Wednesday 11 January 2017

گندھارا کا پس منظر اور گندھارا آرٹ

گندھارا ایک قدیم ریاست تھی جو شمالی پاکستان میں خیبر پختونخوا اور صوبہ پنجاب کے علاقے پوٹھوہار کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھی۔ پشاور ' ٹیکسلا ' تخت بائی ' سوات ' دیر اور چارسدہ اس کے اہم مرکز تھے۔ یہ دریائے کابل سے شمال کی طرف تھی۔گندھارا چھٹی صدی قبل مسیح سے گیارہویں صدی تک قائم رہی۔

تاریخ

گندھارا کا ذکر رگ وید اور بدھ روایات میں ہے۔ چینی سیاح ہیوں سانگ جو یہاں زیارتوں کے لیۓ آیا تھا تفصیل سے اسکا ذکر کیا ہے۔ یہ علاقہ ایران کا ایک صوبہ بھی رہا اور سکندر اعظم بھی یہاں آیا۔ فلسفی کوٹلیا چانکیا بھی یہاں مقیم رہا۔

کشان دور گندھارا کی تاریخ کا سنہرا دور تھا۔ کشان بادشاہ کنشک کے عہد میں گندھارا تہزیب اپنے عروج پر پہنچی۔ گندھارا بدھ مت کی تعلیمات کا مرکز بن گیا اور لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آنے لگے۔ یونانی ' ایرانی اور مقامی اثرات نے مل کر گندھارا کے فن کو جنم دیا۔ ہن حملہ آوروں کا پانچویں صدی میں یہاں آنا بدھ مت کے زوال کا سبب بنا۔ محمود غزنوی کے حملوں کے بعد گندھارا تاریخ سے محو ہو گیا۔

عرب مورخین گندھارا کی سلطنت کو جو دریائے سندھ سے دریائے کابل تک پھیلی تھی قندھار (گندھار) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ البیرونی نے قندھار (گندھارا) کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس کی راجدھانی وہنڈ یا اوہنڈ تھی۔ المسعودی قندھار (گندھار) کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ رہبوط (راجپوت) کا ملک ہے اور دریائے کابل جو دریائے سندھ میں گرتا پر واقع ہے۔

اس علاقے کا سب سے پہلا تزکرہ آریوں کی مذہبی کتاب ’رگ وید‘ میں ملتا ہے۔ کیونکہ اس کے بھجنوں میں اس علاقے کے اہم دریاؤں کابل ' سوات اور گومل کا تزکرہ ملتا ہے۔ اس سے اندازا ہوتا ہے کہ اس علاقے پر آریاؤں نے قبضہ کرلیا تھا۔ اس علاقے میں جو آثار ملے ہیں انہیں گندھارا کی گورستانی تہذیب کا نام دیا گیا ہے۔

مہابھارت سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں گندھارا یا گندھارد اکی ریاست تھی۔ جسے کوشالہ کے حکمران نے ککیہ کی مدد سے زیر کیا تھا۔ کوشالہ کے دو بیٹوں ٹکسا اور پو شکلا نے دو شہروں تکشاشِلہ یعنی ٹیکسلہ اور پوشکلہ وتی (چارسدہ) کی بنیاد رکھی۔ یہ ریاست دریائے سندھ کے دونوں طرف پھیلی ہوئی تھی۔

بعض ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ ٹیکسلا کی بنیاد ٹکا نامی قبیلے نے رکھی جو وسط ایشیاء سے آیا تھا۔ چنانچہ اس کے نام پر ٹکلاشیلا پڑا جو رفتہ رفتہ ٹیکسلا ہوگیا۔ اس کی تصدیق اس دور کے یونانی مورخ نے بھی کی ہے اور اسے ٹیکسائلو کا شہر بتایا ہے۔ بدھ مذہب کی کتابوں میں گندھار کا ذکر ملتا ہے۔ گوتم بدھ کے زمانے میں ٹیکسلہ کی شہرت ایک علمی مرکز کی تھی ' جہاں دور دور سے لوگ تحصیل علم کے لیے آتے تھے۔

