Monday 12 March 2018

پنجاب اور پاکستان کی سیاسی صورتحال کا تفصیلی جائزہ

پنجاب کی سماجی اور سیاسی زندگی صدیوں سے برادریوں کی بنیاد پر متحرک رھتی آرھی ھے۔ پنجاب کی 10 بڑی برادریوں میں سے ارائیں ‘ اعوان ‘ بٹ ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ گجر اور شیخ برادریاں پنجاب اور پنجابی قوم کی بڑی برادریاں ھیں جو کہ پنجاب کی آبادی کا 75 % ھیں۔ جبکہ پٹھان ‘ بلوچ اور ھندوستانی مھاجر برادریاں بھی پنجاب میں رھتی ھیں جو کہ مختلف ادوار میں پنجاب پر حملہ آور ھوکر پنجاب پر قابض ھونے والوں یا پنجاب میں نقل مکانی کرنے والوں کی اولادیں ھیں جو کہ پنجاب کی آبادی کا 15 % ھیں۔ انکے علاوہ پنجاب کی آبادی کا 10 % دوسری چھوٹی چھوٹی برادریاں ھیں۔

پنجاب کے سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو پنجاب میں آباد پٹھانوں اور بلوچوں کو تو مغلوں کے دور سے لیکر انگریزوں کے دور تک (سوائے مھاراجہ رنجیت سنگھ کے دور کے) پنجاب میں نہ صرف سیاسی ' سماجی اور انتظامی بالادستی حاصل رھی بلکہ پنجاب کے بڑے بڑے جاگیردار بھی پٹھان اور بلوچ تھے یا پھر ان پٹھانوں اور بلوچوں کی اتحادی عباسی ' قریشی ' گیلانی برادریاں اور ایرانی ' عربی اور عراقی نزاد خاندان۔ لیکن 1947 میں پاکستان کے قیام کے وقت پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے اور پنجاب کی تقسیم کے نتیجے میں 20 لاکھ پنجابیوں کے قتل جبکہ 2 کروڑ پنجابیوں کے دربدر ھوجانے اور پاکستان کا وزیرِ اعظم اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر لیاقت علی خان کے بن جانے کی وجہ سے اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کو بھی پنجاب کے شھری علاقوں میں اپنی سیاسی ' سماجی اور انتظامی بالادستی قائم کرنے کا موقع مل گیا۔ پنجاب میں آباد پٹھانوں اور بلوچوں کی سیاسی ' سماجی اور انتظامی بالادستی میں بھی مزید اضافہ ھوگیا۔ لیکن پنجاب اور پنجابی قوم کی بڑی برادریوں ارائیں ‘ اعوان ‘ بٹ ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ گجر اور شیخ کو نہ تو پنجاب میں سیاسی بالادستی حاصل رھی۔ نہ سماجی بالادستی حاصل رھی۔ نہ انتطامی بالادستی حاصل رھی۔ اس لیے ھی پاکستان کے قیام کے بعد پنجاب کا پہلا وزیرِ اعلی پنجاب اور پنجابی قوم کی بڑی برادریوں ارائیں ‘ اعوان ‘ بٹ ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ گجر اور شیخ میں سے بننے کے بجائے پٹھان برادری کا افتخار حسین ممدوٹ بنا جبکہ 25 جنوری 1949 کو اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی طرف سے پاکستان میں سب سے پہلے پنجاب کی منتخب اسمبلی کو برخاست کرکے پنجاب میں پاکستان کا سب سے پہلا گورنر راج نافذ کرنے کے بعد کاکڑ پٹھان سردار عبدالرب نشتر کو پنجاب کا گورنر نامزد کیا گیا۔

