Tuesday, 31 January 2017

گورنر سندھ کی حیثیت سے زبیر عمر سندھ میں بڑی سیاسی تبدیلی لا سکتا ھے۔

زبیر عمر اردو اسپیکنگ مھاجر ھے۔ گورنر سندھ کی حیثیت سے زبیر عمر سندھیوں کے لیے مسئلہ بن سکتا ھے۔ کیونکہ زبیر عمر کی پی ایم ایل این اور پنجاب میں جڑیں بہت گہری ھیں۔ نواز شریف کا اعتماد بھی حاصل ھے۔

زبیر عمر میں اگر سیاسی صلاحیت ھوئی اور کراچی کے مھاجروں ' پنجابیوں اور پٹھانوں کے ساتھ سماجی تعلقات بھی ھوئے اور کراچی کے مھاجروں کے پی ایم ایل این اور پنجاب کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں کامیاب ھوگیا ' تو کراچی کے پنجابی اور پٹھان کے ساتھ بھی کراچی کے مھاجروں کے تعلقات ٹھیک کروانے میں دیر نہیں لگنی۔

کراچی کے مھاجروں کے پی ایم ایل این اور پنجاب کے ساتھ ساتھ کراچی کے پنجابی اور پٹھان کے ساتھ بھی تعلقات ٹھیک ھوگئے تو  کراچی کے پنجابیوں اور پٹھانوں کی وجہ سے سندھ کے دیہی علاقوں میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کے تعلقات بھی مھاجروں کے ساتھ ٹھیک ھوجانے ھیں۔ جسکی وجہ سے کراچی اور سندھ کے دیگر شھری علاقوں کے مھاجروں نے سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی طور پر بہت مظبوط ھوجانا ھے۔

مھاجروں کو کراچی کے پنجابیوں اور پٹھانوں کے ساتھ ساتھ دیہی سندھ کے پنجابیوں اور پٹھانوں کی بھی سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی حمایت مل گئی تو مھاجر ' پنجابی اور پٹھان نے سندھ کی سب سے بڑی طاقت اور سیاسی قوت بن جانا ھے۔ اس لیے پھر مھاجر نے سندھ کا گورنر نہیں بنا کرنا بلکہ سندھ کا وزیرِ اعلیٰ مھاجر اور سندھ کا گورنر سندھ کا پنجابی ھوگا۔

لیکن یہ کہانی سندھیوں کو ابھی سمجھ نہیں آنی اور نہ ھی سندھیوں کو اس مسئلے سے نپٹنے کا حل سمجھ میں آنا ھے۔ کیونکہ؛

ایک طرف تو سندھیوں کی پارٹی پی پی پی کو پنجاب میں پنجابیوں کی طرف سے حمایت ملنے کے امکانات نہ ھونے کے برابر ھوچکے ھیں۔ جسکی وجہ سے مستقبل میں صرف دیہی سندھ کی قومی اسمبلی کی 41 نشستوں کی بنیاد پر پی پی پی کو پاکستان کی وفاقی حکومت بنانے کا موقع نہیں ملنا اور صرف سندھ کی صوبائی حکومت تک ھی محدود رھنا پڑنا ھے۔

دوسری طرف پاکستان کا صدر ' کراچی و حیدرآباد کے میئر و ڈپٹی میئر ' ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی کے بعد اب سندھ کا گورنر بھی پنجاب کی سیاسی پارٹی پی ایم ایل این کی وفاقی حکومت کا نامزد کردہ اردو اسپیکنگ مھاجر بن گیا ھے۔ لیکن سندھی شور پنجابی اور پنجاب کا کرتے پھر رھے ھیں اور سندھیوں کو پتہ ھی نہیں کہ زبیر عمر کون ھے؟

سندھی ویسے ھی زبیر عمر کو پنجابی سمجھ رھے ھیں جیسے ماضی میں یوپی کے اردو اسپیکنگ مھاجر لیاقت علی خاں ' ککے زئی پٹھان ملک غلام محمد اور نیازی پٹھان امان اللہ خان کو پنجابی سمجھ کر پنجاب اور پنجابیوں کو گالیاں دیتے رھے۔ پنجابیوں کی سندھیوں کے لیے نفرت سمیٹے رھے۔ پنجابیوں کے دلوں میں سندھ میں سندھیوں کے بجائے مھاجروں کے لیے نرم گوشہ بناتے رھے۔ جبکہ مھاجر اس صورتحال کا فائدہ اٹھاکر ' مھاجر ' پنجابی ' پٹھان اتحاد بنا کر ' پنجابیوں اور پٹھانوں کا تعاون حاصل کرکے خود کو سیاسی ' سماجی ' انتظامی طور پر مظبوط کرکے سندھ کے شھری علاقوں پر قبضہ کرتے رھے۔

چونکہ 1972 میں قائم ھونے والا مھاجر ' پنجابی ' پٹھان اتحاد مھاجروں کی طرف سے  1986 میں مھاجر قومی موومنٹ کے قیام اور مھاجر پنجابی ' مھاجر پٹھان فسادات کی وجہ سے ختم ھوگیا تھا۔ اس لیے 1986 کے بعد سے لیکر مھاجروں کو نہ سندھ کے پنجابیوں اور پٹھانوں کا سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی تعاون مل رھا تھا اور نہ پنجاب کا۔ اس لیے 1986 کے بعد سے مھاجر مستقل سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی زوال کا شکار ھوتے جارھے تھے۔ جو کہ اب سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی بحران تک پہنچ چکا ھے۔ اس لیے ھوسکتا ھے کہ زبیر عمر  کے سندھ کا گورنر  بننے کی وجہ سے مھاجر اب ایک بار پھر سے پنجاب کے ساتھ ساتھ کراچی کے پنجابی اور پٹھان کے ساتھ بھی تعلقات ٹھیک کرکے خود کو سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی بحران سے نکال کر سیاسی ' سماجی ' معاشی اور انتظامی استحکام حاصل کرنے میں کامیاب ھو جائیں۔

سندھ کا نیا گورنر زبیر عمر اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر ھے۔

زبیر عمر اردو اسپیکنگ ھندوستانی مھاجر غلام عمر کے گھر میں 1956ء کو پیدا ھوا۔

حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جنرل غلام عمر جنگی مجرم تھا۔

جنرل غلام عمر مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے قتلِ عام کا آرکیٹیکٹ تھا۔

جنرل غلام عمر کو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے برطرف کردیا تھا اور وہ 5 سال قید بھی رھا۔

جنرل غلام عمر کا فرزند زبیر عمر اب سندھ کا گورنر ھے۔

زبیر عمر کراچی میں پلا بڑھا اور کراچی سے ھی ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری لی۔

زبیر عمر کراچی کے علاقے ڈیفنس کا رہائشی اور 3 بچوں کا والد ھے جبکہ 6 بھائیوں میں اس کا نمبر چوتھا ھے۔

زبیر عمر کا گھرانہ بھی اردو اسپیکنگ ھے اور کراچی میں رھائش پذیر ھے۔

زبیر عمر 1981 سے 2007 تک امریکہ کی معروف آئی ٹی کمپنی آئی بی ایم کے ساتھ وابستہ رھا اور چیف فنانشل آفیسر کے عھدے تک پہنچا۔

زبیر عمر آئی بی ایم کمپنی کی 26 سالہ نوکری کے دوران پیرس ' روم ' میلان اور دبئی میں فرائض انجام دیتا رھا۔

زبیر عمر نے 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔

زبیر عمر کو پہلے بورڈ آف انویسٹمنٹ کا چیئر مین اور دسمبر 2013ء میں وزیر مملکت کا رتبہ دے کر نجکاری کمیشن کا سربراہ بنایا گیا۔

زبیر عمر تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اسد عمر کا بڑا بھائی ھے۔

اسد عمر 1961 میں پیدا ھوا۔ کراچی سے 1984 میں ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری لی۔ 2012ء میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور 
2013ء کے انتخاب میں اسلام آباد سے قومی اسمبلی کا رکن منتخب ھوا۔

