Wednesday, 26 October 2016

اردو نوں سرکاری زبان قرار دین دے باوجود وی پنجابیاں دی عوامی زبان پنجابی ای اے۔

پاکستان دے صوبہ پنجاب وچ وی اج ماں بولی دے نال اوھو جیآ ای مسئلہ اے جو گیارہویں صدی عیسوی وچ برطانیہ وچ سی۔ پنجابیاں دی اشرافیہ دا رحجان اردو زبان ول اے۔ ایہو ای وجہ اے کہ اردو زبان نوں پنجاب دی سرکاری زبان دا درجہ حاصل اے۔ جد کہ اردو زبان نال عام پنجابی نوں دلچسپی نئیں اے۔ کیونکہ پنجاب دی عوامی زبان پنجابی ای اے۔ پر ایس دے باوجود پنجابی زبان دے عوامی زبان ھون دی افادیت تے پنجابیاں دی اشرافیہ توجہ نئیں دے رئی۔

پنجابیاں دی اشرافیہ اردو توں متاثر اے تے غلامی دے خول چوں بار نئیں آنا چاھئدی۔ حالانکہ اردو زبان صرف کاغذاں دی حد تک تسلیم شدہ سرکاری تے پنجابیاں دی اشرافیہ دی زبان دی حد تک محدود زبان تے ھے پر پنجابیاں دی عوامی زبان نئیں بن پا رئی۔ عام پنجابی اپنی ماں بولی پنجابی نوں چھڈ وی نئیں ریا تے نسل در نسل منتقل وی کر ریا اے۔ ایس لئی ای پنجابی زبان پورے پنجاب وچ بولی تے سمجھی جاندی اے۔ جد کہ اردو صرف پنجاب دی تسلیم شدہ سرکاری تے پنجابیاں دی اشرافیہ دی زبان دی حد تک محدود اے۔

فرانس دے نارمنز نے گیارہویں صدی عیسوی وچ برطانیہ نوں فتح کر کے اپنی حکومت قائم کر لئی۔ اس فتح توں بعد انگریزاں دے مذہبی طبقے نے لاطینی زبان دے نفاذ تے زور دتا جد کہ انگریزاں دی اشرافیہ دا رحجان فرانسیسی زبان ول سی۔ اے ای وجہ سی کہ فرانسیسی زبان نوں برطانیہ دی سرکاری زبان دا درجہ مل گیا۔ حالانکہ لاطینی تے فرانسیسی زبان نال عام انگریز نوں دلچسپی نئیں سی۔ کیونکہ برطانیہ دی عوامی زبان انگریزی ای سی۔ پر ایس دے باوجود انگریزی زبان دے عوامی زبان ھون دی افادیت تے انگریزاں دی اشرافیہ نے توجہ نہ دتی۔

اے صورتحال تقریبا تین سو سال چلی۔ فرانسیسی زبان صرف تسلیم شدہ سرکاری تے انگریزاں دی اشرافیہ دی زبان دی حد تک محدود رئی پر انگریزاں دی عوامی زبان نہ بن سکی۔ عام انگریز نے اپنی ماں بولی انگریزی نوں نہ چھڈیا تے نسل در نسل منتقل وی کیتا۔

چودھویں صدی دے آغاز تک برطانیہ وچ فرانسیسی اثر و رسوخ گھٹ گیا تے برطانیہ نے آزادی دے لئی فرانس نال لگ بھگ سو سالہ جنگ لڑی۔ برطانیہ وچ 1362 وچ اک قانون پاس کیتا گیا کہ ھن عدالتی کارروائی فرانسیسی دے بجائے انگریزی زبان وچ ہووے گی۔

ایس طراں برطانوی قوم نے نہ صرف اپنی شناخت نوں زندہ رکھیا بلکہ اپنی زبان نوں وی ختم ہون توں بچایا  تے اج دنیا وچ انگریزی سب توں زیادہ بولی ' سمجھی تے سکھی جا رئی اے تے عالمی زبان دا درجہ حاصل کر چکی اے۔

پنجابی زبان دی پرورش صوفی بزرگاں بابا فرید ' بابا نانک ' شاہ حسین ' سلطان باہو ' بلھے شاہ ' وارث شاہ ' خواجہ غلام فرید ' میاں محمد بخش کیتی۔ ایس لئی پنجابی زبان دا پس منظر روحانی ھون دے کرکے پنجابی زبان وچ علم ' حکمت تے دانش دے خزانے نے جیہڑے اخلاقی کردار نوں بہتر کرن تے روحانی نشو نما دی صلاحیت رکھدے نے۔

پنجابی قوم دنیا دی نوویں سب توں وڈی قوم اے۔
پنجابی قوم جنوبی ایشیا دی تیجی سب توں وڈی قوم اے۔
پنجابی مسلمان مسلم امہ دی تیجی سب توں وڈی برادری اے۔
پنجابیاں دی پاکستان وچ آبادی 60 فیصد اے۔
پنجابی زبان پاکستان دی 80 فیصد آبادی بولنا جاندی اے۔
پنجابی زبان پاکستان دی 90 فیصد آبادی سمجھ لیندی اے۔

پنجاب دی حکومت ولوں جد اے قانون پاس ھو گیا کہ ھن پنجاب دے سکولاں وچ تعلیم پنجابی زبان وچ دتی جاوے گی تے پنجاب دے دفتراں وچ کارروائی اردو دے بجائے پنجابی زبان وچ ہووے گی تے فے پہلوں توں ای دنیا وچ بولی جان والی نوویں وڈی زبان ھون دے کرکے پنجابی زبان نے عالمی سطح تے بوھت زیادہ اھمیت اختیار کرلینی اے۔ جیس دے کرکے پنجابی زبان نے دنیا وچ سب توں زیادہ بولی ' سمجھی تے سکھی جان والیاں دس وڈیاں عالمی زباناں چوں اک زبان دا درجہ حاصل کرلینا اے تے پنجابی قوم نے بین الاقوامی سطح تے مزید عزت تے وقار حاصل کرلینا اے۔

اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کے باوجود پنجابیوں کی عوامی زبان پنجابی ھی ھے۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بھی آج مادری زبان کے حوالے سے کم و بیش وہی مسائل درپیش ہیں جو گیارہویں صدی عیسوی میں برطانیہ میں تھے۔ پنجابیوں کی اشرافیہ کا رحجان اردو زبان کی طرف ھے۔ یہی وجہ ھے کہ اردو زبان کو پنجاب کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ھے۔ حالانکہ اردو زبان سے عام پنجابی کو دلچسپی نہیں ھے۔ کیونکہ پنجاب کی عوامی زبان پنجابی ھی ھے۔ لیکن اس کے باوجود پنجابی زبان کے عوامی زبان ھونے کی افادیت پر پنجابیوں کی اشرافیہ توجہ نہیں دے رھی۔

پنجابیوں کی اشرافیہ اردو سے متاثر ہے اور غلامی کے خول سے باہر نہیں آنا چاہتی۔ حالانکہ اردو زبان محض کاغذات کی حد تک تسلیم شدہ سرکاری اور پنجابیوں کی اشرافیہ کی زبان کی حد تک محدود زبان ہے لیکن پنجابیوں کی عوامی زبان نہیں بن پارھی۔ عام پنجابی اپنی مادری زبان پنجابی کو اپنائے ھوئے ھے اور نسل در نسل منتقل کر رھا ھے۔ اس لیے ھی پنجابی زبان پورے پنجاب میں بولی اور سمجھی جاتی ہے جبکہ اردو صرف پنجاب کی تسلیم شدہ سرکاری اور پنجابیوں کی اشرافیہ کی زبان کی حد تک محدود ھے۔

فرانس کے نارمنز نے گیارہویں صدی عیسوی میں برطانیہ کو فتح کر کے اپنی حکومت قائم کی۔ اس فتح کے بعد انگریزوں کے مذہبی طبقے نے لاطینی زبان کے نفاذ پر زور دیا جبکہ انگریزوں کی اشرافیہ کا رحجان فرانسیسی زبان کی طرف تھا۔ یہی وجہ تھی کہ فرانسیسی زبان کو برطانیہ کی سرکاری زبان کا درجہ مل گیا۔ حالانکہ لاطینی اور فرانسیسی زبان سے عام انگریز کو دلچسپی نہیں تھی۔ کیونکہ برطانیہ کی عوامی زبان انگریزی ھی تھی۔ لیکن اس کے باوجود انگریزی زبان کے عوامی زبان ھونے کی افادیت پر انگریزوں کی اشرافیہ نے توجہ نہ دی۔

یہ صورت حال کم و بیش تین سو سال چلی۔ فرانسیسی زبان محض تسلیم شدہ سرکاری اور انگریزوں کی اشرافیہ کی زبان کی حد تک محدود رہی لیکن انگریزوں کی عوامی زبان نہ بن سکی۔ عام انگریز نے اپنی مادری زبان انگریزی کو اپنائے رکھا اور نسل در نسل منتقل کیا۔

