازش پنجاب تے پنجابی قوم دے دشمناں دی سی پر پنجابیاں نے آپس وچ ای لڑکے 20 لکھ پنجابی مار دتے تے 2 کروڑ پنجابی اجاڑ دتے۔ اوس توں مگروں ایویں بھل گئے کہ؛ جیویں 1947 وچ کجھ ھویا ای نئیں سی۔ جد کہ تھوڑے ٹائم وچ ھون والی اے دنیا دی تاریخ دی سب توں وڈی قتل و غارتگری سی تے سب توں وڈا اجاڑہ سی۔ جیس نے پنجاب وی ونڈ دتا تے پنجابی قوم نوں وی دربدر کر دتا۔

1947 وچ تے پنجابی آپس وچ لڑے سن پر ھن اک تے گل پنجابیاں دے آپس وچ لڑن دی نئیں اے تے دوجا ھندوستان دی پراکسی وار  ' زبان درازی ' بین الاقوامی فورم تے پروپیگنڈہ کردے رین توں نالے "کشمیر تے ھندوستان دے قبضے والے پنجاب دا مسئلہ" حل نہ کرن بلکہ چناب تے جہلم دریا تے ڈیم بنا کے پنجاب دا پانی روکن دے کرکے پنجابی اکے وی بیٹھے نے۔ جد کہ سی پیک دا رستہ روکن دی امریکہ والی فرمائش ایس ویلے ھندوستان دے گل پے چکی اے۔

جے ھندوستان نے امریکہ دی سی پیک دا رستہ روکن دی فرمائش پوری نہ کیتی تے فے ھندوستان کی کرے گا؟ جے ھندوستان نے امریکہ دی سی پیک دا رستہ روکن دی فرمائش پوری کیتی تے فے پاکستان کی کرے گا؟ اے حال ویکھ کے لگدا تے اے ای اے کہ؛ جنگ تے ھووے گی۔ جنگ روکن تے صلاح مشورے نال امن لئی ھندوستان کول اک ای رستہ اے کہ؛ ھندوستان ' امریکہ نوں چھڈ کے چین نال رل جاووے پر فے وی مسئلہ اے ھونا اے کہ؛ کشمیر نوں تے ھندوستان دے قبضے والے پنجاب نوں آزاد کرن دی پاکستان دی فرمائش ھندوستان نوں مننی پینی اے۔

Basic Information about the Urdu Language.


Urdu language is mutually intelligible with Standard Hindi language spoken in India. Both languages share the same Indo-Aryan base and are so similar in basic structure, grammar and to a large extent, vocabulary and phonology, that they appear to be one language. From the 13th century until the end of the 18th century the commonly known language from Delhi to the Awadh region was Hindvi language. The language was also known by various other names such as Hindavi and Dehlavi. Standard Hindvi language was first developed by the Turkish speakers of Khari Boli who migrated from Delhi to the Awadh region, most notably Amir Khusrau. They mixed the roughness of the Khari Boli with the relative softness of Awadhi to form a new language which they called "Hindvi."

Hindvi language later developed into Hindustani language, which further diverged as Hindi and Urdu. The first Hindustani book "Woh Majlis" was written in 1728. The name Urdu was first used by the poet Ghulam Hamadani Mushafi around 1780. The Urdu language received recognition and patronage under the British Raj when the British replaced the Persian and local official languages of North Indian Jammu and Kashmir state with the Urdu and English language in 1846 and in Punjab in 1877.

Persian was no longer the language of administration in British India with the advent of the British Raj but the Hindustani language still wrote in the Persian script continued to be used by both Hindus and Muslims in northwestern India. The Hindustani language was promoted in British India by British policies to counter the previous emphasis on Persian. This triggered a Hindu backlash in northwestern India, which argued that the language should be written in the native Devanagari script. Thus a new literary register, called "Hindi", replaced traditional Hindustani language as the official language of Bihar in 1881, establishing a sectarian divide of "Urdu" for Muslims and "Hindi" for Hindus.

