Friday 8 July 2016

پاکستان میں دشمن ملکوں کے آلہ کار جلد انجام کو پہنچنے والے ھیں۔ انشا اللہ


اس "را" کے ایجنٹ الطاف کے ذمہ ڈیوٹی ھے کہ اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو پاکستان کی فوج کے ادارے کے ساتھ لڑوایا جائے تاکہ اردو بولنے والے ھندوستانی شور شرابا کرسکیں کہ پاکستان کی فوج اردو بولنے والے ھندوستانیوں کا ویسے ھی قتلِ عام کررھی ھے۔ جیسے ماضی میں بنگالیوں کا قتلِ عام کیا تھا۔ اس لیے بھارت کی فوج آکر اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو پاکستان کی فوج کے قتلِ عام سے بچائے۔ جیسے بھارت کی فوج نے بنگالیوں کو بچایا تھا اور اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو "جناح پور" بناکردے۔ جیسے بنگالیوں کو بنگلہ دیش بناکر دیا تھا۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر ممالک اس سلسے میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں اور بھارت کے ساتھ تعاون کریں۔

اس لیے ھی یہ "را" کا ایجنٹ الطاف اکثر بیشتر اپنی تقریروں میں بنگالیوں اور پاکستان کی فوج کے بھارت کی فوج کے سامنے ھتھیار ڈالنے کا بار بار ذکر کرتا رھتا ھے اور پاکستان کی فوج کو پنجابی فوج کہتا رھتا ھے۔ تاکہ اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو ذھنی طور پر تیار کرتا رھے کہ جیسے بھارت کی فوج نے بنگالیوں کو بنگلہ دیش بناکر دیا تھا۔ ویسے ھی اب بھارت کی فوج اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو "جناح پور" بناکردے گی۔ بلکہ اقوامِ متحدہ اور دیگر ممالک بھی اس سلسے میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں اور بھارت کے ساتھ تعاون کریں گے۔ اس لیے ھی ایم کیو ایم اقوامِ متحدہ کے دفاتر کے سامنے مظاھرے کرتی رھتی ھے اور دیگر ممالک کے سفارتخانوں سے رابطے میں بھی رھتی ھے۔ پاکستان کے دشمن ملکوں کے سفارتی اہلکاروں کے ساتھ خاص طور پر رابطے میں رھتی ھے۔ کیونکہ کراچی کو پاکستان سے الگ کرنے کے مشن کے لیے اس "را" کے ایجنٹ الطاف کو بھارت کے علاوہ بھی پاکستان کے کچھ دشمن ملکوں کی آشیرباد حاصل ھے۔ جو اس مشن کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے اس "را" کے ایجنٹ الطاف کی اور اسکے ساتھیوں کی تیس سال سے دامے ' درمے ' سخنے سرپرستی اور امداد کر رھے ھیں۔

لیکن اس کے باوجود بھی اس "را" کے ایجنٹ الطاف اور اسکے ساتھیوں کے تیس سال سے پالے ھوئے مال کھانے اور مال بنانے والے اردو بولنے والے ھندوستانی اب وقت آنے پر کراچی میں وہ کام نہیں دکھا پارھے۔ جس کام کے لیے مال لگانے والوں نے تیس سال تک مال لگایا اور دھشتگردی کے لیے سلیپر سیلز بنا کردیے۔ اس "را" کے ایجنٹ الطاف اور اسکے ساتھیوں کے تیس سال سے پالے ھوئے مال کھانے اور مال بنانے والے کراچی میں وہ کام دکھا بھی نہیں سکتے۔ جس کام کے لیے مال لگانے والوں نے تیس سال تک مال لگایا اور دھشتگردی کے لیے سلیپر سیلز بنا کردیے۔ کیونکہ اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی پاکستان کے 126 اضلاع میں سے صرف ساڑھے تین اضلاع میں اکثریت ھے۔ جو کہ کراچی کا ضلع سینٹرل ' ضلع ایسٹ اور ضلع کورنگی ھیں اور آدھا ضلع حیدرآباد کی تحصیل حیدرآباد اور لطیف آباد ھیں۔

اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی سارے کراچی میں بھی اکثریت نہیں کیونکہ کراچی شھر کے 6 اضلاع ھیں۔ کراچی شھر کے ضلع سینٹرل ' ضلع ایسٹ ' ضلع کورنگی میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی اکثریت ھے۔ جبکہ کراچی شھر کے ضلع ساؤتھ میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے مقابلے میں بلوچ اور پنجابی زیادہ ھیں۔ کراچی شھر کے ضلع ویسٹ میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے مقابلے میں پٹھان اور پنجابی زیادہ ھیں۔ کراچی شھر کے ضلع ملیر میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے مقابلے میں سندھی اور پنجابی زیادہ ھیں۔ حیدرآباد ضلع کی تحصیل حیدرآباد اور لطیف آباد میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی اکثریت ھے۔ جبکہ تحصیل قاسم آباد اور ٹنڈوجام میں سندھیوں کی اکثریت ھے۔

کراچی کا اردو بولنے والا ھندوستانی صرف کراچی شھر کے ضلع سینٹرل ' ضلع ایسٹ ' ضلع کورنگی میں ھی "شیر" ھے۔ یہ اردو بولنے والا ھندوستانی جب کراچی کے ضلع ساؤتھ ' ضلع ویسٹ ' ضلع ملیر میں جاتا ھے تو "بھیگی بلی" بن جاتا ھے۔ حیدرآباد کا اردو بولنے والا ھندوستانی صرف حیدرآباد ضلع کی تحصیل حیدرآباد اور لطیف آباد میں ھی "شیر" ھے۔ یہ اردو بولنے والا ھندوستانی جب حیدرآباد ضلع کی تحصیل قاسم آباد اور ٹنڈوجام میں جاتا ھے تو "بھیگی بلی" بن جاتا ھے۔

 اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی اکثریت کے علاقے ضلع سینٹرل ' ضلع ایسٹ ' ضلع کورنگی ' کراچی شھر کے وسط میں ھیں۔ جبکہ حیدرآباد ضلع کی تحصیل حیدرآباد اور لطیف آباد کے علاقے بھی حیدرآباد شھر کے وسط میں ھیں۔ اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے اگر اسلحہ کی لڑائی شروع کی تو کراچی اور حیدرآباد میں محصور ھوکر رہ جائیں گے۔ کیونکہ کراچی کے وسطی اضلاع کے ویسٹ کی طرف پنجابی اور پٹھان ھیں۔ ایسٹ کی طرف پنجابی اور سندھی ھیں۔ ساؤتھ کی طرف پنجابی اور بلوچ ھیں۔ نارتھ کا علاقہ تو ویسے ھی سپر ھائی وے کی طرف جاتا ھے۔ جو اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے لیے علاقہ غیر ھے۔ حیدرآباد اور لطیف آباد کے ارد گرد کے علاقے میں بھی سندھی ' پنجابی اور پٹھان ھی اکثریت میں ھیں۔ اس لیے اسلحہ کی لڑائی شروع کی تو اردو بولنے والے ھندوستانیوں کو کراچی اور حیدرآباد کے وسطی علاقے میں محدود ھی نہیں بلکہ محصور ھونا پڑجانا ھے۔ کیونکہ قانوں نافذ کرنے والے اداروں کے فرائض اپنی جگہ لیکن کراچی کے پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ تو 1986 سے ان اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے ھاتھوں اپنی جانیں گنوانے اور مال لٹانے کی وجہ سے موقع کے انتظار میں ھیں۔ اس لیے یہ اردو بولنے والے ھندوستانی کسی حال میں کراچی کے وسطے علاقے سے نکل کر کراچی کے ارد گرد کے پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کے علاقے میں جانے کی بیواقوفی نہیں کریں گے۔

بحرحال ' کسی شھر کے وسطی علاقے جلسے ' جلوس ' جلاؤ ' گھیراؤ ' ھڑتالیں اور مظاھرے کرنے کے لیے تو مناسب ھوتے ھیں لیکن مسلح جنگ کے لیے نہیں۔ کیونکہ مسلح جنگ کی صورت میں بجلی ' پانی ' کھانے پینے کی اشیاؑ کہاں سےآئیں گی؟ کتنے روز تک محصور رھیں گے؟ مطلب یہ کہ اردو بولنے والے ھندوستانی صرف زبانی جنگ کرسکتے ھیں یا پھر چھپ چھپا کر ٹارگٹ کلنگ کرسکتے ھیں۔ جو کر رھے ھیں۔ لیکن کھلم کھلا اسلحہ کی جنگ نہیں کرسکتے۔ بلکہ جس طرح شھر کے وسطی علاقے میں اکثریت میں ھونے کا فائدہ اٹھاکر تیس سال تک جلسے ' جلوس ' جلاؤ ' گھیراؤ ' ھڑتالیں اور مظاھرے کرکے کراچی اور حیدرآباد کا امن و امان تباہ اور معیشت برباد کرتے رھے۔ اب وہ بھی نہیں کرسکیں گے۔

