Friday 31 May 2019

کیا پٹھان ' بلوچ ' مھاجر اپنی ''کارڈ گیم" سیاست کا شکار ھونے والے ھیں؟

پاکستان کے قیام کے بعد خان غفار خان نے صوبہ سرحد کے پختون اکثریتی علاقوں میں اور خان عبدالصمد اچکزئی نے بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں میں ''پٹھان کارڈ" کھیلنے اور "پشتونستان" بنانے ' سردار خیر بخش مری نے بلوچستان کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں "بلوچ کارڈ" کھیلنے اور "آزاد بلوچستان" بنانے ' جی ایم سید نے دیہی سندھ میں "سندھی کارڈ" کھیلنے اور "سندھودیش" بنانے اور الطاف حسین نے کراچی میں "مھاجر کارڈ" کھیلنے اور "جناح پور" بنانے کا کھیل کھیل کر " قوم پرستی" کے نام پر " مفاد پرستی" اور "ذھنی دھشتگردی" والے فلسفے سے پاکستان کو پنجابستان ' پاکستان کی وفاقی حکومت کو پنجابی حکومت ' پاکستان کی فوج کو پنجابی فوج اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو پنجابی اسٹیبلشمنٹ ' پاکستان کی بیوروکریسی کو پنجابی بیوروکریسی قرار دے دے کر پنجابی قوم کو بلیک میل کرنے کے لیے نفرت کی جو آگ سلگانہ شروع کی اس سے پٹھانوں ' بلوچوں ' عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھیوں ' ھندوستانی مھاجروں کو عارضی طور پر فائدہ ھوا۔

خان غفار خان ' خان عبدالصمد اچکزئی ' سردار خیر بخش مری ' جی ایم سید اور الطاف حسین کی ''کارڈ گیم" سیاست سے پاکستان کی وفاقی حکومت ' پاکستان کی فوج ' پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ' پاکستان کی بیوروکریسی بلیک میل ھوتی رھی۔ صوبہ سرحد کے پختون اکثریتی علاقوں پر پختون کا مکمل تسلط قائم ھوگیا۔ بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں پر پشتون کا مکمل تسلط قائم ھوگیا۔ بلوچستان کے بلوچ اکثریتی علاقوں پر بلوچ کا مکمل تسلط قائم ھوگیا۔ دیہی سندھ کے عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھیوں کے اکثریتی علاقوں پر عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھی کا مکمل تسلط قائم ھوگیا۔ کراچی کے مھاجر اکثریتی علاقوں پر مھاجر کا مکمل تسلط قائم ھوگیا۔ اس سے نہ صرف ان علاقوں میں رھنے والے پنجابی سماجی ' معاشی اور سیاسی طور پر دوسرے درجے بلکہ تیسرے درجے کے شھری بن کر رہ گئے جبکہ وفاقی حکومت کی سرکاری ملازمت کے لیے یا تجارت کی غرض سے پنجاب سے ان علاقوں میں جانے والے پنجابی کے لیے یہ علاقے عملی طور پر "نو گو ایریا" بنتے گئے۔

سیاسی قیادت سے محروم قوم ان بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی مانند ھوتی ھے جس میں رھنمائی کرنے والی بھیڑ بکری نہیں ھوتی۔ اس لیے ریوڑ جدھر چاھے منہ اٹھائے بھاگتا پھرتا ھے۔ پنجاب میں پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے 20 لاکھ پنجابی مارے گئے تھے جبکہ 2 کروڑ پنجابی بے گھر ھوگئے تھے اس لیے پنجابیوں میں سیاسی قیادت نہ ھونے کی وجہ سے پاکستان کے قیام کے بعد پنجابی قوم بھیڑ بکریوں کے اس ریوڑ کی طرح رھی جس ریوڑ میں رھنمائی کرنے والی بھیڑ بکری نہیں ھوتی۔

