Thursday 22 June 2017

کراچی: ایک غلط فہمی کا ازالہ

کراچی کو بجا طورپرپاکستان کا دل کہا جا سکتا ہے۔ کراچی نہ صرف پاکستان کی واحد مکمل طور پر آپریشنل سمندری بندرگاہ اورپاکستان کا معاشی دارالخلافہ ہے بلکہ پاکستان سے آگے چین، افغانستان اور وسط ایشیایؑ ریاستوں کے لئے بھی گرم پانیوں تک رسائی اور بین الاقوامی تجارت کے لیے صدر دروازہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

مگر گزشتہ چند دہایؑوں سے اس شہر پر ایک آسیب کا سایہ ہے۔  بے یقینی کے بادل چھاےؑ ہوےؑ ہیں۔ معاشی اور ثقافتی سرگرمیاں ماند ہیں۔  بے امنی اور بد انتظامی کا راج ہے۔ اور ساتھ ھی ساتھ ایک تواتر سے یہ غلط فہمی پھیلائی جا رہی ہے کہ کراچی کو ایک ترقی پزیر شہر کی حیثیت قیام پاکستان کے بعد حاصل ہوئی۔ اس سے پہلے شاید یہاں جنگل تھا جس میں جانوروں کے ساتھ کچھ تہذیب و تمَدُن سے نا آشنا انسان بھی رہتے تھے۔ جن کی اکثریت غالباً درختوں پر یا غاروں میں رہتی تھی۔ پھر پاکستان بنا اور ہجرت کرکے ہنرمند اور تعلیم یافتہ لوگ آئے جنہوں نے اس ناتراشیدہ ہیرے کی نوک پلک سنواری اوراسےعروس البلاد ' روشنیوں کا شہر اور پرل آف عریبین سی بنا دیا۔

میں نے اس سے زیادہ جھوٹ پر مبنی ' مسخ شدہ اور بعید از حقیقت تاریخ نہ کبھی پڑھی نہ سنی۔ یہ غلط فہمی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلایؑ جا رہی ہے اورایک ایسی مہم کا حصّہ ہے جس کے ذریعے موجودہ پاکستان کی جغرافیایؑ حدود میں شامل علاقوں کو قیام پاکستان کی تحریک سے لا تعلق بلکہ قیام پاکستان کا مخالف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ تاثرعام کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کی جغرافیایؑ حدود میں شامل علاقوں کا قیام پاکستان کی تحریک سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس زہریلے پروپیگنڈہ کے نتیجے میں پٹھان ' سندھی اور بلوچ قوم پرستی اورعلیحدگی پسندی کو فروغ حاصل ہوا ہے۔

میری اس تحریر کا محرک ہمارے ایک دوست کی ایسی ہی حالیہ پوسٹ ہے جس میں انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جو علاقے آج پاکستان کی جغرافیایؑ حدود میں شامل ہیں ان کا تحریک آزادی میں کوئی حصہ نہ تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ قیام پاکستان میں جتنا حصّہ یو پی ' دہلی اور بنگال کے مسلمانوں کا تھا اتنا ہی پنجاب ' سندھ اور شمال مغرب کے اہل اسلام کا تھا۔ مثلاً سندھ کے منتخب ایوان نے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی تو شمال مغرب کے مسلمانوں نے ریفرنڈم میں "اپنے" باچا خان کو انڈین نیشنل کانگریس کا حلیف ہونے کی پاداش میں مسترد کر کے گجراتی بولنے والے کراچی کے رہنے والے محمّد علی جناح کو صرف اور صرف اسلام اور قرآن کے نام پر ووٹ دے کر کامیاب کیا اور پنجاب کے شہرلاہورمیں تاریخی قرارداد پاکستان منظورہوئی جو بعد ازاں قیام پاکستان کی بنیاد بنی۔

تحریک آزادی کے بڑے بڑے رہنما جہاں لکھنواورعلیگڑھ سے تھے وہیں اس میں لاہور اور کراچی کے رہنے والے بھی پیش پیش تھے۔ محمّد علی جناح ' علامہ ڈاکٹر محمّد اقبال ' چوھدری رحمت علی ' چوہدری خلیق الزمان اوربے شمارنام ہیں جن کے بغیر پاکستان کے قیام کی تاریخ نامکمل ہے۔ 24 جولایٔ 1937 کو علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے نام لکھے گۓ ایک مکتوب میں حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم دین مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے اعتراف کیا کہ اسلامی ہند ( تقسیم ہندوستان) کا فیصلہ شمال کے تین صوبوں کی طاقت پر منحصر ہے۔ اس لیے ایسا تاثر دینا کہ سندھ ' پنجاب ' شمال مغرب اور بلوچستان کے لوگ سو رریے تھے۔ جب آنکھ کھلی تو پاکستان بن چکا تھا۔ بد نیتی پر مبنی اور حقایؑق کے قطعی بر خلاف ہے۔

