Saturday, 31 August 2019

اردو زبان کے بارے میں بنیادی معلومات۔

اردو زبان اور ھندی زبان بنیادی طور پر ایک ھی زبان ھیں۔ لیکن رسم الخط مختلف ھے۔ دونوں زبانوں کی بنیاد ھند آریائی ھے۔ جبکہ بنیادی ڈھانچہ ‘ گرائمر اور بڑی حد تک الفاظ اور صوتیات میں اتنی مماثلت ھے کہ وہ ایک زبان نظر آتی ھیں۔

دھلی سے اودھ تک کے خطے میں 13 ویں صدی سے لے کر 18 ویں صدی کے آخر تک عام طور پر بولی جانے والی زبان "ھندوی" تھی۔ اس زبان کو ھنداوی اور دھلوی جیسے ناموں سے بھی جانا جاتا تھا۔

"معیاری ھندوی" زبان کو سب سے پہلے "کھڑی بولی" بولنے والے ترکوں نے تیار کیا تھا جو دھلی سے جاکر اودھ کے خطے میں آباد ھوئے تھے۔ ان میں امیر خسرو کو خاص طور پر اھمیت حاصل ھے۔ انہوں نے "کھڑی بولی" کے کھردرا پن میں "اودھی" کی نرماھٹ کو ملا کر ایک نئی زبان تشکیل دی جس کو انہوں نے "ھندوی" کہا۔ "ھندوی" زبان بعد میں "ھندوستانی" زبان کی شکل اختیار کر گئی جوکہ بعد میں "ھندی اور اردو" بن گئی۔

پہلی "ھندوستانی" زبان کی کتاب "وہ مجلس" 1728 میں لکھی گئی تھی۔ پہلی مرتبہ اردو کا نام شاعر غلام علی ھمدانی مصحفی نے 1780 میں استعمال کیا۔ اردو زبان نے انگریز راج کے دوران برطانوی راج کی سرپرستی کی وجہ سے پہچان اور سرپرستی حاصل کرنا شروع کی۔

ھندوستان کی برطانوی انتظامیہ اور کرسچن مشنریوں نے کھڑی بولی سے وجود میں لائی گئی "ھندوستانی" زبان کو جدید اور "معیاری ھندوستانی" زبان بنانے کے لیے اھم کردار ادا کیا۔ 1800 عیسوی میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے کلکتہ میں ھائر ایجوکیشن کا ایک کالج قائم کیا جس کا نام فورٹ ولیم کالج تھا۔

فورٹ ولیم کالج کے ریگلولیشن کے تحت کالج میں ھندوستانی ' عربی ' فارسی ' سنسکرت ' مرھٹی اور کٹری زبانوں کے شعبے قائم کیے گئے۔ کالج میں پروفیسروں کی مدد کے لیے شعبے میں منشی بھی مقرر کیے گئے تھے۔ میر بہادر علی حسینی فورٹ ولیم کالج کے میر منشی تھے۔ میرامن دھلوی بھی ان ھی کی وساطت سے فورٹ ولیم کالج میں منشی بھرتی ھوئے تھے۔

فورٹ ولیم کالج کے صدر جان گلکرسٹ نے "ھندوستانی" زبان کی صرف و نحو مرتب کی اور کالج کے منشیوں کو "ھندوستانی" زبان میں لکھنے کی ترغیب دی۔ مصنفین کی حوصلہ افزائی کے لیے منظور شدہ کتابوں پر انعام بھی دیا جاتا تھا۔ اس لیے قصوں کہانیوں کی کتابیں بڑی تعدا د میں لکھی گئیں۔

فورٹ ولیم کالج کے قیام کے ابتدائی چار سالوں میں 23 کتابیں لکھی گئیں۔ میر بہادر علی حسینی ' میر امن دھلوی ' سید حیدر بخش حیدری ' میر شیر علی افسوس ' مظہر علی ولا ' مرزا کاظم علی جوان ' خلیل خان اشک ' نہال چند لاھوری ' بینی نارائن جہاں ' مرزا جان تپش ' میر عبد اللہ مسکین ' مرزا محمد فطرت ' میر معین الدین فیض مشہور اور اھم مصنفین تھے۔

فورٹ ولیم کالج کے قیام سے قبل "ھندوستانی" زبان کا نثری ذخیرہ بہت محدود تھا۔ نثر میں جو چند کتابیں لکھی گئی تھیں ان کی زبان فارسی اثرات کے زیر اثر ' تکلف اور تصنع سے بھر پور ' مشکل ' ثقیل اور بوجھل تھی۔ اس لیے فورٹ ولیم کالج کے مصنفین کی تحریروں کا نمایاں وصف سادہ ' روانی والا ' آسان ' لطیف اور عام فہم بول چال کا انداز اپنانا رھا۔ اس طرح "ھندوستانی" زبان میں تیار کی گئی کچھ تصانیف "معیاری ھندوستانی" زبان کی ادبی شکل اختیار کر گئیں۔

سرکاری سرپرستی کی وجہ سے "ھندوستانی" سے وجود میں لائی گئی "معیاری ھندوستانی" زبان کی ادبی مقبولیت اور ترقی ھونے لگی۔ "معیاری ھندوستانی" زبان کو "اردو" قرار دیا جانے لگا۔ یہاں تک کہ اودھی ' برج بھاشا اور میتھلی جیسی زیادہ ادبی زبانوں کے استعمال میں کمی واقع ھوئی۔

انیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے سے ھی "اردو" زبان میں ادبی کاموں نے زور پکڑ لیا۔ آھستہ آھستہ بعد کے سالوں میں "کھڑی بولی" سے وجود میں لائی گئی "ھندوستانی" کو "معیاری ھندوستانی" کی شکل دینے سے "اردو" زبان کی بنیاد پڑ گئی۔ اسے اسکولوں میں پڑھانا شروع کیا گیا اور سرکاری کاموں میں استعمال کیا جانے لگا۔

فورٹ ولیم کالج نے تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ منظم طور پر "معیاری ھندوستانی" زبان میں ترجموں کی روایت کا آغاز بھی کیا تھا۔ اس لیے ھی انیسویں صدی میں "معیاری ھندوستانی" زبان اور بیسویں صدی میں "اردو" نثر میں ترجمہ کرنے کی جتنی تحریکیں شروع ھوئیں ان کے پس پردہ فورٹ ولیم کالج کا اثر کار فرما رھا۔

میرامن دھلوی نے قصہ چہار درویش کو ’’باغ و بہار‘‘ کے نام سے لکھا۔ ’’باغ و بہار‘‘ اپنی سادہ اور دلکش نثر کی وجہ سے ایک شاھکار کا درجہ حاصل کر چکی ھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ’’گنجِ خوبی‘‘ کا ترجمہ کیا۔

حیدر بخش حیدری نے کئی کتابیں لکھیں۔ ان میں قصہ ’’مہرو ماہ ' توتا کہانی اور آرائشِ محفل‘‘ قابل ذکر ھیں۔

میر شیر علی افسوس نے سعدیؒ کی کتاب ’’گلستان‘‘ کا ترجمہ ’’باغِ اردو‘‘ کے نام سے کیا۔

منشی سجان رائے کی تاریخی کتاب خلاصۃ التواریخ کا ترجمہ ’’آرائشِ محفل‘‘ کے نام سے کیا گیا۔

میر بہادر علی حسینی نے نثرِ بے نظیر ’ اخلاقِ ھندی ’ تاریخ آسام اور قواعدِ زبان اردو کے نام سے کتابیں لکھیں۔

خلیل علی خاں اشکؔ نے بھی کئی کتابیں لکھیں مگر بیشتر غیر مطبوعہ رہ گئیں۔ انہوں نے ’’قصہ امیر حمزہ‘‘ کو اردو قالب عطا کیا۔ ان کی دوسری تصانیف میں ’’رسالہ کائنات جو اور قصہ گلزارِ چین‘‘ بھی ھیں۔

مظہر علی خاں ولاؔ نے ’’مادھونل اور کام کنڈلا ’ ھفت گلشن اور بیتال پچیسی‘‘ کے ترجمے کیے۔

شیخ حفظ الدین نے ’’خرد افروز‘‘ لکھی جو ’’عیارِدانش‘‘ کا ترجمہ ھے۔

کاظم علی جوانؔ زیادہ تر مصنفین کو ان کی تالیفات کی تکمیل میں مدد کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بھی دو کتابیں لکھیں۔ ایک شکنتلا لکھی اور دوسری تاریخِ فرشتہ کے بڑے حصے کا ترجمہ تھی۔

مرزا علی لطفؔ نے ’’گلشنِ ھند‘‘ کے نام سے شعرائے اردو کا ایک تذکرہ لکھا۔

امانت اللہ نے اپنی عربی کتاب ’’ھدایت الاسلام‘‘ کو اردو میں منتقل کیا۔

بینی نرائین نے چار گلشن ’ دیوانِ جہاں اور شاہ رفیع الدین کی کتاب ’’تنبیہ الغافلین‘‘ کے ترجمے کیے۔