صوبہ سرحد میں ھندکو کی سیاسی قیادت کو پٹھانوں کی سیاسی قیادت نے مفلوج بناکر صوبہ سرحد کے اصل باشندوں ھندکو پر پٹھانوں نے اپنا سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط قائم کرکے انہیں دوسرے درجے کا شھری بنا دیا۔ پنجاب میں پنجابی سیاسی قیادت نہ ھونے کا فائدہ اٹھاکر پنجابی قوم کے ریوڑ کو اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے پنجابیوں کو خوب ذلیل و خوار کیا لیکن پٹھانوں کی سیاسی قیادت اپنی جانشیں سیاسی قیادت پیدا نہ کرسکی بلکہ اپنے سیاسی جانشین اپنی اولاد یا خاندان کے افراد کو بنانے میں لگی رھی جو جانشین تو بنے لیکن سیاسی قائد نہ بن سکے۔ جبکہ خان غفار خان کی ''کارڈ گیم" سیاست کی وجہ سے صوبہ سرحد کے پختون اکثریتی علاقوں میں پختونوں کو سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط تو حاصل ھوگیا۔ لیکن پختونوں کے اپنے علاقوں کو ترقی دینے کے بجائے ذاتی مفادات حاصل کرنے میں مصروف رھنے کی وجہ سے ان علاقوں میں ترقی کا عمل رک گیا اور پسماندگی میں اضافہ ھونا شروع ھوگیا۔ جبکہ پختونوں کی اکثریت بھی بلیک میلنگ کی سیاست کا عادی ھوجانے کی وجہ سے ذھنی طور پر سیاسی پستگی میں مبتلا ھوگئی۔

بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں میں براھوئی کی سیاسی قیادت کو پٹھانوں کی سیاسی قیادت نے مفلوج بناکر بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں کے اصل باشندوں براھوئی پر پٹھانوں نے اپنا سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط قائم کرکے انہیں دوسرے درجے کا شھری بنا دیا۔ پنجاب میں پنجابی سیاسی قیادت نہ ھونے کا فائدہ اٹھاکر پنجابی قوم کے ریوڑ کو اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے پنجابیوں کو خوب ذلیل و خوار کیا لیکن پٹھانوں کی سیاسی قیادت اپنی جانشیں سیاسی قیادت پیدا نہ کرسکی بلکہ اپنے سیاسی جانشین اپنی اولاد یا خاندان کے افراد کو بنانے میں لگی رھی جو جانشین تو بنے لیکن سیاسی قائد نہ بن سکے۔ جبکہ خان عبدالصمد اچکزئی کی ''کارڈ گیم" سیاست کی وجہ سے بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں میں پشتونوں کو سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط تو حاصل ھوگیا۔ لیکن پشتونوں کے اپنے علاقوں کو ترقی دینے کے بجائے ذاتی مفادات حاصل کرنے میں مصروف رھنے کی وجہ سے ان علاقوں میں ترقی کا عمل رک گیا اور پسماندگی میں اضافہ ھونا شروع ھوگیا۔ جبکہ پشتونوں کی اکثریت بھی بلیک میلنگ کی سیاست کا عادی ھوجانے کی وجہ سے ذھنی طور پر سیاسی پستگی میں مبتلا ھوگئی۔

بلوچستان کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں براھوئی کی سیاسی قیادت کو بلوچوں کی سیاسی قیادت نے مفلوج بناکر بلوچستان کے اصل باشندوں براھوئی پر بلوچوں نے اپنا سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط قائم کرکے انہیں دوسرے درجے کا شھری بنا دیا۔ پنجاب میں پنجابی سیاسی قیادت نہ ھونے کا فائدہ اٹھاکر پنجابی قوم کے ریوڑ کو اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے پنجابیوں کو خوب ذلیل و خوار کیا لیکن بلوچوں کی سیاسی قیادت اپنی جانشیں سیاسی قیادت پیدا نہ کرسکی بلکہ اپنے سیاسی جانشین اپنی اولاد یا خاندان کے افراد کو بنانے میں لگی رھی جو جانشین تو بنے لیکن سیاسی قائد نہ بن سکے۔ جبکہ سردار خیر بخش مری کی ''کارڈ گیم" سیاست کی وجہ سے بلوچستان کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں بلوچوں کو سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط تو حاصل ھوگیا۔ لیکن بلوچوں کے اپنے علاقوں کو ترقی دینے کے بجائے ذاتی مفادات حاصل کرنے میں مصروف رھنے کی وجہ سے ان علاقوں میں ترقی کا عمل رک گیا اور پسماندگی میں اضافہ ھونا شروع ھوگیا۔ جبکہ بلوچوں کی اکثریت بھی بلیک میلنگ کی سیاست کا عادی ھوجانے کی وجہ سے ذھنی طور پر سیاسی پستگی میں مبتلا ھوگئی۔