پاکستان کے 30 بڑے شھروں میں اکثریتی آبادی کن کی ھے؟

تعلیم ‘ صحت ‘ تجارت ‘ صنعت ‘ سیاست ‘ صحافت کی سہولتیں بڑے شہروں میں ھی ھوتی ھیں۔ پاکستان کے شھروں کی آبادی کا جائزہ لیا جائے تو سب سے بہتر صورتحال پنجابیوں کی ھے اور اس کے بعد مھاجروں کی لیکن پٹھان اور سندھیوں کے پاس شھری ماحول کے مواقعے بہت کم ھیں۔ جبکہ بلوچوں کے پاس صرف ایک چھوتا سا شھر ھے اور وہ بھی بروھیوں کا ھے ‘ جو کہ بلوچستان کے اصل باشندے ھیں اور کردستانی نزاد لوگ ‘ جو عام طور پر خود کو بلوچ کہلواتے ھیں ‘ انکی اکثریتی آبادی والا پاکستان بھر میں کوئی بھی بڑا شھر نہیں ھے۔

پاکستان کے وہ شھر جن کی آبادی 2 لاکھ سے زیادہ ھے ‘ وہ 30 ھیں۔ پاکستان کے ان 30 بڑے شھروں میں سے؛

پنجابیوں کی اکثریتی آبادی والے شھر 20 ھیں۔

1۔ لاھور 2۔ فیصل آباد 3۔ راولپنڈی 4۔ ملتان 5۔ گوجرانوالا 6۔ اسلام آباد 7۔ سرگودھا 8۔ سیالکوٹ 9۔ بھاولپور 10۔ جھنگ 11۔ شیخوپورہ 12۔ گجرات 13۔ قصور 14۔ رحیم یار خان 15۔ ساھیوال 16۔اوکاڑہ 17۔ واہ 18۔ ڈیرہ غازی خان 19۔ چینوٹ 20۔ کاموکی۔

مھاجروں کی اکثریتی آبادی والے شھر 5 ھیں۔

1۔ کراچی 2۔ حیدرآباد 3۔ سکھر 4۔ میرپور خاص 5۔ نواب شاہ۔

پٹھانوں کی اکثریتی آبادی والے شھر 4 ھیں۔

1۔ پشاور 2۔ کوئٹہ 3۔ مرادن 4۔ مینگورہ۔

سندھیوں کی اکثریتی آبادی والے شھر ایک ھے۔

1۔ لاڑکانہ


بلوچوں کی اکثریتی آبادی والا شھر کوئی بھی نھیں ھے۔

Monday, 30 January 2017

مھاجر کو سندھ کا گورنر کیوں نہیں بنانا چاھیئے تھا؟

پاکستان کا صدر وفاق میں وفاق کا نمائندہ ھوتا ھے اور گورنر صوبے میں وفاق کا نمائندہ ھوتا ھے لیکن سندھ کی گورنری تو لگتا ھے جیسے مہاجروں کے لیے ھی مخصوص کردی گئی ھے حالانکہ مہاجروں کو نہ تو پاکستان کے وفاقی معاملات ' مسائل اور مفادات کا کچھ اندازہ ھے ' نہ سندھیوں کے وفاق کے ساتھ تعلقات کو  بہتر بنانے سے کوئی دلچسپی ھے۔

سندھ میں مہاجر چونکہ سندھ کے شہری علاقوں پر قابض ھیں ' اس لیے دیہی سندھ تک محدود سندھیوں کو سندھ کے شہری علاقوں میں منتقل اور مستحکم ھونے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرتے رھتے ھیں۔

اس لیے ' وفاق کے نمائدے کے طور پر پاکستان کا صدر اور سندھ کا گورنر بننے کے بعد  مہاجر صدر اور مہاجر گورنر '  وفاق اور سندھیوں میں تعلقات کو  مظبوط و مستحکم کرنے کے بجائے محاذآرائی کی طرف لے جانے کی کوششیں اور سازشیں کرتا رھتا ھے۔

دوسری طرف ' سندھ میں مہاجر کی صرف سندھیوں کے ساتھ ھی محاذآرائی نہیں ھے بلکہ سندھ  میں رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کے ساتھ بھی ان کی محاذآرائی رھتی ھے۔ اس لئے ' مہاجر گورنر کے ھوتے ھوئے مہاجر گورنر سندھ میں آباد پنجابیوں '  پٹھانوں اور سندھ کے اصل سندھیوں کے درمیاں تعلقات کو  مظبوط و مستحکم کرنے کے بجائے سندھ کے اصل سندھیوں اور پنجابیوں ' پٹھانوں کے درمیان محاذآرائی پیدا کرنے کی کوششیں اور سازشیں کرتا رھتا ھے۔

مہاجر اصل میں 1972 میں ذالفقار علی بھٹو اور اس وقت سندھ میں قائم مہاجر '  پنجابی '  پٹھان اتحاد کے درمیان ھونے والے معاھدہ کا ناجائز فائدھ اٹھا رھے ھیں.  سندھ کے وزیر اعلی ممتاز بھٹو کے وقت میں ' 1972 میں سندھ اسمبلی میں لینگویج بل پیش کیا گیا جس کے تحت سندھ کی سرکاری اور تعلیمی زبان اردو کے بجائے صرف سندھی کو قرار دینا تھا. لینگویج بل سندھ اسمبلی میں پیش ھوتے ھی سندھ میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے.

اس وقت کے حالات میں مہاجر '  پنجابی '  پٹھان کو غیر سندھی قرار دیا جاتا تھا جسکی وجہ سے سندھ کے ایک مہاجر سیاستدان نواب مظفر علی خاں کی قیادت میں مہاجر '  پنجابی '  پٹھان اتحاد بنا ھوا تھا اور سندھ کے مہاجر '  پنجابی '  پٹھان نواب مظفر علی خاں کی قیادت میں متحد تھے۔ مہاجر اردو زبان کو بھی سندھ کی سرکاری اور تعلیمی زبان رکھنا چاھتے تھے۔ سندھ کے  پنجابی اور پٹھان ' مہاجروں کے اتحادی ھونے کی وجہ سے اور بعض دیگر وجوھات کی بنا پر مہاجروں کے مطالبے کی حمایت کر رھے تھے۔

سندھ میں اردو اور سندھی کی بنیاد پر لسانی فسادات کے بعد ذالفقار علی بھٹو کو ٹی وی پر آکر سندھ کے غیر سندھی مہاجروں ' پنجابیوں اور پٹھانوں سے معافی مانگنی پڑی اور صرف سندھی کو سندھ کی سرکاری اور تعلیمی زبان قرار دینے کا بل واپس لینے کے ساتھ ساتھ یہ معاھدہ بھی کرنا پڑا کہ سندھ کا وزیرِ اعلیٰ سندھی اور گورنر غیر سندھی ھوا کرے گا۔ اس لیے اس وقت کے سندھ کے سندھی گورنر رسول بخش تالپور کو ھٹاکر مہاجر بیگم رعنا لیاقت علی خاں کو سندھ کا گورنر بنا دیا گیا۔ ایم کیو ایم کے قیام تک سندھ کے مہاجر ' پنجابی ' پٹھان ' غیر سندھی کی بنیاد پر ایک تھے لیکن یہ اور بات ھے کہ سندھ کا گورنر غیر سندھی کے معاھدے کے تحت صرف مہاجر ھی بنتا رھا۔

ایم کیو ایم کے قیام کے بعد سندھ کے پنجابی اور پٹھان چونکہ اب مہاجر سے الگ ھوچکے ھیں اس لیے ۔۔۔۔۔

سندھ کے مفاد کی خاطر ۔۔۔۔۔۔۔

سندھیوں  کے مفاد کی خاطر ۔۔۔۔۔۔۔

سندھ کے رھنے والے پنجابیوں اور پٹھانوں کے مفاد کی خاطر ۔۔۔۔۔۔۔

غیر سندھی کے نام پر مہاجر کو سندھ  کا  گورنر بنانے  کا رواج نہ صرف  اب ختم ھونا چاھیئے بلکہ سندھ اور وفاق کے درمیان شکوہ ' شکایت اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے سیاسی طور پر بہتر یہ ھے کہ؛ پاکستان کا صدر سندھی اور سندھ کا گورنر سندھ کا سندھی بولنے والا پنجابی آبادگار ھو۔