یونانی جغرافیہ داں اسٹرابو کے مطابق دریائے سندھ انڈیا اور آریانہ کے درمیان سرحدکی حثیت رکھتا تھا۔ آریانہ میں کابل ' گومل ' کرم ' قندھار اور مغربی گندھارا  کے علاقے شامل تھے۔ چھٹی صدی قبل عیسوی میں آریانہ کے علاقہ کا ایک وسیع علاقہ گندھارکے حکمران پوکوستی کی مملکت میں شامل تھا۔ 515۔ 518 ق م کے درمیان دارا  نے حملہ کرکے وادی سندھ کے مغربی حصہ پر قبضہ کرلیا۔ اس نے یہاں ایرانیوں اور یونانیوں کو آباد کیا۔ یہ تسلط غالباَ ارتاکسز (440-853 ق م)  کے عہد میں ختم ہوگیا تھا۔ کیونکہ جب یہاں سکندر نے حملہ کیا تو ایرانی تسلط نہیں تھا۔

سکندر نے 327 ق م میں کوہ ہندو کش غبور کیا اور مختلف شہروں کو جنگ و جدل کے ذریعے مطیع کرتا ہوا اوہنڈ کے مقام پر دریائے سندھ کو غبور کیا جہاں ٹیکسلا کے راجہ نے اس کا استقبال کیا۔ ٹیکسلا کے امبھی نے سکندر کی اطاعت قبول کرلی تھی۔ اس طرح یونانی 326 ق م میں پنجاب میں داخل ہوگئے۔ اسکندر کے چند سال بعد ہی چندر گپت موریا نے یونانی بالادستی کے خلاف بغاوت کردی اور اس نے دریائے سندھ کے مشرقی حصوں کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ اسکندر کے سپہ سالار سلوکس نے سکندر کے مفتوع علاقوں کو دوبارہ فتح کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا۔

اشوک کے بعد جب موریہ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ کابل ' غزنی ' پنجاب و سندھ پر اسو بھاگ سن نے قبضہ کرلیا۔ اس پر انطیوکس اعظم نے حملہ کردیا۔ اسو بھاگ نے شکست کھائی مگر انطیوکس اعظم بھی مارا گیا۔ اسوبھاگ کے بعد اس کا بیٹا گج حکمران ہوا۔ پھر اس علاقہ پر یونانی حمکمران ہوگئے۔ سیتھی یونانی حکومت ختم کرکے سیستان سے ہوتے ہوئے اس علاقے پر قابض ہوگئے۔ سیتھی جب پارتھیوں کے زیر اثر ہوئے تو اس علاقہ پر ان کا تسلط ہوگیا۔ مگر جلد ہی یہ سرزمین کشانوں کے قبضہ میں آگئی۔ کشنوں کا خاتمہ ہنوں نے کیا، اس طرح اس علاقہ پر یوچیوں کی چار سو سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا۔

اس علاقہ پر ہنوں کے زابلی مملکت کی حکمرانی تھی۔ ہنوں نے تقریباً دوسو سال حکمرانی کی۔ افغانستان میں ان کی قوت کو ترکوں نے صدمہ پہنچایا اور پنجاب میں ایک قومی وفاق نے ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ جس وقت چینی سیاح ہیون سانگ (630 عیسوی) اور وانگ ہیون سی نے پنجاب کی سیاحت کی تھی ' اس وقت گندھارا پر کشتری خاندان کی حکومت تھی۔ ان کا دارالحکومت کاپسا (موجودہ بلگرام کابل کے شمال میں) تھا۔ البیرونی انہیں ترک بتاتا ہے۔ اس خاندان کی حکومت کے آخری حکمران کو اس کے وزیر کلیر عرف للیہ نے قید کرکے ہندو شاہی یا برہمن شاہی خاندان کی بنیاد رکھی۔

برہمن شاہی اس علاقے کا آخری حکمران خاندان تھا ' جس نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ یہ خاندان ابتدائے اسلام سے 421ھ / 1030 تک حکمران رہا۔ جب افغانستان کے مشرقی حصوں پر اسلامی لشکر کا قبضہ ہو گیا تو اس کا دارالحکومت کاپسا سے گردیز ' کابل ' پھر اوہنڈ اور آخر میں نندانہ (جہلم کے قریب) منتقل ہوگیا۔ جہاں ان کا محمود غزنوی نے خاتمہ کردیا۔

گندھارا آرٹ

گندھارا آرٹ یا گندھارا فن گندھارا اور بدھ مت تہذیب کا فنکارانہ اظہار اور کلاسیکی یونانی ثقافت اور بدھ مت کے درمیان ایک ثقافتی اشتراک ہے جس کا ارتقا وسطی ایشیا میں تقریباً ہزار سال کی مدت میں انجام پزیر ہوا۔ یہ مدت سکندر اعظم (چار صدی قبل مسیح) سے اسلامی فتوحات (7 ویں صدی عیسوی) کے درمیانی عرصے پر محیط تھی۔