پنجاب میں آباد پٹھان ‘ بلوچ ' ھندوستانی مھاجر برادریوں اور عباسی ' قریشی ' گیلانی جاگیردار وں اور مخدوموں جبکہ ایرانی ' عربی ' عراقی نزاد خاندانوں کو پنجاب میں سیاسی ' سماجی اور انتظامی بالادستی حاصل رھی ھے۔ اس لیے پنجاب اور پنجابی قوم کی بڑی برادریوں ارائیں ‘ اعوان ‘ بٹ ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ گجر اور شیخ کی سیاسی ناپختگی ' سماجی مفلوک الحالی اور انتظامی کسمپسری نے انہیں اپنے ھی دیش پر حملہ آور ھوکر قابض ھونے والوں یا نقل مکانی کرکے آنے والوں کی اولادوں کا کاسہ لیس بناکر رکھ دیا۔ جسکی وجہ سے ارائیں ‘ اعوان ‘ بٹ ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ گجر اور شیخ آپس میں دست و گریباں رھنے لگے۔ جس سے پنجابی قوم کی اھمیت ختم اور برادریوں کی اھمیت بڑھنے لگی۔ جس کی وجہ سے پنجاب میں آباد پٹھان ‘ بلوچ ' ھندوستانی مھاجر برادریوں اور عباسی ' قریشی ' گیلانی جاگیرداروں اور مخدوموں جبکہ ایرانی ' عربی ' عراقی نزاد خاندانوں کو پنجابی برادریوں کو " لڑاؤ اور حکومت کرو" کے اصول پر کاربند ھوکر اور پنجاب کے باھر سے آکر پنجاب پر حکمرانی کرنے والوں کا ہر اول دستہ بنتے رہنے سے اپنے سیاسی ' سماجی اور انتظامی تسلط کو مزید فروغ دینے کا موقع ملتا رھا بلکہ ابھی تک مل رھا ھے۔  جبکہ ارائیں ‘ اعوان ‘ بٹ ‘ جٹ ‘ راجپوت ’ گجر ' شیخ اور پنجاب کی دوسری چھوٹی چھوٹی برادریوں میں سے ذاتی مفادات رکھنے والے یا سیاسی ناپختگی والے لوگ ان کے دستِ راست بن کر  پنجاب میں انکے سیاسی ' سماجی اور انتظامی تسلط کو دانستہ یا نادانستہ تقویت فراھم کرتے رھے بلکہ اب بھی کر رھے ھیں۔

پاکستان کے سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے بننے سے لیکر پنجابیوں کے پاس سیاسی پارٹی تھی ھی نہیں۔ پاکستان بنتے ھی سیاست کا مرکز کراچی بنا ‘ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی قیادت میں مسلم لیگ مھاجروں کی پارٹی رھی’ ایوب خان کے دور میں مسلم لیگ دو بن گئیں۔ فاطمہ جناح کی قیادت میں مھاجر اور ایوب خان کی قیادت میں پٹھان اس مسلم لیگ کے کرتا دھرتا تھے جبکہ ذالفقار علی بھٹو اس پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور ایوب خان کے منہ بولے بیٹے تھے اس لیے اس وقت یہ سندھیوں کی بھی پارٹی تھی۔ بعد میں ذالفقار علی بھٹو نے اپنی پارٹی پیپلز پارٹی کے نام سے بنائی اور لاڑکانہ کو مرکز بنایا تو سندھیوں کی پارٹی پیپلز پارٹی بن گئی اور مھاجروں نے مھاجر مودودی کی قیادت میں جماعت اسلامی اور مھاجر نورانی کی قیادت میں جمیعت علمائے اسلام کو اپنی پارٹی بنا لیا۔

پنجابی تو اس وقت تک تتر بتر ھی رھے۔ 1984 میں جب بے نظیر کی قیادت میں پیپلز پارٹی صحیح معنوں میں سندھی پارٹی بننے لگی اور مھاجروں نے 1986 میں الطاف حسین کی قیادت میں مھاجر قومی موومنٹ بنائی تو اس وقت نوازشریف 1988 میں پہلا پنجاب کا لیڈر تھا جو سندھیوں اور مھاجروں کے ساتھ سیاسی مقابلے کے لیے میدان میں آیا۔ اس طرح 1988 میں پہلا پنجابی لیڈر اور پہلی پنجابی پارٹی سامنے آئی۔