سندھ میں ' سندھ کی مجموعی آبادی کے مطابق تو سندھی پہلے ' مہاجر دوسرے ' پنجابی تیسرے اور پٹھان چوتھے نمبر پر ھیں لیکن کراچی میں مہاجر پہلے ' پنجابی دوسرے ' پٹھان تیسرے اور سندھی چوتھے نمبر پر ھیں جبکہ اندرون سندھ ' سندھی پہلے ' پنجابی دوسرے ' مہاجر تیسرے اور پٹھان چوتھے نمبر پر ھیں۔ اس لیے سندھ کا گورنر سندھ کا سندھی بولنے والا پنجابی آبادگار ھونا چاھیئے۔ کیونکہ اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی پاکستان کے 126 اضلاع میں سے صرف ساڑھے تین اضلاع میں اکثریت ھے۔ جو کہ کراچی کا ضلع سینٹرل ' ضلع ایسٹ اور ضلع کورنگی ھیں اور آدھا ضلع حیدرآباد ضلع کی تحصیل حیدرآباد اور لطیف آباد ھے۔ اس لیے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی نہ پاکستان کے وفاقی معاملات میں ضرورت ھے اور نہ سندھ کے صوبائی معاملات میں اھمیت ھے۔

پاکستان مسلم لیگ ن نے 2013 میں وفاقی حکومت بنانے کے بعد بھی پی پی پی کی وفاقی حکومت کی طرف سے نامزد کردہ ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کو ھی سندھ میں گورنر رھنے دیا تھا۔ لیکن سندھ میںں اغوا ' بھتہ غوری ' ٹارگٹ کلنگ ' دھشتگردی اور ایم کیو ایم کی ملک دشمن سرگرمیوں کے خلاف رینجرس کےے آپریشن کی وجہ سے اور سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کے اغوا ' بھتہ غوری ' ٹارگٹ کلنگ ' دھشتگریی میں ملوث عناصر کے ساتھ روابط اور ایم کیو ایم کے ساتھ تعاون کی وجہ سے ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹرر عشرت العباد کو ھٹا کر ایک عمر رسیدہ ' غیر سیاسی اور غیر موثر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کو سندھ کا گورنر نامزد کردیا تھا۔

سعید الزمان صدیقی کے انتقال کے بعد اب وفاقی حکومت نے سندھ کا نیا گورنر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر زبیر عمر کو نامزد کردیا ھے۔ حالانکہ پاکستان کے موجودہ حالات کا سیاسی تقاضہ تھا کہ پاکستان کا وزیرِ اعظم پنجابی اور سندھ کا وزیرِ اعلیٰ سندھی جبکہ پاکستان کا صدر ' سندھ کی ڈپٹی اسپیکر ' کراچی ' حیدرآباد کے میئر و ڈپٹی میئر ' اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے ھونے کی وجہ سے سندھ کا گورنر بھی اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجر کو بنانے کے بجائے سندھ کا گورنر کسی باصلاحیت سندھی یا سندھ میں رھنے والے اور سندھی زبان بولنے والے کسی باصلاحیت پنجابی آبادگار کو بنایا جاتا۔ بلکہ بہتر ھوتا کہ پاکستان کا صدر سندھ کے کسی باصلاحیت سندھی اور سندھ کا گورنر سندھ میں رھنے والے اور سندھی زبان بولنے والے کسی باصلاحیت پنجابی آبادگار کو بنایا جاتا۔ جو ایک تو سندھ کے رھنے والے سندھیوں ' پنجابیوں ' پٹھانوں اور مہاجروں کے درمیان باھمی سماجی رابطے کو بہتر بناتے اور دوسرا وفاق کے نمائندے ھونے کی وجہ سے سندھ اور پنجاب کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرکے ' سندھیوں اور پنجابیوں کے درمیان موجود غلط فہمیوں اور شکوہ شکایتوں کو سماجی سطح پر ختم کروانے کے لیے سندھ اور پنجاب کی علمی ' ادبی اور دانشور شخصیات کے آپس میں روابط بھی کرواتے۔ جو کہ اردو بولنے والا ھندوستانی مہاجر پاکستان کا صدر یا سندھ کا اردو بولنے والا ھندوستانی مہاجر گونر کسی صورت نہیں کرے گا۔ بلکہ کرنے ھی نہیں دے گا۔ کیونکہ؛

اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی پاکستان کے 126 اضلاع میں سے صرف ساڑھے تین اضلاع میں اکثریت ھے۔ جو کہ کراچی کا ضلع سینٹرل ' ضلع ایسٹ اور ضلع کورنگی ھیں اور آدھا ضلع حیدرآباد ضلع کی تحصیل حیدرآباد اور لطیف آباد ھے۔ اس لیے یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں  کو کراچی ' یوپی ' سی کے رسم و رواج اور اردو زبان کے علاوہ اور کسی چیز سے دلچسپی نہیں۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جب کہتے ہیں کہ پاکستان پہلے تو اس سے انکی مراد کراچی ھوتا ھے نہ کہ پنجاب ' دیہی سندھ ' خیبر پختونخواہ اور بلوچستان۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جب کہتے ہیں کہ پاکستانیت تو اس سے انکی مراد یوپی ' سی کے رسم و رواج اور اردو زبان ھوتی ھے ' نہ کہ پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ کے رسم و رواج اور نہ پنجابی ' سندھی ' پشتو اور بلوچی زبان۔

اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جب کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم کی ترقی تو اس سے انکی مراد یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر ہی ھوتے ہیں نہ کہ پاکستان کی اصل قومیں پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ۔

Sunday, 29 January 2017

دنیا کے کھیل کی حدود و قیود۔

دنیا میں ھر بندہ کھیل کھیلنے پر مجبور ھے۔
دنیا کے اس کھیل کو سیاست بھی کہا جاسکتا ھے۔
دنیا کے اس کھیل کی حدود اور قیود ھوتی ھیں۔
کھیل قائدے ' قانون اوراخلاق کے دائرے میں رہ کر اچھا کھیلنے 
یا قائدے ' قانون اور اخلاق کے دائرے سے نکل کر برا کھیلنے 
کی قیود سے ھٹ کر 
ھر بندے کے کھیل میں فرق حدود کا بھی ھوتا ھے کہ؛
1۔ کوئی بندہ کھیل اپنے گھر کی حد تک کھیل رھا ھے۔
2۔ کوئی بندہ کھیل اپنی گلی کی حد تک کھیل رھا ھے۔
3۔ کوئی بندہ کھیل اپنے محلے کی حد تک کھیل رھا ھے۔
4۔ کوئی بندہ کھیل اپنی یونین کونسل کی حد تک کھیل رھا ھے۔
5۔ کوئی بندہ کھیل اپنی تحصیل کی حد تک کھیل رھا ھے۔
6۔ کوئی بندہ کھیل اپنے ضلع کی حد تک کھیل رھا ھے۔
7۔ کوئی بندہ کھیل اپنے صوبے کی حد تک کھیل رھا ھے۔
8۔ کوئی بندہ کھیل اپنے ملک کی حد تک کھیل رھا ھے۔
9۔ کوئی بندہ کھیل عالمی سطح پر کھیل رھا ھے۔