"کھڑی بولی" کو دھلوی ' کؤروی اور ھنداوی بھی کہا جاتا ھے۔ اس بولی کو میعاری اردو اور ھندی جبکہ باعث فخر اردو اور ھندی بھی مانا جاتا ھے۔ یہ مغربی ھند کی بولی ھے جو بنیادی طور پر دھلی کے دیہی علاقوں ‘ مغربی اترپردیش کے علاقوں اور ھندوستان کے اتراکھنڈ کے جنوبی علاقوں میں بولی جاتی ھے۔

دھلی کے آس پاس کا علاقہ ایک طویل عرصے سے شمالی ھندوستان میں طاقت کا مرکز رھا۔ اس لیے قدرتی طور پر "کھڑی بولی" کو شمالی ھندوستان کی دوسری بولیوں کے مقابلے میں شھری علاقوں کی اور اعلی معیار کی زبان سمجھا جاتا رھا۔ "کھڑی بولی" کے عروج سے پہلے بھکتی سنتوں میں سے کرشن بھکتوں نے برج بھاشا کو ‘ رام بھکتوں نے اودھی کو اور بہار کے واشنوی نے میتھلی کو اپنایا ھوا تھا۔

دھلی کی "کھڑی بولی" تقریبا 900 سالوں کے دوران فارسی ‘ عربی اور ترک زبان کے زیر اثر تیار ھوئی۔ اس کی ابتداء برصغیر پاک و ھند میں دھلی سلطنت (1206–1527) کے دوران اترپردیش کے خطے میں ھوئی اور مغل سلطنت (1526–1858) کے تحت ترقی کرتی رھی۔ "کھڑی بولی" کی ابتدائی مثالوں کو امیر خسرو (1253-1355) کی تحریروں میں دیکھا جاسکتا ھے۔

"کھڑی بولی" سے وجود میں لائی گئی "معیاری ھندوستانی" زبان کو آھستہ آھستہ 19 ویں صدی کے دوران "اردو" کے نام سے تقویت مل گئی تھی۔ ورنہ اس سے پہلے دوسری بولیاں جیسے اودھی ' برج بھاشا اور میتھلی ادب کے لیے ترجیح دی جانے والی بولیاں تھیں۔

برطانوی راج کی آمد کے ساتھ ھی ھندوستان کی انتظامیہ کی زبان فارسی نہیں رھی تھی۔ لیکن شمال مغربی ھندوستان میں "ھندوستانی" زبان جو ابھی تک فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ اسے ھندو اور مسلمان دونوں ھی استعمال کرتے رھے۔ انگریزوں نے فارسی کی جگہ انگریزی زبان کو نافذ کیا اور 1846 میں شمالی ھندوستان میں جموں و کشمیر کی ریاست کی اور 1877 میں پنجاب کی مقامی سرکاری زبان فارسی کو اردو زبان سے تبدیل کیا گیا۔

برطانوی ھندوستان میں برطانوی راج کی پالیسی کی وجہ سے فارسی کا اثر و رسوخ ختم کرنے کے لیے "اردو" زبان کو فروغ دینا شروع کیا گیا۔ تاھم اس پر شمال مغربی ھندوستان میں ھندوؤں کا رد عمل ھوا۔ ان کی دلیل تھی کہ؛ زبان کو دیوناگری رسم الخط میں لکھنا چاھیے۔ چنانچہ دیوناگری رسم الخط میں نئی زبان "ھندی" تشکیل دی گئی اور اسے "ھندوستانی" زبان کی جگہ 1881 میں بہار کی سرکاری زبان کے طور پر نافذ کیا گیا۔

اردو" نے جو کہ "کھڑی بولی" کی جدید شکل والا لہجہ ھے ' فارسی کو شمالی ھندوستان کی ادبی زبان کے طور پر 20 ویں صدی کے اوائل میں تبدیل کردیا تھا۔ لیکن اردو میں فارسی کی آمیزش اور اردو کی مسلمانوں کے ساتھ وابستگی نے ھندوؤں کو "ھندوستانی" زبان میں سنسکرت کی شمولیت پر اکسایا۔ جس کے نتیجے میں موجودہ "ھندی" کی تشکیل ھوئی۔ جبکہ مسلمانوں کے لئے "اردو" اور ھندوؤں کے لیے "ھندی" کا تاثر بھی قائم کیا جانے لگا۔

اردو دنیا کی 21 ویں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ھے۔ دنیا بھر میں اردو بولنے والے تقریبا 6 کروڑ 70 لاکھ افراد ھیں۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق اردو بولنے والے ھندوستان میں 5 کروڑ 20 لاکھ اور پاکستان میں ایک کروڑ 47 لاکھ تھے۔ جبکہ کئی لاکھ اردو بولنے والے برطانیہ ‘ سعودی عرب ‘ متحدہ عرب امارات ' ریاستہائے متحدہ امریکہ ‘ کنیڈا اور بنگلہ دیش میں ھیں۔ بنگلہ دیش میں انہیں "بہاری" کہا جاتا ھے۔

ھندوستان میں اردو باضابطہ طور پر تسلیم شدہ سرکاری زبانوں میں سے ایک ھے اور اسے ھندوستانی ریاستوں اترپردیش ‘ بہار ‘ تلنگانہ ‘ جموں و کشمیر اور ھندوستان کے دارالحکومت نئی دھلی میں سرکاری زبان کا درجہ حاصل ھے۔

پاکستان میں 2017 کی مردم شماری کے مطابق اردو بولنے والوں کی آبادی سندھ میں 8,709,610 ۔ پنجاب میں 5,356,464 ۔ کے پی کے میں 274,581 ۔ اسلام آباد میں 244,966 ۔ بلوچستان میں 99,913 ۔ فاٹا میں 24,465 ھے۔

پاکستان میں اردو بولنے والوں کی کل آبادی 14,709,999 ھے جو کہ پاکستان کی 207,685,000 آبادی کا %7.08 بنتی ھے۔

پاکستان کی 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں پہلی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی۔ دوسری پشتو۔ تیسری سندھی۔ چوتھی سرائیکی (پنجابی زبان کے ڈیرہ والی ' ملتانی ' ریاستی لہجوں کو "سرائیکی" کہا جاتا ھے) اور پانچویں اردو ھے۔

پاکستان کی %93 آبادی کی مادری زبان اردو نہیں ھے۔ اس حقیقت کے باوجود پاکستان کے پہلے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان کے طور پر نافذ کیا تھا لیکن اسے ابھی تک نافذ رکھا گیا ھے۔

Sunday, 25 August 2019

سندھ میں پی پی پی کو ھی حکومت کرنے دی جائے۔

برٹش انڈیا میں برطونوی حکومت کے دور میں دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کے قیام کا سلسلہ شروع ھوا۔ ان مدرسوں کے فلسفے کو دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے طور پر روشناس کروا کر دین کی تعلیمات حاصل کر کے اپنا اخلاق ٹھیک کرکے اور روحانی نشو نما کر کے ' اپنی جسمانی حرکات ' نفسانی خواھشات اور قلبی خیالات کی اصلاح کرکے ' اپنی دنیا اور آخِرَت سنوارنے کے بجائے اسلام کو سیاسی مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کرنے کی بنیاد رکھی گئی۔ دارالعلوم دیوبند کو 1866ء میں ' دار العلوم ندوۃ العلماء کو 1893ء میں اور بریلوی مدرسوں کو 1904ء میں اتر پردیش میں قائم کیا گیا تھا۔

دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں والے برطانیہ کی پالیسی کی پیداوار تھے۔ یہ مذھب کے نام پر سیاست کرتے تھے۔ ان مدرسوں میں درس و تدریس کا ذریعہ اردو زبان تھی اور غیر اردو زبان بولنے والے مسلمانوں پر اردو زبان کا تسلط قائم کرنے کے لیے ان مدرسوں نے اردو زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار دینا شروع کیا ھوا تھا۔ پاکستان کا قیام ھوتے ھی ان مدرسوں سے سند یافتہ اتر پردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں نے کراچی کو اپنا مرکز بناکر پاکستان کی حکومت کے اداروں ' سیاست اور صحافت پر تسلط قائم کرکے سات دھائیوں تک پاکستان میں اپنے بیانیہ پر عمل کروا کر پاکستان کے باجے بجا دیے اور کراچی میں پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ کو یرغمال بنائے رکھا۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر نے کراچی میں اپنی اجارہ داری قائم کی ھوئی تھی۔ ان کا رویہ پنجابیوں کے ساتھ انتہائی تذلیل اور توھین والا ھے۔ اس لیے کراچی میں رھنے والے پنجابی کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی معاملات کے لحاظ سے کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ھیں۔ لہٰذا دیہی سندھ کے سندھیوں کی سیاسی جماعت پی پی پی کی سندھ میں صوبائی حکومت رھنے دی جائے تاکہ حکومت کے اختیار کو استعمال کرکے دیہی سندھ کے بلوچ میر اور عربی نزاد پیر کراچی میں اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کو قانون اور اخلاق کے دائرے میں نہ بھی رکھ پائیں تو کم از کم ان کی تذلیل اور توھین کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے رھیں۔