دیہی سندھ میں سماٹ کی سیاسی قیادت کو عربی نزادوں اور بلوچوں کی سیاسی قیادت نے مفلوج بناکر دیہی سندھ میں عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھیوں کے تسلط کی وجہ سے دیہی سندھ کے اصل باشندوں سماٹ پر عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھیوں نے اپنا سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط قائم کرکے انہیں دوسرے درجے کا شھری بنا دیا۔ پنجاب میں پنجابی سیاسی قیادت نہ ھونے کا فائدہ اٹھاکر پنجابی قوم کے ریوڑ کو اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے پنجابیوں کو خوب ذلیل و خوار کیا لیکن عربی نزادوں اور بلوچوں کی سیاسی قیادت اپنی جانشیں سیاسی قیادت پیدا نہ کرسکی بلکہ اپنے سیاسی جانشین اپنی اولاد یا خاندان کے افراد کو بنانے میں لگی رھی جو جانشین تو بنے لیکن سیاسی قائد نہ بن سکے۔ جبکہ جی ایم سید کی ''کارڈ گیم" سیاست کی وجہ سے دیہی سندھ میں عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھیوں کو سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط تو حاصل ھوگیا۔ لیکن عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھیوں کے اپنے علاقوں کو ترقی دینے کے بجائے ذاتی مفادات حاصل کرنے میں مصروف رھنے کی وجہ سے ان علاقوں میں ترقی کا عمل رک گیا اور پسماندگی میں اضافہ ھونا شروع ھوگیا۔ جبکہ عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھیوں کی اکثریت بھی بلیک میلنگ کی سیاست کا عادی ھوجانے کی وجہ سے ذھنی طور پر سیاسی پستگی میں مبتلا ھوگئی۔

کراچی کی مھاجر قیادت نے کراچی کے باشندوں پنجابی ' پٹھان ' سندھی ' بلوچ پر مھاجروں کا سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط قائم کرکے انہیں دوسرے بلکہ تیسرے درجے کا شھری بنا دیا۔ پنجاب میں پنجابی سیاسی قیادت نہ ھونے کا فائدہ اٹھاکر پنجابی قوم کے ریوڑ کو اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے پنجابیوں کو خوب ذلیل و خوار کرنے کے علاوہ پنجابی قوم کے خلاف سازشوں میں بھی مصروف رھی۔ کراچی کی مھاجر قیادت نے پنجابیوں پر اردو زبان ' گنگا جمنا تہذیب اور اترپردیش کے مدرسوں کے فلسفے کو مسلط کرکے پنجابیوں میں سیاسی قیادت ابھرنے نہیں دی۔ جبکہ پٹھان ' بلوچ ' سندھی سیاسی قیادت کو بھی پنجابیوں کے ساتھ الجھانے میں مصروف رھی۔ لیکن اپنے لیے نئی قیادت پیدا نہ کرسکی۔ جبکہ الطاف حسین کی ''کارڈ گیم" سیاست کی وجہ سے کراچی میں مھاجروں کو مزید سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط تو حاصل ھوگیا۔ لیکن مھاجروں کے اپنے علاقوں کو ترقی دینے کے بجائے ذاتی مفادات حاصل کرنے میں مصروف رھنے کی وجہ سے ان علاقوں میں ترقی کا عمل رک گیا اور پسماندگی میں اضافہ ھونا شروع ھوگیا۔ جبکہ مھاجروں کی اکثریت بھی بلیک میلنگ کی سیاست کا عادی ھوجانے کی وجہ سے ذھنی طور پر سیاسی پستگی میں مبتلا ھوگئی۔