چودھویں صدی کے آغاز تک برطانیہ میں فرانسیسی اثرو رسوخ کم ہو گیا اور برطانیہ نے آزادی کے لئے فرانس سے لگ بھگ سو سالہ جنگ لڑی۔ برطانیہ میں 1362 میں ایک قانون پاس کیا گیا کہ اب سے عدالتی کارروائی فرانسیسی کے بجائے انگریزی زبان میں ہو گی۔

اس طرح برطانوی قوم نے نہ صرف اپنی شناخت کو زندہ رکھا بلکہ اپنی زبان کو بھی معدوم ہونے سے بچا لیا اور آج دنیا میں انگریزی سب سے زیادہ بولی ' سمجھی اور سیکھی جا رہی ہے اور عالمی زبان کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔

پنجابی زبان کی پرورش صوفی بزرگوں بابا فرید ' بابا نانک ' شاہ حسین ' سلطان باہو ' بلھے شاہ ' وارث شاہ ' خواجہ غلام فرید ' میاں محمد بخش نے کی۔ پنجابی زبان کا پس منظر روحانی ھونے کی وجہ سے پنجابی زبان میں علم ' حکمت اور دانش کے خزانے ھیں۔ اس لئے پنجابی زبان میں اخلاقی کردار کو بہتر کرنے اور روحانی نشو نما کی صلاحیت ھے۔

پنجابی قوم دنیا کی نوویں سب سے بڑی قوم ھے۔
پنجابی قوم جنوبی ایشیا کی تیسری سب سے بڑی قوم ھے۔
پنجابی مسلمان مسلم امہ کی تیسری سب سے بڑی برادری ھے۔
پنجابیوں کی پاکستان میں آبادی 60 فیصد ھے۔
پنجابی زبان پاکستان کی 80 فیصد آبادی بولنا جانتی ھے۔
پنجابی زبان پاکستان کی 90 فیصد آبادی سمجھ لیتی ھے۔

پنجاب کی حکومت کی طرف سے جب یہ قانون پاس ھو گیا کہ اب پنجاب کے اسکولوں میں تعلیم پنجابی زبان میں دی جائے گی اور پنجاب کے دفتروں میں کارروائی اردو کے بجائے پنجابی زبان میں ہو گی تو پہلے سے ھی دنیا میں بولی جانے والی نوویں بڑی زبان ھونے کی وجہ سے پنجابی زبان نے عالمی سطح پربہت زیادہ اھمیت اختیار کرلینی ھے۔ جسکی وجہ سے پنجابی زبان نے دنیا میں سب سے زیادہ بولی ' سمجھی اور سیکھی جانے والی عالمی زبانوں میں سے ایک اھم زبان کا درجہ حاصل کرلینا ھے اور پنجابی قوم نے بین الاقوامی سطح پر مزید عزت اور وقار حاصل کرلینا ھے۔

Sunday, 23 October 2016

ایم کیو ایم کے مردہ گھوڑے میں جان جنرل مشرف نے ڈالی تھی۔

پنجابی جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پریذیڈنٹ آف پاکستان ھونے کی وجہ سے مہاجر جنرل مرزا اسلم بیگ 1985 میں چیف آف جنرل اسٹاف ھونے کی وجہ سے آپریشنل اور انٹیلیجنس کے معاملات میں خود مختار تھے۔ مارچ 1987 سے مہاجر مرزا اسلم بیگ وائس چیف آف آرمی اسٹاف بھی بن گے۔ مھاجر جنرل اختر عبد الرحمن بھی 1979 سے 1987 تک آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل رھے۔ ایم کیو ایم ان ھی مہاجرجنرلوں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ ' فارن افیئرس ' سول بیوروکریسی میں موجود یوپی ' سی پی کے مھاجروں کا برین چائلڈ ھے۔

1988 میں پہلی بار جب پی پی پی حکومت میں ایم کیو ایم کو شامل کیا گیا تو اس وقت پریزیڈنٹ آف پاکستان تو پٹھان اسحاق خان تھا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ تھا اور جب پی پی پی کی حکومت نے 1990 میں ایم کیو ایم کے خلاف قلعہ آپریشن شروع کیا تو اس وقت بھی چیف آف آرمی اسٹاف ، مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ ھی تھا ، جس کی وجہ سے پی پی پی حکومت ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن مکمل نہ کر سکی اور پی پی پی کی حکومت ختم کردی گئی۔

1990 میں جب نواز شریف کی حکومت میں ایم کیو ایم شامل ھوئی تو اس وقت بھی پریزیڈنٹ آف پاکستان تو پٹھان اسحاق خان ھی تھا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف بھی' مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ ھی تھا۔

1992 میں جب نواز شریف نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا اور ایم کیو ایم کو حکومت سے نکال دیا گیا تو اس وقت بھی پریزیڈنٹ آف پاکستان تو پٹھان اسحاق خان ھی تھا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' پنجابی جنرل آصف نواز جنجوعہ تھا۔

1993 میں جب دوبارہ پی پی پی کی حکومت بنی تو اس وقت پریزیڈنٹ آف پاکستان بلوچ فاروق لغاری تھا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' پٹھان جنرل وحید کاکڑ تھا۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہیں کیا گیا اور نواز شریف کی حکومت کے وقت سے جاری ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن بھی جاری رھا۔

1997 میں جب دوبارہ نواز شریف کی حکومت بنی تو اس وقت پریزیڈنٹ آف پاکستان پنجابی رفیق تارڑ تھا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' مھاجر جنرل جہانگیر كرامت تھا۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کیا گیا۔

1998 میں جب حکیم سعید کے قتل کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تو مھاجر جنرل جہانگیر كرامت نے نواز شریف کی حکومت کو بحران میں مبتلا کرنا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے جنرل جہانگیر كرامت کو نکال کر دوسرا چیف آف آرمی اسٹاف بنانا پڑا۔ دوسرا چیف آف آرمی اسٹاف بھی مھاجر ھی بنا دیا گیا ' جو مھاجر جنرل مشرف تھا ' جس نے نواز شریف کی حکومت ھی ختم کردی۔

2001 میں مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف اور پریزیڈنٹ آف پاکستان ' جنرل مشرف کی حکومت کے دور میں الطاف حسین نے برطانیہ کے پرائم منسٹر ٹونی بلیئر کو خط لکھا۔ جس کے بعد ایم کیو ایم کی طرف سے پاکستان میں جاسوسی کرنے اور ایم کیو ایم کو پاکستان کی فیڈرل گورنمنٹ اور سندھ گورنمنٹ میں حصہ دینے کا معاھدہ ھوا۔ ظاھر ھے گورنمنٹ آف پاکستان کی مرضی کے بغیر معاھدہ نہیں ھو سکتا تھا اور 2001 میں مھاجر جنرل مشرف ھی پاکستان کا چیف آف آرمی سٹاف اور چیف ایگزیکٹو تھا۔ اس نے ھی معاھدہ کی توثیق کی ھوگی۔ بلکہ معاھدہ کروایا اور ایم کیو ایم کے مردہ گھوڑے میں دوبارہ جان ڈالی۔ ورنہ ایم کیو ایم تو اس وقت تک مردار ھو چکی تھی۔

2002 کے الیکشن کے بعد پاکستان مسلم لیگ ق کی حکومت بنی تو اس وقت بھی چیف آف آرمی اسٹاف اور پریزیڈنٹ آف پاکستان ' مھاجر جنرل مشرف ھی تھا۔ ایم کیو ایم پھر حکومت میں شامل کی گئی اور 2008 تک حکومت میں ھی رھی۔

2008 میں ایک بار پھر سے پی پی پی کی حکومت بنی تو اس وقت چیف آف آرمی اسٹاف گو کہ پنجابی جنرل اشفاق پرویز کیانی تھا لیکن اس کے باوجود سندھی پریذیڈنٹ آف پاکستان اور پی پی پی کے چیئرمین آصف زرداری نے ایم کیو ایم کو پی پی پی کی حکومت کا حصہ بنایا۔ یہ واحد موقع ھے جب ایم کیو ایم مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف کے نہ ھونے کے باوجود حکومت کا حصہ بننے میں کامیاب ھوئی اور اس کی وجہ سندھی پریذیڈنٹ آف پاکستان اور پی پی پی کے چیئرمین آصف زرداری کا ایم کیو ایم کو پی پی پی کی حکومت کا حصہ بنا کر پنجاب اور پنجابیوں کے خلاف ایم کیو ایم کو استعمال کر کے پنجاب کو سرائیکی سازش کے ذریعے تقسیم کرنا ' پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کو ختم کر کے پی پی پی کی حکومت بنانا یا پنجاب میں گورنر رول کو ھی جاری رکھنا ' مھاجر آمر جنرل مشرف کی طرف سے پی سی او کے ذریعے ھٹائے گئے پنجابی چیف جسٹس چودھری افتخار کو بحال نہ ھونے دینا ' مھاجر بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ لے کر پنجابی بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کو کارنر کرنا تھا۔ جس میں یہ سندھی پریذیڈنٹ آف پاکستان اور پی پی پی کا چیئرمین آصف زرداری ناکام رھا۔

ایم کیو ایم کو پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے بنایا یا مھاجر اسٹیبلشمنٹ نے بنایا؟

