Friday 20 January 2017

سندھ میں سندھی قوم پرست ھیں یا سندھی مفاد پرست؟

سندھ پر 1783 میں عباسی کلہوڑوں کو شکست دے کر تالپور بلوچ نے قبضہ کرلیا تھا لیکن انگریز کے تالپور بلوچ کو شکست دے کر سندھ پر 1843 میں قبضے کے چار سال بعد 1847 میں انگریزوں نے سندھ کو بمبئی پریسیڈنسی کے ماتحت دے دیا تھا۔ جب سماٹ ھندو سندھیوں نے جو کہ 1783 سے سندھ پر تالپور بلوچوں کے قبضے کی وجہ سے بلوچوں کے ظلم و جبر کا شکار تھے۔ سندھ پر تالپور بلوچوں کی حکومت کے خاتمے اور سندھ کی بمبئی پریسیڈنسی میں شمولیت کی وجہ سے بمبئی پریسیڈنسی میں سماجی اور معاشی تحفظ ملنے کی وجہ سے سندھ کے شھری علاقوں ' تعلیم ' تجارت ' سرمایہ کاری اور سرکاری ملازمتوں پر چھاگئے تو سندھ کے عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمانوں نے سماٹ سندھیوں کو مسلمان قوم پرست بناکر سندھ کی بمبئی پریسیڈنسی سے علیحدگی کی تحریک چلانا شروع کردی۔ جب 1901 میں انگریز حکومت کی طرف سے نارا کینال کی زمینیں آباد کرنے کے منصوبے کے لیے انگریز نے مشرقی پنجاب سے پنجابی کاشتکار سندھ لانا شروع کیے اور پنجابی کاشتکار نارا کینال کی غیر آباد سرکاری زمین خرید کر آباد کرنے لگے تو عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمانوں نے اپنی زمین آباد کروانے کے لیے خود بھی مشرقی پنجاب سے پنجابی کاشتکار سندھ لانا شروع کردیے۔ اس لیے سندھ کے دیہی علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے 1917 سے بمبئی پریسیڈنسی سے علیحدگی کی تحریک نے شدت اختیار کرلی۔ اس دوران سندھ میں ھندو مسلم محاذ آرائی بھی اپنے عروج پر پہنچنا شروع ھوگئی۔

انگریز حکومت کی طرف سے 1923 میں سکھر بیئراج کی تعمیر شروع کرکے اور  1932 میں مکمل کرنے کے دوران ھی زمینیں آباد کرنے کے لیے بھی انگریز نے مشرقی پنجاب سے پنجابی کاشتکار سندھ لانا شروع کیے اور پنجابی کاشتکار سکھر بیئراج کی غیر آباد سرکاری زمین خرید کر آباد کرنے لگے تو عربی نزاد بشمول جی ایم سید اور بلوچ نزاد مسلمانوں نے اپنی زمین آباد کروانے کے لیے خود بھی مشرقی پنجاب سے پنجابی کاشتکار سندھ لانا شروع کردیے۔ لیکن 1880میں  پنجاب میں بھی چونکہ انگریز نے نہری نطام قائم کرنا شروع کیا ھوا تھا اس لیے مشرقی پنجاب کے پنجابی کاشتکار سندھ جاکر زمینیں آباد کرنے کے بجائے پنجاب میں زمین خرید کر زمین آباد کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اس لیے جی ایم سید نے خود وفد کے ھمراہ مشرقی پنجاب کا دورہ کیا اور سندھ میں زمینیں آباد کرنے  کے لیے پنجابیوں کو آمادہ کرنے کی کوشش کی جبکہ 1931 میں "سندھ ھاری کمیٹی" قائم کرکے ھاریوں کی سیاسی ' سماجی اور معاشی زندگی کو تحفظ فراھم کرنے کی تحریک بھی شروع کردی۔ اس لیے سندھ کے دیہی علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ بھی ھوا اور بمبئی پریسیڈنسی سے علیحدگی کی تحریک نے مزید شدت بھی اختیار کرلی۔

برطانوی حکومت کی طرف سے 1937 میں برٹش انڈیا میں انتخاب کروا کر اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے کے اعلان کی وجہ سے برٹش انڈیا کی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ اور کانگریس کی سرگرمیاں بھی سندھ میں بڑھنے لگیں۔ شروع میں کانگریس سندھ کی بمبئی پریسیڈنسی سے علیحدگی کی مخالف تھی لیکن جب مسلم لیگ سمیت دیگر جماعتوں نے اس کے حق میں چلائی جانے والی مہم میں فعال شرکت کا فیصلہ کیا تو کانگریس بھی علیحدہ صوبے کی بحالی کے مطالبے کی حمایت پر مجبور ھوگئی۔ یوں عوامی مزاحمت اور دو بڑی قومی سیاسی جماعتوں کے دباؤ کے نتیجے میں برطانوی حکومت نے انڈیا ایکٹ 1935 کی شق 46 کے تحت یکم اپریل 1936 کو سندھ کی علیحدہ حیثیت بحال کردی۔ بمبئی پریسیڈنسی سے سندھ کی علیحدگی کے اسباب پر عربی نزاد پیر علی محمد راشدی نے بھر پور طریقے سے لکھا ھے۔ ان اسباب میں انہوں نے سندھی مسلمانوں کے ساتھ ھندو اربابِ اختیار کے امتیازی سلوک کا ذکر کیا ھے۔ بلوچ نزاد محقق ڈاکٹر محمد لائق زرداری نے اپنی کتاب ”سندھ کی سیاسی جدوجہد “ میں تحریر کیا ھے کہ ”ممبئی کے ساتھ الحاق کے بعد سندھ کی تکلیفوں اور دکھوں کا سلسلہ شروع ھوا “۔ ایک اور جگہ لکھا ھے کہ ”تعلیمی پستی کی وجہ سے سندھ کے لوگوں نے محسوس کیا کہ ممبئی کے ساتھ رھنے کی وجہ سے وہ ھر میدان میں نقصان اٹھائیں گے“۔ ممبئی حکومت مسلمانوں کی پرائمری تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رھی تھی۔

