Thursday, 30 April 2020

جنوبی پنجاب ھر دور میں پنجابی علاقہ رھا ھے۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ کے 1799 میں پنجاب پر حکمرانی کا دور شروع ھونے سے پہلے تک پنجاب کا سیاسی ماحول مذھب کی بنیاد پر تھا۔ پنجاب کے مسلمانوں کی اکثریت کی طرف سے پنجاب پر قابض ھوتے وقت عربی نزاد ' پٹھان ' بلوچ کے مسلمان ھونے کی وجہ سے عربی نزاد ' پٹھان ' بلوچ کا ساتھ دیا جاتا تھا۔

جنوبی پنجاب کے علاقے کے مکین مسلمان پنجابی ' ھندو پنجابی ' سکھ پنجابی ھی تھے۔ جبکہ عربی نزاد ' پٹھان ' بلوچ جنوبی پنجاب پر حملہ آور اور قابض تھے۔

1947 میں پنجاب کی مسلم پنجاب اور غیر مسلم پنجاب میں تقسیم کی وجہ سے ھندو پنجابی اور سکھ پنجابی جنوبی پنجاب سے مشرقی پنجاب منتقل ھوگئے اور مشرقی پنجاب سے مسلمان پنجابی جنوبی پنجاب منتقل ھوگئے۔

جنوبی پنجاب کے علاقے میں پاکستان کے قیام سے پہلے بھی اکثریت پنجابی کی تھی اور پاکستان کے قیام کے بعد بھی اکثریت پنجابی کی ھی ھے۔ لیکن اب جنوبی پنجاب میں ماحول مسلمان اور غیر مسلمان کا نہیں بلکہ پنجابی کا اور غیر پنجابی کا ھے اور غیر پنجابی جنوبی پنجاب میں رھنے والے عربی نزاد ' پٹھان اور بلوچ ھیں۔ جو اب جنوبی پنجاب میں خود کو "سرائیکی" کہلواتے ھیں۔

عربی نزادوں ' پٹھانوں ' بلوچوں کی طرف سے پنجابی زبان کے ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی کو ملا کر سرائیکی قرار دیا جاتا ھے اور ان کے ساتھ خود بھی سرائیکی بن جاتے ھیں۔ لیکن اس سے پنجابی قوم کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ جنوبی پنجاب میں پنجابیوں کا بنیادی مسئلہ عربی نزادوں ' پٹھانوں ' بلوچوں کے ساتھ ھے جو جنوبی پنجاب میں "سرائیکی سازش" کر رھے ھیں۔

عربی نزادوں ' پٹھانوں ' بلوچوں کی طرف سے صرف جنوبی پنجاب کے ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی کو ھی نہیں بلکہ خیبر پختونخوا میں ھزارہ وال پنجابی ' کوھاٹی پنجابی ' پشاوری پنجابی اور کشمیر میں پہاڑی پنجابی کو بھی الگ شناخت دینے کی سازش کی جارھی ھے۔

پٹھانوں کے پنجابیوں کے ساتھ پنگا لینے کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

2017 کی مردم شماری کے مطابق فاٹا میں 50 لاکھ اور بلوچستان میں 44 لاکھ پٹھان رھتے ھیں۔

ھندکو پنجابیوں کے علاقے خیبر پختونخوا میں 2 کروڑ 34 لاکھ پٹھان رھتے ھیں۔

جبکہ کراچی میں 22 لاکھ ' پنجاب میں 10 لاکھ ' اسلام آباد میں 4 لاکھ اور سندھ میں 3 لاکھ پٹھان رھتے ھیں۔

لیکن فاٹا ' بلوچستان اور ھندکو پنجابیوں کے علاقے خیبر پختونخوا سے روزگار کے لیے پنجاب ' سندھ ' کراچی اور اسلام آباد آنے والے پٹھانوں کی تعداد 50 لاکھ سے زیادہ ھے۔ جن میں سے 40 لاکھ پٹھان روزگار کے لیے پنجاب آتے ھیں۔

فاٹا اور بلوچستان کے پٹھانوں کی طرف سے پنجابیوں کے ساتھ محاذآرائی کرنے کی وجہ سے پنجابی اور پٹھان محاذآرائی شروع ھوگئی تو پھر پنجاب ' سندھ ' کراچی اور اسلام آباد میں موجود ایک کروڑ پٹھانوں کے لیے کس طرح کا ماحول بنے گا؟

کیا پنجابیوں کے ساتھ پنگا لینے سے پٹھانوں کے لیے پنجاب میں آنا بلکہ پنجاب سے گزر کر سندھ اور کراچی جانا بھی مشکل نہیں ھوجائے گا؟

سماٹ سندھی کو سندھ کا چیف منسٹر بنانے کا اصول طے کرلیا جائے.

سندھ میں ' سندھ کی مجموعی آبادی کے مطابق تو سندھی پہلے ' مہاجر دوسرے ' پنجابی تیسرے اور پٹھان چوتھے نمبر پر ھیں۔ لیکن کراچی میں مہاجر پہلے ' پنجابی دوسرے ' پٹھان تیسرے اور سندھی چوتھے نمبر پر ھیں۔ جبکہ اندرون سندھ ' سندھی پہلے ' پنجابی دوسرے ' مہاجر تیسرے اور پٹھان چوتھے نمبر پر ھیں۔

سندھ میں رھنے والا پنجابی نہ صرف سندھی بولتا بلکہ پڑھتا لکھتا بھی ھے۔ لیکن اس کو سندھی تسلیم ھی نہیں کیا جاتا اور نہ ھی برابری کے حقوق دیے جاتے ھیں۔ جبکہ اردو بولنے والا مھاجر نہ تو سندھی لکھنا پڑھنا پسند کرتا ھے اور نہ ھی سندھی بولنا لیکن اس کے باوجود کسی سندھی کو اردو بولنے والے مھاجر کے سامنے بات کرنے کی ھمت تک نہیں ھوتی ۔ یہ اردو بولنے والا ھندوستانی مھاجر سندھ کے تمام بڑے بڑے شھروں پر مکمل طور پر قابض ھے۔ سیاست ’ صحافت ’ صنعت ’ تجارت ’ سرکاری عھدوں اور تعلیمی مراکز پر ان کا مکمل کنٹرول ھے۔ سندھ کی گورنرشپ ھمیشہ اس کے پاس ھوتی ھے اور سندھ کی کابینہ میں بھی آدھی نمائدگی لیتا ھے. وفاقی کابینہ اور سندھ کی سرکاری نوکریوں میں بھی سندھ کے حصہ کا ایک بڑا حصہ لے لیتا ھے۔ لیکن سندھیوں کو رگڑا لگانا صرف سندھ کے پنجابی کو آتا ھے.

سندھ میں پنجابیوں کی بہت بڑی تعداد رھتی ھے۔ جن کے ساتھ سماجی ' سیاسی ' معاشی اور انتظامی معاملات میں انتہائی نامناسب سلوک ھو رھا ھے۔ بلکہ اب تک اس ابہام کو بھی طے نہیں کیا جارھا کہ؛ سندھ میں رھنے والے پنجابی کی حیثیت کیا ھے؟

ایک طرف تو سندھ میں رھنے والے سید اور بلوچ خود کو سندھی قرار دیتے ھیں۔ دوسری طرف سندھ میں 1901 اور 1932 سے آباد پنجابی کو سندھی تسلیم کرکے سماجی ' سیاسی ' معاشی اور انتظامی معاملات میں برابری کا حق دینے کی مخالفت کرتے ھیں۔ حالانکہ سندھ میں رھنے والے پنجابی اپنے نام کے ساتھ پنجابی کا لفظ تک نہیں لگاتے۔ جبکہ بلوچ اور سید اپنے نام کے ساتھ لفظ بلوچ اور سید ضرور لکھتے ھیں۔ لیکن پھر بھی پنجابی کو تو نہ سندھی تسلیم کیا جاتا ھے اور نہ برابر کے حقوق دیے جاتے ھیں۔ جبکہ بلوچ اور سید کو سندھی تسلیم ھی نہیں کیا جاتا۔ بلکہ دیہی سندھ ان کے کنٹرول میں ھے اور سماٹ سندھی کو بھی انکے ساتھ آنکھیں ملا کر بات کرنے کی ھمت نہیں ھوتی۔

بحرحال اب سندھیوں کے ساتھ پنجاب کے تعلقات کا انحصار سندھ میں رھنے والے پنجابیوں کے ساتھ ھونے والے سلوک سے منسلک ھے۔ اس لیے سندھیوں کو جلد از جلد طے کرنا چاھیئے کہ؛ سندھی کون ھے اور سندھی کون نہیں ھے؟

سندھ چونکہ پنجاب کا پڑوسی ھے۔ اس لیے پنجابیوں کو معلوم ھونا چاھیئے کہ؛ سندھ کا اصل وارث کون ھے؟ تاکہ بین الصوبائی معاملات اور قوموں کے باھمی تعلقات کے مطلق پالیسی بناتے وقت پنجابیوں کو آسانی ھو۔

سندھ کے سماٹ سندھی ھی اس معاملے میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ھیں۔ لیکن سندھ کے سماٹ سندھی کو بھی سندھ پر قابض سید اور بلوچ نے قوت فیصلہ سے محروم کیا ھوا ھے۔

سندھ میں ' سندھ کا چیف منسٹر سماٹ سندھی کو بنانے کا اصول طے کرلیا جائے تو سندھ میں سماٹ سندھی جو کہ سندھ کا اصل مالک ھے۔ اس قابل ھو سکتا ھے کہ؛ سندھ میں سندھی کون ھے؟ اور سندھی کون نہیں ھے؟ کا معاملہ طے کرپائے۔

کیا پنجابی سیاستدان جنوبی پنجاب میں ڈیرے ڈال سکتے ھیں؟


کراچی پر غیر سندھیوں کی بالادستی ختم کرنے کے لیے سندھی سیاستدانوں نے کراچی میں ڈیرے ڈال دیے اور کراچی میں رھنے والے سندھیوں کو غیر سندھیوں کے مقابلے کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی ' انتظامی طور پر مظبوط کیا۔ کیا جنوبی پنجاب کو بلوچوں اور عربی نزادوں کی بالادستی سے بچانے کے لیے پنجابی سیاستدان جنوبی پنجاب میں ڈیرے ڈال کر جنوبی پنجاب میں رھنے والے پنجابیوں کو بلوچوں اور عربی نزادوں کے مقابلے کے لیے سیاسی ' سماجی ' معاشی ' انتظامی طور پر مظبوط کریں گے؟

