Sunday, 30 June 2019

پٹھانوں کو پاکستان دشمن عناصر کا آلہء کار نہیں بننا چاھیے۔

افغانستان ' پاکستان اور دیگر ممالک میں افغانیوں ' پختونوں ' پشتونوں اور پٹھانوں کی کل آبادی 5 کروڑ 4 لاکھ 50 ھزار ھے۔ افغانستان کی 3 کروڑ 25 لاکھ آبادی میں سے افغانیوں کی آبادی ایک کروڑ 36 لاکھ 50 ھزار تھی۔ جبکہ ایک کروڑ 88 لاکھ 50 ھزار آبادی میں سے 87 لاکھ 75 ھزار تاجک ' 29 لاکھ 25 ھزار ازبک ' 26 لاکھ ھزارہ ' 13 لاکھ ایمک ' 9 لاکھ 75 ھزار ترکمان تھے۔ لیکن 30 لاکھ افغانیوں کے پاکستان اور 6 لاکھ 50 ھزار افغانیوں کے ایران اور دیگر ممالک میں چلے جانے کی وجہ سے اب افغانستان میں صرف ایک کروڑ افغانی بچے ھیں۔

فاٹا میں 50 لاکھ اور خیبر پختونخوا میں 2 کروڑ 34 لاکھ 50 ھزار پختون رھتے ھیں۔ بلوچستان میں 44 لاکھ پشتون رھتے ھیں۔ اسلام آباد میں 4 لاکھ ' پنجاب میں 20 لاکھ ' سندھ میں 3 لاکھ 50 ھزار اور کراچی میں 22 لاکھ پٹھان رھتے ھیں۔جبکہ 30 لاکھ افغانی فاٹا ' خیبر پختونخوا ' بلوچستان ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں بکھر چکے ھیں۔ یہ وقت گذرنے کے ساتھ پختون ' پشتون یا پٹھان بن جائیں گے۔ کیونکہ انہوں نے واپس افغانستان نہیں جانا۔ پاکستان میں پختونوں ' پشتونوں اور پٹھانوں کی 3 کروڑ 68 لاکھ آبادی جبکہ 30 لاکھ افغانیوں کی آبادی کو ملایا جائے تو پاکستان میں پختونوں ' پشتونوں ' پٹھانوں اور افغانیوں کی کل آبادی 3 کروڑ 98 لاکھ بنتی ھے۔

افغانستان کے ایک کروڑ افغانیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ افغانستان میں افغانیوں کی تعداد کم ھوجانے کی وجہ سے تاجک ' ھزارہ ' ایمک ' ازبک ' ترکمان نے افغانستان میں افغانیوں پر اپنا سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط قائم کیا ھوا ھے۔ فاٹا میں رھنے والے پختونوں کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ فاٹا میں معاشی وسائل نہیں ھیں۔ اور خیبر پختونخوا میں رھنے والے پختونوں کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ ایک تو معاشی طور پر مستحکم علاقوں پر ابھی تک ھندکو پنجابیوں کا کنٹرول ھے اور دوسرا ھندکو پنجابیوں کی پختونوں کو خیبر پختونخوا سے نکالنے کی جدوجہد میں روز با روز اضافہ ھوتا جارھا ھے۔ جبکہ خیبر پختونخوا کی 2 کروڑ 34 لاکھ 50 ھزار پختون قرار دی جانے والی آبادی میں سے بہت بڑی آبادی پختون نہیں ھے۔

خیبرپختونخوا صوبہ میں پشتو کے علاوہ 24 زبانیں بولی جاتی ھیں اوریہ ساری زبانیں یہاں کی تاریخی اور آبائی زبانیں ھیں۔ مرکزی پشاور اور ھزارہ میں ھندکو پنجابی بولی جاتی ھے۔ جنوبی ضلعوں میں ڈیرہ والی پنجابی بولی جاتی ھے۔ چترال میں کھوار کے ساتھ ساتھ 11 اور زبانیں کلاشا ' پالولا ' گوارباتی ' دمیلی ' یدغا ' شیخانی وغیرہ بولی جاتی ھیں۔ ضلع کوھستان میں کوھستانی اور شینا زبانیں بولی جاتی ھیں۔ سوات کے کوھستان میں توروالی ' گاؤری اور اوشوجو بولی جاتی ھے۔ دیر کوھستان میں کلکوٹی اور گاؤری زبانیں بولی جاتی ھیں۔ لیکن انہیں 2017 میں ھونے والی مردم شماری میں زبردستی پشتو بولنے والا شمار کیا گیا ھے۔ خیبر پختونخوا کی 3 کروڑ 5 لاکھ آبادی میں خیبر پختونخوا کے تاریخی اور قدیمی باشندے ھندکو پنجابی کو 35 لاکھ ' ڈیرہ والی پنجابی کو 11 لاکھ 35 ھزار شمار کیا گیا ھے۔ اردو بولنے والے 2 لاکھ 75 ھزار جبکہ پنجابی بولنے والے صرف 27 ھزار شمار کیے گئے ھیں۔

بلوچستان میں رھنے والے پشتونوں کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ بلوچستان میں پشتونوں کو بلوچوں نے اپنے سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط میں رکھا ھوا ھے۔ اسلام آباد ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں رھنے والے پٹھانوں کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ قلیل تعداد میں ھونے کی وجہ سے اسلام آباد اور پنجاب میں پنجابی ' سندھی میں سندھی اور کراچی میں مھاجر پر اپنا سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط قائم نہیں کر سکتے۔ اس لیے اسلام آباد ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں اپنی تعداد بڑھانے کے لیے اگر خیبر پختونخوا سے پختونوں اور بلوچستان سے پشتونوں کو اسلام آباد ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں لاتے ھیں تو خیبر پختونخوا میں پختونوں اور بلوچستان میں پشتونوں کی تعداد کم ھوجاتی ھے۔ جسکی وجہ سے خیبر پختونخوا میں ھندکو پنجابیوں کی پختونوں کو خیبر پختونخوا سے نکالنے کی جدوجہد کامیاب ھوتی ھے جبکہ بلوچستان میں پشتونوں پر بلوچوں کے سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط میں مزید اضافہ ھوتا ھے۔

پچھلے ھزار سال کی تاریخ بتاتی ھے کہ افغانیوں نے اپنی دھرتی افغانستان کو ترقی دے کر حلال رزق کے ذرائع پیدا کرنے کے بجائے مسلمان کا روپ دھار کر دوسری قوموں کی دھرتی پر قبضے اور وسائل کی لوٹ مار کرنے کے بعد مسلمان کے بجائے؛

1۔ خیبر پختونخوا میں قوم پرست پختون بن کر اس دھرتی کو اپنی دھرتی اور اس قوم کے وسائل کو اپنے وسائل قرار دیا اور مقبوضہ ھندکو قوم پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ پختونوں کے ساتھ ظلم ' زیادتی اور نا انصافی کرتے ھیں۔

2۔ بلوچستان میں قوم پرست پشتون بن کر اس دھرتی کو اپنی دھرتی اور اس قوم کے وسائل کو اپنے وسائل قرار دیا اور مقبوضہ بلوچ قوم پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ پشتونوں کے ساتھ ظلم ' زیادتی اور نا انصافی کرتے ھیں۔

3۔ پنجاب ' سندھ اور کراچی میں قوم پرست پٹھان بن کر اس دھرتی کے کچھ علاقوں کو اپنی دھرتی اور اس قوم کے وسائل کو اپنے وسائل قرار دیا اور پنجاب میں پنجابی ' سندھ میں سندھی اور کراچی میں مھاجر قوم پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ پٹھانوں کے ساتھ ظلم ' زیادتی اور نا انصافی کرتے ھیں۔

1837 میں مھاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد برطانیہ نے 2 اپریل 1849 کو پنجاب پر قبضہ کرلیا اور1901 میں پنجاب میں سے ایبٹ آباد ' بنوں ' بٹگرام ' تور غر ' شانگلہ ' صوابی ' لکی مروت ' مالاکنڈ ' مانسہرہ ' مردان ' نوشہرہ ' ٹانک ' پشاور ' چارسدہ ' ڈیرہ اسماعیل خان ' کرک ' کوھاٹ ' کوھستان ' ھری پور ' ھزارہ ' ھنگو کو پنجاب سے الگ کرکے شمال مغربی سرحدی صوبہ کے نام سے ایک الگ صوبہ بنا دیا۔ پٹھانوں نے صوبہ سرحد میں تو بد امنی اور پختونائزیشن شیر شاہ سوری کے وقت سے شروع کی ھوئی تھی۔ جس میں مغلوں کے ساتھ مفاھمت کے بعد اضافہ ھوا۔

1747 میں احمد شاہ ابدالی کے افغانستان کی سلطنت کے قیام اور پنجاب پر قبضے کے بعد تو بے انتہا اضافہ ھوا۔ مھاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب پر سے پٹھانوں کے قبضے کو ختم کروا کر پنجاب کو پٹھانوں کی بد امنی اور پختونائزیشن سے نجات دلوائی۔ لیکن انگریز کے پنجاب پر قبضے کے بعد پنجاب میں پٹھانوں کی بد امنی اور پختونائزیشن پھر سے بڑھنے لگی۔ بلکہ 1901 میں تو انگریز نے صوبہ سرحد بنا کر پٹھانوں کی بد امنی اور پختونائزیشن کی باقائدہ سرپرستی بھی کی۔