ویسے جس علاقے میں مسلح جنگ ھو اور حکومت کی طرف سے ملٹری کو اس علاقے میں آپریشن کا حکم دیا جائے تو ملٹری سب سے پہلے اس علاقے کو خالی کرواتی ھے۔ جیسے سوات اور فاٹا میں ملٹری آپریشن کے وقت وھاں کے لاکھوں رھنے والوں کا علاقہ خالی کروالیا گیا تھا اور نہ بھارت انکی مدد کے لیے آیا اور نہ یونائیٹڈ نیشن ھی آئی۔ ھوسکتا ھے کہ ملٹری آپریشن کی صورت میں کراچی کے وسطی علاقے کو خالی کروالیا جائے اور وھاں کے رھنے والے لاکھوں اردو بولنے والوں کو ویسے ھی پاکستان بھر میں کیمپوں میں رھنا پڑ جائے (جیسے سوات اور فاٹا میں ملٹری آپریشن کے وقت وھاں کے رھنے والے لاکھوں مکینوں سے انکا علاقہ خالی کروالیا گیا تھا اور انہیں پاکستان بھر میں کیمپوں میں رھنا پڑا تھا) اور بھارت بھی انکی مدد کے لیے آنے کی ھمت نہ کرے اور نہ یونائیٹڈ نیشن کو ھی لانے کے لیے پاکستان دشمن ملک  یونائیٹڈ نیشن کے رکن ممالک کو راضی کرپائیں گے۔ کیونکہ یہ پاکستان ھے۔ عراق یا افغانستان نہیں۔

دراصل بھارت نے پاکستان کے قائم ھوتے ھی 1947 سے افغان نزاد خان غفار خان کے ذریعے پشتونستان کی تحریک شروع کروادی تھی۔ جو بعد میں خان غفار خان کے بیٹے خان عبدل ولی خان نے چلائی اور اب اسکے بیٹے اسفندیار ولی کی ذمہ داری ھے۔ جبکہ بلوچستان میں واقع چار ریاستوں میں سے مکران ' خاران اور لسبیلہ کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے بعد چوتھی ریاست قلات کے الحاق کے موقع پر بھارت نے کچھ کردش نزاد بلوچ سرداروں اور چند بروھی سرداروں کو ویسے ھی اپنا ایجنٹ بناکر آزاد قلات ریاست کی تحریک چلوادی جیسے 1947 میں خان غفار خان کے پاکستان میں شامل نہ ھونے کی کوشش اور جدوجہد کرنے کے باوجود پٹھانوں کے ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان میں شامل ھونے کا فیصلہ کرنے کے بعد سے ھی خان غفار خان کے ذریعے کے پی کے میں پشتونستان کی تحریک چلوا رھا تھا۔

جولائی 1971 میں برٹش بلوچستان ' قلات ' مکران ' خاران اور لسبیلہ کو یکجا کر کے جب بلوچستان کا صوبہ بنادیا گیا اور اسی سال دسمبر میں مشرقی پاکستان الگ ھوکر بنگلہ دیش بن گیا تو بھارت کی آشیرباد سے آزاد قلات ریاست کی تحریک کو آزاد بلوچستان کی تحریک میں تبدیل کردیا گیا۔ بلکہ کے پی کے ' کے پٹھانوں ' بلوچستان کے بلوچوں کے ساتھ ساتھ ' پاکستان اور بھارت کے درمیان ھونے والی 1965 کی جنگ کے بعد بھارت نے 1966 سے سندھ میں بھی سندھودیش کی تحریک کی تیاری کرنا شروع کروادی اور 1971 میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنوا کر کامیابی حاصل کرلینے کی وجہ سے بنگلہ دیش کو مثال بنا کر سندھیوں کو سندھودیش بنانے کے لیے ورغلانے کا کام انجام دینے کے لیے 1972 میں عرب نزاد جی۔ ایم سید کے ذریعے باقائدھ سندھودیش تحریک کا آغاز کروا دیا۔ جسے عرب نزاد جی۔ ایم سید کے انتقال کے بعد اب بلوچ نزاد آصف ذرداری "سندھ کارڈ" کے سیاسی کھیل کے ذریعے سندھیوں کے جذبات بھڑکا کر اور پنجاب کو بلیک میل کرکے اقتدار میں آنے ' فوج کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکیاں دے کر وفاق کے ریاستی اداروں کو اپنے جرائم پر گرفت کرنے سے باز رکھنے اور اقتدار میں حصہ حاصل کرنے کے لیے حربے کے طور پر استعمال کرنے میں مصروف رھتا ھے۔