کراچی میں اکثریت غیر سندھیوں کی ھے۔ جبکہ سندھی اقلیت میں ھیں۔ لیکن جنوبی پنجاب میں تو اس وقت بھی پنجابی اکثریت میں ھیں۔ جبکہ بلوچ اور عربی نزاد اقلیت میں ھیں۔ اس کے باوجود جنوبی پنجاب کے بلوچ اور عربی نزاد جنوبی پنجاب میں سرائیکی سازش کر رھے ھیں۔ لیکن وسطی اور شمالی پنجاب کے پنجابی جنوبی پنجاب میں سرائیکی سازش کرنے والے بلوچوں اور عربی نزادوں کو سرائیکی سازش کے سرخیل کہنے سے ڈرتے ھیں۔ بلکہ جنوبی پنجاب میں پنجابیوں کے بجائے بلوچوں اور عربی نزادوں کے ساتھ سماجی اور سیاسی مراسم رکھنے کو ترجیح دیتے ھیں۔

قوماں دی عزت ' خوشحالی ' بالادستی ' ترقی کدوں ھوندی اے؟

قوم دی سماجی عزت ' معاشی خوشحالی ' انتظامی بالادستی ' اقتصادی ترقی اودوں ھوندی اے جد؛ اس قوم دے اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' صنعت ' تجارت ' صحافت ' وکالت ' سفارت ' سیاست نال جڑے لوکاں وچ قوم پرستی ھووے۔ پاکستان دی 60٪ آبادی پنجابی اے جدکہ 40٪ آبادی سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر دی اے۔

اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' صنعت ' تجارت ' صحافت ' وکالت ' سفارت ' سیاست نال جڑے پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر وچ تے قوم پرستی ھے پر پنجابی وچ قوم پرستی دے بجائے مفاد پرستی اے۔ سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی اک پاسے پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر دی قوم پرستی تے دوجے پاسے پنجابی دی مفاد پرستی وچ پھسے ھوئے نے۔

اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' صنعت ' تجارت ' صحافت ' وکالت ' سفارت ' سیاست نال جڑے پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر وچ قوم پرستی ھون دے کرکے ای ایس ویلے؛ پاکستان دا صدر ھندوستانی مھاجر اے۔ پاکستان دا وزیر اعظم پٹھان اے۔ پاکستان دی سینٹ دا چیئرمین بلوچ اے۔ پاکستان دی قومی اسمبلی دا اسپیکر پٹھان اے۔ پاکستان دی سینٹ دا ڈپٹی چیئرمین ھندوستانی مھاجر اے۔ پاکستان دی قومی اسمبلی دا ڈپٹی اسپیکر پٹھان اے۔ جد کہ پنجاب دا وزیر اعلی وی بلوچ اے۔ فے وی اے پنجابیاں نوں گالاں کڈھدے ریہندے نے۔ (وچوں وچوں کھائی جاؤ۔ اتوں رولا پائی جاؤ۔

پی این ایف دی ٹیم تے پی این ایف دے سپورٹر اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' صنعت ' تجارت ' صحافت ' وکالت ' سفارت ' سیاست نال جڑے پنجابیاں تک پی این ایف دے وچار پہنچان دی کوشش کر رئے نے تاکہ انہاں وچ مفاد پرستی دے بجائے پنجابی قوم پرستی دا شعور جاگے تے پنجابی قوم دی سماجی عزت ' معاشی خوشحالی ' انتظامی بالادستی ' اقتصادی ترقی ھوسکے۔

اسٹیبلشمنٹ ' بیوروکریسی ' صنعت ' تجارت ' صحافت ' وکالت ' سفارت ' سیاست نال جڑے پنجابیاں وچ پنجابی قوم پرستی دا شعور جاگن نال سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' ڈیرہ والی ' گجراتی ' راجستھانی نوں وی پٹھاناں ' بلوچاں ' ھندوستانی مھاجراں دی بالادستی توں نجات مل سکے گی تے سماجی عزت ' معاشی خوشحالی ' انتظامی بالادستی ' اقتصادی ترقی لئی اپنا جائز حق مل سکے گا۔

Provinces of British India and States included in Pakistan.


The Indian Independence Act 1947 of the Parliament of the United Kingdom partitioned British India into the two new independent dominions of India and Pakistan.

The Prime Minister of the United Kingdom, Clement Attlee, announced on 20 February 1947 that:

1. British Government would grant full self-government to British India by June 1948 at the latest,

2. The future of Princely States would be decided after the date of the final transfer is decided.

The Act received the royal assent on 18 July 1947, Pakistan and India came into being on August 15, as two new countries.

The legislation was formulated by the government of Prime Minister Clement Attlee, after representatives of the Indian National Congress, the Muslim League and the Sikh community came to an agreement with the Viceroy of India, Lord Mountbatten of Burma, on what has come to be known as the 3 June 1947 Plan or Mountbatten Plan.

British India had 17 provinces and 562 princely states. Upon the Partition of British India into the Dominion of India and Dominion of Pakistan according to the Indian Independence Act 1947, 11 provinces; 1. Ajmer-Merwara-Kekri 2. Andaman and Nicobar Islands 3. Bihar 4. Bombay 5. Central Provinces and Berar 6. Coorg 7. Delhi 8. Madras 9. Panth-Piploda 10. Orissa 11. United Provinces were included in India, 3 provinces; 1. Baluchistan 2. North-West Frontier 3. Sindh was included in Pakistan on 15 August 1947, and 3 provinces; 1. Punjab 2. Bengal 3. Assam was partitioned between India and Pakistan on 17 August1947.

On 4 June 1947, Viceroy of British India, Lord Mountbatten held a press conference in which he addressed the question of the princely states, of which there was then a total of 562. The treaty relations between Britain and the Indian States would come to an end, and on 15 August 1947, the suzerainty of the British Crown was to lapse. Consequently, the princely states would assume independent status. They would be free to choose to accede to one or the other of the new dominions.

Out of 562 princely states of British India, 547 joined India and 11 states; Amb, Chitral, Dir, Phulra, Swat, Bahawalpur, Khairpur, Kalat, Kharan, Lasbela, Makran, signed an instrument of accession to join Pakistan.

The states of Junagadh, Manavadar, and Hyderabad, with majority Hindu populations but with Muslim rulers were annexed to India after military actions by the Indian Army soon after Lord Mountbatten left India in 1948.

The state of Jammu and Kashmir, which was expected to accede to Pakistan on the account of its 77% Muslim majority and its cultural and commercial links to West Punjab (Pakistan), but whose Hindu ruler chose to accede to India, became a disputed territory.

سندھ میں ھندو مسلم فسادات کا بانی جی ایم سیّد تھا۔

سندھ سے ھندوؤں کی نقل مکانی کا سب سے بڑا سبب برصغیر کے بٹوارے سے پہلے سندھ میں مسجد منزل گاہ کے فسادات تھے۔ ان فسادات کے نتیجے میں ھونے والے بٹوارے کے بعد سندھ سے شاہ عبد الطیف ' سچل اور سامی کے شارح اور ان کے رسائل مرتب کرنے والے بڑے لوگ سندھ چھوڑ کر چلے گئے۔ جن میں ڈاکٹر گربخشانی ' کلیان آڈوانی ' لعل چند امر ڈنو مل ' جیٹھ مل پرسرام ' بھیرومل مہرچند آوانی ' ٹی ایل واسوانی اور کئی تھے۔

مسجد منزل گاہ پر برپا ھوئے فسادات سندھ کی امن والی دھرتی اور سندھیوں میں مذھبی رواداری کے لیے بڑا المیہ ھیں۔ یہ فسادات صوفیا کی سرزمین پر کسی بدنما داغ اور کلنک کے ٹیکے سے کم نہیں لیکن تاریخ کا سچ یہی ھے کہ؛ سندھ میں پاکستان بننے سے نو برس پہلے مذھب کے نام پر فسادات ھوئے تھے اور ایک رات میں ایک سو لوگوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ سندھ میں یہ خونریزی کا واقعہ مسجد منزل گاہ کے نام سے مشہور ھے۔ جس میں پیروں ' گدی نشینوں اور سیاست دانوں پر مشتمل اشرافیہ کے ھاتھ رنگے ھیں۔

سنہ 1939 میں سکھر کی ایک لاکھ آبادی میں ساٹھ ھزار ھندو اور چالیس ھزار مسلمان تھے۔ آبادی اس طرح تھی کہ دریا کے کنارے تو کل ھندو آباد تھےاور مسجد منزل گاہ کے مقابل دریا کے بیچ میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ھے۔ جس میں ھندوؤں کا ایک مندر ھے۔ جس کو سادھ بیلا کہتے ھیں۔

مسجد منزل گاہ کے گرد مسلمانوں کی کوئی آبادی نہ تھی۔ سکھر میں مسلمان سیاسی ' معاشی اور اقتصادی طور پر کمزور تھے۔ جبکہ ھندو سیاسی ' معاشی اور اقتصادی طور پر نہ صرف یہ کہ خوش حال بلکہ زندگی کے تمام شعبوں پر اثر انداز تھے۔

انگریزوں نے مسجد منزل گاہ کو تالا لگوا دیا تھا۔ 1939 میں جب خان بہادر ﷲ بخش سومرو سندھ مسلم لیگ کو شکست دے کر برسراقتدار آئے تو مسلم لیگیوں نے مسجد منزل گاہ کی واگزاری کے مسئلہ کو تحریک بناکر سیاسی حربہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ تا کہ خان بہادر ﷲ بخش سومرو کو پچھاڑا جا سکے۔ چنامسلم لیگ کے عزم اور پروگرام کے مطابق جب مسلمانوں میں تحریک نے زور پکڑا اور مسجد کے تقدس وحرمت کے جذباتی مسئلہ کی وجہ سے معاملہ بڑھ گیا تو مقابلہ میں ھندوؤں میں بھی جوابی کارروائی کے لیے تیاریاں شروع ھوئیں۔

مسجد منزل گاہ کے متعلق ھندوؤں نے یہ دعوی کردیا کہ؛ یہ عمارت سرے سے مسلمانوں کی مسجد ھی نہیں ھے۔ اگر اس کو واگزار کیا گیا تو الٹا مسلمان غنڈوں کا مرکز بنے گا اور ھماری جو بہو بیٹیاں مسجد سے متصل ساحل سے چل کر سادھ بیلے کے تیرتھ پر جاتی ھیں۔ اُن سے چھیڑ چھاڑ کی جائے گی۔ جس سے ھماری بے آبروئی کا شدید خطرہ ھے۔

