Tuesday 16 February 2016

یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کی عیاریاں اور مکاریاں کیا ھیں؟

جس طرح پاکستان کی اصل قومیں پنجابی ' سندھی ' پشتو اور بلوچی بولنے والے ھیں ویسے ھی بھارت کی اصل قومیں ھندی/اردو ' تیلگو ' تامل ' ملایالم ' مراٹھی ' کنڑا ' اڑیہ ' بنگالی ' آسامی اور بھوجپوری بولنے والے ھیں۔ جبکہ پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے پنجابی بولنے والے بھی بھارت میں رھتے ھیں۔

پاکستان کے قیام کی وجہ سے پنجاب کے تقسیم ھونے سے ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں نے پنجاب کے مغرب کی طرف سے پنجاب کے مشرق کی طرف نقل مکانی کی جبکہ مسلمان پنجابیوں نے پنجاب کے مشرق کی طرف سے پنجاب کے مغرب کی طرف نقل مکانی کی ' جسکی وجہ سے 20 لاکھ پنجابی مارے گئے اور 2 کروڑ پنجابی بے گھر ھوئے۔

پاکستان کی سرحد کے قریب ھونے ' پنجاب و سندھ میں پہلے سے روابط ھونے اور سندھ و پنجاب سے ھندؤں کی راجستھان اور گجرات کی طرف نقل مکانی کرنے کی وجہ سے ' بڑی تعداد میں راجستھانی اور گجراتی مسلمان بھی پاکستان منتقل ھو گئے جبکہ جونا گڑہ ' مناودر اور حیدرآباد دکن کی ریاستوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے اعلان کی وجہ سے کچھ تعداد میں تیلگو ' تامل ' ملایالم ' مراٹھی ' کنڑا ' اڑیہ ' بنگالی ' آسامی اور بھوجپوری مسلمان بھی پاکستان منتقل ھوگئے۔

ھندوستان کے صوبوں یونائیٹیڈ پروینس (جسکا نام اب اتر پردیش ھے۔ جو کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کی مجموعی آبادی سے بھی بڑا صوبہ ھے۔ اسکی اس وقت آبادی 20 کروڑ ھے اور وھاں کے رھنے والوں کو یوپی والے کہا جاتا ھے) اور سنٹرل پروینس (وھاں کے رھنے والوں کو سی پی والے کہا جاتا ھے) کی نہ تو سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی تھی اور نہ یوپی ' سی پی والوں کے پاکستان کی اصل قوموں پنجابی ' سندھی ' پٹھان اور بلوچ کے ساتھ روابط تھے۔

پاکستان کے قیام کے وقت جس طرح پنجاب کو مسلم پنجاب اور نان مسلم پنجاب میں تقسیم کیا گیا اسی طرح یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کو چاھیئے تھا کہ یوپی اور سی پی کے علاقوں کو بھی مسلم یوپی ' سی پی اور نان مسلم یوپی ' سی پی میں تقسیم کرواتے لیکن یوپی ' سی پی کے مسلمانوں نے مشرقی پنجاب  کا پڑوسی ھونے کا فائدہ اٹھایا اور مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف نقل مکانی کرنے والے مسلمان پنجابیوں کی آڑ لے کر اور مسلم پنجابیوں کو مھاجر قرار دے کر خود بھی مھاجر بن کر پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں ' پاکستان کی حکومت '  پاکستان کی سیاست ' پاکستان کی صحافت ' سرکاری نوکریوں ' زمینوں ' جائیدادوں پر قبضہ کر لیا۔ 

 یوپی ' سی پی کے مسلمانوں نے مشرقی پنجاب کے مسلمان پنجابیوں کو مھاجر قرار دے کر اور خود بھی مھاجر بن کر پاکستان میں خوب فائدہ اٹھایا۔ حالانکہ مسلمان پنجابیوں کو اپنے ھی دیش میں ' مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف نقل مکانی  کرنے کی بنیاد پر مھاجر نہیں کہا جاسکتا۔ مھاجر وہ ھوتے ھیں جو اپنی زمین سے پناہ کی خاطر کسی اور قوم کی زمین میں جا بسیں۔

پاکستان کے قیام کے بعد بھی جو مسلمان یوپی ' سی پی سے آکر پنجاب اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں پناھگزیر ھوگئے انکی قانونی حیثیت پاکستان کے شہری کی نہیں ھے کیونکہ ابھی تک انہوں نے پاکستان کے "سٹیزن شپ ایکٹ" کے تحت پاکستان کی شہریت نہیں لی۔ بلکہ ابھی تک انکو اقوام متحدہ کے "مھاجرین کے چارٹر" کے تحت ھندوستانی مھاجرین قرار نہیں دیا گیا ' اس کا مطلب ھے کہ ھندوستان سے آکر پنجاب اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں رھائش اختیار کرنے والے یوپی اور سی پی کے لوگ ابھی تک غیر قانونی مھاجرین ھیں؟

