Wednesday 9 August 2017

پاکستان میں لسانی سیاست کی گروہ بندی اب مزید بڑھے گی۔

پاکستان کی قومی اسمبلی میں 188 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی سیاسی جماعت ن لیگ ھے۔ ن لیگ کو پنجابیوں کی اکثریت کی سپورٹ حاصل ھے۔ دوسری بڑی جماعت 47 نشستوں کے ساتھ پی پی پی ھے۔ پی پی پی کو سندھیوں کی اکثریت کی سپورٹ حاصل ھے۔ تیسری بڑی جماعت 33 نشستوں کے ساتھ پی ٹی آئی ھے۔ پی ٹی آئی کو پٹھانوں کی اکثریت کی سپورٹ حاصل ھے۔ چوتھی بڑی جماعت 24 نشستوں کے ساتھ ایم کیو ایم ھے۔ ایم کیو ایم کو ھندوستانی مھاجروں کی اکثریت کی سپورٹ حاصل ھے۔ ن لیگ کا قائد نواز شریف ھے۔ پی پی پی کا قائد آصف زرداری ھے۔ پی ٹی آئی کا قائد عمران خان ھے۔ ایم کیو ایم کا قائد پرویز مشرف ھے۔

پاکستان کی سیاست کے لسانی بنیادوں پر تشکیل پا جانے کی وجہ سے اب پاکستان میں لسانی سیاست کی گروہ بندی کو فوری طور پر ختم کرنا مشکل ھی نہیں بلکہ نا ممکن ھو چکا ھے۔ بلکہ پاکستان میں لسانی سیاست کی گروہ بندی اب مزید بڑھے گی۔ کیونکہ ساؤتھ چائنا سی کا علاقہ امریکہ اور چین کے درمیان ٹکراؤ بلکہ جاپان ' تائیوان ' کوریا ' فلپائن کی وجہ سے تیسری جنگِ عظیم کا باعث بن سکتا ھے۔ ساؤتھ چائنا سی میں امریکہ اور چین کے درمیان ٹکراؤ کی صورت میں چین کو آئل کی سپلائی میں مشکل ھوگی بلکہ عرب ممالک سے چین تک تیل کی رسائی کے درمیان امریکی بحری بیڑے حائل ھوںگے۔ ساؤتھ چائنا سی میں امریکہ اور چین کے درمیان ٹکراؤ کی صورت میں چین کو آئل کی سپلائی گوادر سے کاشغر تک کے راستے سے بحال رہ سکتی ھے۔ سی پیک کے منصوبے کی وجہ سے چین ' گوادر سے کاشغر تک آئل اور گیس لے جانے کی کوشش کرے گا۔ امریکہ ' گوادر سے کاشغر تک آئل اور گیس نہ جانے دینے کی کوشش کرے گا۔ یہ کھیل 2020 سے 2030 تک عروج پر رھے گا۔ اس کھیل کو " نیو گریٹ گیم " کہا جاتا ھے۔

اس " نیو گریٹ گیم " میں پی پی پی کا قائد آصف زرداری ' پی ٹی آئی کا قائد عمران خان ' ایم کیو ایم کا قائد پرویز مشرف واضح طور پر امریکن کیمپ میں جا چکے ھیں جبکہ ن لیگ کے قائد نواز شریف کو واضح طور پر امریکن یا چینی کیمپ میں نہ جانے کی وجہ سے پاکستان کی وزارتِ اعظمیٰ سے تو محروم ھونا ھی پڑا ھے لیکن اب بھی اگر امریکن یا چینی کیمپ میں سے کسی ایک کیمپ کا انتخاب نہ کیا تو پھر اگلے مرحلے میں جیل جانا پڑ جانا ھے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کو بھی مستقبل قریب میں امریکن یا چینی کیمپ میں سے کسی ایک کیمپ کا انتخاب کرنا پڑنا ھے۔ اس لیے جب تک پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ امریکن یا چینی کیمپ میں سے کسی ایک کیمپ کا انتخاب کرکے پاکستان میں مارشل لاء نافذ کرکے پاکستان کی حکومت نہیں سمبھالتی یا خود کو پاکستان کی عوامی و جمہوری سیاست میں دخل اندازی کرتے رھنے کی روایت اور اب عوام میں پائے جانے والے شک و شبہے کو ختم کرکے پاکستان کی حکومت سمبھالنے کے بجائے پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت تک خود کو محدود کرنے کی یقین دھانی نہیں کراتی ' اس وقت تک پاکستان کی سیاست اب نواز شریف ' آصف زرداری ' عمران خان اور پرویز مشرف کے ارد گرد گھومے گی۔ لہٰذا؛