مسجد منزل گاہ کے فسادات کے ایک بڑے کردار جی ایم سیّد اپنی کتاب "دی کیس آف سندھ" میں صفحہ 27 پر لکھتے ھیں کہ؛ سکھر میں ایک پرانی بوسیدہ عمارت تھی جس کو مسلمان مسجد منزل گاہ کے نام سے پکارتے تھے۔ اس پر اپنا قبضہ کرنے کے لیے شکارپور اور سکھر کے وفود نے اُس وقت کے وزیراعلیٰ اللہ بخش سومرو سے ملاقات کی جنہوں نے جمعیت علمائے سندھ کے کچھ رھنماؤں کو زمینی جائزہ لینے کے لیے مقرر کرکے رپورٹ منگوائی۔ اس رپورٹ میں مسجد ھونے کی تصدیق ھوئی تو وھاں کی مقامی ھندو برادری نے اعتراض کیا کہ؛ اس جگہ کے سامنے ھماری مذھبی عبادت گاہ ھے۔ یہاں سے مسلمان ھماری عورتوں کے گھوریں گے۔

وہ آگے لکھتے ھیں کہ؛ اللہ بخش سومرو اس حوالے سے کسی نیتجہ پر نہیں پہنچے تو مسلم لیگ نے فیصلہ کیا کہ؛ اس مسئلے کو اپنے ھاتھوں میں اٹھایا جائے۔ جس کے بعد ستیہ گرہ کا فیصلہ کیا گیا۔ جس میں بھرچونڈی کے پیر عبدالرحمان نے اپنے مریدوں کے ساتھ حصہ لیا۔ لیکن اللہ بخش سرکار نے ایک آرڈیننس کی منظوری دی جس میں مقدمہ چلائے بغیر کسی کو بھی جیل بھیجا سکے۔ نتیجے میں احتجاج کرنے والے ساڑھے تین ھزار لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔

جی ایم سیّد لکھتے ھیں کہ؛ مجھے کانگریس میں رھنے کا تجربہ تھا۔ میں نے اس معاملے کو توھین سمجھا۔ جب تحریک چل چکی تھی تو اس کو بیچ میں چھوڑنا نقصان دہ تھا۔ اس لیے میں نے کمان سنبھال لی اور مسجد منزل گاہ پر قبضہ کر لیا۔ 19 نومبر 1939 کو پولیس نے مجھے گرفتار کر لیا۔ لاٹھی چارج اور شیلنگ کرکے پولیس نے مسجد کا قبضہ اپنے ھاتھوں میں لے لیا۔ اسی دن سکھر میں ھندو مسلم فسادات ھوئے۔ جس میں کئی بے گناہ جانوں کا نقصان ھوا اور ملکیتیں تباہ ھوئیں۔ جی ایم سید نے فوت ھونے والے لوگوں کی تعداد نہیں بتائی۔ لیکن یہ ایک سو سے زائد لوگ تھے۔ جس میں اکثریت ھندوؤں کی تھی۔ جبکہ مسجد منزل گاہ کی وجہ سے ھونے والے ھندو مسلم فسادات میں دو ھزار سے زیادہ افراد ھلاک ھوئے اور ان میں سے زیادہ اکثریت ھندوؤں کی تھی۔

اُس وقت کے ایک اور مسلم لیگی سرکردہ رھنما علی محمد راشدی تھے۔ جن کے چھوٹے بھائی پیر حسام الدین راشدی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ؛ انہوں نے مسجد منزل گاہ کے فسادات میں حصہ لیا تھا۔ اس واقعے کے دو اھم کردار علی محمد راشدی اور جی ایم سیّد تھے۔ ھر معاملے پر انہوں نے چنگاری سلگائی۔ جی ایم سیّد نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ؛ سندھ سے وہ ھندؤوں کو ایسے نکالیں گے جیسے ھٹلر نے جرمنی سے یہودیوں کو نکالا تھا۔

سندھ کے عربی نژادوں کی "مفاد پرستی" کا ایک کردار جی ایم سیّد

سندھ سے ھندوؤں کی نقل مکانی کا سب سے بڑا سبب برصغیر کے بٹوارے سے پہلے سندھ میں مسجد منزل گاہ کے فسادات تھے۔ ان فسادات کے نتیجے میں ھونے والے بٹوارے کے بعد سندھ سے شاہ عبد الطیف ' سچل اور سامی کے شارح اور ان کے رسائل مرتب کرنے والے بڑے لوگ سندھ چھوڑ کر چلے گئے۔ جن میں ڈاکٹر گربخشانی ' کلیان آڈوانی ' لعل چند امر ڈنو مل ' جیٹھ مل پرسرام ' بھیرومل مہرچند آوانی ' ٹی ایل واسوانی اور کئی تھے۔

مسجد منزل گاہ پر برپا ھوئے فسادات سندھ کی امن والی دھرتی اور سندھیوں میں مذھبی رواداری کے لیے بڑا المیہ ھیں۔ یہ فسادات صوفیا کی سرزمین پر کسی بدنما داغ اور کلنک کے ٹیکے سے کم نہیں لیکن تاریخ کا سچ یہی ھے کہ؛ سندھ میں پاکستان بننے سے نو برس پہلے مذھب کے نام پر فسادات ھوئے تھے اور ایک رات میں ایک سو لوگوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ سندھ میں یہ خونریزی کا واقعہ مسجد منزل گاہ کے نام سے مشہور ھے۔ جس میں پیروں ' گدی نشینوں اور سیاست دانوں پر مشتمل اشرافیہ کے ھاتھ رنگے ھیں۔

سنہ 1939 میں سکھر کی ایک لاکھ آبادی میں ساٹھ ھزار ھندو اور چالیس ھزار مسلمان تھے۔ آبادی اس طرح تھی کہ دریا کے کنارے تو کل ھندو آباد تھےاور مسجد منزل گاہ کے مقابل دریا کے بیچ میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ھے۔ جس میں ھندوؤں کا ایک مندر ھے۔ جس کو سادھ بیلا کہتے ھیں۔

مسجد منزل گاہ کے گرد مسلمانوں کی کوئی آبادی نہ تھی۔ سکھر میں مسلمان سیاسی ' معاشی اور اقتصادی طور پر کمزور تھے۔ جبکہ ھندو سیاسی ' معاشی اور اقتصادی طور پر نہ صرف یہ کہ خوش حال بلکہ زندگی کے تمام شعبوں پر اثر انداز تھے۔

انگریزوں نے مسجد منزل گاہ کو تالا لگوا دیا تھا۔ 1939 میں جب خان بہادر ﷲ بخش سومرو سندھ مسلم لیگ کو شکست دے کر برسراقتدار آئے تو مسلم لیگیوں نے مسجد منزل گاہ کی واگزاری کے مسئلہ کو تحریک بناکر سیاسی حربہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ تا کہ خان بہادر ﷲ بخش سومرو کو پچھاڑا جا سکے۔ چنامسلم لیگ کے عزم اور پروگرام کے مطابق جب مسلمانوں میں تحریک نے زور پکڑا اور مسجد کے تقدس وحرمت کے جذباتی مسئلہ کی وجہ سے معاملہ بڑھ گیا تو مقابلہ میں ھندوؤں میں بھی جوابی کارروائی کے لیے تیاریاں شروع ھوئیں۔

مسجد منزل گاہ کے متعلق ھندوؤں نے یہ دعوی کردیا کہ؛ یہ عمارت سرے سے مسلمانوں کی مسجد ھی نہیں ھے۔ اگر اس کو واگزار کیا گیا تو الٹا مسلمان غنڈوں کا مرکز بنے گا اور ھماری جو بہو بیٹیاں مسجد سے متصل ساحل سے چل کر سادھ بیلے کے تیرتھ پر جاتی ھیں۔ اُن سے چھیڑ چھاڑ کی جائے گی۔ جس سے ھماری بے آبروئی کا شدید خطرہ ھے۔

مسجد منزل گاہ کے فسادات کے ایک بڑے کردار جی ایم سیّد اپنی کتاب "دی کیس آف سندھ" میں صفحہ 27 پر لکھتے ھیں کہ؛ سکھر میں ایک پرانی بوسیدہ عمارت تھی جس کو مسلمان مسجد منزل گاہ کے نام سے پکارتے تھے۔ اس پر اپنا قبضہ کرنے کے لیے شکارپور اور سکھر کے وفود نے اُس وقت کے وزیراعلیٰ اللہ بخش سومرو سے ملاقات کی جنہوں نے جمعیت علمائے سندھ کے کچھ رھنماؤں کو زمینی جائزہ لینے کے لیے مقرر کرکے رپورٹ منگوائی۔ اس رپورٹ میں مسجد ھونے کی تصدیق ھوئی تو وھاں کی مقامی ھندو برادری نے اعتراض کیا کہ؛ اس جگہ کے سامنے ھماری مذھبی عبادت گاہ ھے۔ یہاں سے مسلمان ھماری عورتوں کے گھوریں گے۔

وہ آگے لکھتے ھیں کہ؛ اللہ بخش سومرو اس حوالے سے کسی نیتجہ پر نہیں پہنچے تو مسلم لیگ نے فیصلہ کیا کہ؛ اس مسئلے کو اپنے ھاتھوں میں اٹھایا جائے۔ جس کے بعد ستیہ گرہ کا فیصلہ کیا گیا۔ جس میں بھرچونڈی کے پیر عبدالرحمان نے اپنے مریدوں کے ساتھ حصہ لیا۔ لیکن اللہ بخش سرکار نے ایک آرڈیننس کی منظوری دی جس میں مقدمہ چلائے بغیر کسی کو بھی جیل بھیجا سکے۔ نتیجے میں احتجاج کرنے والے ساڑھے تین ھزار لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔

جی ایم سیّد لکھتے ھیں کہ؛ مجھے کانگریس میں رھنے کا تجربہ تھا۔ میں نے اس معاملے کو توھین سمجھا۔ جب تحریک چل چکی تھی تو اس کو بیچ میں چھوڑنا نقصان دہ تھا۔ اس لیے میں نے کمان سنبھال لی اور مسجد منزل گاہ پر قبضہ کر لیا۔ 19 نومبر 1939 کو پولیس نے مجھے گرفتار کر لیا۔ لاٹھی چارج اور شیلنگ کرکے پولیس نے مسجد کا قبضہ اپنے ھاتھوں میں لے لیا۔ اسی دن سکھر میں ھندو مسلم فسادات ھوئے۔ جس میں کئی بے گناہ جانوں کا نقصان ھوا اور ملکیتیں تباہ ھوئیں۔ جی ایم سید نے فوت ھونے والے لوگوں کی تعداد نہیں بتائی۔ لیکن یہ ایک سو سے زائد لوگ تھے۔ جس میں اکثریت ھندوؤں کی تھی۔ جبکہ مسجد منزل گاہ کی وجہ سے ھونے والے ھندو مسلم فسادات میں دو ھزار سے زیادہ افراد ھلاک ھوئے اور ان میں سے زیادہ اکثریت ھندوؤں کی تھی۔