کھیل کی حدود کی وجہ سے
بڑی حد تک کھیل کھیلنے والا
خود سے چھوٹی حد تک کھیل کھیلنے والے پر اثر انداز ھوتا ھے۔
اس لیے ھی؛
1۔ عالمی سطح پر کامیاب کھیل کھیلنے والا ملک کی حد تک کھیل کھیلنے والے پر اثر انداز ھوتا ھے۔
2۔ ملک کی حد تک کامیاب کھیل کھیلنے والا صوبے کی حد تک کھیل  کھیلنے والے پر اثر انداز ھوتا ھے۔
3۔ صوبے کی حد تک کامیاب کھیل  کھیلنے والا ضلع کی حد تک کھیل  کھیلنے والے پر اثر انداز ھوتا ھے۔
4۔ ضلع کی حد تک کامیاب کھیل  کھیلنے والا تحصیل کی حد تک کھیل  کھیلنے والے پر اثر انداز ھوتا ھے۔
5۔ تحصیل کی حد تک کامیاب کھیل  کھیلنے والا یونین کونسل کی حد تک کھیل  کھیلنے والے پر اثر انداز ھوتا ھے۔
6۔ یونین کونسل کی حد تک کامیاب کھیل  کھیلنے والا محلے کی حد تک کھیل  کھیلنے والے پر اثر انداز ھوتا ھے۔
7۔ محلے کی حد تک کامیاب کھیل  کھیلنے والا گلی کی حد تک کھیل  کھیلنے والے پر اثر انداز ھوتا ھے۔
8۔ گلی کی حد تک کامیاب کھیل  کھیلنے والا گھر کی حد تک کھیل  کھیلنے والے پر اثر انداز ھوتا ھے۔
9۔ گھر کی حد تک کامیاب کھیل  کھیلنے والا انفرادی کھیل  کھیلنے والے پر اثر انداز ھوتا ھے۔

پنجاب ' پنجاب ھے اور پنجابی ' پنجابی ھی ھوتا ھے۔

وہ زمین جس پر پانچ دریا ھیں اس کو پنجاب کہتے ھیں۔

پانچ دریاؤں کی دھرتی ' جب سے پانچ دریا وجود میں آئے ' اس وقت سے ھی ھے۔

پانچ دریاؤں کی دھرتی پر رھنے والوں کو پانچ دریاؤں کے حوالے سے پنجابی کہا جاتا ھے۔

پانچ دریاؤں کی دھرتی کے رھنے والے جو زبان بولتے ھیں ' اس زباں کو پنجابی زبان کہا جاتا ھے۔

پنجاب پنجابیوں کا دیش ھے۔ پنجابی زبان پنجابیوں کی زبان ھے۔ پنجابی ثقافت پنجابیوں کی ثقافت ھے۔ پنجابی رسم و رواج پنجابیوں کے رسم و رواج ھیں۔

پانچ دریاؤں کی دھرتی پر رھنے والے مذھب کے لحاظ سے مسلمان ' ھندو ' سکھ ' عیسائی ھونے کے باوجود قوم کے لحاظ سے پنجابی ھی ھیں۔ اس لیے ھی پنجاب کی دھرتی سیکولر دھرتی اور پنجابی قوم سیکولر قوم رھی ھے۔

1947 میں پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے جو پنجابی ' پنجاب کے مشرقی کی طرف سے پنجاب کے مغرب کی طرف آئے ' وہ بھارت سے نہیں ' پنجاب سے پنجاب آئے۔

1947 سے پہلے بھی پنجاب ' پنجاب تھا اور 1947 کے بعد بھی پنجاب ' پنجاب ھی ھے۔

پنجاب کو کاٹ کر پنجاب کا مغربی حصہ پاکستان اور مشرقی حصہ بھارت میں شامل کرنے کا مطلب یہ نہیں ھے کہ پنجاب اور پنجابیوں کا وجود ختم ھو گیا۔

پنجاب اب بھی موجود ھے اور پنجابی قوم بھی موجود ھے۔

پنجاب ' پنجاب ھی ھے اور پنجابی جہاں بھی ھو ' پنجابی ھی ھوتا ھے۔

پنجابی چاھے مسلمان پنجابی ھو یا ھندو پنجابی۔ سکھ پنجابی ھو یا عیسائی پنجابی۔ پنجابی ' پنجابی ھی ھوتا ھے۔

پنجاب تاریخی طور پر ھزاروں سالوں سے پنجابیوں کی دھرتی رھی ھے اور رھے گی۔ پنجابیوں کی دھرتی دھرم کی بنیاد پر تقسیم ھوگئی تھی۔ جب پنجابیوں کو سمجھ آگئی کہ دھرم اپنی جگہ اور دھرتی اپنی جگہ تو وچھوڑے ختم ھونا شروع ھوجائیں گے۔ لکیریں بھی قوموں کو کبھی تقسیم کرتی ھیں؟

ستلج اور راوی کے علاقے پنجاب کے ایک ھونے سے ھی سیراب ھونگے۔

پاکستان کے 15 اگست 1947 کو قیام کے دو دن کے بعد 17 اگست 1947 کو پنجاب کا مغرب کا علاقہ پاکستان اور پنجاب کا مشرق کا علاقہ ھندوستان میں شامل کردیا گیا۔ پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے پنجاب کے دریا ستلج ' راوی ' بیاس ' چناب ' جہلم اور سندھ بھی تقسیم ھو گئے۔

پنجاب کو کاٹ کر پنجاب کا مغربی حصہ پاکستان اور مشرقی حصہ بھارت میں شامل کرنے کا مطلب یہ نہیں ھے کہ پنجاب اور پنجابیوں کا وجود ختم ھو گیا اور پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے پنجاب کے دریا ستلج ' راوی ' بیاس اب پنجاب کے دریا نہیں رھے اور ھندوستان کے دریا بن گئے؟

بحرحال پنجاب کی تقسیم کے بعد مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کو آنے والا ستلج ' راوی اور بیاس دریاؤں کا پانی مغربی پنجاب کو نہیں مل سکتا تھا۔ کیونکہ دریا کے پانی کے استعمال کے لیے کوئی بین الاقوامی قانون نہیں ھے۔ اس لیے جس زمین پر دریا پہلے ھوتا ھے ' وھاں کے رھنے والے دریا کا پانی پہلے استعمال کرتے ھیں۔ اس لیے پنجاب کے تقسیم ھونے سے مغربی پنجاب نے مشرقی پنجاب سے آنے والے تین دریاؤں کے پانی سے محروم ھونا ھی تھا۔

ستلج ' راوی اور بیاس سے سیراب ھونے والے علاقوں کو 10 لاکھ ٹیوب ویل چلا کر سیراب کیا جاتا رھا لیکن اب تو ٹیوب ویل کا پانی بھی بہت زیادہ گہرائی میں چلا گیا ھے جو کہ چند سالوں کے بعد ختم ھو جائے گا۔

ستلج ' راوی اور بیاس سے سیراب ھونے والے علاقوں کو 10 لاکھ ٹیوب ویل چلاکر سیراب کرنے سے کتنا خرچہ ھوتا ھے؟ اسکا اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں ' سندھیوں ' بلوچوں ' پٹھانوں کو اندازہ نہیں۔ نہ اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں ' سندھیوں ' بلوچوں ' پٹھانوں کو یہ احساس ھے کہ پنجاب کی تقسیم سے ستلج ' راوی اور بیاس سے سیراب ھونے والے علاقے کا پنجابی معاشی طور پر کیسے تباہ و برباد ھو رھا ھے۔

کالاباغ ڈیم یا دریائے سندھ پر کہیں بھی ڈیم بنانے سے ستلج ' راوی اور بیاس سے سیراب ھونے والے علاقے سیراب نہیں ھونگے۔ ستلج ' راوی اور بیاس سے سیراب ھونے والے علاقے مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب کے پھر سے ایک ھونے کے بعد ھی سیراب ھو سکتے ھیں۔

اس لیے ستلج ' راوی اور بیاس سے سیراب ھونے والے علاقوں کو سیراب کرنے کا حل صرف یہ ھے کہ تقسیم شدہ پنجاب کو پھر سے ایک کیا جائے۔ کیونکہ ستلج ' راوی اور بیاس سے سیراب ھونے والے علاقے صرف مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب کے پھر سے ایک ھونے کے بعد ھی سیراب ھو سکتے ھیں۔

Tuesday, 24 January 2017

گورنر سندھ کی نامزدگی میں تاخیر کی وجہ کیا ھے؟

سندھ کے گورنر سعید الزمان صدیقی کے انتقال کے بعد اب پاکستان مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت نے سندھ کا نیا گورنر نامزد کرنا ھے۔ لیکن گورنر سندھ کی نامزدگی کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے سندھ کے لیے سیاسی اور وفاقی حکومت کی طرف سے سندھ کے لیے انتظامی ترجیحات کا تعین نہ ھو پانے کی وجہ سے گورنر سندھ کی نامزدگی میں تاخیر ھو رھی ھے۔

