Tuesday, 29 November 2016

اب سیاسی جماعتوں اور سول سورسز کی کارکردگی معیاری بنانے کی ضرورت ھے۔

جنرل راحیل شریف کے جانشین کے طور پر جنرل قمر جاوید باجوہ کو پاکستان کی آرمی کا سربراہ بنانا وزیرِ اعظم پاکستان ' نواز شریف کا بہت بہترین اور دانشورانہ فیصلہ ھے۔ پاکستان کی فوج اب مزید منظم اور متحرک ھوگی جبکہ پاکستان مزید محفوظ اور طاقتور ھوگا۔ انشا اللہ

مھاجر جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں پاکستان میں مارشلا نافذ کرکے پاکستان کو مھاجرستان بنانے کے لیے اقربا پروری اور مفاد پرستی کو فروغ دے کر پاکستان کی فوج کے ادارے کو برباد اور پاکستان کے سیاسی اداروں کو تباہ کردیا تھا۔

پنجابی جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پاکستان کی فوج کے ادارے کا سربراہ بننے کے بعد فوج کے ادارے کو ٹھیک کرنا شروع کیا اور پنجابی جنرل راحیل شریف نے فوج کے ادارے کا سربراہ بننے کے بعد فوج کے ادارے کو بہترین بنا دیا۔ اب پنجابی جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کے ادارے کا سربراہ بننے کے بعد فوج کے ادارے کو مزید بہترین بنا دینا ھے۔ 

اس لیے سیاسی پارٹیوں کے سربراہ اب اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کو منظم اور متحرک ادارے بنانے پر دھیان دیں۔ جبکہ پاکستان کی فوج کے ادارے کی آشیر باد اور اشارے کی بنیاد پر سیاست کرنے کے عادی حضرات اپنے گھر بار اور کاروبار پر دھیان دیں۔ 

پاکستان کی فوج کے ادارے کے منظم اور مظبوط فوجی ادارہ بننے کے بعد اب ایک تو سیاسی جماعتوں کو منظم اور مظبوط سیاسی ادارے بنانا ضروری ھے اور دوسرا پاکستان کی سول سورسز کے ادارے کی کارکردگی بہتر اور معیاری بنانے کی ضرورت ھے۔

گو کہ آمریت کے دور میں "موج مستی" کرنے والوں کو ابھی تک پاکستان میں "جمہوری سیاسی نظام" برداشت نہیں ھو پا رھا۔ لیکن اس کے باوجود "منتخب سیاسی اور جمہوری حکومت" کو خطرہ پاکستان کی "فوج کے ادارے" سے نہیں ھے بلکہ "سیاسی جماعتوں" کے منظم ادارے نہ بننے اور "سول سروس" کے اداروں کی کارکردگی کے معیاری نہ ھونے سے ھے۔

پاکستان کی سیاسی جماعتیں اگر منظم اور مظبوط سیاسی ادارے بننے میں ناکام رھیں اور پاکستان کی حکومت اگر پاکستان کی سول سورسز کے ادارے کی کارکردگی بہتر اور معیاری بنانے میں ناکام رھی تو کہیں ایسا نہ ھو کہ با امر مجبوری پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو منظم اور مظبوط سیاسی ادارے جبکہ پاکستان کی سول سورسز کے ادارے کی کارکردگی بہتر اور معیاری بنانے کے فرائض بھی کہیں پاکستان کی فوج کے ادارے کو انجام نہ دینے پڑ جائیں۔

جنرل راحیل شریف کے پاکستان کی فوج کے ادارے کا سربراہ بننے کے بعد فوج کے ادارے کو دنیا بھر میں ایک بہترین ادارہ بنا کر با عزت اور پر وقار طریقے سے ریٹائر ھونے اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے پاکستان کی فوج کے ادارے کا نیا سربراہ بننے سے یہ ثابت ھو رھا ھے کہ پاکستان کی فوج اب ایک منظم ' مظبوط اور مستحکم ادارہ بن چکی ھے۔ 

منظم ' مظبوط اور مستحکم اداروں میں قحط الرجالی نہ ھونے کی وجہ سے قیادت کا فقدان نہیں ھوتا۔ اس لیے منظم ' مظبوط اور مستحکم ادرے کے اراکین شخصیات کے محتاج نہیں ھوتے۔ لہذا ادارے کے اراکین شخصیات کی پسند نہ پسند کے بجائے ادارے کے قائدے ' قانوں اور ضابطے کے مطابق اپنے فرائض انجام دیتے ھیں۔

پاکستان کی فوج کے ادارے کے منظم ' مظبوط اور مستحکم فوجی ادارہ بننے کے بعد اب ایک تو سیاسی جماعتوں کو منظم ' مظبوط اور مستحکم سیاسی ادارے بنانا ضروری ھے اور دوسرا پاکستان کی سول سورسز کے اداروں کو منظم ' مظبوط اور مستحکم حکومتی ادارے بنانے کی ضرورت ھے۔ 

اس لیے سیاسی جماعتوں اور پاکستان کی سول سورسز کے اداروں میں قحط الرجالی کا خاتمہ کرکے قیادت کے فقدان کو ختم کرنا ضروری ھے۔ تاکہ نہ تو پاکستان کی سیاسی جماعتیں شخصیات کی محتاج رھیں اور نہ پاکستان کی سول سورسز کے ادارے شخصیات کے محتاج رھیں۔

Monday, 28 November 2016

بنگالیوں کو کیسے الگ کیا گیا اور پاکستان کا موجودہ سیاسی کھیل کیا ھے؟

امریکی رسالے اٹلانٹک کو دیے گئے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں بین الاقوامی شہرت یافتہ سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہینری کسنجر نے 16 دسمبر 1971 کے حوالے سے جو انکشاف کیا ہے، اس نے پاکستانیوں کو ششدر کر دیا ہے۔

تادم تحریر پاکستانی اعلیٰ حکام اس پر خاموش ہیں جو معنی خیز ہے۔ بقول ہینری کسنجر، نومبر کے مہینے ہی میں، یعنی پاکستان ٹوٹنے سے صرف ایک ماہ قبل، تیسرے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، فوجی سربراہ اور از خود صدر کہلانے والے جنرل یحییٰ خان نے اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن کو قیامِ بنگلہ دیش کی نوید سناتے ہوئے اپنی رضامندی سے آگاہ کر دیا تھا۔

البتہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا مہینہ مارچ 1972 طے پایا تھا۔ یہ انٹرویو اٹلانٹک کے ایڈیٹر ان چیف جیفری گولڈ برگ کو ایک ایسے وقت میں دیا گیا جب اس واقعے کو گزرے 45 برس ہونے کو ہیں۔

ہینری کسنجر 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں بنائی جانے والی امریکی پالیسیوں کے گواہ ہیں، مگر وہ یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ اس کھیل میں روسی اور برطانوی ہرکارے کس طرح شامل تھے۔

1966 میں پاکستان نے شاہراہِ ریشم (سلک روڈ) بنانے کے لیے چین سے معاہدہ کیا تھا۔ چین متحدہ پاکستان کی موجودگی میں مشرقی و مغربی پاکستان کی دو اہم سمندری بندرگاہوں کے ذریعے بحیرہ ہند میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے ارادے رکھتا تھا، اور روسی ان کے ارادوں کے امین تھے۔

پاک چین دوستی میں ایک اہم کردار میاں افتخار الدین کا بھی ہے جو 1951 میں ایک اعلیٰ سطحی وفد لے کر چین گئے تھے، جبکہ عوامی جمہوریہ چین کو مغربی یورپ اور امریکا تسلیم نہیں کرتے تھے بلکہ ایک جلاوطن حکومت کو ہی اقوام متحدہ میں ویٹو طاقت حاصل تھی جو تائیوان میں مقیم تھی۔

شاہراہِ قراقرم کے ذریعے متحدہ پاکستان تک چین کی آمد نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ اس سے نہ صرف چین کا خلیج بنگال اور خلیج فارس میں اثر و رسوخ بڑھنا تھا، بلکہ بحیرہ احمر (
Red Sea) کی سیاستوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہونے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب روس اور چین کے درمیان سخت کشیدگی تھی۔ یوں بڑھتے ہوئے پاک چین تعلقات کے بعد عالمی سطح پر روس، برطانیہ اور امریکا چین کو روکنے والی پالیسی (
China containment policy) کی طرف 1960 کی دہائی کے آخری سالوں میں باوجوہ یکجان ہوئے۔ یہی وہ وقت تھا کہ ہماری اشرافیہ میں یہ بحث تیز کر دی گئی کہ اب ہمیں بنگالیوں سے جان چھڑا لینی چاہیے۔

اپنے اقتدار کا دس سالہ جشن مناتے ہوئے جنرل ایوب خان نے اخباروں کے ایڈیٹرز سے ملاقات میں اس باکمال تجویز کا تذکرہ کیا جو ریکارڈ کا حصّہ ہے۔ یہی بات پختونوں کو ایک اور انداز سے بیچی گئی۔ ایک پختون کمیونسٹ کی کتاب ”فریب نا تمام“ ہر پاکستانی کو پڑھنی چاہیے۔

جمعہ خان صوفی نے اس کتاب میں ولی خان کے حوالے سے بتایا ہے کہ جب 1968 میں ایوب دورِ حکومت کے دوران گول میز کانفرنس ناکام ہوئی تو ایوب خان نے ولی خان کو بلا کر کہا کہ اگر تم پاکستان میں اثر و رسوخ بڑھانے کے خواہاں ہو تو بنگالیوں سے جان چھڑوا لو۔ جمعہ خان صوفی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (امام علی نازش گروپ) میں تھے۔ بقول جمال نقوی یہ گروپ 1967 میں ہی بنگالیوں کی علیحدگی کی قرارداد منظور کر چکا تھا۔

