Friday 1 June 2018

پاکستان کی قومی سیاست میں قومی سطح پر "جوڑ توڑ" کا احوال

ایک ھفتہ قبل ابوظبی کے شیخ خلیفہ بن زاید آل نہیان نے آصف زرداری کی ملاقات پاکستان کی اسٹیبلشنٹ کی نمبر ون شخصیت سے کروائی۔ ملاقات کے بعد آصف زرداری کے "پاکستان کی اسٹیبلشنٹ کا آنکھوں کا تارا" بننے کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ اس لیے نواز شریف کے ساتھ جنت میں بھی نہ جانے کا اعلان کرنے والے آصف زرداری کو اس دنیا میں ھی نواز شریف کے چرنوں میں پھر سے بیٹھنا پڑگیا۔

گذشتہ ایک دھائی سے پاکستان کی قومی سیاست پرویز مشرف ' آصف زرداری ' عمران خان اور نواز شریف کے گرد گھوم رھی تھی۔ پرویز مشرف کی سیاست چونکہ عوام کی حمایت کے بجائے فوج میں اثر و رسوخ کی وجہ سے تھی۔ پرویز مشرف کو فوج سے ریٹارڈ ھوئے عرصہ ھوچکا ھے۔ اس لیے پرویز مشرف کا اب فوج میں اتنا اثر و رسوخ بھی نہیں رھا جس قدر 2013 کے انتخاب میں تھا جبکہ عوام میں پرویز مشرف کی حمایت نہ ھونے کے برابر ھے۔ اس لیے پرویز مشرف اب پاکستان کی قومی تو کیا صوبائی سیاست کے قابل بھی نہیں رھا۔

آصف زرداری کی پارٹی پی پی پی کی 2008 سے 2013 تک پاکستان پر حکومت رھی۔ آصف زرداری خود پاکستان کا صدر رھا۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی پی پی پی کی حکومت رھی۔ اس لیے 2013 کے الیکشن کے وقت عوام میں امید پائی جاتی تھی کہ شاید پی پی پی پھر سے اکثریت حاصل کرکے پاکستان کی وفاقی حکومت بنالے۔ لیکن پنجاب کی 148 میں سے صرف 2 قومی اسمبلی کی نشستیں ملنے کی وجہ سے پی پی پی پاکستان کی وفاقی حکومت بنانے کے قابل تو نہ رھی لیکن پنجاب کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان سے بھی پی پی پی کا صفایہ ھوگیا اور پی پی پی صرف سندھ کی صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ھوسکی۔

2018 کے الیکشن میں چونکہ عوام کو یقین ھے کہ پی پی پی کا سندھ اور وہ بھی دیہی سندھ سے باھر وجود ختم ھوچکا ھے۔ اس لیے پنجاب ' خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں پی پی پی عوام کی حمایت سے محروم ھے۔ جبکہ سندھ کے شھری علاقوں پر پی پی پی کا نہ کبھی اثر رھا اور نہ رسوخ رھا۔ اس لیے "پاکستان کی اسٹیبلشنٹ کا آنکھوں کا تارا" ا بننے کے ارمانوں پر اوس پڑنے کے بعد اب آصف زرداری کے لیے "ڈوبتے کو تنکے کا سہارا" کی مانند واحد سہارا نواز شریف کی آشیرباد بچا ھے۔ نواز شریف کی آشیرباد حاصل ھونے کی صورت میں آصف زرداری سندھ کی صوبائی سیاست کر پائے گا ورنہ سندھ کی صوبائی سیاست بھی آصف زرداری سے نہیں ھوپانی۔ لہٰذا آصف زرداری اب پاکستان کی قومی سیاست کے قابل نہیں رھا۔

عمران خان کو "پاکستان کی اسٹیبلشنٹ کا لاڈلہ" ھونے کا اعزاز حاصل رھا ھے۔ یہ اعزار حقیقی تھا؟ عارضی تھا؟ مصلحتا" تھا؟ یا خود ساختہ تھا؟ یہ غور طلب امر ھے۔ لیکن تحریک انصاف کی حرکتوں سے ظاھر ھوتا ھے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سہولتیں فراھم ھونے کے باوجود بھی عمران خان کو الیکشن میں کامیابی حاصل ھوتی نظر نہیں آرھی۔ اس لیے تحریک انصاف پنجاب کے نگران وزیر اعلی کے تقرر میں تاخیر کر رھی ھے۔ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں بھی نگران وزرائے اعلی کے تقرر کا فیصلہ نہیں ھو سکا۔ بلوچستان اسمبلی الیکشن کے التواء کے لیے قرارداد منظور کر چکی ھے۔ خیبرپختونخواہ کے تحریک انصاف کے وزیر اعلی الیکشن آگے کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو خط لکھ چکے ہیں۔