شمال مغربی سرحدی صوبہ کو 1901 سے لیکر 2010 تک عمومی طور پر صوبہ سرحد کہا جاتا رھا۔ لیکن 2010 میں آصف زرداری اور اسفندیار ولی نے اٹھارویں ترمیم کے وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے ھونے کی وجہ سے سازش کرکے پاکستان کے آئین میں صوبے کا نام خیبر پختونخوا کروا لیا اور اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ صدیوں پہلے سے ھی اس صوبہ کا علاقہ ھندکو پنجابیوں کا ھے۔ جہاں افغانستان سے افغانی آآ کر اور پختون بن بن کر قبضہ کرتے رھے ھیں۔

افغانیوں کے اپنی دھرتی افغانستان کو ترقی دے کر حلال رزق کے ذرائع پیدا کرنے کے بجائے دوسری قوموں کی دھرتی پر قبضے اور وسائل کی لوٹ مار کرنے کے لالچ کا نتیجہ یہ نکلا ھے کہ 5 کروڑ 4 لاکھ 50 ھزار افغانی ' پختون ' پشتون ' پٹھان اس وقت افغانستان ' فاٹا ' بلوچستان ' خیبر پختونخوا ' پنجاب ' سندھ ' کراچی ' ایران اور دوسرے ممالک میں بکھر چکے ھیں۔ اس لیے افغانیوں کا افغانستان میں تاجک ' ھزارہ ' ایمک ' ازبک ' ترکمان کے ساتھ ' خیبر پختونخوا میں پختونوں کا ھندکو پنجابیوں کے ساتھ ' بلوچستان میں پشتونوں کا بلوچوں کے ساتھ ' پٹھانوں کا پنجاب میں پنجابیوں کے ساتھ ' سندھ میں سندھیوں کے ساتھ اور کراچی میں مھاجروں کے ساتھ سیاسی ' سماجی اور معاشی ٹکراؤ ھے۔ جبکہ ایران اور دوسرے ممالک میں کوئی اھمیت اور قدر نہیں ھے۔

افغانیوں کا اپنے وطن افغانستان ' پختونوں کا خیبر پختونخوا ' پشتونوں کا بلوچستان اور پٹھانوں کا پنجاب ' سندھ اور کراچی میں سیاسی ' سماجی اور معاشی مستقبل تو پہلے سے ھی تاریک نظر آرھا تھا۔ جس پر پٹھان سیاسی رھنما دھیان نہیں دے رھے تھے بلکہ ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے ریاستی اداروں کو بلیک میل کرنے اور پاکستان دشمن ممالک کے آلہء کار یا کاسہ لیس اور ھمدرد بننے کی سیاست کرتے تھے۔ لیکن اب پشتون تحفظ موومنٹ کے کھل کر پاکستان کی ریاست کے وفادار ھونے کے بجائے افغانستان کے گُن گانے اور پاکستان کی فوج اور پنجابیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان کے شھریوں میں تشویش پھیل رھی ھے۔

افغانستان سے پاکستان میں دھشتگردی کی کاروائیوں میں اضافے کی وجہ سے افغانستان کی سرحد سے ملحق فاٹا کے 50 لاکھ ' خیبر پختونخوا کے 2 کروڑ 34 لاکھ 50 ھزار پختونوں اور بلوچستان کے 44 لاکھ پشتونوں کے سیاسی رھنماؤں اور قبائل کے سربراھوں کو چاھیے کہ پاکستان کے ساتھ وفاداری کا عملی مظاھرہ کریں۔ اپنے افغان ' پختون ' پشتون یا پٹھان ھونے پر بے شک فخر کریں لیکن پاکستان میں رھنے۔ پاکستان کا کھانے کی وجہ سے گُن بھی پاکستان کے گائیں۔

اسلام آباد کے 4 لاکھ ' پنجاب کے 20 لاکھ ' سندھ کے 3 لاکھ 50 ھزار اور کراچی کے 22 لاکھ پٹھان اپنے تعلقات پنجابی ' ھندکو ' چترالی ' سواتی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' براھوئی ' بلوچ ' سندھی ' مھاجر ' راجستھانی ' گجراتی کے ساتھ ٹھیک رکھیں اور فاٹا کے 50 لاکھ ' خیبر پختونخوا کے 2 کروڑ 34 لاکھ 50 ھزار ' بلوچستان کے 44 لاکھ پٹھانوں کو سمجھائیں کہ؛ پاکستان دشمن عناصر کا آلہء کار بن کر پاکستان ' پاکستان کی فوج اور پنجابیوں کے خلاف سازشیں کرنے میں ملوث نہ ھوں۔ ورنہ اسلام آباد ' پنجاب ' سندھ اور کراچی کے پٹھانوں کو بھی واپس فاٹا ' خیبر پختونخوا کے پٹھان علاقے ' بلوچستان کے پٹھان علاقے میں بلکہ ھوسکتا ھے کہ واپس افغانستان جانا پڑے۔

Friday, 28 June 2019

Condition of Baloch people in Iran.


The Baloch people in Iran are going through the hardest time in their history.

They have been systematically oppressed, discriminated against and deprived of proper education.

There are 3.5 million Baloch in Iran and there has not been even one single high official in the country in the last 30 years.

1. The life cycle in Baluchistan and Balochi areas is 15 years less than average in the country.

2. The official unemployment rate is more than 72 percent.

3. 76% of Baloch live under the absolute poverty line.

4. According to the United Nations, they have the least educated people in Iran.

5. There is seven hundred academic staff in Balochistan universities and only ten of them are Baloch. While these 10 persons have educated themselves, the rest have been given scholarships to study in Iran or outside.

6. They are oppressed on a daily basis and humiliated in their own cities in a way that has never happened before.

شیر کی بزرگ سے بیعت اور بزرگ کی شیر کو نصیحت

ایک شیر نے ایک بزرگ سے بیعت کرلی۔ بزرگ نے شیر سے کہا کہ؛ تو جنگل کا بادشاہ ھے۔ اس لیے نہ اپنی دھاڑ سے جنگل کے جانوروں کو ڈرایا کر اور نہ ان کے ساتھ زیادتی کیا کر۔ شیر نے بزرگ کی ھدایت پر عمل کرنا شروع کردیا۔

جنگل کے جانوروں نے جب دیکھا کہ؛ شیر تودھاڑتا ھی نہیں بلکہ مرے ھوئے جانوروں کو کھا کر گذارا کرتا ھے۔ زندہ جانوروں کو کچھ کہتا ھی نہیں۔ تو جنگل کے دیگر جانور تو اپنی جگہ بندر اور گیدڑ تک شیر کو بادشاہ سلامت کے بجائے تو ' تو کہہ کر مخاطب ھونا شروع ھوگئے۔

پھر بھی شیر خاموش رھا تو کتے اور بلیاں بھی میدان میں آگئے اور شیر کی درگت بنانا شروع کردی۔ محسوس یہ ھونا شروع ھو گیا کہ؛ جیسے جنگل میں شیر کا نہیں بلکہ بندر ' گیدڑ ' کتے اور بلیاں راج کر رھی ھیں۔ جنگل میں ھر طرف افراتفری پھیلنے لگی اور شیر کو دم دبا کر بیٹھنا پڑگیا۔

ایک دن بزرگ نے شیر سے پوچھا کہ؛ جنگل کا نظام درھم برھم کیوں ھے؟ شیر نے ماجرا کہہ سنایا۔ بزرگ نے کہا کہ؛ میں نے تو دھاڑ کر جنگل کے جانوروں کو ڈرانے اور ان کے ساتھ زیادتی کرنے سے منع کیا تھا۔ جنگل میں افراتفری پھیلنے اور جنگل کا نظام درھم برھم ھونے سے بچانے کے لیے تجھے دھاڑنے سے منع نہیں کیا تھا۔ تاکہ بندر ' گیدڑ ' کتے اور بلیاں راج کرنے لگ جائیں۔ بلکہ تمہارے گلے پڑنے لگ جائیں۔

بزرگ نے کہا !!! شیر بنو شیر اور بادشاھت کرو۔ جنگل میں افراتفری پھیلنے اور جنگل کا نظام درھم برھم ھونے سے بچانے کے لیے دھاڑا کرو اور شیر ھونے کا ثبوت بھی دیا کرو۔ بندر ' گیدڑ ' کتے اور بلیاں ھی نہیں ' ھاتھی جیسے چلنے اور اژدھے جیسے رینگنے والے جانور کو بھی اپنی اوقات میں رکھا کرو۔ ورنہ خود تو برباد ھو رھے ھو ' جنگل کو بھی تباہ کردو گے۔

نوٹ:- اس کہانی کا پاکستان میں پنجابی کے کردار سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ھی پٹھان ' بلوچ ' مھاجر وغیرہ کا اس کہانی سے کوئی تعلق ھے۔ یہ ایک جنگل کی کہانی ھے۔ جہاں بندر ' گیدڑ ' کتے اور بلیاں راج کرنے لگے تھے۔

پاکستان کو سماجی انتشار اور معاشی بحران سے نکالنے کا طریقہ کیا ھے؟

سیاسی سرگرمیوں کا مقصد عوام کو بنیادی انسانی حقوق فراھم کرنا اور مالداروں کے وسائل کو تحفظ فراھم کرنا ھوتا ھے۔ اس لیے دنیا بھر میں سیاسی سرگرمیاں مقامی سطح پر عوامی اثر و رسوخ ' صوبائی سطح کے مالی وسائل اور قومی سطح کی علمی صلاحیت رکھنے والے افراد کے بغیر انجام نہیں دی جاسکتیں۔

پاکستان کے قیام سے لیکر پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں کی بنیاد آمریت کے دور میں مقامی سطح پر عوامی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کا تعاون حاصل کرکے حکومت کرنے پر رھی اور جمہوریت کے دور میں سیاسی جماعتوں کے سیاسی منشور و دستور کے بجائے شخصی بنیادوں پر تشکیل دیے جانے کی وجہ سے صوبائی سطح کے مالی وسائل رکھنے والے افراد کا اشتراک کرکے حکومت حاصل کرنے پر رھی۔

