Saturday 30 June 2018

نواز شریف کو نہ رھنما بننا آیا اور نہ حکمران بننا آیا۔

پاکستان کا سیاسی ماحول لسانی ھے۔ اس لیے سندھ کے بلوچوں اور عربی نزاد سندھیوں کی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی ' خیبر پختونخواہ کے پٹھانوں ' پنجاب میں رھنے والے پٹھانوں ' بلوچوں اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی پارٹی پاکستان تحریکِ انصاف کو تو پنجابی مینڈیٹ دیتے نہیں۔ لہذا پنجابیوں کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن کو مینڈیٹ دے دیتے ھیں۔ پنجاب سے قومی اسمبلی کی 150 نشستیں ھیں۔ پاکستان کی وفاقی حکومت بنانے کے لیے 137 نشستوں کی ضرورت ھوتی ھے۔ جو پنجاب سے ھی مل جاتی ھیں۔ اس لیے نواز شریف کو پاکستان کا وزیرِ اعظم بننا نصیب ھوتا رھا۔

پنجابی قوم نے نواز شریف کو پنجاب کے ساتھ ساتھ ' بار بار پاکستان کا حکمراں بھی بنوایا لیکن نواز شریف نے نہ تو رھنما بن کر پاکستان بھر کے پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی سیاسی تربیت کرکے پاکستان کے عوام کو سیاسی سوچ ' سمجھ اور شعور دیا ' نہ پنجابی قوم کی سماجی ' ثقافتی اور سیاسی ترقی کے لیے اقدامات کیے ' نہ پٹھانوں ' بلوچوں ' مھاجروں کی پنجاب کو بلیک میل کرنے ' پاکستان اور پنجابی قوم کے خلاف سازشیں کرتے کی عادت کو ختم کروانے کے لیے سیاسی اقدامات کیے ' نہ حکمرانی کے فرائض انجام دیتے ھوئے پاکستان کے حکومتی اداروں کی کارکردگی بہتر کرکے پاکستان کو مظبوط اور مستحکم ملک بنایا ' نہ معاشی و اقتصادی ترقی دے کر پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنایا ' بلکہ پنجاب اور پاکستان کی حکمرانی کا فائدہ اٹھاتے ھوئے اپنے ذاتی کاروبار اور اپنے خاندان کے مفادات کے تحفظ میں لگا رھا۔

پنجاب اور پنجابی قوم کے لیے اس سے بھی اھم معاملہ یہ ھے کہ؛

نواز شریف 1985 سے لیکر ' 32 سال کے عرصے سے سیاسی طور پر پنجاب پر راج کر رھا ھے۔ بلکہ حقیقت یہ ھے کہ پنجابی 32 سال کے عرصے سے نواز شریف کو پنجاب پر سیاسی راج کروا رھے ھیں۔ جبکہ پنجابیوں کے مینڈیٹ سے ھی نواز شریف کو پاکستان پر بھی 3 بار راج کرنے کا موقع ملا۔ لیکن؛

نواز شریف نے انگریزوں کے دور سے پنجاب پر مسلط کی گئی اردو زبان کو پنجاب سے ختم کرکے پنجابیوں کو انکی زبان تک نہ دی۔ تاکہ پنجابی اپنے بچوں کو اپنی ماں بولی میں تعلیم دلوا سکتے اور دفتری معاملات کو اپنی ماں بولی میں انجام دے سکتے۔ بلکہ پنجاب کی تعلیمی اور دفتری زبان پنجابی ھو جانے سے پنجابی تہذیب ' ثقافت اور رسم و رواج نے بھی فروغ پانا تھا جبکہ پنجابی قوم نے بھی پنجابی زبان کے لہجوں اور پنجابی برادریوں کے تنازعات سے نکل کر سماجی ' معاشی اور سیاسی طور پر مظبوط ' مستحکم اور خوشحال قوم بن جانا تھا اور پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر کی بلیک میلنگ سے بھی خود کو بچا لینا تھا۔

