Wednesday 22 May 2019

محسن داوڑ کہتا ھے؛ پاکستان کا کھاؤ لیکن گُن افغانستان کے گاؤ۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کے میمبر پشتون تحفظ موومنٹ کے رھنما محسن داوڑ نے 22 مئی 2019 کو ٹوئیٹ کیا تھا کہ؛ میں افغان تھا ' افغان ھوں اور افغان رھوں گا۔ یہ کوئی قابلِ اعتراض نہیں ھے۔ کیونکہ پاکستان میں افغانستان کے فارسی ' ازبک ' ترکمن ' نورستانی و دیگر باشندوں کے بجائے صرف افغانستان کے مغربی علاقے میں رھنے والے 60 قبیلوں کے افراد کو جن کی مادری زبان پشتو ھے افغانی کہا جاتا ھے۔ یہ افغانی جب خیبر پختونخوا میں رھنا شروع کردیتے ھیں تو خود کو پختون کہتے ھیں۔ جب بلوچستان میں رھنا شروع کردیتے ھیں تو خود کو پشتون کہتے ھیں۔ جب اسلام آباد ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں رھنا شروع کردیتے ھیں تو خود کو پٹھان کہتے ھیں۔ مختلف علاقوں میں رھنے کے علاوہ انکے قبیلے تو الگ الگ ھیں ھی لیکن انکی زبانوں کے لہجے بھی مختلف ھیں بلکہ اتنے مختلف ھیں کہ ان میں سے اکثر خود ایک لہجہ بولنے والے دوسرے لہجے کو سمجھ نہیں پاتے۔ لیکن عام لوگ انہیں ایک ھی زبان اور قوم کے فرد سمجھتے ھیں۔ جبکہ یہ تاثر بھی ھے کہ افغانستان کا سارا علاقہ انہیں کا ھے اور یہ افغانستان کی اکثریتی آبادی ھیں اور افغانستان پر انکا مکمل کنٹرول ھے۔ جبکہ افغانستان میں %42 لوگوں کی مادری زبان پشتو اور %27 لوگوں کی مادری زبان فارسی ہے اور باقی %30 فیصد لوگ ازبک ' ترکمن ' نورستانی ' بلوچی وغیرہ بولتے ھیں۔ نورستانی اور بلوچی سمیت تیس کے قریب علاقائی زبانیں ھیں جو 4% کے قریب لوگ بولتے ھیں۔ پشتو بولنے والے لوگوں کے علاقے زیادہ تر پاکستانی سرحد سے قریب ھیں۔ یعنی پاکستان کے مشرق میں ھیں۔

مسئلہ یہ ھے کہ؛ محسن داوڑ کا یہ بھی کہنا تھا کہ؛ قومیں نہیں بدلتیں جغرافیے بدلتے رھتے ھیں۔ میں افغان تھا ' افغان ھوں اور افغان رھوں گا۔ اس لیے پاکستان میں رھو۔ پاکستان کا کھاؤ لیکن گُن افغانستان کے گاؤ۔ اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ قوم کا فرد اور ریاست کا شھری ھونے میں کیا فرق ھے؟ عالمی قوانین کے تحت پاکستان کی ریاست کا شھری ھونے کی وجہ سے پاکستان کے ھر شھری کی وفاداری بھی پاکستان کے ساتھ ھی ھونی چاھیے اور اسے پاکستان کے ھی گُن گانے چاھیئں۔ محسن داوڑ کی قوم بے شک پٹھان ھو ' پختون ھو ' پشتون ھو یا افغانی ھو۔ لیکن محسن داوڑ پاکستان کا شھری ھے۔ جبکہ محسن داوڑ تو پاکستان کی قومی اسمبلی کا میمبر بھی ھے۔ اس لیے پاکستان کا شھری ھونے کی وجہ سے یہ کیسے ممکن ھے کہ؛ محسن داوڑ پاکستان میں رھے۔ پاکستان کا کھائے لیکن گُن افغانستان کے گائے؟ پاکستان میں رھنے والا پاکستان کا شھری چاھے پٹھان ھو ' پختون ھو ' پشتون ھو یا افغانی ھو۔ پنجابی ' ھندکو ' چترالی ' سواتی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' براھوئی ' بلوچ ' سندھی ' مھاجر ' راجستھانی ' گجراتی ھو۔ اسے پاکستان کا شھری ھونے کی وجہ سے قانونی ھی نہیں بلکہ اخلاقی طور بھی اپنی ریاست کا وفادار ھونا چاھیے اور گُن بھی اپنی ریاست کے گانے چاھیئں نہ کہ افغانستان کا یا کسی اور ملک کا وفادار ھو اور افغانستان کے یا کسی اور ملک کے گُن گائے۔ پاکستان میں اکثر دھشتگردی کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ھیں لیکن محسن داوڑ نے کبھی افغان سرزمین سے پاکستان میں ھونے والی دھشتگردی کی وارداتوں پر آواز کیوں نہ اٹھائی؟

