Sunday 12 May 2019

سرائیکی سازش بلوچ کا زوال براھوئی اور سماٹ کی آزادی ھوگا۔


کردستان ایک جغرافیائی  و ثقافتی خطے کا نام ھے جس میں کرد نسل کے باشندوں کی اکثریت ھے۔ کردستان تاریخ میں کبھی بھی ایک علیحدہ ملک کے طور پر نہیں رھا۔ پہلی جنگ عظیم سے قبل بیشتر کرد باشندے سلطنت عثمانیہ کے صوبہ کردستان کے رھائشی تھے۔ جنگ عظیم میں شکست اور سلطنت کے خاتمے کے بعد اتحادی افواج نے علاقے میں سرحدیں تشکیل دیتے ھوئے مختلف ممالک بنانے کا پروگرام بنایا اور معاھدہ سیورے کے تحت اس میں کردستان بھی شامل تھا۔ کمال اتاترک کی جانب سے ان علاقوں کی دوبارہ فتح کے بعد معاہدہ لوزان طے پایا جس کے تحت موجودہ ترکی کی سرحدیں متعین کی گئیں اور کرد باشندوں کی اپنی حکومت کا خواب چکنا چور ھو گیا۔ دیگر کرد اکثریتی علاقے برطانیہ اور فرانس کے زیر قبضہ عراق اور شام میں شامل ھو گئے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ ' فرانس ' روس اور امریکا نے کرد علاقے تقسیم کردیئے اور یوں کرد کی اکثریت پانچ ممالک آرمینیا ' ترکی ' شام ' عراق ' ایران میں تقسیم ھوکر رہ گئی۔ 

ایک محتاط اندازے کے مطابق ان پانچ ممالک  میں کردوں کی آبادی لگ بھگ 3 کروڑ 60 لاکھ ھے اور تقسیم ھے۔ اس پورے علاقے کو اسی مناسبت سے کردستان کہا جاتا ھے۔ اس کا رقبہ 3 لاکھ 92 ھزار مربع کلومیٹر کے لگ بھگ ھے۔ آرمینیا ' ترکی ' شام ' عراق ' ایران میں تقسیم کرد اپنی آزادی اور شناخت کی جنگ لڑ رھے ھیں اور کردوں کے بعض گروہ آزادی کی اس جدوجہد کو ’’گریٹر کردستان‘‘ کا نام دیتے ھیں۔ اگر آرمینیا ' ترکی ' شام ' عراق ' ایران ' افغانستان اور پاکستان میں بکھرے ھوئے کردستانی قبائل کے طرز زندگی اور ان ممالک میں ان کی سیاسی حیثیت کا تجزیہ کیا جائے تو صاف ظاھر ھوتا ھے کہ صرف پاکستان ھی وہ جائے امان ھے جہاں پر تمام کمیوں اور کوتاھیوں کے باوجود اب بھی کردستانیوں کا بلوچ کی حیثیت سے قومی تشخص قائم و دائم ھے اور وہ شاد و باد ھیں۔ ورنہ ایران میں شاہ ایران اور بعد میں مذھبی انقلابی حکومت نے کردستانی قومیت کے بت پر کاری ضرب لگائی اور آج ایران میں کردستانی قبائل اپنا تشخص کھو رھے ھیں۔ افغانستان میں تو حالات اس سے بھی بدتر ھیں۔

کردستانی قبائل نے پندرھویں صدی عیسوی میں میر شیہک کی سر کردگی میں وادی سندھ کی تہذیب کے مھرگڑہ کے علاقے مکران میں قدم رکھا اور مکران کے حکمراں بدرالدین کے ساتھ جنگ کرکے علاقہ پر قبضہ کرلیا۔ اسکے بعد میر شیہک نے بلیدہ سے چل کر براھوئیوں کے ساتھ جنگ کرکے 1486 میں قلات کو فتح کر لیا۔ جو براھوئی ان کے مقابلے پر آئے یا تو وہ قتل کردیے گئے یا وہ علاقہ چھوڑ گئے۔ جبکہ براھوئیوں کے اشرافیہ طبقے کو بلوچوں کی اطاعت قبول کرنا پڑی۔ بلوچ کے ظلم و زیادتیوں سے بچنے کے لیے بہت سے درمیانہ طبقے اور عام طبقے کے براھوئی نے اور مھرگڑہ تہذیب کے علاقے میں رھنے والے بہت سے قبائل نے خود کو بلوچ کہلوانا شروع کردیا۔ انہیں اب نقلی بلوچ کہا جاتا ھے۔

پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے 50 بڑے شہروں میں سے کردستانیوں کی کسی ایک شہر میں بھی اکثریت نہیں ھے کیونکہ کردستان سے یہ قبائل کی شکل میں آئے تھے اور براھوئیوں ' سماٹ ' ڈیرہ والی پنجابیوں ' ریاستی پنجابیوں ' ملتانی پنجابیوں کے دیہی علاقوں میں قبائلی افرادی قوت کی بنا پر اپنا غلبہ کرنے کے بعد سے لیکر اب تک براھوئیوں ' سماٹ ' ڈیرہ والی پنجابیوں ' ریاستی پنجابیوں ' ملتانی پنجابیوں کے علاقوں میں ھی اپنی بالادستی قائم کیے ھوئے ھیں۔ براھوئیوں ' سماٹ ' ڈیرہ والی پنجابیوں ' ریاستی پنجابیوں ' ملتانی پنجابیوں کا علاقہ پاکستان کا 70٪ علاقہ بنتا ھے جو زیادہ تر دیہی ھے لیکن بلوچوں کی موجودگی کی وجہ سے بد اخلاقی ' بد تہذبی ' بد امنی ' بدمعاشی اور پسماندگی کا شکار ھے۔ کردستانی بلوچوں میں اشرافیہ کے طبقے کے علاوہ عام بلوچ زیادہ ھے جبکہ مڈل کلاس بلوچ بہت کم ھے کیونکہ بلوچ اشرافیہ ظلم و زیادتی کرنے میں اپنے قبائل کے افراد کے ساتھ بھی گریز نہیں کرتی۔ 

بلوچستان کا نام تو انگریز نے 1887 میں رکھا جب کہ یہ علاقہ مھرگڑہ کی تہذیب کا علاقہ ھے اور ھزاروں سالوں سے براھوی قوم کا علاقہ ھے۔ دراوڑی زبان کا لفظ ھے " بر" جسکے معنی ھیں "آنا" اور دوسرا لفظ ھے "اوک" جو کہ اسم مفعول کی نشانی ھے. جسکے معنی "والا" ھے. "بر- اوک" کے لفظ کا مفہومی معنی "نیا آنے والا" یعنی " نو وارد ' اجنبی ' پرائے دیس والا " ھے. کردستانی بلوص قبائل جب پندھرویں صدی عیسوی میں براھوی کی زمین پر آنا شروع ھوئے تو براھوئی انکو "بر- اوک" کہتے تھے۔ کردستانی قبائل نے براھوئیوں کے علاقے پر 1486 میں قبضہ کیا اور قبضے کے بعد کردستانی بلوص قبائل " بلوص " سے " بروک" پھر " بروچ" اور پھر "بلوچ" بن گئے اور براھوئیوں کو بھی بلوچ بنانا شروع کردیا۔

بلوچستان اور سندھ میں براھوئیوں کی آبادی بہت زیادہ ھے لیکن بلوچوں نے چونکہ بہت سارے براھوئیوں کو زبردستی بلوچ بنایا ھوا ھے۔ جبکہ پنجاب میں بھی براھوئیوں کو بلوچ سمجھا جاتا ھے۔ اس لیے براھوئی قوم کا وجود مٹتا جا رھا ھے۔ بلوچ نے 1783 میں سندھ پر بھی قبضہ کرکے موھنجودڑو کی تہذیب کے اصل باشندوں سماٹ کو اپنا غلام بنا لیا تھا۔ اس لیے سندھ پر قبضہ ھونے کی وجہ سے بلوچوں نے انگریز کو افغانستان تک پہنچنے میں مدد دینے کے عوض انگریز سے ساز باز کرکے براھوئیوں کے علاقہ کا نام 1887 میں انگریز سے بلوچستان رکھوادیا اور انگریز کو افغانستان تک پہنچنے میں مدد دینا شروع کردی۔

کردستانی بلوچوں کو مغل بادشاہ ھمایوں نے مغل بادشاہ بابر کے دور سے پنجاب میں بابا نانک کی قیادت میں شروع کی جانے والی مغلوں کے خلاف پنجابیوں کی مزاھمت کا مقابلہ کرنے کے لیے 1555 میں ساھیوال کے علاقے میں آباد کیا اور جاگیریں دیں۔ پنجابیوں کی مزاھمت کی وجہ سے ھمایوں بادشاہ کو شیر شاہ سوری کے ھاتھوں اپنی بادشاھت سے ھاتھ دھونے پڑے تھے۔ اس کے بعد ھمایوں کو برسوں در بدری کی زندگی گزارنی پڑی اور اس در بدری کے دور میں ھی اکبر کی پیدائش ھوئی تھی جو بعد میں تاریخ کا اکبر اعظم بنا۔