پاکستان سے 1971 میں بنگال کے الگ ھونے تک پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ لیاقت علی خان مھاجر سے لیکر ' مودودی مھاجر و نورانی مھاجر' مجیب بنگالی و بھاشانی بنگالی ' بھٹو سندھی و جی ایم سید سندھی' ولی خان پٹھان و قیوم خان پٹھان' خیر بخش مری بلوچ ' اکبر بگٹی بلوچ ' عطا اللہ مینگل بروھی کے پاس رھی. ایک بھی قومی سطح کا پنجابی سیاسی لیڈر نہیں تھا. ملٹری لیڈرشپ ایوب خان پٹھان ' یحی خان پٹھان' موسی خان بلوچستان کا ھزارھ کے ھاتھ میں رھی. ایک بھی پنجابی فوج کا سربراہ نہیں بنا تھا. اب 2018 میں بنگال تو پاکستان میں ھے نہیں۔ لیکن؛

بلوچ لیڈرشپ خیر بخش مری بلوچ ' اکبر بگٹی بلوچ ' عطا اللہ مینگل بروھی کے معیار کی طرح قومی سطح کی نہیں ھے ' بلکہ سکڑ کر بلوچستان کے اندر تک محدود اور قبائل کی حد تک اثر انداز ھونے والی رہ گئی ھے. جبکہ اب مقابلہ بھی پنجاب سے نہیں بلکہ قوم پرست پنجاب سے ھے۔

پختون لیڈرشپ بھی ولی خان و قیوم خان کے معیار کی طرح قومی سطح کی نہیں ھے ' بلکہ سکڑ کر خیبر پختونخواہ کے اندر تک محدود اور آپس میں الجھی ھوئی ھے. عمران خان نے پختون لیڈرشپ کا خلا پر کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رھا۔ نہ تو عمران خان پنجاب پر سیاسی قبضہ کر پایا اور نہ خیبر پختونخواہ میں ولی خان اور قیوم خان کی طرح عوامی مقبولیت حاصل کر پایا۔ جبکہ اب مقابلہ بھی پنجاب سے نہیں بلکہ قوم پرست پنجاب سے ھے۔

سندھی لیڈرشپ بھی ذالفقار  علی بھٹو ' بے نظیر بھٹو و جی ایم سید کے معیار کی طرح قومی سطح کی نہیں ھے ' بلکہ سکڑ کر دیہی سندھ کے اندر تک محدود اور آپس میں الجھی ھوئی ھے. آصف زرداری نے سندھی لیڈرشپ کا خلا پر کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رھا۔ نہ تو آصف زرداری پنجاب پر سیاسی قبضہ کر پایا اور نہ سندھ میں ذالفقار  علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی طرح عوامی مقبولیت حاصل کر پایا۔ جبکہ اب مقابلہ بھی پنجاب سے نہیں بلکہ قوم پرست پنجاب سے ھے۔ سندھی اس وقت سیاسی طور پر صوبائی سطح کی سیاسی لیڈرشپ سے بھی محروم ھیں. مستقبل میں سندھی سیاسی لیڈرشپ کا معیار مزید گر کر ضلعوں کی سطح پر آتا نظر آرھا ھے. بلوچوں اور پختونوں کی طرح سندھیوں کی سیاسی لیڈرشپ بھی مختلف علاقوں اور ضلعوں کی حد تک محدود اور قبائل میں منتشر نظر آئے گی.