پاکستان میں اس وقت پٹھانوں کی پارٹی پی ٹی آئی کی حکومت ھے۔ پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھونے کے باوجود پاکستان کا وزیرِ اعظم پٹھان ' پاکستان کی قومی اسمبلی کا اسپیکر پٹھان ' پاکستان کی قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر پٹھان ھے۔ خیبر پختونخوا کا گورنر ' وزیرِ اعلیٰ ' اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر پٹھان ھے۔ بلوچستان کا گورنر اور ڈپٹی اسپیکر پٹھان ھے۔ سندھ اسمبلی کا اسپیکر پٹھان ھے۔ جبکہ پٹھانوں کی پارٹی پی ٹی آئی نے پاکستان کا صدر مھاجر ' پاکستان کی سینٹ کا چیئرمین بلوچ ' پاکستان کی سینٹ کا ڈپٹی چیئرمین مھاجر بلکہ پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بھی بلوچ کو بنوا دیا ھے۔ لگتا یہ ھے کہ پٹھانوں کی پارٹی پی ٹی آئی نے پاکستان کی حکومت میں پٹھان ' بلوچ ' مھاجر اتحاد بنایا ھے۔ کہیں یہ اتحاد پنجابیوں کے خلاف تو نہیں ھے؟ کیا پٹھان اس سے زیادہ بھی پاکستان میں بااختیار بن سکتا ھے؟ اب پاکستان کا پٹھان وزیرِ اعظم اور پاکستان کی پٹھان حکومت محسن داوڑ کے خلاف کیا قانونی اقدامات کرے گی؟ جبکہ پاکستان کی زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے سربراہ بھی پٹھان ھیں۔ اس لیے عوامی نیشنل پارٹی کا پٹھان سربراہ اسفند یار ولی ' پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا پٹھان سربراہ محمود خان اچکزئی ' جمیعت علمائے اسلام کا پٹھان سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ' جماعت اسلامی کا پٹھان سربراہ مولانا سراج الحق ' پشتون تحفظ موومنٹ کے پٹھان رھنما محسن داوڑ کے بیان کی مخالفت کریں گے یا نہیں کریں گے؟ امریکی صحافی نے بھی آج انکشاف کیا ھے کہ امریکن سی آئی اے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پٹھان علاقے میں پشتون قوم پرستی کی تحریک چلا کر ان علاقوں کو پاکستان سے الگ کرکے پشتونستان بنانا چاھتی ھے۔ کیا محسن داوڑ کے خلاف قانونی اقدامات اور بیان کی مخالفت نہ کرنے والے بھی کہیں امریکن سی آئی اے کے منصوبے میں شامل تو نہیں ھیں؟ 

اس کے علاوہ یہ معمہ بھی سمجھ میں نہیں آرھا کہ امریکن سی آئی اے کے منصوبے کے تحت پشتونستان بنانے سے پٹھانوں کو کیا فائدہ ھوگا؟ پشتونستان بننے کی صورت میں تو اسلام آباد ' پنجاب ' سندھ اور کراچی ھی نہیں بلکہ خیبر پختونخوا کے پنجاب کی سرحد کے ساتھ والے ھندکو پنجابیوں اور ڈیرہ والی پنجابیوں کے علاقے میں رھنے والے پٹھانوں کو بھی ان علاقوں سے نکلنا پڑے گا۔ جبکہ پشتونستان بنانے کی جدوجہد کے دوران پاکستان کی افواج سے مسلح تصادم ھوگا اور کم از کم 20 سے 25 لاکھ پٹھان مارے بھی جائیں گے۔ پاکستان میں پہلے ھی پنجابی آبادی پاکستان کی آبادی کا 60٪ ھے۔ پشتونستان بنانے سے تو بقیہ پاکستان نے پنجابستان بن جانا ھے۔ بلوچستان میں سے پشتون علاقہ الگ ھونے کے بعد بچنے ھی صرف بروھی اور بلوچ ھیں۔ جبکہ دیہی سندھ کے سندھی اور کراچی کے مھاجر پر تو غلبہ ھی نہیں بلکہ قبضہ تک پنجابی قوم کا ھوجانا ھے۔ کیونکہ دیہی سندھ کی بھی دوسری بڑی آبادی پنجابی ھے اور کراچی کی بھی دوسری بڑی آبادی پنجابی ھے۔ جبکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں بلوچ ' بروھی ' سندھی تو ھیں ھی نہیں۔ صرف پنجابی اور پٹھان ھیں۔ مھاجر پہلے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں غلبہ رکھتے تھے لیکن الطاف حسین کے بھارتی ایجنسی را کے تعاون سے کراچی کو پاکستان سے الگ کرنے کی سازش کی وجہ سے اور مھاجروں کے الطاف حسین کو سپورٹ کرنے کی وجہ سے مھاجروں کا پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پر سے غلبہ ختم کردیا گیا ھے۔ اس لیے پشتونستان بننے کی صورت میں پٹھانوں کو بھی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں سے نکال دیا جائے گا اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں صرف پنجابی بچیں گے اور بقیہ پاکستان کی 80٪ آبادی پنجابی ھوگی۔ اس لیے پنجابی قوم کا مکمل سیاسی ' سماجی ' معاشی ' انتظامی اور اقتصادی تسلط ھوگا۔