اُس وقت کے ایک اور مسلم لیگی سرکردہ رھنما علی محمد راشدی تھے۔ جن کے چھوٹے بھائی پیر حسام الدین راشدی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ؛ انہوں نے مسجد منزل گاہ کے فسادات میں حصہ لیا تھا۔ اس واقعے کے دو اھم کردار علی محمد راشدی اور جی ایم سیّد تھے۔ ھر معاملے پر انہوں نے چنگاری سلگائی۔

جی ایم سیّد نے سیاست میں متحرک ھونے کے بعد پہلے تو اپنا سیاسی قد بڑھانے کے لئے سندھ میں مذھبی نوعیت کے جھگڑے میں ٹانگ اڑا کر 1939 میں ھندو مسلم فساد کروایا اور 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد سندھی قوم پرست بن گیا۔ سکھر میں “منزل گاہ سکھر” کے واقعہ میں ھندوؤں پر جب دھشتگردوں نے چاقو و گولیاں چلائیں تو جی ایم سیّد اس وقت مسلم لیگ سندھ کا لیڈر تھا۔ جی ایم سیّد کو ایسی کیا حاجت تھی کہ کانگریس کو چھوڑ کر مسلم لیگ میں شمولیت ھی اختیار نہ کی بلکہ “منزل گاہ سکھر” کے واقعہ میں 100 کے قریب سماٹ ھندو سندھیوں کا بے دردی سے لہو بھی بہانا قبول کیا؟ جبکہ “منزل گاہ سکھر” کے واقعہ کی وجہ سے ھونے والے ھندو مسلم فساد میں دو ھزار کے قریب سماٹ ھندو سندھی مروا دیے؟ کیا جی ایم سیّد کو اندازہ نہیں تھا کہ؛ مذھبی منافرت میں کودنے کے نتائج کیا ھوں گے؟ یہ کون سی قوم پرستی تھی کہ “منزل گاہ سکھر” کا معاملہ جسے مولوی لیڈرشپ اُٹھا رھی تھی اس میں جی ایم سیّد مسلم لیگ کا جھنڈا لے کر کود پڑا؟ کیا جی ایم سیّد کو مسلم قوم پرستی کی نعوذ باالله وحی آئی تھی؟

سندھ اسمبلی نے ھندوستان کے 10 کروڑ مسلمانوں کو علیحدہ قوم قرار دیکر پاکستان کی قرارد منظور کی۔ حالانکہ برٹش انڈیا میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ اکثریت پنجاب اسمبلی میں تھی لیکن پنجاب اسمبلی نے قراداد منظور نہیں کی تھی۔ جی ایم سیّد نے 1943 میں 10 کروڑ مسلمانانِ ھند کی آزادی کے لیے ' جسکا سندھ کے مسلمان ایک حصّہ تھے۔ سندھ اسمبلی میں قرار پیش کرنے کے بعد گرما گرم بحث کی۔ جی ایم سیّد کی بحث کا لبِ لباب یہ تھا کہ؛ قیام پاکستان کا مطالبہ بہ حیثیتِ مسلم قوم پرست کر رھے ھیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد جی ایم سیّد اچانک مسلم لیگ اور مسلم قوم پرستی چھوڑ کر سندھی قوم پرست بن گیا۔ کیا “منزل گاہ سکھر” میں ھندو مسلم فساد کے موقع پر جی ایم سیّد کے دل میں سندھی قوم پرستی نہ تھی؟ محمد علی جناح بھی اتنا ھی سندھی تھا جتنا جی ایم سیّد سندھی تھا۔ صوبہ سندھ میں قیامِ پاکستان سے قبل جناح کی تصاویر ایسے ھی آویزاں ھوتی تھیں جیسے آج بھٹو کے خاندان اور جی ایم سیّد کی تصاویر آویزاں ھوتی ھیں۔ مگر جی ایم سیّد کا جناح سے اختلاف ذاتی مفاد پرستی کی سیاست کے باعث ھوا اور جی ایم سیّد مسلم قوم پرست سے سندھی قوم پرست بن گیا۔

سندھ میں زیادہ تر عربی نژاد مسلمان سندھی قوم پرست بنے ھوئے ھیں۔ عربی نژاد مسلمان قوم پرست نہیں ھیں۔ یہ عربی نژاد مسلمان مفاد پرست ھیں۔ پاکستان کے قیام سے پہلے یہ عربی نژاد مسلمان ' مسلم جذبات کو اشتعال دے کر کے ھندو سندھیوں کو ' جو کہ سماٹ تھے ' بلیک میل کرتے تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد سندھ سے سماٹ ھندوؤں کو نکال کر ' ان کے گھروں ' زمینوں ' جائیدادوں اور کاروبار پر قبضہ کرنے کے بعد یہ عربی نژاد مسلمان ' سندھی قوم پرست بنے بیٹھے ھیں۔ یہ عربی نژاد مسلمان اب مسلمان سماٹ سندھیوں پر سماجی ' سیاسی اور معاشی بالادستی قائم کرنے کے بعد " سندھی قوم پرست " بن کر سندھ میں رھنے والے مسلمان پنجابیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں کرنے کے ساتھ ساتھ " سندھ کارڈ گیم " کے ذریعہ پنجاب کو بھی بلیک میل کرتے رھتے ھیں۔

جی ایم سیّد سندھ میں ھندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات کے بانی بھی تھے اور سندھی قوم پرستی کے لیے قلمی اور فکری جنگ لڑنے میں بھی پیش پیش تھے۔

جی ایم سیّد نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ؛ سندھ سے وہ ھندؤوں کو ایسے نکالیں گے جیسے ھٹلر نے جرمنی سے یہودیوں کو نکالا تھا۔ پاکستان کی قرارداد سندھ اسمبلی میں پیش کرنے والے جی ایم سیّد نے بعد میں آنے والے وقتوں میں اسے اپنا "عظیم تاریخی گناہ" قرار دیا تھا۔

جناح سے ان کے اختلافات مسلم لیگ سندھ میں مبینہ طور سیّد گروپ کے غلام حیدر شاہ (سابق وزیر اعلی سندہ مظفر حسین شاہ کے والد) کو انتخابات میں ٹکٹ نہ دینے پر ھوئے۔ لیکن جی ایم سیّد اور ان کے حامی اسے سندھ کے مفادات پر اختلافات قرار دیتے رھتے تھے۔

جی ایم سیّد نے آل آنڈیا مسلم لیگ سندھ کے صدر کی حیثیت سے پاکستان بننے سے بھی کئی برس قبل بہار میں فسادات کے متاثرین مسلمانوں کو سندھ میں آ کر بسنے کی اپیل کی تھی۔ جس پر ایک بڑی تعداد میں بہاری مسلمان سندھ میں آباد ھوئے۔ جس میں مشہور بہاری مہاجر رھنما مولانا عبدالقدوس بہاری بھی شامل تھے۔

مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد 1972 میں جی ایم سیّد نے بھی سندھ کی آزادی "سندھو دیش" کی شکل میں حاصل کرنے کی بات کی اور سندھ متحدہ محاذ کو "جیے سندھ متحدہ محاذ" میں تبدیل کیا۔ لیکن ان کے اثر و فکر کا اصل حلقہ نوجوان سندھی قوم پرست اور خاص طور سندھ یونیورسٹی سمیت سندھ کے دیگر تعلیمی اداروں میں جیے سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نوجوان کارکن رھے۔

جیے سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن کا رکن بننا کالج جانے والے اکثر سندھی نوجوانوں کا شوق ھوتا تھا اور ٹہکہ بھی۔ جی ایم سیّد کی جیے سندھ کے نوجوان کارکنوں نے تشدد اور جرائم کا راستہ اختیار کیے رکھا۔ جس کا اعتراف جی ایم سیّد نے کئی بار برملا کیا۔

کیا کراچی کماتا ھے اور سارا پاکستان کھاتا ھے؟


کراچی کے ھندوستانی مھاجر کہتے ھیں کہ؛ کراچی کماتا ھے اور سارا پاکستان کھاتا ھے۔ ھندوستانی مھاجروں کی مثال اس بس کنڈیکٹر جسی ھے جو دن بھر سواریوں سے ٹکٹ کے پیسے لیکر شام کو بس کے مالک کو دینے کے بعد گھر جاکر بیوی سے کہتا ھے کہ؛ کماتا میں ھوں اور کھاتا مالک ھے۔

کراچی دراصل ٹیکس حب ھے۔ ٹیکس حب بھی اس لیے ھے کہ؛ اسٹیٹ بینک ' پرائیویٹ بینکوں اور کمپنیوں کے ھیڈ آفس کراچی میں ھیں۔ پاکستان کی 62% آبادی پنجاب کی ھونے کی وجہ سے سب سے زیادہ پروڈکشن ' امپورٹ ' ایکسپورٹ ' روینیو جنریشن پنجاب سے ھوتی ھے۔ لیکن اسٹیٹ بینک ' پرائیویٹ بینکوں اور کمپنیوں کے ھیڈ آفس کراچی میں ھونے کی وجہ سے جمع کراچی میں ھوتی ھے۔

ایف بی آر کے ریکارڈ کا جائزہ لے کر اس حقیقت سے آگاھی حاصل کی جاسکتی ھے کہ؛

1۔ پاکستان کے ٹیکس محصول کا %55 محصول کراچی میں جمع کیا جاتا ھے۔

2۔ کراچی پاکستان کی جی ڈی پی کا تقریبا %20 حصہ پیدا کرتا ھے۔

3۔ سندھ میں سے پاکستان کی جی ڈی پی کا روایتی طور پر تقریبا %25 حصہ پیدا ھوتا ھے۔

4۔ 2018 میں پاکستان کے ٹیکس محصول میں پنجاب کا حصہ %48 ' سندھ کا %27 ' خیبرپختونخوا کا %17 ' بلوچستان کا %8 تھا۔

اگر اسٹیٹ بینک اسلام آباد ' پرائیویٹ بینکوں اور کمپنیوں کے ھیڈ آفس لاھور شفٹ کر دیے جائیں تو پھر کراچی نے ٹیکس حب بھی نہیں رھنا۔ جبکہ کراچی کی صنعت ' تجارت ' ٹرانسپورٹ اور ھنرمندی کے شعبوں میں پنجابیوں کی سرمایہ کاری کی وجہ سے بھی کراچی میں ٹیکس جنریٹ ھوتا ھے۔

کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ریکارڈ کے مطابق کراچی اسٹاک ایکسچینج میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پنجابی کی ھے۔ جسکی وجہ سے کراچی کی معیشت مضبوط ھے۔ کراچی کی صنعت ' تجارت ' ٹرانسپورٹ اور ھنرمندی کے شعبوں میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پنجابی کی ھے۔ جسکی وجہ سے کراچی کی معیشت چلتی ھے۔

پنجابیوں کے کراچی کی معشت کو مضبوط کرنے کی وجہ سے نہ صرف کراچی کے سیاست ' صحافت ' سرکاری اور پرائیویٹ نوکریاں کرنے والے ھندوستانی مھاجر کو روزگار ملتا ھے۔ بلکہ دیہی سندھ سے جانے والے سندھی کو ' بلوچستان سے جانے والے بلوچ کو ' اور خیبر پختونخواہ سے جاآنے والے پٹھان کو بھی روزگار ملتا ھے۔

کیا پٹھان ' بلوچ ' مھاجر کا رویہ درست ھے؟

پٹھانوں کو ' بلوچوں کو ' ھندوستانی مھاجروں کو لوٹنے ' حقوق غصب کرنے ' ظلم کرنے کے الزامات لگا کر پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر جب پنجابیوں کو گالیاں دیں اور تذلیل و توھین کریں تو یہ پٹھانوں ' بلوچوں ' ھندوستانی مھاجروں کا سیاسی اور جمہوری حق ھوتا ھے۔

پنجابی اگر پٹھانوں ' بلوچوں ' ھندوستانی مھاجروں سے پنجابیوں پر لگائے جانے والے الزامات کا ثبوت مانگیں یا پنجابیوں پر لگائے جانے والے الزامات کا جواب دیں یا پنجابی قوم کے سماجی ' سیاسی ' معاشی ' اقتصادی حقوق کی بات کریں تو پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر اس عمل کو پنجابیوں کی طرف سے لسانیت پھیلانا اور تعصب بڑھانا قرار دے کر اشتعال پھیلانے اور نفرت بڑھانے کا الزام لگا کر لعنت و ملامت کرنے لگتے ھیں۔

پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھے۔ جبکہ 40٪ آبادی سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' کوھستانی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر کی ھے۔ سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' کوھستانی ' گجراتی ' راجستھانی کے ساتھ پنجابی قوم کے مراسم ٹھیک ھیں۔ کیا پٹھانوں ' بلوچوں ' ھندوستانی مھاجروں کا پنجابیوں کے ساتھ رویہ درست ھے؟

Struggle to liberate Punjab from Adina Beg Khan to Maharaja Ranjit Singh.


Adina Beg Khan was a phenomenal personality. He was a mastermind of political strategies. He managed to rule out Dehli and Kabal supremacy. With his political maneuvering and Sikh armed forces, he smartly managed the Afghans to deteriorate the Mughal invaders in Punjab and handled the Marathas to throw out Afghans from Punjab.

Adina Beg Khan started his political journey when he became Administrator (Nazim) of Jalandhar Doab (old name Bast Doab), which was very rich in revenue. According to Hein Sin, a 7th-century Chinese traveler, that area was very rich.

Adina Beg Khan managed power players smartly and then with smart political maneuvering he ruled Punjab. From Dina, he became Adina and then selected titles like Beg and Khan for himself, a usual tradition.

Adina Beg Khan, the son of Channu, of the Arain agriculturalist caste, mostly settled in Doaba region of Punjab was born in the village of Sharakpur, near Lahore, now in the Sheikhupura district of Pakistan. Adina Beg Khan was brought up in Mughal homes, for the most part in Jalalabad, Khanpur, and Bajvara in the Jalandhar Doab. Starting his career as a soldier, he rose to be a collector of revenue of the village of Kang in the Lohian area, near Sultanpur Lodhi.

He obtained half a dozen villages in the Kang area on lease and within a year the entire Kang region. After some time Nawab Zakariya Khan, the governor of Lahore appointed him Chief (Hakam) of Sultanpur Lodhi.

When after Nadir Shah’s invasion (1739), Sikhs started gaining power, Zakariya Khan made Adina Beg Khan Administrator (Nazim) of the Jalandhar Doab, to suppress the Sikhs. Shrewd as he was, he tried to strengthen his own political position by strengthening the position of Sikhs by encouraging Sikhs instead of repressing them.

Under pressure from Zakariya Khan, he, however, had to expel the Sikhs from his dominion. Therefore he stopped to pay the revenue and due to nonpayment of government due's he was taken into custody under the orders of the Governor of Lahore and subjected to torture. On being set free after a year, due to his political importance in Jalandhar Doab, he was appointed as the Deputy Administrator (Nazim) of Jalandhar Doab under Shah Nawaz Khan.

After Zakariya Khan`s death on 1st, July 1745, his sons, Yahiya Khan, and Shah Nawaz Khan contested succession. Adina Beg Khan maintained good relations with both. Shah Nawaz Khan had captured Lahore and appointed Adina Beg Khan Administrator (Nazim) of Jalandhar Doab.

Meanwhile, Nadir Shah died on 19 June 1747 and Ahmad Shah Durrani became ruler of Kabul and Qandahar. Shah Nawaz Khan following Adina Beg Khan`s advice invited the Durrani King to march towards Punjab, warning at the same time the Government at Delhi about the Durrani`s invasion.

As Ahmad Shah advanced into the country, Shah Nawaz fled towards Delhi. Mu`in-ul-Mulk (Mir Mannu), son of Qamar-ud-Din, the Chief Wazir of the Delhi King, succeeded in checking the invader at Manupur, near Sirhind.

Adina Beg Khan joined hands with Mu`in-ul-Mulk and was wounded in the battle. Mu`in-ul-Mulk became Governor of Lahore, with Kaura Mall as his Diwan and Adina Beg Khan as Administrator (Nazim) of the Jalandhar Doab as before.

Adina Beg Khan, on one hand, would woo Sikhs to join him against Mughals on the other hand; he had secret links with Afghanis, while he drew his salary from Mughals.

Sikhs again started plundering the country. Ahmad Shah Durrani launched upon his third incursion into Punjab (December 1751), this time, forcing Mu`in-ul-Mulk to surrender. Mu`in-ul-Mulk surrendered and remained Governor, now on the behalf of Durrani`s.

Mu`in-ul-Mulk and Adina Beg Khan directed their energies towards quelling the Sikhs. On the festival of Hola Mohalla in March 1753, Adina Beg Khan fell upon Sikh pilgrims at Anandpur killing a large number of them. The Sikhs retaliated by plundering villages in the Jalandhar and Bari Doabs.

Adina Beg Khan was as quick in coming to terms as he was in opening hostilities. He assigned some of the revenue of his territory to the Sikhs and admitted several of them, including Jassa Singh Ramgarhia, into his army. Thus the Sikh Misals started to rise to a position of supremacy in Punjab.

Mu`in-ul-Mulk died on 3 November 1753, and during the time of his widow, Murad Begam (Mughlani Begum), Adina Beg Khan assumed independent authority in the Doab, extending his influence up to Sirhind (March 1755). The Emperor of Delhi bestowed on him the title of Zafar Jarig Khan. The ruler of Kangra accepted his overlordship.

In May 1756, he was appointed as Governor of Lahore and Multan by the Mughal Government of Delhi on payment of an annual tribute of a thirty lakh of rupees.

On November 1756, Ahmad Shah Abdali came to Mughlani Begam`s help and invaded Punjab for the fourth time and captured Lahore but soon he returned to Afghanistan leaving behind his son Timur Shah at Lahore.

Adina Beg Khan took refuge in the Sivalik hills and due to the political influence of Adina Beg Khan in Jalandhar Doab, the Afghans reappointed him Administrator (Nazim) of the Jalandhar Doab.

During Taimur Shah`s governorship (1757-58), Adina Beg Khan began to look around for allies with a view to expelling the Afghans. The Sikhs and Adina Beg Khan`s troops joined hands and defeated the Afghans at Mahalpur, in Hoshiarpur district.

Adina Beg Khan expressed his gratitude to the Sikhs by presenting a sum of a thousand rupees as an homage to the Guru Granth Sahib and a lakh and a quarter as protection money for the Jalandhar Doab.

By 1758, Adina Beg Khan met the Sikhs and requested their help to throw out the Afghans representative from Lahore. Soon Hari Singh Bhangi along with his son Jhanda Singh, Gujjar Singh, Lehna Singh built a combined front with Jassa Singh Ahluwalia, Jassa Singh Ramgarhia, Jai Singh Kanahiya, Charat Singh Sukerchakia, and other Sikh Sardars.

Keeping up appearances with the Sikh Sardars, he wished to weaken the power of Afghans in Punjab and invited to this end Marathas who had taken Delhi to come to Punjab, offering them one lakh of rupees a day on the march.

He also persuaded Sikhs to help the Marathas against the Afghans. The Marathas led by Raghunath Rao and accompanied by the forces of the Sikhs and those of Adina Beg Khan entered Lahore in April 1758. Timur Shah fled to Afghanistan and they captured the city of Lahore without any great effort.

Adina Beg Khan got the Subahdar of Punjab at 75 lakh of rupees a year to be paid to the Marathas. Punjab had now three masters: the Mughals, the Afghans, and the Marathas, but in reality only two Adina Beg Khan and the Sikhs.

Adina Beg Khan succumbed to an attack of colic in Batala on 10 September 1758. He died at the age of 48. His dead body was buried, honoring his will, at Khanpur, 2 km Northwest of Hoshiarpur.

Adina Beg Khan was a bridging and binding force to unite the Muslim Punjabis and Sikh Punjabis to liberate Punjab from Mughal invaders, to control the Afghans, to maneuver the Marathas by smartly managing the Afghans to deteriorate the Mughal invaders in Punjab and handling the Marathas to throw out Afghans from Punjab. But after his death at age of 48, the defenders of Punjab were the only Sikhs.

If Adina Beg Khan had not died at the age of 48 and had a life for a decade or two then the Secular Empire of Punjab was presumed in the 1760s under Kingship of Adina Beg Khan and liberated Punjab from Mughal invasion would not have been plundered by the Afghans and due to Muslim Punjabi and Sikh Punjabi harmony with political strategies and political maneuvering skills of Adina Beg Khan along with the physical power of Sikh armed forces, Punjab would have been a powerful state of South Asia.

Taking advantage of a political leadership vacuum in Punjab and only the presence of Sikh armed groups without political strategies and maneuvering skills, in February 1762 Ahmed Shah again invaded Punjab and the Sikhs suffered a heavy loss of life and property in the battle of Kup. These disasters setbacks and humiliations did not deter the Sikhs as is evident from their subsequent actions.

