ملک
کے حکومتی اور سیاسی امور چلانے میں اھم کردار مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں
اور کلرکوں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور
سیاسی ورکروں کا ھوتا ھے۔ جبکہ زمینداروں اور مزارعوں ' صنعتکاروں اور مزدوروں '
تاجروں اور ھنر مندوں کی ملک میں اکثریت ھونے کے باوجود بھی ان کا ملک کے حکومتی
اور سیاسی امور چلانے میں کردار اھم نہیں ھوتا۔ برٹش انڈیا کی تین بڑی قوموں میں
سے پہلی بڑی قوم ھندوستانی (یوپی ' سی پی کے گنگا جمنا کی تہذیب و ثقافت والے ھندی
- اردو بولنے والے) ' دوسری بڑی قوم بنگالی ' تیسری بڑی قوم پنجابی تھیں۔ جبکہ
برٹش انڈیا کی دیگر دس بڑی قومیں مراٹھا قوم ' تیلگو قوم ' تامل قوم ' راجستھانی
قوم ' گجراتی قوم ' بھوجپوری قوم ' کناڈا قوم ' اوریا قوم ' مالایالم قوم ' آسامی
قوم تھیں۔ برطانیہ نے برٹش انڈیا پر قبضے کے دوران برٹش انڈیا کے حکومتی اور سیاسی
امور چلانے کے لیے یوپی ' سی پی کے ھندی - اردو بولنے والے ھندو اور مسلمان
ھندوستانیوں میں سے مذھبی رھنما اور فوجی ' افسر اور کلرک ' دانشور اور تجزیہ نگار
' صحافی اور وکیل ' سیاستدان اور سیاسی ورکر تیار کیے تھے۔ مسلمانوں کی ابتدائی
پرورش و تربیت دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء ' بریلوی مدرسوں اور
علیگڑہ یونیورسٹی میں کی گئی تھی۔ پاکستان کے قیام کے بعد یوپی ' سی پی کے اردو
بولنے والے مسلمان ھندوستانی مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں اور کلرکوں '
دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں کو
پاکستان پر مسلط کردیا گیا۔ جبکہ یوپی ' سی پی کے ھندی بولنے والے ھندو ھندوستانی
مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں اور کلرکوں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘
صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں کو بھارت پر مسلط کردیا گیا۔
بھارت میں تو 1947 کے بعد بھی یوپی ' سی پی کے ھندی بولنے والے ھندو ھندوستانی
مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں اور کلرکوں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘
صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں کو اترپردیش کے بھارت کا سب سے
بڑا صوبہ اور ھندی بولنے والوں کے بھارت کی سب سے بڑی آبادی ھونے کی وجہ سے اور
مراٹھا قوم ' تیلگو قوم ' تامل قوم ' راجستھانی قوم ' گجراتی قوم ' بھوجپوری قوم '
کناڈا قوم ' اوریا قوم ' مالایالم قوم ' آسامی قوم اور ھندو بنگالی ' ھندو پنجابی
' سکھ پنجابی کی طرف سے مؤثر مزاحمت نہ کرپانے کی وجہ سے یوپی ' سی پی کے ھندی
بولنے والے ھندو ھندوستانیوں کی بھارت کی سیاست میں بالادستی قائم ھونے کی وجہ سے
یوپی ' سی پی کے ھندی بولنے والے ھندو ھندوستانی مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں '
افسروں اور کلرکوں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں
اور سیاسی ورکروں نے بھارت میں جمہوریت کا ماحول بھی رکھا اور یوپی ' سی پی کے
ھندی بولنے والے ھندو ھندوستانی مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں اور کلرکوں '
دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں کی
پرورش و تربیت بھی ھوتی رھی۔
پاکستان میں مشرقی پاکستان کے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور بنگالی بولنے والوں کے پاکستان کی سب سے بڑی آبادی ھونے کی وجہ سے جبکہ پنجاب کے مغربی پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور پنجابی بولنے والوں کے مغربی پاکستان کی سب سے بڑی اور پاکستان کی دوسری بڑی آبادی ھونے کی وجہ سے اور مغربی پاکستان کی سندھی ' پٹھان ' بلوچ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' کوھستانی ' گجراتی ' راجستھانی قوموں کی بھی مزاحمت کی وجہ سے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانی مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں اور کلرکوں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں کی پاکستان کے حکومتی امور پر بالادستی کے باوجود یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کو پاکستان کی سیاست میں بالادستی حاصل نہ ھوپائی۔ جس کی وجہ سے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانی مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں اور کلرکوں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں نے پاکستان میں جمہوریت کا ماحول ھی بننے نہ دیا اور پاکستان میں آمریت کا ماحول قائم کردیا۔
یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کے پاس پاکستان میں اکثریتی
آبادی والا علاقہ نہ ھونے اور پاکستان کے بڑے بڑے شھروں کراچی ' لاھور ' ملتان '