افغانستان ' پاکستان اور دیگر ممالک میں افغانیوں ' پختونوں ' پشتونوں اور پٹھانوں کی کل آبادی 5 کروڑ 4 لاکھ 50 ھزار  ھے۔ افغانستان کی 3 کروڑ 25 لاکھ آبادی میں سے افغانیوں کی آبادی ایک کروڑ 36 لاکھ 50 ھزار  تھی۔ جبکہ ایک کروڑ 88 لاکھ 50 ھزار آبادی میں سے 87 لاکھ 75 ھزار تاجک ' 29 لاکھ 25 ھزار ازبک ' 26 لاکھ ھزارہ ' 13 لاکھ ایمک ' 9 لاکھ 75 ھزار ترکمان تھے۔ لیکن 30 لاکھ افغانیوں کے پاکستان اور 6 لاکھ 50 ھزار افغانیوں کے ایران اور دیگر ممالک میں چلے جانے کی وجہ سے اب افغانستان میں صرف ایک کروڑ افغانی بچے ھیں۔

فاٹا میں 50 لاکھ اور خیبر پختونخوا میں 2 کروڑ  34 لاکھ 50 ھزار پختون رھتے ھیں۔ بلوچستان میں 44 لاکھ پشتون رھتے ھیں۔ اسلام آباد میں 4 لاکھ ' پنجاب میں 10 لاکھ ' سندھ میں 3 لاکھ 50 ھزار اور کراچی میں 22 لاکھ پٹھان رھتے ھیں۔جبکہ 30 لاکھ افغانی  فاٹا ' خیبر پختونخوا ' بلوچستان ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں بکھر چکے ھیں۔ یہ وقت گذرنے کے ساتھ پختون ' پشتون یا پٹھان بن جائیں گے۔ کیونکہ انہوں نے واپس افغانستان نہیں جانا۔ پاکستان میں پختونوں ' پشتونوں اور پٹھانوں کی 3 کروڑ 68 لاکھ آبادی جبکہ 30 لاکھ افغانیوں کی آبادی  کو ملایا جائے تو پاکستان میں پختونوں ' پشتونوں ' پٹھانوں اور افغانیوں کی کل آبادی 3 کروڑ 98 لاکھ بنتی ھے۔

افغانستان کے ایک کروڑ افغانیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ افغانستان میں افغانیوں کی تعداد کم ھوجانے کی وجہ سے تاجک ' ھزارہ ' ایمک ' ازبک ' ترکمان نے افغانستان میں افغانیوں پر اپنا سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط قائم کیا ھوا ھے۔ فاٹا  میں رھنے والے پختونوں کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ فاٹا میں معاشی وسائل نہیں ھیں۔ اور خیبر پختونخوا میں رھنے والے پختونوں کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ ایک تو معاشی طور پر مستحکم علاقوں پر ابھی تک ھندکو پنجابیوں کا کنٹرول ھے اور دوسرا ھندکو پنجابیوں کی پختونوں کو خیبر پختونخوا سے نکالنے کی جدوجہد میں روز با روز اضافہ ھوتا جارھا ھے۔ جبکہ خیبر پختونخوا کی 2 کروڑ  34 لاکھ 50 ھزار پختون قرار دی جانے والی آبادی میں سے بہت بڑی آبادی پختون نہیں ھے۔ 