ذرا اب ہینری کسنجر کے انکشاف کو جنرل ایوب کے دو بار بنگالیوں سے جان چھڑانے والی خواہش اور جنرل یحییٰ خان کی نومبر 1971 میں قیام بنگلہ دیش پر رضامندی سے جوڑ کر دیکھیں تو اس کہانی کے سرے جڑنے لگتے ہیں۔

بقول جمال نقوی 2009 میں جب میں نے نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) کے ایک پرانے رہنما کمال لوہانی کا انٹرویو کیا تو انہوں نے بتایا کہ کیسے لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان نے دسمبر 1970 کے انتخابات سے قبل مجیب الرحمان کو مضبوط اور نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) کو کمزور کیا تھا۔ مولانا بھاشانی اس کھیل میں درد دل رکھنے والے عوامی رہنما تھے جنہیں مشرقی و مغربی پاکستان میں اتحاد کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

وہ یہ سب دیکھ کر اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ مجبوراً انہیں انتخابات کا بائیکاٹ کرنا پڑا۔ اگرتلہ کا مقدمہ بھی مجیب الرحمان کو لیڈر بنانے کے لیے کارگر رہا۔ چنگاری کو ہوا دے کر زیرک صاحبزادہ یعقوب استعفیٰ دے کر کھسک آئے۔ اشرافیہ کے ایک حلقے نے خود بنگالیوں سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا ہوا تھا مگر اس کا الزام سیاستدانوں کے سر باندھنا "قومی مفاد" کی خاطر ضروری تھا۔

جنرل یحییٰ کو یہ بتلایا گیا کہ اگر دو جماعتیں مشرقی و مغربی پاکستان میں انتخاب جیتیں گی تو آپ ان کو ایک دوسرے سے لڑوا کر مستقبل کے صدر بن سکیں گے۔ مگر جو بات کسنجر نہیں کر سکے، وہ تھا بھارت کا پاکستان پر حملہ اور مجیب باہنی کا قیام۔

جب پاکستان کا صدر و فوجی سربراہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر راضی تھا تو پھر بھارت کو پاکستان کے مشرقی بازو پر حملہ آور کیوں ہونے دیا گیا؟ اس بارے میں مشہور بھارتی بنگالی کیمونسٹ موہیت سین اور پاکستانی لکھاری طارق علی نے اپنی اپنی کتابوں میں روشنی ڈالی ہے۔

بھارت کو بجا طور پر یہ ڈر تھا کہ کہیں اس کھیل کے دوران متحدہ بنگال کی تحریک مضبوط نہ ہو جائے۔ اس کی نظر برابر اس پر تھی۔ بھارتی افواج دسمبر 1971 میں بنگلہ دیش بنانے نہیں بلکہ متحدہ بنگال کی تحریک کو کچلنے کے لیے مشرقی پاکستان میں داخل ہوئیں تھیں۔

پاکستان پر حملے سے چند ماہ پہلے راتوں رات مجیب باہنی کھڑی کی گئی جس کا مقصد صرف اور صرف متحدہ بنگال کے حامیوں کو مارنا تھا، جو سب کے سب چین نواز تھے۔ اگر چین نواز متحدہ بنگال ہی بنانا تھا تو پھر پاکستان توڑنے کی مہم کیوں شروع کرنی تھی۔

اپنے انٹرویو میں ہینری کسنجر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ امریکا کو سوویت دباؤ، بھارتی مقاصد، پاکستانی سلامتی اور چین کے شکوک و شبہات کے درمیان بہت ساری چیزوں کو مدِ نظر رکھنا تھا، اور اسی حساب سے 'ایڈجسٹمنٹ' کی گئیں۔

مشرقی پاکستان میں بھارتی ایڈوینچر پر مزید بات کیے بغیر ہینری کسنجر اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ جس بات کی یحییٰ نے یقین دہانی کروائی تھی، وہ اور دیگر پالیسی مقاصد پورے ہوئے لہٰذا جو کچھ بھی ہوا اس پر معافی نہیں مانگی جا سکتی۔

مگر چین کو روکنے کی اس پالیسی کے نتیجے میں ہمارا پورا خطہ برباد ہوا۔ ایران، پاکستان، بھارت، افغانستان اور برما، ہر جگہ بربادیوں کے میلے سجائے گئے اور انتہا پسندیاں قومیتی و مذہبی لبادوں میں مضبوط ہوئیں جس کا پھل آج پورے خطے میں جگہ جگہ دستیاب ہے۔

نوٹ:- چین بحیرہ ہند میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے ارادے رکھتا تھا۔ اس لیے ھی 1966 میں چین نے پاکستان کے ساتھ شاہراہِ ریشم (سلک روڈ) بنانے کے لیے معاہدہ کیا تھا۔ چین کو روکنے کی امریکی پالیسی کے نتیجے میں ایران، پاکستان، بھارت، افغانستان اور برما، ہر جگہ بربادیوں کے میلے سجائے گئے اور پورا خطہ برباد ہوا۔ لیکن اس کے باوجود چین تو گوادر تک پہنچ چکا ھے۔ 2020 تک چین نے کاشغر سے لیکر گوادر تک کے راستے کو محفوظ اور گوادر کی بندرگاہ کو بین الاقوامی معیار کا بنانا ھے اور 2030 تک چین نے بحیرہ ہند کو کنٹرول کرنا شروع کر دینا ھے۔

2030 تک چین کی اکانومی اور آرمی کی طاقت چونکہ امریکہ سے آگے نکل جانی ھے۔ اس لیے امریکہ کے پاس 2025 تک کا وقت ھے کہ یا تو سی۔پیک منصوبے کے ذریعے چین کو بحر ھند میں ڈیرے ڈالنے سے روکے یا پھر اپنا بوریا بستر لپیٹ لے۔ بلکہ جو کچھ کرنا ھے وہ 2020 تک کرلے تو زیادہ بہتر ھے۔ کیونکہ 2025 تک امریکہ اور چین کی اکانومی اور آرمی کی طاقت میں فرق بہت کم ھونا ھے ' اس لیے امریکہ کا نقصان زیادہ ھوگا۔

اس لیے اب امریکہ کے پاس دو ھی آپشن ھیں؛

ایک یہ کہ؛ سی۔پیک منصوبے کو روکنے کے لیے پاکستان سے جنگ کرے۔ لیکن سی۔پیک منصوبہ تو چین کا ھے۔ جبکہ روس کو بھی اس میں دلچسپی ھے۔ اس لیے چین اور روس کی وجہ سے جنگ نے تیسری عالمی جنگ بن جانا ھے۔

دوسرا یہ کہ؛ سی۔پیک منصوبے کی تکمیل میں چین کو بنیادی تعاون چونکہ پنجابی کا حاصل ھے ' اس لیے پنجابی کو چین کی مدد کرنے سے روکنے کے لیے غیرجانبدار ھونے کا طریقہ اختیار کروائے۔

فرض کریں؛

1۔ اگر امریکہ نے پنجابی کو راضی کرلیا کہ کشمیر اور خالصان کو لے کر گوادر کے کھیل سے الگ ھوجاؤ اور کراچی پورٹ کو استعمال کرو۔ سندھی اور مھاجر کو سمبھالو۔ گوادر کے مسئلے ' چین ' بلوچ اور پٹھان کو ھم خود دیکھ لیں گے۔ آپکا کیا خیال ھے کہ پنجابی کیا کرے گا؟ چین کیا کرے گا؟

2۔ سی-پیک کے منصوبے میں چین کے علاوہ روس کو بھی دلچسپی ھے۔ کیونکہ گوادر سے ایک راستے نے چین جانا ھے تو دوسرے راستے نے سینٹرل ایشیا سے ھوتے ھوئے روس جانا ھے۔ روس کیا کرے گا؟

3۔ اگر امریکہ کے بجائے روس اور چین نے گرم پانی تک پہنچنے کے لیے امریکہ کی پنجابی کو غیرجانبدار کرنے کی کوشش کو ناکام اور پنجابی قوم کا تعاون برقرار رکھنے کے لیے ' کشمیر کے ساتھ ساتھ ھندوستانی پنجاب کو بھی ھندوستان سے آزادی دلوا کر پاکستانی پنجاب کے ساتھ ملا کر پنجاب کا پانی کا مسئلہ حل کروا دیا۔ دھلی سے لیکر پشاور اور کشمیر سے لیکر کشمور تک کے اصل پنجاب کو ایک کر دیا تو پھر کیا ھوگا؟

4۔ بھارتی "را" اور دیگر پاکستان دشمن ممالک کے 1947 سے پختونستان کے مشن کے لیے پالے ھوئے مال کھانے اور مال بنانے والے پٹھان نہ ابتک پختونستان بنوا پائے اور نہ اب فاٹا اور کے پی کے ' کے پختون علاقوں میں کامیابی حاصل کر پارھے ھیں۔ 1948 سے آزاد بلوچستان کے لیے پالے ھوئے مال کھانے اور مال بنانے والے بلوچ بھی نہ ابتک آزاد بلوچستان بنوا پائے اور نہ اب بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں کامیابی حاصل کر پارھے ھیں۔ 1972 سے سندھودیش کے لیے پالے ھوئے مال کھانے اور مال بنانے والے بلوچ نزاد سندھی اور عرب نزاد سندھی بھی نہ ابتک سندھودیش بنوا پائے اور نہ اب دیہی سندھ کے علاقوں میں کامیابی حاصل کر پارھے ھیں۔ 1986 سے جناح پور کے لیے پالے ھوئے مال کھانے اور مال بنانے والے مھاجر بھی نہ ابتک جناح پور بنوا پائے اور نہ اب کراچی میں کامیابی حاصل کر پارھے ھیں۔