راولپنڈی ' پشاور ' کوئٹہ و دیگر شھروں میں بکھرے ھوئے ھونے کی وجہ سے یوپی ' سی
پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانی مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں اور
کلرکوں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی
ورکروں کی پاکستان کے حکومتی اور سیاسی امور چلانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے
ساتھ نسل در نسل پرورش و تربیت کے لیے دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء
' بریلوی مدرسوں اور علیگڑہ یونیورسٹی جیسا ماحول نہ مل سکا۔ اس لیے نسل در نسل
پرورش و تربیت نہ ھوسکی اور اس وقت یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان
ھندوستانی مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں اور کلرکوں ' دانشوروں اور تجزیہ
نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں میں پاکستان کے حکومتی
اور سیاسی امور چلانے کی ویسی صلاحیت نہیں ھے جیسی انکے آباؤ اجدا کے پاس تھی۔
دوسری
طرف یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں نے بھی پاکستان کی 60٪
آبادی پنجابی ھونے کے باوجود پنجابی مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں اور کلرکوں
' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں
کو پنجابی زبان ' پنجابی تہذیب ' پنجابی ثقافت ' پنجابی تاریخ ' پنجابی جغرافیے
اور پنجابی وسائل و مسائل کے مطابق پاکستان کے حکومتی اور سیاسی امور چلانے کے
قابل نہیں ھونے دیا اور یوپی ' سی پی کی زبان ' تہذیب ' ثقافت ' تاریخ ' جغرافیے
اور وسائل و مسائل کے مطابق پاکستان کے حکومتی اور سیاسی امور چلانے کی ترغیب دیتے
رھے اور تربیت کرتے رھے۔ جبکہ مشرقی بنگال کے پاکستان سے الگ ھونے سے پہلے
بنگالیوں کو بھی پنجابیوں کے خلاف محاذ آرئی میں مشغول رکھا اور پٹھان ' بلوچ کو
تو اب تک مشغول رکھے ھوئے ھیں۔
پاکستان قائم کرنے کے لیے 1947 میں پنجاب تقسیم ھوجانے اور 20 لاکھ پنجابی مارے جانے
جانے جبکہ 2 کروڑ پنجابی بے گھر ھو جانے کی وجہ سے پنجابیوں کے تباہ و برباد
ھوجانے ' پاکستان کا گورنر سندھی کے بن جانے ' پاکستان کا وزیرِ اعظم ھندوستانی
مھاجر کے بن جانے ' پاکستان کی سرکاری اور تعلیمی زبان اردو ھو جانے اور مخالفت پر
ملک دشمن تصور ھونے ' گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی
لباس قرار دے دینے ' پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج
نافذ کرنے کے بعد ایک پٹھان کو پنجاب کا گورنر نامزد کردینے ' علیگڑہ مسلم
یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے
فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان مغربی پاکستان لاکر حکومت '
بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا دینے کے بعد پاکستان میں پنجابی آئندہ
کئی نسلوں تک کے لیے سیاسی و سماجی اپاھج بن چکے تھے۔ پنجابیوں کا یہ حال تھا کہ؛
1۔ نہ تو پنجابیوں کے مفاد کے برخلاف پنجاب کی تقسیم ' 20 لاکھ پنجابیوں کے مارے جانے اور 2 کروڑ پنجابیوں کے بے گھر ھوجانے کے بارے میں کسی سے بات کرنے کے قابل تھے۔
2۔ نہ پاکستان کا گورنر بنگالی کو نہ بنانے اور پاکستان کا وزیرِ اعظم پنجابی کو نہ بنانے کی بات کرنے کے قابل تھے۔
3۔ نہ پنجاب کی سرکاری اور تعلیمی زبان پنجابی قرار دینے کی بات کرنے کے قابل تھے۔
4۔ نہ گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دینے کی مخالفت کرنے کے قابل تھے۔
5۔ نہ پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرکے پٹھان
کو پنجاب کا گورنر نامزد کرنے کی مخالفت کرنے کے قابل تھے۔
6۔ نہ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور
بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان مغربی پاکستان
لاکر حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا کر پاکستان پر اردو بولنے
والے ھندوستانی مھاجروں کی انتظامی گرفت مظبوط کرنے کی مخالفت کرنے کے قابل تھے۔
پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک دارالعلوم دیوبند ' دار العلوم ندوۃ العلماء '
بریلوی مدرسوں اور علیگڑہ یونیورسٹی میں پرورش و تربیت پانے والے یوپی ' سی پی کے
اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانی مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں اور کلرکوں '
دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں کے
"بیانیہ" کے مطابق پاکستان کو چلایا جاتا رھا۔ وہ "بیانیہ"
تھا کہ؛ پاکستانی ایک قوم ھیں۔ نہ صرف انکا مذھب ایک ھے بلکہ انکی زبان بھی ایک ھی
ھے ' انکی ثقافت بھی ایک ھی ھے اور انکا سیاسی مفاد بھی ایک ھی ھیں۔ بلاشبہ یہ ایک