یہ کچھ پوائنٹس ھیں جو ان لوگوں کی سوچ بچار کے لیے کافی ھیں ' جو یہ سمجھنا چاھتے ھیں کہ آرمی اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے بغیر ایم کیو ایم کیا ھوتی ھے اور آرمی اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے بعد کیا ھوتی ھے۔

یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ھے کہ ایم کیو ایم کو کب آرمی اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ مل جاتی ھے اور کب نہیں مل پاتی۔

یہ بھی نوٹ کیا جا سکتا ھے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جب مہاجر ھو تو ایم کیو ایم کی موج ھو جاتی ھے اور چیف آف آرمی اسٹاف جب مہاجر نہ ھو تو ایم کیو ایم مردار ھو جاتی ھے۔

1987 میں چیف آف آرمی اسٹاف تو پنجابی جنرل ضیاء الحق تھا لیکن چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی مھاجر جنرل اختر عبد الرحمن تھا ، جو کہ 1979 سے 1987 تک آئی ایس آئی کا ڈائریکٹر جنرل بھی رھا اور وائس چیف آف آرمی اسٹاف ' مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ تھا۔

پنجابی جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پریذیڈنٹ آف پاکستان ھونے کی وجہ سے مہاجر جنرل مرزا اسلم بیگ 1985 میں چیف آف جنرل اسٹاف ھونے کی وجہ سے آپریشنل اور انٹیلیجنس کے معاملات میں خود مختار تھے۔ مارچ 1987 سے مہاجر مرزا اسلم بیگ وائس چیف آف آرمی اسٹاف بھی بن گے۔ مھاجر جنرل اختر عبد الرحمن بھی 1979 سے 1987 تک آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل رھے۔ ایم کیو ایم ان ھی مہاجرجنرلوں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ ' فارن افیئرس ' سول بیوروکریسی میں موجود یوپی ' سی پی کے مھاجروں کا برین چائلڈ ھے۔

1985 میں سندھ کے دیہی علاقوں میں سندھیوں کی اور شہری علاقوں میں مھاجروں کی اکثریت تھی۔ دیہی علاقوں کے سندھیوں کی اکثریت پی پی پی میں تھی اور شہری علاقوں کے مھاجروں کی اکثریت جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان میں تھی۔ 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر پاکستان کی نیشنل اور پروینشل اسمبلیوں کے انتخابات کروانے کے بعد مارشل لاء ختم کر کے اس وقت کے پریذیڈنٹ آف پاکستان جنرل ضیاء الحق کے پلان کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) سندھ کے دیہی علاقوں اور شہری علاقوں کی سب سے بڑی اور رولنگ پارٹی بن گئی۔

1985 میں پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کا سینٹرل پریذیڈنٹ اور پرائم منسٹر آف پاکستان سندھی محمد خان جونیجو پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) سندھ کا پریذیڈنٹ اور چیف منسٹر آف سندھ سندھی غوث علی شاہ کے بن جانے اور پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) میں نیشنل لیول پر سندھی ' پنجابی ' پٹھان اور بلوچ کا غلبہ ھو جانے ' جبکہ سندھ کے دیہی علاقوں میں تو سندھیوں کی اکثریت کی وجہ سے مھاجروں کی ڈومینیشن نہیں تھی۔ لیکن سندھ کے شہری علاقوں پر بھی ' جہاں مھاجروں کی اکثریت بھی تھی اور ڈومینیشن بھی تھی ' پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کی ڈومینیشن ھو جانے اور پاکستان کی فیڈرل گورنمنٹ ' سندھ گورنمنٹ اور پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) پر مھاجروں کا کنٹرول نہ ھو پانے کی وجہ سے 1984 میں بنائی گئی مھاجروں کی غیر فعال سیاسی پارٹی مھاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو 1986 میں عملی طور پر کراچی اور حیدرآباد سے سیاست کے میدان میں اتارا گیا۔ تاکہ ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے سندھ کے شہری علاقوں پر مھاجروں کی سیاسی بالادستی قائم کروا کر سندھ کے بڑے بڑے شہروں پر مھاجروں کا مکمل کنٹرول قائم کروا کر ' دیہی علاقوں کے سندھیوں کو سندھ کے شہری علاقوں پر ڈومینیٹ ھونے سے روکا بھی جائے اور سندھ کے شہری علاقوں میں مھاجروں کے ڈومینیٹڈ ھونے کو بنیاد بنا کر مھاجروں کی فیڈرل گورنمنٹ اور سندھ کی پروینشل گورنمنٹ کے لیے سیاسی اھمیت کو یقینی بنا کر مھاجر بیوروکریسی اور اشرافیہ کو پولیٹیکل سپورٹ فراھم ھوتے رھنے کا انتظام کیا جا سکے۔

پاکستان کی فیڈرل اور سندھ کی پرویشنل گورنمنٹ پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے پاس ھونے ' کراچی اور حیدرآباد سے پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے ایم این ایز ' ایم پی ایز ' سنیٹرز کے ھونے کے باوجود 1987 میں ھونے والے لوکل باڈیز الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے بجائے ایم کیو ایم کو کراچی اور حیدرآباد سے منتخب کروا کر کراچی اور حیدرآباد کے میئر ایم کیو ایم کے بنوائے گے۔ جس کی وجہ سے کراچی اور حیدرآباد کے لوکل گورنمنٹ کے ڈیپارٹمنٹس اور لوکل افیئرز میں اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر نے ٹوٹل ڈومینیٹنگ پوزیشن حاصل کرنا شروع کردی۔ لہذا پروینشل گورنمنٹ اور فیڈرل گورنمنٹ کے ڈیپارٹمنٹس کو پریشرائز کرکے اپنے مفادات حاصل کرنے اور بلیک میل کرتے رھنے کے لیے جلسے ' جلوس ' مظاھرے ' جلاؤ ' گھیراؤ ' ھنگامے ' ھڑتالیں کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔

1987 میں پریزیڈنٹ آف پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف تو پنجابی جنرل ضیاء الحق تھا لیکن چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی مھاجر جنرل اختر عبد الرحمن تھا اور وائس چیف آف آرمی اسٹاف ' مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ تھا۔

1988 میں پہلی بار جب پی پی پی حکومت میں ایم کیو ایم کو شامل کیا گیا تو اس وقت پریزیڈنٹ آف پاکستان تو پٹھان اسحاق خان تھا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ تھا اور جب پی پی پی کی حکومت نے 1990 میں ایم کیو ایم کے خلاف قلعہ آپریشن شروع کیا تو اس وقت بھی چیف آف آرمی اسٹاف ، مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ ھی تھا ، جس کی وجہ سے پی پی پی حکومت ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن مکمل نہ کر سکی اور پی پی پی کی حکومت ختم کردی گئی۔

1990 میں جب نواز شریف کی حکومت میں ایم کیو ایم شامل ھوئی تو اس وقت بھی پریزیڈنٹ آف پاکستان تو پٹھان اسحاق خان ھی تھا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف بھی' مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ ھی تھا۔

1992 میں جب نواز شریف نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا اور ایم کیو ایم کو حکومت سے نکال دیا گیا تو اس وقت بھی پریزیڈنٹ آف پاکستان تو پٹھان اسحاق خان ھی تھا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' پنجابی جنرل آصف نواز جنجوعہ تھا۔

1993 میں جب دوبارہ پی پی پی کی حکومت بنی تو اس وقت پریزیڈنٹ آف پاکستان بلوچ فاروق لغاری تھا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' پٹھان جنرل وحید کاکڑ تھا۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہیں کیا گیا اور نواز شریف کی حکومت کے وقت سے جاری ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن بھی جاری رھا۔

1997 میں جب دوبارہ نواز شریف کی حکومت بنی تو اس وقت پریزیڈنٹ آف پاکستان پنجابی رفیق تارڑ تھا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' مھاجر جنرل جہانگیر كرامت تھا۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کیا گیا۔

1998 میں جب حکیم سعید کے قتل کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تو مھاجر جنرل جہانگیر كرامت نے نواز شریف کی حکومت کو بحران میں مبتلا کرنا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے جنرل جہانگیر كرامت کو نکال کر دوسرا چیف آف آرمی اسٹاف بنانا پڑا۔ دوسرا چیف آف آرمی اسٹاف بھی مھاجر ھی بنا دیا گیا ' جو مھاجر جنرل مشرف تھا ' جس نے نواز شریف کی حکومت ھی ختم کردی۔

2001 میں مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف اور پریزیڈنٹ آف پاکستان ' جنرل مشرف کی حکومت کے دور میں الطاف حسین نے برطانیہ کے پرائم منسٹر ٹونی بلیئر کو خط لکھا۔ جس کے بعد ایم کیو ایم کی طرف سے پاکستان میں جاسوسی کرنے اور ایم کیو ایم کو پاکستان کی فیڈرل گورنمنٹ اور سندھ گورنمنٹ میں حصہ دینے کا معاھدہ ھوا۔ ظاھر ھے گورنمنٹ آف پاکستان کی مرضی کے بغیر معاھدہ نہیں ھو سکتا تھا اور 2001 میں مھاجر جنرل مشرف ھی پاکستان کا چیف آف آرمی سٹاف اور چیف ایگزیکٹو تھا۔ اس نے ھی معاھدہ کی توثیق کی ھوگی۔ بلکہ معاھدہ کروایا اور ایم کیو ایم کے مردہ گھوڑے میں دوبارہ جان ڈالی۔ ورنہ ایم کیو ایم تو اس وقت تک مردار ھو چکی تھی۔