پاکستان بننے کے بعد ھمارے پلے یہ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانی پڑے ' جو اس وقت خود کو مھاجر کھتے ہیں لیکن پنجاب میں انکو مٹروا اور سندھ میں مکڑ کھا جاتا ہے۔ انھوں نے پاکستان بنتے ھی پاکستان کی اصل قوموں بنگالی’ پنجابی’ سندھی’ پٹھان’ بلوچ کی زمین پر قبضہ کرکے ان پر حکومت کرنا شروع کردی. ایک مٹروے  کو وزیراعظم بنایا دوسرے مٹروے  کو حکومتی پارٹی کا صدر بنایا ' جھوٹے کلیموں پر یوپی ' سی پی سے مٹروے  بلا کرجائیدادیں ان میں بانٹیں ' خاص کوٹہ برائے مھاجرین مخصوص کرکے جعلی ڈگریوں کے ذریعے بڑی بڑی سرکاری نوکریوں پر مٹروے  بھرتی کیے ' بنگالی' پنجابی' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کی زبانوں کو قومی زبان بنانے کے بجائے اپنی زبان اردو کو مسلمانوں کی زبان ھونے کا چکر چلا کر قومی زبان بنا کر بنگالی ' پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کو اردو بولنے پر مجبور کیا۔ 

بین الاقوامی روابط ھونے کی وجہ سے  پاکستان کے دشمنوں سے ساز باز کرکے پاکستان کے اندر سازشیں کرنا اور  بین الاقوامی  امور میں دلالی کرنا انکا پسندیدہ مشغلہ ھے۔ چونکہ شہری علاقوں’ سیاست’ صحافت’ صنعت’ تجارت’ سرکاری عہدوں اور تعلیمی مراکز پر ان مٹرووں کا کنٹرول ہے اس لیے اپنی باتیں منوانے کے لئے ھڑتالوں ' جلاؤ گھیراؤ اور جلسے جلوسوں میں ھر وقت مصروف رھتے ھیں- پنجابی' سندھی ' پٹھان ' بلوچ میں سے جو بھی ان کے آگے گردن اٹھانے کی کوشش کرے اس کے گلے پڑ جاتے ھیں اور الٹا اسی کو ھندوّں کا ایجنٹ ' اسلام کا مخالف اور پاکستان دشمن بنا دیتے ھیں۔ 

 چونکہ یہ مٹروے/مکڑ سازشی اور شرارتی ذھن رکھتے ھیں اس لیے پاکستان کے قیام کے وقت سے لیکر اب تک ان کی عادت یہی چلی آرھی ھے کہ پنجابی کے پاس سندھی ' پٹھان اور بلوچ کے ھندوّں کے ایجنٹ ' اسلام کے مخالف اور پاکستان کے دشمن ھونے کا رونا روتے رھتے ھیں اور سندھی ' پٹھان ' بلوچ کے پاس پنجابیوں کو آمر ' غاصب اور جمھوریت کا دشمن ثابت کرنے کے لیے الٹے سلٹے قصے ' کہانیاں بنا بنا کر شور مچاتے رھتے ھیں- پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کے درمیان بدگمانی پیدا کرتے رھنا انکا محبوب مشغلہ ھے۔

پاکستان میں مھاجر کی اصتلاح تو اصل میں یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں کے لیے استعمال کی جاتی ھے ' جو پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شھروں میں رھتے ھیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد تو ان یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے پنجاب اور سندھ کے تمام بڑے بڑے شھروں پر قبضہ کرلیا تھا جو کہ پنجاب کے شھروں میں پنجابیوں اور سندھ کے شھروں میں سندھیوں کے دیہی علاقوں سے شھری علاقوں کی طرف نقل مکانی کی وجہ سے برقرار نہ رہ سکا لیکن کراچی اور حیدرآباد پر ان یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے ابھی تک نان اردو اسپیکنگ گجراتیوں اور راجستھانیوں کو بھی مھاجر بنا کر اپنا کنٹرول قائم رکھا ھوا ھے۔

کراچی کی آبادی 25٪ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں ' 15٪ پنجابی بولنے والوں ' 15٪ پشتو بولنے والوں ' 10٪ سندھی بولنے والوں ' 5٪ بلوچی بولنے والوں ' 10٪ گجراتی بولنے والوں ' 10٪ راجستھانی بولنے والوں اور 10٪ دیگر زبانیں بولنے والوں پر مشتمل ھے۔ گو کہ پنجابیوں ' پٹھانوں ' سندھیوں ' بلوچوں اور دیگر کی کراچی میں آبادی 55٪ ھے۔ گجراتیوں اور راجستھانیوں کی آبادی 20٪ ھے۔ 

پنجابیوں ' پٹھانوں ' سندھیوں ' بلوچوں ' گجراتیوں ' راجستھانیوں اور دیگر کی کراچی میں آبادی 75٪ ھے ' جو کہ نان اردو اسپیکنگ ھیں لیکن ان 25٪ یوپی ' سی پی کے اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے کراچی کے 20٪ نان اردو اسپیکنگ گجراتیوں اور راجستھانیوں کو مھاجر قرار دے کر کراچی میں اپنی آبادی 25٪ سے بڑھاکر 45٪ کر رکھی ھے جبکہ کراچی کی آبادی کے 55٪ پنجابیوں ' پٹھانوں ' سندھیوں ' بلوچوں اور دیگر کے متحد نہ ھونے کا فائدہ اٹھا کر کراچی پر اپنا کنٹرول قائم کیا ھوا ھے۔

No comments:

Post a Comment