The British administrators of India and the Christian missionaries played an important role in the creation and promotion of the Khariboli-based Hindustani language into Modern Standard Hindustani language. In 1800, the British East India Company established a college of higher education in Calcutta named the Fort William College. John Borthwick Gilchrist, a president of that college, encouraged the professors of college to write in their native tongue; some of the works thus produced were in the literary form of the modern Hindustani language. With the government patronage and the literary popularity, the Khariboli-based Hindustani language flourished, even as the use of previously more literary tongues such as Awadhi, Braj, and Maithili declined in the literary vehicles. The literary works in the Hindustani language gained momentum from the second half of the 19th century onwards. Gradually, in the subsequent years, Khariboli-based Hindustani language became the basis for the standard Hindustani language, which began to be taught in the schools and used in the government functions.

Khariboli is also known as Dehlavi, Kauravi, and Hindustani. Khariboli is admitted as a prestige dialect of Hindi and Urdu also standard register and literary style of Hindi and Urdu. It is a Western Hindi dialect spoken mainly in the rural surroundings of Delhi, the areas of Western Uttar Pradesh and the southern areas of Uttarakhand in India. Khariboli of Delhi developed under the influence of Persian, Arabic, and Turkic languages over the course of almost 900 years. It originated in the region of Uttar Pradesh in the Indian subcontinent during the Delhi Sultanate (1206–1527) and continued to develop under the Mughal Empire (1526–1858). The earliest examples of Khariboli can be seen in the compositions of Amir Khusro (1253-1355). Before the rise of Khari Boli, the literary dialects adopted by the Bhakti saints were; Braj Bhasha by the Krishna devotees, Awadhi by the Rama devotees and Maithili by the Vaishnavites of Bihar. The area around Delhi has long been the center of power in northern India. Therefore, naturally, the Khariboli dialect came to be regarded as urbane and of a higher standard than the other dialects of northern India.

Khariboli-based Hindustani language gradually gained ground over the 19th century. Otherwise, before that period, other dialects such as Awadhi, Braj Bhasha and Maithili were the dialects preferred by littérateurs. Urdu, the heavily Persianalized version of Khariboli, had replaced Persian as the literary language of North India by the early 20th century. However, the association of Urdu with the Muslims prompted the Hindus to develop their own Sanskritized version of the dialect, leading to the formation of the Modern Standard Hindi. Urdu is 21st most spoken languages of the world. There are around 67 million native speakers of Urdu in the world. There were 52 million in India and 14.7 million in Pakistan as per the 2017 census. Several hundred thousand Urdu speakers are in the United Kingdom, Saudi Arabia, UAE, United States, Canada, and Bangladesh. In Bangladesh, they are called Bihari.

Urdu is one of the officially recognized languages in India and has an official language status in the Indian states of Uttar Pradesh, Bihar, Telangana, Jammu and Kashmir and the Indian capital, New Delhi. In Pakistan, as per 2017 census, Urdu speaking population in Sindh is 8,709,610, in Punjab 5,356,464, in KPK 274,581, in Islamabad 244,966, in Balochistan 99,913, in FATA 24,465, and it makes 14,709,999 or 7.08% total Urdu speaking population out of 207,685,000 population of Pakistan. The first most spoken language of Pakistan is Punjabi, second is Pushto, third is Sindhi, fourth is Saraiki and Urdu is the fifth most spoken language of Pakistan as per the 2017 census. 93% of Pakistan's population has a native language other than Urdu. Despite this fact, Urdu was implemented as a national language of Pakistan by the first Urdu Speaking Hindustani Muhajir Prime Minister of Pakistan, Liaquat Ali Khan and still, it is implemented in Pakistan.

Friday, 21 September 2018

کشمیر کے علاقے میں بولی جانے والی زبانیں

کشمیر کا علاقہ تین صوبوں پر مشتمل ھے ۔ 1۔ جموں 2۔ کشمیر 3۔ لدّاخ۔ تینوں صوبوں کے درمیان وسیع و عریض پہاڑی علاقے ھیں۔ جن کی وجہ سے تینوں صوبوں کی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ھیں۔