5۔ بھارتی "را" اور دیگر پاکستان دشمن ممالک کے پاکستان میں پراکسی کرکے ' پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو پنجابی اسٹیبلشمنٹ قرار دلوا کر ' پنجاب کو غاصب قرار دلوا کر ' پاکستان کو پنجابستان قرار دلوا کر ' پاکستان ' پنجاب اور پنجابی قوم کے خلاف نفرت کا ماحول قائم کرواکر ' پاکستان کے اندر ' افغانی بیک گراؤنڈ پشتونوں کو پشتونستان ' کردستانی بیک گراؤنڈ بلوچوں کو آزاد بلوچستان ' عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھیوں کو سندھودیش اور سرائکستان ' یوپی ' سی پی کے ھندوستانی بیک گراؤنڈ اردو بولنے والے مھاجروں کو جناح پور ' بنانے کی راہ پر ڈالنے کی سازش سے نہ پاکستان کا کوئی علاقہ الگ ھو پانا ھے ' نہ پنجاب نے تقسیم ھو سکنا ھے اور نہ پنجابی قوم نے کمزور ھونا ھے۔

6۔ روس اور چین کے دھلی سے لیکر پشاور اور کشمیر سے لیکر کشمور تک کے اصل پنجاب کو ایک کردینے کی صورت میں نہ صرف پنجاب نے بہت زیادہ مظبوط ھوجانا ھے بلکہ پنجابی قوم نے بھی بہت زیادہ طاقتور ھوجانا ھے جبکہ ھندوستان اور امریکہ کی پاکستان کو تقسیم کروانے کی کوششیں بھی ناکام ھوجانی ھیں اور بلوچ ' پٹھان ' مہاجر کو پنجابی قوم کے خلاف محاذآرائی پر اکسا کر پنجاب کو سیاسی ' سماجی' معاشی اور انتظامی مساِئل میں مبتلا کرنے کی سازشیں بھی۔ بلکہ ھندوستان کو آشیرباد دے دے کر پاکستان کو آنکھیں دکھانے کے کام پر لگانے کا خمیازہ بھی الٹا ھندوستان کو ھی بھگتنا پڑے گا۔ جبکہ بلوچستان کے بلوچ اور خیبر پختونخواہ کے پشتون علاقے بھی پنجاب ھی کے ساتھ رھیں گے ' جس سے پاکستان چھوٹا اور کمزور ھونے کے بجائے مزید وسیع اور مظبوط ھوجائے گا- اس صورتحال میں امریکہ کسی حال میں بھی روس اور چین کو گرم پانی تک پہنچنے سے نہیں روک پائے گا۔

ولی کامل ' صوفی بزرگ اور پنجابی زبان کے معروف شاعر میاں محمد بخش۔

میاں محمد بخش ایک ولی کامل ' صوفی بزرگ اور پنجابی زبان کے معروف شاعر تھے۔ انہیں رومیء کشمیر کہا جاتا ہے۔

میاں محمد بخش 1830ء بمطابق 1246ھ: کھڑی کے ایک گاؤں چک ٹھاکرہ میر پور آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق گجر فیملی سے ہے۔

میاں محمد بخش کے والد کا نام میاں شمس الدین قادری تھا اور دادا کا نام میاں دین محمد قادری تھا۔ آپکے آباؤاجداد ضلع گجرات سے ترک سکونت کر کے میر پور میں جا بسے۔ آپ کا حسب نسب 4 پشتوں کے بعد پیرا شاہ غازی دمڑی والی سرکار سے جا ملتا ہے۔ نسبا آپ فاروقی ہیں سلسلہ نسب فاروق اعظم پر ختم ہوتا ہے۔ دربار کھڑی شریف کی مسند کافی مدت تک آپ کے خاندان کے زیر تصرف رہی۔

میاں محمد بخش نے ابتدائی تعلیم کھڑی کے قریب سموال کی دینی درسگاہ میں حاصل کی جہاں آپ کے استاد غلام حسین سموالوی تھے۔ آپ نے بچپن میں ہی علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کی اور ابتداء ہی سے بزرگان دین سے فیوض و برکات حاصل کرنے کیلئے سیر و سیاحت کی۔ کشمیر کے جنگلوں میں کئی ایک مجاہدے کئے شیخ احمد ولی کشمیری سے اخذ فیض کیا۔ چکوتری شریف گئے جہاں دریائے چناب کے کنارے بابا جنگو شاہ سہروردی مجذوب سے ملاقات کی ان کی بیعت میاں غلام محمد کلروڑی شریف والوں سے تھی۔

آپ کا سلسلہ طریقت قادری قلندری اور حجروی ہے۔

آپ نے زندگی بھر شادی نہیں کی بلکہ تجردانہ زندگی بسر کی۔

آپ کی وفات 1904ء بمطابق 1324ھ اپنے آبائی وطن کھڑی شریف ضلع میر پورمیں ہوئی اور وہاں پر ہی مزار بھی ہے۔

آپ نے اپنے کلام میں سچے موتی اور ہیرے پروئے ہیں۔ ایک ایک مصرعے میں دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ آپ کی شاعری زبان زد عام ہے۔

سیف الملوک آپ کی شاہکار نظم ہے۔ جس کا اصل نام سفر العشق ہے اور معروف نام سیف الملوک و بدیع الجمال ہے۔
دیگر تصنیفات ھیں؛
تحفہ میراں کرامات غوث اعظم
تحفہ رسولیہ معجزات جناب سرور کائنات
ہدایت المسلمین
گلزار فقیر
نیرنگ عشق
سخی خواص خان
سوہنی میہنوال،
قصہ مرزا صاحباں،
سی حرفی سسی پنوں
قصہ شیخ صنعان
نیرنگ شاہ منصور
تذکرہ مقیمی
پنج گنج جو سی حرفیوں کی کتاب ہے جس میں پانچ سی حرفیاں اور سی حرفی مقبول شامل ہے۔

آپ کی شاعری کی کچھ مثالیں:

عاماں بے اخلاصاں کولوں فیض کسے نہ پایا
ککر تے انگور چڑھایا تے ہر گچھا زخمایا

خاصاں دی گل عاماں آگے تے نئیں مناسب کرنی
دودھ دی کھیر پکا محمد ـ کتیاں اگے دھرنی

میاں محمد بخش کی اولاد نہ تھی اس بارے میں فرماتے ہیں:

عیداں تے شبراتاں آسن روحاں جآسن گھرنوں
تیری روح محمد بخشا تکسی کیڑے در نوں
اول حمد ثناء الہی جو مالک ہر ہر دا
اس دا نام چتارن والا ہر میدان نہ ہردا

Saturday, 26 November 2016

پاکستان کی فوج ' سیاسی جماعتوں اور سول سروسز کی کارکردگی۔

جنرل راحیل شریف کے جانشین کے طور پر جنرل قمر جاوید باجوہ کو پاکستان کی آرمی کا سربراہ بنانا وزیرِ اعظم پاکستان ' نواز شریف کا بہت بہترین اور دانشورانہ فیصلہ ھے۔ پاکستان کی فوج اب مزید منظم اور متحرک ھوگی جبکہ پاکستان مزید محفوظ اور طاقتور ھوگا۔ انشا اللہ

مھاجر جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں پاکستان میں مارشلا نافذ کرکے پاکستان کو مھاجرستان بنانے کے لیے اقربا پروری اور مفاد پرستی کو فروغ دے کر پاکستان کی فوج کے ادارے کو برباد اور پاکستان کے سیاسی اداروں کو تباہ کردیا تھا۔

پنجابی جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پاکستان کی فوج کے ادارے کا سربراہ بننے کے بعد فوج کے ادارے کو ٹھیک کرنا شروع کیا اور پنجابی جنرل راحیل شریف نے فوج کے ادارے کا سربراہ بننے کے بعد فوج کے ادارے کو بہترین بنا دیا۔ اب پنجابی جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کے ادارے کا سربراہ بننے کے بعد فوج کے ادارے کو مزید بہترین بنا دینا ھے۔ 

اس لیے سیاسی پارٹیوں کے سربراہ اب اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کو منظم اور متحرک ادارے بنانے پر دھیان دیں۔ جبکہ پاکستان کی فوج کے ادارے کی آشیر باد اور اشارے کی بنیاد پر سیاست کرنے کے عادی حضرات اپنے گھر بار اور کاروبار پر دھیان دیں۔ 

پاکستان کی فوج کے ادارے کے منظم اور مظبوط فوجی ادارہ بننے کے بعد اب ایک تو سیاسی جماعتوں کو منظم اور مظبوط سیاسی ادارے بنانا ضروری ھے اور دوسرا پاکستان کی سول سورسز کے ادارے کی کارکردگی بہتر اور معیاری بنانے کی ضرورت ھے۔

پاکستان کی سیاسی جماعتیں اگر منظم اور مظبوط سیاسی ادارے بننے میں ناکام رھیں اور پاکستان کی حکومت اگر پاکستان کی سول سورسز کے ادارے کی کارکردگی بہتر اور معیاری بنانے میں ناکام رھی تو کہیں ایسا نہ ھو کہ با امر مجبوری پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو منظم اور مظبوط سیاسی ادارے جبکہ پاکستان کی سول سورسز کے ادارے کی کارکردگی بہتر اور معیاری بنانے کے فرائض بھی کہیں پاکستان کی فوج کے ادارے کو انجام نہ دینے پڑ جائیں۔

جنرل راحیل شریف کے پاکستان کی فوج کے ادارے کا سربراہ بننے کے بعد فوج کے ادارے کو دنیا بھر میں ایک بہترین ادارہ بنا کر با عزت اور پر وقار طریقے سے ریٹائر ھونے اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے پاکستان کی فوج کے ادارے کا نیا سربراہ بننے سے یہ ثابت ھو رھا ھے کہ پاکستان کی فوج اب ایک منظم ' مظبوط اور مستحکم ادارہ بن چکی ھے۔ 