1۔ اگر سندھ میں سیاسی عدم دلچسپی کی وجہ سے کراچی میں ایم کیو ایم اور سندھ کے دیہی علاقوں میں پی پی پی کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاسی مقابلے سے گریز کرنے کی پالیسی برقرار ھے تو پھر پاکستانن مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کی ترجیح غیر سیاسی اور غیر موثر شخص کو سندھ کا گورنر نامزد کرنا ھوگی۔

2۔ اگر کراچی میں اغوا ' بھتہ غوری ' ٹارگٹ کلنگ ' دھشتگردی اور ایم کیو ایم کی ملک دشمن سرگرمیوں کے خلاف رینجرس کے انتطامی آپریشن کی وجہ سے رینجرس کو کراچی کے عوام کی عوامی حمایت کے ساتھ ساتھھ سیاسی حمایت دلوانے ' کراچی میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سیاسی دلچسپی لینے اور ایم کیو ایم کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاسی مقابلہ کرنے کی پالیسی بن رھی ھے تو پھر پاکستان مسلم لیگ ن کی وفاقیی حکومت کی ترجیح ایسے سیاسی اور موثر شخص کو سندھ کا گورنر نامزد کرنا ھوگی جو کراچی میں رھنےے والے پنجابیوں ' پٹھانوں ' گجراتیوں ' راجستھانیوں ' سندھیوں ' بروھیوں اور بلوچوں کے آپس میں روابطط کروا کر متحرک اور متحد کرکے کراچی پر قابض اور ایم کیو ایم کے اصل کرتا دھرتا افراد ' یوپی ' سی پی کےے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں اور بہاریوں کی بالادستی سے نجات دلوا سکے تاکہ کراچی میں رھنے والے پنجابی ' پٹھان ' گجراتی ' راجستھانی ' سندھی ' بروھی اور بلوچ پاکستان مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے کراچی کی سیاست کرسکیں۔

3۔ اگر سندھ کے دیہی علاقوں میں بھی اغوا ' بھتہ غوری ' ٹارگٹ کلنگ ' دھشتگردی اور پی پی پی کی ملک دشمن سرگرمیوں کے خلاف رینجرس کا انتطامی آپریشن متوقع ھے اور رینجرس کو سندھ کے دیہی علاقوں کےے عوام کی عوامی حمایت کے ساتھ ساتھ سیاسی حمایت دلوانے ' سندھ کے دیہی علاقوں میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سیاسی دلچسپی لینے اور پی پی پی کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاسی مقابلہ کرنے کی پالیسیی بن رھی ھے تو پھر پاکستان مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کی ترجیح ایسے سیاسی اور موثر شخص کو سندھھ کا گورنر نامزد کرنا ھوگی جو دیہی سندھ میں رھنے والے سماٹ سندھیوں ' پنجابیوں ' پٹھانوں ' گجراتیوں ' راجستھانیوں اور بروھیوں کے آپس میں روابط کروا کر متحرک اور متحد کرکے دیہی سندھ پر قابض اور پی پی پی کے اصل کرتا دھرتا افراد ' بلوچ نزاد سندھیوں اور عربی نزاد سندھیوں کی بالادستی سے نجات دلوا سکےے تاکہ دیہی سندھ میں رھنے والے سماٹ سندھی ' پنجابی ' پٹھان ' گجراتی ' راجستھانی اور بروھی پاکستانن مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے دیہی سندھ کی سیاست کرسکیں۔

4۔ اگر بیک وقت کراچی اور سندھ کے دیہی علاقوں میں اغوا ' بھتہ غوری ' ٹارگٹ کلنگ ' دھشتگردی ' ایم کیو ایم اور پی پی پی کی ملک دشمن سرگرمیوں کے خلاف رینجرس کے انتطامی آپریشن کو کراچی اور دیہی سندھ کے عوام کی عوامی حمایت کے ساتھ ساتھ سیاسی حمایت دلوانے ' پاکستان مسلم لیگ ن کے بیک وقت کراچی اور سندھ کے دیہی علاقوں میں سیاسی دلچسپی لینے ' ایم کیو ایم اور پی پی پی کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاسی مقابلہ کرنے کی پالیسی بن رھی ھے تو پھر پاکستان مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کی ترجیح ایسے سیاسی اور موثر شخص کو سندھ کا گورنر نامزد کرنا ھوگی جو کراچی میں رھنے والےے پنجابیوں ' پٹھانوں ' گجراتیوں ' راجستھانیوں ' سندھیوں ' بروھیوں اور بلوچوں کے آپس میں روابط کروا کرر متحرک اور متحد کرکے کراچی پر قابض اور ایم کیو ایم کے اصل کرتا دھرتا افراد ' یوپی ' سی پی کے اردو بولنےے والے ھندوستانی مھاجروں اور بہاریوں کی بالادستی سے نجات دلوا سکے تاکہ کراچی میں رھنے والے پنجابی '' پٹھان ' گجراتی ' راجستھانی ' سندھی ' بروھی اور بلوچ پاکستان مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے کراچی کیی سیاست کرسکیں اور دیہی سندھ میں رھنے والے سماٹ سندھیوں ' پنجابیوں ' پٹھانوں ' گجراتیوں '' راجستھانیوں اور بروھیوں کے آپس میں روابط کروا کر متحرک اور متحد کرکے دیہی سندھ پر قابض اور پی پی پی کے اصل کرتا دھرتا افراد ' بلوچ نزاد سندھیوں اور عربی نزاد سندھیوں کی بالادستی سے نجات دلوا سکے تاکہ دیہی سندھ میں رھنے والے سماٹ سندھی ' پنجابی ' پٹھان ' گجراتی ' راجستھانی اور بروھی پاکستانن مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے دیہی سندھ کی سیاست کرسکیں۔

Sunday, 22 January 2017

جنوبی پنجاب میں سرائیکی سازش کون کر رھے ھیں اور کیوں کر رھے ھیں؟

سرائیکی کا لفظ 1962 میں وجود میں لاکر "سرائیکی" کے نام پر پنجاب میں آباد ھونے والے بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیرداروں نے سازش کرکے ملتانی پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں اور ریاستی پنجابیوں کی شناخت ختم کرکے ان کو اپنا سماجی ' سیاسی اور معاشی غلام بنایا ھوا ھے۔

دراصل جنوبی پنجاب کے دیہی علاقوں پر جنوبی پنجاب میں مقیم بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیردار اپنی بالادستی قائم کر تے چلے آرھے تھے۔ جس کا پنجابی قوم نے بروقت تدارک نہ کیا۔ جس کا نتیجا یہ نکلا کہ بالادستی کو قائم کرنے کے بعد اب یہ بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیردار اپنی بالادستی کو مستقل شکل دینا چاھتے ھیں۔ اسکے لئے پنجاب کو "سرائیکی" یا "جنوبی پنجاب" کے نام پر تقسیم کرنے اور پنجابی قوم کو سیاسی ' سماجی' معاشی اور انتظامی مشکلات میں مبتلا کرنے میں مصروف ھیں۔

بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیردار پنجاب کے اندر "سرائیکی سازش" میں اسلیے مصروف ھیں تاکہ انگریز سرکار سے ملنے والی جاگیروں کو مستقل طور پر محفوظ  کرنے ' پنجاب کے دریاؤں کے کچے کے علاقوں پر کیے گئے قبضوں کو مستقل کرنے اور ملتانی پنجابیوں ' ریاستی پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں پر اپنا سماجی ' سیاسی ' معاشی تسلط برقرار رکھنے کے لیے "سرائیکی" یا " جنوبی پنجاب" کے نام سے صوبہ بنوا کر اس کی حکومت یہ بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیردار خود سنبھال لیں تاکہ مقامی اور صوبائی معاملات میں ان بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیرداروں کے ظلم اور زیادتیوں کو صوبائی حکومت کے انہی بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیرداروں کے پاس ھونے کی وجہ سے انکو تحفظ بھی مل سکے اور یہ بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیردار پنجاب ' پنجابیوں اور وفاقی حکومت کو مزید بلیک میل بھی کرسکیں۔