گندھارا آرٹ دراصل یونانی ' ساکا ' پارتھی اور کشن تہذیبوں کا نچوڑ ہے۔ گندھارا آرٹ کا مرکز یوں تو ٹیکسلا تھا لیکن اس کی جڑیں پشاور ' مردان ' سوات ' افغانستان حتیٰ کہ وسط ایشیاء تک پھیلی ہوئی تھیں۔

گندھارا صوبہ سرحد کے ایک حصے کا نام تھا مگر یہ چھوٹا سا علاقہ اپنی شاندار تہذیب اور پُر امن ثقافت کے اثرات روس کے دریائے آمو تک پہنچاتا ہے۔ ادھر چینی سرحدی علاقوں میں اس کے آثار ملتے ہیں۔ مانکیالا کا اسٹوپا دوہزار سال پرانا ہے۔ یہ اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ ڈبلیو ایف کیرو کی کتاب ’’گندھارا کی عبادت گاہیں‘‘ میں شائع شدہ نقشوں کے مطابق افغانستان اور روس تک پھیلے ہوئے گندھارا علاقے کی آخری سرحد مانکیالا کا اسٹوپا تھی۔

موریا عہد سے گپتاخاندان کے عروج کے زمانے میں فن سنگ تراشی کے نئے دبستان وجود میں آئے۔ ان میں باریت و بدھ گیا ' متھرا اور گندھارا قابل ذکر ہیں۔ متھرا کے مجسموں کی یہ خصوصیت بتائی جاتی ہے کہ یہاں سب سے پہلے گوتم بدھ کو انسانی شکل (مجسمہ) میں پیش کیا گیا اور بعد میں یہ مدت تک مقبول رہا۔ اس فن میں گندھارا اسکول نے سب سے زیادہ ترقی کی۔ چنانچہ بر صغیر کے اکثر علاقوں پر گندھارا آرٹ کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ اس کے نمونے پاکستان کے شمالی علاقوں اور افغانستان کے بعض مقامات پر ملتے ہیں۔ اس سلسلے میں ٹیکسلا سب سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ یہ تمام نمونے گوتم بدھ کی زندگی یا مذہب کی روایات پر مشتمل ہیں۔ ان مجسموں میں تفصیلات پر بہت زور دیا گیا ہے، تاکہ انسانی جسم کی حالت سے بالکل مشابہ ہوں ' مثلاَ پٹھوں تک کو دکھلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح لباس کی ترتیب کو بہت اہمیت حاصل ہوگئی۔

ماہرین کا خیال ہے گندھارا آرٹ پر یونانی اور رومی اثرات بھی ہیں بلکہ بعض نے اس کو بجائے گندھارا کے ہندی یونانی آرٹ بھی کہا ہے۔ بہرحال اس میں یہ کوئی شک نہیں ہے کہ باخترکے یونانی حکمرانوں کے زمانے میں اس علاقے میں یہ اثرات ضرور قبول کیے ہیں لیکن اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس اسکول کے جو نمونے دستیاب ہوئے ہیں ' ان میں بدھ مت کی روایات یا گوتم بدھ کے مجسمے ہیں اور اس فن کے سب سے قابل تعریف مجسمے ہم کو گوتم بدھ یا بدہستوا کے مجسموں میں ملتے ہیں۔ گندھارا آرٹ نے کشن حکمرانوں کی سرپرستی میں ترقی کی۔ یہی سبب ہے کہ یہ چینی ترکستان کے راستے چین اور جاپان ہی نہیں بلکہ مشرقی بعید تک پہنچ گیا اور ان علاقوں کے آرٹ پر ہمیں گندھارا آرٹ کے اثرات صاف نظر آتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ پہلے مہاتما بدھ کا مجسمہ نہیں بنایا جاتا تھا اور اس کی پرستش کا رواج نہیں تھا۔ پھر کنشک کی چوتھی کونسل بلائی گئی جو کشمیر کونسل کہلاتی ہے۔ اس میں کئی اہم فیصلے کئے گئے اور فیصلہ کیا گیا کہ روم و یونان کے دیوتاؤں کی طرح مہاتما بدھ کے مجسمے تراشے جائیں تاکہ مجسمے دیکھ کر خوبصورتی اور امن کا احساس ہو ناکہ بدہستی اور کراہیت کا۔ چنانچہ روایت ہے کہ یونان سے چند مجسمہ سازوں کو بلوایا گیا تاکہ وہ مقامی مجسمہ سازوں کو اپنے طریق سے آگاہ کرسکیں۔ کہا جاتا ہے کہ گندھارا کا مہاتما بدھ کا مجسمہ دراصل اپالو دیوتا کی کاپی ہے لیکن ان میں وہ پوتراور امن منقود ہے جو گندھارا کے تراشیدہ مجسموں میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گندھارا کا بت تراش تفصیل میں جاتا ہے۔ وہ ناخن کے برابر پتھر سے ایک شاہکار تخلیق کرلیتا ہے جبکہ یونانی بڑے بڑے مجسمے بنانے پر یقین رکھتے تھے۔ یہ نہیں کہ گندھارا میں بڑے بڑے مجسمے نہیں بنائے گئے ' بامیان کے عظیم مجسمے اس دور کی یادگار ہیں۔ ٹیکسلا کے دھرم راجیکا کے اسٹوپے میں ایک مجسمے کی بلندی چالیس فٹ کے قریب تھی۔