نواز شریف کو چونکہ الیکشن میں کامیابی حاصل ھونے کا یقین ھے اس لیے ن لیگ الیکشن کا بروقت انعقاد چاھتی ھے۔ "پاکستان کی اسٹیبلشنٹ کا آنکھوں کا تارا" بننے کے ارمانوں پر اوس پڑنے اور نواز شریف کے چرنوں میں پھر سے بیٹھنے کی وجہ سے پی پی پی نے بھی اب الیکشن میں مزید تاخیر کرنے کے بجائے وقت پر الیکشن کرانے کا موقف اختیار کر لیا ھے۔

نواز شریف کے چرنوں میں بیٹھنے کی وجہ سے آصف زرداری نے الیکشن میں تاخیر کے بجائے بروقت انعقاد کے لیے پہلے نگراں وزیرِ اعظم کی تقرری پر نخرے دکھانے اور اپنے تجویز کردہ شخص کو وزیرِ اعظم نامزد کرنے کی ضد چھوڑ کر قومی اسمبلی میں اپنے قائدِ حزب اختلاف خورشید شاہ کی زبانی پاکستان کے نگراں وزیر اعظم کے طور پر اس شخصیت کے نام کا اعلان کروایا جس نے 2012 میں پی پی پی کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو وزارتِ اعظمیٰ سے نا اھل قرار دیا تھا اور نواز شریف نے اس نا اھلی کا خیر مقدم کیا تھا۔ اس کے علاوہ سندھ میں پہلے سے ھی نواز شریف کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے والی ایم کیو ایم کے سندھ اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کے ساتھ مشاورت کرکے ایم کیو ایم کے قائدِ حزبِ اختلاف کے تجویز کردہ شخص کو سندھ کا نگراں وزیرِ اعلیٰ نامزد کرنے کا اعلان سندھ کے وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ سے کروایا۔

پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم حلف اٹھا چکے ھیں۔ آج سندھ کا نگراں وزیرِ اعلیٰ حلف اٹھالے گا۔ لیکن پنجاب ' خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کے نگراں وزیرِ اعلیٰ کے تقرر میں پی ٹی آئی کی وجہ سے مسلسل تاخیر ھو رھی ھے۔ جس سے ظاھر ھوتا ھے کہ پی ٹی آئی الیکشن کے انعقاد کے بجائے الیکشن ملتوی کروانے کے حربے استعمال کر رھی ھے۔ اس سے ظاھر ھوتا ھے کہ عمران خان پاکستان کی قومی سیاست کرنے کے قابل نہیں رھا۔  جبکہ الیکشن کمیشن نے الیکشن کے شیڈول کا اعلان کردیا ھے۔ 2 جون سے 6 جون تک کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے جانے ھیں اور 25 جولائی کو پولنگ ھوگی۔

ادھر با اثر حلقوں میں الیکشن 2018 کے بارے ایک رائے ھے کہ؛ سینٹ کے الیکشن کی طرح ن لیگ کی مخالف جماعتوں پر محنت اور کوشش کرکے اپنا وزیر اعظم منتخب کروا کر ن لیگ کو اپوزیشن میں بٹھایا جائے۔

دوسری رائے ھے کہ؛ محنت اور کوشش کے باوجود اپنا وزیر اعظم منتخب کروانا مشکل ھے۔ اس لیے ن لیگ سے مزید محاذآرائی کرنے کے بجائے ن لیگ کے ساتھ معاملات درست کرکے ن لیگ کو حکومت بنانے دی جائے۔

تیسری رائے ھے کہ؛ سیاست میں ملوث ھونے کے بجائے عوام کی حمایت سے حکومت جو بھی بنائے ' اسے حکومت بنانے دی جائے لیکن انتخابی کاغذات کی اسکروٹنی کے عمل کے دوران کرپٹ امیدواروں کی چھانٹی کردی جائے اور نیب کے ذریعے کرپٹ سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کی صفائی کردی جائے۔Top of Form

No comments:

Post a Comment