جبکہ نواز شریف کے اپنے لیے اھم معاملہ یہ رھا کہ؛

مشرف نے 1999 سے 2008 تک حکومت کی۔ زرداری نے 2008 سے 2013 تک حکومت کی۔ نواز شریف کی حکومت 2013 سے شروع ھوئی۔ نواز شریف نے 2013 میں حکومت سمبھالنے کے بعد مشرف اور زرداری کی حکومت کے دور میں ھونے والی لوٹ مار کا حساب کتاب کرنا تھا۔ مشرف اور زرداری نے اپنے اپنے دور میں کمائے ھوئے سرمایہ کا ایک حصہ خود کو اور اپنے ساتھوں کو بچانے پر لگانے کا پروگرام بنایا۔ مشرف اور زرداری نے میڈیا ھاؤس خریدے ' اینکر ' صحافی ' تجزیہ نگار بھرتی کیے۔ پہلے طاھر القادری کے ذریعے میدان سجایا۔ پھر عمران خان کو آگے کرنا شروع کیا۔ اپنے اقتدار کے دور میں بدعنوانیوں میں ملوث رھنے والے اور پنجاب و خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے اپنے ساتھوں کو خود عمران خان کی پارٹی میں شامل کروایا۔ اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکیسی میں موجود اپنے ساتھیوں کو نواز شریف کی مخالفت اور عمران خان کی حمایت پر لگایا۔ جلسے ھوئے ' جلوس ھوئے ' دھرنے ھوئے۔ مشرف اور زرداری بچے رھے۔ حکومت میں ھونے کے باوجود الٹا احتساب نواز شریف کا شروع ھوگیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ؛ نواز شریف نہ صرف اقتدار سے محروم ھوا بلکہ جیل بھی پہنچ گیا۔ خیبر پختونخواہ کے پٹھانوں ' پنجاب میں رھنے والے پٹھانوں ' بلوچوں اور اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی پارٹی پاکستان تحریکِ انصاف کو پاکستان ' پنجاب اور خیبر پختونخواہ کا اقتدار مل گیا۔ سندھ کا اقتدار سندھ کے بلوچوں اور عربی نزاد سندھیوں کی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کو مل گیا۔ جبکہ مشرف ملک سے باھر بیٹھا موجیں کر رھا ھے۔

نواز شریف کو پنجاب سے پنجابیوں کی جبکہ خیبر پختونخواہ سے ھندکو اور پنجابی کی ' بلوچستان سے براھوئی اور پنجابی کی ' سندھ سے سماٹ اور پنجابی کی ' کراچی سے گجراتی ' راجستھانی ' ھندکو ' براھوئی ' سماٹ ' اور پنجابی کی بھرپور حمایت سے حکومت ملنے کے باوجود نواز شریف نے کھسروں کی فوج بھرتی کرکے 2013 سے 2018 تک حکومت میں رہ کر مشرف اور زرداری کا کیا کرلیا؟ کیا مھاجر مشرف ' بلوچ زرداری ' پٹھان عمران نے نواز شریف کو تگنی کا ناچ نہیں نچا دیا؟

نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد اسٹیبلشنٹ کا سربراہ پہلے جنرل راحیل شریف تھا۔ اب جنرل قمر جاوید باجوہ ھے۔ اسٹیبلشنٹ اگر نواز شریف کی مخالف ھوتی تو پہلے جنرل راحیل شریف نے یا اب جنرل قمر جاوید باجوہ نے نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کردی ھوتی۔ اسٹیبلشنٹ پر الزام تراشیاں کرکے پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی ' گجراتی ' راجستھانی عوام کو گمراہ کرنے ' ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کے بجائے نواز شریف کی کھسرا فوج کو چاھیے کہ؛ اپنی کمزوریوں ' خامیوں ' کوتاھیوں ' نالائقیوں کا اعتراف اور اقرار کرے۔ سیاست کھسروں کا نہیں مردوں کا کھیل ھے۔

No comments:

Post a Comment