منظم ' مظبوط اور مستحکم اداروں میں قحط الرجالی نہ ھونے کی وجہ سے قیادت کا فقدان نہیں ھوتا۔ اس لیے منظم ' مظبوط اور مستحکم ادرے کے اراکین شخصیات کے محتاج نہیں ھوتے۔ لہذا ادارے کے اراکین شخصیات کی پسند نہ پسند کے بجائے ادارے کے قائدے ' قانوں اور ضابطے کے مطابق اپنے فرائض انجام دیتے ھیں۔

پاکستان کی فوج کے ادارے کے منظم ' مظبوط اور مستحکم فوجی ادارہ بننے کے بعد اب ایک تو سیاسی جماعتوں کو منظم ' مظبوط اور مستحکم سیاسی ادارے بنانا ضروری ھے اور دوسرا پاکستان کی سول سورسز کے اداروں کو منظم ' مظبوط اور مستحکم حکومتی ادارے بنانے کی ضرورت ھے۔ 

اس لیے سیاسی جماعتوں اور پاکستان کی سول سورسز کے اداروں میں قحط الرجالی کا خاتمہ کرکے قیادت کے فقدان کو ختم کرنا ضروری ھے۔ تاکہ نہ تو پاکستان کی سیاسی جماعتیں شخصیات کی محتاج رھیں اور نہ پاکستان کی سول سورسز کے ادارے شخصیات کے محتاج رھیں۔

Friday, 25 November 2016

پاکستان وچ پنجابی قوم پرست سیاسی پارٹی کدوں بنے گی؟

سیاست دا کھیل تن طراں دے بندے کھیل سکدے نے تے باقی تماشبین یا رولا پان والے ھوندے نے۔

سیاست دا کھیل؛

1۔ اک تے او کھیل سکدے نے جنہاں نوں سیاسی پروگرام بنانا آندا ھووے۔

2۔ دوجے او کھیل سکدے نے جنہاں نوں بنائے گئے سیاسی پروگرام تے عمل کروانا آندا ھووے۔

3۔ تیجے او کھیل سکدے نے جنہاں دا عوام نال رابطہ ھووے تے او بنائے گئے کسے سیاسی پروگرام دے اتے عوام نوں کٹھا کر سکن۔

سیاسی پروگرام بنان والے ' بنائے گئے سیاسی پروگرام تے عمل کروان والے ' عوام نال رابطے والے ' کٹھے ھو جان تے سیاسی پارٹی بن جاندے نے۔

جیس سیاسی پارٹی کول جنے چنگے سیاسی پروگرام بنان والے ' بنائے گئے سیاسی پروگرام تے عمل کروان والے ' عوام نال رابطے والے ھون ' او سیاسی پارٹی اونی ای کامیاب ھوندی اے۔

پنجابی قوم پرستی بڑی تیزی نال اگے ودھ رئی اے پر ھجے تک پنجابیاں وچ ایہو جئے قوم پرست بندے تیار نئیں ھوئے جنہاں نوں پنجاب تے پنجابی قوم دے لئی قوم پرستی والا سیاسی پروگرام بنانا آندا ھووے ' جنہاں نوں بنائے گئے سیاسی پروگرام تے عمل کروانا آندا ھووے۔

پنجابیاں وچ ھجے صرف ایہو جئے بندے نے جنہاں دا عوام نال رابطہ اے تے او بنائے گئے کسے سیاسی پروگرام دے اتے عوام نوں کٹھا کر سکدے نے۔

ایس لئی ھجے پنجابی قوم پرست سیاسی پارٹی دے بنن دی کوئی امید نئیں اے پر 2020 تک سیاسی پروگرام بنان والے ' بنائے گئے سیاسی پروگرام تے عمل کروان والے بندے تیار ھو جانے نے تے فے پنجابی قوم پرست سیاسی پارٹی وی بن جانی اے۔

The consequence of Avoiding the Rules of Politics by the Punjabis.

To be a nation, essential requirement is a common land, language, culture and traditions, not a religion, because of common religion Punjabi, Sammat, Hindko, Brohi, Muhajir, Baloch, Pukhtoon Muslims are an “Ummat”, not a “Nation” and due to common Punjabi land, language, culture, and traditions Muslim, Sikh, Christen and Hindu Punjabi’s are a “Nation”. Religion is a personal subject of Muslim, Sikh, Christian, and Hindu Punjabi’s for their moral development and spiritual grooming.

Pakistan is not a homogenous state, because of thousands of years old Punjabi, Sammat, Hindko, Brohi land and their language, culture, traditions, it is a heterogeneous state, therefore nationalism is a dominating factor and it will take a boost in future.

Already, since decades, Punjabi’s are in trouble because of lacking interest in Punjabi nationalist politics, ignorant to the Punjabi language, unaware of the Punjabi culture and uninformed to the Punjabi traditions because of preference to the Urdu language, Gunga Jumna culture, and UP-ite traditions.

Especially, the Punjabi’s migrated from the eastern side of Punjab to Pakistan were already under domination of Urdu language, Gunga Jumna culture and UP-ite traditions due to the neighborhood of Uttar Pradesh, therefore they accepted and owned the hegemony of Urdu language, Gunga Jumna culture and UP-ite traditions by surrendering the Punjabi language, culture and traditions in conjunction with lending support to the UP-ites to dominate Urdu language, Gunga Jumna culture and UP-ite traditions by means of suppressing and eliminating the languages, cultures and traditions of actual and original entities of Pakistan i.e. Punjabi, Sammat, Hindko, Brohi (due to many factors).

Punjabi’s should understand that Urdu language; Gunga Jumna culture and UP-ite traditions have no relevance with Punjabi’s and Pakistani’s, for the reason that, Urdu language; Gunga Jumna culture and UP-ite traditions are alien for actual and original entities of Pakistan i.e. Punjabi, Sammat, Hindko and Brohi (The Nations of Indus Valley Civilization).

Furthermore, Urdu language; Gunga Jumna culture and UP-ite traditions are the fundamental source of the disintegration of Punjabi’s and Pakistani’s. Therefore, being majority population of Pakistan, Punjabi’s are required to own their motherland, language, culture, and traditions in conjunction with respect and regard to the land, language, culture, and traditions of Sammat, Hindko, Brohi, instead of protracting and patronizing the hegemony of Urdu language, Gunga Jumna culture, and UP-ite traditions.

Punjabi’s are a big and martial race of subcontinent, but as a result of avoiding the rules of nature, principals of sociology and procedures of politics, Punjabi’s do not have the respect, regard, and honor for their motherland language, culture, and traditions. Therefore, Punjabi’s are under humiliation, loathing, and abuse since decades.

In United Punjab, all the Muslim, Hindu, Sikh, and Christian Punjabi’s were a nation because of common land, language, culture, and traditions. The religion was a personal subject whereas; clans and communities were the institutions for social interaction and charity work. Punjab was a secular region and Punjabi was a respectable and honorable language, culture and nation in India.

In the 19th century due to politics of Congress, dominated by Hindi-speaking leaders, Hindu Punjabi’s started preferring Hindi language, culture, and traditions instead of Punjabi. Later on, Muslim Punjabi’s did the same due to the influence of the Muslim League, dominated by the UP-ites Urdu speaking Muslim leaders.

As a consequence of preferring the Hindi language, culture and traditions by Hindu Punjabi’s and Urdu language, culture and traditions by Muslim Punjabi’s, “A Great Nation of Sub-Continent Got Divided and Get Emerged into Muslim and Hindu States” as well as, started receiving the reward of hate and regret from every honorable nation, in addition to humiliation, loathing and abuse from Hindi and Urdu speaking persons too. This is the punishment of Punjabi’s for not respecting their motherland, language, culture, and traditions.

Hence, time has proved that; independence of Pakistan at cost of splitting up Punjab with blood of  2 million Punjabi’s, lending support to the UP-ites to dominate Urdu language, Gunga Jumna culture and UP-ite traditions by means of suppressing and eliminating the languages, cultures and traditions of actual and original entities of Pakistan i.e. Punjabi, Sammat, Hindko, and Brohi, along with hegemony of UP-ite Muhajirs in national and foreign affairs bureaucracy, military and civil establishment, skilled and technical professions, politics and media organizations, was a blunder by the Punjabi’s due to political immaturity, irresponsibility and pettiness.

However, “Punjabi Nationalist Politics and Leadership” is a simple way. Moreover, suitable solution for Punjab and Punjabi’s to save the Punjabi land, language, culture and traditions from domination of Urdu language, Gunga Jumna culture and UP-ite traditions as well as humiliating, loathing and abusive attitude towards Punjabi’s in addition to the resolution of Baloch, Pukhtoon, Muhajir “Card Game Politics”.

Initially at the time of print media, the UP-ite Mafia had total control of print media to suppress the voice of actual entities of Pakistan i.e. Punjabi, Sammat, Hindko, and Brohi; later on, they also managed the control of electronic media. Therefore, UP-ite media control is required to be replaced by the actual and original entities of Pakistan i.e. Punjabi, Sammat, Hindko, and Brohi, along with reciprocal and respectable relationship within actual and original entities of Pakistan i.e. Punjabi, Sammat, Hindko, and Brohi.

It is also vital to induct and include the actual and original entities of Pakistan (i.e. Punjabi, Sammat, Hindko, and Brohi) in national policy making and decision taking institutions and departments in replacement of "Alien UP-ites", "To assemble Pakistani’s and developing Pakistan". Especially foreign affairs and defense establishment should be reserved for the “Son of Soils” and "The Citizens of Pakistan", those have accumulated and assimilated themselves into regional languages, cultures, and traditions of their residential region along with declaring the Punjabi, Sindhi, Hindko, and Brahvi as National languages of Pakistan as a substitute of Urdu.

