Tuesday 16 July 2019

افغانی یا پٹھان لٹیروں کا پنجاب اور پنجابیوں کو لوٹنے کا انجام کیا ھوگا؟

پنجاب کے مسلمان پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں ' سکھ پنجابیوں کا علاقہ ھونے اور افغانی یا پٹھان لٹیروں کے مسلمان کا روپ دھارنے کی وجہ سے افغانی یا پٹھان لٹیروں کو 1947 سے پہلے پنجاب میں سے مسلمان پنجابیوں کی حمایت مل جایا کرتی تھی۔ کیونکہ پنجابی مسلمان کے 1947 سے پہلے تک دو روپ رھے۔ ایک مسلمان کا روپ اور دوسرا پنجابی کا روپ۔ اس لیے ایک تو پنجابی مسلمانوں میں پنجابی قوم پرست سیاسی قیادت پیدا نہ ھوسکی اور دوسرا مسلمان پنجابیوں کے مسلمان کی بنیاد پر افغانیوں یا پٹھانوں سے تعاون کرنے کی وجہ سے افغانیوں یا پٹھانوں کو پنجاب میں لوٹ مار کرنے کا موقعہ ملتا رھا۔ لیکن 1947 میں پنجاب کی تقسیم کے بعد ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کے مغربی پنجاب سے مشرقی پنجاب کی طرف نقل مکانی کرنے اور مسلمان پنجابیوں کے مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف نقل مکانی کرنے کی وجہ سے پاکستانی پنجاب مسلمانوں کا علاقہ بن گیا۔

اس وقت پاکستانی پنجاب میں 97٪ آبادی مسلمانوں کی ھے۔ مسلمانوں میں سے 90٪ آبادی پنجابیوں کی ھے۔ جبکہ 10٪ پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر بھی پنجاب میں رھتے ھیں۔ افغانیوں یا پٹھانوں کو چونکہ ایک ھزار سال سے پنجاب کو اور پنجابیوں لوٹنے کی عادت ھے لیکن افغانی یا پٹھان لٹیروں کو 1947 کے بعد پنجاب میں ھونے والی سیاسی تبدیلی کا احساس نہیں ھے کہ؛ پنجاب میں اب صرف مسلمان پنجابی رھتے ھیں اور مسلمان پنجابی اب پنجابی قوم پرست بننے لگا ھے۔ اس لیے ایک تو پنجابی مسلمان میں اب قوم پرست سیاسی قیادت پیدا ھوگی اور دوسرا پنجاب میں افغانی یا پٹھان لٹیروں کو اب مسلمان نہیں بلکہ صرف پٹھان سمجھا جاتا ھے۔ افغانی یا پٹھان لٹیروں کو اب پنجاب اور پنجابیوں کو لوٹتے وقت مسلمان پنجابیوں سے مقابلہ کرنا پڑ رھا ھے۔ اس لیے پنجاب اور پنجابیوں کو لوٹنے کی وجہ سے افغانی یا پٹھان لٹیروں کو اب سکھ پنجابیوں سے نہیں بلکہ مسلمان پنجابیوں سے رگڑا لگے گا اور یہ گزشتہ ھزار سال کی تاریخ میں پہلی بار مسلمان پنجابیوں کی طرف سے افغانی یا پٹھان لٹیروں کو رگڑا ھوگا۔