2002 کے الیکشن کے بعد پاکستان مسلم لیگ ق کی حکومت بنی تو اس وقت بھی چیف آف آرمی اسٹاف اور پریزیڈنٹ آف پاکستان ' مھاجر جنرل مشرف ھی تھا۔ ایم کیو ایم پھر حکومت میں شامل کی گئی اور 2008 تک حکومت میں ھی رھی۔

2008 میں ایک بار پھر سے پی پی پی کی حکومت بنی تو اس وقت چیف آف آرمی اسٹاف گو کہ پنجابی جنرل اشفاق پرویز کیانی تھا لیکن اس کے باوجود سندھی پریذیڈنٹ آف پاکستان اور پی پی پی کے چیئرمین آصف زرداری نے ایم کیو ایم کو پی پی پی کی حکومت کا حصہ بنایا۔ یہ واحد موقع ھے جب ایم کیو ایم مھاجر چیف آف آرمی اسٹاف کے نہ ھونے کے باوجود حکومت کا حصہ بننے میں کامیاب ھوئی اور اس کی وجہ سندھی پریذیڈنٹ آف پاکستان اور پی پی پی کے چیئرمین آصف زرداری کا ایم کیو ایم کو پی پی پی کی حکومت کا حصہ بنا کر پنجاب اور پنجابیوں کے خلاف ایم کیو ایم کو استعمال کر کے پنجاب کو سرائیکی سازش کے ذریعے تقسیم کرنا ' پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کو ختم کر کے پی پی پی کی حکومت بنانا یا پنجاب میں گورنر رول کو ھی جاری رکھنا ' مھاجر آمر جنرل مشرف کی طرف سے پی سی او کے ذریعے ھٹائے گئے پنجابی چیف جسٹس چودھری افتخار کو بحال نہ ھونے دینا ' مھاجر بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ لے کر پنجابی بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کو کارنر کرنا تھا۔ جس میں یہ سندھی پریذیڈنٹ آف پاکستان اور پی پی پی کا چیئرمین آصف زرداری ناکام رھا۔

2013 میں ایک بار پھر سے نواز شریف کی حکومت بنی تو پریزیڈنٹ آف پاکستان مھاجر ممنون حسین کو بنایا گیا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' پنجابی جنرل اشفاق پرویز كیانی تھا۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہیں کیا گیا۔

2016 میں بھی نواز شریف کی ھی حکومت تھی۔ پریزیڈنٹ آف پاکستان تو مھاجر ممنون حسین تھا۔ لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' پنجابی جنرل راحیل شریف تھا۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہیں کیا گیا۔

2017 میں بھی نواز شریف کی ھی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور نواز شریف کا نامزد کردہ شاھد خاقان عباسی پاکستان کا وزیرِ اعظم تھا۔ پریزیڈنٹ آف پاکستان تو مھاجر ممنون حسین تھا۔ لیکن چیف آف آرمی اسٹاف ' پنجابی جنرل قمر باجوہ تھا۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

کیا ایم کیو ایم ملٹری اسٹیبلشمنٹ ' فارن افیئرس اور سول بیوروکریسی میں موجود مھاجر پاور پلیئرس کا ایک پولیٹیکل ونگ نہیں ھے؟

ایم کیو ایم کو جنرل ضیاء الحق نے بنایا کا پروپیگنڈا کس نے اور کیوں کیا؟

پاکستان کی فیڈرل اور سندھ کی پروینشل گورنمنٹ پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے پاس ھونے ' کراچی اور حیدرآباد سے ایم این ایز ' ایم پی ایز ' سنیٹرز بھی پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے ھونے کے باوجود 1987 میں ھونے والے لوکل باڈیز الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے بجائے ایم کیو ایم کو کراچی اور حیدرآباد سے منتخب کروا کر کراچی اور حیدرآباد کے میئر ایم کیو ایم کے بنوائے گے۔ جس کی وجہ سے کراچی اور حیدرآباد کے لوکل گورنمنٹ کے ڈیپارٹمنٹس اور لوکل افیئرس میں اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر نے ٹوٹل ڈومینیٹنگ پوزیشن حاصل کرنا شروع کردی۔ لہذا پروینشل گورنمنٹ اور فیڈرل گورنمنٹ کے ڈیپارٹمنٹس کو پریشرائز کرکے اپنے مفادات حاصل کرنے اور بلیک میل کرتے رھنے کے لیے جلسے ' جلوس ' مظاھرے ' جلاؤ ' گھیراؤ ' ھنگامے ' ھڑتالیں کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔

1987 میں چیف آف آرمی اسٹاف تو پنجابی جنرل ضیاء الحق تھا لیکن چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی مھاجر جنرل اختر عبد الرحمن تھا ، جو کہ 1979 سے 1987 تک آئی ایس آئی کا ڈائریکٹر جنرل بھی رھا اور وائس چیف آف آرمی اسٹاف مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ تھا۔

1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی وجہ سے پی پی پی چونکہ پارلیمانی سیاست سے آؤٹ ھو گئی تھی اور ویسے بھی پی پی پی اپنے قیام سے لے کر سندھ کے دیہی علاقوں بلکہ سندھیوں کی پولیٹیکل پارٹی رھی۔ سندھ کے شہری علاقوں یا غیر سندھیوں میں آرگنائز ھونے میں پی پی پی نے کبھی دلچسپی ھی نہ لی اور شہری علاقوں کی پولیٹیکل پارٹیز جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان رھیں۔ اس لیے مھاجروں کی اکثریت جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان میں تھی۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان کو نہ تو دیہی علاقوں میں پبلک سپورٹ حاصل تھی اور نہ دوسرے صوبوں میں بڑی پبلک سپورٹ حاصل تھی۔ اس لیے پی پی پی کو سندھ میں اپنی پارلیمانی اکثریت قائم رکھنے کے لیے سندھ کے شہری علاقوں میں پی پی پی کو آرگنائز کرنے کی خاص ضرورت بھی نہ تھی۔

لیکن ' جب 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد مارشل لاء ختم کر کے ' اس وقت کے پریذیڈنٹ آف پاکستان جنرل ضیاء الحق کے پلان کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کا قیام عمل میں لایا گیا تو سندھی محمد خان جونیجو کے پرائم منسٹر آف پاکستان اور پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کا سینٹرل پریذیڈنٹ بن جانے۔ جبکہ سندھی غوث علی شاہ کے چیف منسٹر آف سندھ اور پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) سندھ کا پریذیڈنٹ بن جانے۔ کرچی اور حیدرآباد سے منتخب ھونے والے مہاجر ایم این ایز ' ایم پی ایز اور سینیٹرز کے پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) میں شامل ھو جانے اور پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کو پیر پگارو کی سپورٹ ھونے کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) سندھ کے دیہی علاقوں اور شہری علاقوں کی سب سے بڑی پارلیمنٹری مجوریٹی اور رولنگ پارٹی بن گئی تو پی پی پی کو ' جو کہ پہلے ھی سندھ کے صرف دیہی علاقوں تک محدود پولیٹیکل پارٹی تھی ' پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے سندھ کے دیہی علاقوں اور شہری علاقوں کی سب سے بڑی پارلیمنٹری مجوریٹی اور رولنگ پارٹی بن جانے کی وجہ سے سندھ میں پی پی پی کا سیاسی مستقبل خطرہ میں محسوس ھونے لگا۔

اس لیے جب 1987 میں مھاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو عملی طور پر کراچی اور حیدرآباد سے سیاست کے میدان میں اتارا گیا تو پی پی پی نے پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیا کہ ایم کیو ایم کو جنرل ضیاء الحق نے سندھ کے شہری علاقوں پر مھاجروں کی سیاسی بالادستی قائم کروا کر ' سندھ کے بڑے بڑے شہروں پر مھاجروں کا مکمل کنٹرول قائم کروانے کے لیے بنایا ھے۔ تاکہ پی پی پی ایک طرف تو جنرل ضیاء الحق کے پلان کے مطابق بنائی جانے والی پولیٹیکل پارٹی پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے خلاف سندھ کے دیہی علاقوں میں سندھیوں کی نفرت قائم کر سکے اور دوسری طرف سندھ کے شہری علاقوں میں پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کو ایم کیو ایم کے ذریعہ ختم کروا کر پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے سندھ کے دیہی علاقوں اور شہری علاقوں کی سب سے بڑی پولیٹیکل پارٹی بن جانے کی حیثیت کو ختم کرسکے۔ تاکہ پی پی پی پھر سے سندھ کے دیہی علاقوں اور سندھیوں کی سب سے بڑی پولیٹیکل پارٹی بن جائے۔

