Saturday 24 March 2018

مسلم لیگ نے 1946ء میں مسلمان پنجابی اور سکھ پنجابی کو لڑوایا


برطانوی ھندوستان میں 1946ء کے انتخابات کے فوراً بعد برطانیہ کی حکومت نے برطانوی ھندوستان میں اقتدار منتقل کرنے کے لیے راہ ھموار کرنے کی غرض سے تین وزرا پر مشتمل ایک مشن برطانوی ھندوستان بھیجا۔ یہ مشن "کیبنٹ مشن" یا "وزارتی مشن" کے نام سے یاد کیا جاتا ھے۔ اس مشن میں تین وزرا شامل تھے۔ 1۔ لارڈ پیتھک لارنس 2۔ سر سٹیفورڈ کرپس 3۔اے ۔ وی ۔ الیگزینڈر۔

مشن کا اصل مقصد برطانوی ھندوستان میں ایک عارضی حکومت کا قیام اورکانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان موجود آئینی بحران کو ختم کراکے انتقال اقتدار کے لیے راہ ھموار کرنا تھا۔ مشن نے برطانوی ھندوستان پہنچتے ھی وائسرائے ھند ' صوبائی گورنروں ' ایگزیکٹیو کونسل کے اراکین ' کانگرس اور مسلم لیگ کے لیڈروں کے ساتھ اپنی بات چیت کا سلسلہ شروع کیا۔ لیکن ان ملاقاتوں کا کوئی خاص نتیجہ برآمد نہ ھوا۔ اس لیے مشن نے شملہ کے مقام پر اھم سیاسی راھنماؤں کی ایک مشترکہ کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا۔ یہ کانفرنس 5 مئی 1946ء سے 12 مئی 1946ء تک شملہ میں منعقد ھوئی۔ اس کانفرنس میں آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے قائداعظم محمد علی جناح ' لیاقت علی خان ' نواب محمد اسماعیل خان اور سردار عبدالرب نشتر نے شرکت کی جبکہ کانگرس کی نمائندگی ابوالکلام آزاد ' پنڈت جواھر لال نہرو ' ولی بھائی پٹیل اور خان عبدالغفار خان نے کی۔

دونوں سیاسی پارٹیوں کے مؤقف میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ مسلم لیگ برطانوی ھندوستان کی تقسیم چاھتی تھی جبکہ کانگرس برطانوی ھندوستان کی تقسیم پر راضی نہ تھی۔ کانفرنس کے اختتام پر "کیبنٹ مشن" یا "وزارتی مشن" ان حالات سے دوچار تھا کہ وہ نہ تو مسلم لیگ کے مطالبے کو جائز قرار دے سکتا تھا اور نہ ھی کانگرس کی خواھش کو جائز کہہ سکتا تھا۔ اس لیے اس مشن نے 16 مئی 1946ء کو اپنی طرف سے ایک منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے کو ’’کیبنٹ مشن پلان‘‘ کہتے ھیں۔ اس منصوبے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں دونوں سیاسی پارٹیوں کے نقطہ نظر کو ایک خاص تناسب کے ساتھ شامل کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے دو حصے تھے۔ ایک قلیل المعیاد منصوبہ جس کے تحت ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لانا تھا۔ دوسرا طویل المعیاد منصوبہ جس کے تحت کم از کم دس سال کے لیے برطانوی ھندوستان کو تقسیم سے روکنا تھا۔ کیبنٹ مشن پلان کے اھم نکات تھے؛

1۔ برطانوی ھند کے صوبوں پر مشتمل ایک کل ھند یونین (مرکزی حکومت) کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس یونین کے پاس خارجہ امور ' دفاع اور مواصلات کے شعبے ھوں گے۔

2۔ برطانوی ھند اور ریاستوں کے نمائندوں کے باھمی اشتراک سے مرکزی حکومت اپنی انتظامیہ اور مقننہ تشکیل دے گی۔ مقننہ میں زیر غور ھر ایسا معاملہ جس سے کوئی بڑا فرقہ ورانہ مسئلہ پیدا ھونے کا امکان ھو ' کو فیصلہ کرنے کے لیے ھر دو بڑی قومیتوں کے نمائندوں کی اکثریت اور پارلیمنٹ میں موجود اراکین کی اکثریت ضروری قرار دی گئی۔

3۔ پلان ھذا کے مطابق برطانوی ھند کے تمام گیارہ صوبوں کو مندرجہ ذیل تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔

پہلے گروپ میں ھندو اکثریتی صوبے یو پی ' سی پی ‘ بہار ‘اُڑیسہ ‘ بمبئی ‘مدراس شامل کیے گئے۔
دوسرے گروپ میں شمال مغرب میں مسلم اکثریتی صوبے پنجاب ‘سرحد’ اورسندھ شامل کیے گئے۔
تیسرے گروپ میں شمال مشرق میں مسلم اکثریتی صوبے بنگال اور آسام شامل کیے گئے۔

4۔ خارجہ امور ‘ دفاع اور مواصلات کے شعبوں کے علاوہ دیگر تمام شعبے صوبوں اور ریاستوں کو دینے کی سفارش کی گئی۔

5۔ کل ھند یونین کے آئین اور ھر گروپ کے آئین میں ایک شق ایسی ھوگی جس کے تحت کوئی بھی صوبہ اگر چاھے تو ھر دس سال کے بعد اپنی قانون ساز اسمبلی کی اکثریت کی خواھش پر آئین کی نکات یا شقوں پر ازسرنو غور کرنے کا مجاز ھوگا۔ شق ھذا کے مطابق تمام صوبوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ دس سال گذرنے کے بعد وہ انفرادی طور پر یا گروپ کی صورت میں اگر چاھیں توکل برطانوی ھندوستان یونین سے علیحدگی اختیار کرسکتے ھیں۔