افغانی یا پٹھان لٹیروں کی ماضی میں پنجاب اور پنجابیوں کو لوٹنے کی بات کی جائے تو؛ 1022 سے محمود غزنوی کے لشکر میں شامل ھوکر افغانی یا پٹھان لٹیروں نے پنجاب اور پنجابیوں کو لوٹنے کی ابتدا کی اور پھر پنجاب اور پنجابیوں کو لوٹنے کے لیے آنے والے ھر حملہ آور کی فوج میں شامل ھوکر پنجاب اور پنجابیوں کو لوٹنے کے لیے پنجاب آتے رھے۔ لیکن احمد شاہ ابدالی 1747 ء میں 20 سال کی عمر میں افغانستان کی سلطنت قائم کرکے بادشاہ بن گیا تھا۔ چڑھتی عمر اور اقتدار کے نشہ کی وجہ سے اپنا راج بڑھانے کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔ صدیوں سے افغانی یا پٹھان لٹیروں کے پنجاب اور پنجابیوں کو لوٹنے کا عادی ھونے کی وجہ سے احمد شاہ ابدالی کی تیز نگاہ پنجاب پر مرکوز ھوئی۔ افغانی یا پٹھان لٹیروں کو پنجاب میں سے مذھبی انتہا پسند مسلمان پنجابیوں کا تعاون حاصل ھونے کی وجہ سے احمد شاہ ابدالی کے جاسوس کاروبار کے بہانے پنجاب آتے اور سارے راز لے جاتے تھے۔

احمد شاہ ابدالی نے جارح اور لٹیرا بن کر پنجاب اور پنجابیوں کو لوٹنے کے لیے پنجاب پر 1748 ء سے لیکر 1767 ء تک 8 حملے کیے۔ لیکن احمد شاہ ابدالی نے 1762 ء سے لیکر 1767 ء تک کے تین حملے خصوصی طور پر سکھ پنجابیوں کو ختم کرنے کے لیے کیے۔ 1764ء میں احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر اپنا راج محفوظ کرنے اور پنجاب میں سکھ پنجابیوں کی طاقت کو کچلنے کے لیے چھٹی بار پنجاب پر حملہ کیا۔ لودھیانہ سے پچیس میل کے فاصلے پر ایک جنگ میں ھزاروں سکھ پنجابی قتل کیے گئے۔ سکھ پنجابی اس جگہ کو گہلو گھاڑہ (قتل عام کی جگہ ) کے نام سے یاد کرتے ھیں۔ بعد ازاں احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر دو مزید حملے کیے اور 1773 ء میں احمد شاہ ابدالی کے انتقال کے بعد 1798 ء میں احمد شاہ ابدالی کے پوتے شاہ زمان نے لاھور پر آخری حملہ کیا۔ لیکن پٹھانوں کی گرفت کمزور ھونے پر سکھ پنجابیوں نے جگہ جگہ حملے شروع کر دیے۔ اس زمانے میں سکھ پنجابیوں نے اپنی تنظیم نو کی اور بارہ مثلیں قائم کیں۔ سکھ پنجابیوں کی طاقت میں اضافہ ھوا۔ بعد ازاں 1799 ء میں انیس برس کی عمر میں رنجیت سنگھ کی حکومت لاھور میں قائم ھوئی۔