1988 میں جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی موت اور مہاجر جنرل مرزا اسلم بیگ کے چیف آف آرمی اسٹاف بن جانے کے بعد اس پروپیگنڈا کو پی پی پی کے ساتھ ساتھ اردو اسپیکنگ بیوروکریسی ' اسٹیبلشمنٹ ' انٹیلیکچوئلس ' جرنلسٹس ' رائٹرس ' ایجوکیشنلسٹس ' پولیٹیشنس ' اسکلڈ پروفیشنلس ' سوشل ورکرس اور میدیا نے بھی خوب اچھالا تاکہ اس طرف کسی کا دھیان ھی نہ آئے کہ ایم کیو ایم دراصل فارن افیئرس ' ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سول بیوروکریسی میں موجود مھاجر پاور پلیئرس کا ایک پولیٹیکل ونگ ھے۔

فارن افیئرز ' ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سول بیوروکریسی سے ریٹائرڈ یوپی ' سی پی کے اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر پاور پلیئرس ایم کیو ایم کی پالیسی بناتے ھیں۔

فارن افیئرز ' ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سول بیوروکریسی میں موجود اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر پاور پلیئرس ایم کیو ایم کی سرپرستی کرتے ھیں۔

ایجوکیشنل انسٹیٹیوشنس اور اسکلڈ پروفیشنس کے اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر پاور پلیئرس ایم کیو ایم کا پروپگنڈہ کرتے ھیں۔

پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر پاور پلیئرس ایم کیو ایم کو ایڈورٹائز کرتے ھیں۔

اینٹی پاکستان پراکسی پلیئرس اور انڈیا کے لیے پراکسی ایجنٹ کا رول پلے کرنے والے اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر پاور پلیئرس ایم کیو ایم کو سہولتیں فراھم کرتے ھیں۔

جرائم پیشہ اور غیر قانونی کاروبار کرنے والے اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر پاور پلیئرس ایم کیو ایم کو سپورٹ کرتے ھیں۔

سیاسی اور سماجی طور پر سرگرم اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر پاور پلیئرس ایم کیو ایم کو آرگنائز کرتے ھیں۔

جبکہ ایم کیو ایم کے لوکل نیٹ ورک کے ایم سی ' ایچ ایم سی ' کے ڈی اے ' ایچ ڈی اے ' کے ڈبلیو ایس بی ' کے بی سی اے ' کے ایس سی ' ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ' ھیلتھ ڈیپارٹمنٹ ' پورٹ اینڈ شپنگ اَتھارِٹی ' اسٹیل مل ' کراچی ایئرپورٹ ' بنکس ' انشورنس کمپنیز ' ملٹی نیشنل کمپنیز ' پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا میں ملازمت کرنے والے اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجروں پر مشتمل ھیں۔

جنرل ضیاء الحق نے ایم کیو ایم نہیں پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) بنائی تھی۔

1985 میں سندھ کے دیہی علاقوں میں سندھیوں کی اور شہری علاقوں میں مھاجروں کی اکثریت تھی۔ دیہی علاقوں کے سندھیوں کی اکثریت پی پی پی میں تھی اور شہری علاقوں کے مھاجروں کی اکثریت جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان میں تھی۔ 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر پاکستان کی نیشنل اور پروینشل اسمبلیوں کے انتخابات کروانے کے بعد مارشل لاء ختم کر کے ، اس وقت کے پریذیڈنٹ آف پاکستان ، جنرل ضیاء الحق کے پلان کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) سندھ کے دیہی علاقوں اور شہری علاقوں کی سب سے بڑی اور رولنگ پارٹی بن گئی۔

1985 میں پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کا سینٹرل پریذیڈنٹ اور پرائم منسٹر آف پاکستان ، سندھی محمد خان جونیجو ، پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) سندھ کا پریذیڈنٹ اور چیف منسٹر آف سندھ ، سندھی غوث علی شاہ کے بن جانے اور پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) میں نیشنل لیول پر سندھی ، پنجابی ، پٹھان اور بلوچ کا غلبہ ھو جانے ، جبکہ سندھ کے دیہی علاقوں میں تو سندھیوں کی اکثریت کی وجہ سے مھاجروں کی ڈومینیشن نہیں تھی لیکن سندھ کے شہری علاقوں پر بھی ، جہاں مھاجروں کی اکثریت بھی تھی اور ڈومینیشن بھی تھی ، پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کی ڈومینیشن ہو جانے اور پاکستان کی فیڈرل گورنمنٹ ، سندھ گورنمنٹ اور پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) پر مھاجروں کا کنٹرول نہ ھو پانے کی وجہ سے 1984 میں بنائی گئی مھاجروں کی غیر فعال سیاسی پارٹی مھاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو 1986 میں عملی طور پر کراچی اور حیدرآباد سے سیاست کے میدان میں اتارا گیا تاکہ ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے سندھ کے شہری علاقوں پر مھاجروں کی سیاسی بالادستی قائم کروا کر سندھ کے بڑے بڑے شہروں پر مھاجروں کا مکمل کنٹرول قائم کروا کر ، دیہی علاقوں کے سندھیوں کو سندھ کے شہری علاقوں پر ڈومینیٹ ھونے سے روکا بھی جائے اور سندھ کے شہری علاقوں میں مھاجروں کے ڈومینیٹڈ ھونے کو بنیاد بنا کر مھاجروں کی فیڈرل گورنمنٹ اور سندھ کی پروینشل گورنمنٹ کے لیے سیاسی اھمیت کو یقینی بنا کر مھاجر بیوروکریسی اور اشرافیہ کو پولیٹیکل سپورٹ فراھم ھوتے رھنے کا انتظام کیا جا سکے۔

پاکستان کی فیڈرل اور سندھ کی پرویشنل گورنمنٹ پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے پاس ھونے ، کراچی اور حیدرآباد سے پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے ایم این ایز ، ایم پی ایز ، سنیٹرز کے ھونے کے باوجود 1987 میں ھونے والے لوکل باڈیز الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے بجائے ایم کیو ایم کو کراچی اور حیدرآباد سے منتخب کروا کر کراچی اور حیدرآباد کے میئر ایم کیو ایم کے بنوائے گے۔ جس کی وجہ سے کراچی اور حیدرآباد کے لوکل گورنمنٹ کے ڈیپارٹمنٹس اور لوکل افیئرز میں اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر نے ٹوٹل ڈومینیٹنگ پوزیشن حاصل کرنا شروع کردی۔ لہذا پروینشل گورنمنٹ اور فیڈرل گورنمنٹ کے ڈیپارٹمنٹس کو پریشرائز کرکے اپنے مفادات حاصل کرنے اور بلیک میل کرتے رھنے کے لیے جلسے ' جلوس ' مظاھرے ' جلاؤ ' گھیراؤ ' ھنگامے ' ھڑتالیں کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔

سندھ میں 1983 میں شروع کی جانے والی ایم آر ڈی کی تحرک کی آڑ میں سندھ کی آزادی کی تحریک کے 1985 کے انتخابات کے بعد پاکستان میں سندھی محمد خان جونیجو اور سندھ میں سندھی غوث علی شاہ کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ جونیجو کی حکومت بن جانے اور جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد جی- ایم سید کے سندھودیش کی تحریک سے دستبردار ھوجانے کے باعث سندھ کی آزادی کی تحریک کے ناکام ھوجانے کی وجہ سے بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کو بھی سندھ کے حالات خراب رکھنے کے لیے متبادل کی ضرورت تھی۔ اس لیے بھارتی ایجنسی "را" نے بھی ایم کیو ایم کو کراچی پر مسلط کرنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا شروع کر دیا اور یوپی سی پی کی مسلمان اشرافیہ کے ساتھ ساز باز کرکے کراچی میں ھونے والے مھاجروں کے جلسوں ' جلوسوں ' مظاھروں ' جلاؤ ' گھیراؤ ' ھنگاموں ' ھڑتالوں کو پرتشدد بنانے کے ساتھ ساتھ قبضہ گیری ، بھتہ خوری ' اغوا ' ٹارگٹ کلنگ کروا کر پاکستان کی معیشت کو برباد کروانا شروع کردیا۔

1987 میں چیف آف آرمی اسٹاف تو پنجابی جنرل ضیاء الحق تھا لیکن چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی مھاجر جنرل اختر عبد الرحمن تھا ، جو کہ 1979 سے 1987 تک آئی ایس آئی کا ڈائریکٹر جنرل بھی رھا اور وائس چیف آف آرمی اسٹاف ، مھاجر جنرل مرزا اسلم بیگ تھا۔ ایم کیو ایم دراصل فارن افیئرز ، ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سول بیوروکریسی میں موجود مھاجر پاور پلیرز کا ایک پولیٹیکل ونگ ھے۔

فارن افیئرز ، ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سول بیوروکریسی سے ریٹائرڈ یوپی ، سی پی کے اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر پاور پلیرز ایم کیو ایم کی پالیسی بناتے ھیں۔