خیبرپختونخوا صوبہ میں پشتو کے علاوہ 24 زبانیں بولی جاتی ھیں اوریہ ساری زبانیں یہاں کی تاریخی اور آبائی زبانیں ھیں۔ مرکزی پشاور اور ھزارہ میں ھندکو پنجابی بولی جاتی ھے۔ جنوبی ضلعوں میں ڈیرہ والی پنجابی بولی جاتی ھے۔ چترال میں کھوار کے ساتھ ساتھ 11 اور زبانیں کلاشا ' پالولا ' گوارباتی ' دمیلی ' یدغا ' شیخانی وغیرہ بولی جاتی ھیں۔ ضلع کوھستان میں کوھستانی اور شینا زبانیں بولی جاتی ھیں۔ سوات کے کوھستان میں توروالی ' گاؤری اور اوشوجو بولی جاتی ھے۔ دیر کوھستان میں کلکوٹی اور گاؤری زبانیں بولی جاتی ھیں۔ لیکن انہیں 2017 میں ھونے والی مردم شماری میں زبردستی پشتو بولنے والا شمار کیا گیا ھے۔ خیبر پختونخوا کی 3 کروڑ 5 لاکھ آبادی میں خیبر پختونخوا کے تاریخی اور قدیمی باشندے ھندکو پنجابی کو 35 لاکھ ' ڈیرہ والی پنجابی کو 11 لاکھ 35 ھزار  شمار کیا گیا ھے۔ اردو بولنے والے 2 لاکھ 75 ھزار جبکہ پنجابی بولنے والے صرف 27 ھزار  شمار کیے گئے ھیں۔

بلوچستان میں رھنے والے پشتونوں کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ بلوچستان میں پشتونوں کو بلوچوں نے اپنے سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط میں رکھا ھوا ھے۔ اسلام آباد ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں رھنے والے پٹھانوں کے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ قلیل تعداد میں ھونے کی وجہ سے اسلام آباد اور پنجاب میں پنجابی ' سندھی میں سندھی اور کراچی میں مھاجر پر اپنا سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط قائم نہیں کر سکتے۔ اس لیے اسلام آباد ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں اپنی تعداد بڑھانے کے لیے اگر خیبر پختونخوا سے پختونوں اور بلوچستان سے پشتونوں کو اسلام آباد ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں لاتے ھیں تو خیبر پختونخوا میں پختونوں اور بلوچستان میں پشتونوں کی تعداد کم ھوجاتی ھے۔ جسکی وجہ سے خیبر پختونخوا میں ھندکو پنجابیوں کی پختونوں کو خیبر پختونخوا سے نکالنے کی جدوجہد کامیاب ھوتی ھے جبکہ بلوچستان میں پشتونوں پر بلوچوں کے سیاسی ' سماجی اور معاشی تسلط میں مزید اضافہ ھوتا ھے۔

پچھلے ھزار سال کی تاریخ بتاتی ھے کہ افغانیوں نے اپنی دھرتی افغانستان کو ترقی دے کر حلال رزق کے ذرائع پیدا کرنے کے بجائے مسلمان کا روپ دھار کر دوسری قوموں کی دھرتی پر قبضے اور وسائل کی لوٹ مار کرنے کے بعد مسلمان کے بجائے؛

1۔ خیبر پختونخوا میں قوم پرست پختون بن کر اس دھرتی کو اپنی دھرتی اور اس قوم کے وسائل کو اپنے وسائل قرار دیا اور مقبوضہ ھندکو قوم پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ پختونوں کے ساتھ ظلم ' زیادتی اور نا انصافی کرتے ھیں۔

2۔ بلوچستان میں قوم پرست پشتون بن کر اس دھرتی کو اپنی دھرتی اور اس قوم کے وسائل کو اپنے وسائل قرار دیا اور مقبوضہ بلوچ قوم پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ پشتونوں کے ساتھ ظلم ' زیادتی اور نا انصافی کرتے ھیں۔

3۔ پنجاب ' سندھ اور کراچی میں قوم پرست پٹھان بن کر اس دھرتی کے کچھ علاقوں کو اپنی دھرتی اور اس قوم کے وسائل کو اپنے وسائل قرار دیا اور پنجاب میں پنجابی ' سندھ میں سندھی اور کراچی میں مھاجر قوم پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ پٹھانوں کے ساتھ ظلم ' زیادتی اور نا انصافی کرتے ھیں۔