While Ahmed Shah Abdali stayed in Lahore, Bhangi Sardars Hari Singh and his son Jhanda Singh and Ganda Singh and other companions, along with the other Sikh Sardars continued to carry out their armed assaults against Abdali’s representatives in Punjab, such as Zain Khan, Khabiat Singh, Mehar Singh, Rai Ahmed Mashaih, Afghans of Malerkotla and Kotkapura and Zamindars of Faridkot Tahmas Khan Misakin, Tahmas Namah, and obtained tribute from them.

In December 1762, Ahmed Shah left Lahore for Afghanistan. After some time in Afghanistan Ahmed Shah received the news of the disturbance created by the Sikhs in Punjab, he at once deputed his general Jahan Khan to march upon Punjab and take punitive action against the Sikhs. Soon Jahan Khan crossed the river Indus made straight for Sialkot. When the Sikhs came to know the arrival of Jahan Khan at Sialkot Bhangi Sardar Jhanda Singh, Gujjar Singh, and Lehna Singh joined with Charat Singh Sukerchakia and fell upon on the camp of Jahan Khan. They launched a ferocious attack against the Afghans and dispersed those inflicting heavy losses. Soon Jahan Khan himself took flight and all his camp equipage fell into the hands of the Sikhs.

In the course of two years after the departure of Ahmed Shah Abdali, the Bhangi Sardars threw out the Abdali representatives from Sirhind, Multan, Jhang, Chiniot, Kasur, Muzaffargarh, Dera Ghazi Khan, and Dera Ismail Khan and occupied them as their permanent territories.

Hearing of the failure of his generals and representatives in Punjab and the conquest of the Sikhs, Ahmed Shah Abdali again crossed the river Indus in October 1764, with an army of 18,000 soldiers. When he reached Lahore, he led some expeditions against the Sikhs but failed. Then he advanced towards Sirhind, from where he decided to return to Afghanistan.

Having stayed at Sirhind for a few days, Ahmed Shah marched back homeward and crossed the river Satluj, probably at Machhiwara. One morning when he had hardly gone 3 kilometers from the other bank of the river, the Sikhs fell upon his army. Ahmed Shah at once braced himself to face the challenge of the Sikhs, who had organized themselves in a regular battle formation as Hari Singh Bhangi, Gulab Singh Bhangi, Gujjar Singh Bhangi, and Ram Das also called Ram Singh (belonging to the Bhangi Misal) was on the left; Jassa Singh Ahluwalia and Jassa Singh Ramgarhia with the other Sikh Sardars in the center while Lehna Singh Bhangi and Charat Singh Sukerchakia and Jai Singh Kanahiya were on the right.

The author of Jang Nama Qazi Nur Muhammad, who participated in many battles under Ahmed Shah Abdali against the Sikhs talks about the nine prominent leaders in the Sikh army who had come to fight with Ahmed Shah. Out of these nine leaders, 5 leaders belong to Bhangi Misal, namely Hari Singh, Lehna Singh, Gujjar Singh, Gulab Singh, and Ram Das. This account of Qazi Nur Muhammad confirms the facts shore that the Bhangi Misal was supreme in the Dal Khalsa at that time. These skirmishes went on for seven days. Later, when the Ahmed Shah Abdali was heading for the Beas, he was also challenged by the Sikhs under the command of Hari Singh Bhangi, Jassa Singh Ahluwalia, and Bhagel Singh. Subsequently, Ahmed Shah crossed the river Ravi and returned to Afghanistan.

Consequently, after the departure of Ahmed Shah from Punjab, Gujjar Singh Bhangi, Lehna Singh Bhangi, and Sobha Singh marched towards Lahore in April 1765 and banished the Abdali envoy Kabuli Mal from Lahore and conquered territories all around the Suba of Lahore.

In the course of the next two years from 1765 to 1767, the Bhangi Sardars Jhanda Singh and Gujjar Singh extended their control over most of the Afghan legislature such as Gujrat, Wazirabad, Sodhera, Jalalpur, Shahpur, Akhnur, Islamgarh, Bahawalpur, Pakpatan, etc.

To reclaim his lost territories, Ahmed Shah Abdali again crossed river Indus in December 1766 and reached Lahore. Before his arrival, the three rulers of Lahore Gujjar Singh Bhangi, Lehna Singh Bhangi, and Sobha Singh left the city, as they could not withstand the large armed force of Ahmed Shah Abdali.

Meanwhile, Ahmed Shah Abdali reached Lahore. The venerable members of the population, including Hindus and Muslims, informed him about the preparations and planning of the Sikhs with particular mention of Sardar Lehna Singh Bhangi. They told him that Lehna Singh possessed good administrative qualities and was a sympatric ruler, who suitable for the people of Lahore. He had never made any distinctions between the Hindus and the Muslims. He bestowed turbans on the Qazis, Muftis, and Imams of the mosques on the festival of Id-ul-Zuha. He deals with the general public with great regard. The Muslims of the Lahore had no fear of the Khalsa and they had started looking upon them as their comrades rather than antagonistic enemies. Afterward, they request him to call Sardar Lehna Singh and appoint him as a Governor of Lahore in the place of his Muslim nominee.

The Author of Ibrat Nama, Ali-ud-Din Mufti says that “when Ahmed Shah Abdali, came to Know from the people of Lahore about the credibility of Sardar Lehna Singh Bhangi, he wondered how Lehna Singh a competent organizer could flee from the city”. On the other hand, the great Durrani leader had lost his youth, and infirmity was creeping upon him. He had no man of genius like Adina Beg Khan to leave in charge of the province. Thus he resolved to conciliate the Sikhs chiefs.

Soon he sent a present of fruits to Lehna Singh and offered him the Governorship of Lahore. But Lehna Singh returned the fruits and declined the offer, asserting to accept a proposal of an invader was against the policy and the dignity of the Khalsa community.

Around this time Sardar Lehna Singh and Charat Singh Sukerchakia allied with the other Sikh Sardars and made a surprise attack on Ahmed Shah’s army and plundered their baggage. In the circumstances, Ahmed Shah Abdali tried to buy peace with the Sikhs and on 15 January 1767 when he was in the neighborhood of Nurud-din Kot wrote a Khundba (letters) to Jhanda Singh Bhangi, Jassa Singh Ahluwalia and Khushal Singh Singhpuria the chiefs of the Sikhs, to effects that if they were desirous of entering his service they should come and join him, but if they any hostile intentions, they should meet him in the field. But in short, the Sikh Sardars declined the proposal of Ahmed Shah Abdali. Thereafter, Bhangi Sardar Jhanda Singh along with Gujjar Singh again moved towards Lahore with their forces, while small bodies of their men kept hovering all around the Ahmed Shah’s army in the sphere of about 20 kilometers. Several skirmishes took place between the Afghans and the Sikhs such as one with Jahan Khan, who was defeated at Sialkot by Jhanda Singh, Lehna Singh, and Gujjar Singh Bhangis; Jassa Singh Ahluwalia, Charat Singh Sukerchakia, and many others. Another one took place with Najib-ud-Daula, who was defeated by Rai Singh Bhangi and his companions at Bari-Ghat (Jamuna).

With neither any chance of peace with the Sikhs nor any prospect of checking their rising power, Ahmed Shah Abdali speedily marched towards his native place Afghanistan in 1767, leaving the whole territory of Punjab in the hands of the Sikhs. This was the inglorious end of the last invasion of Ahmad Shah. In spite of all his Herculean and constant efforts, he was ultimately unsuccessful in eliminating the powerful Sikh Sardars, who were not only closely knit together by affinities of race and religion but also possessed invincible courage and irresistible will.

After the disappearance of Ahmed Shah from Punjab, Gujjar Singh Bhangi, Lehna Singh Bhangi and Sobha Singh again captured the city of Lahore. In the course of the next five years, they completely threw out the Afghan representatives in Punjab and extended their control up to Multan, Rawalpindi, Jhang, Chiniot, Sialkot, Kasur, Bahawalpur, and some portion of Jammu.

In 1772-73, Ahmed Shah Abdali died and was succeeded by his son Timur Shah. Now a greater calamity was awaiting the Sikhs because of Timur Shah the successor of Ahmed Shah was resolved to recover his lost territories in Punjab.

Accordingly, he sent his general, Faizullah Khan, to Peshawar to launch an attack on Punjab. According to Syed Muhammad Latif, the general mustered up a considerable number of Afghans, Chiefly from the Khyber tribes with the avowed object of punishing the Sikhs, but instead entered into an undisclosed agreement with Mian Muhammad, son of Sheikh Omar, the Sahibzada of Chamkani and a declared enemy of the Ahmed Shah, to put an end to the king’s life. He marched his troops to the citadel of Peshawar on the pretext of parading them before the King; but when they reached the fort, they cut to pieces the guards at the gates and forced their way in. Timur Shah ascended the upper story of his palace and made his situation known to the guards. The Gholam Shahis, the King’s own bodyguards, and the Durranis attacked Faizullah’s men and a terrible slaughter ensued, ending in the arrest of Faizullah and his son were tortured to death.

Timur Shah now took vigorous steps to execute his plans regarding Sindh, Bahawalpur, and the lower Punjab. In the winter season of 1777-78, Timur Shah dispatched an expedition under Haini Khan to recover Multan. The battle seems to have been fought near Kali Sare, in which Hiaini Khan was defeated and captured by the Sikhs. He was tied to the mouth of the gun and was blown apart.

In 1778, Timur Shah again sent one of his generals named Baharu Khan in the siege of Multan. He entered the town by breaching the wall and ransacked the city and soon retired to Afghanistan.

Meanwhile, Timur Shah sent his ambassador, Abdul Jabbar Khan, to Delhi. When he reached Delhi, on, March 12, 1778, and met Shah Alam-II. He assured him of his full co-operation to Timur Shah. Timur Shah thereupon determined to recover Multan himself and sent a contingent of 15, 000 horses as his superior protector. This force was opposed by Diwan Singh Chhachowalia, the Governor of Multan and his Bhangi allies on the bank of the river Indus and beaten back to Peshawar.

In view of the serious opposition from the Sikhs, the Durrani agents in Delhi tried to secure assistance from the notable Maratha chief Mahadji Sindhia, so that the Sikhs might be attacked from the two fronts. Mahadji cleverly put them off.

News dated September 12, 1779, near Karnal, stated that Timur Shah had arrived in Peshawar and his superior protector had crossed the river Jhelum. There it was revealed that a strong army of 60, 000 Sikhs intended to seize Dera Ismail Khan, Dera Ghazi Khan, and Sind. At this news, Timur Shah was greatly alarmed. To check this grandiose scheme of the Sikhs, Timur Shah made up his mind, to recover Multan.