فارن افیئرز ، ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سول بیوروکریسی میں موجود اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر پاور پلیرز ایم کیو ایم کی سرپرستی کرتے ھیں۔

اینٹی پاکستان پراکسی پلیر اور انڈیا کے لیے پراکسی ایجنٹ کا رول پلے کرنے والے اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر پاور پلیرز ایم کیو ایم کو سہولتیں فراھم کرتے ھیں۔

پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر پاور پلیرز ایم کیو ایم کو ایڈورٹائز کرتے ھیں۔

ایجوکیشنل انسٹیٹیوشنس اور اسکلڈ پروفیشنس کے اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر پاور پلیرز ایم کیو ایم کا پروپگنڈہ کرتے ھیں۔

جرائم پیشہ اور غیر قانونی کاروبار کرنے والے اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر پاور پلیرز ایم کیو ایم کو سپورٹ کرتے ھیں۔

سیاسی اور سماجی طور پر سرگرم اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر پاور پلیرز ایم کیو ایم کو آرگنائز کرتے ھیں۔

جبکہ ایم کیو ایم کے لوکل نیٹ ورک کے ایم سی ، ایچ ایم سی ، کے ڈی اے ، ایچ ڈی اے ، کے ڈبلیو ایس بی ، کے بی سی اے ، کے ایس سی ، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ، ھیلتھ ڈیپارٹمنٹ ، پورٹ اینڈ شپنگ اَتھارِٹی ، اسٹیل مل ، کراچی ایئرپورٹ ، بنکس ، انشورنس کمپنیز ، ملٹی نیشنل کمپنیز ، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا میں ملازمت کرنے والے اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجروں پر مشتمل ھیں۔

Saturday, 22 October 2016

بیکن ھاؤس نے انوکھا کام نہیں کیا تھا ' پنجابیوں نے انقلابی کام کردیا ھے۔

پاکستان میں یہ پہلی بار ھوا ھے کہ پنجابی زبان نہ بولنے کی ھدایت کرنے پر پنجابیوں نے بھرپور اور شدید احتجاج کیا۔ لاھور ھائیکورٹ میں رٹ پتیشن داخل کردی۔ پنجاب اسمبلی میں تحریکِ التوا جمع کروادی۔ پنجابی دانشوروں ' ڈاکٹروں ' وکیلوں ' صحافیوں ' طالب علموں نے بیکن ھاؤس اسکول سسٹم کے ھیڈ آفس کا گھیراؤ کرلیا اور بیکن ھاؤس اسکول سسٹم کی انتظامیہ نے پنجابیوں سے معافی مانگی لیکن پنجابی معاف کرنے پر تیار نہیں ھیں۔

اس واقعہ کو معمولی واقعہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ انقلابی واقعہ ھے۔ بیکن ھاؤس اسکول ساھیوال نے تو کوئی انوکھا کام نہیں کیا تھا۔ انوکھا کام پنجابیوں نے کردیا ھے۔ کیونکہ پنجابی زبان کی تذلیل اور توھین کا سلسلہ تو پاکستان کے قیام کے بعد اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے مھاجر کا روپ دھار کر پاکستان میں داخل ھوتے ھی شروع ھوگیا تھا۔ لیکن 21 مارچ 1948کو رمنا ریس کورس ڈھاکہ میں جب جناح صاحب نے انگریزی زبان میں اکثریتی زبان بولنے والے بنگالیوں سے کہہ دیا کہ سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ھو گی اور اس بات کی مخالفت کرنے والے ملک دشمن تصور ھونگے تو اردو نہ بولنے والے پنجابیوں کی بھی اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے تذلیل اور توھین کرنا شروع کردی تھی۔

69 سال سے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی طرف سے پنجابی زبان اور پنجابیوں کی تذلیل اور توھین کا سلسلہ تو جاری تھا لیکن اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے پنجابیوں کو طعنے دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا ھوا تھا کہ؛

پنجابی غلیظ زبان ھے ' اس لیے پنجابی خود پنجابی نہیں بولتے۔
اردو بولنے والے ھندوستانی ' شہری ھیں جبکہ پنجابی پینڈو ھیں۔
اردو بولنے والے ھندوستانی ' مھذب ھیں جبکہ پنجابی گنوار ھیں۔
اردو بولنے والے ھندوستانی ' پڑھے لکھے ھیں جبکہ پنجابی جاھل ھیں۔
پنجابی زبان کا رسم الخط نہیں ھے ' اس لیے پنجابی زبان تو پنجابی لکھ ھی نہیں سکتے۔
پنجابی زبان کا رسم الخط نہ ھونے کی وجہ سے پنجابیوں کو اردو رسم الخط میں پنجابی لکھنی پڑتی ھے۔

21 مارچ 1948کو اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دینے کے بعد سے نہ صرف تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر بلکہ نجی محفلوں اور عوامی مقامات پربھی چونکہ پنجابی زبان بولنے پر پنجابیوں کی تذلیل اور توھین کی جاتی تھی۔ اس لیے پنجابی زبان بولنے سے خوف زدہ ھوکر اور اردو زبان بول بول کر احاسِ کمتری کا شکار ھوجانے والے پننجابیوں میں بھی ایک طبقہ ایسا پیدا ھوگیا جو اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے رنگ میں ڈھنگ گیا۔ پنجابی زبان بولنے سے خوف زدہ اور احاسِ کمتری کے شکار اس پنجابی نے بھی طوطے بن کر وہ ھی رٹے رٹائے الفاظ ادا کرنا شروع کردیے جو اردو بولنے والے ھندوستانیوں سے سیکھے تھے اور بندر کی طرح وہ ھی کردار ادا کرنا شروع کریا جو اردو بولنے والے ھندوستانی ادا کرتے تھے۔

بحرحال ' اب بیکن ھاؤس کے پنجابی زبان نہ بولنے کی ھدایت کرنے پر پنجابیوں کے بھرپور اور شدید احتجاج نے اس امر کی وضاحت کردی ھے کہ پنجابی اب پنجابی قوم پرستی کی طرف راغب ھوچکا ھے۔ پنجابی اب پنجابی زبان اور پنجابی قوم کی تذلیل اور توھین برداشت کرنے پر تیار نہیں ھے۔ اس لیے پنجابی زبان اور پنجابیوں کے بارے توھین آمیز کلمات ادا کرنے والوں کے ساتھ پنجابی قوم نے کوئی رعایت نہیں برتنی۔ پاکستان کی 60٪ آبادی چونکہ پنجابی ھے۔ اس لیے پاکستان میں پنجابی قوم پرستی کے فروغ پانے کی وجہ سے پاکستان کے سماجی معاملات ' سیاسی نظریات ' ثقافتی ماحول اور عوامی سرگرمیوں میں ایک انقلابی تبدیلی آنے والی ھے۔

Friday, 21 October 2016

نواز شریف نے پنجاب تے راج کرکے وی پنجابیاں نوں انہاں دی زبان نہیں دتی۔

نواز شریف نوں نہ رھنما بننا آیا نہ حکمراں۔ صرف حکومت وچ رھنا نصیب ھویا۔ اوہ وی ایس لئی کہ پاکستان دا سیاسی ماحول لسانی اے۔ پنجابی ' سندھیاں دی پارٹی پی پی پی ' پٹھاناں دی پارٹی پی ٹی آئی ' اردو بولن والے ھندوستانیاں دی پارٹی ایم کیو ایم نوں تے مینڈیٹ دیندے نئیں۔ ایس لئی پنجابیاں دی پارٹی ن لیگ نوں مینڈیٹ دے دیندے  نے۔

پنجاب چوں قومی اسمبلی دیآں 150 سیٹاں نے۔ پاکستان دی وفاقی حکومت بنآن دے لئی 137 سیٹاں دی لوڑ ھوندی اے۔ جیہڑیاں پنجاب چوں ای مل جاندیآں  سن۔ ایس لئی نواز شریف نوں پاکستان دا وزیرِ اعظم بننا نصیب ھوجاندا سی۔ پر نواز شریف نہ تے رھنما بن کے سارے پاکستان دے ن لیگ دے کارکناں دی سیاسی تربیت کرکے پاکستان دے عوام نوں سیاسی سوچ ' سمجھ تے شعور دے پایا۔ نہ حکمراں بن کے پاکستان دے حکومتی اداریاں دی کارکردگی بہتر کرکے پاکستان نوں مظبوط ' مستحکم تے خوشحال بنا پایا۔

نواز شریف نوں رھنمائی کرنا نہ آن دے کرکے ن لیگ دے کارکناں دی سیاسی تربیت نئیں ھو پائی۔ جیس دی وجہ توں پاکستان دی عوام سیاسی سوچ ' سمجھ تے شعور توں محروم اے۔

نواز شریف نوں حکمرانی کرنا نہ آن دی وجہ توں پاکستان دے حکومتی اداریاں دی کارکردگی بہتر نئیں ھو پائی۔ جیس دی وجہ توں پاکستان مظبوط ' مستحکم تے خوشحال نئیں ھو پایا۔