پاکستان کے قیام کی سات دھائیوں کے بعد اب صورتحال یہ ھے کہ؛ پنجاب اس وقت زراعت ' صنعت ' تجارت ' ھنرمندی ' افرادی قوت ' تعلیم ' صحت ' ٹرانسپورٹ اور بنیادی سہولتوں کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ علاقہ بن چکا ھے۔ جبکہ خیبر پختونخواہ میں جتنے پنجابی ھیں ‘ اس سے زیادہ پٹھان پنجاب میں ھیں۔ بلوچستان میں جتنے پنجابی ھیں ‘ اس سے زیادہ بلوچ پنجاب میں ھیں۔ کراچی میں جتنے پنجابی ھیں ‘ اس سے زیادہ ھندوستانی مھاجر پنجاب میں ھیں۔ پنجاب کی سیاست ‘ صحافت ‘ صعنت ‘ تجارت ‘ سرکاری نوکریوں اور زمیںوں پر بھی یہ پٹھان ‘ بلوچ اور ھندوستانی مہاجر قبضہ کرتے جا رھے ھیں۔ یہ پٹھان ‘ بلوچ اور ھندوستانی مہاجر ‘ پنجاب سے سیاسی جماعتوں  کے مرکزی اور صوبائی صدر ‘ مرکزی اور صوبائی جنرل سیکرٹری بھی بنتے ھیں۔ پنجاب اسمبلی کے ممبر بھی بنتے ھیں۔ پنجاب سے قومی اسمبلی کے ممبر بھی بنتے ھیں۔ پنجاب سے صوبائی وزیر اور صوبائی مشیر بھی بنتے ھیں۔ پنجاب سے مرکزی وزیر اور مرکزی مشیر بھی بنتے ھیں۔ پنجاب سے پاکستان کا صدر ‘ پاکستان کا وزیر اعظم ‘ پنجاب کا گورنر  ‘ پنجاب کا وزیر اعلیٰ بھی بنے۔ اس وقت بھی پاکستان کا وزیرِ اعظم پنجاب میں رھنے والا پٹھان ھے جبکہ پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ پنجاب میں رھنے والا بلوچ  ھے۔ جبکہ کراچی ' سندھ ‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں رھنے والے پنجابیوں کو چونکہ سندھ ‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی اور کراچی کی مقامی حکومت میں نمائندگی نہیں دی جاتی۔ اس لیے نہ تو کراچی ' دیہی سندھ ‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے پنجابیوں کا سیاسی معاملات کے بارے میں موقف سامنے آتا ھے اور نہ ھی کراچی ' دیہی سندھ ‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے پنجابیوں کو سیاسی حقوق اور حکومتی سھولیات مل پاتی ھیں۔

