Friday 25 August 2017

نواز شریف کو نشانہ بنا کر ایک تیر سے دو شکار ھو رھے ھیں۔

الیکٹرونک میڈیا پر اینکرز ' تجزیہ نگار اور کچھ سیاستدان یہ جملہ بار بار دھرا رھے ھیں کہ؛ نواز شریف بتاتا کیوں نہیں کہ نواز شریف کو وزاتِ اعظمیٰ سے ھٹانے کی سازش کس نے کی؟ اسکا آسان اور سادہ سا جواب یہ ھے کہ؛ وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف سازش وہ کر رھے تھے ' جنہوں نے الیکٹرونک میڈیا پر اینکروں ' تجزیہ نگاروں اور کچھ سیاستدانوں کو وزیرِ اعظم نواز شریف کی کردار کشی کرنے کے لیے غیبت ' تہمت اور بہتام تراشی کا ٹھیکہ دیا ھوا تھا اور یہ بھی تاثر دینے کی کوشش ھو رھی تھی کہ؛ دراصل پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے یہ کام ھو رھا ھے۔ مقصد اس ٹھیکے کا ن لیگ کے عام رکن اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے عام رکن کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول قائم کرنا تھا۔

میرے تجزیے کے مطابق پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے یہ کام نہیں ھو رھا تھا۔ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ یہ کیوں چاھتی کہ؛ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے عام رکن اور ن لیگ کے عام رکن کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول قائم ھو؟ اس لیے ھی الیکٹرونک میڈیا پر اینکروں ' تجزیہ نگاروں اور کچھ سیاستدانوں کی طرف سے ایک تو وزیرِ اعظم نواز شریف کی کردار کشی کی جارھی تھی۔ دوسرا پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کیا جا رھا تھا۔

اصل میں وزیرِ اعظم نواز شریف کی کردار کشی کا ٹھیکہ دینے والے ایک تیر سے دو شکار کر رھے تھے۔ بظاھر انکا نشانہ وزیرِ اعظم نواز شریف کو بدنام کرنا تھا لیکن انکا اصل نشانہ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور وزیرِ اعظم نواز شریف کو لڑوانا تھا۔

جب نواز شریف پاکستان کا وزیرِ اعظم تھا تو الیکٹرونک میڈیا پر اینکرز ' تجزیہ نگاروں اور کچھ سیاستدانوں کے پاس وزیرِ اعظم نواز شریف کی کردار کشی کرنے کے لیے غیبت ' تہمت اور بہتام تراشی کا ٹھیکہ تھا۔

اب سپریم کورٹ کے بینچ کی طرف سے نواز شریف کو پاکستان کے وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھل قرار دینے کے بعد انہی اینکروں ' تجزیہ نگاروں اور سیاستدانوں کو نواز شریف کو مشورے دینے کا ٹھیکہ دیا گیا ھے کہ نواز شریف یہ کریں اور یہ نہ کریں بلکہ یہ بھی کہا جائے گا کہ نواز شریف یہ کیوں کر رھا ھے اور یہ کیوں نہیں کر رھا؟

میرے تجزیئے کے مطابق نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نا اھلی میں بھی ادارے کی حیثیت سے پاکستان کی فوج کا کوئی کردار نہیں ھے۔ بلکہ نواز شریف کی سپریم کورٹ سے وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھلی کے بعد پاکستان کی فوج کے ادارے کے لیے مشکلات بہت زیادہ بڑہ گئی ھیں۔

نواز شریف کی کردار کشی اور وزیرِ اعظم کے طور پر نا اھل قرار دلوانے میں البتہ پرویز مشرف اور شجاع پاشا جیسے ریٹارڈ جنرل ضرور شامل تھے جو پاکستان کی فوج کے ریٹارڈ اور پاکستان کی فوج میں موجود اپنے واسطے داروں کو اپنے عزائم کے لیے استعمال کرتے رھے اور اب بھی استعمال کر رھے ھیں۔ جبکہ عمران خان اس کھیل کا ایک مھرہ ھے۔

دراصل پاکستان میں " نیو گریٹ گیم " کا کھیل اپنے عروج پر ھے۔ پاکستان میں اس کھیل کے بین الاقوامی کھلاڑی امریکہ اور چین ھیں۔ قومی کھلاڑی پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف ھیں۔ علاقائی کھلاڑی مھاجر پرویز مشرف ' سندھی آصف زرداری ' پٹھان عمران خان ھیں۔

مھاجر پرویز مشرف ' سندھی آصف زرداری ' پٹھان عمران خان واضح طور پر امریکن کیمپ کی طرف سے کھیل کھیل رھے ھیں۔ پاکستان کے قومی کھلاڑیوں ' پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے واضح طور پر امریکن کیمپ یا چینی کیمپ کی طرف سے کھیل کھیلنے کا فیصلہ کرنے تک اب پاکستان میں سیاسی انتشار میں روز بہ روز اضافہ ھوتا جانا ھے۔