کشمیر کے علاقے میں مجموعی طور پر زیادہ تر پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ پہاڑی اور ضمنی لہجہ ڈوگری بولا جاتا ھے۔ پنجابی زبان کے ضمنی لہجے ھونے کی وجہ سے ان میں صرف لفظی سرمائے کا ھی اشتراک نہیں ھے بلکہ لسانی قالب اور جملوں کی ساخت پرداخت کی مشابہت بھی پنجابی زبان سے ھی ھے۔ اسکے علاوہ پنجابی زبان کے ضمنی لہجے ھندکو کا ذیلی لہجہ گوجری جبکہ بلتی ' شنا ' بھدرواھی ' بروشتکی اور بکروالی وغیرہ بھی چھوٹی چھوٹی زبانیں ھیں۔

کشمیر میں ایک طرف کشمیر وادی کے علاقہ میں جو جھیلوں اور جنگلات ’ دریاؤں اور ندی نالوں ’ سبزہ زاروں اور فلک بوس پہاڑوں کی زمین ھے۔ وھاں کے باسی کثرت سے پنجابی زبان کا پہاڑی لہجہ بولتے ھیں۔ دوسر ی طرف جموں کے علاقہ میں جو اپنے دور دراز علاقوں اور دشوار گزار راستوں کے باعث “دوگرت” کہلاتا تھا اور پنجاب کا ملحقہ علاقہ ھے۔ وھاں پنجابی زبان کے ڈوگری لہجے کو زیادہ اھمیت حاصل ھے۔ پونچھ کا علاقہ جو بے باکی ’ دلیری’ نڈر افراد اور جری جوانوں کی آماجگاہ ھے۔ وھاں کثرت سے پنجابی زبان کے پہاڑی لہجے کو بولا اور سمجھا جاتا ھے۔

کشمیر کا شمالی حصہ جو برف پوش پہاڑوں ’ سنگلاخ چٹانوں اور قدرتی دریاؤں اور جھیلوں کا مرکز ھے۔ جس کو دردستان اور بلورستان کے نام سے یاد کیا جاتا رھا ھے اور عصر حاضر میں گلگت ’ بلتستان یا پھر شمالی علاقہ جات کے نام سے جانا جاتا ھے۔ وھاں شینا ’ بلتی’ پروشسکی’ پوریک ’ گھورا ’ کوھستانی و دیگر زبانیں بولی جاتی ھیں۔ ریاست جموں و کشمیر کے مختلف حصوں میں آباد قبائل بھی مختلف زبانیں بولتے اور سمجھتے ھیں۔ مثلا گوجر قبائل کی زبان گوجری کہلاتی ھے جو کہ پنجابی زبان کے پوٹھو ھاری لہجہ کا ذیلی لہجہ ھے۔ اسی طرح آزاد کشمیر کے ضلع نیلم میں ایک گروہ ایسی زبان بولتا ھے جس کو ماھر لسانیات عرصہ دراز تک کوئی واضح نام نہیں دے سکے تھے۔ اب تحقیق کے بعد اس کو کنڈل شاھی زبان کا نام دیا گیا ھے۔

لکھن پور سے بانہال تک کا علاقہ جموں کہلاتا ھے۔ جموں رقبے کے لحاظ سے 8809 مربع میل ھے۔ جموں کی مقامی زبان ڈوگری ھے۔ جموں کو سنسکرت میں دوگرت کہتے ھیں جس کا مطلب دشوار گذار راستوں والا علاقہ ھے اور ڈگر میں بولی جانے والی بولی ڈوگری کہلائی ھے۔ یہ بولی جموں ' ادھم پور ' را م نگر' کٹھوعہ ' بسوھلی اور کانگڈہ میں بولی جاتی ھے۔ ڈوگری زبان لسانی اعتبار سے پنجابی زبان کا ایک ضمنی لہجہ ھے۔

قاضی گنڈ سے کشمیر کا علاقہ شروع ھوکر پاکستان کی سرحد پر ختم ھو جاتا ھے۔ کشمیر رقبے کے لحاظ سے 8396 مربع میل ھے۔ کشمیر کی علاقائی زبان پہاڑی ھے۔ پہاڑی زبان لسانی اعتبار سے پنجابی زبان کا ایک ضمنی لہجہ ھے۔

