Monday 15 July 2019

رنجیت سنگھ نے لاھور کے مسلمانوں کی اپیل پر لاھور فتح کیا تھا۔

احمد شاہ ابدالی 1747 ء میں 20 سال کی عمر میں افغانستان کی سلطنت قائم کرکے بادشاہ بن گیا تھا۔ چڑھتی عمر اور اقتدار کے نشہ کی وجہ سے اپنا راج بڑھانے کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔ احمد شاہ ابدالی کی تیز نگاہ پنجاب پر مرکوز ھوئی۔ اس کے جاسوس کاروبار کے بہانے پنجاب سے سارے راز لے جاتے تھے۔ احمد شاہ ابدالی نے جارح اور لٹیرا بن کر پنجاب پر 1748 ء سے لیکر 1767 ء تک 8 حملے کیے لیکن 1762 ء سے لیکر 1767 ء تک کے تین حملے خصوصی طور پر سکھوں کو ختم کرنے کے لیے کیے گئے۔ احمد شاہ ابدالی جب دلی ’ کرنال ’ پانی پت ’ متھرا اور آگرہ سے سونا ’ چاندی ’ مال و اسباب لوٹ کر بہنوں ’ بیٹیوں کو ریوڑ کی طرح اپنے سپاھیوں کے آگے ھانک دیتا تھا تو اس وقت ھندو مورتیوں کے آگے ھاتھ جوڑے آرتیاں ھی کرتے رہ جاتے اور بہنوں ‘ بیٹیوں کے سودے ھو جاتے تھے۔ جبکہ مسلمانوں میں سے بہت سے احمد شاہ ابدالی کے ساتھ ملے ھوئے تھے۔

اس دور میں پنجاب میں خوب لوٹ مار کا بازار گرم ھوا۔ احمد شاہ ابدالی کے سپاھی گھروں میں سے جہاں بھی دانے اور گہنے ملتے لے جاتے تھے۔ اس کیفت پر بابا بلھے شاہ نے اس طرح تبصرہ کیا۔ در کھلیا حشر عذاب دا ۔ برا حال ھویا پنجاب دا۔ پنجاب میں یہ کہاوت بن گئی تھی “کھادھا پیتا لاھے دا ’ باقی احمد شاھے دا” یعنی جو کچھ کھا پی لیا وھی غنیمت ھے باقی تو احمد شاہ لے جائے گا۔ بابا بلھے شاہ نے اس دور کا نقشہ یوں کیھنچا۔ مغلاں زھرپیالے پیتے ۔ بھوریا والے راج کیتے۔ سب اشراف پھرن چپ چپیتے۔ اگر پٹھانوں کو کوئی للکارتے تھے تو وہ سکھ تھے۔ سکھوں کی ٹکر جب پٹھانوں سے ھوجاتی تو وہ ان سے لڑکیوں کو آزاد کرا کے اُن کے گھروں ' گاؤں چھوڑ آتے تھے۔ لوٹ کا مال اور گھوڑے خود رکھ لیتے تھے۔ سکھوں سے پٹھان بھاگتے تھے۔ سکھوں نے پنجاب دیس کو لوٹنے والے پٹھانوں کو ان کے گھر جا کر بھی مارا۔ سکھوں نے پنجاب کے کافی علاقے پر قبضہ کر لیا اور پنجاب میں سکھوں کا سکہ چلنا شروع ھو گیا۔ 