مغل بادشاہ اکبر کے خلاف دلا بھٹی کی قیادت میں پنجابیوں کی مزاھمت کے تیز ھوجانے کی وجہ سے مغلوں نے جنوب مشرقی پنجاب کے علاقے میں بھی کردستانی بلوچوں کو بہت بڑی تعدا میں آباد کرنا شروع کردیا اور ان کو بڑی بڑی جاگیریں دیں۔ بلوچوں نے ڈیرہ غازی خان ' ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ فتح خان کے نام سے اپنی کمین گاھیں بنائیں اور مظفر گڑہ میں بھی آباد ھونے لگے۔ اس طرح پنجاب کے جنوبی علاقوں میں کردستانی بلوچوں کا قبضہ ھوگیا۔ جس طرح براھوئیوں کو اپنا غلام بناکر 1887 میں انگریز سے براھوئیوں کے علاقے کا نام بلوچستان رکھوا کر بلوچوں نے براھوئیوں کے علاقے اور براھوئیوں پر غلبہ پایا اور سماٹ کو اپنا غلام بناکر  1936 میں انگریز سے سماٹ کے علاقے کا نام سندھ رکھوا کر بلوچوں نے سماٹ کے علاقے اور سماٹ پر غلبہ پایا۔ اسی طرح اب کردستانی بلوچ جنوبی پنجاب میں ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی کے علاقے کا نام سرائیکستان یا جنوبی پنجاب رکھوا کر ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی کے علاقے اور ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی کے پر غلبہ پانا چاھتے ھیں۔

براھوی قوم پر 1486 سے بلوچ کی طرف سے ظلم و زیادتی ھورھی ھے۔ سماٹ قوم پر 1783 سے بلوچ کی طرف سے ظلم و زیادتی ھورھی ھے۔ بلوچستان کے اصل مالک براھوئی ھیں۔ سندھ کے اصل مالک سماٹ ھیں۔ براھوئی قوم اور سماٹ قوم تاریخی طور پر پنجابی قوم کے پڑوسی ھیں۔ پنجابی قوم براھوئی قوم اور سماٹ قوم کو مظلوم سمجھتی ھے اور بلوچوں کو ظالم سمجھتی ھے۔ اس لیے انصاف کا تقاضہ اور پنجابی قوم کا فرض ھے کہ اپنی مظلوم پڑوسی براھوئی قوم اور سماٹ قوم کی مدد کرے۔ بلوچستان کا نام براھوستان کرکے براھوستان کا وزیرِ اعلیٰ براھوئی کو بنوا کر براھوئیوں کو سماجی ' سیاسی ' معاشی طور پر مظبوط کرے۔ سندھ کا نام سماٹستان کرکے سماٹستان کا وزیرِ اعلیٰ سماٹ کو بنوا کر سماٹ کو سماجی ' سیاسی ' معاشی طور پر مظبوط کرے۔

بلوچ کی پنجاب میں "سرائیکی" سازش اور ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی پر غلبہ پانے کی کوشش کا پنجابی قوم پرستوں کی طرف سے مقابلہ کرنے کی وجہ سے بلوچ کا زوال اب شروع ھوچکا ھے ۔ بلوچ نے پنجابی قوم کے بارے میں اندازہ لگانے میں غلطی کی تھی۔ براھوی قوم اور سماٹ قوم کی طرح پنجابی قوم کو مغلوب کرنا بلوچ کے لیے ناممکن تو ثابت ھوا لیکن اب براھوی قوم اور سماٹ قوم کی بلوچ کی بالادستی سے آزادی کا سبب بھی بنے گا۔ کیونکہ جنوبی پنجاب میں "سرائیکی" سازش کرنے کی وجہ سے پنجابی قوم کھل کر براھوی قوم اور سماٹ قوم کی بلوچ تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں براھوی قوم اور سماٹ قوم کی حمایت اور مدد کرے گی۔ پنجابی قوم پاکستان بھر میں ھر جگہ براھوی قوم اور سماٹ قوم کے شانہ بشانہ ھوگی۔ انشاء اللہ