خالصتان کے قیام کے لیے "پنجاب ریفرنڈم 2020"۔

بھارت سے باھر مختلف ممالک میں رھنے والے سکھوں کی تنظیم "انصاف برائے سکھ" (ایس ایف جے) کا کہنا ھے کہ "پنجاب اس وقت بھارت کے زیرِ قبضہ ھے"۔ اس نے عزم کیا ھے کہ پنجاب اور بیرون ملک 20 ممالک میں جہاں سکھ بڑی تعداد میں رھتے ھیں۔ وھاں سکھوں کو ایک آزاد ملک کے قیام کے لیے ووٹ ڈالنے کے لیے آمادہ کیا جائے گا۔ جسے وہ خالصتان کہتے ھیں۔ اس گروپ کا خیال ھے کہ بھاری اکثریت سے "ھاں ووٹ'' وہ عمل شروع کردے گا جس کے ذریعے آخرکار ھم پنجاب میں باضابطہ طور پر حکومتی سطح پر ایک قانونی ریفرنڈم کروائیں گے۔ جس کے ذریعہ پُرامن طور پر خالصتان کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

ریفرنڈم ویب سائٹ کے مطابق "پنجاب ریفرنڈم 2020" پنجاب کو آزاد کروانے کے لیے ایک مہم ھے جو اس وقت بھارت کے قبضہ میں ھے۔ امریکہ اور کینیڈا میں مقیم گروپ "سکھ برائے انصاف" (ایس ایف جے) نے علیحدہ ریاست خالصتان کی حمایت میں ریفرنڈم 2020 کا منصوبہ بنایا ھے۔ جس سے بھارت کی اسٹیبلشمنٹ میں خوف و ھراس پھیل گیا ھے۔ رپورٹ سے انکشاف ھوا ھے کہ امریکہ اور کینیڈا کے بیشتر گوردواروں نے رائے شماری کے لئے مہمات شروع کردی ھیں۔

ایس ایف جے کا کہنا ھے کہ مہم کا مقصد "غیر سرکاری ووٹ میں پنجاب کی آزادی کی حمایت میں 50 لاکھ ووٹ حاصل کرنا ھے"۔ اس کے بعد "اقوام متحدہ میں درخواست پیش کی جائے گی کہ اقوام متحدہ مداخلت کرے اور بات چیت کروا کر پنجابی عوام اور بھارت کے مابین ایک معاھدہ کروائے جس پر عمل کرنے کا بھارت قانونی طور پر پابند ھو کہ پنجاب میں آزادی کے لیے ایک غیر جانبدار ریفرنڈم کروایا جائے گا۔ اس گروپ نے یہ انکشاف نہیں کیا ھے کہ وہ بھارتی مخالفت کے باوجود پنجاب میں ووٹ کو کس طرح منظم کرسکے گا۔

تجزیہء کاروں کا کہنا ھے کہ بھارت سے باھر مختلف ممالک میں رھنے والے سکھوں میں آزادی کے لیے حمایت موجود ھے۔ 2017 کے سروے میں برطانیہ میں رھنے والے 40 فیصد سکھوں کا کہنا تھا کہ وہ پنجاب کی آزادی کے بارے میں "مثبت" یا "انتہائی مثبت" رویہ رکھتے ھیں۔ جبکہ 30 فیصد نے کہا کہ وہ "غیر جانبدار" ھیں اور بقیہ 30 فیصد "منفی" ھیں۔

بھارتی حکومت ریفرنڈم کے مطالبات کی مخالفت کر رھی ھے اور یہ دعویٰ کرتی ھے کہ ایس ایف جے کو پاکستان کی مدد ھے۔ بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے پنجاب میں "بغاوت " کے لیے "بیرونی رابطوں" کا حوالہ دیا اور ایس ایف جے کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے منسلک کیا۔

یہ مسئلہ بھارت اور کینیڈا تعلقات میں بھی ایک سنگین نقطہ بن گیا ھے۔ کینیڈا کی حکومت کے کچھ سکھ ارکان خالصتان کی تحریک میں سرگرم ھیں یا ان کے خالصتان کی تحریک کے ساتھ روابط ھیں۔ بھارت کے سرکاری دورے کے دوران کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے انکار کیا کہ ان کی کابینہ کے چار سکھ ممبران میں سے کوئی بھی علیحدگی پسند ھے۔ لیکن ساتھ ھی اس نے کہا کہ کینیڈا کی سکھ کمیونٹی میں خالصتان کی آزادی کی حمایت والے نظریات جائز ھیں۔ کینیڈا میں تقریبا 5 لاکھ سکھ رھتے ھیں۔

ریاستہائے متحدہ امریکہ میں دسمبر 2018 میں محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان رابرٹ پیلادینو نے کہا کہ " ریاستہائے متحدہ امریکہ میں تقریر کی آزادی ھے۔ انجمن سازی کی آزادی ھے اور یہ امریکی معاشرے کے اصول ھیں۔" بھارت کی جانب سے سکھوں کی تنظیم "انصاف برائے سکھ" (ایس ایف جے) کے ذریعہ 12 اگست کو لندن میں ھونے والے ریفرنڈم 2020 کے پروگرام کے بارے میں بار بار اپنے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔ جس پر برطانیہ کی حکومت نے نئی دھلی کو باضابطہ زبانی پیغام بھیجا ھے۔

یوپی کا اردو بولنے والا ھندوستانی لیاقت علی خان کرنال میں پیدا ھوا تھا۔

لیاقت علی خان بھارت کے یونائیٹڈ پروینس (یوپی) کا اردو بولنے والا ھندوستانی تھا لیکن وہ یکم اکتوبر 1895 کو مشرقی پنجاب کے علاقے کرنال میں پیدا ھوا۔ کیوں کہ لیاقت علی خان کے خاندان کو انگریز کی طرف سے دی گئی جاگیر دریائے جمنا کے مشرق کی طرف یونائیٹڈ پروینس (یوپی) اور مغرب کی طرف مشرقی پنجاب میں پھیلی ھوئی تھی۔ جاگیر کے 300 دیہاتوں میں سے 240 دیہات یونائیٹڈ پروینس (یوپی) میں تھے اور 60 دیہات کرنال میں تھے۔

لیاقت علی خان کے دادا نواب احمد علی خان نے 1857 کی بغاوت کے دوران کرنال میں برطانوی فوج کو بروقت مدد فراھم کی تھی۔ (ماخذ- لیپل گرفن۔ پنجاب چیفس جلد ایک)۔ لیاقت علی خاں کے والد نواب رستم علی خان کو برطانوی حکومت نے رکن الدولہ ‘ شمشیر جنگ اور نواب بہادر کے خطاب دیے ھوئے تھے۔ لیاقت علی خان کے خاندان کے ساتھ برطانوی حکومت کے خصوصی تعلقات تھے اور برطانوی سرکاری افسران عمومی طور پر یونائیٹڈ پروینس (یوپی) کے دورے کے موقع پر مظفر نگر میں ان کی بڑی اور وسیع حویلی میں تشریف لاتے تھے۔

لیاقت علی خان کی تعلیم علی گڑھ ‘ الہ آباد اور ایکسیٹر کالج آکسفورڈ میں ھوئی تھی اور انہوں نے 1923 میں سیاست میں قدم رکھا۔ وہ پہلے یونائیٹڈ پروینس (یوپی) کی صوبائی مقننہ اور پھر مرکزی قانون ساز اسمبلی میں منتخب ھوئے۔ انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور جلد ھی محمد علی جناح کے ساتھ وابستہ ھوکر قریبی رفقاء میں شامل ھوگئے۔ لیاقت علی خان نے ابتدائی طور پر 1926 کے قانون ساز کونسل کے انتخابات میں یونائیٹڈ پروینس (یوپی) سے مظفر نگر کے دیہی مسلم انتخابی حلقہ سے انتخاب میں حصہ لیا تھا۔ حلف اٹھانے کے بعد لیاقت علی خان نے اپنے پارلیمانی کیریئر کا آغاز کیا۔

لیاقت علی خان نے 1926 میں قانون ساز کونسل میں یونائیٹڈ پروینس (یوپی) کی نمائندگی کی۔ 1932 میں انہیں متفقہ طور پر یونائیٹڈ پروینس (یوپی) قانون ساز کونسل کا نائب صدر منتخب کیا گیا اور مرکزی قانون ساز اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لینے سے پہلے سن 1940 تک یونائیٹڈ پروینس (یوپی) قانون ساز کونسل کے منتخب رکن رھے۔ 1945-46 میں بھارت میں قانون ساز کونسل کے انتخابات ھوئے اور لیاقت علی خان نے یونائیٹڈ پروینس (یوپی) سے میرٹھ کے حلقہ سے مرکزی قانون ساز کونسل کا انتخاب جیتا۔

Saturday, 24 August 2019

Ghazwa-e-Hind will be fought on the base of the Nation, not Religion.