ہندوستان پر مکمل انگریزی راج کے راستے میں آخری چٹان بنے سندھی ' پٹھان اور بلوچ مجاہدین کی قربانیاں جدوجہد آزادی کی تاریخ میں سنہرے حرف سے درج ہیں۔ شہید پیر صاحب پگارا اوران کی حرفوج کی انگریزوں کے خلاف جہاد میں بے مثال قربانیوں کا منکر کوئی تاریخ کا اندھا جاہل ہی ہو سکتا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں ہوش محد شیدی جیسے جانبازوں اور شمال مغرب کے قبایؑل نے کیؑی دہایؑوں تک انگریزی حملہ آواروں کو ناکوں چنے چبواےؑ اوراپنی سرزمین اور آزادی کا کامیابی سے دفاع کیا۔ آج وہ علاقے بھی پاکستان کا حصہ ہیں جہاں انگریز بھی کبھی اپنا تسلط قایؑم نہ کر سکا اس لیے ایسا کہنا کہ ان علاقوں کا انگریز کے خلاف مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد میں کوئی حصہ نہ تھا تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

میرے فاضل دوست نے یہ خامہ تراشی بھی کی ہے کہ کراچی پاکستان بنے کے بعد ترقی کی اس شاہراہ پر گامزن ہوا جس نے اس نیم آباد ویرانے کو ایک میٹروپولس بنا دیا۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کراچی ' پاکستان بننے کے بعد زوال پذیر ہوا ہے۔ ترقی کے کچھ ادوار کو نکال کر یہ زوال ہر سطح پرآج بھی جاری ہے خواہ وہ ذہنی اور فکری انحتاط ہو یا معاشی اورسیاسی۔ مثلاً پاکستان بنے سے پہلے یہاں اس خطہ کی چند بڑی اور مصروف بندرگاہوں میں سے ایک کراچی پورٹ موجود تھا۔ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری پوری آب و تاب سے مصروف عمل تھا۔ کراچی جیمخانہ اور ہندو جیمخانہ موجود تھے۔ سندھ مدرسہ الاسلام اور ڈی جے سائنس کالج جیسے ادارے علم کی روشنی بکھیر رہے تھے۔ جمشید کوٹھاری پلیس ' سینٹ پیٹرکس ' ایمپریس مارکیٹ ' صدربازار ' سٹی کونسل ' فریئر ہال ' سٹی اور کینٹ اسٹیشن بھی پاکستان سے پہلے بنے۔ پاکستان بننے سے پہلے یہاں ٹرام بھی چلتی تھی اورڈبل ڈیکر بس بھی۔ زولوجیکل گارڈن بھی تھا اور موہٹہ پیلس بھی۔ الغرض کیا نہیں تھا کراچی میں؟

میں نے یہ نکتہ اس لیے اٹھایا ہے کہ شمس خان شاید کراچی کی تاریخ سے نابلد ہیں یا اسی زہریلے پروپیگنڈا کا شکار ہیں جس کا ذکر میں نے اوپر کیا۔ اسی لیے انہوں نے کراچی کی تمام تر ترقی کو 1947 کے بعد آئے لوگوں سے جوڑ دیا۔ جبکہ کراچی ' پاکستان سے پہلے بھی سندھ کا دارالخلافہ تھا۔ یہاں بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی تھا۔ روزنامہ ڈان یہیں سے شایؑع ہوتا تھا۔ بانیؑ پاکستان قایؑد اعظم محمّد علی جناح بھی یہیں پیدا ہوےؑ۔ اس شہر کی تاریخ قیام پاکستان سے شروع نہیں ہوئی بلکہ قیام پاکستان کی تاریخ میں اس شہر کا بڑا اھم حصّہ ہے۔

تاریخی خالقدینا ہال کون بھول سکتا ہے جہاں مولانا شوکت علی و برادران پرمقدمہ چلا۔ منتخب سندھ اسمبلی کا وہ ایوان بھی یہیں تھا جس میں پاکستان کے حق میں قراداد منظور کی گئی اور جس دن برصغیر کے مسلمانوں کی مشترکہ کوششوں اور محمد علی جناح کی رہنمائی میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ مشرق و مغرب کے مشترکہ دارالخلافہ کے لئے نگاہ انتخاب بھی اسی شہر پر پڑی۔ کراچی شہر کا یہ اعزاز اس وقت تک برقرار رہا جب تک اس کی آبادی کسی حد تک قابو میں رہی مگر مہاجرین کی بڑھتی ہوئی آبادی جب قابو سے باہر ہونے لگی اور دارالخلافہ کا انتظام چلانا مشکل ہو گیا تو اسلام آباد بسانے اور دارالخلافہ کراچی سے منتقل کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اگر 1984 کے بعد 2000 تک کے حالات کو پیش نظر رکھ کر منتقلی  کے اس فیصلے پر غورکیا جاےؑ تو فیصلہ کرنے والوں کی دور اندیشی کو داد دینا پڑتی ہے۔