1837 میں مھاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد برطانیہ نے 2 اپریل 1849 کو پنجاب پر قبضہ کرلیا اور1901 میں پنجاب میں سے ایبٹ آباد ' بنوں ' بٹگرام ' تور غر ' شانگلہ ' صوابی ' لکی مروت ' مالاکنڈ ' مانسہرہ ' مردان ' نوشہرہ ' ٹانک ' پشاور ' چارسدہ ' ڈیرہ اسماعیل خان ' کرک ' کوھاٹ ' کوھستان ' ھری پور ' ھزارہ ' ھنگو کو پنجاب سے الگ کرکے شمال مغربی سرحدی صوبہ کے نام سے ایک الگ صوبہ بنا دیا۔ پٹھانوں نے صوبہ سرحد میں تو بد امنی اور پختونائزیشن شیر شاہ سوری کے وقت سے شروع کی ھوئی تھی۔ جس میں مغلوں کے ساتھ مفاھمت کے بعد اضافہ ھوا۔ 1747 میں احمد شاہ ابدالی کے افغانستان کی سلطنت کے قیام اور پنجاب پر قبضے کے بعد تو بے انتہا اضافہ ھوا۔ مھاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب پر سے پٹھانوں کے قبضے کو ختم کروا کر پنجاب کو پٹھانوں کی بد امنی اور پختونائزیشن سے نجات دلوائی۔ لیکن انگریز کے پنجاب پر قبضے کے بعد پنجاب میں پٹھانوں کی بد امنی اور پختونائزیشن پھر سے بڑھنے لگی۔ بلکہ 1901 میں تو انگریز نے صوبہ سرحد بنا کر پٹھانوں کی بد امنی اور پختونائزیشن کی باقائدہ سرپرستی بھی کی۔ شمال مغربی سرحدی صوبہ کو 1901 سے لیکر 2010 تک عمومی طور پر صوبہ سرحد کہا جاتا رھا۔ لیکن 2010 میں آصف زرداری اور اسفندیار ولی نے اٹھارویں ترمیم کے وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے ھونے کی وجہ سے سازش کرکے پاکستان کے آئین میں صوبے کا نام خیبر پختونخوا کروا لیا اور اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ صدیوں پہلے سے ھی اس صوبہ کا علاقہ ھندکو پنجابیوں کا ھے۔ جہاں افغانستان سے افغانی آآ کر اور پختون بن بن کر قبضہ کرتے رھے ھیں۔

افغانیوں کے اپنی دھرتی افغانستان کو ترقی دے کر حلال رزق کے ذرائع پیدا کرنے کے بجائے دوسری قوموں کی دھرتی پر قبضے اور وسائل کی لوٹ مار کرنے کے لالچ کا نتیجہ یہ نکلا ھے کہ 5 کروڑ 4 لاکھ 50 ھزار افغانی ' پختون ' پشتون ' پٹھان اس وقت افغانستان ' فاٹا ' بلوچستان ' خیبر پختونخوا ' پنجاب ' سندھ  ' کراچی ' ایران اور دوسرے ممالک میں بکھر چکے ھیں۔ اس لیے افغانیوں کا افغانستان میں تاجک ' ھزارہ ' ایمک ' ازبک ' ترکمان کے ساتھ ' خیبر پختونخوا میں پختونوں کا ھندکو پنجابیوں کے ساتھ ' بلوچستان میں پشتونوں کا بلوچوں کے ساتھ ' پٹھانوں کا پنجاب میں پنجابیوں  کے ساتھ ' سندھ میں سندھیوں  کے ساتھ اور کراچی میں مھاجروں  کے ساتھ سیاسی ' سماجی اور معاشی ٹکراؤ ھے۔ جبکہ ایران اور دوسرے ممالک میں کوئی اھمیت اور قدر نہیں ھے۔ اس لیے افغانیوں کا اپنے وطن افغانستان ' پختونوں کا خیبر پختونخوا ' پشتونوں کا بلوچستان اور پٹھانوں کا پنجاب ' سندھ اور کراچی میں سیاسی ' سماجی اور معاشی مستقبل تو پہلے سے ھی تاریک نظر آرھا تھا۔ جس پر پٹھان سیاسی رھنما دھیان نہیں دے رھے تھے بلکہ ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے ریاستی اداروں کو بلیک میل کرنے اور پاکستان دشمن ممالک کے آلہء کار یا کاسہ لیس اور ھمدرد بننے کی سیاست کرتے تھے۔ لیکن اب پشتون تحفظ موومنٹ کے کھل کر پاکستان کی ریاست کے وفادار ھونے کے بجائے افغانستان کے گُن گانے اور پاکستان کی فوج اور پنجابیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان کے شھریوں میں تشویش پھیل رھی ھے۔