اسٹوپے

گوتم کی وفات کے بعد بدھوں میں زیارت کا رواج ہوگیا اور یہ روایت مشہور ہوگئی کہ چار مقامات کی زیارت کرنے کی ہدایت بدھ نے کی تھی۔ ایک تو لمبینی باغ جہاں بدھ پیدا ہوئے تھے۔ دوسرے گیا کے قریب درخت جس کے نیچے اُنہیں گیان حاصل ہوا تھا۔ تیسرا بنارس کا ہرن باغ جہاں اُنھوں نے دھرم کی پہلی دفعہ تعلیم دی تھی۔ چوتھا کسی نگر یا کسی ناراہ جہاں اُنھوں نے وفات پائی۔

اشوک کے دور میں بدھ مت نے عروج پایا۔ چنانچہ اس دور کی فنی تخلیقات کی محرک وہ گہری عقیدت تھی جو ہر طبقے میں گوتم بدھ کی ذات اور تعلیمات سے تھیں۔ گوتم بدھ کے زمانے میں اس کا اثر مظلوم و مفلس طبقوں تک محدود رہا۔ بھکشو بھی عوام کی سی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ ان کا نہ گھر بار ہوتا تھا نہ ہی کوئی اثاثہ۔ وہ گاؤں گاؤں تبلیغ کرتے اور بھیک سے پیٹ بھرتے اور رات ہوتی تو کسی درخت کے نیچے سورہے ہوتے۔ لیکن رفتہ رفتہ بدھ مت کی رسائی درباروں میں ہونے لگی اور بلاآخر اشوک نے بھی اسے قبول کرلیا تو بدھ مت میں امیری کی شان جھلکنے لگی۔ اشوک نے اپنی سلطنت کے آٹھ مقامات پر اسٹوپے تعمیر کرائے تھے اور ہر اسٹوپے میں گوتم بدھ کے تھوڑے تھوڑے تبرکات محفوظ کیے تھے۔ ٹیکسلا کا دھرم راجیکا ان میں سب سے بڑا تھا۔ شاہی اسٹوپوں کی دیکھ بھال کے لئے بھکشو مقرر تھے۔ ان کے رہنے کے لیے دہار بنا دیے گئے اور آس پاس کی زمین اس کے لیے وقف کردی گئی۔

جب یاتریوں کی آمد و رفت شروع ہوئی تو ساکیہ منی کے نروان کی جھوٹی سچی داستانیں لکھی جانے لگیں۔ طرح طرح کی رسموں نے رواج پایا۔ بھکشوؤں نے یاترا کے ضابطے اور رسموں کی ادائیگی کے قائدے مقرر کیے۔ اب وہ جاتریوں کی پراتھنا مہاتمہ بدھ کے حضور پہنچانے والے واحد وسیلہ تھے۔ گوتم اور اس کے چیلوں کی مورتیاں بنے لگیں۔ ساہکاروں ' گنڈے تعویز اور پھول بیچنے والوں کی دکانیں کھل گئیں۔