پاکستان میں پنجابیوں کی آبادی پاکستان کی آبادی کا 60٪ ھے۔ پاکستان میں سیاست ' صحافت ' ملٹری بیوروکریسی ' سول بیوروکریسی ' صنعت کے شعبوں ' تجارت کے شعبوں ' ھنرمندی کے شعبوں اور پاکستان کے بڑے بڑے شھروں پر اب پنجابیوں کا کنٹرول قائم ھوتا جا رھا ھے۔ پنجابیوں میں قومپرستی بھی بڑی تیزی سے فروغ پا رھی ھے۔ پنجابیوں کے سماٹ ' ھندکو ' براھوئی قوموں اور کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی برادریوں کے ساتھ خوشگوار سماجی ' کاروباری اور سیاسی مراسم ھیں لیکن کردستانی بلوچوں کے ساتھ پنجابیوں کے ھی نہیں بلکہ براھوئیوں اور سماٹ کے بھی خوشگوار سماجی ' کاروباری اور سیاسی مراسم نہیں ھیں۔

پنجابی قوم کی پشت پناھی کی وجہ سے پنجاب کے ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی تو بلوچ کی سرائیکی سازش اور ڈیرہ والی پنجابی ' ملتانی پنجابی ' ریاستی پنجابی پر غلبہ پانے کی کوشش کا آنکھ میں آنکھ ڈال کر مقابلہ کر رھے تھے۔ لیکن 1486 سے بلوچوں کے ظلم و زیادتیوں کی وجہ سے خوف و ھراس میں مبتلا ھونے کے باعث بلوچ کے سامنے براھوئی گردن اٹھانے کی ھمت نہیں کر رھے تھے۔ اب براھوئی نے بھی ھمت کرکے بلوچ کی آنکھ سے آنکھ ملاکر اپنے حقوق کی بات کرنا شروع کردی ھے۔ اب صرف سماٹ بچے ھیں۔ 1783 سے بلوچوں کے ظلم و زیادتیوں کی وجہ سے خوف و ھراس میں مبتلا ھونے کے باعث بلوچ کے سامنے سماٹ گردن اٹھانے کی ھمت نہیں کر رھے لیکن براھوئیوں کی طرح آخرکار سماٹ کو بھی ھمت کرکے بلوچ کی آنکھ سے آنکھ ملاکر اپنے حقوق کی بات کرنا پڑے گی۔ اس لیے بہتر ھے کہ بلوچ اپنی بالادستی کی سوچ سے دستبردار ھوکر عوامی اور انسانی انداز میں زندگی گزارنا سیکھیں اور پاکستان کے دشمن ملکوں کے ایجنٹ بننے سے گزیز کریں۔ جس ملک نے ان کو پناہ دی اس کے خلاف دشمن ملکوں کے ایجنٹ بن کر سازشیں نہ کریں۔

پنجابی ' براھوئی اور سماٹ چونکہ وادیء سندھ کی تہذیب کے باشندے ھیں اور اپنی اپنی زمین کے مالک ھیں۔ اس لیے پاکستان کے دشمنوں کے ایجنٹ نہیں بنتے۔ لیکن بلوچ چونکہ دوسری قوموں کی زمین پر قابض ھیں اس لیے انہیں زمین سے محبت اور زمین کی مالک قوم سے محبت نہیں ھے۔ اس لیے پاکستان کے دشمنوں کے ایجنٹ بننے میں دیر نہیں لگاتے۔ پاکستان کے دشمن ملک بھارت اور افغانستان کے ایجنٹ بن کر بلوچستان ' جنوبی پنجاب اور سندھ میں دھشتگردی کی کاروائیاں کرنے والے سب سے زیادہ بلوچ ھیں۔

دراصل inhabitant of land اور invader of land اور immigrant of land میں فرق ھوتا ھے۔ بلوچ نہ تو براھوئیوں کی زمین ' پنجابیوں کی زمین ' سماٹ کی زمین میں inhabitant ھیں اور نہ immigrant ھوکر ائے ھیں۔ بلوچ تو براھوئیوں کی زمین ' پنجابیوں کی زمین ' سماٹ کی زمین میں invader بن کر آئے۔ اس لیے بلوچ کو چاھیے کہ اپنی invader والی سوچ بھی اب ختم کردے۔ پنجابی قوم اب بلوچ کے invader والے روپ کو بھی برداشت نہیں کرسکتی۔ پنجابی قوم نے اب پاکستان کے ساتھ غداری کرنے والے لوگوں کا مقابلہ اور مظلوم قوموں کی مدد کرنے کا فیصلہ کرلیا ھے۔

No comments:

Post a Comment