پاکستان میں قومی سطح کی علمی صلاحیت والے افراد نہ آمریت کے دور میں حکومت میں اھم مقام حاصل کرپائے اور نہ جمہوریت کے دور میں سیاست میں اھم مقام حاصل کرپائے۔ کیونکہ قومی سطح کی علمی صلاحیت والے افراد کو آمریت کے دور والے حکمراں اور جمہوریت کے دور والے سیاستدان اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے رھے۔

آمریت کے دور میں مقامی سطح پر عوامی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کا تعاون حاصل کرکے حکومت کرنے والوں نے پاکستان کو سماجی انتشار میں مبتلا کیا۔ جبکہ جمہوریت کے دور میں سیاسی جماعتوں کو سیاسی منشور و دستور کے مطابق تشکیل دینے کے بجائے شخصی بنیادوں پر تشکیل دیکر اور صوبائی سطح کے مالی وسائل رکھنے والے افراد سے اشتراک کرکے حکومت حاصل کرکے حکومت کرنے والوں نے پاکستان کو معاشی انتشار میں مبتلا کیا۔

مقامی سطح پر عوامی اثر و رسوخ رکھنے والوں اور صوبائی سطح پر مالی وسائل والوں کے پاکستان پر سات دھائیوں تک حکمرانی کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ھے کہ؛ اب پاکستان سماجی انتشار اور معاشی بحران میں مبتلا ھوچکا ھے۔ جس کی وجہ سے نہ عوام کو بنیادی انسانی حقوق فراھم ھو پا رھے ھیں اور نہ مالداروں کے وسائل کو تحفظ فراھم ھو پا رھا ھے۔

پاکستان کو سماجی انتشار اور معاشی بحران سے نکالنے کا طریقہ یہ ھی ھے کہ؛ پاکستان کی وفاقی سیاست اور حکومت قومی سطح کی علمی صلاحیت رکھنے والے افراد کے پاس ھو۔ صوبائی سطح کے مالی وسائل کی بنیاد پر سیاست کرنے والے افراد کو صوبائی سیاست تک محدود رکھا جائے۔ جبکہ عوامی اثر و رسوخ کی بنیاد پر سیاست کرنے والے افراد کو مقامی سیاست تک محدود رکھا جائے۔

Wednesday, 26 June 2019

پٹھان ' بلوچ ' مھاجر اب پنجابیوں کو بلیک میل کرنا بند کریں۔

پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کہہ کہہ کر اور جھوٹے الزامات لگا لگا کر پنجابیوں کی تذلیل اور توھین کرتے رھتے ھیں۔ پاکستان کو پنجابی اسٹیٹ قرار دینے کی حکمت علمی اختیار کرکے پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر دراصل پنجابی قوم کو بلیک میل کرتے ھیں۔ پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کی طرف سے پاکستان کو پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کا ملک قرار دے کر اور ھندوستانی مھاجر کو پاکستان کی پانچویں قوم قرار دے کر پنجابیوں کو بلیک میل کیا جاتا ھے کہ پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر سے بلیک میل نہ ھونے کی صورت میں پٹھان خیبرپختونخوا کو "آزاد پختونستان" بنالیں گے۔ بلوچ بلوچستان کو "آزاد بلوچستان" بنالیں گے۔ ھندوستانی مھاجر کراچی کو "آزاد جناح پور" بنالیں گے۔ جبکہ پٹھان کے لیے "آزاد پختونستان" ' بلوچ کے لیے "آزاد بلوچستان" ' مھاجر کے لیے "آزاد جناح پور" بنانا عملی طور پر ناممکن ھے۔

پنجابیوں کو پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کی طرف سے پاکستان کو پنجابی اسٹیٹ قرار دینے پر اعتراض نہیں ھے۔ لیکن پاکستان کو پنجابی اسٹیٹ قرار دینے کی حکمت علمی اختیار کرکے پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کی طرف سے پنجابیوں کو بلیک میل کرکے پاکستان کے اقتدار و اختیار پر قابض ھوتے رھنے پر اعتراض ھے۔ جب پاکستان پنجابی اسٹیٹ ھے تو پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک پاکستان کا اقتدار و اختیار پنجابیوں کے پاس کیوں نہیں رھتا؟ پاکستان کا اقتدار و اختیار پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کے پاس کیوں رھتا ھے؟ بلکہ پاکستان کی مظلوم قوموں سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی کو بھی پاکستان میں صوبائی اور وفاقی سطح کے اقتدار و اختیار میں ان کا جائز حق کیوں نہیں دیا جاتا؟

اس وقت بھی پاکستان کی صورتحال یہ ھے کہ؛ پاکستان کا وزیرِ اعظم پنجاب کا رھنے والا پٹھان ھے۔ پاکستان کا صدر کراچی کا رھنے والا مھاجر ھے۔ پاکستان کی سینٹ کا چیئرمین بلوچستان کا رھنے والا بلوچ ھے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا اسپیکر خیبر پختونخوا کا رھنے والا پٹھان ھے۔ پاکستان کی سینٹ کا ڈپٹی چیئرمین سندھ کا رھنے والا مھاجر ھے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر بلوچستان کا رھنے والا پٹھان ھے۔ خیبر پختونخوا کا گورنر پٹھان ھے۔ خیبر پختونخوا کا وزیرِ اعلیٰ پٹھان ھے۔ خیبر پختونخوا کا اسپیکر پٹھان ھے۔ خیبر پختونخوا کا ڈپٹی اسپیکر پٹھان ھے۔ بلوچستان کا گورنر اور ڈپٹی اسپیکر پٹھان ھے۔ بلوچستان کا گورنر پٹھان ھے۔ سندھ کا گورنر مھاجر ھے۔ سندھ کا وزیرِ اعلیٰ عربی نزاد ھے۔ سندھ اسمبلی کا اسپیکر پٹھان ھے۔ پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بلوچ ھے۔ پاکستان کا وفاقی سطح کا ھی نہیں بلکہ صوبائی اقتدار و اختیار بھی پٹھان ' بلوچ ' مھاجر کے پاس ھے۔ پنجابی ھی نہیں بلکہ سماٹ ' براھوئی ' ھندکو بھی پاکستان کے وفاقی اور صوبائی اقتدار و اختیار سے باھر ھیں۔

پاکستان کا اقتدار و اختیار چونکہ پٹھان ' بلوچ ' مھاجر کے پاس ھے۔ اس لیے پٹھان ' بلوچ ' مھاجر کو چاھیے کہ عوام میں ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کہہ کہہ کر اور جھوٹے الزامات لگا لگا کر پنجابیوں کی تذلیل اور توھین کرتے رھنے کے بجائے پاکستان کے اقتدار و اختیار کو استعمال کرتے ھوئے اپنے حقوق حاصل کرلیں۔ جبکہ حقوق حاصل کرنے کے لیے اگر قانون سازی کرنے کی ضرورت ھو تو پاکستان کی قومی اسمبلی میں ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج پر لگائے جانے والے الزامات پر بحث و مباحثہ کرکے قانون سازی کرلیں۔ لیکن اب عوام میں ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کہہ کہہ کر اور جھوٹے الزامات لگا لگا کر پنجابیوں کی تذلیل اور توھین کرتے رھنے سے گریز کرنا شروع کردیں۔ ورنہ پاکستان کے اقتدار و اختیار کو استعمال کرکے اپنے حقوق حاصل نہ کرنے جبکہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں قانون سازی بھی نہ کرنے لیکن عوام میں پنجابیوں کی تذلیل اور توھین کرنے کے عمل کو پٹھان ' بلوچ ' مھاجر کی طرف سے پنجابیوں کو بلیک میل کرنا قرار دینا شروع کردیا جائے گا۔ جبکہ پٹھان ' بلوچ ' مھاجر کی بلیک میلنگ کا علمی انداز میں دلائل کے ساتھ بھرپور جواب بھی دیا جائے گا۔

پنجابی قوم پرستی دا کم کرن والے دوستاں نوں صلاح

پنجابی قوم پرستی دا کم کرن والے دوستو !!! پہلی گل اے وے کہ؛ پاکستان وچ پنجابی قوم پرستی بوت ودھ چکی اے۔ دوجی گل اے وے کہ؛ ھن پنجابی قوم پرستاں نوں سیاسی پلیٹ فارم تے کٹھا کرن لئی پنجابی قوم پرست سیاسی پارٹیاں وی بنن لگ پئیاں نے۔ تیجی گل اے وے کہ؛ سیاسی پارٹی بنان لئی ضروری ھوندا اے کہ؛ سیاسی پروگرام وی ھووے تے سیاسی پروگرام تے عمل کروان والے بندے وی ھون۔ جد کہ سیاسی پروگرام تے عمل کروان والے او بندے منظم وی ھون تاکہ اپنے اپنے حصے دا کم کر سکن تے اپنا اک "آگو" وی بنان۔ تاکہ اپنے اپنے حصے دا کم کرن والے بندیاں نوں "آگو" ولوں ضرورت دے مطابق سیاسی پروگرام وی ملدا رووے۔ "آگو" ولوں اناں وچ آپس دا تعاون وی کروایا جاووے تے آپس وچ اختلاف ھون ویلے اناں وچ "آگو" ولوں مصالحت وی کروائی جاسکے۔