مشرقی ہند میں قبریں گول ہوتی تھیں اور اسٹوپ کہلاتی تھیں۔ گوتم بدھ سے پہلے قبروں کے نشان کی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ اس لیے ممکن تھا کہ اسٹوپ کو خاص گوتم کے مدفن کی علامت دی جائے اور اس کی شکل کو ایک دینی حیثیت حاصل ہوگئی۔ گوتم اور دوسرے بدھ متی بزرگوں کے آثار کے لیے اسٹوپ بنانا بڑے ثواب کا کام سمجھا جاتا تھا۔ عموماً ہر اسٹوپ کے ساتھ بھکشوؤں کے رہنے کے لیے دھار (خانقاہ) اور ان کے اجتماع کے لیے ایک چیتا (عبادت گاہ) بنوائی جاتی تھی۔ شروع میں اسٹوپ نیم دائرے کی شکل کا ٹھوس گنبد ہوتا تھا ' جو قبر کی طرح بغیر کرسی کے بنایا جاتا تھا اور اس کے بیچ میں تابوت کی جگہ وہ آثار رکھے جاتے تھے جن کی پرستش مقصود ہوتی تھی۔ اسٹوپ کی چوٹی پر ایک چوکور جنگلا ہوتا تھا اور اس کے اوپر ایک چتر۔ چوں کہ بدھوں میں جس چیز کا احترام کیا جاتا تھا اس کے گرد طواف کیا جاتا تھا ' اس لیے اسٹوپ کے گرد ایک گول چبوترا بنادیا جاتا تھا۔ بعد میں اسٹوپ کے مزید احترام کے خیال سے ایک جنگلے کے ذریعے اس کی احاطہ بندی کی جانے لگی۔ اس جنگلے کے چاروں طرف سمتوں کے لحاظ سے دروازے ہوتے تھے۔ دھار کا نقشہ وہی ہوتا تھا جو اسٹوپوں کا ہوتا تھا۔ یعنی بیچ میں صحن اور اس کے چاروں طرف کمرے اور کوٹھریاں جو صحن میں کھلتی تھیں۔ صرف یہ ترمیم کردی گئی کہ تین طرف کمرے اور ایک طرف ٹہلنے کے لیے لان رکھا گیا تھا۔

اسٹوپا کو بدھ کی قبر بھی کہا جاتا ہے۔ بدھ کی خاک آٹھ اسٹوپوں میں محفوظ کی گئی تھی۔ اشوک نے ان آثار کو نکال کر سلطنت کے تمام بڑے شہروں اور صوبوں میں بھجوا دیا اور حکم دیا کہ وہاں شاندار اسٹوپے تعمیر کرا کر انھیں دفن کیا جائے۔ یوں یہ خاک چوراسی ہزار اسٹوپوں میں محفوظ ہوئی۔ چنانچہ اسٹوپوں کو بدھ کی قبر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بدھ کے پیروکاروں اور بزرگ کو بھی دفن کیا جاتا تھا اور بدھ کے تبرکات پر بھی اسٹوپے تعمیر کیے گئے۔ چنانچہ فاہیان ایک اسٹوپے کا ذکر کرتا ہے جو بدھ کے کشکول پر بنایا گیا تھا۔ اس طرح شکرانے کے طور پر امیر آدمی بھی اسٹوپے تعمیر کراتے تھے۔ زائرین اسٹوپے کے گرد طواف کرتے تھے اور اس کے ساتھ اسٹوپے کی گولائی پر نظر رکھتے تھے اور اس پر آویزاں مجسموں کو دیکھتے جاتے تھے ' جن میں مہاتمہ بدھ کی زندگی کے مختلف ادوار بیان کئے جاتے تھے۔ یہ اسٹوپے مہاتمہ بدھ کی زندگی کے بارے میں پھتریلی کتاب تھے۔ اسٹوپے کے گنبد پر ہمیشہ سات چھتریاں ہوتی تھیں ' جو سات آسمانوں کو ظاہر کرتی تھیں۔