Ghazwa-e-Hind or the battle of India is an Islamic term mentioned in some hadiths, in particular, predicting a final and last battle in India and as a result, a conquest of the whole Indian subcontinent by Muslim warriors. The term has recently become a subject of vast criticism in media for being used by militant groups to justify their activities in the Indian subcontinent.

Term of Ghazwa-e-Hind is misinterpreted that Ghazwa-e-Hind will be fought on the base of Religion by the Muslim militant groups. In a matter of fact, Ghazwa-e-Hind will not be fought on the base of Religion and it will be fought on the base of Nation. The Punjabi nation will fight the battle. The Punjabi nation is composed of Muslim Punjabi, Hindu Punjabi, Sikh Punjabi, and Christian Punjabi. The religious ratio of Punjabi nation is 56% Muslim Punjabi, 26% Hindu Punjabi, 14% Sikh Punjabi, 4% Christian Punjabi.

The Punjabi nation is the ninth biggest nation of the world, the third biggest nation of South Asia. Muslim Punjabi is the biggest population of Pakistan and the third biggest ethnic populations of Muslim Ummah. Top 10 largest ethnic populations of Muslim Ummah are 01. Arabic 02. Bengali 03. Punjabi 04. Javanese 05. Turkish 06. Persian 07. Pushto 08. Urdu 09. Sundanese 10. Uzbek. Ghazwa-e-Hind will be initiated by the Muslim Punjabis due to the persecution of Kashmiris by the Indian government in Kashmir and at the final stage, the whole Punjabi nation will fight the battle in India with Hindi Speaking Hindustanis of UP, CP.

The land of India is the land of Hindi, Telugu, Tamil, Marathi, Gujarati, Rajasthani, Malayalam, Kannada, Oriya, Bhojpuri, Assamese nations and Hindu Bengali, Hindu Punjabi, Sikh Punjabi of India. The biggest nation of India is a Hindi Speaking Hindustanis of UP, CP.

Hindi Speaking Hindustanis have established their social, political, economic, administrative supremacy over the Telugu, Tamil, Marathi, Gujarati, Rajasthani, Malayalam, Kannada, Oriya, Bhojpuri, Assamese nations and Hindu Bengali, Hindu Punjabi, Sikh Punjabi of India.

Hindu Punjabi and Sikh Punjabi did not accept the social, political, economic, administrative supremacy of Hindi Speaking Hindustanis of UP, CP. Therefore, Hindu Punjabi and Sikh Punjabi are in a struggle to liberate them from the social, political, economic, administrative supremacy of Hindi Speaking Hindustanis.

Telugu, Tamil, Marathi, Gujarati, Rajasthani, Malayalam, Kannada, Oriya, Bhojpuri, Assamese nations and Hindu Bengali of India also desire to liberate them from the social, political, economic, administrative supremacy of Hindi Speaking Hindustanis but they are not able to retaliate against Hindi Speaking Hindustanis. But being part of Punjabi nation, Hindu Punjabi and Sikh Punjabi has full support from Muslim Punjabis.

To save Kashmiris from persecution by the Indian government in Kashmir and to liberate Hindu Punjabi and Sikh Punjabi from the social, political, economic, administrative supremacy of Hindi Speaking Hindustanis of UP, CP. Muslim Punjabis will fight a war with Hindi Speaking Hindustanis of UP, CP and this war is prophesied as Ghazwa-e-Hind. Bengali, Javanese, Turkish, Persian, Sundanese, Uzbek Muslims will support the Muslim Punjabis in Ghazwa-e-Hind.

The war is never fought on the basis of religion but on the basis of the social, political, economic, administrative interests of the nation. The conspiracy to portray Ghazwa-e-Hind as a religious war is presented by Hindi Speaking Hindu Pundits of UP, CP and Urdu Speaking Muslim Mullahs of Pakistan.

By conspiracy of portraying Ghazwa-e-Hind with religious color, the Hindi Speaking Hindus of UP, CP are fooling the Non-Muslim Telugu, Tamil, Marathi, Gujarati, Rajasthani, Malayalam, Kannada, Oriya, Bhojpuri, Assamese nations and Hindu Bengali, Hindu Punjabi, Sikh Punjabi of India and succeeded to establish their social, political, economic, administrative supremacy in India.

By conspiracy of portraying Ghazwa-e-Hind with religious color, the Urdu Speaking Muslims of Pakistan are fooling the Muslim Punjabi, Sammat, Brahui, Hindko, Kashmiri, Gilgati, Baltastani, Chitrali, Swati, Kohistani, Gujrati, Rajasthani, Pathan and Baloch of Pakistan and succeeded to establish their social, political, economic, administrative supremacy in Pakistan.

As the Ghazwa-e-Hind will be fought between Punjabi nation and Hindi nation, therefore, Ghazwa-e-Hind will be fought on the basis of nation, not on the basis of religion. The Hindi nation includes Muslims of UP, CP too beside Hindus. The Punjabi nation includes Hindu Punjabis, Sikh Punjabis, and Christian Punjabis of Punjab too beside Muslim Punjabis.

Sammat, Brahui, Hindko, Kashmiri, Gilgati, Baltastani, Chitrali, Swati, Kohistani, Gujrati, Rajasthani, Pathan, and Baloch nations of Pakistan will support the Punjabi nation in Ghazwa-e-Hind. But before the Ghazwa-e-Hind, Muslim Punjabis will have a serious confrontation with Urdu Speaking Muslims of UP, CP, and Pathan Muslims due to the dispute in social, political, economic, administrative affairs.

Telugu, Tamil, Marathi, Gujarati, Rajasthani, Malayalam, Kannada, Oriya, Bhojpuri, Assamese nations and Hindu Bengalis of India will support the Punjabi nation in Ghazwa-e-Hind. But before the Ghazwa-e-Hind, Hindu Punjabi and Sikh Punjabi will have a serious confrontation with the Hindi nation due to the persecution of the Indian government in Kashmir the land of Muslim Punjabi, Hindu Punjabi, Sikh Punjabi, and Christian Punjabi.

As a result of Ghazwa-e-Hind, occupied Kashmir will be liberated and apart from Hindu Punjabi and Sikh Punjabi of India, Telugu, Tamil, Marathi, Gujarati, Rajasthani, Malayalam, Kannada, Oriya, Bhojpuri, Assamese nations and Hindu Bengalis will also attain independence and get rid of the social, political, economic, administrative supremacy of Hindi Speaking Hindustanis of UP, CP.

سیاست دے شعبے وچ وی پنجابی نوں مضبوط ھونا پینا اے۔

پنجابیاں وچ قومپرستی بوھت تیزی نال ودھ رئی اے۔ ایس لئی قومپرست پنجابی چاھندے نے کہ؛ ھر پنجابی ' پنجابی بولے۔ پنجاب دی تعلیمی زبان پنجابی ھووے۔ پنجاب دی سرکاری زبان پنجابی ھووے۔ پنجاب دے دفتراں تے پنجاب دی اسمبلی وچ پنجابی زبان وچ گل کیتی جاوے۔ ھر پنجابی سیاستدان ' پنجابیاں دے سماجی ' پنجاب دے معاشی ' پنجاب تے پنجابیاں دے سیاسی حق دی گل کرے۔ پر اے کم سیاست دا اے تے پنجابی نے ھجے تک سیاست دے شعبے وچ اپنے آپ نوں مضبوط نئیں کیتا۔

پنجابی نے زراعت ' ھنرمندی ' تجارت ' صنعت ' سول بیوروکریسی تے ملٹری بیوروکریسی دے شعبے وچ مھارت حاصل کرکے اپنے آپ نوں مضبوط کیتا اے تے صحافت دے شعبے وچ مھارت حاصل کرکے اپنے آپ نوں مضبوط کر ریا اے۔ سیاست دے شعبے وچ ھجے تک پنجابی نے مھارت حاصل نئیں کیتی۔ ایس لئی ھجے تک سیاست دے شعبے وچ پنجابی مضبوط نئیں اے۔