لدّاخ کا علاقہ کشمیر کے ایک پہاڑی علاقے سونہ مرگ سے شروع ھوکر چین کی سرحد پر ختم ھوجاتا ھے۔ لدّاخ کو تبّت صغیر بھی کہا جاتا ھے۔ لدّاخ کی علاقائی زبان لدّاخی ھے۔

کشمیر میں پنجابی زبان کا پہاڑی لہجہ بولا جاتا ھے۔

جموں و کشمیر میں چناب اور جہلم کے درمیانی علاقوں اور پوٹھوھار سے لے کر مظفرآباد تک پھیلے ھوئے علاقہ جات کے باسیوں کی زبان پنجابی زبان کا پہاڑی لہجہ ھے۔ پہاڑی لہجہ کی قدامت کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ھے کہ؛ شمالی پنجاب میں تحریر ھونے والی پہلی کتاب ’’بھرت کتھا‘‘ پہاڑی لہجہ میں لکھی گئی تھی۔ پہاڑی لہجہ کی جائے پیدائش قدیم گندھارا کی سرزمین ھے’ جس کو خطہ "دردستان" کہا جاتا تھا۔ یہ خطہ دریائے سندھ سے جہلم کے درمیان پھیلا ھوا ھے۔

شمالی پنجاب میں اپنی حکمرانی کے جوھر دکھانے والے اشوک اور راجہ پورس کے درباروں کی زبان پہاڑی تھی۔ اِس کے علاوہ کشمیر پر جن بادشاھوں نے حکمرانی کی اُن میں سے سلطان مظفر خان ’ ھیبت خان ’ محمود خان ’ حسین خان ’ زبردست خان اور شیر احمد خان کے عہد کی سرکاری اور درباری زبان بھی پہاڑی رھی ھے۔

لسانیات کے ماھرین نے پہاڑی زبان کو تین بڑی شاخوں میں تقسیم کیا ھے۔

1۔ مشرقی پہاڑی زبان کی یہ شاخ نیپال تک کے وسیع خطے میں بولی جاتی ھے۔ اِس کو مقامی لوگ ’’خشورہ‘‘ کے نام سے پکارتے ھیں۔

2۔ وسطی پہاڑی زبان کی یہ شاخ اتراکھنڈ کے علاقے گڑھوال میں بولی جاتی ھے۔ اِس کو مقامی لوگ "گُڑ والی اور کومونی" کے نام سے پکارتے ھیں۔

3۔ مغربی پہاڑی زبان کی یہ شاخ ریاست ھماچل پردیش کے بالائی علاقوں ’ جموں ڈویژن ’ آزاد کشمیر ’ سطح مرتفع پوٹھوھار ’ مری ’ جہلم ’ ھزارہ اور پشاور میں لہجوں کے فرق سے بولی جاتی ھے۔

وسطی پہاڑی ' پنجابی زبان کا ضمنی لہجہ ھے جبکہ مشرقی پہاڑی لہجے میں پنجابی زبان کے ضمنی لہجہ پوٹھوھاری کے علاقے سے ملنے کی وجہ سے پوٹھوھاری لہجے کی آمیزش ھے۔ جبکہ مغربی پہاڑی لہجے میں پنجابی زبان کے ضمنی لہجہ ڈوگری کے علاقے سے ملنے کی وجہ سے ڈوگری لہجے کی آمیزش ھے۔

پہاڑی لہجہ پنجابی زبان کا ایک قدیم لہجہ ھے۔ جس کے بارے میں ماھر لسانیات کا خیال ھے کہ؛ ھمالیہ کی گھاٹیوں میں جب سے انسان نے قدم رکھا اس دن سے ھی پہاڑی اس کی زبان رھی ھے۔ اسی طرح پہاڑی کی ترقی کے حوالے سے؛

1۔ غلام مصطفی پونچھی بیان کرتے ھیں کہ؛ مہاراجہ اشوک کے دورحکومت میں پہاڑی زبان کو کافی حد تک ترقی اور وسعت حاصل ھوئی۔