Wednesday, 23 November 2016

اقوال

جو قومیں اپنے مشاہیر کی قدر نہیں کرتیں وہ مشتہر افراد کے چنگل میں پھنس جاتی ھیں۔ (شھباز ارائیں)

جس قوم کے افراد میں عادت نہ ھو کہ اپنی قوم میں موجود مشاہیرین کی رھنمائی کو قبول کریں ' تو وہ قوم ٹکڑیوں میں بٹ جاتی ھے۔ (شھباز ارائیں)

جس قوم میں ایسے دوراندیش افراد نہ ھوں ' جو عوام کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتے ھوں ' تو وہ قوم ' دوسری قوموں کی سماجی اور سیاسی غلام بن جاتی ھے۔ (شھباز ارائیں)

جس قوم میں عوام کی قیادت کرنے والے افراد دوراندیش نہ ھوں یا عوام میں عادت نہ ھو کہ دوراندیش افراد کی رھنمائی کو قبول کریں تو وہ قوم آپس میں دست و گریباں رھتی ھے۔ (شھباز ارائیں)

کسے نوں وی تسی اوناں ای سمجھا سکدے او جنی اوس وچ سمجھن دی صلاحیت ھوندی اے۔ (شھباز ارائیں)

جے تسی کسے نوں اوس دی سمجھن دی صلاحیت توں ودھ سمجھان دی کوشش کردے او تے فے تسی سمجھا نئیں پر اوس نوں سنا رئے ھوندے او۔ (شھباز ارائیں)

کسے نوں وی اوس دی سمجھن دی صلاحیت توں ودھ سمجھان توں پہلوں اوس دی سمجھن دی صلاحیت نوں ودھاؤ۔ (شھباز ارائیں)

Tuesday, 22 November 2016

پنجاب اسمبلی وچ پنجابی زبان نوں فروغ دین دی قراداد جمع۔

پنجاب دی اک دھی حنا پرویز بٹ نے پنجاب اسمبلی وچ پنجابی زبان نوں فروغ دین دی قراداد جمع کروائی اے۔ پنجاب دی اسمبلی چوں جد اے قانون پاس ھو گیا کہ ھن پنجاب دے سکولاں وچ تعلیم پنجابی زبان وچ دتی جاوے گی تے پنجاب دے دفتراں وچ کارروائی اردو دے بجائے پنجابی زبان وچ ہووے گی تے فے پہلوں توں ای دنیا وچ بولی جان والی نوویں وڈی زبان ھون دے کرکے پنجابی زبان نے عالمی سطح تے بوھت زیادہ اھمیت اختیار کرلینی اے۔ جیس دے کرکے پنجابی زبان نے دنیا وچ سب توں زیادہ بولی ' سمجھی تے سکھی جان والیاں دس وڈیاں عالمی زباناں چوں اک زبان دا درجہ حاصل کرلینا اے تے پنجابی قوم نے بین الاقوامی سطح تے مزید عزت تے وقار حاصل کرلینا اے۔

پنجابی قوم دنیا دی نوویں سب توں وڈی قوم اے۔
پنجابی قوم جنوبی ایشیا دی تیجی سب توں وڈی قوم اے۔
پنجابی مسلمان مسلم امہ دی تیجی سب توں وڈی برادری اے۔
پنجابیاں دی پاکستان وچ آبادی 60 فیصد اے۔
پنجابی زبان پاکستان دی 80 فیصد آبادی بولنا جاندی اے۔
پنجابی زبان پاکستان دی 90 فیصد آبادی سمجھ لیندی اے۔

پنجابی زبان دی پرورش صوفی بزرگاں بابا فرید ' بابا نانک ' شاہ حسین ' سلطان باہو ' بلھے شاہ ' وارث شاہ ' خواجہ غلام فرید ' میاں محمد بخش کیتی۔ ایس لئی پنجابی زبان دا پس منظر روحانی ھون دے کرکے پنجابی زبان وچ علم ' حکمت تے دانش دے خزانے نے جیہڑے اخلاقی کردار نوں بہتر کرن تے روحانی نشو نما دی صلاحیت رکھدے نے پر  پاکستان دے صوبہ پنجاب وچ وی اج ماں بولی دے نال اوھو جیآ ای مسئلہ اے جیہڑا گیارہویں صدی عیسوی وچ انگریزی نال برطانیہ وچ سی۔ پنجاب دا مغرب توں متاثر طبقہ انگریزی زبان دے نفاذ تے زور دیندا اے۔ پنجابیاں دی اشرافیہ دا رحجان اردو زبان ول اے۔ ایہو ای وجہ اے کہ اردو زبان نوں پنجاب دی سرکاری زبان دا درجہ حاصل اے۔ جد کہ انگریزی تے اردو زبان نال عام پنجابی نوں دلچسپی نئیں اے۔ کیونکہ پنجاب دی عوامی زبان پنجابی ای اے۔ پر ایس دے باوجود پنجابی زبان دے عوامی زبان ھون دی افادیت تے پنجابیاں دی اشرافیہ توجہ نئیں دے رئی۔ 

پنجابیاں دی اشرافیہ اردو توں متاثر اے تے غلامی دے خول چوں بار نئیں آنا چاھئدی۔ حالانکہ اردو زبان صرف کاغذاں دی حد تک تسلیم شدہ سرکاری تے پنجابیاں دی اشرافیہ دی زبان دی حد تک محدود زبان تے ھے پر پنجابیاں دی عوامی زبان نئیں بن پا رئی۔ عام پنجابی اپنی ماں بولی پنجابی نوں چھڈ وی نئیں ریا تے نسل در نسل منتقل وی کر ریا اے۔ ایس لئی ای پنجابی زبان پورے پنجاب وچ بولی تے سمجھی جاندی اے۔ جد کہ اردو صرف پنجاب دی تسلیم شدہ سرکاری تے پنجابیاں دی اشرافیہ دی زبان دی حد تک محدود اے۔

فرانس دے نارمنز نے گیارہویں صدی عیسوی وچ برطانیہ نوں فتح کر کے اپنی حکومت قائم کر لئی۔ اس فتح توں بعد انگریزاں دے مذہبی طبقے نے لاطینی زبان دے نفاذ تے زور دتا جد کہ انگریزاں دی اشرافیہ دا رحجان فرانسیسی زبان ول سی۔ اے ای وجہ سی کہ فرانسیسی زبان نوں برطانیہ دی سرکاری زبان دا درجہ مل گیا۔ حالانکہ لاطینی تے فرانسیسی زبان نال عام انگریز نوں دلچسپی نئیں سی۔ کیونکہ برطانیہ دی عوامی زبان انگریزی ای سی۔ پر ایس دے باوجود انگریزی زبان دے عوامی زبان ھون دی افادیت تے انگریزاں دی اشرافیہ نے توجہ نہ دتی۔ 

اے صورتحال تقریبا تین سو سال چلی۔ فرانسیسی زبان صرف تسلیم شدہ سرکاری تے انگریزاں دی اشرافیہ دی زبان دی حد تک محدود رئی پر انگریزاں دی عوامی زبان نہ بن سکی۔ عام انگریز نے اپنی ماں بولی انگریزی نوں نہ چھڈیا تے نسل در نسل منتقل وی کیتا۔ 

چودھویں صدی دے آغاز تک برطانیہ وچ فرانسیسی اثر و رسوخ گھٹ گیا تے برطانیہ نے آزادی دے لئی فرانس نال لگ بھگ سو سالہ جنگ لڑی۔ برطانیہ وچ 1362 وچ اک قانون پاس کیتا گیا کہ ھن عدالتی کارروائی فرانسیسی دے بجائے انگریزی زبان وچ ہووے گی۔ 

ایس طراں برطانوی قوم نے نہ صرف اپنی شناخت نوں زندہ رکھیا بلکہ اپنی زبان نوں وی ختم ہون توں بچایا تے اج دنیا وچ انگریزی سب توں زیادہ بولی ' سمجھی تے سکھی جا رئی اے تے عالمی زبان دا درجہ حاصل کر چکی اے۔

Sunday, 20 November 2016

سندھ میں سندھ کی سطح کی سیاسی جماعت کیسے بنائی جا سکتی ھے۔

سندھ میں اصل سیاسی مسائل تو سندھ کے حکومتی اداروں کی کارکردگی بہتر کرکے سندھ کی عوام کو حکومتی ملازمین کے ظلم اور زیادتیوں سے نجات دلانا ' ترقیاتی اسکیموں کو بہتر طور پر تکمیل تک پنہچانا ' سندھ کی عوام کی معاشی اور سندھ کی اقتصادی حالت کو بہتر کرنا ' سندھ کی عوام کو روزگار کے مواقع اور عوامی سہولتیں فراھم کرنا ھیں۔ لیکن جب تک سندھ میں برادریوں کے مسئلے اور لسانی بنیاد پر تنازعات طے نہیں ھو پاتے ' اس وقت تک سندھ کے عوام نے برادریوں کے مسئلوں اور لسانی تنازعات میں ھی پھنسے رھنا ھے۔

سندھ میں برادریوں کے مسئلوں اور لسانی بنیاد پر تنازعات کی وجہ سندھ میں سندھ کی سطح کی سیاسی جماعت کا نہ ھونا ھے۔ سندھ کی دس بڑی برادریوں کا جائزہ لیا جائے تو سندھ 1۔ سماٹ 2۔ پنجابی 3۔ پٹھان 4۔ بروھی 5۔ گجراتی 6۔ راجستھانی 7۔ بہاری 8۔ بلوچ نزاد سندھی 9۔ عربی نزاد سندھی 10۔ یوپی ' سی پی والوں کی برادریوں کا صوبہ ھے۔

دیہی سندھ کی سیاسی جماعت پی پی پی ھے جو کہ نہ صرف بلوچ نزاد سندھی آصف زرداری کے کنٹرول میں ھے بلکہ پی پی پی پر کنٹرول بھی بلوچ نزاد سندھیوں کا ھی ھے۔ سماٹ سندھیوں ' عربی نزاد سندھیوں اور بروھیوں کی پی پی پی میں حیثیت ثانوی ھے۔ جبکہ دیہی سندھ میں آباد پنجابیوں کو پی پی پی میں لیا ھی نہیں جاتا۔ حالانکہ سماٹ سندھیوں اور بلوچ نزاد سندھیوں کے بعد دیہی سندھ کی تیسری بڑی برادری دیہی سندھ میں آباد پنجابی ھیں۔

