Wednesday 29 April 2020

سندھ کا مسئلہ کیا ھے اور حل کیا ھے؟

سندھ کا علاقہ شہری سندھ اور دیہی سندھ پر مشتمل ھے۔ سندھ کے شہری علاقے کا مسئلہ یوپی ، سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی ھیں ، نہ کہ گجراتی اور راجستھانی۔ جبکہ سندھ کے دیہی علاقے کا مسئلہ بلوچ اور سید ھیں ، نہ کہ سماٹ سندھی اور پنجابی آبادگار۔

سندھ کے شہری علاقے کے یوپی ، سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی سندھ کی معیشت کو بڑھانے والے پیشوں کو اختیار نہیں کرتے۔ لیکن سیاست سے وابسطہ شعبوں پر انکا کنٹرول ھے۔ جبکہ گجراتی اور راجستھانی سندھ کی معیشت کو بڑھانے والے پیشوں کو اختیار کیے ھوئے ھیں۔ لیکن سیاسی طور پر یوپی ، سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے زیر اثر ھیں۔

سندھ کے دیہی علاقے کے بلوچ اور سید سندھ کی معیشت کو بڑھانے والے پیشوں کو اختیار نہیں کرتے۔ لیکن سیاست سے وابسطہ شعبوں پر انکا کنٹرول ھے۔ جبکہ سماٹ سندھی اور پنجابی آبادگار سندھ کی معیشت کو بڑھانے والے پیشوں کو اختیار کیے ھوئے ھیں۔ لیکن سیاسی طور پر بلوچ اور سید کے زیر اثر ھیں۔

جب تک سندھ کے شہری علاقے کے گجراتی اور راجستھانی سیاسی طور پر یوپی ، سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے زیر اثر ھیں ، اس وقت تک شہری سندھ کے حالات مزید خراب سے خراب ھوتے جانے ھیں۔

جب تک سندھ کے دیہی علاقے کے سماٹ سندھی اور پنجابی آبادگار سیاسی طور پر بلوچ اور سید کے زیر اثر ھیں ، اس وقت تک دیہی سندھ کے حالات مزید خراب سے خراب ھوتے جانے ھیں۔

ماضی میں سندھ کے شہری علاقوں کے یوپی ، سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے گجراتیوں اور راجستھانیوں کو اپنے ساتھ ملا کر سندھ کے شہری علاقوں میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کی۔ لیکن اب گجراتی اور راجستھانی بھی ان یوپی ، سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے ظلم اور زیادتیوں کا نشانہ بنتے جا رھے ھیں۔

ماضی میں سندھ کے دیہی علاقوں کے بلوچ اور سید نے سماٹ سندھی کو اپنے ساتھ ملا کر سندھ کے دیہی علاقوں میں رھنے والے پنجابیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کی۔ لیکن اب سماٹ سندھی بھی ان بلوچوں اور سیدوں کے ظلم اور زیادتیوں کا نشانہ بنتے جا رھے ھیں۔

سندھ کی زرعی زمینیں زیادہ تر سید اور بلوچ سنبھال کر بیٹھے ھیں ، جن کے بڑوں نے بھی کبھی ایگریکلچر نہیں کی تھی۔

سید اور بلوچ نے گو کہ سندھ پر پاکستان کے بننے سے پہلے سے ھی قبضہ کیا ھوا تھا۔ بلکہ برٹش کے سندھ پر قبضہ کرنے سے پہلے تو سندھ پر حکومت ھی بلوچ اور سید کی رھی۔ لیکن ڈویلپڈ ایگریکلچرل لینڈز سید اور بلوچ کو پاکستان کے بنتے وقت سندھ سے جانے والے سکھ اور ھندو کی مل گئیں۔ جن پر کام کرنے کے لیے زیادہ تر انکے ھاری مسلمان پنجابی اور سماٹ سندھی ھی ھوتے تھے۔ یہاں تک کہ سندھی قوم پرستی کے بانی لیڈر جی ۔ ایم سید کے پاس بھی پنجابی اور سماٹ ھاری تھے۔

1970 کی دھائی میں سید اور بلوچ نے پنجابی آبادگاروں کو ڈرا ، دھمکا کر پنجاب واپس بھیج دیا۔ پنجابی آبادگاروں کے پنجاب واپس آنے کی وجہ سے سید اور بلوچ کو پنجابیوں کی مزید ڈویلپڈ ایگریکلچرل لینڈز مل گئی۔
سید اور بلوچ نے پنجابی آبادگاروں سے ڈولیپڈ ایگریکلچرل لینڈز حاصل کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا ، اس طریقے سے زمین تو مل گئی لیکن ایگریکلچر کا ھنر تو نہیں مل سکتا تھا۔