ایس توں وی بوھتا وڈا مسئلہ اے وے کہ؛

نواز شریف 1985 توں لے کے ' 30 سال دے عرصے تک پنجاب تے راج کیتا۔ بلکہ حقیقت اے وے کہ پنجابی نے 30 سال دے عرصے تک نواز شریف نوں پنجاب تے راج کروایا۔ جد کہ پنجابیاں دے مینڈیٹ دے کرکے ای نوا شریف نوں پاکستان تے وی 3 واری راج کرن دا موقع ملیا۔ پر؛

اے نواز شریف دی پنجاب دے نال زیادتی اے کہ 30 سال تک پنجاب تے راج کرکے وی پنجاب دے حکومتی اداریاں دی کارکردگی بہتر کرکے پنجاب نوں مظبوط ' مستحکم تے خوشحال نئیں بنایا۔ جد کہ نواز شریف نے 30 سال دے عرصے وچ پنجابیاں دی رھنمائی کرکے پنجابیاں دی سیاسی سوچ ' سمجھ تے شعور وچ اضافہ وی نئیں کیتا۔

بلکہ نواز شریف نے انگریزاں دے دور توں پنجاب تے مسلط کیتی گئی اردو زبان نوں پنجاب چوں ختم کرکے پنجابیاں نوں انآں دی زبان وی نئیں دتی۔ تاکہ پنجابی اپنے بچیاں نوں اپنی ماں بولی وچ تعلیم دلوا سکن   تے دفتری معاملات نوں اپنی ماں بولی وچ ای انجام دے سکن۔ جد کہ پنجاب دی تعلیمی تے دفتری زبان پنجابی ھو جان نال پنجابی تہذیب ' ثقافت تے رسم و رواج نے وی فروغ پا جانا سی تے پنجابی قوم نے وی پنجابی زبان دے لہجیاں تے پنجابی برادریاں دے جھیڑیاں چوں نکل کے سماجی ' معاشی تے سیاسی طور تے مظبوط ' مستحکم تے خوشحال قوم بن جانا سی۔ نالے پاکستان دیآں دوسریآں قوماں دے نال وی سیاسی ' سماجی ' معاشی اختلافات سلجھا لینے سی۔

نواز شریف نوں 30 سال وچ وی اے سمجھ نئیں آیا کہ؛

جد پنجابی بچے اپنی بیسک ایجوکیشن اوس زبان وچ لے سکدے نے جیڑی او گھر وچ بولدے نے ' جیڑی اناں دی ماں بولی اے۔ ھائیر ایجوکیشن ' انٹرنیشنل لینگویج انگلش وچ ای لینی چائی دی اے تے انگلش وچ ای لے رئے نے۔ فے اک اوپری زبان اردو ' جیہڑی انڈس ویلی سویلائزیشن دی نئیں بلکہ گنگا جمنا کلچر دی زبان اے ' اوس نوں سکھن یا بولن دی لوڑ کی اے؟

کی بچے اپنی ماں بولی وچ گل بوھتی سمجھدے نے یا دوجی بولی وچ؟

اے گل کردے کردے ای بنگالی وکھ ہو گئے۔

اے گل سندھی ' پٹھان ' بلوچ آکھ رئے نے۔

اے گل ای پنجابی قوم پرست کہہ رئے نے۔

نواز شریف نوں اے گل کددوں سمجھ آوے گی کہ؛

پنجابی قوم دنیا دی نوویں سب توں وڈی قوم اے۔
پنجابی قوم جنوبی ایشیا دی تیجی سب توں وڈی قوم اے۔
پنجابی مسلمان مسلم امہ دی تیجی سب توں وڈی برادری اے۔
پنجابیاں دی پاکستان وچ آبادی 60 فیصد اے۔
پنجابی زبان پاکستان دی 80 فیصد آبادی بولنا جاندی اے۔
پنجابی زبان پاکستان دی 90 فیصد آبادی سمجھ لیندی اے۔
تے فے پنجابیاں دے بچیاں نوں پنجابی میڈیم وچ نہ پڑھا کے پنجابیاں دے بچیاں نوں "دولے شاہ دے چوھے" کیوں بنایا جا ریا اے؟

کی نواز شریف نے سپریم کورٹ دا فیصلہ پڑھیا اے؟
جیس وچ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے دی تمہید وچ آکھیا اے کہ:

1۔ عدالت نے مشاہدہ کیتا اے کہ؛ حکومتِ پنجاب ' پنجابی زبان نوں اوس دا مقام دوان وچ ناکام رئی اے تے پنجابی زبان نوں حصولِ علم دا ذریعہ بنان دے لئی کوئی خاطر خواہ اقدامات نئیں کیتے۔

2۔ دستور وچ دتے گئے ذاتی وقار دے حق دا لازمی تقاضہ اے کہ؛ ریاست ھر مرد و زن شہری دی زبان نوں چاھے اوہ قومی ھووے یا صوبائی ' اک قابلِ احترام زبان دا درجہ ضرور دیوے۔

3۔ جد ریاست ایس گل تے اڑ جاوے کہ؛ اوہ زباناں جیہڑیاں پاکستان دے شہریاں دی اکثریت بولدی اے ' ایس قابل نئیں نے کہ اناں وچ ریاست دے کم انجام پا سکن تے فے ریاست اناں شہریاں نوں حقیقی معنی وچ انہاں دے انسانی وقار توں محروم کر رئی اے۔

4۔ اس گل وچ کوئی شک نئیں کہ؛ انفرادی یا اجتماعی وقار تے تعلیم اک دوجے نال جڑے ھوئے نے۔ تعلیم ' جیہڑی کہ اک بنیادی حق اے ' براہ راست زبان نال تعلق رکھدی اے۔

کی نواز شریف نوں پتہ اے کہ؛

یونیسکو جے آ ادارہ وی ' جیہڑا اقوامِ متحدہ دا تعلیمی ' سائنسی تے ثقافتی ادارہ اے ' ایس گل دی تائید کردا اے کہ؛ بچے نوں اوس دی اپنی زبان وچ ای تعلیم دتی جانی چائی دی اے۔ کیونکہ اپنی زبان ای اوہ زبان اے جیہڑی بچہ اپنے گھر تے ماحول توں سکھدا اے تے اوس دے پرچھاویں تھلے ای پروان چڑھدا اے۔

کی نواز شریف نوں پتہ اے کہ؛

پنجابی زبان دی پرورش صوفی بزرگاں بابا فرید ' بابا نانک ' شاہ حسین ' سلطان باہو ' بلھے شاہ ' وارث شاہ ' خواجہ غلام فرید ' میاں محمد بخش کیتی۔ ایس لئی پنجابی زبان دا پس منظر روحانی ھون دے کرکے پنجابی زبان وچ علم ' حکمت تے دانش دے خزانے نے جیہڑے اخلاقی کردار نوں بہتر کرن تے روحانی نشو نما دی صلاحیت رکھدے نے۔

Thursday, 20 October 2016

پنجاب دی اک دھی دی پنجاب اسمبلی وچ ماں بولی دی عزت لئی واج۔

پنجاب اسمبلی دے ممبر پنجاب دے پتراں نوں تے ماں بولی دی عزت دا خیال نئیں آیا پر پنجاب دی اک دھی حنا بٹ نے پنجاب اسمبلی وچ ماں بولی دی عزت دے لئی واج مار کے ماں بولی دی لاج رکھ لئی اے۔ بابا فرید ' بابا نانک ' شاہ حسین ' سلطان باہو ' بلھے شاہ ' وارث شاہ ' خواجہ غلام فرید ' میاں محمد بخش دی لاج رکھ لئی اے۔ پنجابی قوم دی لاج رکھ لئی اے۔ پنجابیاں دے سر اچے کردتے نے۔ جیوندی رو پنجاب دی دھی اے۔ جیوندی رو ماں بولی دی راکھی اے۔

پنجابی قوم پرست پنجاب دی دھی حنا بٹ نوں پنجاب اسمبلی وچ ماں بولی دی عزت دے لئی واج مارن تے سلام پیش کردے نے۔ رب حنا بٹ نوں سلامت رکھے۔ رب حنا بٹ نوں پنجاب ' پنجابی قوم تے پنجابی زبان دی راکھی بنا کے رکھے۔

پنجاب اسمبلی دے ممبر پنجاب دے پتراں نوں تے ماں بولی دی عزت دا خیال نئیں سی آیا پر ھن پنجاب دی اک دھی دے پنجاب اسمبلی وچ ماں بولی دی لاج واسطے واج مارن توں بعد شاید پنجاب اسمبلی دے ممبر پنجاب دے پتراں دی وی غیرت شاید جاگ ای جاوے کہ بیکن ھاؤس نے پنجابی قوم تے پنجاب دے صوفی بزرگاں دی توھین کیتی اے۔

پنجابی زبان دی پرورش صوفی بزرگاں بابا فرید ' بابا نانک ' شاہ حسین ' سلطان باہو ' بلھے شاہ ' وارث شاہ ' خواجہ غلام فرید ' میاں محمد بخش کیتی۔ ایس لئی پنجابی زبان دا پس منظر روحانی ھون دے کرکے پنجابی زبان وچ علم ' حکمت تے دانش دے خزانے نے جیہڑے اخلاقی کردار نوں بہتر کرن تے روحانی نشو نما دی صلاحیت رکھدے نے۔