شہری سندھ کی سیاسی جماعت ایم کیو ایم ھے جو کہ نہ صرف یوپی کے الظاف حسین کے کنٹرول میں ھے بلکہ ایم کیو ایم پر کنٹرول بھی یوپی ' سی پی والوں کا ھی ھے۔ گجراتیوں ' راجستھانیوں اور بہاریوں کی ایم کیو ایم میں حیثیت ثانوی ھے۔ جبکہ شہری سندھ میں آباد پنجابیوں اور پٹھانوں کو ایم کیو ایم کے مھاجروں کی جماعت ھونے کی وجہ سے ایم کیو ایم میں لیا ھی نہیں جاتا۔ حالانکہ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے بعد شہری سندھ کی دوسر بڑی برادری شہری سندھ میں آباد پنجابی اور تیسری بڑی برادری شہری سندھ میں آباد پٹھان ھیں۔

پی پی پی دیہی سندھ کی سیاسی جماعت ھے اور ایم کیو ایم شہری سندھ کی سیاسی جماعت ھے۔ اس لیے سندھ میں سندھ کی سطح کی کوئی سیاسی جماعت نہیں ھے۔ جبکہ سندھ کے سماٹ ' پنجابی ' پٹھان ' بروھی ' گجراتی ' راجستھانی سندھ کی سیاست میں بے بس اور بے کس ھیں۔

الطاف حسین کے پاکستان سے باھر رھنے اور پاکستان مخالف حرکتوں کی وجہ سے شہری سندھ میں ایم کیو ایم نے ٹکڑیوں میں بٹ کر بکھرنا شروع کردیا ھے ۔ شہری سندھ میں آباد پنجابیوں اور پٹھانوں کو تو ایم کیو ایم میں لیا ھی نہیں جاتا تھا لیکن اب گجراتیوں ' راجستھانیوں اور بہاریوں نے بھی ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرنا شروع کردی ھے۔

آصف زرداری کے طرزِ سیاست کی وجہ سے دیہی سندھ میں پی پی پی کے ووٹر ' ورکر اور سپورٹر پی پی پی سے مایوس ھوتے جارھے ھیں۔ دیہی سندھ میں آباد پنجابیوں کو تو پی پی پی میں لیا ھی نہیں جاتا تھا۔ لیکن اب سماٹ سندھیوں ' عربی نزاد سندھیوں اور بروھیوں نے بھی پی پی پی سے علیحدگی اختیار کرنے کے لیے سوچنا شروع کردیا ھے۔

سندھ میں رھنے والے %42 سماٹ سندھی ھیں ' جو کہ سندھ کے اصل باشندے ھیں۔
%19 مھاجر ھیں ' جو یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ' بہاری ' گجراتی ' راجستھانی اور دکنی ھیں۔
%16 کردستانی نزاد سندھی ھیں ' جو خود کو بلوچ کہلواتے ھیں۔
%10 پنجابی ' %7 پٹھان ' %4 دیگر ھیں۔
%2 عربی نزاد سندھی ھیں ' جو خود کو عباسی ' انصاری ' گیلانی ' جیلانی ' قریشی ' صدیقی وغیرہ کہلواتے ھیں۔

سندھ میں سیاسی قیادت کا خلا چونکہ بڑھتا جا رھا ھے۔ اس لیے سندھ کے سماٹ سندھی ' پنجابی ' پٹھان ' بروھی ' عربی نزاد سندھی ' گجراتی ' راجستھانی ' بہاری کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر اکٹھا کر لینے والی سیاسی جماعت نہ صرف سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کی جماعت بن سکتی ھے بلکہ سندھ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن سکتی ھے۔ جبکہ شہری علاقوں میں یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں اور دیہی علاقوں میں بلوچ نزاد سندھیوں کی سیاسی بالاتری سے بھی نجات حاصل کی جاسکتی ھے۔

مھاجر کو پاکستان کا صدر اور سندھ کا گورنر بنانے سے وفاق کو نقصان ھوتا ھے۔

پاکستان کا صدر وفاق میں وفاق کا نمائندہ ھوتا ھے اور گورنر صوبے میں وفاق کا نمائندہ ھوتا ھے لیکن سندھ کی گورنری تو لگتا ھے جیسے مہاجروں کے لیے ھی مخصوص کردی گئی ھے حالانکہ مہاجروں کو نہ تو پاکستان کے وفاقی معاملات ' مسائل اور مفادات کا کچھ اندازہ ھے ' نہ سندھیوں کے وفاق کے ساتھ تعلقات کو  بہتر بنانے سے کوئی دلچسپی ھے۔

سندھ میں مہاجر چونکہ سندھ کے شہری علاقوں پر قابض ھیں ' اس لیے دیہی سندھ تک محدود سندھیوں کو سندھ کے شہری علاقوں میں منتقل اور مستحکم ھونے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرتے رھتے ھیں۔

اس لیے ' وفاق کے نمائدے کے طور پر پاکستان کا صدر اور سندھ کا گورنر بننے کے بعد  مہاجر صدر اور مہاجر گورنر '  وفاق اور سندھیوں میں تعلقات کو  مظبوط و مستحکم کرنے کے بجائے محاذآرائی کی طرف لے جانے کی کوششیں اور سازشیں کرتا رھتا ھے۔

دوسری طرف ' سندھ میں مہاجر کی صرف سندھیوں کے ساتھ ھی محاذآرائی نہیں ھے بلکہ سندھ  میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کے ساتھ بھی ان کی محاذآرائی رھتی ھے۔ اس لئے ' مہاجر گورنر کے ھوتے ھوئے مہاجر گورنر سندھ میں آباد پنجابیوں '  پٹھانوں اور سندھ کے اصل سندھیوں کے درمیاں تعلقات کو  مظبوط و مستحکم کرنے کے بجائے سندھ کے اصل سندھیوں اور پنجابیوں ' پٹھانوں کے درمیان محاذآرائی پیدا کرنے کی کوششیں اور سازشیں کرتا رھتا ھے۔

مہاجر اصل میں 1972 میں ذالفقار علی بھٹو اور اس وقت سندھ میں قائم مہاجر '  پنجابی '  پٹھان اتحاد کے درمیان ھونے والے معاھدہ کا ناجائز فائدھ اٹھا رھے ھیں.  سندھ کے وزیر اعلی ممتاز بھٹو کے وقت میں ' 1972 میں سندھ اسمبلی میں لینگویج بل پیش کیا گیا جس کے تحت سندھ کی سرکاری اور تعلیمی زبان اردو کے بجائے صرف سندھی کو قرار دینا تھا. لینگویج بل سندھ اسمبلی میں پیش ھوتے ھی سندھ میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے.

اس وقت کے حالات میں مہاجر '  پنجابی '  پٹھان کو غیر سندھی قرار دیا جاتا تھا جسکی وجہ سے سندھ کے ایک مہاجر سیاستدان نواب مظفر علی خاں کی قیادت میں مہاجر '  پنجابی '  پٹھان اتحاد بنا ھوا تھا اور سندھ کے مہاجر '  پنجابی '  پٹھان نواب مظفر علی خاں کی قیادت میں متحد تھے۔ مہاجر اردو زبان کو بھی سندھ کی سرکاری اور تعلیمی زبان رکھنا چاھتے تھے۔ سندھ کے  پنجابی اور پٹھان ' مہاجروں کے اتحادی ھونے کی وجہ سے اور بعض دیگر وجوھات کی بنا پر مہاجروں کے مطالبے کی حمایت کر رھے تھے۔

سندھ میں اردو اور سندھی کی بنیاد پر لسانی فسادات کے بعد ذالفقار علی بھٹو کو ٹی وی پر آکر سندھ کے غیر سندھی مہاجروں ' پنجابیوں اور پٹھانوں سے معافی مانگنی پڑی اور صرف سندھی کو سندھ کی سرکاری اور تعلیمی زبان قرار دینے کا بل واپس لینے کے ساتھ ساتھ یہ معاھدہ بھی کرنا پڑا کہ سندھ کا وزیرِ اعلیٰ سندھی اور گورنر غیر سندھی ھوا کرے گا۔ اس لیے اس وقت کے سندھ کے سندھی گورنر رسول بخش تالپور کو ھٹاکر مہاجر بیگم رعنا لیاقت علی خاں کو سندھ کا گورنر بنا دیا گیا۔ ایم کیو ایم کے قیام تک سندھ کے مہاجر ' پنجابی ' پٹھان ' غیر سندھی کی بنیاد پر ایک تھے لیکن یہ اور بات ھے کہ سندھ کا گورنر غیر سندھی کے معاھدے کے تحت صرف مہاجر ھی بنتا رھا۔

ایم کیو ایم کے قیام کے بعد سندھ کے پنجابی اور پٹھان چونکہ اب مہاجر سے الگ ھوچکے ھیں اس لیے سندھ میں غیر سندھی کے نام پر مہاجر گورنر کی تعیناتی کا رواج ختم کرکے۔۔۔۔۔

سندھ کے مفاد کی خاطر ۔۔۔۔۔۔۔

سندھیوں  کے مفاد کی خاطر ۔۔۔۔۔۔۔

سندھ کے رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کے مفاد کی خاطر ۔۔۔۔۔۔۔

مہاجر کو سندھ  کا  گورنر بنانے  کا رواج نہ صرف  اب ختم ھونا چاھیئے بلکہ سندھ اور وفاق کے درمیان شکوہ ' شکایت اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے سیاسی طور پر بہتر یہ ھوگا کہ؛ پاکستان کا صدر سندھی اور سندھ کا گورنر سندھ کا سندھی بولنے والا پنجابی ھوا کرے۔

