کراچی
کے ھندوستانی مھاجر کہتے ھیں کہ؛ کراچی کماتا ھے اور سارا پاکستان کھاتا ھے۔
ھندوستانی مھاجروں کی مثال اس بس کنڈیکٹر جسی ھے جو دن بھر سواریوں سے ٹکٹ کے پیسے
لیکر شام کو بس کے مالک کو دینے کے بعد گھر جاکر بیوی سے کہتا ھے کہ؛ کماتا میں
ھوں اور کھاتا مالک ھے۔
کراچی
دراصل ٹیکس حب ھے۔ ٹیکس حب بھی اس لیے ھے کہ؛ اسٹیٹ بینک ' پرائیویٹ بینکوں اور
کمپنیوں کے ھیڈ آفس کراچی میں ھیں۔ پاکستان کی 62% آبادی پنجاب کی ھونے کی وجہ سے
سب سے زیادہ پروڈکشن ' امپورٹ ' ایکسپورٹ ' روینیو جنریشن پنجاب سے ھوتی ھے۔ لیکن
اسٹیٹ بینک ' پرائیویٹ بینکوں اور کمپنیوں کے ھیڈ آفس کراچی میں ھونے کی وجہ سے
جمع کراچی میں ھوتی ھے۔
ایف
بی آر کے ریکارڈ کا جائزہ لے کر اس حقیقت سے آگاھی حاصل کی جاسکتی ھے کہ؛
1۔
پاکستان کے ٹیکس محصول کا %55 محصول کراچی میں جمع کیا جاتا ھے۔
2۔
کراچی پاکستان کی جی ڈی پی کا تقریبا %20 حصہ پیدا کرتا ھے۔
3۔
سندھ میں سے پاکستان کی جی ڈی پی کا روایتی طور پر تقریبا %25 حصہ پیدا ھوتا ھے۔
4۔
2018 میں پاکستان کے ٹیکس محصول میں پنجاب کا حصہ %48 ' سندھ کا %27 '
خیبرپختونخوا کا %17 ' بلوچستان کا %8 تھا۔
اگر
اسٹیٹ بینک اسلام آباد ' پرائیویٹ بینکوں اور کمپنیوں کے ھیڈ آفس لاھور شفٹ کر دیے
جائیں تو پھر کراچی نے ٹیکس حب بھی نہیں رھنا۔ جبکہ کراچی کی صنعت ' تجارت '
ٹرانسپورٹ اور ھنرمندی کے شعبوں میں پنجابیوں کی سرمایہ کاری کی وجہ سے بھی کراچی
میں ٹیکس جنریٹ ھوتا ھے۔
کراچی
اسٹاک ایکسچینج کے ریکارڈ کے مطابق کراچی اسٹاک ایکسچینج میں سب سے زیادہ سرمایہ
کاری پنجابی کی ھے۔ جسکی وجہ سے کراچی کی معیشت مضبوط ھے۔ کراچی کی صنعت ' تجارت '
ٹرانسپورٹ اور ھنرمندی کے شعبوں میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پنجابی کی ھے۔ جسکی
وجہ سے کراچی کی معیشت چلتی ھے۔
پنجابیوں
کے کراچی کی معشت کو مضبوط کرنے کی وجہ سے نہ صرف کراچی کے سیاست ' صحافت ' سرکاری
اور پرائیویٹ نوکریاں کرنے والے ھندوستانی مھاجر کو روزگار ملتا ھے۔ بلکہ دیہی سندھ
سے جانے والے سندھی کو ' بلوچستان سے جانے والے بلوچ کو ' اور خیبر پختونخواہ سے
جاآنے والے پٹھان کو بھی روزگار ملتا ھے۔
No comments:
Post a Comment