پاکستان اور پاکستان کی عوام کے مفاد میں تو بہتر یہ ھی تھا کہ وزیرِ اعظم ھوتے ھوئے نواز شریف اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ باھمی مشاورت کے ساتھ واضح طور پر امریکن یا چینی کیمپ میں جانے کا فیصلہ کرتے۔ لیکن نواز شریف کے وزیرِ اعظم کے طور پر برطرفی کے بعد جو صورتحال پیدا ھو چکی ھے ' اسکے بعد زیادہ امکانات تو یہ ھی ھیں کہ اب نواز شریف اور پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ واضح طور پر امریکن یا چینی کیمپ میں جانے کا فیصلہ اپنے اپنے طور پر کریں گے۔

پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے پاکستان کے قومی کھلاڑی ھونے کی وجہ سے الگ الگ کیمپ میں جانے کی صورت میں پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے درمیان ٹکراؤ ھوگا جس سے نقصان پاکستان اور پاکستان کے عوام کا ھوگا۔ جبکہ ایک ھی کیمپ میں جانے کی صورت میں پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے درمیان باھمی تعاون کا طریقہ کار بلآخر طے کرنا ھی پڑنا ھے۔

پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں نواز شریف کو زیرو ھونے کے بجائے ھیرو بننے جبکہ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کے عام رکن اور ن لیگ کے عام رکن کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول قائم نہ ھونے دینے کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کا قائد بن کر درج ذیل 3 کام کرنے پڑیں گے؛

1۔ حکومتی اور سیاسی امور کو الگ الگ کردے۔ وفاقی اور صوبائی وزرا کے پاس پارٹی کے عہدے نہ ھوں اور پارٹی کے عہدیداروں کو وزیر نہ بنائے۔ پاکستان کی وفاقی ' پنجاب ' بلوچستان ' گلگت بلتستان اور کشمیر کی حکومتوں کو اپنے اپنے حکومتی امور انجام دینے دے۔ تمام وفاقی اور صوبائی وزرا کو اپنے اپنے محکموں میں با اختیار بناکر خود وزرا کی کارکردگی کا جائزہ لیا کرے۔ وفاقی وزرا اپنے محکمے کی کارکردگی کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی عہدیداروں کے سامنے جوابدہ ھوں۔ صوبائی وزرا اپنے محکمے کی کارکردگی کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی عہدیداروں کے سامنے جوابدہ ھوں۔ ضلعی حکومتوں کے سربراھان اپنی ضلعی حکومت کی کارکردگی کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کے ضلعی عہدیداروں کے سامنے جوابدہ ھوں۔

2۔ پاکستان مسلم لیگ ن کو پاکستان کی سطح پر ' صوبوں کی سطح پر اور ضلعوں کی سطح پر منظم کرے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی عہدیدار پاکستان کی سطح کے انتظامی ' اقتصادی ' معاشی اور سماجی مسائل کے بارے پروگرام اور پالیسی بناکر متعلقہ محکموں کے وزیروں کو عمل درآمد کے لیے دیں۔ جس پر حکومتی قوائد و ضوابط کے مطابق متعلقہ محکمے کے وزیر کے صوابدیدی اختیار یا وفاقی کابینہ کی منظوری یا قومی اسمبلی سے قانون سازی کے بعد عمل درآمد کیا جائے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی عہدیدار اپنے اپنے صوبے کے انتظامی ' اقتصادی ' معاشی اور سماجی مسائل کے بارے پروگرام اور پالیسی بناکر متعلقہ محکموں کے وزیروں کو عمل درآمد کے لیے دیں۔ جس پر حکومتی قوائد و ضوابط کے مطابق متعلقہ محکمے کے وزیر کے صوابدیدی اختیار یا صوبائی کابینہ کی منظوری یا صوبائی اسمبلی سے قانون سازی کے بعد عمل درآمد کیا جائے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے ضلعی عہدیدار اپنے اپنے ضلعے کے انتظامی ' اقتصادی ' معاشی اور سماجی مسائل کے بارے پروگرام اور پالیسی بناکر ضلعی حکومت کے سربراہ کو عمل درآمد کے لیے دیں۔ جس پر حکومتی قوائد و ضوابط کے مطابق ضلعی حکومت کے سربراہ کے صوابدیدی اختیار یا ضلع کونسل کی منظوری کے بعد عمل درآمد کیا جائے۔

3۔ نواز شریف خود مارچ 2018 تک کے لیے رائیونڈ میں قیام کرے جہاں 3 بجے سے لیکر 5 بجے تک پیر کے روز پنجاب ' منگل کے روز سندھ ' بدہ کے روز بلوچستان ' جمعرات کے روز خیبر پختونخواہ ' جمعہ کے روز گلگت بلتستان ' سنیچر کے روز کشمیر سے آنے والے پاکستان مسلم لیگ ن کے ورکروں اور عام شہریوں سے اجتماعی ملاقات کیا کرے۔ صبح اور رات کے اوقات میں وفاقی و صوبائی وزرا ' قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ' پاکستان مسلم لیگ ن کے عہدیداروں ' دیگر سیاسی جماعتوں کے رھنماؤں ' ملکی و غیر ملکی شخصیات و وفود سے پہلے سے طے شدہ اجتماعی اور انفرادی ملاقاتیں کیا کرے اور اپنے مقدمات کے بارے وکلا کے ساتھ قانونی صلاح و مشورہ کیا کرے۔ جبکہ اتوار کا دن اپنے گھریلو امور انجام دے اور اپنا وقت اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ گذارے۔

No comments:

Post a Comment