جنوبی پنجاب میں رھنے والے سارے ھی عربی ' افغانی ' بلوچ بیک گڑاؤنڈ پنجابی جو عربستان '  افغانستان ' کردستان سے آ آ کر پنجاب میں آباد ھوئے ھیں ' وہ "سرائیکی سازش" کا حصہ نہیں ھیں۔ کیونکہ پنجاب میں آباد عام بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی پنجابی بولتا ھے ' پنجابی رسم و رواج اختیار کیے ھوئے ھے اور خود کو پنجابی کہلواتا ھے۔ بلکہ پنجابی ھونے پر فخر کرتا ھے۔ لیکن بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیردار پنجاب میں "سرائیکی سازش" میں مصروف ھیں۔

دوسری طرف ھندوستان عرصہ دراز سے افغانستان اور سینٹرل ایشن ممالک تک پنہچنے کے درینہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پاکستان کے جنوبی علاقے سے راستہ بنانے میں مصروف رھا ھے اور پنجاب مخالف ھر عمل میں بڑہ چڑہ کر حصہ لیتا رھا ھے- جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیرداروں کے جنوبی پنجاب پر قبضہ کرنے کی خواھش کی وجہ سے ھندوستان کو اپنے منصوبے پر عمل کرنے میں آسانی میسرآئی۔ اس لیے "سرائیکی سازش" کرنے والوں کو پسِ پردہ ھندوستان کا بھرپور تعاون حاصل رھتا ھے۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے بھی پنجاب میں اپنے لیے نظریاتی کے بجائے لسانی سیاست کو فروغ دینے کے آسان طریقے کو اختیار کرکے اور "سرائیکی سازش" کی سرپرستی  کرکے بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیرداروں اور ھندوستان کے عزائم کو بھرپور سھارا دیا۔

Friday, 20 January 2017

جنوبی پنجاب میں پنجاب اور پنجابیوں کے خلاف سازشیں۔

بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیردار پاکستان کے قیام سے پہلے پنجابیوں کو مسلمان پنجابیوں اور غیر مسلم پنجابیوں میں تقسیم کرنے کے لیے مذھبی جذبات کو اشتعال دے کر آپس میں لڑواتے رھتے تھے۔

اب یہ بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیردار جنوبی پنجاب میں سرائیکی سازش کر رھے ھیں تاکہ پنجاب میں ملتانی پنجابیوں ' ریاستی پنجابیوں ' ڈیرہ والی پنجابیوں اور عام بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی آبادگاروں کو آپس میں پنجابی اور سرائیکی کی بنیاد پر لڑوا کر جنوبی پنجاب پر اپنا قبضہ برقرار اور اپنی جاگیروں کو محفوظ رکھ سکیں۔

یہ 
بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیردار لوٹیرے کب پنجاب آئے؟

یہ بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیردار لوٹیرے کہاں سے پنجاب آئے؟

یہ بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیردار لوٹیرے کیوں پنجاب آئے؟

ان بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیردار لوٹیروں کو پنجاب میں جاگیریں کیسے مل گئیں؟

ان بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیردار لوٹیروں کو پنجاب میں جاگیریں کس کس نے دیں؟

یہ بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیردار لوٹیرے پنجاب آنے کے بعد پنجاب اور پنجابیوں کے خلاف کیا کیا سازشیں کرتے رھے؟

یہ بلوچ ‘ پٹھان ' مخدوم ‘ گیلانی ' قریشی اور عباسی جاگیردار لوٹیرے اس وقت جنوبی پنجاب میں سرائیکی کے نام پر پنجاب اور پنجابیوں کے خلاف سازشیں کرنے کے علاوہ اور کیا کیا سازشیں کر رھے ھیں؟

سندھ میں سندھی قوم پرست ھیں یا سندھی مفاد پرست؟

سندھ پر 1783 میں عباسی کلہوڑوں کو شکست دے کر تالپور بلوچ نے قبضہ کرلیا تھا لیکن انگریز کے تالپور بلوچ کو شکست دے کر سندھ پر 1843 میں قبضے کے چار سال بعد 1847 میں انگریزوں نے سندھ کو بمبئی پریسیڈنسی کے ماتحت دے دیا تھا۔ جب سماٹ ھندو سندھیوں نے جو کہ 1783 سے سندھ پر تالپور بلوچوں کے قبضے کی وجہ سے بلوچوں کے ظلم و جبر کا شکار تھے۔ سندھ پر تالپور بلوچوں کی حکومت کے خاتمے اور سندھ کی بمبئی پریسیڈنسی میں شمولیت کی وجہ سے بمبئی پریسیڈنسی میں سماجی اور معاشی تحفظ ملنے کی وجہ سے سندھ کے شھری علاقوں ' تعلیم ' تجارت ' سرمایہ کاری اور سرکاری ملازمتوں پر چھاگئے تو سندھ کے عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمانوں نے سماٹ سندھیوں کو مسلمان قوم پرست بناکر سندھ کی بمبئی پریسیڈنسی سے علیحدگی کی تحریک چلانا شروع کردی۔ جب 1901 میں انگریز حکومت کی طرف سے نارا کینال کی زمینیں آباد کرنے کے منصوبے کے لیے انگریز نے مشرقی پنجاب سے پنجابی کاشتکار سندھ لانا شروع کیے اور پنجابی کاشتکار نارا کینال کی غیر آباد سرکاری زمین خرید کر آباد کرنے لگے تو عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمانوں نے اپنی زمین آباد کروانے کے لیے خود بھی مشرقی پنجاب سے پنجابی کاشتکار سندھ لانا شروع کردیے۔ اس لیے سندھ کے دیہی علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے 1917 سے بمبئی پریسیڈنسی سے علیحدگی کی تحریک نے شدت اختیار کرلی۔ اس دوران سندھ میں ھندو مسلم محاذ آرائی بھی اپنے عروج پر پہنچنا شروع ھوگئی۔

انگریز حکومت کی طرف سے 1923 میں سکھر بیئراج کی تعمیر شروع کرکے اور  1932 میں مکمل کرنے کے دوران ھی زمینیں آباد کرنے کے لیے بھی انگریز نے مشرقی پنجاب سے پنجابی کاشتکار سندھ لانا شروع کیے اور پنجابی کاشتکار سکھر بیئراج کی غیر آباد سرکاری زمین خرید کر آباد کرنے لگے تو عربی نزاد بشمول جی ایم سید اور بلوچ نزاد مسلمانوں نے اپنی زمین آباد کروانے کے لیے خود بھی مشرقی پنجاب سے پنجابی کاشتکار سندھ لانا شروع کردیے۔ لیکن 1880میں  پنجاب میں بھی چونکہ انگریز نے نہری نطام قائم کرنا شروع کیا ھوا تھا اس لیے مشرقی پنجاب کے پنجابی کاشتکار سندھ جاکر زمینیں آباد کرنے کے بجائے پنجاب میں زمین خرید کر زمین آباد کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اس لیے جی ایم سید نے خود وفد کے ھمراہ مشرقی پنجاب کا دورہ کیا اور سندھ میں زمینیں آباد کرنے  کے لیے پنجابیوں کو آمادہ کرنے کی کوشش کی جبکہ 1931 میں "سندھ ھاری کمیٹی" قائم کرکے ھاریوں کی سیاسی ' سماجی اور معاشی زندگی کو تحفظ فراھم کرنے کی تحریک بھی شروع کردی۔ اس لیے سندھ کے دیہی علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ بھی ھوا اور بمبئی پریسیڈنسی سے علیحدگی کی تحریک نے مزید شدت بھی اختیار کرلی۔