6۔ صوبائی اسمبلیوں میں صوبوں کو آبادی کے تناسب سے نشستیں الاٹ کرنے کے لیے کہا گیا۔ ھر دس لاکھ افراد کے لیے ایک نشست مخصوص کی گئی۔ برطانوی ھند کے گیارہ صوبوں کو کل دو سو نوے 290 نشستوں میں تقسیم کیا گیا جن میں اٹھہتر 78 مسلمانوں کے لیے مقرر کی گئیں۔ اسی طرح ریاستوں کو زیادہ سے زیادہ تریانو 93 نشستیں دی گئیں۔

منصوبے کو قابل عمل بنانے کے لیے کیبنٹ مشن نے یہ بھی شرط عائد کر دی کہ جو بھی سیاسی پارٹی اس پلان کو مسترد کرے گی اسے عبوری حکومت میں شامل ھونے کی دعوت نہیں دی جائے گی۔

کیبنٹ مشن پلان کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنا نہایت ھی آسان ھے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریز سرکار برطانوی ھندوستان کو آزادی دینے کے لیے راضی تھی لیکن وہ برطانوی ھندوستان کا مسئلہ برطانوی ھندوستان کے باشندوں کے ذریعے حل کروانا چاھتی تھی۔ لیکن کانگریس اور مسلم لیگ کے مؤقف میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کانگریس برطانوی ھندوستان کی تقسیم کے خلاف تھی جبکہ مسلم لیگ کی قیادت کے لیے برطانوی ھندوستان کی تقسیم کے بغیر کوئی دوسرا حل قابل قبول نہیں تھا۔

کانگرس نے 25 جون 1946ء کو کیبنٹ مشن پلان منظور کر لیا جبکہ مسلم لیگ نے اپنے موقف کو منوانے کے لیے 29 جولائی 1946ء کو "راست اقدام" (ڈائریکٹ ایکشن ڈے) کا فیصلہ کیا۔ پورے برطانوی ھندوستان کی سطح پر ھڑتال کرانے کے لیے 16 اگست 1946ء کی تاریخ بھی مقرر کر دی۔

بنگال کے برطانوی ھندوستان کا سب سے بڑا مسلم اکثریتی صوبہ اور پنجاب کے برطانوی ھندوستان کا دوسرا سب سے بڑا مسلم اکثریتی صوبہ ھونے کی وجہ سے مسلم لیگ نے " ڈائریکٹ ایکشن ڈے " منانے کے لیے بنگال اور پنجاب میں خاص اھتمام کیا۔ جس کے لیے جلسوں ' جلوسوں ' مظاھروں کے لیے مساجد کا بھی بھرپور استعمال کیا گیا۔ لہٰذا 16 اگست 1946 کو بنگال کے دارالحکومت کلکتہ اور گرد و نواح میں خوفناک فساد پھوٹ پڑے۔ مسلم لیگ کے رھنماؤں کی قیادت میں ھندو بنگالیوں کو مسلمان بنگالیوں نے جی بھر کے لوٹا اور قتل کیا اور لگ بھگ تین ھزار ھلاکتیں ھوئیں۔ جبکہ پنجاب کے شھر راولپنڈی اور گرد و نواح میں مسلم لیگ کی منظم منصوبہ بندی سے پانچ ھزار سکھ پنجابی قتل کردیے گئے۔ راولپنڈی اور گرد و نواح میں سکھ پنجابی قتل کرنے کے لیے صوبہ سرحد کے پٹھانوں کو منظم انداز میں راولپنڈی لایا گیا۔ جسکے ردِ عمل میں پنجاب ھی کے شھر امرتسر اور گرد و نواح میں مسلمان پنجابیوں کو جی بھر کے لوٹا اور قتل کیا گیا۔

برطانوی ھندوستان میں ھندو مسلم فسادات کا ایک لافانی سلسلہ شروع ھوگیا اور فسادات کے نتیجے میں بنگال میں کلکتہ اور پنجاب میں راولپنڈی ' امرتسر اور دھلی میں سب سے زیادہ تباھی اور بربادی ھوئی۔ جبکہ بمبئی ‘ احمد آباد ’ نواں کلی ‘ بہار میں معمولی نوعیت کے واقعات ھوئے۔ لیکن " ڈائریکٹ ایکشن ڈے " کے اصل کردار اترپردیش کے مسلمان نہ صرف خون کی ھولی سے بچے رھے بلکہ پنجابی قوم کو مذھب کی بنیاد پر آپس میں دست و گریبان کروانے میں مصروف رھے اور بلآخر پنجاب کو تقسیم کروا کر 20 لاکھ پنجابی مروانے اور 2 کروڑ پنجابی دربدر کروانے میں کامیاب رھے۔

پاکستان کے 15 اگست 1947 میں قیام کے بعد 17 اگست کو پنجاب تقسیم کرکے 17 مسلم پنجابی اکثریتی اضلاع پاکستان میں شامل کردیے گئے اور 12 ھندو پنجابی و سکھ پنجابی اکثریتی اضلاع بھارت میں شامل کردیے گئے۔ پاکستان کا گورنر جنرل کراچی کا رھنے والا محمد علی جناح بن گیا۔ پاکستان کا وزیرِ اعظم اترپردیش کا اردو بولنے والا ھندوستانی مھاجر لیاقت علی خان بن گیا۔ پنجابی تباہ و برباد ھونے کے بعد ذلت و رسوائی کا سامنا کرنے لگے بلکہ پاکستان کے قیام کی سات دھائیاں گزرنے کے بعد بھی کر رھے ھیں۔

No comments:

Post a Comment