افغانستان سے پاکستان میں دھشتگردی کی کاروائیوں میں اضافے کی وجہ سے افغانستان کی سرحد سے ملحق فاٹا کے 50 لاکھ ' خیبر پختونخوا کے 2 کروڑ  34 لاکھ 50 ھزار پختونوں اور بلوچستان کے 44 لاکھ پشتونوں کے سیاسی رھنماؤں اور قبائل کے سربراھوں کو چاھیے کہ پاکستان کے ساتھ وفاداری کا عملی مظاھرہ کریں۔ اپنے افغان ' پختون ' پشتون یا پٹھان ھونے پر بے شک فخر کریں لیکن پاکستان میں رھنے۔ پاکستان کا کھانے کی وجہ سے گُن بھی پاکستان کے گائیں۔ جبکہ اسلام آباد کے 4 لاکھ ' پنجاب کے 10 لاکھ ' سندھ  کے  3 لاکھ 50 ھزار اور کراچی کے 22 لاکھ پٹھان اپنے تعلقات پنجابی ' ھندکو ' چترالی ' سواتی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' بروھی ' بلوچ ' سندھی ' مھاجر ' راجستھانی ' گجراتی کے ساتھ ٹھیک رکھیں اور فاٹا کے 50 لاکھ ' خیبر پختونخوا کے 2 کروڑ  34 لاکھ 50 ھزار ' بلوچستان ' 44 لاکھ پٹھانوں کو سمجھائیں کہ پاکستان دشمن عناصر کا آلہء کار بن کر پاکستان ' پاکستان کی فوج اور پنجابیوں کے خلاف سازشیں کرنے میں ملوث نہ ھوں ورنہ اسلام آباد ' پنجاب ' سندھ اور کراچی کے پٹھانوں کو بھی واپس فاٹا ' خیبر پختونخوا کے پٹھان علاقے ' بلوچستان کے پٹھان علاقے بلکہ ھوسکتا ھے کہ واپس افغانستان جانا پڑے۔ کیونکہ؛

پنجاب پر 1849 میں قبضہ کرنے کے بعد سے ھی برطانیہ کو ھر وقت یہ فکر لاحق رھتی تھی کہ پنجاب کی شمال مغربی سرحد کے روس کے ساتھ ملنے کی وجہ سے پنجاب کے علاقے میں کھیں روس کی طرف سے مداخلت نہ ھوجائے یا پنجابی قوم کھیں برطانیہ کا پنجاب پر قبضہ ختم کروانے کے لیے روس کے ساتھ مراسم قائم نہ کرلے۔ ان اندیشیوں سے نجات حاصل کرنے کی خاطر وائسرائے ھند نے والی افغانستان امیر عبدالرحمن خان سے مراسلت کی اور ان کی دعوت پر ھندوستان کے وزیر امور خارجہ ما ٹیمر ڈیورنڈ ستمبر 1893ء میں کابل گئے۔ نومبر 1893ء میں دونوں حکومتوں کے مابین 100 سال تک کا معاہدہ ھوا۔ جس کے نتیجے میں سرحد کا تعین کر دیا گیا۔ جو ڈیورنڈ لائن کے نام سے موسوم ھے۔ اس معاھدہ کے مطابق واخان ' کافرستان کا کچھ حصہ ' نورستان ' اسمار ' موھمند ' لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان کا حصہ قرار پایا اور استانیہ ' چمن ' نوچغائی ' بقیہ وزیرستان ' بلند خیل ' کرم ' باجوڑ ' سوات ' بنیر ' دیر ' چلاس اور چترال پر اپنے دعوے سے افغانستان 100 سال تک کے لیے دستبردار ھوگیا۔

14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کي حکومت نے برطانيہ کے کیے گئے معاھدے کا احترام کرتے ھوئے ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ برقرار رکھا اور کئی سال تک افغانستان کی حکومت کو مالی معاوضہ ديا جاتا رھا۔ لیکن کابل کی حکومت نے ڈیورنڈ لائن کی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور موقف اختیار کیا کہ مھاراجہ رنجیت سنگھ کے دور سے پہلے دریائے اٹک تک کے علاقہ پر افغانستان کا قبضہ تھا اور برطانوی راج کے دوران پنجاب سے الگ کرکے شمال مغربی سرحدی صوبہ بنانے کی وجہ سے اس علاقہ میں پشتون آبادکاری ھوچکی ھے۔ اس لیے ایبٹ آباد ' بنوں ' بٹگرام ' تور غر ' شانگلہ ' صوابی ' لکی مروت ' مالاکنڈ ' مانسہرہ ' مردان ' نوشہرہ ' ٹانک ' پشاور ' چارسدہ ' ڈیرہ اسماعیل خان ' کرک ' کوھاٹ ' کوھستان ' ھری پور ' ھزارہ ' ھنگو کے علاقے کو بھی افغانستان کو دیا جائے۔