زراعت ' ھنرمندی ' تجارت ' صنعت ' سول بیوروکریسی تے ملٹری بیوروکریسی دے شعبے دا تجربہ رکھن والے پنجابی سیاسی ذھن ای نئیں رکھدے۔ ایس لئی جد سیاست کردے نے تے سیاست دے ناں تے کاروبار کردے نے یا فے نوکری ای کردے نے۔ ایس لئی نہ پنجاباں دے سماجی ' پنجاب دے معاشی ' پنجاب تے پنجابیاں دے سیاسی حق دی گل کرے نے۔ نہ پنجاب دی تعلیمی زبان پنجابی کرن دی گل کردے نے۔ نہ پنجاب دی سرکاری زبان پنجابی کرن دی گل کردے نے۔ نہ آپ وی پنجاب دے دفتراں تے پنجاب دی اسمبلی وچ پنجابی زبان وچ گل کردے نے۔

سیاسی ذھن نہ ھون دے کرکے ' سیاسی سوچ نہ ھون دے کرکے ' سیاسی حکمت عملی نہ ھون دے کرکے ' غیر سیاسی ذھن والے پنجابی ' سیاست کرن لئی ' سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرن لئی 'مال خرچ کردے نے یا فے برادری تے علاقے دی بنیاد تے ووٹ لیندے نے تے پنجابی قوم نوں برادریاں تے علاقیاں وچ ونڈدے نے۔

قومپرست پنجابیاں دے مشن نوں جے منزل تائیں پہنچانا اے کہ؛ ھر پنجابی ' پنجابی بولے۔ پنجاب دی تعلیمی زبان پنجابی ھووے۔ پنجاب دی سرکاری زبان پنجابی ھووے۔ پنجاب دے دفتراں تے پنجاب دی اسمبلی وچ پنجابی زبان وچ گل کیتی جاوے۔ ھر پنجابی سیاستدان ' پنجابیاں دے سماجی ' پنجاب دے معاشی ' پنجاب تے پنجابیاں دے سیاسی حق دی گل کرے۔ تے فے جیس طراں پنجابی نے زراعت ' ھنرمندی ' تجارت ' صنعت ' سول بیوروکریسی تے ملٹری بیوروکریسی دے شعبے وچ مھارت حاصل کرکے اپنے آپ نوں مضبوط کیتا اے تے صحافت دے شعبے وچ مھارت حاصل کرکے اپنے آپ نوں مضبوط کر ریا اے۔ اوسے طراں سیاست دے شعبے وچ وی مھارت حاصل کرکے سیاست دے شعبے وچ وی پنجابی نوں مضبوط ھونا پینا اے۔

پنجابیاں نوں اے سمجھنا پینا اے کہ قوم دے سماجی تے انتظامی ' معاشی تے اقتصادی حق حاصل کرن لئی سیاست دا کھیل کھیلنا پینا اے۔ سیاست دا کھیل تن طراں دے بندے کھیل سکدے نے تے باقی تماشبین یا رولا پان والے ھوندے نے۔ سیاست دا کھیل؛ اک تے او کھیل سکدے نے جنہاں نوں سیاسی پروگرام بنانا آندا ھووے۔ دوجے او کھیل سکدے نے جنہاں نوں بنائے گئے سیاسی پروگرام تے عمل کروانا آندا ھووے۔ تیجے او کھیل سکدے نے جنہاں دا عوام نال رابطہ ھووے تے او بنائے گئے کسے سیاسی پروگرام دے اتے عوام نوں کٹھا کر سکن۔

Friday, 23 August 2019

Pakistan Politics and Pakistan Army from 1947-71.


During the period of 1947-71, the Muslim League was initially dominated by the refugees from Muslim minority provinces and later in the era of Pathan General Ayoub Khan Convention Muslim League by a combination of Punjabi Muslims and civil-military bureaucrats. The Bengalis were alienated first because of the National language issue created by the Sindhi Governor-General of Pakistan Muhammad Ali Jinnah and Urdu Speaking Hindustani Prime Minister of Pakistan Liaquat Ali Khan, later because of the constitutional representation issue.

The Bengalis were initially patriotic and only demanded linguistic equality and had even agreed to political parity in 1956. This arrangement was seriously disturbed once Pathan General Ayoub Khan usurped political power in 1958.

Immediately after independence, the founder of the nation, Mr. Jinnah made an attempt to broaden the army’s recruitment base by ordering the raising of the East Bengal Regiment in 1948. This was a purely political decision taken by Mr. Jinnah and implemented by a British C in C. By December 1948 two battalions of this unit composed of Bengali Muslims had been raised. This process was, however, discontinued once Pathan General Ayoub Khan an intellectually naive and tactically timid man became the Pakistan Army’s C in C in 1951.

Pathan General Ayoub Khan was biased against having Bengalis in the army. During his tenure, an unwritten policy of not raising any more Bengali infantry battalions was followed. Pathan General Ayoub Khan also retired the most promising Bengali officer Major General Majeed soon after taking over.

The East Bengal Regiment was limited to two units and the expanded Pakistan Army remained a largely Punjabi dominated army. The irony of the whole affair was the fact that during this entire period all the army chiefs were Non-Punjabi!

In any case, this was the first serious negation of the concept of having a national army. The Army was on the other hand firstly viewed as a Punjabi Army in the East Wing. Secondly and far worse; it was viewed as an organization designed primarily for the defense of the West Wing.

ھنر کا فن اور حکمت کا طریقہء کار الگ الگ ھے۔


تعلیم کے شعبے ھنر بھی ھیں اور حکمت بھی ھیں۔ زراعت ' صنعت ' تجارت ' قانوں ' طب ' انتظامیہ ' حکومت کے معاملات ھنر کے شعبے ھیں۔ جبکہ دین اور سیاست کے معاملات حکمت کے شعبے ھیں۔ اس لیے اقتدار کو حاصل کرنے کا فن اور حکمت حاصل کرنے کا طریقہء کار الگ الگ ھے۔

ضروری نہیں کہ وزیر ' مشیر یا وزیرِ اعظم کے عہدے پر فائز ھوجانے والے سیاستدان بھی ھوں اور سیاست کے شعبے کا علم رکھنے والے سب لوگ وزیر ' مشیر یا وزیرِ اعظم کے عہدے حاصل کرپاتے ھوں۔ وزیر ' مشیر یا وزیرِ اعظم بننا حکمت کا نہیں بلکہ ھنر کا معاملا ھے۔ جبکہ دین اور سیاست کو سمجھنے اور سیکھنے کا تعلق حکمت کے ساتھ ھے۔

دین اور سیاست کو سمجھنے اور سیکھنے کے ساتھ ساتھ ھنر کے شعبے کی تعلیم بھی ھو تو زیادہ بہتر ھوتا ھے۔ لیکن صرف ھنر کے شعبے کی تعلیم کی بنیاد پر دین اور سیاست کو سمجھنے کا دعویٰ کرنا مناسب نہیں ھے۔ صرف ھنر کے شعبے کے ماھر کو دین اور سیاست کو سمجھنے کے لیے دین اور سیاست کو سمجھنا اور سیکھنا ضروری ھے۔

ھنر کے شعبے کے ماھرین اپنے اپنے شعبے میں مھارت کی بنیاد پر اپنے شعبے کو مظبوط کرکے اور ترقی دے کر شعبے سے وابسطہ معاملات میں ملک اور عوام کی خدمت کرکے ملک اور عوام کو اپنے شعبے سے وابسطہ معاملات میں فائدہ پہنچا سکتے ھیں۔

دین کے شعبے کے ماھرین دین کے شعبے میں مھارت کی بنیاد پر دین سے وابسطہ معاملات میں عوام کی راھنمائی کرکے عوام کو دنیاوی معاملات دین کے مطابق انجام دینے کا طریقہء کار بتا کر دنیا کی زندگی گزانے کے ساتھ ساتھ آخرت کی زندگی سنوارنے کا طریقہء کار بتا سکتے ھیں۔

سیاست کے شعبے کے ماھرین سیاست کے شعبے میں مھارت کی بنیاد پر حکمراں بننے کے بعد عوام کے سماجی اور انتظامی معاملات بہتر کرکے عوام کی خوشحالی میں اضافہ جبکہ ملک کو معاشی اور اقتصادی ترقی دے کر ملک کو طاقتور بنا سکتے ھیں۔