عربی نزاد پیر علی محمد راشدی نے سندھی مسلمانوں کے ساتھ ھندو اربابِ اختیار کے امتیازی سلوک کا ذکر کیا ھے۔ سوال یہ ھے کہ؛ کیا انگریز دور سے پہلے جب سندھ پر عربی نزاد اور بلوچ نزاد حکومت کیا کرتے تھے تو سماٹ ھندوؤں اور سماٹ مسلمان کے ساتھ عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان امتیازی سلوک نہیں کیا کرتے تھے؟ بلوچ نزاد محقق ڈاکٹر محمد لائق زرداری نے اپنی کتاب ”سندھ کی سیاسی جدوجہد “ میں تحریر کیا ھے کہ ”ممبئی کے ساتھ الحاق کے بعد سندھ کی تکلیفوں اور دکھوں کا سلسلہ شروع ھوا “۔سوال یہ ھے کہ؛ کیا ممبئی کے ساتھ الحاق کے بعد سندھ کے عربی نزاد اور بلوچ نزاد کی تکلیفوں اور دکھوں کا سلسلہ شروع ھوا یا سماٹ ھندوؤں کی بھی تکلیفوں اور دکھوں کا سلسلہ شروع ھوا؟ ایک اور جگہ لکھا ھے کہ ”تعلیمی پستی کی وجہ سے سندھ کے لوگوں نے محسوس کیا کہ ممبئی کے ساتھ رھنے کی وجہ سے وہ ھر میدان میں نقصان اٹھائیں گے“ سوال یہ ھے کہ؛ انگریز کے سندھ کو بمبئی پریسیڈنسی میں شامل کرنے سے پہلے عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان حکمرانوں نے سندھ میں کتنے تعلیمی ادارے قائم کیے تھے اور سندھ کے بمبئی پریسیڈنسی میں شامل ھونے کے بعد سندھ میں کتنے تعلیمی ادارے قائم ھوئے؟ سندھ کے بمبئی پریسیڈنسی میں شامل ھونے کے بعد سماٹ ھندوؤں میں تعلیم پستی کیوں ختم ھوئی؟ سماٹ ھندو سندھ کے شھری علاقوں ' تعلیم ' تجارت ' سرمایہ کاری اور سرکاری ملازمتوں پر کیسے چھاگئے؟

پاکستان کے قیام کے بعد سندھ میں زیادہ تر عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان سندھی قوم پرست بنے ھوئے ھیں۔ عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان قوم پرست نہیں ھیں۔ یہ عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان مفاد پرست ھیں۔ پاکستان کے قیام سے پہلے یہ عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان ' مسلم جذبات کو اشتعال دے کر کے ھندو سندھیوں کو ' جو کہ سماٹ تھے ' بلیک میل کرتے تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد سندھ سے سماٹ ھندوؤں کو نکال کر ' ان کے گھروں ' زمینوں ' جائیدادوں اور کاروبار پر قبضہ کرنے کے بعد یہ عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان ' سندھی قوم پرست بنے بیٹھے ھیں۔ یہ عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان اب مسلمان سماٹ سندھیوں پر سماجی ' سیاسی اور معاشی بالادستی قائم کرنے کے بعد " سندھی قوم پرست " بن کر سندھ میں رھنے والے مسلمان پنجابیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں کرنے کے ساتھ ساتھ " سندھ کارڈ گیم " کے ذریعہ پنجاب کو بھی بلیک میل کرتے رھتے ھیں۔

ماضی میں " سندھی قوم پرست " بن کر سماٹ سندھیوں پر سماجی ' سیاسی اور معاشی بالادستی قائم کرنے ' سندھ میں رھنے والے مسلمان پنجابیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں کرنے اور " سندھ کارڈ گیم " کے ذریعہ پنجاب کو بلیک میل کرنے کا کام یہ عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان ' عربی نزاد جی . ایم سید کی لیڈر شپ میں کرتے تھے۔ اب یہ عربی نزاد اور بلوچ نزاد مسلمان " سندھی قوم پرست " بن کر سماٹ سندھیوں پر سماجی ' سیاسی اور معاشی بالادستی قائم کرنے ' سندھ میں رھنے والے مسلمان پنجابیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں کرنے اور " سندھ کارڈ گیم " کے ذریعہ پنجاب کو بلیک میل کرنے کا کام ' بلوچ نزاد آصف زرداری کی لیڈر شپ میں کر رھے ھیں۔

No comments:

Post a Comment