گندھارا آرٹ کے ادوار

گندھارا آرٹ کو تاریخی اعتبار سے تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور جس کی خصوصیت یونانی آرٹ کی نقالی ہے پہلی صدی عیسوی کے آغاز تک جاری رہا۔ پارتھیوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد گندھارا میں مقامی عنصر ابھرنے لگا۔ یونانی آرٹ میں بدھ مت کے عقائد و واقعات کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش شروع ہوئی اور مے کے پیالوں کی جگہ کنول کے پھول تراشے جانے لگے۔ یونانی دیوتاؤں کی جگہ گوتم کی مورتیاں بنے لگیں۔ ابھی پہلی صدی ختم نہیں ہوئی تھی کہ گندھارا کے فنکاروں نے یونانیوں کے سیکھائے ہوئے فن کو مقامی ضرورتوں کے تابع کرلیا اور ان کی تخلیقات میں مقامی روح کی تڑپ آگئی۔ گندھارا کا یہ دوسرا دبستان فن ساسانیوں کے حملے (330 عیسوی) تک برقرار رہا۔ اس دور میں فن کاروں نے مجسموں اور گل کاریوں کے لئے پتھر استعمال کررہے تھے۔ ابھرواں چونا کاری کا ابھی رواج نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ سرحد ' سوات اور افغانستان میں پتھر کے مجسمے کثرت سے برآمد ہوئے اور ہورہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا ان علاقوں میں صنم تراشی کی فیکٹریاں کھلی ہوئی تھیں یا انہیں بدھ کی پرستش کے سوا کوئی کام نہیں تھا۔ دوسری خصوصیت اس دور کی یہ تھی کہ مجسموں میں عموماَ گوتم بدھ کی زندگی کے واقعات خاص کر کپل وستو کی زندگی کے واقعات کی منظرکشی کی جاتی تھی۔ مثلاَ ایک سل پرگوتم بدھ کی کپل وستو سے اپنے خادم کے ہمراہ روانگی کا منظر اتارا گیا ہے۔ دوسرے ایک منظر میں گوتم بدھ کا گھوڑا اکن نہکا آقا سے رخصت ہوتے وقت جھک کر ان کے قدم چوم رہا ہے اور بدھ کے تین چیلے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ اس قسم کی منظر کشی تیسرے دور میں بھی ملتی ہے۔

گندھارا آرٹ کا تیسرا دور یا دبستان فن تیسری اور چوتھی صدی عیسوی پر محیط ہے۔ یہ کشنوں کا دور ہے۔ اس دور میں گندھارا آرٹ کو بہت ترقی ہوئی اور اس تیسرے دور کی خصوصیت یہ ہے کہ فن کاروں نے سنگ تراشی ترک کردی۔ مٹی اور چونے کی ابھرواں موتیاں اور نقش و نگار بنانے لگے۔ چونے کی مورتیاں اور پھلکاریاں عمارت کی بیرونی سمت میں ابھار دی جاتی تھیں ' جہاں ان کے بارش میں خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا تھا۔ البتہ اندو نی حصہ میں کچی مٹی استعمال ہوتی تھی۔ چنانچہ گندھارا آرٹ کا سب سے حسین شاہکار گوتم بدھ کی وہ مورتی ہے جو کالواں اسٹوپا سے دریافت ہوئی تھی۔ اس منظر میں گوتم اپنے منڈوا میں پالتی مارے بیٹھا ہے دو چیلے اس کے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ یہ کچی مٹی کے ہیں لیکن سر پکی مٹی کا ہے اور دھڑ کچی مٹی کا بنا ہوا ہے۔ جب ہنوں ے اس اسٹوپا کو آگ لگائی تو سر پک گیا۔ دوسری خصوصیات اس دور کی یہ ہے کہ گوتم بدھ کی زندگی کے واقعات کی منظر کشی ترک کردی گئی اور فقط گوتم کی شبیہیں بنانے لگے۔ کسی منظر میں گوتم کو ارادت مندعقیدت کا خراج پیش کرتے دیکھلائے گئے ہیں، کسی منظر میں گوتم پر پھولوں کی بارش ہورہی ہے اور کسی منظر میں گوتم درمیان میں بیٹھیے ہیں اور جانور گھاس چر رہے ہیں۔

کشن دور میں بدھ مت نے بہت ترقی کی جگہ جگہ اسٹوپے اور دہار قائم ہوگئے۔ پشاور کا مشہور اسٹوپا کشنوں کے دور میں کنشک نے بنایا تھا۔ یک لخت وحشی ہنوں کی آندھی آئی اور گندھارا کا علاقہ جلتی چتا بن گیا۔ ہنوں نے شہروں اور بستیوں کو مسمار کیا اور دہاروں میں آگ لگا دی۔ ہزاروں لاکھوں بے گناہ مارے گئے۔ رہی سہی کسر محمود غزنوی کے حملوں نے پوری کردی۔

No comments:

Post a Comment