Sunday 30 June 2019

پٹھانوں کو پاکستان دشمن عناصر کا آلہء کار نہیں بننا چاھیے۔

افغانستان ' پاکستان اور دیگر ممالک میں افغانیوں ' پختونوں ' پشتونوں اور پٹھانوں کی کل آبادی 5 کروڑ 4 لاکھ 50 ھزار ھے۔ افغانستان کی 3 کروڑ 25 لاکھ آبادی میں سے افغانیوں کی آبادی ایک کروڑ 36 لاکھ 50 ھزار تھی۔ جبکہ ایک کروڑ 88 لاکھ 50 ھزار آبادی میں سے 87 لاکھ 75 ھزار تاجک ' 29 لاکھ 25 ھزار ازبک ' 26 لاکھ ھزارہ ' 13 لاکھ ایمک ' 9 لاکھ 75 ھزار ترکمان تھے۔ لیکن 30 لاکھ افغانیوں کے پاکستان اور 6 لاکھ 50 ھزار افغانیوں کے ایران اور دیگر ممالک میں چلے جانے کی وجہ سے اب افغانستان میں صرف ایک کروڑ افغانی بچے ھیں۔

فاٹا میں 50 لاکھ اور خیبر پختونخوا میں 2 کروڑ 34 لاکھ 50 ھزار پختون رھتے ھیں۔ بلوچستان میں 44 لاکھ پشتون رھتے ھیں۔ اسلام آباد میں 4 لاکھ ' پنجاب میں 20 لاکھ ' سندھ میں 3 لاکھ 50 ھزار اور کراچی میں 22 لاکھ پٹھان رھتے ھیں۔جبکہ 30 لاکھ افغانی فاٹا ' خیبر پختونخوا ' بلوچستان ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں بکھر چکے ھیں۔ یہ وقت گذرنے کے ساتھ پختون ' پشتون یا پٹھان بن جائیں گے۔ کیونکہ انہوں نے واپس افغانستان نہیں جانا۔ پاکستان میں پختونوں ' پشتونوں اور پٹھانوں کی 3 کروڑ 68 لاکھ آبادی جبکہ 30 لاکھ افغانیوں کی آبادی کو ملایا جائے تو پاکستان میں پختونوں ' پشتونوں ' پٹھانوں اور افغانیوں کی کل آبادی 3 کروڑ 98 لاکھ بنتی ھے۔

افغانستان کے ایک کروڑ افغانیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ افغانستان میں افغانیوں کی تعداد کم ھوجانے کی وجہ سے تاجک ' ھزارہ ' ایمک ' ازبک ' ترکمان نے افغانستان میں افغانیوں پر اپنا سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط قائم کیا ھوا ھے۔ فاٹا میں رھنے والے پختونوں کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ فاٹا میں معاشی وسائل نہیں ھیں۔ اور خیبر پختونخوا میں رھنے والے پختونوں کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ ایک تو معاشی طور پر مستحکم علاقوں پر ابھی تک ھندکو پنجابیوں کا کنٹرول ھے اور دوسرا ھندکو پنجابیوں کی پختونوں کو خیبر پختونخوا سے نکالنے کی جدوجہد میں روز با روز اضافہ ھوتا جارھا ھے۔ جبکہ خیبر پختونخوا کی 2 کروڑ 34 لاکھ 50 ھزار پختون قرار دی جانے والی آبادی میں سے بہت بڑی آبادی پختون نہیں ھے۔

خیبرپختونخوا صوبہ میں پشتو کے علاوہ 24 زبانیں بولی جاتی ھیں اوریہ ساری زبانیں یہاں کی تاریخی اور آبائی زبانیں ھیں۔ مرکزی پشاور اور ھزارہ میں ھندکو پنجابی بولی جاتی ھے۔ جنوبی ضلعوں میں ڈیرہ والی پنجابی بولی جاتی ھے۔ چترال میں کھوار کے ساتھ ساتھ 11 اور زبانیں کلاشا ' پالولا ' گوارباتی ' دمیلی ' یدغا ' شیخانی وغیرہ بولی جاتی ھیں۔ ضلع کوھستان میں کوھستانی اور شینا زبانیں بولی جاتی ھیں۔ سوات کے کوھستان میں توروالی ' گاؤری اور اوشوجو بولی جاتی ھے۔ دیر کوھستان میں کلکوٹی اور گاؤری زبانیں بولی جاتی ھیں۔ لیکن انہیں 2017 میں ھونے والی مردم شماری میں زبردستی پشتو بولنے والا شمار کیا گیا ھے۔ خیبر پختونخوا کی 3 کروڑ 5 لاکھ آبادی میں خیبر پختونخوا کے تاریخی اور قدیمی باشندے ھندکو پنجابی کو 35 لاکھ ' ڈیرہ والی پنجابی کو 11 لاکھ 35 ھزار شمار کیا گیا ھے۔ اردو بولنے والے 2 لاکھ 75 ھزار جبکہ پنجابی بولنے والے صرف 27 ھزار شمار کیے گئے ھیں۔