پاکستان کے خطے میں 2020 سے لیکر 2030 تک " نیو گریٹ گیم " ھوگا۔

پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کا وزیرِ اعظم اترپردیش کا اردو بولنے والا ھندوستانی مھاجر لیاقت علی خان بنا جبکہ پاکستان کی آرمی کا سربراہ پہلے برطانیہ کا شہری انگریز جنرل سر فرینک مسروی بنا اور بعد میں برطانیہ کا شہری انگریز جنرل سر ڈوگلس ڈیوڈ گریسی بنا۔ اس وقت دنیا امریکن اور روسی کیمپ میں تقسیم تھی۔ پاکستان نے روس کے بجائے واضح طور پر امریکن کیمپ میں شمولیت اختیار کی۔ روس کے بین الاقوامی کھلاڑی کے طور پر زوال کے بعد چین ایک بین الاقوامی کھلاڑی کے طور پر ابھرنا شروع ھوا۔ چین چونکہ پاکستان کا پڑوسی ملک ھے اور چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات چین کے بین الاقوامی کھلاڑی کے طور پر ابھرنے سے پہلے سے ھیں۔ اس لیے اب تک پاکستان امریکن کیمپ میں بھی ھے اور چین کے ساتھ بھی پاکستان کے قریبی تعلقات رھے ھیں۔

ساؤتھ چائنا سی کا علاقہ امریکہ اور چین کے درمیان ٹکراؤ بلکہ جاپان ' تائیوان ' کوریا ' فلپائن کی وجہ سے تیسری جنگِ عظیم کا باعث بن سکتا ھے۔ ساؤتھ چائنا سی میں امریکہ اور چین کے درمیان ٹکراؤ کی صورت میں چین کو آئل کی سپلائی میں مشکل ھوگی بلکہ عرب ممالک سے چین تک تیل کی رسائی کے درمیان امریکی بحری بیڑے حائل ھوںگے۔ ساؤتھ چائنا سی میں امریکہ اور چین کے درمیان ٹکراؤ کی صورت میں چین کو آئل کی سپلائی گوادر سے کاشغر تک کے راستے سے بحال رہ سکتی ھے۔ سی پیک کے منصوبے کی وجہ سے گوادر سے کاشغر تک چین آئل لے جانے کی کوشش کرے گا۔ گوادر سے کاشغر تک امریکہ آئل نہ جانے دینے کی کوشش کرے گا۔ یہ کھیل 2020 سے 2030 تک عروج پر رھے گا۔ اس کھیل کو " نیو گریٹ گیم " کہا جاتا ھے۔

پاکستان کے خطے میں 2020 سے لیکر 2030 تک " نیو گریٹ گیم " ھوگا۔ اب تک " نیو گریٹ گیم " کے عالمی کھلاڑی امریکہ اور چین ھیں لیکن روس بھی اس کھیل کا عالمی کھلاڑی بن کر سامنے آئے گا۔ جبکہ سوائے اسرائیل اور بھارت کے اس کھیل کے اھم علاقائی کھلاڑی افغانستان ' ایران ' ترکی ' سعودی عرب ' متحدہ عرب امارات مسلمان ھیں۔ اس لیے " نیو گریٹ گیم " کا علاقائی کھیل مسلمان کا نہیں بلکہ قوموں کا ھوگا۔ پنجابی قوم اس کھیل میں سب سے اھم کھلاڑی کے طور پر ابھرے گی۔ بھارت کا افغانستان کے ساتھ گٹھ جوڑ ھے۔ بھارت اور افغانستان کی طرف سے افغان یا پٹھان یا پختون کی سرپرستی کی جارھی ھے۔ بھارت کی طرف سے ھندوستانی مھاجر اور بلوچ کو بھی آشیرباد ھے۔ افغان یا پٹھان یا پختون قوم کے ساتھ پنجابی قوم کا بڑا مقابلہ ھوگا۔ جبکہ ھندوستانی مھاجر اور بلوچ کے ساتھ پنجابی قوم کی شدید محاذ آرائی ھوگی۔

پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھے۔ جبکہ پاکستان کی 40٪ آبادی سماٹ ' ھندکو ' براھوئی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجراور دیگر پر مشتمل ھے۔ پاکستان کے پنجابی کی طرف سے خالصتان اور کشمیر کی مدد کی جائے گی۔ خالصتان اور کشمیر آزاد ملک بن جائیں گے۔ خالصتان اور کشمیر بھی کراچی پورٹ استعمال کریں گے۔ پاکستان ' خالصتان اور کشمیر مل کر "گریٹر پنجاب" کی کنفیڈریشن بنائیں گے۔ "گریٹر پنجاب" کا "کیپیٹل" کراچی ھوگا۔ کراچی کی 2030 میں سب سے بڑی آبادی پنجابی ھوگی۔ پنجابیوں کا ثقافتی مرکز لاھور ھوگا اور سیاسی مرکز کراچی ھوگا۔ 2020 سے لیکر 2030 تک کھیلے جانے والے " نیو گریٹ گیم " میں سماٹ ' براھوئی ' ھندکو کے پنجابی قوم کا اتحادی ھونے کی وجہ سے سندھ میں سماٹ ' بلوچستان میں براھوئی ' خیبرپختونخوا میں ھندکو کو سیاسی ' سماجی ' معاشی بالادستی حاصل ھوجائے گی۔ پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر کی سیاسی ' سماجی ' معاشی بالادستی ختم ھوجائے گی۔

پنجابی جاٹ کو پٹھانوں اور ھندوستانیوں سے نپٹنے کا تجربہ ھے۔

پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھونے کی وجہ سے پاکستان ایک پنجابی اسٹیٹ ھے۔ جبکہ پاکستان کی 40٪ آبادی سماٹ ' ھندکو ' براھوئی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجراور دیگر پر مشتمل ھے۔

پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کی فوج کے سربراہ پٹھان بنتے رھے اور پٹھانوں کے بعد ھندوستانی مھاجر بنتے رھے۔ مشرقی پاکستان کے 1971 میں بنگلہ دیش بننے کے بعد پاکستانی فوج کا پہلا پنجابی سربراہ جنرل ٹکا خان 1972 میں بنا جو کہ راجپوت پنجابی تھا اور دوسرا پنجابی سربراہ جنرل ضیاء الحق 1975 میں بنا جو کہ ارائیں پنجابی تھا۔

پنجابی کے پاکستان کی آبادی کا 60٪ ھونے کے باوجود 1947 میں پاکستان بنانے کے لیے پنجاب کو تقسیم کرنے کی وجہ سے 20 لاکھ پنجابیوں کے مارے جانے اور 2 کروڑ پنجابیوں کے بے گھر ھوجانے کی وجہ سے پنجابی تین دھائیوں تک تو خود کو پھر سے اپنے آپ کو آباد کرکے خود کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں لگے رھے جبکہ اس کے بعد چار دھائیوں تک خود کو سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی بحران سے نکالنے میں لگے رھے۔

پنجابیوں کے خود کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے خود کو سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی بحران سے نکال کر پنجاب اور پنجابی قوم کی تباھی و بربادی کا مداوا کرنے میں لگے رھنے کی وجہ سے پاکستان کی سیاست ' صحافت ' حکومت پر ھندوستانی مھاجروں اور پٹھانوں کا تسلط رھا جبکہ پاکستان کی فوج کی منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی پر بھی پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کا غلبہ رھا۔

پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی پالیسی کی وجہ سے پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کی پاکستان کی سیاست ' صحافت ' حکومت پربالادستی قائم رھی۔ جنوبی پنجاب اور دیہی سندھ میں عربی نزاد اور بلوچ جاگیرداروں جبکہ بلوچستان میں بلوچوں کا تسلط قائم ھوتا رھا لیکن پاکستان کی سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی ' بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' کوھستانی ' گجراتی ' راجستھانی قومیں سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی بحران میں مبتلا ھوتی رھیں۔

اس وقت پاکستان کی فوج کا پنجابی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پنجابی جاٹ ھے۔ گجرانوالہ کے پنجابی جاٹ مھاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد پہلی بار گجرانوالہ کا پنجابی جاٹ فوج کا سپہ سالار ھے۔ پنجابی جاٹ مھاراجہ رنجیت سنگھ نے نہ صرف پنجاب پر سے افغانی پٹھانوں کا قبضہ ختم کروایا تھا بلکہ انگریزوں کی آشیرباد کے باوجود اترپردیش کے ھندوستانیوں کو پنجاب پر قابض نہ ھونے دیا تھا۔ پنجابی جاٹ کو افغانی پٹھانوں کو انکی اوقات میں رکھنے کا تجربہ بھی ھے اور اترپردیش کے ھندوستانیوں کو پنجاب پر قابض ھونے سے روک کر رکھنے کا بھی تجربہ ھے۔

غزوہ ھند کو مذھب کی بنیاد پر نہیں بلکہ قوم کی بنیاد پر لڑا جائے گا۔


غزوہ ھند یا جنگِ ھند ایک اسلامی اصطلاح ھے جس کا ذکر کچھ احادیث میں کیا گیا ھے۔ خاص طور پر بھارت میں فیصلہ کن اور آخری جنگ کی پیش گوئی کی گئی ھے اور اس کے نتیجے میں مسلمان جنگجوؤں نے پورے برصغیر کو فتح کرلینا ھے۔ برصغیر پاک و ھند میں مسلم عسکریت پسند گروھوں کی طرف سے اپنی سرگرمیوں کا جواز پیش کرنے کے لیے غزوہ ھند کی اصطلاح کو استعمال کرنے پر میڈیا میں یہ اصطلاح حال ھی میں تنقید کا نشانہ بن گئی ھے۔