چوتھی گل اے وے کہ؛ ھجے او پنجابی قوم پرست سیاسی پارٹیاں بنا رئے نے جنہاں نوں عملی سیاست کرن دا تجربہ نئیں اے۔ ایس لئی اناں کول نہ تے پاکستان دی سطح دا پنجابی قوم پرستی والا سیاسی پروگرام اے تے نہ سیاسی پروگرام تے عمل کروان والے پاکستان دی سطح دے سیاسی بندے نے پر اناں نوں شوق چڑھیا ھویا اے کہ؛ اناں نوں پنجابی قوم دا "آگو" منیا جاوے۔ جیس دے کرکے سیاسی پارٹیاں بنان دے نال نال پنجابی قوم پرست آپس وچ لڑ وی رئے نے۔ ایس لئی پنجابی قوم پرست سیاسی پارٹیاں بنان دی صرف خانہ پری ھو رئی اے۔ اے وی سیاسی عمل دا حصہ اے تے سیاسی کامیابی حاصل ھون توں پہلے والی منزل اے کہ؛ اے عمل لوکاں نوں تجربہ دے کے لوکاں دا سیاسی شعور ودھا دیندا اے تے لوکی اپنی سیاسی غلطیاں کولوں سکھ کے صحیح سیاسی کم کرن دا طریقہ جان جاندے نے۔

پنجویں گل اے وے کہ؛ 2020 وچ پنجابی قوم پرست سیاسی پارٹی بنے گی جیس وچ عملی سیاست دا تجربہ رکھن والے پنجابی ھون گے۔ جیہڑے پہلے ای سیاسی پارٹیاں دے عہدیدار ' ایم پی اے ' ایم این اے ' سنیٹر ' صوبائی تے مرکزی وزیر یا مشیر بن دے رئے نے۔ اناں کول پاکستان دی سطح دا پنجابی قوم پرستی والا سیاسی پروگرام وی ھووے گا تے اناں کول اوس سیاسی پروگرام تے عمل کروان والے بندے وی ھون گے۔ او اپنا اک "آگو" وی بنان گے۔ اناں دے 2020 وچ پاکستان دی سطح دی پنجابی قوم پرست سیاسی پارٹی بنان توں بعد جیہڑیاں پنجابی قوم پرست سیاسی پارٹیاں ھن بنیاں ھوئیاں نے اناں دی اھمیت نئیں رینی۔

ایس لئی میری پنجابی قوم پرستی دا کم کرن والے دوستاں نوں عرض اے کہ؛ جیس وچ جنی صلاحیت اے ' او پنجابی قوم پرستی دا اوناں ای کم کرکے اپنے ولوں پنجابی قوم لئی اپنا حصہ پاووے۔ نئیں تے پنجابی قوم پرستی دا کم کرن والے آپس وچ لڑن نال نقصان اپنا ای کرن گے۔ پنجابی قوم پرستی دا کم تے ھن رکنا نئیں اے۔ ایس لئی سیاسی صلاحیت والے نوویں لوک آکے پنجابی قوم پرستی دا کم سمبھال لین گے تے ایس ویلے سیاسی صلاحیت توں بغیر صرف شوق یا جذبہ دی بنیاد تے پنجابی قوم پرستی دا کم کرن والے پرانے دوست صرف اپنی اپنی داستان ای دسیا کرن گے۔

ھن تک پنجابی قوم پرستی نوں "فالو" کرن والے لکھاں دی تعداد وچ تیار ھو چکے نے۔ قوم پرستی نوں "سپورٹ" کرن والے ھزاراں دی تعداد وچ تیار ھو چکے نے۔ پنجابی قوم پرستی لئی "ورک" کرن والے سینکڑاں دی تعداد وچ تیار ھو چکے نے۔ ھن 2019 وچ پنجابی قوم پرستاں دی "قیادت" کرن والے درجناں دی تعداد وچ تیار ھون گے۔

2020 وچ درجناں دی تعاد وچ پنجابی قوم پرستاں دی "قیادت" کرن والے آں چوں بہت سارے پنجابی قوم پرستاں دی "قیادت" کرن والے وکھ وکھ پنجابی قوم دی سماجی یا سیاسی یا معاشی ترقی دا "پروگرام" بنان دے بجائے اپنا اک "آگو" بنا کے پنجابی قوم دے لئی سماجی ‘ سیاسی ‘ معاشی ترقی دا قومی سطح تے "سانجھا پروگرام" بنان گے۔

اوس "سانجھے پروگرام" نوں سینکڑاں دی تعاد وچ پنجابی قوم پرستی لئی "ورک" کرن والے پنجابی قوم پرستاں دے ذریعے ھزاراں دی تعداد وچ پنجابی قوم پرستی نوں "سپورٹ" کرن والے پنجابی قوم پرستاں کولوں "سپورٹ" کروان گے۔ جد کہ لکھاں دی تعداد وچ پنجابی قوم پرستی نوں "فالو" کرن والے اوس "پروگرام" نوں "فالو" کرن گے۔ ایس دا اثر کروڑاں پنجابیاں تے ھووے گا تے کروڑاں پنجابی اوس "پروگرام" تے "عمل" کرن گے۔ ایس لئی کروڑاں پنجابیاں دے اک ای "عمل" کرن نال پنجابی قوم دے لئی قومی سطح تے بنایا جان والا سماجی ‘ سیاسی ‘ معاشی ' ترقی دا "پروگرام" قومی سطح تے کامیابی حاصل کرے گا۔ انشاء اللہ

Friday, 21 June 2019

پاکستان میں وفاقی اور صوبائی اقتدار و اختیار کا سیاسی کھیل۔


پاکستان پنجابی ' سماٹ ‘ براھوئی ‘ ھندکو قوموں کا ملک ھے۔ لیکن پاکستان کے قیام سے لیکر پاکستان میں پنجابی ' سماٹ ‘ براھوئی ‘ ھندکو پر کراچی کی ھندوستانی مھاجر اشرافیہ ' خیبر پختونخوا کے پختون علاقے ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' شمالی پنجاب اور وسطی پنجاب کی پٹھان اشرافیہ ' بلوچستان کے بلوچ علاقے ‘ پنجاب کے جنوبی علاقے اور سندھ کے دیہی علاقے کی بلوچ اشرافیہ ' جنوبی پنجاب اور سندھ کی عربی نزاد اشرافیہ نے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی تسلط قائم کیا ھوا ھے۔

پاکستان دشمن عناصر کی سرپرستی اور تعاون حاصل کرکے ' پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کی طرف سے حقوق غصب کرنے کا شور مچا کر ' بلوچستان کی بلوچ اشرافیہ آزاد بلوچستان ' دیہی سندھ کی عربی نزاد سندھی اشرافیہ اور بلوچ اشرافیہ سندھودیش 'جنوبی پنجاب کی عربی نزاد پنجابی اشرافیہ اور بلوچ اشرافیہ سرائیکستان ' کراچی کی ھندوستانی مھاجراشرافیہ جناح پور ' خیبر پختونخوا کے پختون علاقے اور بلوچستان کے پشتون علاقے کی پٹھان اشرافیہ پشتونستان کی سازشیں کرکے پاکستان میں سماجی ' سیاسی ' معاشی اور انتظامی عدمِ استحکام پیدا کرتی رھتی ھے۔

پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج چونکہ ماضی میں بھی انکی سازشوں اور ملک دشمن سرگرمیوں کا سیاسی طور پر تدارک کرنے میں ناکام رھی تھی۔ اس لیے انتظامی اقدامات سے انکی سازشوں اور ملک دشمن سرگرمیوں کو عارضی طور پر روک تو لیتی رھی لیکن ختم نہیں کرسکی۔ لہٰذا پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کو ایک بار پھر سے پاکستان کا اقتدار کراچی کی اردو بولنے والی ھندوستانی مہاجر اشرافیہ ' پنجاب کے جنوبی علاقے اور سندھ کے دیہی علاقے کی عربی نزاد اشرافیہ ‘ بلوچستان کے بلوچ علاقے ‘ پنجاب کے جنوبی علاقے اور سندھ کے دیہی علاقے کی بلوچ اشرافیہ ‘خیبر پختونخوا کے پختون علاقے ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' شمالی پنجاب اور وسطی پنجاب کی پٹھان اشرافیہ کے سپرد کرنا پڑا۔

اس وقت پاکستان کا وزیرِ اعظم پنجاب کا رھنے والا پٹھان ھے۔ پاکستان کا صدر کراچی کا رھنے والا مھاجر ھے۔ پاکستان کی سینٹ کا چیئرمین بلوچستان کا رھنے والا بلوچ ھے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا اسپیکر خیبر پختونخوا کا رھنے والا پٹھان ھے۔ پاکستان کی سینٹ کا ڈپٹی چیئرمین سندھ کا رھنے والا مھاجر ھے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر بلوچستان کا رھنے والا پٹھان ھے۔ خیبر پختونخوا کا گورنر پٹھان ھے۔ خیبر پختونخوا کا وزیرِ اعلیٰ پٹھان ھے۔ خیبر پختونخوا کا اسپیکر پٹھان ھے۔ خیبر پختونخوا کا ڈپٹی اسپیکر پٹھان ھے۔ بلوچستان کا گورنر اور ڈپٹی اسپیکر پٹھان ھے۔ بلوچستان کا گورنر پٹھان ھے۔ سندھ کا گورنر مھاجر ھے۔ سندھ کا وزیرِ اعلیٰ عربی نزاد ھے۔ سندھ اسمبلی کا اسپیکر پٹھان ھے۔ پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بلوچ ھے۔

