Tuesday 11 September 2018

نواز شریف کے پاس عوام کو متحرک کرنے کی صلاحیت کیوں نہیں ھے؟

کوئی بھی شخص بیک وقت 10 دکھ سکھ والوں ' 100 میل ملاقات والوں اور 1000 دعا سلام والوں سے زیادہ افراد کے ساتھ مراسم نہیں رکھ سکتا۔ اس لیے سیاستدان کے لیے ضروری ھے کہ؛ سیاسی جماعت شخصیت پرستی کے بجائے سیاسی نظریہ اور منشور کی بنیاد پر یونین کونسل ' تحصیل ' ضلع ' صوبوں اور ملک میں ھر سطح پر منظم ھو۔ ورنہ شخصیت پرستی کی سیاست کرنے کے لیے ضروری ھے کہ؛ سیاستدان کے پاس عوام کو متحرک کرنے کے لیے لالچ دینے والا کوئی پروگرام ھو یا جذبات بھڑکانے والا کوئی نظریہ ھو۔
پی ٹی آئی یا پی پی پی بھی ن لیگ کی طرح یونین کونسل سے لیکر ملک کی سطح پر منظم نہیں ھیں۔ جبکہ عمران خان اور آصف زرداری کے پاس نہ عوام کی پر خلوص خدمت کرنے کے لیے ملک میں معاشی استحکام رکھنے اور ترقیاتی کام کروانے کی صلاحیت ھے اور نہ بین الاقوامی اور قومی سطح کے 10 دکھ سکھ والے ' 100 میل ملاقات والے اور 1000 دعا سلام والے ھیں۔ اس لیے حکومتی اداروں کی حمایت کے بغیر نواز شریف کا سیاسی مقابلہ نہیں کرسکتے۔
شخصیت پرستی کی سیاست کرنے کے لیے عمران خان کے پاس خیبر پختونخوا ' اسلام آباد ' شمالی پنجاب اور کراچی کے پٹھانوں میں جذبات بھڑکانے والا نظریہ "پختون قوم پرستی" کی شکل میں ھے۔ جس کا پی ٹی آئی نے پٹھانوں میں بھرپور استعمال کیا کہ؛ عمران خان پاکستان کا پہلا پٹھان وزیرِ اعظم ھوگا۔ جس سے پٹھانوں کو سرکاری نوکریوں ' کاروبار اور سرکاری معاملات میں فائدہ ھوگا۔ جبکہ جنوبی پنجاب میں حمایت حاصل کرنے کے لیے بلوچوں ' پٹھانوں ' گیلانیوں ' قریشیوں اور عباسیوں کو جنوبی پنجاب صوبہ بنا کر دینے کا لالچ دیا۔
شخصیت پرستی کی سیاست کرنے کے لیے آصف زرداری کے پاس دیہی سندھ میں جذبات بھڑکانے والا نظریہ "سندھی قوم پرستی" کی شکل میں ھے۔ جس کا پی پی پی 1970 سے سندھیوں میں بھرپور استعمال کرتی آرھی ھے۔ پی پی پی نے سندھیوں میں سوچ پیدا کی ھوئی ھے کہ؛ سندھ میں پی پی پی کی حکومت کے ھونے سے سندھیوں کو سرکاری نوکریوں ' کاروبار اور سرکاری معاملات میں فائدہ ھوگا۔ جبکہ بلوچ ھونے کی وجہ سے آصف زرداری کے پاس دیہی سندھ میں بلوچوں کی جذباتی حمایت بھی حاصل ھے۔ بلوچوں کو دیہی سندھ میں آصف زرداری نے 2008 سے لیکر سرکاری نوکریوں ' کاروبار اور سرکاری معاملات میں فائدہ بھی بہت پہنچایا ھے۔
نواز شریف نے وزیرِ اعظم ھوتے ھوئے پاکستان کی عوام کی پر خلوص خدمت کرکے ملک میں معاشی استحکام بھی رکھا اور ترقیاتی کام بھی کروائے اور نواز شریف کے پاس بین الاقوامی اور قومی سطح کے 10 دکھ سکھ والے ' 100 میل ملاقات والے اور 1000 دعا سلام والے بھی ھیں۔ لیکن؛ نواز شریف کی بدقسمتی یہ ھے کہ؛ نواز شریف کے پاس نہ عوام کو متحرک کرنے کے لیے لالچ دینے والا کوئی پروگرام ھے اور نہ جذبات بھڑکانے والا کوئی نظریہ ھے۔ جو پنجاب سے باھر پاکستان کے دوسرے صوبوں میں تو کیا پنجاب میں ھی عوام کو سیاسی طور پر متحرک کرکے پنجاب کے عوام کی توجہ گھریلو اور کاروباری معاملات سے ھٹا کر سیاسی محاذآرئی میں مصروف کرسکے۔
پاکستان کی %60 آبادی پنجابی ھے۔ جبکہ %40 آبادی سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر کی ھے (کشمیری ' ھندکو ' ڈیرہ والی کا شمار پنجابی قوم میں ھوتا ھے)۔
پنجابی صرف پنجاب کی بڑی آبادی نہیں ھے۔ بلکہ خیبر پختونخوا ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' بلوچستان کے بلوچ علاقے ' سندھ اور کراچی کی دوسری بڑی آبادی بھی پنجابی ھے۔
اگر نواز شریف کے پاس صرف پنجاب کے پنجابیوں کو متحرک کرنے کے لیے لالچ دینے والا پروگرام ھو یا جذبات بھڑکانے والا نظریہ ھو؛
1۔ تو ن لیگ کا مقابلہ پی ٹی آئی یا پی پی پی جیسی سیاسی جماعتیں تو کیا حکومت بھی نہیں کر سکتی۔
2۔ ورنہ صرف ملک میں معاشی استحکام اور ترقیاتی کام کرانے کو جواز بنا کر عوام کو متحرک اور سیاسی محاذآرئی میں مصروف کرنے کی خواھش محض خواھش ھی رھنی ھے۔
3۔ جبکہ پنجاب کے پنجابی اپنے گھریلو اور کاروباری معاملات سے فراغت کے اوقات میں زبانی کلامی نواز شریف کی حمایت کرتے رھیں گے۔ لیکن اپنی توجہ گھریلو اور کاروباری معاملات سے ھٹا کر سیاسی محاذآرئی میں مصروف نہیں ھوں گے۔
پاکستان کی سیاست میں پٹھان ' بلوچ اور مھاجر ویسے ھی پنجابی ھونے کی وجہ سے نواز شریف کے مخالف ھیں۔
لہذا نواز شریف کے پنجابی قوم پرست سیاسی رھنما بن جانے اور پنجابی قوم پرستی کی بنیاد پر پنجابیوں کی حمایت حاصل کرلینے کی صورت میں سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی نے بھی پٹھان ' بلوچ اور مھاجر سے نجات حاصل کرنے کے لیے نواز شریف کی حمایت کرنا شروع کردینی ھے۔

No comments:

Post a Comment