Friday 16 August 2019

کراچی "گریٹر پنجاب" کا "کیپیٹل" اور "منی پاکستان" بنے گا۔

کراچی اقتصادی اور مالی سرگرمیوں کا مرکز ھے اور پاکستان کی معیشت میں 60 فی صد کا حصہ دار ھے۔ یہاں مرکزی اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) ' اسٹاک ایکسچینج ' قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے ھیڈ آفس موجود ھیں۔ اس کے علاوہ بینک ' مالیاتی ادارے اور جائیداد کی خرید و فروخت کی کمپنیوں کا جال بھی پھیلا ھوا ھے۔ مزید براں بڑے نشریاتی اداروں کے ھیڈ کوارٹر بھی کراچی میں ھیں۔ وفاقی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی قومی GDP کا 15 فی صد حصہ مہیا کرتا ھے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 42 فی صد اور وفاقی حکومت کا کل 25 فی صد محصول ادا کرتا ھے۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے صنعتی زون بھی ھیں جن میں سندھ انڈسٹریل اینڈ ٹریڈنگ اسٹیٹ (SITE) قابلِ ذکر ھے۔ صنعتی زون کی مصنوعات میں ٹیکسٹائل ' کیمیکل ' اسٹیل اور مشینری سے لے کر بے شمار دوسری پیدوار شامل ھے۔ یہ پیشین گوئی بھی کی گئی ھے کہ؛ 2030 میں کراچی ملک کا مزید بڑا صنعتی اور کمرشل سینٹر بن جائے گا۔

کراچی کی صورتحال یہ ھے کہ؛ پاکستان کی 2017 کی آدم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 14،910،352 ھے۔ اردو بولنے والے 5،278،245 ھیں۔ پشتو بولنے والے 2،296،194 ھیں۔ پنجابی بولنے والے 2،236،563 ھیں۔ سندھی بولنے والے 1،491،044 ھیں۔ بلوچی بولنے والے 760،428 ھیں۔ سرائیکی بولنے والے 536،773 ھیں۔ ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی سمیت دیگر زبانیں بولنے والے 2،311،105 ھیں۔ چونکہ پنجابی زبان کا ھندکو لہجہ بولنے والے بھی پنجابی ھیں۔ کشمیری بھی پنجابی زبان کا لہجہ پہاڑی بولتے ھیں۔ پنجابی زبان کا لہجہ ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی کو سرائیکی قرار دیکر الگ شمار کیا گیا ھے۔ پنجابی ' ھندکو ' کشمیری ' سرائیکی دراصل پنجابی ھی ھیں۔ اس لیے درحقیقت پاکستان کی 2017 کی آدم شماری کے مطابق کراچی میں پنجابی کی آبادی 50 لاکھ ھے۔ لیکن ان پنجابیوں کو بھی اگر شمار کرلیا جائے جنہوں نے پاکستان کی 2017 کی آدم شماری میں اپنا شمار کراچی کے بجائے اپنے آبائی علاقوں میں کروایا ھے لیکن وہ کراچی میں رھائش پذیر ھیں تو کراچی میں پنجابیوں کی موجودگی 50 لاکھ سے بھی زیادہ ھے۔

کراچی میں پنجابی معاشی طور مستحکم ھیں۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ریکارڈ کے مطابق کراچی اسٹاک ایکسچینج میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پنجابی کی ھے۔ جسکی وجہ سے کراچی کی معیشت مظبوط ھے۔ کراچی کی صنعت ' تجارت ' ٹرانسپورٹ اور ھنرمندی کے شعبوں میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پنجابی کی ھے۔ جسکی وجہ سے کراچی کی معیشت چلتی ھے۔ اس سے نہ صرف کراچی کے سیاست ' صحافت ' سرکاری اور پرائیویٹ نوکریاں کرنے والے ھندوستانی مھاجر کو رزگار ملتا ھے۔ بلکہ دیہی سندھ سے جانے والے سندھی کو بلوچستان سے جانے والے بلوچ کو اور خیبر پختونخوا سے جانے والے پٹھان کو بھی روزگار ملتا ھے۔ پاک فوج کی ایک کور ' پاک بحریہ کے اھم اڈوں ' پاک فضائیہ کے اھم اڈوں ' وفاقی اداروں کے دفاتر اور پرائیویٹ کمپنیوں کے ھیڈ آفسوں میں پنجابیوں کی اکثریت کی وجہ سے کراچی میں پنجابی کی انتظامی اھمیت بھی ھے۔ سیاسی اھمیت بھی ھے۔ سماجی اھمیت بھی ھے۔ کراچی کے بہترین رھائشی علاقوں کلفٹن ' ڈیفینس اور کینٹ کے علاقوں میں رھنے والوں کی اکثریت پنجابیوں کی ھے۔ جبکہ سندھی اور بلوچ زیادہ تر کراچی کے گاؤں ' گوٹھوں پر مشتمل دیہی علاقوں میں رھتے ھیں۔ پٹھان زیادہ تر کراچی کی کچی آبادیوں کے کچے پکے اور ناجائز تعمیر کردہ مکانوں میں رھتے ھیں۔ ھندوستانی مھاجر زیادہ تر ضلع وسطی اور ضلع کورنگی کی گنجان آبادیوں کے چھوٹے چھوٹے مکانوں میں رھتے ھیں۔