2۔ کے۔ ڈی۔ مینی اس حوالے سے یوں رقمطراز ھیں کہ؛ مختلف علاقوں میں مختلف پڑوسی زبانوں کے ملاپ کے باعث یہ زبان مختلف علاقوں کی نسبت سے یعنی کھاشورہ ’ کمانی ’ گڑھوالی ’ سرموری ’ کتونی ’ کانگڑی ’ پونچھی ’ مظفرآبادی ’ پوٹھوھاری ’ ھندکو ’ چترالی ’ کاغانی اور ھزاروی کے نام سے مشہور ھوئی ھے لیکن درحقیقت یہ پہاڑی زبان ھی ھے۔

پنجابی زبان کا پہاڑی لہجہ کشمیریوں کی اکثریت کی زبان ھے۔ نذیر احمد مسعودی کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں بولا جانے والا پنجابی زبان کا پہاڑی لہجہ مقبوضہ ریاست کے علاقوں کٹھوعہ ’ جموں ’ اودھم پور’ وادی چناب ’ ڈوڈہ ’ بھدروا ’ کشتواڑ ’ راجوری ’ بارہ مولہ ’ لری ڈورہ ’ چک فیروزپور ’ چک تمریرن ’ سرینگر کے علاقوں ولی واڑ ’ واوہ ’ ناگن بل ’ پلوامہ کے علاقوں کربوہ ’ مانلوزورہ ’ چک سید پورہ اور اننت ناگ کے کئی حصوں کے ساتھ ساتھ مظفرآباد ’ پونچھ اور میرپور یعنی آزاد کشمیر بھر میں کثرت کے ساتھ بولا اور سمجھا جاتا ھے۔ اس کے علاوہ ھزارہ ’ پکھلی ’ مری اور پنڈی کہوٹہ کے مختلف علاقوں میں بھی پہاڑی لہجہ بولا جاتا ھے۔

جہاں تک رسم الخط کا تعلق ھے تو مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں پہاڑی لہجہ کے رسم الخط بھی مختلف رھے ھیں۔ پہاڑی لہجہ ٹاکری’ دیوناگری ' شاردالپی ' شاہ مکھی اور گرومکھی رسم الخط میں لکھا جاتا رھا ھے۔ اب پہاڑی کا رسم الخط مذھب کی بنیاد پر تقسیم ھے۔ ھماچل پردیش اور جموں کے ھندو اِسے دیونا گری رسم الخط میں لکھتے ھیں۔ ھماچل پردیش کے زیریں علاقوں کے سکھ اِس کو گرومکھی رسم الخط جبکہ جموں ’ کشمیر اور پاکستان میں رھنے والے مسلمان اسے شاہ مکھی رسم الخط میں لکھتے ھیں۔

پہاڑی لہجہ کی مشرقی اور وسطیٰ شاخیں تو وقت کے ساتھ ساتھ خوب ترقی کررھی ھیں۔ نیپال اور ھندوستان میں پہاڑی لہجہ میں ادب تخلیق ھورھا ھے۔ ان کا اپنا معیاری رسم الخط تیار ھوچکا ھے۔ پہاڑی زبان کی اپنی ایک الگ فلم انڈسٹری موجود ھے۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر یونیورسٹیوں میں اِس زبان کی تدریس ھورھی ھے۔ ھماچل پردیش میں بولی جانے والی مغربی پہاڑی ' جسے مہاشو پہاڑی کہا جاتا ھے اور جموں میں بولی جانے والی پہاڑی نے بھی گزشتہ نصف صدی کے دوران تدریس ’ ادب اور فلم و ٹی وی ڈراموں کے حوالے سے خاصی ترقی کی ھے۔ لیکن آزاد کشمیر کے 96 فیصد حصے اور مقبوضہ کشمیر کے 26 لاکھ انسانوں کے علاوہ پوٹھوھار اور کوہ مری میں بسنے والے لاکھوں انسانوں کی مادری بولی پہاڑی صرف بول چال تک محدود ھوکر رہ گئی ھے۔ لیکن سرکاری سطح پر اِسے بہت بُری طرح نظر انداز کیا جا رھا ھے۔