بھارتی "را" اور دیگر پاکستان دشمن ممالک کے 1947 سے پختونستان کے مشن کے لیے پالے ھوئے مال کھانے اور مال بنانے والے پٹھان نہ ابتک پختونستان بنوا پائے اور نہ اب فاٹا اور کے پی کے ' کے پختون علاقوں میں کامیابی حاصل کر پارھے ھیں۔ 1948 سے آزاد بلوچستان کے لیے پالے ھوئے مال کھانے اور مال بنانے والے بلوچ بھی نہ ابتک آزاد بلوچستان بنوا پائے اور نہ اب بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں کامیابی حاصل کر پارھے ھیں۔ 1972 سے سندھودیش کے لیے پالے ھوئے مال کھانے اور مال بنانے والے بلوچ نزاد سندھی اور عرب نزاد سندھی بھی نہ ابتک سندھودیش بنوا پائے اور نہ اب دیہی سندھ کے علاقوں میں کامیابی حاصل کر پارھے ھیں۔لیکن اب صرف چند ماہ بچے ھیں۔ پاکستان میں بھارت کے اس پالتو مال کی صفائی ھونے والی ھے۔ 2017 سے پاکستان میں راوی نے چین ھی چین لکھنا شروع کردینا ھے۔ 2020 میں پاکستان ایک پرامن اور ترقی کی طرف گامزن خوشحال پاکستان نظر آئے گا۔ انشا اللہ۔

2020 کے بعد البتہ ایک تبدیلی اور نظر آنی ھے کہ؛ کراچی میں عزت اور اھمیت اردو بولنے والے ھندوستانی کے بجائے گجراتی اور راجستھانی کی ھوگی۔ دیہی سندھ میں عزت اور اھمیت بلوچ نزاد سندھی اور عرب نزاد سندھی کے بجائے سماٹ سندھی کی ھوگی۔ بلوچستان میں عزت اور اھمیت کرد نزاد بلوچ کے بجائے بروھی کی ھوگی۔ کے پی کے میں عزت اور اھمیت افغانی نزاد پٹھان کے بجائے ھندکو کی ھوگی۔ کیونکہ ھندوستانی مھاجر ' کردستانی بلوچ اور افغانستانی پٹھان ' پنجابی قوم اور پاکستان کے دوست نہیں ھیں۔ اسی لیے پنجابی قوم اور پاکستان سے دشمنی کرتے رھے ھیں۔ جبکہ سماٹ قوم ' بروھی قوم ' ھندکو قوم ' پنجابی قوم اور پاکستان کے دشمن نہیں ھیں۔

پنجاب ' پنجابی قوم کا ھے۔ سندھ ' سماٹ قوم کا ھے۔ (بلوچ کردستانی ھیں اور مھاجر ھندوستانی ھیں)۔ بلوچستان ' بروھی قوم کا ھے۔ (بلوچ کردستانی ھیں)۔ خیبر پختونخواہ ' ھندکو قوم کا ھے (پٹھان افغانستانی ھیں)۔ پنجابی قوم ' سماٹ کو سندھ ' بروھی کو بلوچستان ' ھندکو کو خیبر پختونخواہ کے اصل باشندے سمجھتی ھے۔

پنجابی قوم اب مستقبل میں اپنے تعلقات سماٹ قوم ' بروھی قوم ' ھندکو قوم کے ساتھ رکھے گی۔ سماٹ قوم ' بروھی قوم ' ھندکو قوم کو اپنے اپنے علاقے میں مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قومی معاملات میں بھی ساتھ رکھے گی۔ پنجابی قوم کی طرف سے اب پاکستان کے وفاقی اداروں میں ھندوستانی مھاجر ' کردستانی بلوچ اور افغانستانی پٹھان کی جگہ سماٹ قوم ' بروھی قوم اور ھندکو قوم کے افراد کو مستحکم کیا جائے گا۔