مھاجر کچھ عرصہ قبل تک الطاف حسین کی قیادت میں متحد اور ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے متحرک تھے. اس لحاظ سے مھاجر کی سیاسی پوزیشن سندھی' پٹھان اور بلوچ سے زیادھ بھتر تھی لیکن پاکستان دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے اب الطاف حسین کا پاکستان آنا ممکن نہیں. مھاجروں کے پاس الطاف حسین کا متبادل لیڈر پرویز مشرف تھا لیکن مقدمات میں پھنسنے کے بعد اب پرویز مشرف کی گلوخلاصی ممکن نہیں. جبکہ اب مقابلہ بھی پنجاب سے نہیں بلکہ قوم پرست پنجاب سے ھے۔ اس لیے مھاجر بھی سیاسی قیادت کے اس ھی بحران میں مبتلا ھوکر منتشر ھو جائیں گے جس طرح سے بلوچ ' پٹھان اور سندھی قومی سطح کی لیڈرشپ سے محروم ھونے کے بعد ' سیاسی قیادت کے بحران کی وجہ سے منتشر ھیں.

پنجاب اس وقت پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سیاسی قیادت میں نہ صرف خود کفیل بلکہ مضبوط و مستحکم ھے اور ملکی سیاست کا مرکز بھی لاھور ھے۔ نواز شریف ' شھباز شریف اور مریم نواز کی شکل میں قومی سطح کی لیڈرشپ موجود ھے جنکا ھم پلہ سیاستدان بلوچ ' پٹھان '  مھاجر اور سندھی کے پاس نہیں ھے۔

پاکستان میں ھونے والے حالیہ سینٹ کے چیئرمین کے الیکشن میں اعلیٰ اور درمیانے درجے کے ریٹارڈ فوجی افسروں نے بھرپور طریقے سے حصہ لیا اور کچھ سیاستدان اور سیاسی پارٹیوں کے سربراہ بھی انکے شانہ بہ شانہ رھے۔ کیا یہ سیاستدان اور سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ن لیگ سے مقابلہ نہ کرپانے اور ذاتی مفادات رکھنے کی وجہ سے راضی بہ رضا یا اعلیٰ اور درمیانے درجے کے ریٹارڈ فوجی افسروں کو فوج کے ادارے کے ترجمان یا نمائندہ سمجھ کر مغالطے میں ان اعلیٰ اور درمیانے درجے کے ریٹارڈ فوجی افسروں کے ھم نوا یا ھم خیال بنے؟ یہ الگ موضوع ھے۔ لیکن زمینی حقائق یہ ھیں کہ؛ چیئرمین سینٹ کے الیکشن کے بعد پاکستان میں عملی طور پر دو سیاسی اتحاد بن چکے ھیں۔

ایک عسکری اتحاد ھے جو سندھیوں کی پارٹی پی پی پی ' پٹھانوں کی پارٹی پی ٹی آئی ' ھندوستانی مھاجروں کی پارٹی ایم کیو ایم پر مشتمل ھے۔ سندھیوں کی پارٹی پی پی پی کا دائرہ اثر دیہی سندھ تک محدود ھے۔ پٹھانوں کی پارٹی پی ٹی آئی کا دائرہ اثر خیبر پختونخواہ کے پختون علاقوں تک محدود ھے۔ ھندوستانی مھاجروں کی پارٹی ایم کیو ایم کا دائرہ اثر شھری سندھ تک محدود ھے۔ دوسرا عوامی اتحاد ھے جو پنجابیوں کی پارٹی ن لیگ ' پشتونوں کی پارٹی پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی ' بروھیوں کی پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی پر مشتمل ھے۔ پنجابیوں کی پارٹی ن لیگ کا دائرہ اثر پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے ھندکو علاقوں تک محدود ھے۔ پشتونوں کی پارٹی پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کا دائرہ اثر بلوچستان کے پشتون علاقوں تک محدود ھے۔ بروھیوں کی پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی کا دائرہ اثر بلوچستان کے بروھی علاقوں تک محدود ھے۔