ایک بار پھر سے پنجاب کے پنجابی ' خیبر پختونخوا کے ھندکو اور پنجابی ' بلوچستان کے براھوئی اور پنجابی ' سندھ کے سماٹ اور پنجابی ' کراچی کے پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی پر کراچی کی ھندوستانی مھاجر اشرافیہ ' خیبر پختونخوا کے پختون علاقے ' بلوچستان کے پشتون علاقے ' شمالی پنجاب اور وسطی پنجاب کی پٹھان اشرافیہ ' بلوچستان کے بلوچ علاقے ‘ پنجاب کے جنوبی علاقے اور سندھ کے دیہی علاقے کی بلوچ اشرافیہ ' جنوبی پنجاب اور سندھ کی عربی نزاد اشرافیہ کا سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی تسلط قائم ھے۔ پنجابی ھی نہیں بلکہ سماٹ ‘ براھوئی ‘ ھندکو بھی پاکستان کے وفاقی اور صوبائی اقتدار و اختیار سے باھر ھیں۔

Thursday, 20 June 2019

پاکستان قائم ھوتے ھی پنجابیوں کو سیاسی و سماجی اپاھج کیسے بنایا گیا؟

پاکستان کے قائم ھونے کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی آبادی بنگالی ھونی تھی اور دوسری بڑی آبادی پنجابی ھونی تھی۔ اس لیے پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کا گورنر جنرل بنگالی کو بننا چاھیے تھا جبکہ وزیرِ اعظم پنجابی ھونا چاھیے تھا۔ لیکن 15 اگست کو پاکستان کے قیام کے اعلان سے ایک دن پہلے ھی ٹھٹھہ کے علاقے جھرک میں پیدا ھونے والے سندھی خوجے جناح پونجا کے بیٹے محمد علی نے ' جسے قائد اعظم بھی کہا جاتا تھا ' 14 اگست کو پاکستان کے گورنر جنرل کا حلف اٹھا لیا اور اترپردیش سے کراچی پہنچ جانے والے اردو بولنے والے ھندوستانی لیاقت علی خاں کو پاکستان کا وزیرِ اعظم بنا کر سندھ میں پاکستان کے قیام کا جشن منانا شروع کردیا۔ جبکہ پنجاب میں پنجابی پنجاب کی تقسیم کا اعلان ھو جانے کی وجہ سے ایک دوسرے کی لاشیں گرا رھے تھے اور پنجاب کے علاقوں کی بھارت اور پاکستان میں بندر باٹ کا انتظار کر رھے تھے۔

17 اگست 1947 کو پنجاب کی تقسیم ھوجانے کی وجہ سے مسلمان پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کو ' جو سارے پنجاب میں آپس میں مل جل کر رھتے تھے ' پنجاب کے مسلم اور غیر مسلم قرار دیے جانے والے علاقوں میں نقل مکانی شروع کرنا پڑی۔ جسکی وجہ سے مزید مار دھاڑ ' لوٹ مار اور قتل و غارتگری کا سلسلہ شروع ھوا اور اگست سے لیکر دسمبر 1947 تک 20 لاکھ پنجابی مارے گئے۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی قتل و غارتگری قرار دی جاتی ھے۔ جبکہ 2 کروڑ پنجابیوں نے نقل مکانی کی۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی نقل مکانی قرار دی جاتی ھے۔ سندھی محمد علی جناح نے پاکستان بنانے کے لیے پنجاب تقسیم کروا دیا۔ 20 لاکھ پنجابی مروا دیے۔ 2 کروڑ پنجابی بے گھر کروا دیے۔ پنجاب میں پنجابیوں کی سیاسی پارٹی یونینسٹ کو ھرانے اور آل انڈیا مسلم لیگ کو 1946 کا الیکشن جتوانے کے لیے سندھی محمد علی جناح نے پنجاب میں مذھبی نفرت کی جو آگ لگائی ' پنجابی قوم اب تک اس میں جل رھی ھے۔

پاکستان کے قائم ھونے کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی آبادی بنگالی تھی اور دوسری بڑی آبادی پنجابی تھی۔ اس لیے پاکستان کے قیام کے بعد مشرقی پاکستان کی سرکاری زبان تو بنگالی ھونی چاھیے تھی جبکہ مغربی پاکستان کی نہ سہی تو کم از کم پنجاب کی سرکاری زبان پنجابی ھونی چاھیے تھی۔ لیکن پاکستان کے سندھی گورنر جنرل قائدِ اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی عوام سے انکی اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے اور دفتری امور انجام دینے حتکہ پنجاب اسمبلی میں اپنی زبان میں بات کرنے کا حق بھی چھین لیا اور 21 مارچ 1948 کو رمنا ریس کورس ڈھاکہ میں سندھی محمد علی جناح نے انگریزی زبان میں تقریر کرتے ھوئے مشرقی پاکستان کی اکثریتی زبان بولنے والے بنگالیوں سے کہا کہ پاکستان کی سرکاری اور تعلیمی زبان اردو اور صرف اردو ھوگی اور اس بات کی مخالفت کرنے والے ملک دشمن تصور ھوں گے۔ اس لیے پاکستان کی سب سے بڑی آبادی بنگالی اور دوسری بڑی آبادی پنجابی کے لیے پاکستان میں اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے ' دفتری امور انجام دینے اور اپنی اپنی صوبائی اسمبلی میں اپنی اپنی زبان میں بات کرنے کے بجائے اردو کو استعمال کرنا قانونی حکم بن گیا جس کی خلاف ورزی جرم قرار پائی۔

پاکستان کے اردو بولنے والے ھندوستانی وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے مزید اقدامات کرتے ھوئے گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دیکر مشرقی پاکستان کی ثقافت اور مغربی پاکستان کی اصل قوموں کی وادیء سندھ کی ثقافت کی جگہ اتر پردیش کی ثقافت کو فروغ دیکر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے سماجی گرفت مظبوط کرنے کی راہ بھی ھموار کردی۔ جبکہ پاکستان کا دارالحکومت کراچی میں ھونے لیکن مغربی پاکستان کے خطے کی سب سے بڑی قوم پنجابی کے ھونے کی وجہ سے پنجابی قوم کو حکومتی طور بھی بے بس اور اپنے تسلط میں رکھنے کے لیے 25 جنوری 1949 کو پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کے بعد ژوب میں پیدا ھونے والے ' پشاور میں رھائش پذیر اور علیگڑہ کے پڑھے ھوئے ایک کاکڑ پٹھان سردار عبدالرب نشتر کو پنجاب کا گورنر نامزد کرکے پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے سیاسی گرفت مظبوط کرنے کی راہ بھی ھموار کردی۔

پاکستان پر حکومتی گرفت ھونے کی وجہ سے پاکستان کی سب سے بڑی لسانی آبادی بنگالی اور پاکستان کی دوسری بڑی لسانی آبادی پنجابی پر اپنی سماجی اور سیاسی گرفت مظبوط کرنے کے بعد پاکستان کے اردو بولنے والے ھندوستانی وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے اتر پردیش میں واقع علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان مغربی پاکستان لاکر پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا کر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے لیے انتظامی گرفت مظبوط کرنے کی راہ ھموار کردی۔ لہٰذا اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی پاکستان میں سماجی ' سیاسی ' انتظامی گرفت مظبوط ھونے کی وجہ سے پاکستان کی حکومت کے اداروں ' پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی صحافت پر دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل یوپی ' سی پی کے سرکاری ملازم افسروں اور کلرکوں ' سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا غلبہ ھوگیا۔

پنجاب تقسیم ھوجانے اور 20 لاکھ پنجابی مارے جانے جانے جبکہ 2 کروڑ پنجابی بے گھر ھو جانے کی وجہ سے پنجابیوں کے تباہ و برباد ھوجانے ' پاکستان کا گورنر سندھی کے بن جانے ' پاکستان کا وزیرِ اعظم ھندوستانی مھاجر کے بن جانے ' پاکستان کی سرکاری اور تعلیمی زبان اردو ھو جانے اور مخالفت پر ملک دشمن تصور ھونے ' گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دے دینے ' پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کے بعد ایک پٹھان کو پنجاب کا گورنر نامزد کردینے ' علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان مغربی پاکستان لاکر حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا دینے کے بعد پاکستان میں پنجابیوں کا یہ حال تھا کہ؛ نہ تو پنجابیوں کے مفاد کے برخلاف پنجاب کی تقسیم ' 20 لاکھ پنجابیوں کے مارے جانے اور 2 کروڑ پنجابیوں کے بے گھر ھوجانے کے بارے میں کسی سے بات کرنے کے قابل تھے۔ نہ پاکستان کا گورنر بنگالی کو نہ بنانے اور پاکستان کا وزیرِ اعظم پنجابی کو نہ بنانے کی بات کرنے کے قابل تھے۔ نہ پنجاب کی سرکاری اور تعلیمی زبان پنجابی قرار دینے کی بات کرنے کے قابل تھے۔ نہ گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دینے کی مخالفت کرنے کے قابل تھے۔ نہ پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرکے پٹھان کو پنجاب کا گورنر نامزد کرنے کی مخالفت کرنے کے قابل تھے۔ نہ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان مغربی پاکستان لاکر حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا کر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی انتظامی گرفت مظبوط کرنے کی مخالفت کرنے کے قابل تھے۔ بلکہ پنجابی آئندہ کئی نسلوں تک کے لیے سیاسی و سماجی اپاھج بن چکے تھے۔