Timur Shah at first tried to recover Multan by diplomacy. He sent Haji Ali Khan as his agent to the Sikhs. When the agent reached Multan; he tried to intimidate the Sikhs by warning them about the impending conflict with the “Lion of Islam” and of the terrible consequences of the royal wrath. He endeavored to persuade them to retire from Multan voluntarily.

According to Giani Gian Singh, when Haji Ali Khan an agent of Timur Shah reached Lahore, he asked Gujjar Singh and other Bhangi Sardars (Those were coming to Multan for the relief of Diwan Singh) to submit before Timur Shah. However, Gujjar Singh replied that the Kingship was bestowed on them by God and they would not accept the overlordship of Timur Shah. The Sikhs, in the face of this challenge, held Gurmata and acknowledged that “here is an ambassador of the Timur Shah, but our king is Sat Guru. This man threatens us with the Timur Shah’s displeasure; we should, therefore, put him to death.” Thereafter the Sikhs commanded to tie Haji Ali Khan to a tree and shoot him dead. His companions were allowed to depart in peace to report to the Timur Shah. The Sikhs then fell back to Rohtas. On learning this sad news Timur Shah sent forth a contingent 18, 000 men, including Yusafzais, Durranis, Mughals, and Qizabashes under Zangi Khan the Durrani general. Zangi Khan encamped at a distance of 25 kilometers from the Bhangis camp. Desa Singh Bhangi the Chief was at this time embroiled with the leaders of the rival Misals in Multan and was absolutely ignorant of their presence, considering them to be at Peshawar, nearly 300 Kilometers away. The next day early in the morning a little before daybreak, Timur Shah fell upon the Sikhs and gave them hot pursuit. About 3, 000 were slain, and 500 drowned in the river Jhelum in an attempt at crossing it; while 2,000 of them safely reached the opposite bank of the river. This news greatly encouraged Timur Shah and rekindled his hopes off to recover Multan. Soon a fierce attack was launched against the Sikhs by Zangi Khan near Leiah. Just at that moment, a storm began. Clouds of dust darkened the sky. A war drum of the Sikhs fell into the hands of the Afghans. It was forcefully beaten, the Sikhs on hearing the sound of their war drum ran towards it. They were all slain. The remaining Sikh army took to flight. In the meantime, Timur Shah joined with Zangi Khan and pursued the Sikhs up to the walls of Multan. The Sikhs took up their position in the fort and closed the city gates.

Early in January 1780, Timur Shah laid the siege to the town of Multan. Timur Shah expected reinforcements for the Sikhs garrison and in that event, he considered his own resources insufficient. He, therefore, marched towards Bahawalpur, to secure reinforcements for himself. The major portion of his army was left in Multan. The Nawab of Bahawalpur gave the Timur Shah 12,000 troops and Ghulam Ali Khan Letti paid tribute. Just at that time Gujjar Singh Bhangi and Lehna Singh Bhangi along with Jassa Singh Ahluwalia, Haqiqat Singh Kanahiya, Bhanga Singh and other Sikh Sardars at the head of 15,000 horsemen arrived with reinforcement to the help of Diwan Singh Chhachowalia.

Timur Shah at once hurried from Bahawalpur towards Multan and confronted with the Sikhs at Shujabad, where a severe battle was fought on 8, February 1780. The Sikhs lost the day with 2,000 causalities and fled towards Lahore. Timur Shah dispatched a detachment of 20,000 strong soldiers in pursuit of them. This force overtook the Sikhs at Hujra Muqim Khan, 64 kilometers from Lahore. Timur Shah hurried to Multan to penalize the Sikhs and occupied the city of Multan, on 18 February 1780. After this victory, Timur Shah bestowed the Governorship of Multan on Shuja Khan, father of Muzaffar Khan, sir-named Safdar Jang, who retained it until being expelled by Ranjit Singh.

The Timur Shah then subdued Bahawal Khan the Abbasi Chief of Bahawalpur. The town of Bahawalpur was pillaged and many of its edifices were burnt. The Nawab’s arsenals, together with a portion of the fort, were blown up. The Nawab was compelled to pay an annual tribute and the Afghan troops withdrew. Timur Shah then reduced to subjection the Talpurs of Sindh, who also agreed to pay a subsidy. After this, he led several expeditions towards India but could not capture more territories and he died on, May 18, 1793.

Timur Shah was succeeded by his son Shah Zaman. He succeeded the throne of Kabul on 18 May 1793 and turned his attention to recovering his lost territories in Punjab. He initiated a series of Punjab invasions, in 1794 and marched up to Peshawar. In 1796 Shah Zaman again crossed the river Indus at Attock and marched towards Punjab. Soon he captured Rohtas which was under Sukerchakia.

Shah Zaman had stayed at Hasan Abdal for about a week but soon returned to Afghanistan to take punitive against Muhammad Khan of Herat and Aga Muhammad Khan Kajar who had revolted against him. He left behind a general named Ahmed Khan Shahanchibashi to stay at Rohtas. He also dispatched Bahadur Khan, Son of Faiz Ali Khan Shahnkarwala at the head of 12,000 horses to conquer Gujrat.

When Bahadur Khan reached Gujrat, Sahib Singh Bhangi son of Gujjar Singh Bhangi came out to oppose him. In the course of fighting Bahadur Khan was killed and the Afghans were defeated. Just at this time, Ranjit Singh sought help from Sahib Singh Bhangi to recover Rohtas. Both the Sikh Sardars along with Nihal Singh and Wazir Singh Attariwala, Jodh Singh Wazirabad, and Karam Singh Dullu marched upon Rohtas, where Ahmed Khan Shahanchibashi was staying. No sooner did they reach the bank of the river Jhelum than, Ahmed Khan Shahanchibashi left Rohtas and fled away to Peshawar.

The Sikhs after defeating the Afghans captured the areas of Rohtas, Pothohar, and Gheba. Crestfallen Shah Zaman then opened negotiations with the Sikhs. He sent a special messenger to the Sikh Sardars asking them not to torment his troops and impede his progress to Delhi in the interest of their safety of life, honor, and property. The Sikhs Sardars expressed their willingness to cooperate to and allow him safe passage through Punjab on the condition of the Shah Zaman commitment on the part with “a large portion of plunder” which he would bring from Delhi.

Shah Zaman left Kabul on 12 October 1796 and reached Attock. He sent a contingent of his troops towards Hasan Abdal under General Sher Muhammad, which was stopped by Milkha SinghRawalpindi. The engagement lasted for a few hours and in the combat, about fifty men on both sides were killed. At last Milkha Singh was defeated and fell back into Rohtas.

On 19 December news arrived in Lahore that Shah Zaman was staying at Hasan Abdal and his advance guard marched towards Jhelum. Ranjit Singh had already left Rohtas and retired to Pind Dadan Khan from where he took up his position at Miani where he was joined by Milkha Singh and Sahib Singh of Gujrat.

Lehna Singh ruler of Lahore had always been the most famous Sikh chief with his subjects, particularly with the Muslims and whenever there was an invasion, the Muslims always commended him to the Durrani monarch for more considerate treatment. On this occasion, Shah Zaman sent messengers to Lehna Singh Bhangi assuring him of the royal favor and retention in the Governorship of Lahore and advising him to shake off his apprehensions. Lehna Singh thanked the Shah Zaman for his kindness and regard but declined the offer on account of the hostile attitude of the Khalsa community. Later on, Lehna Singh offered to the Muslim leaders of Lahore to take charge of the city; “but was persuaded by their entreaties to stay two days more.”

The distance between the Ravi and the Chenab on the highway was about 100 kilometers. As the Shah Zaman was marching slowly, it was expected that he would take three or four days in reaching Lahore. On the second day, Lehna Singh delivered the keys of the citadel to Mian Chiragh-ud-din Shah Sultanpuri. Then he summoned Mian Chiragh-ud-din Shah Sultanpuri, Mir Ghalib Shah, Mian Muhammad Ashiq, and other Muslim leaders. “Without manifesting any partiality for the Hindus”, he made over the city to their charge. He told them that he was leaving the fort in good repair without any damage done to it. He requested them to use their power with the Shah Zaman to secure lenient treatment to the people. Afterward, he got into a palanquin as he was growing old and was not in good health and accompanied by 100 horses, one field piece, and an elephant halted at the forte of Haji Said Khan.

On 31st December 1796, Wazir Share Muhammad Khan as the head of 12.000 troops entered into the city of Lahore. The leading Muslim citizens of the city delivered the keys of the fort to him. Just at that time arrived a letter from the Shah Zaman for Lehna Singh Bhangi promising him all concessions and favor. Another messenger brought a proclamation from the Shah Zaman prohibiting the Afghan soldiers from commenting on any outrage on the inhabitants of the city. It was also declared that if any Afghan officer would live inside the city, he could rent a house with the consent of the proprietor. Ahmed Khan Shahanchibashi and the city Kotwal proclaimed security of life and property and in consequence, the shops which had been shut were reopened. Such was the strict orders of Shah Zaman that intelligence from Lahore stated that “no outrage has been committed upon any individual during the Shah Zaman progress from Peshawar to Lahore” declaring that his troops “Put to death all the Sikhs who appear in arms against the Afghans, but spare the rest.”

Afterward, Shah Zaman entered Lahore on 3rd January 1797 and took possession of the city. According to Syed Muhammad Latif, the city was illuminated for three successive nights in honor of its occupation by the Durranis. The deserted houses in the city were all occupied by the Afghan Sardars and nobles, while the parade ground, fronting the palace was swarmed with the followers of the Afghan army.

Following the policy adopted by his grandfather, Ahmed Shah, the invader dispatched Chapals, or light parties, in various directions into the country to persecute the Sikhs in their retreat by rapid marches, to seize their cattle, destroy their grain and harass them in all ways possible. He also wrote to the Sikh Chiefs that if they desired peace they should attend upon the Shah Zaman; else they would be punished by the imperial army. In February 1797, he left for Afghanistan leaving behind Ahmed Khan at Rohtas to look after the affairs of the country between the Jhelum and Sindh with Bahadur Khan, Muhammedzie, Bostan Khan, Durrani and Nueullah Khan, Khatak at the head of 7,000 horses as his subservient generals.