مذھب انکا دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والا اسلامی فلسفہ رھا۔ ایک زبان انکی
اردو زبان رھی۔ ایک ثقافت انکی گنگا جمنا کی ثقافت رھی اور ایک سیاسی مفاد انکا
یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمانوں کی سماجی ' سیاسی ' انتظامی ' معاشی
برتری رھا۔ ایک ھی مذھب ھونے کے باوجود پاکستان کی پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ
' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' کوھستانی '
گجراتی ' راجستھانی قومیں دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والے اسلامی فلسفہ سے ھٹ
کر مختلف مذھبی نقطہ نظر رکھتی ھیں۔ انکی زبانیں الگ الگ ھیں۔ انکی ثقافتیں الگ
الگ ھیں۔ انکی اپنی اپنی انفرادی تاریخ ھے۔ انکی اپنی اپنی منفرد قومی شناختیں ھیں
اور انکے اپنے اپنے سماجی ' سیاسی ' انتظامی ' معاشی مفادات ھیں۔
یوپی
' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کے "بیانیہ" کو مسترد
کرکے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں نے تو 1971 میں ھی پاکستان سے علیحدگی اختیار کرکے
بنگلہ دیش کے نام سے آزاد ملک بنا لیا تھا۔ لیکن پاکستان میں اس وقت یوپی ' سی پی
کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کی سب سے بڑی آبادی کراچی میں ھے اور یوپی
' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانی مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں
اور کلرکوں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور
سیاسی ورکروں کے ذریعے اور انکے "بیانیہ" کے مطابق پاکستان تو کیا کراچی
کے سیاسی اور حکومتی معاملات چلانا بھی ممکن نہیں رھا۔ جبکہ پنجابی ' سندھی '
پٹھان ' بلوچ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی '
کوھستانی ' گجراتی ' راجستھانی قوموں کے مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں اور
کلرکوں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی
ورکروں کے پاس اب تک نہ پاکستان کے سیاسی اور حکومتی معاملات چلانے کے لیے
"بیانیہ" ھے اور نہ باقاعدہ پرورش و تربیت ھے۔
پاکستان
کی 60٪ آبادی پنجابی ھے جبکہ 40٪ آبادی سندھی ' پٹھان ' بلوچ ' براھوئی ' ھندکو '
کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' کوھستانی ' گجراتی ' راجستھانی اور
یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے مسلمان ھندوستانیوں کی ھے۔ پنجابی مذھبی رھنما
اور فوجی ' افسر اور کلرک ' دانشور اور تجزیہ نگار ‘ صحافی اور وکیل ‘ سیاستدان اور
سیاسی ورکر چونکہ پنجابیوں کے پاکستان کی 60٪ آبادی ھونے کے باوجود پنجابی زبان '
پنجابی تہذیب ' پنجابی ثقافت ' پنجابی تاریخ ' پنجابی جغرافیے اور پنجابی وسائل و
مسائل کے مطابق "بیانیہ" بنا کر پاکستان کے حکومتی اور سیاسی امور چلانے
کے قابل نہیں ھیں۔ اس لیے پنجابی جب تک پنجابی زبان ' پنجابی تہذیب ' پنجابی ثقافت
' پنجابی تاریخ ' پنجابی جغرافیے اور پنجابی وسائل و مسائل کے مطابق
"بیانیہ" تشکیل دے کر یوپی ' سی پی کی زبان ' تہذیب ' ثقافت ' تاریخ '
جغرافیے اور وسائل و مسائل کے مطابق تکشیل دیے گئے "بیانیہ" سے نجات حاصل
کرکے پاکستان کے حکومتی اور سیاسی امور چلانے کے لیے پنجابی مذھبی رھنماؤں اور
فوجیوں ' افسروں اور کلرکوں ' دانشوروں اور تجزیہ نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘
سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں کی پرورش و تربیت نہیں کرتے اور پاکستان کی 40٪ آبادی
سندھی ' پٹھان ' بلوچ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی '
سواتی ' کوھستانی ' گجراتی ' راجستھانی اور یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے
مسلمان ھندوستانیوں کو اپنے ساتھ شریک کرنے کی پالیسی تشکیل نہیں دیتے۔ اس وقت تک
پاکستان میں سیاسی بحران رھے گا۔ پاکستان کی حکومت عدمِ استحکام میں مبتلا رھے گی۔
پاکستان کی سالمیت کو خطرات لاحق رھیں گے۔ پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ '
براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' سواتی ' کوھستانی ' گجراتی
' راجستھانی مذھبی رھنماؤں اور فوجیوں ' افسروں اور کلرکوں ' دانشوروں اور تجزیہ
نگاروں ‘ صحافیوں اور وکیلوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں نے "بیانیہ"
کے بغیر "بے وقت کی راگنی" الاپتے رھنا ھے۔ "بے مقصد بھاگ
دوڑ" کرتے رھنا ھے۔ "اپنا وقت برباد" کرتے رھنا ھے۔ "پاکستان
کے وسائل تباہ" کرتے رھنا ھے۔ "پاکستان کے عوام کو گمراہ" کرتے رھنا
ھے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی عوام سماجی انتشار ' سیاسی بحران ' حکومتی عدمِ
استحکام ' معاشی مشکلات میں مبتلا رھے گی۔
No comments:
Post a Comment