برطانوی حکومت کی طرف سے 1937 میں برٹش انڈیا میں انتخاب کروا کر اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے کے اعلان کی وجہ سے برٹش انڈیا کی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ اور کانگریس کی سرگرمیاں بھی سندھ میں بڑھنے لگیں۔ شروع میں کانگریس سندھ کی بمبئی پریسیڈنسی سے علیحدگی کی مخالف تھی لیکن جب مسلم لیگ سمیت دیگر جماعتوں نے اس کے حق میں چلائی جانے والی مہم میں فعال شرکت کا فیصلہ کیا تو کانگریس بھی علیحدہ صوبے کی بحالی کے مطالبے کی حمایت پر مجبور ھوگئی۔ یوں عوامی مزاحمت اور دو بڑی قومی سیاسی جماعتوں کے دباؤ کے نتیجے میں برطانوی حکومت نے انڈیا ایکٹ 1935 کی شق 46 کے تحت یکم اپریل 1936 کو سندھ کی علیحدہ حیثیت بحال کردی۔ بمبئی پریسیڈنسی سے سندھ کی علیحدگی کے اسباب پر عربی نزاد پیر علی محمد راشدی نے بھر پور طریقے سے لکھا ھے۔ ان اسباب میں انہوں نے سندھی مسلمانوں کے ساتھ ھندو اربابِ اختیار کے امتیازی سلوک کا ذکر کیا ھے۔ بلوچ نزاد محقق ڈاکٹر محمد لائق زرداری نے اپنی کتاب ”سندھ کی سیاسی جدوجہد “ میں تحریر کیا ھے کہ ”ممبئی کے ساتھ الحاق کے بعد سندھ کی تکلیفوں اور دکھوں کا سلسلہ شروع ھوا “۔ ایک اور جگہ لکھا ھے کہ ”تعلیمی پستی کی وجہ سے سندھ کے لوگوں نے محسوس کیا کہ ممبئی کے ساتھ رھنے کی وجہ سے وہ ھر میدان میں نقصان اٹھائیں گے“۔ ممبئی حکومت مسلمانوں کی پرائمری تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رھی تھی۔

عربی نزاد پیر علی محمد راشدی نے سندھی مسلمانوں کے ساتھ ھندو اربابِ اختیار کے امتیازی سلوک کا ذکر کیا ھے۔ سوال یہ ھے کہ؛ کیا انگریز دور سے پہلے جب سندھ پر عربی نزاد اور بلوچ نزاد حکومت کیا کرتے تھے تو سماٹ ھندوؤں اور سماٹ مسلمان کے ساتھ عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان امتیازی سلوک نہیں کیا کرتے تھے؟ بلوچ نزاد محقق ڈاکٹر محمد لائق زرداری نے اپنی کتاب ”سندھ کی سیاسی جدوجہد “ میں تحریر کیا ھے کہ ”ممبئی کے ساتھ الحاق کے بعد سندھ کی تکلیفوں اور دکھوں کا سلسلہ شروع ھوا “۔سوال یہ ھے کہ؛ کیا ممبئی کے ساتھ الحاق کے بعد سندھ کے عربی نزاد اور بلوچ نزاد کی تکلیفوں اور دکھوں کا سلسلہ شروع ھوا یا سماٹ ھندوؤں کی بھی تکلیفوں اور دکھوں کا سلسلہ شروع ھوا؟ ایک اور جگہ لکھا ھے کہ ”تعلیمی پستی کی وجہ سے سندھ کے لوگوں نے محسوس کیا کہ ممبئی کے ساتھ رھنے کی وجہ سے وہ ھر میدان میں نقصان اٹھائیں گے“ سوال یہ ھے کہ؛ انگریز کے سندھ کو بمبئی پریسیڈنسی میں شامل کرنے سے پہلے عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان حکمرانوں نے سندھ میں کتنے تعلیمی ادارے قائم کیے تھے اور سندھ کے بمبئی پریسیڈنسی میں شامل ھونے کے بعد سندھ میں کتنے تعلیمی ادارے قائم ھوئے؟ سندھ کے بمبئی پریسیڈنسی میں شامل ھونے کے بعد سماٹ ھندوؤں میں تعلیم پستی کیوں ختم ھوئی؟ سماٹ ھندو سندھ کے شھری علاقوں ' تعلیم ' تجارت ' سرمایہ کاری اور سرکاری ملازمتوں پر کیسے چھاگئے؟

پاکستان کے قیام کے بعد سندھ میں زیادہ تر عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان سندھی قوم پرست بنے ھوئے ھیں۔ عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان قوم پرست نہیں ھیں۔ یہ عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان مفاد پرست ھیں۔ پاکستان کے قیام سے پہلے یہ عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان ' مسلم جذبات کو اشتعال دے کر کے ھندو سندھیوں کو ' جو کہ سماٹ تھے ' بلیک میل کرتے تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد سندھ سے سماٹ ھندوؤں کو نکال کر ' ان کے گھروں ' زمینوں ' جائیدادوں اور کاروبار پر قبضہ کرنے کے بعد یہ عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان ' سندھی قوم پرست بنے بیٹھے ھیں۔ یہ عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان اب مسلمان سماٹ سندھیوں پر سماجی ' سیاسی اور معاشی بالادستی قائم کرنے کے بعد " سندھی قوم پرست " بن کر سندھ میں رھنے والے مسلمان پنجابیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں کرنے کے ساتھ ساتھ " سندھ کارڈ گیم " کے ذریعہ پنجاب کو بھی بلیک میل کرتے رھتے ھیں۔

ماضی میں " سندھی قوم پرست " بن کر سماٹ سندھیوں پر سماجی ' سیاسی اور معاشی بالادستی قائم کرنے ' سندھ میں رھنے والے مسلمان پنجابیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں کرنے اور " سندھ کارڈ گیم " کے ذریعہ پنجاب کو بلیک میل کرنے کا کام یہ عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان ' عربی نزاد جی . ایم سید کی لیڈر شپ میں کرتے تھے۔ اب یہ عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان " سندھی قوم پرست " بن کر سماٹ سندھیوں پر سماجی ' سیاسی اور معاشی بالادستی قائم کرنے ' سندھ میں رھنے والے مسلمان پنجابیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں کرنے اور " سندھ کارڈ گیم " کے ذریعہ پنجاب کو بلیک میل کرنے کا کام ' بلوچ نزاد آصف زرداری کی لیڈر شپ میں کر رھے ھیں۔

گورنر کی نامزدگی سے پاکستان مسلم لیگ ن کی سندھ میں ترجیحات کا اندازہ ھو جائے گا۔

آئین کے مطابق کسی بھی صوبے کے گورنر کی نامزدگی کا اختیار وزیرِ اعظم کے پاس ھے اور گورنر کے پاس وفاقی یا صوبائی اداروں کے انتظامی اختیارات نہیں ھوتے ' اس لیے گورنر انتظامی طور پر غیر موثر ھی رھتا ھے۔ لیکن گورنر چونکہ صوبے میں وفاق کا نمائندہ ھوتا ھے اس لیے وفاقی حکومت بوقتِ ضرورت انتظامی حکم کے ذریعے ' صوبے میں وزیرِ اعلیٰ کے صوبائی اداروں پر انتظامی اختیارات کے متوازی گورنر کو وفاقی حکومت کی سرپرستی  اور خاص طور پر صوبے میں واقع وفاقی اداروں کا تعاون دلواکر صوبے میں وزیرِ اعلیٰ کے مقابل طاقتور انتظامی گورنر بھی بنا سکتی ھے۔