After the departure of Shah Zaman, the people of the city of Lahore invited Lehna Singh to come to Lahore and resumed the Governorship. At the behest of the general public Lehna Singh, Sahib Singh, and Sobha Singh returned to Lahore and occupied it. But Lehna Singh died in September 1797, leaving behind a son named Chait Singh. About the same time, Sobha Singh also died and was succeeded by his son Mohar Singh. Now the Sikhs again started recovering their lost territory. Milkha Singh joined with Sahib Singh of Gujrat and proceeded towards Rawalpindi, while Ranjit Singh marched towards Rohtas. Just at this time Hayat Khan, son of Chaudhry Rahmat Khan Wariach of Jalalpur captured Islamgarh and raises the standard of revolt against Sahib Singh of Gujrat. In such state of affairs Ahmed Khan Shahanchibashi, made up his mind to drive the Sikhs from Gujrat. He made Islamgarh the base of his operations. His plan was to begin his campaign from Sialkot in the east and to drive the Sikhs from Gujrat towards Jhelum, surround them on the bank of the river and to force them to capitulate.

On hearing of the atrocities of Shahanchibashi, Bedi Ram Singh belonging to village Kotli Faqir Chand Bedian in Sialkot district joined with Jodh Singh and Diwan Singh Kalaswalia (belonging to the Bhangi Misal) and Mehtab Singh Bhangi of Wadala marched upon Sialkot, where Shahanchibashi’s troops were staying. Shahanchibashi deputed Kamil Din, Murid Khan, Asadullah, and Ali Khan to meet the Sikhs. The first-day battle was fought at the village Portain. The battle was fought over a tract of about 10 square kilometers, but neither could score a victory. The next morning the two sides again got ready for the fight. The Sikhs managed their forces in regular battle as under; Ram Singh was in the front, Behind him were Diwan Singh and Charat Singh of Klaswalia, Dharam Singh Jalalwala, Budh Singh Dodia, Karam Singh Gill, Mehtab Singh Wadala, Ram Singh Sare Kali, Jodh Singh Atariwala, Nar Singh Chimiariwala, Mansa Singh, Milkha Singh Rawalpindi (they were all the Bhangis), Jodh Singh Ramgarhia, Bhag Singh Ahluwalia, Natha Singh Shahid, Desa Singh, Sham Singh Sultanwind, Jaimal Singh Kanahiya and many more. A pitched battle was fought the whole day. Both the parties fell back in Daska and none of them was triumphant.

The major part of the Afghan army was under Shahanchibashi who was camping at some distance from Gujrat. At this time Sikhs advanced from the western bank of river Chenab. Sahib Singh Bhangi of Gujrat and Ranjit Singh and the other Sikh Sardars proceeded from the west against Shahanchibashi. A savage battle was fought between them about 7 kilometers from Gujrat. In the battlefield, Shahanchibashi was shot dead and the Afghan forces took to flight and a large booty consisting of camels, horses, and war material fell into the hands of the Sikhs.

The Sikhs knew that Shah Zaman was determined to repeat his exploits and they expected his invasion in the winter session of 1797. Some Sikh chiefs decided to meet in Amritsar on the day of Diwali and to concert measures to oppose the invader. They invited Sahib Singh the ruler of Patiala to be present at Amritsar, but being a loyal subject of the Afghan monarch “declined the invitation to be present at the conference on the pretense that their plans this year would prove equally inefficacious like those of last season”. Sahib Singh of Patiala was in correspondence with Shah Zaman. He sent his messengers to the invader, when they meet in Peshawar, offering his submission and homage. They brought letters from the Shah Zaman and his Wazir for the Raja. Sahib Singh received these letters in the full court and offers to apply them to his forehead and delivered them to his Munshi to be readout.

About this time The territorial distribution was as such: Milkha Singh was at Rawalpindi; but the farthest outpost on the north-west frontier at Sare Kali was held by his wife, Sahib Singh at Gujrat, Jodh Singh at Wazirabad, Jassa Singh Son of Karam Singh Dullu in Chiniot, Chait Singh son of Lehna Singh at Lahore, Bhag Singh, Nahar Singh, Fateh Singh and Jiwan Singh (belonging to the Bhangi Misal) at Sialkot, Gulab Singh Bhangi at Amritsar, Ranjit Singh at Pind Dadan Khan, Dal Singh at Ramnagar, Jodh Singh Ramgarhia at Tarn Taran, Tara Singh Gahiba at Nakoder and Jassa Singh Ramgarhia at Naduan.

The military strength of the various important Sardars was as follows:

1. Milkha Singh of Rawalpindi 2,000 horse
2. Sahib Singh of Gujrat 6,000 horses
3. Ranjit Singh 15,000 horses
4. Cahit Singh and Mohar Singh of Lahore 16,000 horses
5. Gulab Singh of Amritsar 6,000 horses
6. Jassa Singh of Ramgarhia 3,000 horses

It was, however, expected that the Sikhs would not allow the Shah Zaman an easy passage and that they would carry out Guerilla warfare, harass his troops and impede his progress.

On 13 October 1798 Shah Zaman again marched towards Punjab and reached Attock. Shah Zaman sent his advance guard under Madad Khan, who reached Sare Kali, which had already been evacuated by the wife of Milkha Singh. She managed to reach Rawalpindi, where Milkha Singh along with Ram Singh was already engaged in a battle with the Mulluka Zamindars of Sare Kali in Rawalpindi and had fallen back by 50 kilometers. Having been taken unawares the Sikhs lost the day in the skirmish and both the Sardar Milkha Singh and Ram Singh captured and were sent to Shah Zaman at Attock. They paid a ransom of three Lakhs of rupees to Shah Zaman, for their release.

On November 16, 1798, Shah Zaman reached Rohtas. On the other side Milkha Singh, Karam Singh Dullu, and Ranjit Singh were camping at Rasulpur while Sahib Singh was in Gujrat. On November 19, Wazir Wafadar Khan was attacked by Sahib Singh, Nahar Singh, Ranjit Singh, and Sondhe Singh, somewhere between Gujrat and Wazirabad. On the battlefield, Waffadar Khan lost a considerable number of his troops. The victorious Sikhs returned to Wazirabad. Then the Sikhs came to Amritsar, where they held interviews with Budh Singh, Gulab Singh, Bhag Singh, Jaimal Singh, and Bibi Sada Kaur. Further, they invitedTara Singh, Jassa Singh Ramgarhia, Gurdit Singh, Bhanga Singh Mehtab Singh, and Rai Singh Jagadhari to join them in fighting against the Shah Zaman saying: “Victory is the gift of God. Let us make an effort to oppose him.

On 24 November Shah Zaman came to know about the presences of the Sikhs in Amritsar. He at once dispatched a contingent of 10,000 troops towards Amritsar. At this time Sahib Singh Bhangi and Ranjit Singh at the head of 500 horses, were patrolling around Amritsar. They clashed with Afghans and instantly engaged them in a fight. On hearing about this engagement Gulab Singh Bhangi, Jodh Singh and Budh Singh Klaswalia with 2,000 horses come to their assistance. The battle raged for three hours and about 500 men on each side were killed and the Afghans were ultimately forced to retreat to Lahore.

On November 29, Gulab Singh Amritsar, Chait Singh Lahore, Sahib Singh of Gujrat, Bhag Singh and Ranjit Singh with 10,000 horses marched from Amritsar towards Lahore to confront the Afghans. Shah Zaman reached Lahore on November 30, 1798. Consequently, the Sikhs encamped 16 kilometers from Amritsar on the Lahore road and disrupted supplies of grain to the Shah Zaman camp, from two directions, Kasur and Amritsar. The Sikhs further attacked the royal camp at Lahore and after carrying out plunder of the merchants fled away.

According to Sohan Lal Suri, at this time Ranjit Singh himself rushed thrice upon the Samman Buraj of the Lahore Fort with a few men, fired a number of shots, killed and wounded a number of Afghans and on one occasion even challenged the Shah Zaman himself to single-hand combat. ‘Come out you, o grandson of Ahmed Shah, “shouted Ranjit Singh to him, “and try two or three hands with the grandson of the great Sardar Charat Singh.”

At this time a moment development Afghanistan necessitated a Shah Zaman’s return. According to Ali-ud-Din Mufti, Shah Zaman left for Kabul after a month’s stay in Lahore as Mahmud Shah, in collaboration with Baba Qachar, had attacked Kabul in his absence.

The Sikhs were constantly in touch with the happenings in Lahore. Chait Singh Bhangi and Milkha Singh marched from Amritsar in the night between 3 and 4 January and encamped near Lahore. No sooner did the Shah Zaman cross the river Ravi both the Sikh Sardars entered Lahore and re-occupied the city. Most of the other Sikh Sardars also retired to their own territories.

Now the Sikhs decided to Shah Zaman on his way passage through the river Chenab. Torment acting on diplomatic lines, Ranjit Singh chose not to pose any threat to Shah Zaman on his march he rather facilitated his return so that he might not get annoyed with him and think of hitting back at him at the earliest opportunity. Ranjit Singh infects dissuaded the other Sikh Sardars from executing their designs and the Shah Zaman was allowed to return to Kabul unimpeded.

Since the Shah Zaman had to back hurriedly 12 of his guns sank in the river Jhelum because of the rainy season. On the Shah Zaman request, Ranjit Singh extricated all the 12 guns from the river. He dispatched 8 of them to Kabul and added four to his arsenal. One of these was of iron and three brass.

In the year of 1798, when Shah Zaman invaded Punjab for the last time, all the places in the Sikh occupation had been evacuated by them. In such a situation the Zamindars of Shahdara invited Nizam-ud-din of Kasur to take ownership of the forts evacuated by the Sikhs. He arrived there at the head of 400 horses. On his way march, he captured the territories around Kasur including, Kankipur, Havali, Maruf, Atari, Nadian, Mahimoki, Khemkaran and Chunian which were under Tara Singh Cahinpuria who was a Bhangi Sardar. On November 18, 1798, Sahib Singh Bhangi son of Gujjar Singh Bhangi joined Ranjit Singh and marched against Nizam-ud-Din of Kasur and defeated him with heavy losses.

After the departure of Shah Zaman from Lahore, three Sikh Sardars Sahib Singh, Cahit Singh and Mohar Singh again captured the city of Lahore. But they could not set up an alliance with each other. Finding the situation in Lahore fluid, Nawab Nizam-ud-Din of Kasur started toying with the idea of possessing Lahore. But in view of Ranjit Singh’s growing power, the Nawab of Kasur was obliged to drop the idea of occupyingLahore.

In 1799, Ranjit Singh captured the city of Lahore and the Bhangi Sardars formed a plan to kill Ranjit Singh. To accomplish their plan they also invited the Nawab of Kasur Nizam-ud-Din in the battle of Bhasin, in 1800. However, they lost the battle, and Nizam-ud-Din returned to Kasur. In 1801 Ranjit Singh sent a massive force against Nizam-ud-Din of Kasur. The Nawab suffered a defeat at the hands of the Lahore army and obtained peace through submission and became a tributary Subedar of Maharaja Ranjit Singh.