سندھ میں ' سندھ کی مجموعی آبادی کے مطابق تو سندھی پہلے ' مہاجر دوسرے ' پنجابی تیسرے اور پٹھان چوتھے نمبر پر ھیں لیکن کراچی میں مہاجر پہلے ' پنجابی دوسرے ' پٹھان تیسرے اور سندھی چوتھے نمبر پر ھیں جبکہ اندرون سندھ ' سندھی پہلے ' پنجابی دوسرے ' مہاجر تیسرے اور پٹھان چوتھے نمبر پر ھیں۔ اس لیے سندھ کا گورنر سندھ کا سندھی بولنے والا پنجابی ھونا چاھیئے۔ کیونکہ اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی پاکستان کے 126 اضلاع میں سے صرف ساڑھے تین اضلاع میں اکثریت ھے۔ جو کہ کراچی کا ضلع سینٹرل ' ضلع ایسٹ اور ضلع کورنگی ھیں اور آدھا ضلع حیدرآباد ضلع کی تحصیل حیدرآباد اور لطیف آباد ھے۔ اس لیے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی نہ پاکستان کے وفاقی معاملات میں ضرورت ھے اور نہ سندھ کے صوبائی معاملات میں اھمیت ھے۔

ویسے بھی پاکستان کے موجودہ حالات کا سیاسی تقاضہ ھے کہ پاکستان کا وزیرِ اعظم پنجابی اور سندھ کا وزیرِ اعلیٰ سندھی جبکہ پاکستان کا صدر ' سندھ کی ڈپٹی اسپیکر ' کراچی ' حیدرآباد کے میئر و ڈپٹی میئر ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے ھونے کی وجہ سے سندھ کا گورنر بھی اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر کو بنانے کے بجائے سندھ کا گورنر کسی باصلاحیت سندھی یا سندھ میں رھنے والے اور سندھی زبان بولنے والے کسی باصلاحیت پنجابی کو بنایا جائے۔ بلکہ بہتر ھوگا کہ پاکستان کا صدر سندھ کے کسی باصلاحیت سندھی اور سندھ کا گورنر سندھ میں رھنے والے اور سندھی زبان بولنے والے کسی باصلاحیت پنجابی کو بنایا جائے۔ جو ایک تو سندھ کے رھنے والے سندھیوں ' پنجابیوں ' پٹھانوں اور مہاجروں کے درمیان باھمی سماجی رابطے کو بہتر بنائیں اور دوسرا وفاق کے نمائندے ھونے کی وجہ سے سندھ اور پنجاب کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرکے ' سندھیوں اور پنجابیوں کے درمیان موجود غلط فہمیوں اور شکوہ شکایتوں کو سماجی سطح پر ختم کروانے کے لیے سندھ اور پنجاب کی علمی ' ادبی اور دانشور شخصیات کے آپس میں روابط بھی کرواتیں۔ جو کہ اردو بولنے والا ھندوستانی مہاجر پاکستان کا صدر یا سندھ کا اردو بولنے والا ھندوستانی مہاجر گونر کسی صورت نہیں کرے گا۔ بلکہ کرنے ھی نہیں دے گا۔ کیونکہ؛

اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی پاکستان کے 126 اضلاع میں سے صرف ساڑھے تین اضلاع میں اکثریت ھے۔ جو کہ کراچی کا ضلع سینٹرل ' ضلع ایسٹ اور ضلع کورنگی ھیں اور آدھا ضلع حیدرآباد ضلع کی تحصیل حیدرآباد اور لطیف آباد ھے۔ اس لیے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں  کو کراچی ' یوپی ' سی کے رسم و رواج اور اردو زبان کے علاوہ اور کسی چیز سے دلچسپی نہیں۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جب کہتے ہیں کہ پاکستان پہلے تو اس سے انکی مراد کراچی ھوتا ھے نہ کہ پنجاب ' دیہی سندھ ' خیبر پختونخواہ اور بلوچستان۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جب کہتے ہیں کہ پاکستانیت تو اس سے انکی مراد یوپی ' سی کے رسم و رواج اور اردو زبان ھوتی ھے ' نہ کہ پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ کے رسم و رواج اور نہ پنجابی ' سندھی ' پشتو اور بلوچی زبان۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جب کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم کی ترقی تو اس سے انکی مراد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ہی ھوتے ہیں نہ کہ پاکستان کی اصل قومیں پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ۔ 

Saturday, 19 November 2016

سندھی صوبائی سطح کی سیاسی لیڈرشپ سے بھی محروم ھیں۔

پاکستان کا ماحول لسانی بن چکا ھے اور سیاسی پارٹیاں بھی لسانی بنیاد پر منظم ھیں.

مھاجر ایم کیو ایم کے مھاجر تشخص کی وجہ سے ایم کیو ایم کو ووٹ دینا پسند کرتے تھے اور کرتے ھیں.

سندھی پی پی کے سندھی تشخص کی وجہ سے پی پی کو ووٹ دینا پسند کرتے تھے اور کرتے ھیں.

اب پنجابی بھی قوم پرستی کی طرف مائل ھوچکے ھیں اس لیے پنجابی تشخص والی سیاسی پارٹی کو ووٹ دینے کی طرف مائل ھیں.

ماضی میں پنجابی پی پی کو صرف ووٹ ھی نہیں دیتے تھے بلکہ پی پی کی بنیاد بھی پنجاب ھی میں رکھی گئی.

اس وقت پنجاب میں پی پی کو سندھیوں کی پارٹی سمجھا جاتا ھے اس لیے مستقبل میں پی پی  کو پنجاب سے مینڈیٹ نہیں ملے گا.

ایک طرف تو سندھ میں رھنے والے سید اور بلوچ خود کو سندھی قرار دیتے ھیں تو دوسری طرف سندھ میں 1901 اور 1932 سے آباد پنجابی کو سندھی تسلیم کرکے سماجی ' سیاسی ' معاشی اور انتظامی معاملات میں برابری کا حق دینے کی مخالفت کرتے ھیں۔ حالانکہ سندھ میں رھنے والے پنجابی اپنے نام کے ساتھ پنجابی کا لفظ تک نہیں لگاتے جبکہ بلوچ اور سید اپنے نام کے ساتھ لفظ بلوچ اور سید ضرور لکھتے ھیں لیکن پھر بھی پنجابی کو تو نہ سندھی تسلیم کیا جاتا ھے اور نہ برابر کے حقوق دیے جاتے ھیں جبکہ بلوچ اور سید کو سندھی تسلیم ھی نہیں کیا جاتا بلکہ دیہی سندھ ان کے کنٹرول میں ھے اور سماٹ سندھی کو بھی انکے ساتھ آنکھیں ملا کر بات کرنے کی ھمت نہیں.

بحرحال اب سندھیوں کے ساتھ پنجاب کے تعلقات کا انحصار سندھ میں رھنے والے پنجابیوں کے ساتھ ھونے والے سلوک سے منسلک ھے اسلیے سندھیوں کو جلد از جلد طے کرنا چاھیئے کہ سندھی کون ھے اور سندھی کون نہیں ھے؟

آج کل پنجاب کے تیور بدلے ھوئے ھیں ' کسی سندھی ' مھاجر یا پٹھان پارٹی اور سندھیوں ' مھاجروں یا پٹھانوں کی دلائی کرنے والے پنجابی سیاستدان کو پنجابی عوام نے گھاس نہیں ڈالنی۔

سندھیوں کی پارٹی پی پی پی کی پنجاب میں ساکھ خراب ھونے کی وجہ سے ' سندھیوں نے مرکز پر اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے بڑا جوا کھیلا۔ پنجاب پر حکومت کرنے کے شوق کو ماضی کی طرح پنجابیوں کا اعتماد حاصل کرکے یا بیواقوف بنا کر پورا کرنے کے بجائے سندھی ' مھاجر ' پٹھان اور بلوچ اتحاد قلئم کرکے اور پنجاب کی دلالی کا شوق رکھنے والے کچھ سیاستدانوں کو اپنے ساتھ ملا کر ' مقصد پورا کرنے کی کوشش شروع کی ' جسے پہلے تو کامیابی ھوئی لیکن بعد میں "انگور کھٹے" والا معاملہ ھوگیا ۔

لگتا یہی ھے کہ وھ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے اور سندھیوں کی سیاسی پارٹی پی پی پی کو پنجابی سپورٹ کرکے مرکز میں حکومت بنانے کا موقع دے دیا کرتے تھے۔

پاکستان میں سندھیوں کی آبادی صرف 12٪ ھے ' مھاجروں کی 8٪ ' پٹھانوں کی 8٪ اور بلوچوں کی 4٪ لیکن اس کے باوجود 60٪ پنجابیوں نے پاکستان کے وسع تر مفاد کی خاطر اور پاکستان کی چھوٹی قوموں کو شیر و شکر کرکے پاکستانی قوم بننے کا موقع دینے کے لیے کبھی مھاجروں ' کبھی پٹھانوں اور کبھی سندھیوں کو 60٪ پنجابیوں پر حکومت کرنے کا بار بار موقع دیا ' جس کی وجہ سے مھاجروں ' پٹھانوں ' بلوچوں اور خاص طور پر سندھیوں کی  عادت خراب ھوگئی اور دل بار بار مرکز پر حکومت کرنے کو مچلنے لگا۔

ٹائم ٹائم کی بات ھے. اب مستقبل میں سندھی ' مھاجر اور پٹھان کے پاس مقامی اور صوبائی معاملات کی حد تک ھی سیاست اور حکومت کرنے کی گنجائش ھے. قومی اور بین الاقوامی معاملات اور سیاست کو بھتر ھے کہ اب یہ سندھی ' مھاجر اور پٹھان ایک ماضی کا سہانہ خواب سمجھ کر صرف تذکرے ھی کیا کریں.