پنجابی نیشنلسٹ فورم کا مشن اور کام کرنے کا طریقہ۔


کسی بھی ملک میں قوموں کے درمیان سماجی ھم آھنگی پیدا کیے بغیر ملک کے انتظامی معاملات درست طریقے سے انجام نہیں دیے جاسکتے۔ جسکی وجہ سے ملک میں معاشی بحران رھتا ھے اور اقتصادی ترقی نہیں کرپاتا۔ پاکستان کے قیام سے لیکر پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے سیاسی منشور کے بجائے شخصی بنیادوں پر منظم ھونے اور پاکستان پر آمرانہ حکومتوں کی وجہ سے پاکستان کی عوام میں سماجی ھم آھنگی پیدا نہیں ھوپائی۔ لہٰذا پاکستان کی عوام سیاسی نظریات کے بجائے لسانی بنیادوں پر سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رھتی ھے۔ اس لیے پاکستان میں بنیادی مسئلہ اردو زبان اور پنجابی زبان کا ھے۔ جسکی وجہ سے پنجابیوں کا بنیادی تنازعہ بھی یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے ساتھ ھے۔ پنجابیوں کا پٹھانوں اور بلوچوں کے ساتھ تنازعہ ثانوی نوعیت کا ھے۔ جبکہ سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی مظلوم قومیں ھیں۔

پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی ھے۔ پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' تجارت ' صنعت ' صحافت اور سیاست میں بالاتر کردار پنجابیوں کا ھے۔ لہذا پنجابی قوم کا اور خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ سے ریٹارڈ ھونے والے پنجابیوں ' بیوروکریسی سے ریٹارڈ ھونے والے پنجابیوں ' پنجابی تاجروں ' پنجابی صنعتکاروں ' پنجابی صحافیوں اور پنجابی سیاستدانوں کا بنیادی فرض اور اخلاقی ذمہ داری ھے کہ؛

1۔ کراچی میں پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی کو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر دراندازوں اور قبضہ گیروں کے سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط سے نجات دلوائے۔ جو اب خود کو مھاجر کہلواتے ھیں۔

2۔ خیبر پختونخوا کے پختون علاقے میں ھندکو قوم کو اور پنجابی ' چترالی ' سواتی کو سماجی ' معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کرکے افغانی دراندازوں اور قبضہ گیروں کے سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط سے نجات دلوائے۔ جو اب خود کو پٹھان کہلواتے ھیں۔

3۔ بلوچستان کے پشتون علاقے میں براھوئی قوم کو اور پنجابی ' سماٹ ' ھندکو کو سماجی ' معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کرکے افغانی دراندازوں اور قبضہ گیروں کے سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط سے نجات دلوائے۔ جو اب خود کو پٹھان کہلواتے ھیں۔

4۔ جنوبی پنجاب میں پنجابیوں کو اور ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی ' ڈیرہ والی پنجابی کو سماجی ' معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کرکے کردستانی دراندازوں اور قبضہ گیروں کے سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط سے نجات دلوائے۔ جو اب خود کو بلوچ کہلواتے ھیں۔

5۔ بلوچستان میں براھوئی قوم کو اور بلوچستان میں رھنے والے پنجابی ' سماٹ ' ھندکو کو سماجی ' معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کرکے کردستانی دراندازوں اور قبضہ گیروں کے سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط سے نجات دلوائے۔ جو اب خود کو بلوچ کہلواتے ھیں۔

6۔ سندھ میں سماٹ قوم کو اور سندھ میں رھنے والے پنجابی ' براھوئی ' گجراتی ' راجستھانی کو سماجی ' معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کرکے دیہی سندھ میں کردستانی دراندازوں اور قبضہ گیروں کے سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط سے نجات دلوائے۔ جو اب خود کو بلوچ کہلواتے ھیں۔

پنجابی نیشنلسٹ فورم کراچی زون اور وسطی پنجاب زون کی جدوجہد کیا ھے؟

ھندوستانی مھاجر پاکستان بھر میں صرف کراچی کے دو اضلاع وسطی و کورنگی اور ضلع حیدرآباد کی دو تحصیلوں حیدرآباد و لطیف آباد میں اکثریت میں ھیں۔ لیکن اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان قرار دلوا کر اردو زبان کے تسلط کی وجہ سے پاکستان کے قیام سے لیکر نہ صرف سندھ بلکہ سارے پاکستان پر اپنی سیاسی اجارہ داری قائم کرکے پاکستان کی پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ قوموں پر راج کرتے رھے ھیں۔ جبکہ وسطی پنجاب کے علاقے میں پنجابی زبان کے بجائے اردو زبان اور پنجابی ثقافت کے بجائے گنگا جمنا کی ثقافت کو فروغ دے کر وسطی پنجاب کے علاقے میں اردو زبان اور گنگا جمنا کی ثقافت کا تسلط قائم کیا ھوا ھے۔

پنجابی نیشنلسٹ فورم کراچی زون جناب Saleem Ilyas صاحب کی رھنمائی میں کراچی میں پنجابیوں کو منظم کرنے کے بعد کراچی کے سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی کے ساتھ اپنا اشتراک قائم کرنے کے بعد کراچی میں مستقل رھنے والے پٹھان اور بلوچ کو بھی اس اشتراک میں شامل کرے گا اور کراچی میں پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ کو ھندوستانی مھاجر کی سیاسی اجارہ داری سے نجات دلوائے گا۔ جبکہ پنجابی نیشنلسٹ فورم وسطی پنجاب زون جناب Nadeem Ahmed Punjabi صاحب کی رھنمائی میں وسطی پنجاب میں پنجابی زبان کو فروغ دے کر اردو زبان کے تسلط سے پنجابی زبان کو نجات دلوائے گا۔ پنجابی ثقافت کو فروغ دے کر گنگا جمنا کی ثقافت کے تسلط سے پنجابی ثقافت کو نجات دلوائے گا۔

کراچی میں پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ کے ھندوستانی مھاجر کی سیاسی اجارہ داری سے نجات حاصل ھونے اور وسطی پنجاب کے پنجابی کے اردو زبان اور گنگا جمنا کی ثقافت کے تسلط سے نجات پانے سے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر کی پاکستان پر سیاسی اجارہ داری ختم ھوسکے گی۔ جبکہ پاکستان میں پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت کے علاوہ سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ کی زبان اور ثقافت کو بھی فروغ پانے کا موقع مل سکے گا۔ پنجابی نیشنلسٹ فورم سندھ زون کے زونل آرگنائزر جناب Iqbal Maher صاحب ' جنوبی پنجاب زون کے زونل آرگنائزر جناب DrJamil Arain صاحب ' شمالی پنجاب زون کے زونل آرگنائزر جناب Rajpoot Zulfiqar صاحب ' بلوچستان بلوچ ایریا زون کے زونل آرگنائزر جناب Mansoor Ahmad صاحب ' بلوچستان پشتون ایریا زون کے زونل آرگنائزر جناب Sheraz Rajpoot صاحب ' خیبرپختونخوا زون کی طرف سے اس مشن میں پنجابی نیشنلسٹ فورم کراچی زون اور وسطی پنجاب زون کو ھر طرح کی مدد فراھم کی جائے گی۔

پٹھان ' پاکستان بھر میں صرف خیبر پختونخوا کے پختون علاقے ' بلوچستان کے پشتون علاقے میں اکثریت میں ھیں۔ لیکن خیبر پختونخوا کے پختون علاقے میں جتنے پنجابی ھیں ‘ اس سے زیادہ پختون پنجاب میں ھیں۔ بلوچستان کے پشتون علاقے میں جتنے پنجابی ھیں ‘ اس سے زیادہ پشتون پنجاب میں ھیں۔ پنجاب میں انہیں پٹھان کہا جاتا ھے۔ یہ پٹھان پنجاب سے سیاسی جماعتوں کے مرکزی اور صوبائی صدر ‘ مرکزی اور صوبائی جنرل سیکرٹری ' پنجاب اسمبلی کے ممبر ' پنجاب سے قومی اسمبلی کے ممبر ' پنجاب سے صوبائی وزیر اور صوبائی مشیر ' پنجاب سے مرکزی وزیر اور مرکزی مشیر ' پنجاب سے پاکستان کا صدر ‘ پاکستان کا وزیر اعظم ‘ پنجاب کا گورنر ‘ پنجاب کا وزیر اعلیٰ بھی بنے۔ اس وقت بھی پاکستان کا وزیرِ اعظم پنجاب میں رھنے والا پٹھان ھے۔

پنجابی نیشنلسٹ فورم بلوچستان پشتون ایریا زون جناب Sheraz Rajpoot صاحب کی رھنمائی میں بلوچستان پشتون ایریا میں پنجابیوں کو منظم کرنے کے بعد بلوچستان پشتون ایریا کے براھوئی ' سماٹ ' ھندکو کے ساتھ اپنا اشتراک قائم کرنے کے بعد بلوچستان پشتون ایریا میں مستقل رھنے والے بلوچ کو بھی اس اشتراک میں شامل کرے گا اور بلوچستان پشتون ایریا میں پنجابی ' براھوئی ' سماٹ ' ھندکو ' بلوچ کو پٹھانوں کی سیاسی اجارہ داری سے نجات دلوائے گا۔ پنجابی نیشنلسٹ فورم خیبرپختونخوا پختون ایریا زون ' خیبرپختونخوا پختون ایریا میں پنجابیوں کو منظم کرنے کے بعد خیبرپختونخوا پختون ایریا کے ھندکو پنجابی ' چترالی ' سواتی کے ساتھ اپنا اشتراک قائم کرنے کے بعد خیبرپختونخوا پختون ایریا میں مستقل رھنے والے دوسرے قبائل کو بھی اس اشتراک میں شامل کرے گا اور خیبرپختونخوا پختون ایریا میں پنجابی ' ھندکو پنجابی ' چترالی ' سواتی و دیگر قبائل کو پٹھانوں کی سیاسی اجارہ داری سے نجات دلوائے گا۔ جبکہ پنجابی نیشنلسٹ فورم شمالی پنجاب زون جناب Rajpoot Zulfiqar صاحب کی رھنمائی میں شمالی پنجاب کے راولپنڈی ڈویژن میں پوٹھوھاری پنجابی ' ھزارہ ڈویژن میں ھندکو پنجابی ' کشمیر میں پہاڑی پنجابی کو پنجابی زبان کے لہجے ھونے کی وجہ سے پنجابی زبان کی بنیاد پر ھم آھنگ کرکے شمالی پنجاب میں پنجابی زبان کو فروغ دے کر پنجابیوں کو شمالی پنجاب میں پنجابی قوم کی بنیاد پر متحد کرکے شمالی پنجاب میں پنجابیوں پر پٹھانوں کے بڑھتے ھوئے تسلط کو روکنے کی جدوجہد کرے گا۔ پنجابی نیشنلسٹ فورم شمالی پنجاب زون ' کراچی زون ' جنوبی پنجاب زون ' سندھ زون ' بلوچستان بلوچ ایریا زون کی طرف سے اس مشن میں پنجابی نیشنلسٹ فورم بلوچستان پشتون ایریا زون ' خیبرپختونخوا زون ' شمالی پنجاب زون کو ھر طرح کی مدد فراھم کی جائے گی۔