پاکستان میں ابھی تک زبان کے لحاظ سے غلبہ اردو زبان کا ھی ھے اور پاکستانی میڈیا پر بھی غلبہ اردو زبان کا ھی ھے۔ اردو زبان کے غلبے کو ختم کرکے پنجابی ' سندھی ' ھندکو اور براھوی زبانوں کو پاکستان میں فروغ دینے کا مرحلہ اب آنے والا ھے۔ بحرحال ' اس وقت پاکستان کی ملٹری لیڈرشپ اور پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ پنجابی کے پاس ھے۔

پاکستان کی پنجابی ملٹری لیڈرشپ اور پنجابی سیاسی لیڈرشپ ' بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پاکستان میں پراکسی کے ذریعے پشتونستان ' آزاد بلوچستان ' سندھودیش اور جناح پور بنانے کی سازش کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی پراکسی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھنی ھے۔

بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ کی پراکسی کے ذریعے پاکستان میں پشتونستان ' آزاد بلوچستان ' سندھودیش اور جناح پور بنانے کی سازش کا ناکام ھونا تو یقینی ھے لیکن بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ کو سبق سکھانے کے لیے بھارت کے اندر پشتونستان کی پراکسی کے بدلے میں خالصتان ' آزاد بلوچستان کی پراکسی کے بدلے میں کشمیر ' سندھودیش کی پراکسی کے بدلے میں ھریانستان ' جناح پور کی پراکسی کے بدلے میں تامل لینڈ اور مشرقی پاکستان میں پراکسی کرکے 1971 میں مسلمان بنگالیوں کو پاکستان سے الگ کرنے کے بدلے میں ھندو بنگالیوں کا آزاد ملک بنانے کے لیے اب پاکستان کو بھرپور پراکسی جنگ کرنا ھوگی۔ جبکہ تیلگو قوم ' ملایالم قوم ' مراٹھی قوم ' گجراتی قوم ' راجستھانی قوم ' کنڑا قوم ' اڑیہ قوم ' آسامی قوم ' بھوجپوری قوم کو بھی اترپردیش  کے ھندی بولنے والے ' گنگا جمنا تہذیب و ثقافت والے ھندوستانیوں کی غلامی سے نجات دلوانی ھوگی۔

پاکستان تو پنجابی ' سندھی ' ھندکو اور براھوی بولنے والوں کا ملک ھے اور پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھے لیکن بھارت تو ھندی ' تیلگو ' تامل ' ملایالم ' مراٹھی ' گجراتی ' راجستھانی ' کنڑا ' اڑیہ ' آسامی ' بھوجپوری ' بنگالی اور پنجابی قوموں کا علاقہ ھے ' جہاں 25٪ آبادی ھندی ھے لیکن 75٪ آبادی ھندی نہیں ھے۔

پاکستان کی 60٪ آبادی ھونے کی وجہ سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں تو پنجابیوں کی ھی اکثریت ھونی تھی لیکن بھارت میں ھندوستانیوں (اترپردیش کے ھندی بولنے والے گنگا جمنا تہذیب و ثقافت والے) نے بھارت کی 75٪ آبادی کو ھندی اسٹیبلشمنٹ اور ھندی زبان کے ذریعے مغلوب کیا ھوا ھے۔

بھارت میں اقلیت میں ھونے کے باوجود ھندوستانیوں نے ھندی اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کے علاوہ ھندی زبان کا بھی غلبہ کیا ھوا ھے اور ھندوستانی میڈیا پر بھی غلبہ ھندی زبان کا ھی ھے لیکن پاکستان میں اکثریت میں ھونے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ میں تو پنجابیوں کی اکثریت ھے لیکن زبان کے لحاظ سے پاکستان میں غلبہ اردو زبان کا ھے ' جو کہ اصل میں ھندی زبان ھی ھے۔ پاکستانی میڈیا پر بھی غلبہ اردو زبان کا ھی ھے۔

بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان میں پراکسی کرکے ' پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو پنجابی اسٹیبلشمنٹ قرار دلوا کر ' پنجاب کو غاصب قرار دلوا کر ' پاکستان کو پنجابستان قرار دلوا کر ' پاکستان ' پنجاب اور پنجابی قوم کے خلاف نفرت کا ماحول قائم کرواکر ' پاکستان کے اندر ' افغانی بیک گراؤنڈ پشتو بولنے والوں کو پشتونستان بنانے کی راہ پر ڈالنے کی سازش شروع کی ھوئی ھے۔ کردستانی بیک گراؤنڈ بلوچی بولنے والوں کو آزاد بلوچستان بنانے کی راہ پر ڈالنے کی سازش شروع کی ھوئی ھے۔ عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھیوں کو سندھودیش بنانے کی راہ پر ڈالنے کی سازش شروع کی ھوئی ھے۔ یوپی ' سی پی کے ھندوستانی بیک گراؤنڈ اردو بولنے والے مھاجروں کو جناح پور بنانے کی راہ پر ڈالنے کی سازش شروع کی ھوئی ھے۔

بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ ' اس طرح کی سازش کے ذریعے ' ماضی میں لسانی پراکسی کرکے ' مشرقی پاکستان میں ' 1971 میں بنگالی قوم کو پاکستان سے الگ کرنے میں کامیاب ھوچکی ھے لیکن 1971 میں نہ پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ پنجابی کے پاس تھی اور نہ ملٹری لیڈرشپ۔


 1971 میں پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ بنگالی مجیب الرحمٰن اور سندھی بھٹو کے پاس تھی جبکہ پاکستان کی ملٹری لیڈرشپ میں کلیدی قردار اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جرنیلوں اور پٹھان جرنیلوں کا تھا۔ جبکہ پاکستان کا سربراہ بھی پٹھان یحیٰ خان تھا۔

پنجابی کے پاس تو پاکستان کی ملٹری لیڈرشپ 1975 میں جنرل ضیاءالحق کے پاکستان کی فوج کے پہلے پنجابی چیف آف آرمی اسٹاف بننے کے بعد آئی۔ جبکہ پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ 1988 میں نوازشریف کے پاکستان مسلم لیگ کا صدر بننے کے بعد ' 1990 میں پاکستان کا وزیرِاعظم بننے کے بعد ائی۔

جب 1971 میں بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ نے بنگالی قوم کو پاکستان سے الگ کرنے کی لسانی پراکسی شروع کی تو اس کے جواب میں پاکستان کو بھی مشرقی پنجاب اور کشمیر میں لسانی پراکسی کرنی چاھیئے تھی لیکن اس وقت پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ اور ملٹری لیڈرشپ پنجابی کے پاس نہیں تھی۔ جبکہ پاکستان کی ملٹری لیڈرشپ میں موجود اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جرنیلوں ' پٹھان جرنیلوں اور مغربی پاکستان کے سیاسی لیڈر ' سندھی بھٹو نے بھارت میں لسانی پراکسی کرنے سے گریز کیا کیونکہ بھارت میں لسانی پراکسی کرکے بھارتی پنجاب اور کشمیر کو بھارت سے الگ کرکے پاکستان میں شامل کرنے سے پاکستان میں پنجابیوں کی آبادی کے 60٪ سے بڑہ کر 85٪ ھوجانے کی وجہ سے غیر پنجابی ھونے کی بنا پر وہ خوفزدہ تھے۔

اس وقت چین ' کاشغر سے لیکر گوادر تک انرجی اور کیمیونیکیشن کوریڈورس بنا رھا ھے جس پر انڈسٹریل زونس بھی بنیں گے ' جس سے چین اور پاکستان کی معاشی ترقی ھوگی جبکہ چین بحر ھند کو کنٹرول کرنے لگے گا۔

پاکستان کی آبادی 20 کروڑ ھے۔ اس وقت پاکستان ایک ایٹمی طاقت بھی ھے۔ پاکستان عالمِ اسلام کا آبادی کے لحاظ سے دوسرا اور ایٹمی طاقت کے لحاظ سے واحد ملک ھے۔ اس وقت   پاکستان جنوبی ایشیا کا ایک طاقتور ملک ھے۔

پاکستان کے ساتھ دنیا کے طاقتور ترین ممالک امریکہ ' روس ' برطانیہ ' فرانس ' جرمنی ' جاپان ' ترکی کے عزت و احترام والے تعلقات ھیں۔ 

پاکستان کے ساتھ پڑوسی ممالک چین ' ایرن ' متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے عزت و احترام والے تعلقات ھیں۔