غزوہ ھند کی اصطلاح کی غلط تشریح کی جا رھی ھے کہ؛ غزوہ ھند مسلم عسکریت پسند گروھوں کے ذریعہ مذھب کی بنیاد پر لڑی جائے گی۔ حقیقت میں غزوہ ھند مذھب کی بنیاد پر نہیں لڑی جائے گی بلکہ قوم کی بنیاد پر لڑی جائے گی۔ پنجابی قوم غزوہ ھند لڑے گی۔ پنجابی قوم مسلمان پنجابی ' ھندو پنجابی ' سکھ پنجابی ' عیسائی پنجابی پر مشتمل ھے۔ پنجابی قوم کا مذھبی تناسب 56٪ مسلم پنجابی ' 26٪ ھندو پنجابی ' 14٪ سکھ پنجابی ' 4٪ عیسائی پنجابی ھے۔

پنجابی قوم دنیا کی نوویں بڑی قوم ھے۔ جنوبی ایشیاء کی تیسری سب سے بڑی قوم ھے۔ مسلمان پنجابی پاکستان کی سب سے بڑی آبادی اور امتِ مسلمہ کی تیسری سب سے بڑی لسانی آبادی ھے۔ امتِ مسلمہ کی سب سے بڑی 10 لسانی آبادیاں ھیں؛ 01. عربی 02. بنگالی 03. پنجابی 04. جاوانی 05. ترکی 06. فارسی 07. پشتو 08. اردو 09. سندانی 10. ازبک۔ غزوہ ھند کو ابتدا میں کشمیریوں پر بھارت کی حکومت کے ظلم و ستم کی وجہ سے مسلمان پنجابیوں کی طرف سے شروع کیا جائے گا اور آخری مرحلے پر پوری پنجابی قوم یوپی ' سی پی کے ھندی بولنے والے ھندوستانیوں کے ساتھ بھارت میں جنگ لڑے گی۔

بھارت کا علاقہ ھندی ' تیلگو ' تامل ' مراٹھی ' گجراتی ' راجستھانی ' ملایالم ' کنڑا ' اڑیہ ' بھوجپوری ' آسامی ' ھندو بنگالی ' ھندو پنجابی ' سکھ پنجابی کا علاقہ ھے۔ بھارت کی سب سے بڑی قوم یوپی ' سی پی کے ھندی بولنے والے ھندوستانی ھیں۔ ھندی بولنے والے ھندوستانیوں نے بھارت کی تیلگو ' تامل ' مراٹھی ' گجراتی ' راجستھانی ' ملایالم ' کنڑا ' اڑیہ ' بھوجپوری ' آسامی قوموں اور ھندو بنگالی ' ھندو پنجابی ' سکھ پنجابی پر اپنا سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی تسلط قائم کیا ھوا ھے۔

ھندو پنجابی اور سکھ پنجابی کی طرف سے یوپی ' سی پی کے ھندی بولنے والے ھندوستانیوں کے سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی تسلط کو قبول نہیں کیا جا رھا۔ اس لیے ھندو پنجابی اور سکھ پنجابی کی طرف سے ھندی بولنے والے ھندوستانیوں کے سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی تسلط سے نجات کی تحریک چل رھی ھے۔ 

بھارت کی تیلگو ' تامل ' مراٹھی ' گجراتی ' راجستھانی ' ملایالم ' کنڑا ' اڑیہ ' بھوجپوری ' آسامی قومیں اور ھندو بنگالی بھی یوپی ' سی پی کے ھندی بولنے والے ھندوستانیوں کے سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی تسلط سے نجات کے خواھشمند ھیں لیکن ھندی بولنے والے ھندوستانیوں کے سامنے بے بس ھیں۔ لیکن پنجابی قوم کا حصہ ھونے کی وجہ سے ھندو پنجابی اور سکھ پنجابی کو مسلمان پنجابیوں کی طرف سے مکمل حمایت حاصل ھے۔ 

کشمیریوں پر بھارت کی حکومت کے ظلم و ستم جبکہ ھندو پنجابی اور سکھ پنجابی کو یوپی ' سی پی کے ھندی بولنے والے ھندوستانیوں کے سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی تسلط سے نجات دلوانے کے لیے مسلمان پنجابیوں کی طرف سے ھندی بولنے والے ھندوستانیوں کے ساتھ جنگ ھوگی اور اس جنگ کو غزوہ ھند کہا جائے گا۔ بنگالی ' جاوانی ' ترکی ' فارسی '  سندانی ' ازبک مسلمان غزوہ ھند میں مسلمان پنجابیوں کی مدد کریں گے۔

جنگ کبھی بھی مذھب کی بنیاد پر نہیں بلکہ قوم کے سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی مفاد کی بنیاد پر لڑی جاتی ھے۔ غزوہ ھند کو مذھبی رنگ سے پیش کرنے کی سازش بھارت کے ھندی بولنے والے ھندوستانی ھندو پنڈت اور پاکستان کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان مُلا پیش کرتے رھے ھیں۔ 

غزوہ ھند کو مذھبی رنگ سے پیش کرنے کی سازش کرکے یوپی ' سی پی کے ھندی بولنے والے ھندوستانیوں نے بھارت کی غیر مسلم تیلگو ' تامل ' مراٹھی ' گجراتی ' راجستھانی ' ملایالم ' کنڑا ' اڑیہ ' بھوجپوری ' آسامی قوموں کو بیواقوف بنایا ھوا ھے اور بھارت میں اپنی سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی بالادستی قائم کی ھوئی ھے۔ 

غزوہ ھند کو مذھبی رنگ سے پیش کرنے کی سازش کرکے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے پاکستان کی مسلمان پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی ' بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' کوھستانی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ قوموں کو بیواقوف بنایا ھوا ھے اور پاکستان میں اپنی سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی بالادستی قائم کی ھوئی ھے۔

غزوہ ھند چونکہ پنجابی قوم اور ھندی قوم کے درمیان ھوگی۔ اس لیے غزوہ ھند کو مذھب کی بنیاد پر نہیں بلکہ قوم کی بنیاد پر لڑا جائے گا۔ ھندی قوم میں یوپی ' سی پی کے ھندو کے علاوہ مسلمان بھی شامل ھیں۔ پنجابی قوم میں پنجاب کے مسلمان پنجابی کے علاوہ ھندو پنجابی ' سکھ پنجابی ' عیسائی پنجابی بھی شامل ھیں۔ 

غزوہ ھند میں پاکستان کی سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی ' بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' کوھستانی ' گجراتی ' راجستھانی قومیں پنجابی قوم کا ساتھ دیں گی۔ جبکہ غزوہ ھند سے قبل سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی معاملات  میں اختلاف کی وجہ سے مسلمان پنجابیوں کی یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمانوں اور پٹھان مسلمانوں کے ساتھ شدید نوعیت کی محاذ آرائی ھوگی۔

غزوہ ھند میں بھارت کی تیلگو ' تامل ' مراٹھی ' گجراتی ' راجستھانی ' ملایالم ' کنڑا ' اڑیہ ' بھوجپوری ' آسامی قومیں اور ھندو بنگالی پنجابی قوم کا ساتھ دیں گے۔ جبکہ غزوہ ھند سے قبل مسمان پنجابی ' ھندو پنجابی ' سکھ پنجابی ' عیسائی پنجابی کی زمین کشمیر میں بھارت کی حکومت کے ظلم و ستم کی وجہ سے ھندو پنجابی اور سکھ پنجابی کی ھندی قوم کے ساتھ شدید نوعیت کی محاذ آرائی ھوگی۔ 

غزوہ ھند کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر آزاد ھوگا اور بھارت کے ھندو پنجابی اور سکھ پنجابی کے علاوہ تیلگو ' تامل ' مراٹھی ' گجراتی ' راجستھانی ' ملایالم ' کنڑا ' اڑیہ ' بھوجپوری ' آسامی قومیں بھی آزادی حاصل کرکے یوپی ' سی پی کے ھندی بولنے والے ھندوستانیوں کے سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی تسلط سے نجات حاصل کریں گی۔