سندھ میں بیراج سسٹم کے بننے سے پہلے سندھ کی ایگریکلچر معیشت بڑھانے والے پیشوں کو مسلمان سماٹ سندھی اور تجارتی معیشت بڑھانے والے پیشوں کو ھندو سماٹ سندھی اختیار کیے ھوئے تھے۔ جبکہ سید اور بلوچ تو سماٹ پر حکومت کیا کرتے تھے۔

بحرحال اس وقت صورتحال یہ ھے کہ؛ سماٹ سندھی کے پاس ایک تو ویسے ھی تھوڑی تھوڑی زمین ھے۔ دوسرا سماٹ سندھی ، سندھ کے مشرق کی طرف زیادہ ھے ، جہاں پانی کی کمی ھے۔ تیسرا سماٹ سندھی کے پاس جدید زرعی ھنرمندی نہیں ھے۔

پنجابی تو سندھ سے اچھے وقت میں پنجاب واپس آ گئے۔ باقی جو سندھ میں پنجابی بچا ھے۔ وہ غریب غرباء یا چھوٹا موٹا زمیندار اور کاروباری ھے۔ انڈسٹری ، ٹریڈ بزنس ، ٹیکنالوجی اور ھنرمندی کے پیشوں والے علاقے ، شہری علاقے ھوتے ھیں ، جو ویسے ھی سندھ میں مھاجروں کے کنٹرول میں ھیں۔ جبکہ دیہی سندھ میں روزگار کا ذریعہ صرف ایگریکلچر ھے ، جس پر سید اور بلوچ کا قبضہ ھے۔

سندھ میں رھنے والے %42 سماٹ ھیں ، جو کہ سندھ کے اصل باشندے ھیں۔ %16 کردستانی نژاد ھیں ، جو خود کو بلوچ کہلواتے ھیں۔ %2 عربی نژاد ھیں ، جو خود کو عباسی ، انصاری ، گیلانی ، جیلانی ، قریشی ، صدیقی وغیرہ کہلواتے ھیں۔

سندھ میں %42 سماٹ ،‬ %16 بلوچ اور %2 عربی کو ، جو کہ سندھ کی آبادی کا %60 بنتے ھیں ، سندھی کہا جاتا ھے۔ جبکہ %19 مھاجر ، %10 پنجابی ، %7 پٹھان ، %4 دیگر کی آبادی سندھ کی آبادی کا %40 بنتے ھیں۔ انہیں سندھی نہیں کہا جاتا۔

تاریخی طور پر سندھ کی %42 سماٹ آبادی صدیوں سے عربی نژاد عباسی ، انصاری ، گیلانی ، جیلانی ، قریشی ، صدیقی وغیرہ اور کردستانی نژاد بلوچ کی بالادستی کی وجہ سے نفسیاتی طور پر "کمتری کے احساس" میں مبتلا ھے۔

صدیوں سے عربی نژاد اور بلوچ نژاد کی بالادستی کی وجہ سے سماٹ سندھی میں مارشل ریس ھونے کی صلاحیت تو ختم ھو ھی چکی تھی۔ لیکن اب اپنی ھی زمین پر حکمرانی کرنے کی خواھش اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کی ھمت تک نہیں رھی۔

سندھ پر پاکستان کے بننے سے پہلے 1843 سے لیکر 1947 تک انگریزوں کی حکمرانی تھی۔

انگریزوں کی حکمرانی سے پہلے 1783 سے لیکر 1843 تک کردستانی نژاد تالپور بلوچ کی حکمرانی تھی۔

تالپور بلوچ کی حکمرانی سے پہلے1701 سے لیکر 1783 تک عربی نژاد عباسی کلھوڑا کی حکمرانی تھی۔

تالپور بلوچ میں مارشل ریس ھونے کی صلاحیت تو نہیں ھے لیکن قبائلی معاشرت اور مزاج کی وجہ سے قبضہ گیری اور جبری حکمرانی کی عادت ھے۔

تالپور بلوچ کے پاس آرمی نہیں بلکہ قبائلی قبضہ گیر گروہ تھا ، جس نے افغانستان کے درانی حکمرانوں کی آشیرباد سے 1783 میں عباسی کلھوڑا کی حکومت ختم کرکے سندھ پر حکمرانی کرنا شروع کردی۔

تالپور بلوچ سے پہلے 1701 سے لیکر 1783 تک مغل حکمرانوں کی آشیرباد سے سندھ پر عباسی کلھوڑا کی حکمرانی تھی۔ عباسی کلھوڑا میں مارشل ریس ھونے کی صلاحیت تو نہیں ھے۔ لیکن عربی معاشرت اور درباری مزاج کی وجہ سے قبضہ گیری اور جبری حکمرانی کی عادت ھے۔