بلوچستان میں رھنے والے پشتونوں کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ بلوچستان میں پشتونوں کو بلوچوں نے اپنے سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط میں رکھا ھوا ھے۔ اسلام آباد ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں رھنے والے پٹھانوں کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ قلیل تعداد میں ھونے کی وجہ سے اسلام آباد اور پنجاب میں پنجابی ' سندھی میں سندھی اور کراچی میں مھاجر پر اپنا سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط قائم نہیں کر سکتے۔ اس لیے اسلام آباد ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں اپنی تعداد بڑھانے کے لیے اگر خیبر پختونخوا سے پختونوں اور بلوچستان سے پشتونوں کو اسلام آباد ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں لاتے ھیں تو خیبر پختونخوا میں پختونوں اور بلوچستان میں پشتونوں کی تعداد کم ھوجاتی ھے۔ جسکی وجہ سے خیبر پختونخوا میں ھندکو پنجابیوں کی پختونوں کو خیبر پختونخوا سے نکالنے کی جدوجہد کامیاب ھوتی ھے جبکہ بلوچستان میں پشتونوں پر بلوچوں کے سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط میں مزید اضافہ ھوتا ھے۔

پچھلے ھزار سال کی تاریخ بتاتی ھے کہ افغانیوں نے اپنی دھرتی افغانستان کو ترقی دے کر حلال رزق کے ذرائع پیدا کرنے کے بجائے مسلمان کا روپ دھار کر دوسری قوموں کی دھرتی پر قبضے اور وسائل کی لوٹ مار کرنے کے بعد مسلمان کے بجائے؛

1۔ خیبر پختونخوا میں قوم پرست پختون بن کر اس دھرتی کو اپنی دھرتی اور اس قوم کے وسائل کو اپنے وسائل قرار دیا اور مقبوضہ ھندکو قوم پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ پختونوں کے ساتھ ظلم ' زیادتی اور نا انصافی کرتے ھیں۔

2۔ بلوچستان میں قوم پرست پشتون بن کر اس دھرتی کو اپنی دھرتی اور اس قوم کے وسائل کو اپنے وسائل قرار دیا اور مقبوضہ بلوچ قوم پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ پشتونوں کے ساتھ ظلم ' زیادتی اور نا انصافی کرتے ھیں۔

3۔ پنجاب ' سندھ اور کراچی میں قوم پرست پٹھان بن کر اس دھرتی کے کچھ علاقوں کو اپنی دھرتی اور اس قوم کے وسائل کو اپنے وسائل قرار دیا اور پنجاب میں پنجابی ' سندھ میں سندھی اور کراچی میں مھاجر قوم پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ پٹھانوں کے ساتھ ظلم ' زیادتی اور نا انصافی کرتے ھیں۔

1837 میں مھاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد برطانیہ نے 2 اپریل 1849 کو پنجاب پر قبضہ کرلیا اور1901 میں پنجاب میں سے ایبٹ آباد ' بنوں ' بٹگرام ' تور غر ' شانگلہ ' صوابی ' لکی مروت ' مالاکنڈ ' مانسہرہ ' مردان ' نوشہرہ ' ٹانک ' پشاور ' چارسدہ ' ڈیرہ اسماعیل خان ' کرک ' کوھاٹ ' کوھستان ' ھری پور ' ھزارہ ' ھنگو کو پنجاب سے الگ کرکے شمال مغربی سرحدی صوبہ کے نام سے ایک الگ صوبہ بنا دیا۔ پٹھانوں نے صوبہ سرحد میں تو بد امنی اور پختونائزیشن شیر شاہ سوری کے وقت سے شروع کی ھوئی تھی۔ جس میں مغلوں کے ساتھ مفاھمت کے بعد اضافہ ھوا۔

1747 میں احمد شاہ ابدالی کے افغانستان کی سلطنت کے قیام اور پنجاب پر قبضے کے بعد تو بے انتہا اضافہ ھوا۔ مھاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب پر سے پٹھانوں کے قبضے کو ختم کروا کر پنجاب کو پٹھانوں کی بد امنی اور پختونائزیشن سے نجات دلوائی۔ لیکن انگریز کے پنجاب پر قبضے کے بعد پنجاب میں پٹھانوں کی بد امنی اور پختونائزیشن پھر سے بڑھنے لگی۔ بلکہ 1901 میں تو انگریز نے صوبہ سرحد بنا کر پٹھانوں کی بد امنی اور پختونائزیشن کی باقائدہ سرپرستی بھی کی۔