بھارت اور افغانستان بھی پاکستان کے پڑوسی ملک ھیں۔ بھارت کھل کر پاکستان کے ساتھ جنگ تو نہیں کررھا اور نہ پاکستان کے ایٹمی صلاحیت والا ملک ھونے کی وجہ سے بھارت میں کھل کر پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کی ھمت ھے۔ لیکن پاکستان میں سیاسی ' سماجی اور معاشی عدمِ استحکام کے لیے بھارت سازشوں سے باز نہیں آرھا اور افغانستان کو اپنے ساتھ ملا کر پاکستان کے اندر "پراکسی وار" کر رھا ھے۔

افغانستان بھی بھارت کے پاکستان دشمنی کے کھیل میں بھارت کے ساتھ تعاون کر رھا ھے۔ پاکستان کے مغربی صوبوں کے پی کے اور بلوچستان میں تخریبکاری کرنے کے لیے اپنی زمین کو بھارت کی خفیہ ایجنسی "را" کو استعمال کے لیے دینے کے علاوہ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر خود بھی تخریبکاری میں مصروف رھتا ھے۔

چین اور پاکستان کے درمیان 2015 میں ھونے والے انرجی اور کیمیونیکیشن کوریڈورس کے معاھدے کے بعد اب 2030 تک انرجی اور کیمیونیکیشن کوریڈورس کا کام جاری رھنا ھے اور 2030 میں چین نے بحر ھند پر اپنی اجاراداری قائم کر لینی ھے جبکہ پاکستان نے "ایشین ٹائیگر" بن جانا ھے۔ انشا اللہ۔

ھندوستان نے چین کے کاشغر سے لیکر گوادر تک انرجی اور کیمیونیکیشن کوریڈورس کے بننے کو روکنا ھے۔ اس لیے ھندوستانی "را" اور دیگر پاکستان دشمن ملکوں نے پاکستان کے اندر "پراکسی وار" کے ذریعے پاکستان میں بھرپور سماجی اور سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش کرنی ھے۔ جبکہ پاکستانی "آئی ایس آئی" نے ھندوستانی "را" اور دیگر پاکستان دشمن ملکوں کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کا مقابلہ کرنا ھے۔

پختونستان ' آزاد بلوچستان اور سندھودیش کی پرانی تحریکوں اور 1986 سے جناح پور کی تحریک کے لیے سرگرم "را" کے نئے ایجنٹ الطاف اور اسکے ساتھیوں  کے علاوہ بھی پاکستان کے اندر دوسرے بھارتی آلہ کار موجود ھیں جو بھارت کی پاکستان کے اندر ھندوستانی "را" یا دیگر پاکستان دشمن ملکوں کی "پراکسی وار" کے دانستہ یا نادانستہ آلہ کار بنے ھوئے ھیں۔ بعض نے سیاسی لبادے پہن رکھے ھیں اور بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کے معزر اراکین بننے ھوئے ھیں۔ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن بلکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں وزیر اور مشیر تک بنتے رھتے ھیں۔ بعض نے کاغذی سیاسی تنظیمیں بنا رکھی ھیں۔ بعض دانشور ' صحافی یا سول سوسائٹی کے معززین بنے ھوئے ھیں یا فلاحی تنظیمیں بنا رکھی ھیں۔ جبکہ سرکاری ملازمین کی بھی بڑی تعداد دانستہ یا نادانستہ آلہ کار بنی ھوئی ھے۔ جن میں سے بعض تو بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر تعینات ھیں۔

پاکستان کے سیاستدانوں ' صحافیوں ' سماجی کارکنوں اور دانشوروں کے لیے احتیاط ضروری ھے کیونکہ  ھندوستانی "را" یا دیگر پاکستان دشمن ملکوں کے آلہ کار بن کر یا دانستہ اور نادانستہ ھندوستانی "را"  یا دیگر پاکستان دشمن ملکوں کے ایجنڈے پر کام کرکے پاکستان میں سماجی اور سیاسی بحران پیدا کرنے والے سیاستدانوں ' صحافیوں ' سماجی کارکنوں اور دانشوروں کے ساتھ اب اچھا سلوک نہیں ھوگا۔ بلکہ چند ماہ میں ھی انہوں نے اب قانوں کے شکنجے میں آجانا ھے۔ انشا اللہ۔

No comments:

Post a Comment