در اصل بلوچستان کے بلوچ علاقے ‘ دیہی سندھ کے سندھی علاقے اور پنجاب کے جنوب کے علاقے میں بلوچ ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے پٹھان علاقے میں پٹھان ‘ کراچی کے ھندوستانی مہاجر علاقے میں ھندوستانی مہاجر ‘ مقامی سطح پر اپنی سماجی اور معاشی بالادستی قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ ھندکو ' براھوئی اور سماٹ قوموں پر اپنا راج قائم رکھنا چاھتے ھیں۔ ان کو اپنے ذاتی مفادات سے اتنی زیادہ غرض ھے کہ پاکستان کے اجتماعی مفادات کو بھی یہ نہ صرف نظر انداز کر رھے ھیں بلکہ پاکستان دشمن عناصر کی سرپرستی اور تعاون لینے اور ان کے لیے پَراکْسی پولیٹکس کرنے کو بھی غلط نہیں سمجھتے۔ پاکستان کو پنجابی ‘ سماٹ ‘ ھندکو ' براھوئی قوموں کی زمین پر بنایا گیا ھے۔ پنجابی ‘ سماٹ ‘ ھندکو ' براھوئی کی اپنی زمین کے ساتھ ساتھ اپنی زبان ‘ اپنی ثقافت ‘ اپنی تہذیب ‘ اپنا رسم رواج ھے۔ لیکن پٹھان ' بلوچ ' مھاجر نے پاکستان کو پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ قوموں کا ملک قرار دیا ھوا ھے۔ جبکہ پاکستان پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں کا ملک ھے۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں سندھیوں اور براھوئیوں کی طرح بلوچ بھی نہیں ھیں لیکن پاکستان کے قائم ھوتے ھی پٹھانوں اور مھاجروں نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کے اعلیٰ عھدوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی بلوچ ھی نہیں بلکہ پٹھان اور مھاجر بھی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کو پنجابی قرار دے دے کر پنجابی قوم کو بلیک میل بھی کرتے رھے اور پنجابیوں کے خلاف نفرت کی آگ بھی سلگاتے رھے۔ جبکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کے اعلیٰ عھدوں پر قابض پٹھان اور مھاجر بجائے پٹھان ' بلوچ ' مھاجر ''کارڈ گیم" سیاست کا تدارک کرنے کے پسِ پردہ پٹھان ' بلوچ ' مھاجر ''کارڈ گیم" کے سہولتکار بنے رھے۔ اس لیے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی پٹھان کے ''پٹھان کارڈ" کے ذریعے "پشتونستان" کے کھیل ' بلوچ کے "بلوچ کارڈ" کے ذریعے "آزاد بلوچستان" کے کھیل ' عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھی کے "سندھی کارڈ" کے ذریعے "سندھودیش" کے کھیل اور مھاجر کے "مھاجر کارڈ" کے ذریعے "جناح پور" کے کھیل اور پاکستان دشمن سرگرمیوں کا سیاسی طور پر تدارک کرنے میں ناکام رھی۔ جبکہ انتظامی اقدامات سے انکی سازشوں اور پاکستان دشمن سرگرمیوں کو عارضی طور پر روکا تو جاتا رھا لیکن ختم نہیں کیا جاسکا۔ پاکستان میں ایک بھی ایسا علاقہ نہیں ھے جہاں پٹھان ' بلوچ یا ھندوستانی مھاجر کی اکثریت ھو اور وہ علاقہ پر امن اور ترقی یافتہ ھو۔ بلکہ اب تو یہ بھی کہا جانے لگا ھے کہ؛ اگر کسی علاقے کا امن برباد اور علاقے کی ترقی تباہ کرنی ھو تو اس علاقے میں پٹھان ' بلوچ یا ھندوستانی مھاجر آباد کردو۔ پاکستان میں انتظامی آپریشن بھی پاکستان کے ان ھی علاقوں میں زیادہ کرنے پڑے جو پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجروں کے اکثریتی علاقے ھیں اور اب بھی کرنے پڑ رھے ھیں۔

اب پنجابیوں نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں خود کو مستحکم کرنا شروع کردیا ھے۔ اس لیے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں پٹھان اور مھاجر کے مقابلے میں پنجابیوں کی گرفت مظبوط ھوتی جارھی ھے۔ پنجابیوں کی آبادی پاکستان کی آبادی کا 60٪ ھونے کہ وجہ سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں پنجابیوں کا کوٹہ 50٪ بنتا ھے۔ اس لیے ایک تو ضرورت ھے کہ پنجابیوں کو مکمل کوٹہ دیا جائے اور دوسرا یہ کہ وفاقی اداروں کے پاکستان بھر میں موجود دفاتر میں بھی ھر صوبہ کے ملازمین کی تعیناتی کوٹہ کے مطابق ھی کی جائے تاکہ پٹھان صرف پٹھان علاقوں ' بلوچ صرف بلوچ علاقوں اور مھاجر صرف مھاجر علاقوں میں تعینات ھوکر اپنے اپنے علاقوں میں وفاقی حکومت کے دفاتر پر مکمل طور پر قابض نہ ھوا کریں۔