شمال مغربی سرحدی صوبہ کو 1901 سے لیکر 2010 تک عمومی طور پر صوبہ سرحد کہا جاتا رھا۔ لیکن 2010 میں آصف زرداری اور اسفندیار ولی نے اٹھارویں ترمیم کے وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے ھونے کی وجہ سے سازش کرکے پاکستان کے آئین میں صوبے کا نام خیبر پختونخوا کروا لیا اور اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ صدیوں پہلے سے ھی اس صوبہ کا علاقہ ھندکو پنجابیوں کا ھے۔ جہاں افغانستان سے افغانی آآ کر اور پختون بن بن کر قبضہ کرتے رھے ھیں۔

افغانیوں کے اپنی دھرتی افغانستان کو ترقی دے کر حلال رزق کے ذرائع پیدا کرنے کے بجائے دوسری قوموں کی دھرتی پر قبضے اور وسائل کی لوٹ مار کرنے کے لالچ کا نتیجہ یہ نکلا ھے کہ 5 کروڑ 4 لاکھ 50 ھزار افغانی ' پختون ' پشتون ' پٹھان اس وقت افغانستان ' فاٹا ' بلوچستان ' خیبر پختونخوا ' پنجاب ' سندھ ' کراچی ' ایران اور دوسرے ممالک میں بکھر چکے ھیں۔ اس لیے افغانیوں کا افغانستان میں تاجک ' ھزارہ ' ایمک ' ازبک ' ترکمان کے ساتھ ' خیبر پختونخوا میں پختونوں کا ھندکو پنجابیوں کے ساتھ ' بلوچستان میں پشتونوں کا بلوچوں کے ساتھ ' پٹھانوں کا پنجاب میں پنجابیوں کے ساتھ ' سندھ میں سندھیوں کے ساتھ اور کراچی میں مھاجروں کے ساتھ سیاسی ' سماجی اور معاشی ٹکراؤ ھے۔ جبکہ ایران اور دوسرے ممالک میں کوئی اھمیت اور قدر نہیں ھے۔

افغانیوں کا اپنے وطن افغانستان ' پختونوں کا خیبر پختونخوا ' پشتونوں کا بلوچستان اور پٹھانوں کا پنجاب ' سندھ اور کراچی میں سیاسی ' سماجی اور معاشی مستقبل تو پہلے سے ھی تاریک نظر آرھا تھا۔ جس پر پٹھان سیاسی رھنما دھیان نہیں دے رھے تھے بلکہ ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے ریاستی اداروں کو بلیک میل کرنے اور پاکستان دشمن ممالک کے آلہء کار یا کاسہ لیس اور ھمدرد بننے کی سیاست کرتے تھے۔ لیکن اب پشتون تحفظ موومنٹ کے کھل کر پاکستان کی ریاست کے وفادار ھونے کے بجائے افغانستان کے گُن گانے اور پاکستان کی فوج اور پنجابیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان کے شھریوں میں تشویش پھیل رھی ھے۔

افغانستان سے پاکستان میں دھشتگردی کی کاروائیوں میں اضافے کی وجہ سے افغانستان کی سرحد سے ملحق فاٹا کے 50 لاکھ ' خیبر پختونخوا کے 2 کروڑ 34 لاکھ 50 ھزار پختونوں اور بلوچستان کے 44 لاکھ پشتونوں کے سیاسی رھنماؤں اور قبائل کے سربراھوں کو چاھیے کہ پاکستان کے ساتھ وفاداری کا عملی مظاھرہ کریں۔ اپنے افغان ' پختون ' پشتون یا پٹھان ھونے پر بے شک فخر کریں لیکن پاکستان میں رھنے۔ پاکستان کا کھانے کی وجہ سے گُن بھی پاکستان کے گائیں۔

اسلام آباد کے 4 لاکھ ' پنجاب کے 20 لاکھ ' سندھ کے 3 لاکھ 50 ھزار اور کراچی کے 22 لاکھ پٹھان اپنے تعلقات پنجابی ' ھندکو ' چترالی ' سواتی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' براھوئی ' بلوچ ' سندھی ' مھاجر ' راجستھانی ' گجراتی کے ساتھ ٹھیک رکھیں اور فاٹا کے 50 لاکھ ' خیبر پختونخوا کے 2 کروڑ 34 لاکھ 50 ھزار ' بلوچستان کے 44 لاکھ پٹھانوں کو سمجھائیں کہ؛ پاکستان دشمن عناصر کا آلہء کار بن کر پاکستان ' پاکستان کی فوج اور پنجابیوں کے خلاف سازشیں کرنے میں ملوث نہ ھوں۔ ورنہ اسلام آباد ' پنجاب ' سندھ اور کراچی کے پٹھانوں کو بھی واپس فاٹا ' خیبر پختونخوا کے پٹھان علاقے ' بلوچستان کے پٹھان علاقے میں بلکہ ھوسکتا ھے کہ واپس افغانستان جانا پڑے۔

No comments:

Post a Comment