1591 سے لیکر 1701 تک سندھ پر حکمرانی کرنے کے باوجود مغلوں میں اندرونی خلفشار اور حکمرانی کی صلاحیت مفقود ھونے کی وجہ سے دھلی سے دور سندھ پر براہ راست اقتدار کو برقرار رکھنا مشکل ھوگیا تھا۔ اس لیے دھلی دربار سے تعلقات کی وجہ سے عباسی کلھوڑا کو سندھ پر حکمرانی کرنے کا موقع مل گیا۔ عباسی کلھوڑا میں مارشل ریس ھونے کی صلاحیت نہیں تھی ، جسکی وجہ سے عباسی کلھوڑا کی اپنی آرمی نہیں تھی۔ اس لیے سماٹ سندھیوں پر حکمرانی کرنے کے لیے عباسی کلھوڑا کو پنجاب سے کردستانی نژاد تالپور بلوچ لانے پڑے۔ تاکہ عباسی کلھوڑا اشرافیہ بلوچ قبائل کی مدد سے سندھ پر حکمرانی کر سکے۔ لیکن سندھ آنے کے بعد سندھ پر عباسی کلھوڑا اشرافیہ کے ساتھ مل کر سندھ پر حکمرانی کرتے رھنے کے بجائے تالپور بلوچ نے افغانستان کے درانی حکمرانوں کی آشیرباد سے 1783 میں ھالانی کے مقام پر عباسی کلھوڑا کے ساتھ جنگ کرنے کے بعد عباسی کلھوڑا کی حکومت ختم کرکے سندھ پر خود حکمرانی کرنا شروع کردی۔

پاکستان کے بننے کے بعد پاکستان کا پرائم منسٹر یوپی کے اردو اسپیکنگ ھندوستانی لیاقت علی خان کے بن جانے سے اور کراچی کے پاکستان کا دارالحکومت بن جانے کے بعد ستمبر 1948 میں پاکستان کی گورنمنٹ سروس میں امیگرنٹس کے لیے %15 اور کراچی کے لیے %2 کوٹہ رکھ کر لیاقت علی خان نے یوپی ، سی پی سے اردو اسپیکنگ ھندوستانی لا کر کراچی اور سندھ کے دوسرے بڑے شہروں میں آباد کرنا شروع کر دیے اور ھندو سماٹ سندھیوں کو سندھ سے نکالنا شروع کردیا۔

اس عمل کے دوران سندھ کے مسلمان سماٹ سندھیوں نے تو مزاھمت کی لیکن عربی نژاد اور بلوچ نژاد اشرافیہ نے پرائم منسٹر لیاقت علی خان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ اس لیے ھی لیاقت علی خان نے سندھ کے سماٹ وزیر اعلی ایوب کھوڑو کو ھٹا کر عربی نژاد پیر الاھی بخش کو سندھ کا وزیر اعلی بنا دیا۔ جس نے ھندوستان سے لا کر کراچی میں آباد کیے جانے والے مھاجروں کے لیے 1948 میں پہلی کالونی پی آئی بی (پیر الاھی بخش کالونی) بنائی۔ جسکے بعد ھندوستان سے لا کر کراچی میں آباد کیے جانے والے مھاجروں کے لیے سندھ حکومت کی سرپرستی میں کالونیاں بنانے اور ھندو سماٹ سندھیوں کو سندھ سے نکالنے کا سلسلہ منصوبہ بندی کے ساتھ اور تیزی سے شروع کردیا گیا۔

سندھ کے اصل باشندے ، سماٹ سندھی پہلے ھی اکثریت میں ھونے کے باوجود ، صدیوں سے عربی نژاد اور بلوچ نژاد کی بالادستی کی وجہ سے نفسیاتی طور پر کمتری کے احساس میں مبتلا تھے۔ لیکن ھندو سماٹ سندھیوں کو سندھ سے نکال دینے سے سندھ میں سماٹ سندھیوں کی آبادی بھی کم ھو گئی۔ جس کی وجہ سے سندھ کے شہری علاقوں پر یوپی ، سی پی کی اردو بولنے والی ھندوستانی اشرافیہ کی اور سندھ کے دیہی علاقوں پر عربی نژاد اور بلوچ نژاد اشرافیہ کی مکمل بالادستی قائم ھو گئی۔

جب تک سندھ کی آبادی کے %42 سماٹ سندھی کو %2 عربی نژاد ، %16 بلوچ نژاد اور %19 ھندوستانی نژاد مھاجروں کی سیاسی ' سماجی ، معاشی بالادستی سے آزادی نہیں ملتی ، اس وقت تک؛

نہ سندھ کی سیاست ٹھیک ھونی ھے۔

نہ سندھ کا سماجی ماحول ٹھیک ھونا ھے۔

نہ سندھ کا لاء اینڈ آرڈر ٹھیک ھونا ھے۔

نہ سندھ میں معاشی سرگرمیاں ٹھیک ھونی ھیں۔

نہ سندھ میں ایجوکیشن ٹھیک ھونی ھے۔

نہ سندھ کی ایڈمنسٹریشن ٹھیک ھونی ھے۔

نہ سندھ میں ڈویلپمنٹ ٹھیک ھونی ھے۔

No comments:

Post a Comment