پاکستان کے 1973 کے آئین کے مطابق پاکستان کی وفاقی ملازمتوں میں پنجاب کا کوٹہ 50٪ ھے۔ خیبر پختونخوا کا کوٹہ 5۔11٪ ھے۔ سندھ دیہی کا کوٹہ 4۔11٪ ھے۔ سندھ شھری کا کوٹہ 6۔7٪ ھے۔ فاٹا کا کوٹہ 4٪ ھے۔ بلوچستان کا کوٹہ 5۔3٪ ھے۔ آزاد کشمیر کا کوٹہ 2٪ ھے۔ اس لحاظ سے پاکستان کے وفاقی اداروں کے ھر ضلع میں واقع دفاتر میں 200 ملازمین میں سے؛

100 ملازمین پنجاب کے پنجابی ھونے چاھئیں۔

23 ملازمین خیبر پختونخوا کے ھندکو پنجابی اور پختون ھونے چاھئیں۔

23 ملازمین دیہی سندھ کے سماٹ ' پنجابی ' براھوئی ‘ بلوچ ' سید اور دوسرے عربی نزاد ھونے چاھئیں۔

15 ملازمین شھری سندھ کے سماٹ ' پنجابی ' ھندکو ' کشمیری ' پٹھان ' قبائلی ' براھوئی ‘ بلوچ ' عربی نزاد ' گجراتی ' راجستھانی ' بھاری ' یوپی ' سی پی کے ھونے چاھئیں۔

8 ملازمین فاٹا کے قبائلی ھونے چاھئیں۔ (فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ضم ھونے کے بعد بہتر یہ ھے کہ فاٹا کا کوٹہ ختم کرکے فاٹا کے کوٹہ کو پنجاب ' خیبر پختونخوا ' دیہی سندھ ' شھری سندھ ' بلوچستان اور کشمیر میں تقسیم کردینا چاھیے)

7 ملازمین بلوچستان کے براھوئی ' پنجابی ' بلوچ اور پشتون ھونے چاھئیں۔

4 ملازمین کشمیر کے کشمیری ھونے چاھئیں۔

اس سے پنجابی ' سماٹ ' ھندکو ' کشمیری ' پٹھان ' قبائلی ' براھوئی ‘ بلوچ ' عربی نزاد ' گجراتی ' راجستھانی ' بھاری ' یوپی ' سی پی کے وفاقی اداروں کے ملازمین میں آپس کی قربت اور پیار و محبت بڑھے گا اور پاکستان کے وفاقی اداروں کے دفاتر میں کام بہتر طریقے سے انجام پائے گا۔ جس سے پاکستان کی ترقی ھوگی اور پاکستان کی عوام خوشحال ھوگی۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں پٹھان اور مھاجر تو اس وقت بھی موجود ھیں۔ البتہ اعلیٰ عہدوں پر فائز پٹھان زیادہ تر خیبرپختونخوا کے پختون علاقے اور بلوچستان کے پشتون علاقے سے زیادہ پنجاب میں رھنے والے ھیں۔ جبکہ اعلیٰ عہدوں پر فائز مھاجر بھی کراچی سے زیادہ پنجاب میں رھنے والے ھیں۔ عرصہ دراز سے پنجاب میں رھنے والے پٹھانوں اور مھاجروں کو پنجابیوں نے پنجابی سمجھنا شروع کردیا تھا۔ لیکن پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت کے دور میں پنجاب کے مھاجروں کی نواز شریف سے نفرت اور پرویز مشرف سے خصوصی الفت اور محبت نے انہیں پھر سے پنجابی کے بجائے مھاجر بنادیا۔ جبکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں موجود پٹھانوں کی طرف سے پنجابی نواز شریف کی کھٹیا کھڑی کرکے پٹھان عمران خان کو سلیکٹڈ وزیرِ اعظم بنانے اور پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ پنجاب میں رھنے والے بلوچ کو بنانے کی وجہ سے جبکہ پنجاب کے پٹھانوں کی نواز شریف سے نفرت اور عمران خان سے خصوصی الفت اور محبت نے انہیں پھر سے پنجابی کے بجائے پٹھان بنادیا۔