پنجابی نیشنلسٹ فورم بلوچستان بلوچ ایریا ' جنوبی پنجاب ' سندھ زون کی جدوجہد کیا ھے؟

بلوچ ' پاکستان بھر میں صرف بلوچستان کے بلوچ علاقے ' جنوبی پنجاب اور سندھ میں اکثریت میں ھیں۔ لیکن بلوچستان کے بلوچ علاقے میں جتنے پنجابی ھیں ‘ اس سے زیادہ بلوچ پنجاب میں ھیں۔ یہ بلوچ پنجاب سے سیاسی جماعتوں کے مرکزی اور صوبائی صدر ‘ مرکزی اور صوبائی جنرل سیکرٹری ' پنجاب اسمبلی کے ممبر ' پنجاب سے قومی اسمبلی کے ممبر ' پنجاب سے صوبائی وزیر اور صوبائی مشیر ' پنجاب سے مرکزی وزیر اور مرکزی مشیر ' پنجاب سے پاکستان کا صدر ‘ پاکستان کا وزیر اعظم ‘ پنجاب کا گورنر ‘ پنجاب کا وزیر اعلیٰ بھی بنے۔ اس وقت بھی پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ پنجاب میں رھنے والا بلوچ ھے۔

پنجابی نیشنلسٹ فورم بلوچستان بلوچ ایریا زون جناب Mansoor Ahmad صاحب کی رھنمائی میں بلوچستان بلوچ ایریا میں پنجابیوں کو منظم کرنے کے بعد بلوچستان بلوچ ایریا کے براھوئی ' سماٹ ' ھندکو کے ساتھ اپنا اشتراک قائم کرے گا اور بلوچستان بلوچ ایریا میں پنجابی ' براھوئی ' سماٹ ' ھندکو کو بلوچ کی سیاسی اجارہ داری سے نجات دلوائے گا۔ پنجابی نیشنلسٹ فورم جنوبی پنجاب زون جناب DrJamil Arain صاحب کی رھنمائی میں جنوبی پنجاب میں پنجابیوں کو منظم کرکے جنوبی پنجاب میں ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی کو پنجابی زبان کے لہجے ھونے کی وجہ سے پنجابی زبان کی بنیاد پر ھم آھنگ کرکے جنوبی پنجاب میں پنجابی زبان کو فروغ دے کر پنجابیوں کو جنوبی پنجاب میں پنجابی قوم کی بنیاد پر متحد کرکے جنوبی پنجاب میں پنجابیوں پر بلوچوں کے بڑھتے ھوئے تسلط کو روکنے کی جدوجہد کرے گا۔ جبکہ پنجابی نیشنلسٹ فورم سندھ زون جناب Iqbal Maher صاحب کی رھنمائی میں سندھ میں پنجابیوں کو منظم کرنے کے بعد سندھ کے سماٹ ' براھوئی ' گجراتی ' راجستھانی کے ساتھ اپنا اشتراک قائم کرے گا اور سندھ میں پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' گجراتی ' راجستھانی کو بلوچ کی سیاسی اجارہ داری سے نجات دلوائے گا۔

بلوچستان بلوچ ایریا میں براھوئی ' پنجابی ' سماٹ ' ھندکو کے بلوچ کی سیاسی اجارہ داری سے نجات حاصل کرنے ' جنوبی پنجاب میں ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی کے بلوچ کی سیاسی اجارہ داری سے نجات حاصل کرنے اور سندھ میں سماٹ ' پنجابی ' براھوئی ' گجراتی ' راجستھانی کے بلوچ کی سیاسی اجارہ داری سے نجات حاصل کرنے سے بلوچستان بلوچ ایریا ' جنوبی پنجاب اور سندھ پر بلوچ کی سیاسی اجارہ داری ختم ھوسکے گی۔ جبکہ بلوچستان بلوچ ایریا میں بلوچ کی "آزاد بلوچستان" سازش ' جنوبی پنجاب میں بلوچ کی "سرائیکی" سازش ' سندھ میں بلوچ کی "سندھودیش" سازش کا خاتمہ ھوسکے گا۔ پنجابی نیشنلسٹ فورم وسطی پنجاب زون کے زونل آرگنائزر جناب Nadeem Ahmed Punjabi  صاحب ' شمالی پنجاب زون کے زونل آرگنائزر جناب Rajpoot Zulfiqar صاحب ' کراچی زون کے زونل آرگنائزر جناب Saleem Ilyas صاحب ' بلوچستان پشتون ایریا زون کے زونل آرگنائزر جناب Sheraz Rajpoot صاحب ' خیبرپختونخوا زون کی طرف سے اس مشن میں پنجابی نیشنلسٹ فورم بلوچستان بلوچ ایریا زون ' جنوبی پنجاب زون اور سندھ زون کو ھر طرح کی مدد فراھم کی جائے گی۔

Wednesday, 19 June 2019

سماٹ سندھی کو سندھ کا چیف منسٹر بنانے کا اصول طے کرلیا جائے۔

سندھ میں پنجابیوں کی بہت بڑی تعداد رھتی ھے جن کے ساتھ سماجی ' سیاسی ' معاشی اور انتظامی معاملات میں انتہائی نامناسب سلوک ھو رھا ھے۔ بلکہ اب تک اس ابہام کو بھی طے نہیں کیا جارھا کہ سندھ میں رھنے والے پنجابی کی حیثیت کیا ھے؟

سندھ میں ' سندھ کی مجموعی آبادی کے مطابق تو سندھی پہلے ' مہاجر دوسرے ' پنجابی تیسرے اور پٹھان چوتھے نمبر پر ھیں لیکن کراچی میں مہاجر پہلے ' پنجابی دوسرے ' پٹھان تیسرے اور سندھی چوتھے نمبر پر ھیں جبکہ اندرون سندھ ' سندھی پہلے ' پنجابی دوسرے ' مہاجر تیسرے اور پٹھان چوتھے نمبر پر ھیں۔

سندھ میں رھنے والا پنجابی نہ صرف سندھی بولتا بلکہ پڑھتا لکھتا بھی ھے لیکن اس کو سندھی تسلیم ھی نہیں کیا جاتا اور نہ ھی برابری کے حقوق دیے جاتے ھیں جبکہ اردو بولنے والا مھاجر نہ تو سندھی لکھنا پڑھنا پسند کرتا ھے اور نہ ھی سندھی بولنا ' لیکن اس کے باوجود کسی سندھی کو اردو بولنے والے مھاجر کے سامنے بات کرنے کی ھمت تک نہیں ھوتی ۔ یہ اردو بولنے والا ھندوستانی مھاجر سندھ کے تمام بڑے بڑے شھروں پر مکمل طور پر قابض ھے۔ سیاست’ صحافت’ صنعت’ تجارت’ سرکاری عھدوں اور تعلیمی مراکز پر ان کا مکمل کنٹرول ھے۔ سندھ کی گورنرشپ ھمیشہ اس کے پاس ھوتی ھے اور سندھ کی کابینہ میں بھی آدھی نمائدگی لیتا ھے. وفاقی کابینہ اور سندھ کی سرکاری نوکریوں میں بھی سندھ کے حصہ کا ایک بڑا حصہ لے لیتا ھے لیکن سندھیوں کو رگڑا لگانا صرف سندھ کے پنجابی کو آتا ھے.

سندھ کے اصل باشندے سماٹ سندھی ھیں۔ جبکہ سندھ میں رھنے والے سید اور بلوچ خود کو تو سندھی قرار دیتے ھیں لیکن سندھ میں 1901 اور 1932 سے آباد پنجابی کو سندھی تسلیم کرکے سماجی ' سیاسی ' معاشی اور انتظامی معاملات میں برابری کا حق دینے کی مخالفت کرتے ھیں۔ حالانکہ سندھ میں رھنے والے پنجابی اپنے نام کے ساتھ پنجابی کا لفظ تک نہیں لگاتے جبکہ بلوچ اور سید اپنے نام کے ساتھ لفظ بلوچ اور سید ضرور لکھتے ھیں۔ لیکن پھر بھی پنجابی کو تو نہ سندھی تسلیم کیا جاتا ھے اور نہ برابر کے حقوق دیے جاتے ھیں۔ جبکہ بلوچ اور سید کو سماٹ سندھی نہ صرف سندھی تسلیم کرتے ھیں بلکہ دیہی سندھ پر کنٹرول بھی بلوچ اور سید کا ھی ھے۔ سماٹ سندھی کو بلوچ اور سید کے ساتھ آنکھیں ملا کر بات کرنے کی ھمت تک نہیں.