1۔ پنجابیوں کا سیاسی فائدہ اس میں ھی ھے کہ " نیو گریٹ گیم " اور لسانی سیاست کی گروہ بندی کو نظر انداز نہ کریں اور پنجابیوں میں نواز شریف کے مقابلے کی دوسری قد آور سیاسی شخصیت کے نہ ھونے کی وجہ سے فی الحال نواز شریف کی مخالفت کرنے کے بجائے دامے ' درمے ' سخنے نواز شریف کو سیاسی طور پر سپورٹ کریں۔ ورنہ لسانی سیاست کی گروہ بندی اور " نیو گریٹ گیم " کے تناظر میں پنجابیوں کا آپس کا سیاسی انتشار پنجابیوں کے لیے سیاسی بربادی بن جائے گا۔ جبکہ نواز شریف کی مخالفت کرنے والے پنجابی خود بھی نقصان اٹھائیں گے بلکہ بہت زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ کیونکہ سندھیوں ' پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں نے اب پنجابیوں پر اپنی سیاسی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں اور کاوشوں سے باز نہیں آنا۔ اسلیے نواز شریف کی مخالفت کرنے والے پنجابی بھی سندھیوں ' پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کے سیاسی تسلط سے بچ نہیں پائیں گے۔ سوائے ان پنجابیوں کے جن کے سندھیوں ' پٹھانوں یا ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ ذاتی مراسم ھیں۔

2۔ سندھیوں کا سیاسی فائدہ اس میں ھی ھے کہ " نیو گریٹ گیم " اور لسانی سیاست کی گروہ بندی کو نظر انداز نہ کریں اور سندھیوں میں آصف زرداری کے مقابلے کی دوسری قد آور سیاسی شخصیت کے نہ ھونے کی وجہ سے فی الحال آصف زرداری کی مخالفت کرنے کے بجائے دامے ' درمے ' سخنے آصف زرداری کو سیاسی طور پر سپورٹ کریں۔ ورنہ لسانی سیاست کی گروہ بندی اور " نیو گریٹ گیم " کے تناظر میں سندھیوں کا آپس کا سیاسی انتشار سندھیوں کے لیے سیاسی بربادی بن جائے گا۔ جبکہ آصف زرداری کی مخالفت کرنے والے سندھی خود بھی نقصان اٹھائیں گے بلکہ بہت زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ کیونکہ پنجابیوں ' پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں نے اب سندھیوں پر اپنی سیاسی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں اور کاوشوں سے باز نہیں آنا۔ اسلیے آصف زرداری کی مخالفت کرنے والے سندھی بھی پنجابیوں ' پٹھانوں اور ھندوستانی مھاجروں کے سیاسی تسلط سے بچ نہیں پائیں گے۔ سوائے ان سندھیوں  کے جن کے پنجابیوں ' پٹھانوں یا ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ ذاتی مراسم ھیں۔

3۔ پٹھانوں کا سیاسی فائدہ اس میں ھی ھے کہ " نیو گریٹ گیم " اور لسانی سیاست کی گروہ بندی کو نظر انداز نہ کریں اور پٹھانوں میں عمران خان کے مقابلے کی دوسری قد آور سیاسی شخصیت کے نہ ھونے کی وجہ سے فی الحال عمران خان کی مخالفت کرنے کے بجائے دامے ' درمے ' سخنے عمران خان کو سیاسی طور پر سپورٹ کریں۔ ورنہ لسانی سیاست کی گروہ بندی اور " نیو گریٹ گیم " کے تناظر میں پٹھانوں کا آپس کا سیاسی انتشار پٹھانوں کے لیے سیاسی بربادی بن جائے گا۔ جبکہ عمران خان کی مخالفت کرنے والے پٹھان خود بھی نقصان اٹھائیں گے بلکہ بہت زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ کیونکہ پنجابیوں ' سندھیوں اور ھندوستانی مھاجروں نے اب پٹھانوں پر اپنی سیاسی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں اور کاوشوں سے باز نہیں آنا۔ اسلیے عمران خان کی مخالفت کرنے والے پٹھان بھی پنجابیوں ' سندھیوں اور ھندوستانی مھاجروں کے سیاسی تسلط سے بچ نہیں پائیں گے۔ سوائے ان پٹھانوں  کے جن کے پنجابیوں ' سندھیوں یا ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ ذاتی مراسم ھیں۔

4۔ ھندوستانی مھاجروں کا سیاسی فائدہ اس میں ھی ھے کہ " نیو گریٹ گیم " اور لسانی سیاست کی گروہ بندی کو نظر انداز نہ کریں اور ھندوستانی مھاجروں میں پرویز مشرف کے مقابلے کی دوسری قد آور سیاسی شخصیت کے نہ ھونے کی وجہ سے فی الحال پرویز مشرف کی مخالفت کرنے کے بجائے دامے ' درمے ' سخنے پرویز مشرف کو سیاسی طور پر سپورٹ کریں۔ ورنہ لسانی سیاست کی گروہ بندی اور " نیو گریٹ گیم " کے تناظر میں ھندوستانی مھاجروں کا آپس کا سیاسی انتشار ھندوستانی مھاجروں کے لیے سیاسی بربادی بن جائے گا۔ جبکہ پرویز مشرف کی مخالفت کرنے والے ھندوستانی مھاجر خود بھی نقصان اٹھائیں گے بلکہ بہت زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ کیونکہ پنجابیوں ' پٹھانوں اور سندھیوں نے اب ھندوستانی مھاجروں پر اپنی سیاسی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں اور کاوشوں سے باز نہیں آنا۔ اسلیے پرویز مشرف کی مخالفت کرنے والے ھندوستانی مھاجر بھی پنجابیوں ' پٹھانوں اور سندھیوں کے سیاسی تسلط سے بچ نہیں پائیں گے۔ سوائے ان ھندوستانی مھاجروں  کے جن کے پنجابیوں ' پٹھانوں یا سندھیوں کے ساتھ ذاتی مراسم ھیں۔

No comments:

Post a Comment