پہاڑی لہجہ پنجابی زبان کا ایک قدیم لہجہ ھے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ؛ یہ لہجہ وسط ایشیاء اور مشرقی یورپ سے آنے والے آریاؤں کے اس گروہ کا لہجہ ھے جو پہلے مشرقی ایران میں قیام پذیر ھوا اور بعد ازاں 2000 قبل مسیح میں اس گروہ نے پنجاب کی طرف رخ کیا اور کوہ ھندوکش کے جنوبی علاقوں اور کشمیر کے شمالی علاقہ جات میں میں وارد ھوا اور اپنے ڈیرے ڈال دیے۔ اس گروہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ؛ یہ ” کھکھہ قبائل” کا گروہ تھا۔ انگریز محقق گریرسن نے اس کو” کھاشہ قبائل” کا نام دیا ھے۔ اسی تناظر میں وہ مزید لکھتا ھے کہ؛ ھندوکش جنوبی پہاڑی علاقہ جات اور مغربی پنجاب میں جو قبائل مقیم تھے۔ ان میں سے ایک کھاشہ قبیلہ تھا۔ ان کی زبان سنسکرت کے بہت قریب اور ایرانی زبان سے کافی حد تک مطابقت رکھتی تھی۔ یہ قبیلہ کوہ ھمالیہ کے مشرق سے مغرب تک پھیلا ھوا ھے۔ اس قبیلہ کا ٹھکانہ شمالی پنجاب کی پہاڑی سر زمین رھی ھے۔ کھاشہ قبائل کے حوالے سے راج ترنگنی میں بھی شوائد ملتے ھیں۔ اس قبیلہ کی ایک خاتون دیدہ رانی کشمیر کی حکمران بھی رھی ھے۔ جس کا باپ راجہ لوھرن/لوھارا پونچھ کا حکمران بھی رھا ھے۔

پنجابی زبان کا پہاڑی لہجہ جہاں بول چال کا ایک اھم ذریعہ ھے۔ وھاں ایک بھرپور تخلیقی لہجہ بھی ھے۔ تخلیقی نوعیت کے باعث اس میں لوک ادب کا ذخیرہ کافی معیاری مقدار میں موجود ھے۔ پہاڑی لہجہ میں لوک گیت ’ لوک کہاوتیں ’ لوک کہانیاں ' اقوال (اخان) ’ پہلیاں اور لوک داستانیں موجود ھیں۔ مختلف مواقعوں پر پہاڑی گیت جن میں شوپیا ’ اٹھی جے جلیا ایں ’ ڈھولا ’ چن ’ مٹھا ’ چرخہ ‘ قینچی ’ چنوٹا ماڑیا ’ وار ’ ماھیا ’ لیتری’ الی الی بینی ماڑی ’ ٹپا ’ سہلا اور شادی بیاہ کے موقعوں پر گائے جانے والے گیت کافی مقدار میں موجود ھیں۔

لوک ادب کے ساتھ ساتھ پہاڑی لہجہ میں تخلیقی ادب کا سرمایہ کافی حد تک موجود ھے۔ اس نقطہ نظر سے اس کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ھے۔

پہلے دور کے مشہور قلم کاروں اور شعراء میں میاں یونس ’ میاں نظام الدین کیانی ’ سائیں قادر بخش ’ میاں محمد بخش شامل رھے ھیں۔ میاں محمد بخش کا پہاڑی کلام؛

جیونکر بیٹے تساں پیارے '
تیونکر بیت اساںنوں
بیٹے نوں کوئی انگل لائے'
لگدے بیت تسانوں
دشمن وانگ دسے اوہ سانوں '
جے کوئی بیت تروڑے
بیٹے نازک لال سندر دے '
ایونکر کن مروڑے
سیر کرو خوشبوئیں مانو '
پھل مباح تسانوں
شاخ رکھ تروڑ ناھیں '
بھلی صلاح تسانوں

دوسرا دور سائیں فقیر الدین ’ عبداللہ کرناھی ’ عزیز خان ’ پیر سید محمد نیک عالم شاہ ’ مولانا عبداللہ سیاکھوی اور میاں محمد زمان چن سمیت دوسرے شعراء کے حوالے سے مشہور ھے۔ میاں محمد زمان چن کا پہاڑی کلام؛

