Friday 14 June 2019

کیا فرنگی راج میں پنجابیوں نے مزاحمت نہیں کی تھی؟

اگر کوئی جاھل یہ کہتا ھے کہ فرنگی راج میں پنجابیوں نے مزاحمت نہیں کی تھی تو اسکو میں کچھ کہنے کے بجائے یہی مشورا دیتا ھوں کہ؛ وہ مشہور تواریخ دان عزیزالدین کی کتاب "پنجاب اور بیرونی حملہ آور" کا مطالعہ کرلے۔

عزیز الدین ایک اردو اسپیکنگ لکھاری ھیں اور مکمل طور پر غیر جانبدار شخصیت ھیں۔ اُن کے مطابق پنجابیوں نے راجہ پورس سے لیکر بھگت سنگھ تک پنجاب کی سر زمین کے ایک ایک اِنچ پر مزاحمت کی ھے۔

دنیا کی مشہور قتل گاہ جلیانوالہ باغ ' جہاں پنجابیوں نے مزاحمت کا ریکارڈ قائم کیا ' کتاب میں اِسے پنجاب کی کربلا کہا گیا۔ دُلا بھٹی پنجاب کا رابن ھُڈ ' پنجابیوں کی مزاحمت کی ایک لافانی مثال ھے۔ 1857 کی جنگ ازادی شروع دلی سے ھوتی ھے ' اسکا انت پنجاب سے ھوتا ھے ' جب گوجرانوالہ پر انگریز بمباری کرتا ھے۔

پنجاب ' ھندوستان کا وہ خطہ تھا جو انگریز کے دور میں بھی آزاد حثیت برقرار رکھے ھوئے تھا یعنی پنجاب ایک آزاد ریاست تھا اور یہ سب سے آخر میں انگریزوں کی گرفت میں آتا ھے۔ مھاراجہ رنجیت سنگھ کی 1839 میں وفات کے بعد پنجاب پر انگریز کا قبضہ 29 مارچ 1849میں ھوتا ھے جب پنجاب پر ایک 10 سالہ کم سن بچے مھاراجہ دلیپ سنگھ کا راج تھا۔

مھاراجہ دلیپ سنگھ سکھ سلطنت کا آخری مھاراجہ تھا۔ وہ مھاراجہ رنجیت سنگھ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ کنور دلیپ سنگھ 6 ستمبر1838ء کو لاھور میں پیدا ھوا۔ اس کی پرورش اس کی ماں مھارانی جنداں نے کی۔ مھاراجہ شیر سنگھ کے قتل کے بعد امرائے سلطنت اور وزیر اعظم ھیرا سنگھ نے باھمی مشاورت سے کنور دلیپ سنگھ کو تختِ لاھور پر بٹھایا۔ یہ ایک کٹھن دور تھا۔ خالصہ پنجابی فوج طاقت ور ھو چکی تھی اور جرنیلوں کے سامنے کوئی بھی مخالف بات کہنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔

پنجابی فوج 1849 میں انگریز فوج کے ساتھ ھونے والی جنگ میں دیدا دلیری سے لڑتی ھے۔ ھندو پنجابی ' سکھ پنجابی اور مسلمان پنجابی مل کر انگریز فوج میں بھرتی غیر مُلکیوں اور اترپردیش کے بھیا ' بہار کے بہاری کرائے کے غنڈوں کا مقابلہ کرتے ھیں۔ لیکن جیتی ھوئی بازی چند غدراوں کی وجہ سے ھار جاتے ھیں۔

پنجاب پر قبضے کے بعد بھی رائے احمد کھرل ' نطام لوھار ' مراد فتیانہ ' خانو ' مُلا ڈولا اور بھگتاں والا بھگت سنگھ چند ایسے کردار ھیں ' جنہوں نے بغاوت کا علم بُلند کیا۔ لیکن پنجابیوں نے اپنی زبان ھی نہیں بھُلائی ' اِن شہیدوں کا احسان بھی بھُلا دیا ھے۔

اگر پنجابی اپنی زبان سے رشتہ قائم رکھتے اور انگریز فوج میں شامل ھوکر 1849 میں پنجاب پر حملہ آور اور قابض ھونے والے اترپردیش کے بھیا کی زبان کو 1877 میں پنجابیوں پر مسلط نہ ھونے دیتے۔ لیکن اگر انگریز کے اترپردیش کے بھیا کی سرپرستی کی وجہ سے 1877 میں ممکن نہ تھا تو 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد ھی اترپردیش کے بھیا کی زبان سے نجات حاصل کرلیتے تو؛ کسی کو بھی پنجابیوں کو کھُسرا کہنے کی جرات نہ ھوتی۔

Thanks To Punj Darayaae

No comments:

Post a Comment