1764 ء میں احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر اپنا راج محفوظ کرنے اور پنجاب میں سکھوں کی طاقت کو کچلنے کے لیے چھٹی بار پنجاب پر حملہ کیا۔ بعد ازاں احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر دو مزید حملے کیے اور 1773 ء میں احمد شاہ ابدالی کے انتقال کے بعد 1798 ء میں احمد شاہ ابدالی کے پوتے شاہ زمان نے لاھور پر آخری حملہ کیا لیکن پٹھانوں کی گرفت کمزور ھونے پر سکھوں نے جگہ جگہ حملے شروع کر دیے۔ اس زمانے میں سکھوں نے اپنی تنظیم نو کی اور بارہ مثلیں قائم کیں۔ سکھوں کی طاقت میں اضافہ ھوا۔ بعد ازاں 1799 ء میں انیس برس کی عمر میں رنجیت سنگھ کی حکومت لاھور میں قائم ھوئی۔ لاھور میں مسلمان پنجابیوں کی آبادی زیادہ تھی۔ مسلمان پنجابیوں کا شہر پر اچھا خاصہ اثر و رسوخ بھی تھا۔ شہر کے مسلمان پنجابی ' ھندو پنجابی ' سکھ پنجابی احمد شاہ ابدالی کے پوتے شاہ زمان کے نامزد کردہ لاھور کے حکمراں بھنگی سرداروں سے بہت تنگ تھے۔ رنجیت سنگھ کی شہرت کے چرچے لاھور پہنچ گئے تھے۔ لاھور میں میاں اسحاق محمد اور میاں مقیم دین بہت طاقتور تھے۔ لاھور کے لوگوں پر ان کا کافی اثر و رسوخ تھا۔ شہر کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا تھا۔ شہر کے لوگوں کی رائے سے انہوں نے رنجیت سنگھ کی ساس ' سکر چکیہ مثل اور کنہیا مثل کی حکمران سدا کور سے اپیل کی کہ؛ وہ رنجیت سنگھ کو آمادہ کرے کہ رنجیت سنگھ انہیں شاہ زمان اور بھنگی سرداروں کے غذاب سے نجات دلائے۔ اس اپیل کے لیے ایک عرضی لکھی گئی جس پر میاں اسحاق محمد ' میاں مقیم دین ' محمد طاھر ' محمد باقر ' حکیم رائے ' بھائی گوربخش سنگھ نے دستخط کیے۔

رنجیت سنگھ اپنی 25 ھزار فوج کے ساتھ 6 جولائی 1799ء کو لاھور کی طرف روانہ ھوا۔ رنجیت سنگھ کی ساس سدا کور خود بھی لشکر کے ھمراہ تھی۔ 7 جولائی 1799ء کو صبح کے وقت رنجیت سنگھ کی فوج نے لاھور کے قلعے کا گھیراؤ کرلیا۔ رنجیت سنگھ کی ساس سدا کور دلی دروازے کے باھر کھڑی رھی۔ رنجیت سنگھ انارکلی کی طرف آگے بڑھ رھا تھا کہ عرضی پر دستخط کرنے والے میاں مقیم دین نے نقارے کو بجا کر اعلان کروایا کہ رنجیت سنگھ نے شہر کو فتح کرلیا ھے۔ اب رنجیت سنگھ شہر کا نیا سربراہ ھے۔ میاں مقیم دین نے شہر کے سارے دروازے کھولنے کا حکم دیا۔ رنجیت سنگھ شہر میں لاھوری دروازے سے داخل ھوا۔ سدا کور دلی گیٹ سے لاھور میں داخل ھوئی۔ بھنگی سرداروں کے کچھ کرنے سے پہلے ھی رنجیت سنگھ نے شہر کو فتح کرلیا تھا۔ صاحب سنگھ اور پرموھار سنگھ شہر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ چت سنگھ نے شہر نہیں چھوڑا اور خود کو صرف 500 کی نفری کے ساتھ حضوری باغ میں محصور کرلیا۔ رنجیت سنگھ کی فوج نے حضوری باغ کا محاصرہ کرلیا اور چت سنگھ نے ھتھیار ڈال دیے۔ چت سنگھ کو اپنے گھر والوں کے ساتھ شہر چھوڑنے کی اجازت مل گئی۔

تین سال بعد  1802ء میں مھاراجہ رنجیت سنگھ نے امرتسر فتح کیا۔ چند برسوں میں مھاراجہ رنجیت سنگھ نے ستلج تک قبضہ کر لیا۔ پھر دریائے ستلج کو پار کرکے لدھیانہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ لارڈ منٹو مھاراجہ رنجیت سنگھ کی اس پیش قدمی کو انگریزی مفاد کے خلاف سمجھتا تھا۔ چنانچہ  1809ء میں عہد نامہ امرتسر کی رو سے دریائے ستلج مھاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت کی جنوبی حد قرار پایا۔ اب مھاراجہ رنجیت سنگھ کا رخ شمال مغرب کی طرف ھوا اور لگاتار لڑائیوں کے بعد مھاراجہ رنجیت سنگھ نے اٹک ‘ ملتان ‘ کشمیر ‘ ہزارہ ‘ بنوں ‘ ڈیرہ جات اور پشاور فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے اور مھاراجہ رنجیت سنگھ ھریانہ سے پشاور ' ملتان سے کشمیر تک کے علاقے کا طاقتور ترین حکمران بن گیا۔ مھاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت پچاس سال تک قائم رھی۔ 

No comments:

Post a Comment