احمد شاہ ابدالی جب دلی ’ کرنال ’ پانی پت ’ متھرا اور آگرہ سے سونا ’ چاندی ’ مال و اسباب لوٹ کر بہنوں ’ بیٹیوں کو ریوڑ کی طرح اپنے سپاھیوں کے آگے ھانک دیتا تھا تو اس وقت ھندو پنجابی مورتیوں کے آگے ھاتھ جوڑے آرتیاں ھی کرتے رہ جاتے اور بہنوں ‘ بیٹیوں کے سودے ھو جاتے تھے۔ جبکہ احمد شاہ ابدالی کے مسلمان کا روپ دھارنے کی وجہ سے افغانی یا پٹھان لٹیروں کو پنجاب میں سے مذھبی انتہا پسند مسلمان پنجابیوں کی حمایت مل جایا کرتی تھی۔ اس دور میں پنجاب میں خوب لوٹ مار کا بازار گرم ھوا۔ احمد شاہ ابدالی کے سپاھی گھروں میں سے جہاں بھی دانے اور گہنے ملتے لے جاتے تھے۔ اس کیفت پر بابا بلھے شاہ نے اس طرح تبصرہ کیا۔ در کھلیا حشر عذاب دا ۔ برا حال ھویا پنجاب دا۔ پنجاب میں یہ کہاوت بن گئی تھی “کھادھا پیتا لاھے دا ’ باقی احمد شاھے دا” یعنی جو کچھ کھا پی لیا وھی غنیمت ھے باقی تو احمد شاہ لے جائے گا۔ بابا بلھے شاہ نے اس دور کا نقشہ یوں کیھنچا۔ مغلاں زھرپیالے پیتے ۔ بھوریا والے راج کیتے۔ سب اشراف پھرن چپ چپیتے۔ اگر پٹھانوں کو کوئی للکارتے تھے تو وہ سکھ پنجابی تھے۔ سکھ پنجابیوں کی ٹکر جب پٹھانوں سے ھوجاتی تو وہ ان سے لڑکیوں کو آزاد کرا کے اُن کے گھروں ' گاؤں چھوڑ آتے تھے۔ لوٹ کا مال اور گھوڑے خود رکھ لیتے تھے۔ سکھ پنجابیوں سے پٹھان بھاگتے تھے۔ سکھ پنجابیوں نے پنجاب دیس کو لوٹنے والے پٹھانوں کو ان کے گھر جا کر بھی مارا۔ سکھ پنجابیوں نے پنجاب کے کافی علاقے پر قبضہ کر لیا اور پنجاب میں سکھ پنجابیوں کا سکہ چلنا شروع ھو گیا۔

افغانیوں یا پٹھانوں کو چونکہ ایک ھزار سال سے پنجاب کو اور پنجابیوں لوٹنے کی عادت ھے۔ اس لیے افغانی یا پٹھان لٹیروں کو اب تاریخ میں پہلی بار مسلمان پنجابی قوم پرستوں کی طرف سے رگڑا لگے گا۔ اس کے علاوہ بات جب پنجابی قوم کی ھوگی تو مسلمان پنجابی ' ھندو پنجابی ' سکھ پنجابی ' عیسائی پنجابی کو بھی پنجابی قوم کا ھی حصہ سمجھا جائے گا۔ جبکہ مشرقی پنجاب میں سکھ پنجابیوں کی طرف سے مشرقی پنجاب کو بھارت کے قبضے سے نجات دلوا کر سکھ پنجابیوں کا وطن خالصتان بنانے کی تحریک روز بروز کامیابی کی طرف گامزن ھے۔ خالصتان کے قیام کے بعد کشمیر نے بھی آزاد ھوجانا ھے۔ پاکستانی پنجاب اور سندھ کو چونکہ دریا کے پانی کی ضرورت ھے جو 1960 میں پاکستان کے آمر حکمران پٹھان ایوب خان نے بھارت کو فروخت کردیا تھا۔ جبکہ سکھ پنجابیوں کے مذھبی مقامات پاکستانی پنجاب میں ھیں۔ اس کے علاوہ خالصتان اور کشمیر کی آزادی کے بعد خالصتان اور کشمیر کو سی پورٹ بھی کراچی کا استعمال کرنا پڑنا ھے۔ اس لیے خالصتان ' کشمیر اور پاکستان کے الحاق سے پھر "گریٹر پنجاب" بھی وجود میں آجانا ھے۔ گوکہ تاریخ میں پہلی بار مسلمان پنجابی کی طرف سے افغانی یا پٹھان لٹیروں کو رگڑا لگے گا۔ لیکن افغانی یا پٹھان لٹیروں کے مسلمان ھونے کی وجہ سے مسلمان پنجابی شاید افغانی یا پٹھان لٹیروں کے ساتھ رعایت کرجائیں۔ لیکن "گریٹر پنجاب" کے وجود میں آجانے کے بعد سکھ پنجابی نے افغانی یا پٹھان لٹیروں کے ساتھ ویسی رعایت نہیں کرنی جیسی رعایت مسلمان پنجابی کر تے رھے۔

No comments:

Post a Comment