اک فراق ھے سجناں دا '
دوجی لگیاں سخت بیماریاں نی
چڑھیا تاپ فراق دا وچ سینے '
سجن وچھڑے قسمتاں ھاریاں نی
سدا رھن نہ تاج تے تخت شاھی '
سدا رھن نہ محل تے ماڑیاں نی
چن لائی پریت پردیس جا کے '
سینے وچ زمان کٹاریاں نی

تیسرا دور دور جدید ھے جو 70 کی دھائی کے بعد شروع ھوتا ھے اور اس میں بے شمار شعرا اور لکھاریوں نے پہاڑی لہجہ کے ذریعے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ھے۔ جن میں کریم اللہ قریشی ’ رفیق بھٹی ’ ڈاکٹر صغیر’ سلیم رفیقی ’ مشتاق شاد ’ نذیر انجم ’ جاویدحسن ’ صابر مرزا ’ صابر آفاقی ’ حسام الدین ’ سرفراز تبسم ’ الطاف قریشی اور دیگر قابل ذکر ھیں۔

پہاڑی لہجہ میں شعراء کے ساتھ ساتھ کافی تعداد میں افسانہ نگار بھی موجود ھیں۔ جن میں قریشی برادران کے علاوہ عبدالحمید خان ’ شہناز راجوری ’ کوش دیو مینی ’ جہانگیر عالم ’ یوسف نسیم ’ بیگم سنگھ راھی ’ سرور ریحان ’ غلام مصطفی پونچھی ’ ڈاکٹر محمد صغیر’ نثار راھی’ اعظم حسرت ’ مقبول ساحل اور نذر بونیازی جیسے کئی اھل قلم شامل ھیں۔ جدید افسانے میں علی عدالت کا نام اھمیت کا حامل ھے۔ جدید پہاڑی لہجہ کے افسانوں میں ”شیشے نیاں منکراں”‘ ”چٹھی نابہانہ”‘ ” بگے نی پگ”‘ ” ملاکڑھوغیرہ” علی عدالت کے مشہور نمائندہ افسانے ھیں۔

مختصرا یہ کہا جا سکتا ھے کہ؛ ریاست جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں بولا جانے والا پنجابی زبان کا پہاڑی لہجہ جو زمانہ قدیم میں اپنی شہرت میں مثال نہیں رکھتا تھا۔ عرصہ دراز کے بعد عروج کی راہ اپنائے ھوئے ھے۔ پہاڑی لہجہ اپنے اندر تخلیقی ادب ’ لوک ادب ’ لوک گیت ’ افسانوں اور ناول کا ایک بڑا ذخیرہ سموئے ھوئے ھے۔ پہاڑی لہجہ میں اظہار رائے کرنے والے اھل قلم کو اس بات کا ادراک ھے کہ؛ پہاڑی لہجہ زمانہ قدیم میں ایک اھم مقام رکھتا تھا اور آج بھی ریاست جموں و کشمیر کے اکثریتی علاقوں میں بولا جانے والی زبان ھے۔ لہذا جدید تخلیق کاران تمام امور ’ جو تخلیقی مواد کے لیے ضروری ھوتے ھیں ' نہ صرف ان سے واقف ھیں بلکہ ان تمام اوصاف کے حامل بھی ھیں۔ یہی امر پنجابی زبان کے پہاڑی لہجہ کی ترویج ‘ روشن مستقبل کی ضمانت کے ساتھ ساتھ اپنے اصل کے ساتھ وابستگی کا اظہار بھی ھے۔

Wednesday, 19 September 2018

جنوبی پنجاب میں پنجابی زبان ' تہذیب ' ثقافت کے ماڈل گاؤں بنائے جائیں


جنوبی پنجاب میں بلوچوں ' پٹھانوں ' عربی نزاد گیلانیوں ' قریشیوں ' عباسیوں کو پہلے مغلوں نے اور بعد میں انگریزوں نے اگر جاگیریں نہ الاٹ کی ھوتیں تو ان سے جنوبی پنجاب میں ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی پر ظلم اور زیادتیاں نہیں ھوسکنی تھیں۔