وفاق میں 2013 سے پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ھے جبکہ صوبہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت ھے۔ سندھ میں پی پی پی کا سیاسی اثر دیہی سندھ کی سندھی آبادی اور قومی اسمبلی کی 41 نشستوں پر ھے اورر ایم کیو ایم کا سیاسی اثر کراچی کی مھاجر آبادی اور قومی اسمبلی کی 20 نشستوں پر ھے جبکہ پنجاب کی 150 نشستوں پر سیاسی اثر پاکستان مسلم لیگ ن کا ھے اور پاکستان مسلم لیگ ن نے پنجاب سے ھی وفاقی حکومت بنانے کے لیے نشستوں کی مقررہ تعداد 137 حاصل کی ھوئی ھے۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے پاس خیبرر پختونخواہ کی 35 ' بلوچستان کی  14 اور فاٹا کی 12 نشستوں میں سے بھی نشستیں ھیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن کو پنجاب کی سیاسی پارٹی ھونے کی وجہ سے پنجاب کی 150 نشستوں میں سے کثیر تعداد میں نشستیں آسانی سے مل جاتی ھیں جبکہ دیہی سندھ کی قومی اسمبلی کی 41 نشستوں اور کراچی کی 20 نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ ن کو پنجاب جتنی محنت کرنے کے باوجود بھی پی پی پی کے دیہی سندھھ کی سیاسی پارٹی ھونے اور سندھی قوم پرستی کی وجہ سے جبکہ ایم کیو ایم کے کراچی کی سیاسی پارٹی ھونے اور مھاجر قوم پرستی کی وجہ سے چند نشستوں سے زیادہ نشستیں نہیں ملتیں۔ اس لیے پاکستان مسلم لیگ ن سندھ میں سیاسی عدم دلچسپی کی وجہ سے کراچی میں ایم کیو ایم اور سندھ کے دیہی علاقوں میں پی پی پی کے ساتھ سیاسی مقابلے سے گریز کر رھی ھے۔

پاکستان مسلم لیگ ن نے 2013 میں وفاقی حکومت بنانے کے بعد بھی پی پی پی کی وفاقی حکومت کی طرف سے نامزد کردہ ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کو ھی سندھ میں گورنر رھنے دیا تھا۔ لیکن سندھ میںں اغوا ' بھتہ غوری ' ٹارگٹ کلنگ ' دھشتگردی اور ایم کیو ایم کی ملک دشمن سرگرمیوں کے خلاف رینجرس کےے آپریشن کی وجہ سے اور سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کے اغوا ' بھتہ غوری ' ٹارگٹ کلنگ ' دھشتگریی میں ملوث عناصر کے ساتھ روابط اور ایم کیو ایم کے ساتھ تعاون کی وجہ سے ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹرر عشرت العباد کو ھٹا کر ایک عمر رسیدہ ' غیر سیاسی اور غیر موثر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کو سندھ کا گورنر نامزد کردیا تھا۔

سعید الزمان صدیقی کے انتقال کے بعد اب وفاقی حکومت نے سندھ کا نیا گورنر نامزد کرنا ھے لیکن سوال یہ ھے کہ؛ سندھ کے گورنر کی نامزدگی کے لیے وفاقی حکومت کی ترجیحات کیا ھونگی؟

1۔ اگر سندھ میں سیاسی عدم دلچسپی کی وجہ سے کراچی میں ایم کیو ایم اور سندھ کے دیہی علاقوں میں پی پی پی کے ساتھ  پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاسی مقابلے سے گریز کرنے کی پالیسی برقرار ھے تو پھر پاکستانن مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کی ترجیح غیر سیاسی اور غیر موثر شخص کو سندھ کا گورنر نامزد کرناا ھوگی۔

2۔ اگر کراچی میں اغوا ' بھتہ غوری ' ٹارگٹ کلنگ ' دھشتگردی اور ایم کیو ایم کی ملک دشمن سرگرمیوں کے خلاف رینجرس کے انتطامی آپریشن کی وجہ سے رینجرس کو کراچی کے عوام کی عوامی حمایت کے ساتھ ساتھھ سیاسی حمایت دلوانے ' کراچی میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سیاسی دلچسپی لینے اور ایم کیو ایم کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاسی مقابلہ کرنے کی پالیسی بن رھی ھے تو پھر پاکستان مسلم لیگ ن کی وفاقیی حکومت کی ترجیح ایسے سیاسی اور موثر شخص کو سندھ کا گورنر نامزد کرنا ھوگی جو کراچی میں رھنےے والے پنجابیوں ' پٹھانوں ' گجراتیوں ' راجستھانیوں ' سندھیوں ' بروھیوں اور بلوچوں  کے آپس میں روابطط کروا کر متحرک اور متحد کرکے کراچی پر قابض اور ایم کیو ایم کے اصل کرتا دھرتا افراد ' یوپی ' سی پی کےے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں اور بہاریوں کی بالادستی سے نجات دلوا سکے تاکہ کراچی میں رھنے والے پنجابی ' پٹھان ' گجراتی ' راجستھانی ' سندھی ' بروھی اور بلوچ  پاکستان مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے کراچی کی سیاست کرسکیں۔

3۔ اگر سندھ کے دیہی علاقوں میں بھی اغوا ' بھتہ غوری ' ٹارگٹ کلنگ ' دھشتگردی اور پی پی پی کی ملک دشمن سرگرمیوں کے خلاف رینجرس کا انتطامی آپریشن متوقع ھے اور رینجرس کو سندھ کے دیہی علاقوں کےے عوام کی عوامی حمایت کے ساتھ ساتھ سیاسی حمایت دلوانے ' سندھ کے دیہی علاقوں میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سیاسی دلچسپی لینے اور پی پی پی کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاسی مقابلہ کرنے کی پالیسیی بن رھی ھے تو پھر پاکستان مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کی ترجیح ایسے سیاسی اور موثر شخص کو سندھھ کا گورنر نامزد کرنا ھوگی جو دیہی سندھ میں رھنے والے سماٹ سندھیوں ' پنجابیوں ' پٹھانوں ' گجراتیوں ' راجستھانیوں اور  بروھیوں کے آپس میں روابط کروا کر متحرک اور متحد کرکے دیہی سندھ پر قابض اور پی پی پی کے اصل کرتا دھرتا افراد ' بلوچ نزاد سندھیوں اور عربی نزاد سندھیوں کی بالادستی سے نجات دلوا سکےے تاکہ دیہی سندھ میں رھنے والے سماٹ سندھی ' پنجابی ' پٹھان ' گجراتی ' راجستھانی اور  بروھی پاکستانن مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے دیہی سندھ کی سیاست کرسکیں۔

 4۔ اگر بیک وقت کراچی اور سندھ کے دیہی علاقوں میں اغوا ' بھتہ غوری ' ٹارگٹ کلنگ ' دھشتگردی ' ایم کیو ایم اور پی پی پی کی ملک دشمن سرگرمیوں کے خلاف رینجرس کے انتطامی آپریشن کو کراچی اور دیہی سندھ کے عوام کی عوامی حمایت کے ساتھ ساتھ سیاسی حمایت دلوانے ' پاکستان مسلم لیگ ن   کے بیک وقت کراچی اور سندھ کے دیہی علاقوں میں سیاسی دلچسپی لینے ' ایم کیو ایم اور پی پی پی کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاسی مقابلہ کرنے کی پالیسی بن رھی ھے تو پھر پاکستان مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کی ترجیح ایسے سیاسی اور موثر شخص کو سندھ کا گورنر نامزد کرنا ھوگی جو کراچی میں رھنے والےے پنجابیوں ' پٹھانوں ' گجراتیوں ' راجستھانیوں ' سندھیوں ' بروھیوں اور بلوچوں کے آپس میں روابط کروا کرر متحرک اور متحد کرکے کراچی پر قابض اور ایم کیو ایم کے اصل کرتا دھرتا افراد ' یوپی ' سی پی کے اردو بولنےے والے ھندوستانی مھاجروں اور بہاریوں کی بالادستی سے نجات دلوا سکے تاکہ کراچی میں رھنے والے پنجابی '' پٹھان ' گجراتی ' راجستھانی ' سندھی ' بروھی اور بلوچ  پاکستان مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے کراچی کیی سیاست کرسکیں اور دیہی سندھ میں رھنے والے سماٹ سندھیوں ' پنجابیوں ' پٹھانوں ' گجراتیوں '' راجستھانیوں اور بروھیوں کے آپس میں روابط کروا کر متحرک اور متحد کرکے دیہی سندھ پر قابض اور پی پی پی کے اصل کرتا دھرتا افراد ' بلوچ نزاد سندھیوں اور عربی نزاد سندھیوں کی بالادستی سے نجات دلوا سکے تاکہ دیہی سندھ میں رھنے والے سماٹ سندھی ' پنجابی ' پٹھان ' گجراتی ' راجستھانی اور بروھی پاکستانن مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے دیہی سندھ کی سیاست کرسکیں۔