2020 سے لیکر 2030 تک پاکستان ' افغانستان ' بھارت کے خطے میں قوموں کی بقا اور بالادستی کا کھیل ھوگا۔ سوائے بھارت کے ' اس کھیل کے کھلاڑی مسلمان ھیں۔ اس لیے کھیل مسلمان کا نہیں بلکہ قوموں کا ھوگا۔ اس کھیل کے بین الاقوامی کھلاڑی امریکہ اور چین ھیں۔ پنجابی قوم اس کھیل میں سب سے اھم کھلاڑی کے طور پر ابھرے گی۔ بھارت کی طرف سے افغان یا پٹھان یا پختون کی سرپرستی کی جارھی ھے۔ بھارت کی طرف سے ھندوستانی مھاجر اور بلوچ کو بھی آشیرباد رھی ھے۔ افغان یا پٹھان یا پختون قوم کے ساتھ پنجابی قوم کا بڑا مقابلہ ھوگا۔ پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھے۔ جبکہ پاکستان کی 40٪ آبادی سماٹ ' ھندکو ' براھوئی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' راجستھانی ' گجراتی ' پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر اور دیگر پر مشتمل ھے۔ پاکستان کے پنجابی کی طرف سے خالصتان اور کشمیر کی مدد کی جائے گی۔ خالصتان اور کشمیر آزاد ملک بن جائیں گے۔ خالصتان اور کشمیر بھی کراچی پورٹ استعمال کریں گے۔ پاکستان ' خالصتان اور کشمیر مل کر "گریٹر پنجاب" کی کنفیڈریشن بنائیں گے۔ "گریٹر پنجاب" کا "کیپیٹل" کراچی ھوگا۔ کراچی کی 2030 میں سب سے بڑی آبادی پنجابی ھوگی۔ پنجابیوں کا ثقافتی مرکز لاھور ھوگا اور سیاسی مرکز کراچی ھوگا۔ 

2020 سے لیکر 2030 تک کھیلے جانے والے کھیل میں سماٹ ' براھوئی ' ھندکو کے پنجابی قوم کا اتحادی ھونے کی وجہ سے سندھ میں سماٹ ' بلوچستان میں براھوئی ' خیبرپختونخوا میں ھندکو کو سیاسی ' سماجی ' معاشی بالادستی حاصل ھوجائے گی۔ پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر کی سیاسی ' سماجی ' معاشی بالادستی ختم ھوجائے گی۔ کراچی کو صوبہ بنا دیا جائے گا۔ کراچی کے صوبہ بننے کے بعد دیہی سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیروں اور مشیروں کے علاوہ سندھ کی صوبائی حکومت کے افسروں اور ملازموں کو بھی کراچی صوبہ چھوڑ کر اپنے صوبہ سندھ میں جانا پڑے گا۔ سندھیوں کا کراچی پر قبضہ ختم ھونے کے بعد کراچی صوبہ میں وزیر اور مشیر ھی نہیں بلکہ سرکاری افسر اور ملازم بھی پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' راجستھانی ' گجراتی نظر آئیں گے جو کراچی صوبہ کو پاکستان کا سب سے زیادہ ترقی والا صوبہ بنادیں گے۔ کراچی منی پاکستان بنے گا۔ کراچی پھر سے روشنیوں کا شھر بنے گا۔ کراچی پھر سے پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' راجستھانی ' گجراتی کے آپس میں پیار و محبت والا شھر بنے گا۔ کراچی کا وزیرِ اعلیٰ کراچی کا پنجابی ھوگا۔ کراچی کا گورنر کراچی کا سماٹ ھوگا۔ کراچی کا میئر کراچی کا گجراتی ھوگا۔ جبکہ کراچی کا ڈپٹی میئر کراچی کے ھندکو ' براھوئی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' راجستھانی میں سے کسی کو بنایا جائے گا۔

No comments:

Post a Comment