بلوچوں کے علاوہ پٹھانوں اور مھاجروں کی طرف سے بھی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان کی بیوروکریسی کو پنجابی اسٹیبلشمنٹ اور پنجابی بیوروکریسی کہہ کہہ کر تنقید کی جاتی ھے۔ توھین کی جاتی ھے۔ تذلیل کی جاتی ھے اور اس عمل میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان کی بیوروکریسی کے پٹھان اور مھاجر بھی شامل ھوتے ھیں۔ لیکن پٹھانوں ' بلوچوں ' مھاجروں کے " قوم پرستی" کے نام پر " مفاد پرستی" اور "ذھنی دھشتگردی" والے فلسفے سے پنجابی قوم کو بلیک میل کرنے سے عام  پنجابی اب انتہائی بیزار ھوچکا ھے اور اس کے تدارک پر غور و فکر کر رھا ھے۔ کیا پٹھانوں ' بلوچوں ' مھاجروں کے " قوم پرستی" کے نام پر " مفاد پرستی" اور "ذھنی دھشتگردی" والے فلسفے سے پنجابی قوم کو بلیک میل کرنے سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں موجود پنجابی ابھی بیزار نہیں ھوا؟ اگر بیزار ھوچکا ھے تو کیا عام پنجابی کی طرح پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں موجود پنجابی بھی اس کے تدارک پر غور و فکر کر رھا ھے؟ کیا عام پنجابی کی سیاسی محاذ آرائی کو مستقبل میں عام پٹھان اور مھاجر برداشت کرپائے گا؟ کیا پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں موجود پنجابی کی انتظامی محاذ آرائی کو مستقبل میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں موجود پٹھان اور مھاجر برداشت کرپائے گا؟ کیا مستقبل میں پنجابی کی سیاسی اور انتظامی مفاھمت پٹھان اور مھاجر کے بجائے سماٹ ' ھندکو اور براھوئی قوموں سے بڑھتی ھوئی محسوس نہیں ھو رھی؟ 

پنجابی قوم پرست سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی کو مظلوم جبکہ پٹھان ' بلوچ ' مھاجر کو ظالم سمجھتے ھیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ پنجابی قوم پرستوں نے اخلاق اور قانون کے دائرے میں رھتے ھوئے اب خان غفار خان ' خان عبدالصمد اچکزئی ' سردار خیر بخش مری ' جی ایم سید اور الطاف حسین کے " قوم پرستی" کے نام پر " مفاد پرستی" اور "ذھنی دھشتگردی" والے فلسفے سے پنجابی قوم کو بلیک میل کرنے کا علمی دلائل کے ساتھ جواب دینا بھی شروع کردیا ھے۔ اس لیے خان غفار خان ' خان عبدالصمد اچکزئی ' سردار خیر بخش مری ' جی ایم سید اور الطاف حسین کے فلسفے سے پنجابی قوم کو بلیک میل کرنے کے عادی حضرات کی اب چینخیں نکل رھی ھیں۔ جو پنجاب اور پنجابی قوم پر بے بنیاد الزامات لگا کر ' بے جا تنقید کرکے ' تذلیل کرکے ' توھین کرکے ' گالیاں دے کر ' گندے حربوں کے ذریعے پنجاب اور پنجابی قوم کو بلیک میل کرنے کے عادی بن چکے ھیں۔ جبکہ خیبر پختونخوا میں پٹھانوں ' بلوچستان میں بلوچوں ' سندھ میں عربی نزادوں اور بلوچوں ' کراچی میں ھندوستانی مھاجروں کے پاس اب سیاسی قیادت نہیں ھے۔ اس لیے پٹھان ' بلوچ ' عربی نزاد اور ھندوستانی مھاجر اب بھیڑ بکریوں کے اس ریوڑ کی مانند جدھر چاھے منہ اٹھائے بھاگتے پھر رھے ھیں جس ریوڑ میں رھنمائی کرنے والی بھیڑ بکری نہیں ھوتی۔ اس لیے پنجاب اور پنجابی قوم کے ساتھ ھونے والی سماجی ' معاشی ' انتظامی ' اقتصادی ناانصافیوں پر کیے جانے والے پنجابی قوم پرستوں کے احتجاج کا اخلاق اور قانون کے دائرے میں رھتے ھوئے علمی دلائل کے ساتھ جواب ھی نہیں دے پارھے۔

No comments:

Post a Comment