عسکری اتحاد بنا کر فی الحال سندھیوں کی پارٹی پی پی پی ' پٹھانوں کی پارٹی پی ٹی آئی ' ھندوستانی مھاجروں کی پارٹی ایم کیو ایم ' بلوچستان اور فاٹا کے آزاد سینٹروں کو ساتھ ملا کر چیئرمین سینٹ کا انتخاب جیت چکے ھیں لیکن سینٹ کے 104 کے ایوان میں ن لیگ اور اس کے اتحادیوں کے پاس 46 نشستیں ھیں اس لیے سینٹ میں قانون سازی کے لیے ن لیگ کا ھی پلا بھاری رھنا ھے جبکہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں ن لیگ کو اکثریت حاصل ھے۔ پاکستان کی وفاقی حکومت اور پنجاب کی حکومت بھی ن لیگ کے پاس ھے۔

پنجاب میں چونکہ سندھیوں کی پارٹی پی پی پی ' پٹھانوں کی پارٹی پی ٹی آئی ' ھندوستانی مھاجروں کی پارٹی ایم کیو ایم کو چند نشستوں سے زیادہ نشستیں ملنا ناممکن ھے اس لیے جولائی 2018 کے انتخاب میں بھی پنجاب سے نشستیں ن لیگ نے ھی حاصل کرنے ھیں اور پنجاب کی صوبائی حکومت بنانی ھے لیکن پاکستان کی قومی اسمبلی کے 272 کے ایوان میں 141 نشستیں پنجاب سے ھیں اس لیے وفاقی حکومت بنانے کے لیے مقررہ تعداد 137 نشستیں ن لیگ نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے ھندکو علاقوں سے ھی حاصل کرلینی ھے جبکہ ن لیگ کے اتحادیوں کی نشستیں اس کے علاوہ ھوں گی۔ عسکری اتحاد کا اثر و رسوخ استعمال کرکے نواز شریف کو عدالت سے سزا بھی دلوادی جائے اور نگراں حکومت کے دوران مریم نواز اور شھباز شریف کو گرفتار بھی کرلیا جائے تو بھی پنجاب میں سے سندھیوں کی پارٹی پی پی پی ' پٹھانوں کی پارٹی پی ٹی آئی ' ھندوستانی مھاجروں کی پارٹی ایم کیو ایم کو زیادہ نشستیں نہیں مل پانیں بلکہ پنجاب میں پنجابی قوم پرستی میں مزید اضافہ ھوجانا ھے اور ن لیگ نے مزید مقبول اور مظبوط پارٹی بن جانا ھے۔

قصہ مختصر! پاکستان کی سیاست ' صحافت ' ملٹری بیوروکریسی ' سول بیوروکریسی ' صنعت کے شعبوں ' تجارت کے شعبوں ' ھنرمندی کے شعبوں اور پاکستان کے بڑے بڑے شھروں پر پنجابیوں کا کنٹرول ھے۔ پنجابیوں میں قومپرستی بھی بڑی تیزی سے فروغ پا رھی ھے۔ اس لیے یہ تو اب سندھیوں ' بلوچوں ' پٹھانوں اور مھاجروں کو طے کرنا ھے کہ وہ پنجاب اور پنجابیوں کے ساتھ سیاسی مفاھمت کرنا چاھتے ھیں یاابھی بھی محاذآرائی کے ذریعے پنجاب کی صوبائی حکومت یا کم از کم پاکستان کی وفاقی حکومت پر قبضہ ھی کرنا چاھتے ھیں یا پھر ایسی صورتحال پیدا کرنا چاھتے ھیں کہ ایک بار پھر پاکستان میں مارشل لاء کا ھی نفاذ ھو؟ بہتر تو یہ ھے کہ سندھی ' بلوچ ' پٹھان اور مھاجر اب پاکستان کے وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت پر قبضہ کرنے ' سیاست ' صحافت ' سرکاری نوکروں پر قبضہ کرنے ' پاکستان کے وفاق اور پنجاب کے وسائل کو لوٹنے اور پنجابیوں کو بلیک میل کرتے رھنے کہ بجائے محنت اور مشقت کرکے ذراعت ' صنعت ' تجارت اور ھنرمندی والے شعبوں میں مھارت حاصل کرکے خود کو معاشی طور پر مستحکم کریں۔

No comments:

Post a Comment