یہ ایک حقیقت ھے۔ لوھے کو لوھا کاٹتا ھے۔ زھر کو زھر مارتا ھے۔ اس لیے جنوبی پنجاب میں بلوچوں ' پٹھانوں ' عربی نزاد گیلانیوں ' قریشیوں ' عباسیوں کی طرف سے سرائیکی سازش ' ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی پر ظلم اور زیادتیاں ' جنوبی پںجاب صوبہ بناکر پنجاب کو تقسیم کرنے کی کوشش کا بھی علاج یہ ھی ھے کہ؛ 1000 پنجابی قوم پرست تیار کرکے ان کو جنوبی پنجاب میں ھزار ' ھزار ایکڑ زمین دے کر آباد کردیا جائے۔

کالاباغ ڈیم بنا کر جنوبی پنجاب میں ایک ایک ھزار ایکڑ کے 1000 زرعی فارم پنجابی قوم پرستوں کو الاٹ کیے جائیں۔

پنجابی قوم پرست وھاں پنجابی گاؤں بنائیں تاکہ؛ پنجابی قوم پرست زمینداری بھی کریں اور اپنے اپنے زرعی رقبے میں پنجابی تہذیب اور ثقافت کے رنگ بھی بکھیریں۔

ایسا کرنے سے جنوبی پنجاب ' پنجابی زبان ' پنجابی تہذیب ' پنجابی ثقافت کا ماڈل بن جائے گا۔ سارے پنجاب سے پنجابی جنوبی پنجاب میں آکر اصل پنجابی زبان ' پنجابی تہذیب ' پنجابی ثقافت دیکھیں اور سیکھیں گے۔

جنوبی پنجاب وچ پنجابی زبان ' تہذیب ' ثقافت دے 100 ماڈل پنڈ بنائے جان

جنوبی پنجاب وچ بلوچاں ' پٹھاناں ' عربی نژاد گیلانیاں ' قریشیاں ' عباسیاں نوں پہلے مغلاں نے تے بعد وچ انگریزاں نے جے جاگیراں نہ الاٹ کیتیاں ھوندیاں تے اناں کولوں جنوبی پنجاب وچ ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی تے ظلم تے زیادتیاں نئیں کر ھونیاں سی۔

جنوبی پنجاب چ ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی دا حال رامؔش قادری نے بیان کیتا اے کہ؛

اساں کئی نسلیں توں نوکر ھاں

ساڈے گل پٹہ سرداری دا

اساں پالتو کتے کھوسے دے

ساڈے دل وچ خوف لغاری دا

اساں پٹھو خان دریشک دے

ساڈا ذھن غلام مزاری دا

اساں رامؔش ایویں رُل مرنے

کوئی حل نئیں ایں بیماری دا

اے اک حقیقت اے۔ لوھے نوں لوھا وڈھدا اے۔ زھر نوں زھر ماردا اے۔ ایس لئی جنوبی پنجاب وچ بلوچاں ' پٹھاناں ' عربی نژاد گیلانیاں ' قریشیاں ' عباسیاں ولوں؛

1۔ سرائیکی سازش

2۔ ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی تے ظلم تے زیادتیاں

3۔ جنوبی پنجاب صوبہ بناکے پنجاب دے ونڈ دی کوشش

دا وی علاج اے ای وے کہ؛

1۔ جنوبی پنجاب چوں 100 پنجابی قوم پرست تیار کیتے جان۔

2۔ کالاباغ ڈیم بنا کے جنوبی پنجاب وچ اک اک ھزار ایکڑ دے 100 زرعی فارم جنوبی پنجاب دے پنجابی قوم پرستاں نوں الاٹ کیتے جان۔ تاکہ؛

(الف)۔ پنجابی قوم پرست زمینداری وی کرن۔

(ب)۔ اپنے اپنے زرعی رقبے تے پنجابی تہذیب تے ثقافت دے رنگ وی کھلارن۔

تاکہ جنوبی پنجاب ' پنجابی زبان ' پنجابی تہذیب ' پنجابی ثقافت دا ماڈل بن جاوے تے سارے پنجاب چوں پنجابی ' جنوبی پنجاب وچ آکے اصل پنجابی زبان ' پنجابی تہذیب ' پنجابی ثقافت ویکھن تے سکھن۔