بحرحال اب سندھیوں کے ساتھ پنجاب کے تعلقات کا انحصار سندھ میں رھنے والے پنجابیوں کے ساتھ ھونے والے سلوک سے منسلک ھے اسلیے سندھیوں کو جلد از جلد طے کرنا چاھیئے کہ سندھی کون ھے اور سندھی کون نہیں ھے؟

سندھ چونکہ پنجاب کا پڑوسی ھے اس لیے پنجابیوں کو معلوم ھونا چاھیئے کہ سندھ کا اصل وارث کون ھے تاکہ بین الصوبائی معاملات اور قوموں کے باھمی تعلقات کے مطلق پالیسی بناتے وقت پنجابیوں کو آسانی ھو۔

سندھ کے سماٹ سندھی ھی اس معاملے میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ھیں لیکن سندھ کے سماٹ سندھی کو بھی سندھ پر قابض سید اور بلوچ نے قوت فیصلہ سے محروم کیا ھوا ھے۔

سندھ میں ' سندھ کا چیف منسٹر سماٹ سندھی کو بنانے کا اصول طے کرلیا جائے تو سندھ میں سماٹ سندھی جو کہ سندھ کا اصل مالک ھے ' اس قابل ھو سکتا ھے کہ سندھ میں سندھی کون ھے اور سندھی کون نہیں ھے کا معاملہ طے کرپائے۔

Sunday, 16 June 2019

پاکستان پنجابی اسٹیٹ ھے تو اقتدار و اختیار پنجابی کے پاس کیوں نہیں ھے؟

پاکستان میں پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کے علاوہ سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی بھی رھتے ھیں۔ لیکن پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر پاکستان کو پنجابی اسٹیٹ قرار دیتے رھتے ھیں۔ پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھونے کی وجہ سے ظاھر ھے کہ؛ پاکستان پنجابی اسٹیٹ ھی ھے۔ اس لیے پاکستان کو پنجابی اسٹیٹ کہے جانے پر پنجابیوں کو شرمندہ ھونے یا ندامت محسوس کرنے کے بجائے فخر کا اظہار کرنا چاھیے۔ لیکن پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کا پاکستان کو پنجابی اسٹیٹ قرار دینے کا انداز پنجابیوں کی تذلیل اور توھین کرنے والے انداز میں ھوتا ھے۔ پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر پنجاب ' پنجابی ' پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پنجابی بیوروکریسی ' پنجابی فوج کہہ کہہ کر اور جھوٹے الزامات لگا لگا کر پنجابیوں کی تذلیل اور توھین کرتے رھتے ھیں۔

پاکستان کو پنجابی اسٹیٹ قرار دینے کی حکمت علمی اختیار کرکے پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر دراصل پنجابی قوم کو بلیک میل کرتے ھیں۔ پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کی طرف سے پاکستان کو پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کا ملک قرار دے کر اور ھندوستانی مھاجر کو پاکستان کی پانچویں قوم قرار دے کر پنجابیوں کو بلیک میل کیا جاتا ھے کہ پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر سے بلیک میل نہ ھونے کی صورت میں پٹھان خیبرپختونخوا کو "آزاد پختونستان" بنالیں گے۔ بلوچ بلوچستان کو "آزاد بلوچستان" بنالیں گے۔ ھندوستانی مھاجر کراچی کو "آزاد جناح پور" بنالیں گے۔ جبکہ پٹھان کے لیے "آزاد پختونستان" ' بلوچ کے لیے "آزاد بلوچستان" ' مھاجر کے لیے "آزاد جناح پور" بنانا عملی طور پر ناممکن ھے۔

پنجابیوں کو پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کی طرف سے پاکستان کو پنجابی اسٹیٹ قرار دینے پر اعتراض نہیں ھے۔ لیکن پاکستان کو پنجابی اسٹیٹ قرار دینے کی حکمت علمی اختیار کرکے پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کی طرف سے پنجابیوں کو بلیک میل کرکے پاکستان کے اقتدار و اختیار پر قابض ھوتے رھنے پر اعتراض ھے۔ جب پاکستان پنجابی اسٹیٹ ھے تو پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک پاکستان کا اقتدار و اختیار پنجابیوں کے پاس کیوں نہیں رھتا؟ پاکستان کا اقتدار و اختیار پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کے پاس کیوں رھتا ھے؟ بلکہ پاکستان کی مظلوم قوموں سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی کو بھی پاکستان میں صوبائی اور وفاقی سطح کے اقتدار و اختیار میں ان کا جائز حق کیوں نہیں دیا جاتا؟

اس وقت بھی پاکستان کی صورتحال یہ ھے کہ؛ پاکستان کا وزیرِ اعظم پنجاب کا رھنے والا پٹھان ھے۔ پاکستان کا صدر کراچی کا رھنے والا مھاجر ھے۔ پاکستان کی سینٹ کا چیئرمین بلوچستان کا رھنے والا بلوچ ھے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا اسپیکر خیبر پختونخوا کا رھنے والا پٹھان ھے۔ پاکستان کی سینٹ کا ڈپٹی چیئرمین سندھ کا رھنے والا مھاجر ھے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر بلوچستان کا رھنے والا پٹھان ھے۔ خیبر پختونخوا کا گورنر پٹھان ھے۔ خیبر پختونخوا کا وزیرِ اعلیٰ پٹھان ھے۔ خیبر پختونخوا کا اسپیکر پٹھان ھے۔ خیبر پختونخوا کا ڈپٹی اسپیکر پٹھان ھے۔ بلوچستان کا گورنر اور ڈپٹی اسپیکر پٹھان ھے۔ بلوچستان کا گورنر پٹھان ھے۔ سندھ کا گورنر مھاجر ھے۔ سندھ کا وزیرِ اعلیٰ عربی نزاد ھے۔ سندھ اسمبلی کا اسپیکر پٹھان ھے۔ پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بلوچ ھے۔ پاکستان کا وفاقی سطح کا ھی نہیں بلکہ صوبائی اقتدار و اختیار بھی پٹھان ' بلوچ ' مھاجر کے پاس ھے۔ پنجابی ھی نہیں بلکہ سماٹ ' براھوئی ' ھندکو بھی پاکستان کے وفاقی اور صوبائی اقتدار و اختیار سے باھر ھیں۔

پاکستان میں پنجابی وسطی پنجاب ' شمالی پنجاب ' جنوبی پنجاب ' سندھ ' کراچی ' بلوچستان بلوچ ایریا ' بلوچستان پشتون ایریا ' خیبرپختونخوا میں بھی رھتے ھیں لیکن پاکستان میں پنجابیوں کی اکثریت کا علاقہ وسطی پنجاب ھے اور وسطی پنجاب کے پنجابیوں کو چونکہ پاکستان کی ڈیموگرافی کا معلوم نہیں ھے۔ اس لیے وسطی پنجاب کے پنجابیوں کو نہ صرف پنجاب سے باھر رھنے والے پنجابیوں کی آبادی کا معلوم نہیں ھے۔ جوکہ ھر علاقے میں دوسری بڑی آبادی ھے۔ بلکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ پاکستان دراصل پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کا نہیں بلکہ پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو کا ملک ھے۔ اس لیے پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر سے بلیک میل ھوتے رھتے ھیں۔

وسطی پنجاب ' شمالی پنجاب ' جنوبی پنجاب تو پنجابیوں ھی کے علاقے ھیں لیکن سندھ کا علاقہ سماٹ کا ھے جہاں بلوچوں اور عربی نزادوں نے قبضہ کیا ھوا ھے۔ کراچی میں پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی اور پٹھان و بلوچ بھی رھائش پذیر ھیں لیکن کراچی میں ھندوستانی مھاجر نے قبضہ کیا ھوا ھے۔ بلوچستان کا بلوچ ایریا براھوئی کا ھے جہاں بلوچ نے قبضہ کیا ھوا ھے۔ بلوچستان کا پشتون ایریا براھوئی کا ھے جہاں پشتون نے قبضہ کیا ھوا ھے۔ خیبرپختونخوا کا علاقہ ھندکو کا ھے جہاں پختون نے قبضہ کیا ھوا ھے۔ اس لیے پٹھان خیبرپختونخوا کو "آزاد پختونستان" ' بلوچ بلوچستان کو "آزاد بلوچستان" ' ھندوستانی مھاجر کراچی کو "آزاد جناح پور" کیسے بناسکتے ھیں؟ 

پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر جب خود تسلیم کرتے ھیں کہ؛ پاکستان پنجابی اسٹیٹ ھے تو پھر پاکستان کا اقتدار و اختیار بھی پنجابی کے پاس ھونا چاھیے۔ تاکہ پنجابی نہ صرف پاکستان کی ظالم قوموں پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کو اپنے ھاتھ سے پاکستان کے اقتدار و اختیار میں ان کا جائز حق دے۔ بلکہ پاکستان کی مظلوم قوموں سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی کے لیے بھی پاکستان کے اقتدار و اختیار میں ان کا جائز حق یقینی بنائے اور خود اپنے ھاتھ سے ان کے حقوق انہیں دے۔ تاکہ پاکستان میں سماجی انصاف قائم ھو۔ انتطامی ماحول بہتر ھو۔ معاشی آسودگی پیدا ھو۔ اقتصادی ترقی ھو۔ اس سے پاکستان کی عوام میں خوشحالی بڑھے گی اور پاکستان مظبوط ملک بنے گا۔