Thursday, 22 August 2019

سندھ میں پنجابی کی حالت دوسرے درجے کے شہری کی ھے۔

سندھ میں سندھ کی مجموعی آبادی کے مطابق تو سندھی پہلے ' مہاجر دوسرے ' پنجابی تیسرے اور پٹھان چوتھے نمبر پر ھیں۔ لیکن کراچی میں مہاجر پہلے ' پنجابی دوسرے ' پٹھان تیسرے اور سندھی چوتھے نمبر پر ھیں۔ جبکہ اندرون سندھ ' سندھی پہلے ' پنجابی دوسرے ' مہاجر تیسرے اور پٹھان چوتھے نمبر پر ھیں۔ سندھ میں رھنے والے پنجابیوں کے سندھیوں کے ساتھ تعلقات پاکستان کے بننے سے پہلے تو بہت اچھے تھے لیکن پاکستان کے بننے کے بعد بھی 1960 کی دھائی تک بہت اچھے ھی رھے۔ دیہی سندھ کی ترقی اور خوشحالی کے لیے عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھ کے قبضہ گیروں کے مقابلے میں دیہی سندھ کے پنجابی آبادگاروں نے زراعت کی ترقی میں میں زیادہ بہتر اور بنیادی کردار ادا کیا۔ دیہی سندھ میں ھنرمندی کے شعبوں میں بھی اپنی خدمات پیش کیں۔ دیہی سندھ میں کاروباری شعبے کو مظبوط کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔

دیہی سندھ کے پنجابیوں نے سندھی زبان میں تعلیم حاصل کر کے سندھی زبان کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ سندھی ثقافت کو اپنایا اور سندھی رسم و رواج کو اختیار کرنا بھی شروع کر دیا۔ لیکن 1901 کی دھائی میں نارہ کینال اور 1930 کی دھائی میں سکھر بیئراج کی زمینیں آباد کرنے کے لیے جانے والے پنجابیوں کی اکثریت کو 1972 میں سندھ کے عربی نزاد قبضہ گیر جی - سید کی بنائی گئی تنظیم "جیئے سندھ" کی "سندھو دیش" تحریک کی دھشتگردانہ کاروائیوں کی وجہ سے 1970 کی دھائی میں اپنی آباد کی ھوئی زمینیں اور کاروبار چھوڑ کر دیہی سندھ سے نکلنا پڑا۔

1970 کی دھائی میں اور 1980 کی دھائی میں دیہی سندھ کے تعلیمی اداروں میں سندھ کے پنجابیوں کو غنڈہ گردی ' تشدد اور قتل و غارتگری کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے سے روکا جاتا رھا۔ جسکے بعد سے پنجابی نے دیہی سندھ میں اپنے ٹائم ' ٹیلنٹ اور وسائل کی انویسٹمنٹ کے لیے نہ صرف جانا بند کر دیا بلکہ جو پنجابی آبادگار دیہی سندھ سے نکل سکتا تھا ' اسنے دیہی سندھ سے نکلنا شروع کر دیا۔ اس وقت دیہی سندھ میں وہ پنجابی بچا ھے جو نہ تو معاشی طور پر مظبوط ھے ' نہ سیاسی طور پر مظبوط ھے ' نہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ھے اور نہ جدید ھنرمندی کی مھارت رکھتا ھے۔

پاکستان میں پنجابیوں کی آبادی 60٪ ھونے کے باوجود پنجاب نے پی پی پی کی خود قیادت کرنے کے بجائے پی پی پی کی سندھی قیادت کو بار بار پاکستان پر حکومت کروائی بلکہ پی پی کی تو بنیاد بھی پنجاب ھی میں رکھی گئی تھی۔ لیکن پی پی پی کی سندھی قیادت کا کردار پنجاب اور پنجابیوں کے ساتھ کیسا رھا اور اب بھی کیسا ھے؟ بھٹو کے دور میں جو پنجابی سندھ سے اپنی آباد کی ھوئی زمیںیں چھوڑ کر پنجاب آگئے۔ وہ اس وقت پنجاب کے کونے کونے میں موجود ھیں اور پنجاب والوں کو آج تک یاد دلاتے ھیں کہ انکے بنائے ھوئے لیڈر کی وجہ سے انکو اپنے گھربار چھوڑ کر دربدر ھونا پڑا۔

سندھ میں جو پنجابی اس وقت بھی موجود ھیں انکے آباوّ اجداد نے کسی زمانے میں سندھ جانے کی غلطی کرلی تھی۔ وہ پیدا تو سندھ میں ھی ھوئے ھیں اور سندھی زبان نہ صرف بولتے ھیں بلکہ پڑھ بھی سکتے ھیں اور تہذیب و ثقافت بھی سندھ کی اختیار کرچکے ھیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ سندھ میں دوسرے درجے کے شہری ھیں۔ سندہ میں رھنے والے پنجابیوں کو نہ تو سماجی سرگرمیوں کی اجازت ھے۔ نہ انکی سیاسی نمائندگی کی ضرورت کو محسوس کرتے ھوئے سندھ کے بلوچوں اور سیدوں کی بالادستی والی اور سندھ کی حکمراں سیاسی جماعت پی پی پی میں انکو صوبائی اور ضلعی سطح کے پارٹی عھدے دیے جاتے ھیں۔ نہ سندھ کی صوبائی نوکریوں میں حصہ دیا جاتا ھے۔ نہ سندھ کابینہ میں نمائدگی دی جاتی ھے۔ اس لیے سندھ میں پنجابیوں کے سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی مسائل کی نمائدگی کیسے ھوتی ھے؟

ایک طرف تو سندھ میں رھنے والے سید اور بلوچ خود کو سندھی قرار دیتے ھیں تو دوسری طرف سندھ میں 1901 اور 1932 سے آباد پنجابی کو سندھی تسلیم کرکے سماجی ' سیاسی ' معاشی اور انتظامی معاملات میں برابری کا حق دینے کی مخالفت کرتے ھیں۔ حالانکہ سندھ میں رھنے والے پنجابی اپنے نام کے ساتھ پنجابی کا لفظ تک نہیں لگاتے جبکہ بلوچ اور سید اپنے نام کے ساتھ لفظ بلوچ اور سید ضرور لکھتے ھیں۔ لیکن پھر بھی پنجابی کو تو نہ سندھی تسلیم کیا جاتا ھے اور نہ برابری کے حقوق دیے جاتے ھیں۔ جبکہ بلوچ اور سید کو سندھی تسلیم ھی نہیں کیا جاتا بلکہ دیہی سندھ ان کے کنٹرول میں ھے اور سماٹ سندھی کو بھی انکے ساتھ آنکھیں ملا کر بات کرنے کی ھمت نہیں ھے۔

1970 میں جی ایم سید کی موقع پرست سیاست کی وجہ سے موجودہ وقت میں سماٹ سندھی دیہی سندھ میں سید اور بلوچ جاگیرداروں کے غلام ھیں۔ سندھ کے شہری علاقوں پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا کنٹرول ھے۔ جبکہ پنجاب سے پنجابیوں کو دیہی سندھ میں جاکر زراعت ' صنعت ' تجارت کے کاروبار کے فروغ ' صحت اور تعلیم کے شعبوں کی ترقی میں اپنے اقتصادی وسائل اور دانشورانہ مہارت کی سرمایہ کاری کرنے کی کوئی دلچسپی نہیں ھے۔ جب معاشی طور پر مظبوط ' سیاسی طور پر مظبوط ' اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جدید ھنرمندی کی مھارت والا پنجابی دیہی سندھ میں اپنے ٹائم ' ٹیلنٹ اور وسائل کی انویسٹمنٹ کرنے کے لیے تیار ھی نہیں اور نہ 1970 کی دھائی میں اور 1980 کی دھائی میں دیہی سندھ کے پنجابیوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کو بھولنے پر تیار ھے تو پھر سندھیوں اور پنجابیوں کے درمیان سماجی ' کاروباری اور سیاسی تعلقات کیسے بہتر ھوسکتے ھیں؟

سندھیوں کے پنجاب کے عوام کے ساتھ رابطے اور واسطے کے ختم ھونے اور پنجاب کے سندھیوں کے ساتھ لاتعلقی کے باعث اب مستقبل میں سندھیوں کو پاکستان کی مرکزی حکومت ' پاکستان کی بیوروکریسی ' اسٹیبلشمنٹ ' صنعت ' تجارت ' سیاست ' صحافت اور ھنرمندی کے شعبوں میں وہ عزت ' اھمیت اور سہولت نہیں ملا کرنی جو ماضی میں ملتی رھی۔ سندھ کے سماٹ سندھیوں ' بلوچ نزاد اور عربی نزاد سندھیوں کا پنجاب اور پنجابی قوم کے ساتھ تعلقات کا انحصار اب سندھ میں رھنے والے پنجابیوں کے ساتھ تعلقات پر منحصر ھے۔ پنجاب اور پنجابی قوم اب سندھ کے پنجابی کے ساتھ ھونے والے ظلم و زیادتی اور سماجی ' سیاسی ' معاشی ' انتظامی استحصال کو ھر گز برداشت نہیں کرے گی۔