جبکہ پنجابیوں کا مؤقف ھے کہ یہ علاقے تاریخی طور پر پنجابی قوم کے علاقے تھے۔ لیکن 1008عیسوی میں ترک نسل سبکتگین کے بیٹے محمود غزنوی نے حملہ آور ھوکر پنجاب کے حکمراں جے پال کے بیٹے آنند پال سے پشاور چھینا تھا۔ آنند پال کے بعد اس کا بیٹا ترلوچن پال تخت نشین ھوا اور لاھور پر اس کی عملداری 1022 تک برقرار رھی۔ حتیٰ کہ محمود غزنوی نے لاھور پر بھی حملہ کرکے لاھور کو غزنوی سلطنت کا حصہ بنا لیا اور پھر کبھی بھی کسی ھندو پنجابی کی پنجاب پر حکومت نہ رہ سکی۔ کیونکہ مسلمانوں کے عروج کی وجہ سے ترک مسلمان حکمرانی کرتے رھے۔

ترک نسل کے غوری خاندان کے ھاتھوں غزنوی خاندان کے زوال کے بعد 1187 میں پنجاب پر غوری خاندان نے حکومت کرنا شروع کردی اور محمد غوری کے جانشینوں نے دھلی سلطانہ کے نام سے سلطنت قائم کرکے 1206 سے لیکر 1526 تک راج کیا۔1211 سے لیکر 1290 تک خاندانِ غلاماں کا دور رھا۔ 1290 سے لیکر 1320 تک خلجی دور رھا۔ 1320 سے لیکر 1413 تک تغلق دور رھا۔ 1414 سے لیکر 1451 تک سید دور رھا۔ 1451 سے لیکر 1526 تک لودھی دور رھا۔

1526 میں افغانستان ' پنجاب اور دھلی پر مغل بادشاہ بابر کے قبضے کی وجہ سے دھلی سلطانہ کا زوال ھوا اور 1526 سے لیکر 1748 میں پٹھان احمد شاہ ابدالی کے پنجاب پر حملے سے پہلے تک پنجاب پر مغلوں کا قبضہ رھا۔ احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر آٹھ بار حملہ کیا۔ 1748 سے لیکر 1767 تک احمد شاہ ابدالی کے حملے ھوتے رھے۔لیکن ھر بار سکھ پنجابیوں کے ھاتھوں نقصان اٹھانا پڑتا رھا۔ اسی لیے 1762 سے لیکر 1767 تک کے احمد شاہ ابدالی کے پنجاب پر حملے خاص طور پر سکھ پنجابیوں کے خاتمے کے لیے تھے۔ 1798 میں احمد شاہ ابدالی کے پوتے شاہ زماں نےپنجاب پر آخری بار حملہ کیا۔ لیکن 1799 میں رنجیت سنگھ کے ھاتھوں شکست کھانے کے بعد لاھور چھوڑ کر بھاگ گیا اور پھر کبھی بھی لاھور پر حملہ آور نہ ھوسکا۔

777 سال تک لاھور پر غیر پنجابیوں کے قبضے کے بعد 7 جولائی 1799 کو پنجابی فاتح کی حیثیت سے رنجیت سنگھ لاھور میں داخل ھوا اور 12 اپریل 1801 میں پنجاب کی سکھ سلطنت قائم کرکے مھاراجہ رنجیت سنگھ نے صدیوں سے پنجابیوں کے مقبوضہ علاقوں کو فتح کرکے پنجاب کی سلطنت میں شامل کرنا شروع کیا۔ 1813 میں اٹک ' 1816 میں مظفر گڑہ ' 1818 میں ملتان ' 1818 میں پشاور ' 1819 میں کشمیر ' 1836 جمرود کا قبضہ واپس حاصل کرکے پنجاب کی سلطنت میں شامل کیا۔