بیکن ھاؤس ساھیوال نے پنجابی زبان نوں بیہودہ زبان قرار دے کے پنجابی زبان دی توھین کیتی اے۔ اوس زبان دی توھین کیتی اے ' جیس زبان دی پرورش پنجاب دے صوفی بزرگاں کیتی۔ ایس لئی بیکن ھاؤس نے پنجابی قوم دی ای نئیں پنجاب دے صوفی بزرگاں دی وی توھین کیتی اے۔

پنجابی قوم دنیا دی نوویں سب توں وڈی قوم اے۔
پنجابی قوم جنوبی ایشیا دی تیجی سب توں وڈی قوم اے۔
پنجابی مسلمان مسلم امہ دی تیجی سب توں وڈی برادری اے۔
پنجابیاں دی پاکستان وچ آبادی 60 فیصد اے۔
پنجابی زبان پاکستان دی 80 فیصد آبادی بولنا جاندی اے۔
پنجابی زبان پاکستان دی 90 فیصد آبادی سمجھ لیندی اے۔

کی بیکن ھاؤس دا کہنا اے کہ؛ پنجابی بیہودہ زبان بولدے نے؟

کی بیکن ھاؤس دا کہنا اے کہ؛ بابا فرید ' بابا نانک ' شاہ حسین ' سلطان باہو ' بلھے شاہ ' وارث شاہ ' خواجہ غلام فرید ' میاں محمد بخش بیہودہ زبان بولدے سن؟

کی بیکن ھاؤس دا کہنا اے کہ؛ بابا فرید ' بابا نانک ' شاہ حسین ' سلطان باہو ' بلھے شاہ ' وارث شاہ ' خواجہ غلام فرید ' میاں محمد بخش نے جیس زبان دی پرورش کیتی اوہ بیہودہ زبان اے؟

Tuesday, 18 October 2016

Jinnah, Culture and Language. By Yaqoob Khan Bangash.

The language issue arose in the immediate aftermath of independence — it had to be decided which language, or languages, would the new Muslim nation speak, officially and colloquially. While it seemed that the elevated position of English would have no threat in Pakistan for the foreseeable future [and as it happens to date], the tussle, therefore, began a rather interesting term ‘national language.’

Hence, Pakistan became a country where the official language — the language in which all government functions are undertaken and which is the medium of instruction in higher education — was undisputedly English, but where there was a debate on the ‘national’ language where one wasn’t quite sure what the status really meant but felt passionately about it nonetheless.

Despite the unclear legal nature of the term ‘national’ language, a fierce debate soon arose pitting Urdu versus Bengali in
Pakistan. A month after independence in mid-September 1947, a pamphlet was circulating in Dacca arguing that Bengali should be made the court language and medium of instruction in East Bengal. It even went as far as to advocate that Bengali be made co-equal with Urdu at the centre. A ‘Tamaddun Majlis’ [Cultural Association] was also set up around the same time by students at Dacca University which argued the aims of the pamphlet. This association was soon joined by the Rashra Basha Sangram Parishad i.e., the State Language Committee of Action founded in October 1947, when it became clear that official nomenclature, bank notes and the rest would be only in Urdu with no taint of Bengali.

Thereafter, there was a protest in Dacca and a meeting at the Dacca University deplored the omission of Bengali — the language spoken by the majority of Pakistan’s people from official discourse. The fiercely national Bengalis had also now decided to ‘protect’ their language.

Amidst the ‘protection’ war between Urdu and Bengali, the premier of
East Bengal, Khawaja Nazimuddin, had already shot himself in the foot. In the debate cited above he had unequivocally supported the cause of Urdu at the centre while championing the status of Bengali at the provincial level. However, this double speak — as some put it — did not do good for the quiet Khawaja.

As reported by the
US Attache in Dacca, almost immediately student protests broke out in Dacca and two general strikes had been planned. The government was so taken aback by the reaction that hurriedly a press statement had to be released on March 1, 1948, which stated: “That issue can be decided at the appropriate time solely in accordance with the wishes of the people of this province alone as ascertained through the accredited representatives.” However, such an assurance did not placate anyone and now even the date of return of Nazimuddin was being kept secret in his own provincial capital!

During the CAP debate on language, Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah as the president of the Assembly stayed impartial. One could see his uneasiness with the stance of the members of the
Pakistan National Congress, but even though he had strong views on the subjects, Jinnah decided to stay quiet. He was supposed to tour East Pakistan in March 1948, and so thought that that would be the best time to broach the question and settle it, once and for all. One would have thought that Jinnah dressed in Savile Row suits and being one of the best English barristers of his time might set aside the squabble between Urdu and Bengali as immature and focus on English as a language for the future — especially since he was only proficient in that tongue, but his tour of East Bengal exhibited a different tone.

In his decade of days in
East Pakistan, Jinnah spoke on the topic of language repeatedly, and strongly. Speaking at his first public gathering in Dacca on March 21, 1948, Jinnah had a broad smile as he viewed the swarming maiden in front of him. The area was full of people as far as the eyes could see, perhaps a million souls, and they were all chanting, Pakistan, Zindabad [Long Live Pakistan], and Quaid-e-Azam Zindabad [Long Live the Great Leader]. Jinnah was beaming with joy at what he had achieved — a sovereign homeland for the Muslims of South Asia. He was proud that even with the several hardships that partition and independence had brought, the people were full of zeal and enthusiasm for the new country — this was the mettle of strong nations, Jinnah thought to himself.

As he conjured the new nation of
Pakistan, Jinnah also wanted the country to have one state language, one lingua franca. He had heard the debate in the CAP and the public protests against the imposition of Urdu in East Bengal and was adamant to put an end to the debate, once and for all. After all, he was the founder of the country — the Great Leader, and his word would and should be final.

Therefore, in an ironic turn of events, Jinnah adjusted his monocle and began reading his rather long and detailed speech to the people of East Bengal, albeit not in Urdu, which he was going to argue for, and nor in Bengali which his audience could understand, but in the King’s English — the language he himself was most comfortable in. The crowd didn’t care which language the ‘Shahinshah’ — Emperor — of
Pakistan spoke in — they simply hung on to every word he spoke, and every pause in his speech brought loud cheers. However, when he spoke about the question of language, the cheers were slightly mellow — some in the audience, those graduates of Dacca University and other institutes of higher learning had actually understood what he was saying. Jinnah had exclaimed:

“…Whether Bengali shall be the official language of this Province is a matter for the elected representatives of the people of this Province to decide. I have no doubt that this question shall be decided solely in accordance with the wishes of the inhabitants of this Province at the appropriate time…But let me make it very clear to you that the State Language of Pakistan is going to be Urdu and no other language. Anyone who tries to mislead you is really the enemy of
Pakistan. Without one State language, no nation can remain tied up solidly together and function…Therefore, so far as the State Language is concerned, Pakistan’s language shall be Urdu.”

Students immediately responded to this speech, and it was reported by Tajuddin Ahmad, an eyewitness, that “Quaid-i-Azam’s speech hurt every person of this province, everybody is disgusted he was expected to be above party.” Others reported that “people broke down a gate, destroyed a picture of the Quaid and protested against the Quaid’s pronouncements.” The Great Leader was not above board any longer.

A few days later, Jinnah spoke at the convocation of
Dacca University. Jinnah knew that students were mainly at the forefront of the agitation to give the equal position to Bengali with Urdu and therefore decided to reemphasize his views on language again. Here Jinnah not only highlighted the practical need for one language, as he had done a few days earlier, he underscored the cultural and religious significance of Urdu for Pakistan. In what was also a mini-lecture on culture and identity, Jinnah, again in his immaculate English and in a tone as much as of educating as admonishment said:

“For official use in this province, the people of the province can choose any language they wish…There can, however, be only one lingua franca, that is, the language for intercommunication between the various provinces of this State, and that language should be Urdu. Its State language must be Urdu, a language that has been nurtured by a hundred million Muslims of his sub-continent, a language understood throughout the length and breadth of Pakistan, and above all, a language which, more than any other provincial languages, embodies the best that is in Islamic culture and Muslim tradition and is nearest to the languages used in other Islamic countries.”

There was an immediate reaction from the students assembled there with chanting, ‘Na, Na, Na!’ to make sure that their Great Leader had heard them. But not only did Jinnah dismiss the demand for the co-equal status of Bengali, he also labelled it as not ‘Islamic’ enough, and therefore unsuitable as one of the state languages of a Muslim country. As an English speaker, Jinnah could, however, be forgiven for not knowing that people in East Bengal or for that matter in large parts of west Pakistan too, still did not read, write or understand Urdu.


The cat was out of the bag. Jinnah or
West Pakistan did not have a problem with Bengali per se — the Bengalis could continue speaking their language as they pleased in distant East Bengal. The problem was that Pakistan was an Islamic/Muslim state [the distinction was never made between these two terms in Pakistan’s early years and they were used interchangeably], and only an Islamic/Muslim language could be its state language and lingua franca, and that language was Urdu alone.