بلیک میل کرنے اور عملی کام کر کے دکھانے میں زمین آسمان کا فرق ھے. سندھی سندھودیش ' مھاجر جناح پور اور پٹھان پختونستان والے نعرہ کو عملی شکل دیں تاکہ ان کو دال روٹی کے بھاؤ کا پتہ چلے.

سندھی ' مھاجر اور پٹھان کو قومی اور بین الاقوامی معاملات سے فارغ کرکے صرف مقامی اور صوبائی معاملات اور سیاست تک محدود کردیا گیا تو سندھی ' مھاجر اور پٹھان آرام و سکون کے ساتھ اپنی اوقات میں رھیں گے. پھر یہ سیاست کریں گے سازشیں نہیں.

سندھیوں کو پنجابی نے سپورٹ نہ کیا تو سندھی "نہ گھر  کے رھیں گے نہ گھاٹ کے" کیونکہ پنجاب پر قبضہ کے شوق میں سندھی پہلے ھی سندھ کے شہری علاقے مھاجر کے حوالے کر چکے ھیں جبکہ دیہی علاقے میں ذراعت کے لیے پانی کی فراھمی کا انحصار پنجاب پر ھے۔

اب سندھی اندرونِ سندھ ھی موج کریں۔ سندھیوں کا دنیا میں سب سے بڑا شہر لاڑکانہ ھے۔ سندھیوں کو چاھیئے کہ اب لاڑکانہ کی تعمیر و ترقی پر دھیان دیں۔ سندھ کے باقی شہر تو ویسے ھی مھاجروں کی ملکیت بن چکے ھیں۔ سندھی لوگوں کا کھیل ختم۔ جتنا پنجاب کو بلیک میل کرنا تھا کرلیا۔

پنجابی زبان ' شاعری ' تصوف

جارج ویبرکے ”لینگویجر ٹوڈے“ میں چھپنے والے آرٹیکل کے مطابق پنجابی زبان دنیا کی گیارہویں بڑی زبان ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق دس کروڑ نوّے لاکھ افراد  مادری زبان پنجابی دنیا کی دسویں بڑی زبان ہے۔ دنیا میں ایک محتاط اندازے کے مطابق بولی جانیوالی زبانوں کی موجودہ تعداد چھ ہزارنو سو نو ہے لیکن ان میں دو ہزار زبانیں ایسی ہیں جنکے بولنے والوں کی تعداد ایک ہزار افراد سے کم ہے۔ اگلے سو سال میں متروک ہوجانیوالی زبانوں کی تعداد سیکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے۔ زبان کے ماہرین کے مطابق اوسطاً ہر چودہ دن میں ایک زبان اپنا وجود کھو رہی ہے ۔ پنجابی ان زبانوں میں شامل ہے جو یونیسکو کے مطابق مستقبل میں ایسے کسی خطرے سے کوسوں دور ہیں۔ میرے خیال میں جس زبان کے پاس وارث کی ہیر ' میاں محمد بخش کی سیف الملوک ' شاہ حسین اور بلہے شاہ کی کافیاں ' بابا فرید اور سلطان باہو کے بیت موجود ہوں وہ کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔

 پاکستان سے باہر ایک بار میری ملاقات ایک سکھ قوم پرست لیڈر پرمجیت سنگھ سے ہوئی۔ میں نے اس سے سوال کیا کہ پنجابی زبان اپنے رسم الخط سے قطع نظر کچھ عرصہ قبل تک ہماری مشترکہ زبان تھی تاہم آپ کو ہماری نسبت کئی سہولتیں اور آسانیاں میسر ہیں۔ نہ صرف یہ کہ پنجابی آپ کی مادری زبان ہے بلکہ یہ آپ کی مذہبی زبان بھی ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ کے پاس شاعری کے اس معیار کی ایک چیز بھی نہیں جو ہمارے یعنی مسلمان شاعروں نے کی ہے۔ گرنتھ صاحب میں بھی بابا فرید گنج شکر کے اشلوک ہیں لیکن آپ کے پاس اس آفاقی شاعری کا پاسنگ بھی موجود نہیں جس سے ہمارا پنجابی ادب مالا مال ہے۔ پرمجیت سنگھ چند لمحے سوچتا رہا پھر کہنے لگا آپ کا کہنا تو سوفیصد درست ہے۔ میں نے بھی اس بات پر پہلے کبھی غور نہیں کیا تھا ۔ آخر اسکی کیا وجہ ہے؟ میں نے کہا بنیادی وجہ یہ ہے کہ آپ کے پاس عربی اور فارسی شعری روایت موجود نہیں۔ آپ کے پاس ابن العربی اور منصور حلاج نہیں ہیں اور آپ کے پاس کشف المحجوب جیسا تصوف کا سرمایہ موجود نہیں ہے۔ نام نہاد صوفی شعراء باکمال اور لاجواب شاعر تو ہوسکتے ہیں مگر تصوف کے نمائندے نہیں. جناب علی کا فرمان ہے کہ علم بغیر عمل بیکار ہے اور عمل بغیر خلوص آزار ہے۔ سلطان باہو تصوف کے نام پر شاعری کرنیوالے بے شریعت شعراء کے ہجوم میں ایک با شریعت صوفی شاعر کے طور پر اپنا علیحدہ تشخص اور مقام رکھتے ہیں۔ جن کے تصوف کا سفر

الف الله چنبے دی بوٹی من وچ مرشد لائی ہو
 نفی اثبات دا پانی ملیس ہر رگے ہرجائی ہو
 اندر بوٹی مشک مچایا جاں پھلاں پر آئی ہو
 چرجگ جیوے مرشد باہو جیں بوٹی من لائی ہو

سے شروع ہوتا ہے اور

ب بسم الله اسم الله داایہہ بھی گہنا بھارا ہو
 نال شفاعت سرور عالم چھٹسی عالم سارا ہو
 حدوں بے حد درود نبی نوں جیں داایڈا پسارا ہو
 قربان تنہاں تو باہو جنہاں ملیا نبی سہارا ہو

پر ختم ہوجاتا ہے وادی سون سکیسرکے گاؤں انگہ میں پیدا ہونے والے سطان باہو ہاشمی قبیلے کی اعوان قوم سے تعلق رکھتے تھے اور باشریعت صوفی تھے۔ آپ کا سارا کلام الله کی وحدانیت ' رسول کی محبت اور مرشد کی اطاعت کے دائرے میں گھومتا ہے۔ وہ بشری خامیوں اور کمزوریوں کو بشری خامیاں اور کمزوریاں ہی سمجھتے ہیں اور دوسرے بے شرع شعراء کی مانند ان کو تصوف کے لبادے میں لپیٹ کر کوئی سہولت نکالنے کے بجائے صوفیائے حق کا نمائندہ ہونے کا فریضہ سرانجام دیتے نظر آتے ہیں۔ وہ تصوف کے غلط العام عقیدے کے مطابق مست الست ہونے ' شریعت سے ماورا ہونے اور شرعی پابندیوں سے بالاتر ہونے کی تصور کی عملی طور پر بھی نفی کی اور شاعری میں بھی اس کا پوری شدت سے اظہار کیا۔

باہجھ حضوری نئیں منظور توڑے پڑھن صلاتاں ہو
 روزے نفل نماز گزارن جاگن ساریاں راتاں ہو
 باہجوں قلب حضور نہ ہووے کڈھن سے زکاتاں ہو
 باہجھ فنا رب حاصل باہو نہ تاثیر جماتاں ہو

یہ بات طے ہے کہ جب تک پنجابی کے پاس بابا فرید ' سلطان باہو ' وارث شاہ ' شاہ حسین ' بلہے شاہ اور میاں محمد بخش موجود ہیں اس زبان کو اور تصوف کو کہیں سے کوئی خطرہ نہیں تاہم یہ بات زبان کے بولنے اور سننے کی حد تک ہے۔ لکھنے کے معاملے میں سکھوں نے ”شاہ مکھی“ (اردو رسم الخط) چھوڑ کر دیوناگری رسم الخط میں ”گرومکھی“ کو اپنی تحریری زبان بنایا۔ حالانکہ گورو کی زبان سے نکلنے والی ”بولی“ رسم الخط نہیں رکھتی لیکن سکھوں نے گورو کے ”مکھ“ سے نکلنے والی زبان کو دیوناگری رسم الخط عطا کرکے گورمکھی بنادیا۔ دیوناگری خط سے ناآشنا پنجابی بولنے والے مسلمان گورمکھی سے کٹ گئے اور دیوناگری رسم الخط والی گورمکھی لکھنے والے سکھ شاہ مکھی سے کٹ گئے۔

شاہ مکھی رسم الخط تمام تر فارسی حروف تہجی پر مشتمل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فارسی کے حروف تہجی پنجابی زبان کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔ کم از کم پانچ صوتی حروف ایسے ہیں جو پنجابی کو شاہ مکھی میں لکھنے کے لئے درکار ہیں لیکن شاہ مکھی صدیوں سے ان پانچ حروف سے محروم ہے۔ پنجابی زبان وادب کی ترویج کے لئے قائم ادارے عموماً اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر خصوصاً اس چیلنج کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔

پنجابی زبان کو پنجابیوں کی تمام تر بے اعتنائی اور احساس کمتری نے صدیوں سے بہرحال اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنی مضبوطی اور عوامی مقبولیت اسے پنجابی شاعری نے عطا کی ہے جس زبان میں بابافرید کے اشلوک ' وارث شاہ کی ہیر ' میاں محمد بخش کی سیف الملوک ' شاہ حسین اور بلہے شاہ کی کافیاں اور سلطان باہو کے ابیات ہوں اُسے مضبوطی اور دوام کے لئے کسی اور چیز کی شاید ضرورت بھی نہیں ہے۔

(یہ مضمون برمنگھم میں منعقدہ سلطان باہو کانفرنس میں پڑھاگیا)
مضمون نگار: خالد مسعود خان
(بشکریہ۔ روزنامہ جنگ)