1839 میں مھاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد برطانیہ نے 2 اپریل 1849 کو پنجاب پر قبضہ کرلیا اور1901 میں پنجاب میں سے ایبٹ آباد ' بنوں ' بٹگرام ' تور غر ' شانگلہ ' صوابی ' لکی مروت ' مالاکنڈ ' مانسہرہ ' مردان ' نوشہرہ ' ٹانک ' پشاور ' چارسدہ ' ڈیرہ اسماعیل خان ' کرک ' کوھاٹ ' کوھستان ' ھری پور ' ھزارہ ' ھنگو کو پنجاب سے الگ کرکے شمال مغربی سرحدی صوبہ کے نام سے ایک الگ صوبہ بنا دیا۔ جسے 1901 سے لیکر 2010 تک عمومی طور پر صوبہ سرحد کہا جاتا رھا۔ لیکن 2010 میں آصف زرداری اور اسفندیار ولی نے اٹھارویں ترمیم کے وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے ھونے کی وجہ سے سازش کرکے پاکستان کے آئین میں صوبے کا نام خیبر پختونخواہ کروا لیا اور اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ صدیوں پہلے سے ھی اس صوبہ کا علاقہ ھندکو پنجابیوں کا ھے۔ جہاں افغانستان سے آکر پشتون قبضہ کرتے رھے ھیں۔

بحرحال افغانستان اور پاکستان میں پشتون کی کل آبادی 4 کروڑ 98 لاکھ ھے۔ صرف ایک کروڑ پشتون افغانستان میں بچے ھیں جبکہ 3 کروڑ 98 لاکھ پشتون پاکستان میں آچکے ھیں۔ جن میں سے 39 لاکھ 50 ھزار پشتون اسلام آباد ' پنجاب ' سندھ اور کراچی میں ھیں۔ 3 کروڑ 28 لاکھ 50 ھزار پشتون فاٹا ' بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ھیں۔ اس لیے پشتونوں کے پاس ڈیورنڈ لائن اور پشتونوں کے مسئلے کو حل کرنے کے تین طریقے ھیں۔

ایک طریقہ یہ ھے کہ پاکستان کے 3 کروڑ 98 لاکھ پشتون واخان ' کافرستان کا کچھ حصہ ' نورستان ' اسمار ' موھمند ' لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان سے واپس پاکستان کو دلوا کر استانیہ ' چمن ' نوچغائی ' بقیہ وزیرستان ' بلند خیل ' کرم ' باجوڑ ' سوات ' بنیر ' دیر ' چلاس اور چترال کے علاقے کو افغانستان میں شامل کرکے افغانستان کا حصہ بن جائیں۔ لیکن اس صورت میں پنجاب ' سندھ ' کراچی ' بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے علاقے ایبٹ آباد ' بنوں ' بٹگرام ' تور غر ' شانگلہ ' صوابی ' لکی مروت ' مالاکنڈ ' مانسہرہ ' مردان ' نوشہرہ ' ٹانک ' پشاور ' چارسدہ ' ڈیرہ اسماعیل خان ' کرک ' کوھاٹ ' کوھستان ' ھری پور ' ھزارہ ' ھنگو میں رھنے والے پشتونوں کو واپس افغانستان جانا پڑے گا اور پاکستان آنے کے لیے ویزہ لینا پڑے گا۔

دوسرا طریقہ یہ ھے کہ پاکستان کے 3 کروڑ 98 لاکھ پشتون واخان ' کافرستان کا کچھ حصہ ' نورستان ' اسمار ' موھمند ' لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان سے واپس پاکستان کو دلوا کر پاکستان میں واقع استانیہ ' چمن ' نوچغائی ' بقیہ وزیرستان ' بلند خیل ' کرم ' باجوڑ ' سوات ' بنیر ' دیر ' چلاس اور چترال کے علاقے اور مشرقی افغانستان کے پشتون علاقوں اور افغانستان میں رھنے والے ایک کروڑ پشتونوں کو ملا کر پشتونستان بنا لیں۔ لیکن اس صورت میں پنجاب ' سندھ ' کراچی ' بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے علاقے ایبٹ آباد ' بنوں ' بٹگرام ' تور غر ' شانگلہ ' صوابی ' لکی مروت ' مالاکنڈ ' مانسہرہ ' مردان ' نوشہرہ ' ٹانک ' پشاور ' چارسدہ ' ڈیرہ اسماعیل خان ' کرک ' کوھاٹ ' کوھستان ' ھری پور ' ھزارہ ' ھنگو میں رھنے والے پشتونوں کو پشتونستان جانا پڑے گا اور پاکستان آنے کے لیے ویزہ لینا پڑے گا۔

تیسرا طریقہ یہ ھے کہ افغانستان کے ایک کروڑ پشتون واخان ' کافرستان کا کچھ حصہ ' نورستان ' اسمار ' موھمند ' لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان سے واپس پاکستان کو دلوا کر اور مشرقی افغانستان کے اپنے پشتون علاقوں کو پاکستان میں شامل کروا کر پاکستان کا حصہ بن جائیں۔

No comments:

Post a Comment