Wednesday 17 July 2019

پنجابی قوم پرست کراچی کو "منی پاکستان" بنائیں گے۔

برٹش انڈیا میں مدرسوں کے قیام کا سلسلہ اتر پردیش میں شروع ھوا۔ دارالعلوم دیوبند کو 1866ء میں ' دار العلوم ندوۃ العلماء کو 1893ء میں اور بریلوی مدرسوں کو 1904ء میں برطانوی راج کے دوران اتر پردیش میں قائم کیا گیا تھا۔ دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں والے برطانیہ کی پالیسی کی پیداوار تھے۔ یہ مذھب کے نام پر سیاست کرتے تھے۔ اس لیے ھی ان مدرسوں میں درس و تدریس کا ذریعہ اردو زبان تھی اور غیر اردو زبان بولنے والے مسلمانوں پر اردو زبان کا تسلط قائم کرنے کے لیے ان مدرسوں نے اردو زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار دینا شروع کیا گیا تھا۔ دین کی تعلیمات حاصل کر کے اپنا اخلاق ٹھیک کرکے اور روحانی نشو نما کر کے ' اپنی جسمانی حرکات ' نفسانی خواھشات اور قلبی خیالات کی اصلاح کرکے ' اپنی دنیا اور آخِرَت سنوارنے کے بجائے دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کے فلسفے کی تبلیغ کو دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے طور پر روشناس کروا کر اسلام کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

پنجاب یونیورسٹی 1882 میں قائم ھوئی جو کہ برٹش انڈیا کی پہلی ٹیچنگ یونیورسٹی تھی۔ برٹش انڈیا میں 1857 میں قائم کی گئی کلکتہ ' بمبئی ' مدراس یونیورسٹیاں صرف امتحان لیا کرتی تھیں اور ٹیچنگ یونیورسٹیاں نہیں تھیں۔ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی کا قیام 1920 کو عمل میں آیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان آنے والے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی بہت کم تعداد علیگڑہ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ تھی۔ پاکستان آنے والے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی اکثریت دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں کی تعلیم یافتہ تھی۔ انہیں پاکستان کی حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا کر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کا تسلط قائم کرنے کی راہ ھموار کی گئی تھی۔ دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل یوپی ' سی پی کے سرکاری ملازم افسروں اور کلرکوں ' سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کے غلبہ کی وجہ سے ھی اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کو پاکستان میں اپنی سماجی ' سیاسی ' انتظامی گرفت مظبوط کرکے پاکستان کی حکومت کے اداروں ' پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی صحافت پر تسلط قائم کرنے میں کامیابی حاصل ھوئی۔

پاکستان کی حکومت کے اداروں ' سیاست اور صحافت پر تسلط کی وجہ سے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر نے کراچی کو اپنا مرکز بناکر سات دھائیوں تک پاکستان میں اپنے بیانیہ پر عمل کروا کر پاکستان کے باجے بجا دیے اور کراچی میں پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی کو یرغمال بنائے رکھا۔ لیکن اب نہ ھندوستانی مھاجر کا پاکستان کی حکومت کے اداروں ' سیاست اور صحافت پر تسلط رھنا ھے۔ نہ ھندوستانی مھاجر کے پاس سیاسی قیادت ھونی ھے۔ نہ ھندوستانی مھاجر کا سیاسی بیانیہ چلے گا۔ اس لیے سیاسی بیانیہ نہ ھونے کی وجہ سے ھندوستانی مھاجر نے آئندہ ایک ھجوم رھنا ھے۔ سیاسی قیادت نہ ھونے کی وجہ سے یہ ھجوم بے ھنگم انداز میں بھٹکتا رھے گا۔ پنجابی قوم پرست قیادت اب کراچی پر سے ھندوستانی مھاجروں کا تسلط ختم کروا کر کراچی کو "منی پاکستان" بنائے گی۔ کراچی میں پنجابی ' سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی کی حکمرانی قائم کی جائے گی۔ اس پروگرام پر عوامی حمایت کے ساتھ جمہوری طریقے سے عمل کروایا جائے گا۔ اس مشن کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کے لیے پنجابی قوم پرستوں کی سیاست عوامی اور جمہوری انداز میں اور پاکستان کے آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق ھوگی۔

No comments:

Post a Comment