مگر دارلخلافہ کی منتقلی کی یہ واحد وجہ نہیں تھی بلکہ مغربی پاکستان کے ہر صوبے سے کراچی انتہائی دوری پرواقع تھا اور جس نئی جگہ کا انتخاب کیا گیا وہ شمال مغرب ' پنجاب اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ہے جس کا فاصلہ سکھر ' کویؑٹہ اور گلگت اور چترال سے لگ بھگ ایک جیسا ہے۔ یعنی اسلام آباد ایک طرح سے پاکستان کے مرکز میں واقع ہے۔

کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں آباد مھاجرین کے بارے میں ایک اور غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ جیسے وہ سب کے سب 1947 میں آ کر یہاں آباد ھوےؑ ہوں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 1947 میں لٹے پٹے قافلوں کی صورت میں آنے والے مہاجرین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھی۔ مہاجرین کی آمد کا سلسلہ 1947 سے  لے کر 1957 تک بلا روک توک جاری رہا۔ یہاں تک کہ بھارت اور پاکستان نے طے شدہ معاہدہ کے تحت سرحدیں بند کردیں۔ 1957 کے بعد ھجرت کا باب بند ہو گیا اور ہر آنے جانے والے کو سفری کاغذات بنوانے پڑے۔ اس تاریخ کے بعد جو بھی بھارت سے پاکستان آیا اس نے ان معروف معنی میں اسلام یا پاکستان کی خاطر ہجرت نہیں کی بلکہ ان کا شمار معاشی مہاجرین یا ایمیگرنٹس میں کیا جانا چاہیے نہ کی ریفوجیز میں۔

ہجرت کا یہ سلسلہ 1957 سے 1970 تک جاری رہا اور 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد تو اس کی رفتار میں مزید اضافہ ہو گیا جب بڑی تعداد میں مشرقی پاکستان سے بہاری ' برمی ' بنگالی مہاجرین نے مغربی پاکستان کا رخ کیا۔ یہ سلسلہ 1990 تک جاری رہا اور اس دوران لاکھوں مہاجرین کراچی میں آباد ہوئے اور پھر 80 کی دہائی میں افغاں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق آج کراچی میں لگ بھگ ۸ لاکھ افغان مہاجر بھی آباد ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر سے روزگار کی تلاش میں آنے والے اور بعد ازاں کراچی میں مستقل سکونت اختیار کرنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔

کراچی کی ڈیموگرافی میں اس بے لگام تبدیلی کے مقامی آبادی پر انتہایؑ منفی اثرات مرتب ہوےؑ اور کراچی کے قدیمی باشندے اپنے ہی شہر میں اجنبی ہوگئے۔ کئی مقامی باشندوں نے کراچی کو خیرباد کہہ دیا۔ آج کرچی کے اصل باشندے کچھی میانے ' بلوچ اور سندھی انتہائی غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے یہاں 1500 یہودی خاندان آباد تھے۔ آج ایک بھی نہیں ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے یہاں ہزاروں پولش مہاجرین آباد تھے اب دو چار گھرانے رہ گےؑ ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے یہاں سینکڑوں ایرانی ریسٹورانٹس اور بیکریز تھیں اب شاید درجن بھر بھی نہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے یہاں ہزاروں پارسی تجار اپنا کاروبار کرتے تھے اب معدودے چند سب چھوڑ گےؑ ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے قابل ذکر گوون اورملباری کمیونٹیز اب تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔

قیام پاکستان سے پہلے یہاں گندگی نام کو نہیں تھی اب یہ دنیا کے گندے ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے یہاں امن و امن کا دور دورہ تھا اب یہاں ٹارگٹ کلرز اور گینگ وار کا راج ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے کراچی ایک منظّم شہرتھا اب ایک بے ہنگم اور بے ربط آبادی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے کراچی شہر کی شہرت رواداری تھی جہاں مسلم ' ھندو ' پارسی ' یہودی ' عیسائی سب کی عبادت گاہیں تھیں اور کچھی میانے ' بلوچ ' سندھی ' پٹھان ' میمن ' گجراتی ' گوون ' پارسی ' پنجابی سب مل جل کر رہتے تھے۔ آج یہ نسلی ' لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم آبادیوں کا مجموعہ ہے۔ قیام پاکستان سے قبل اس شہر کی مہمان نوازی اورغریب پروری کے دنیا میں چرچے تھے۔ اب اس شہر میں سفید پوش درمیانہ طبقہ کا وجود بھی خطرہ میں ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے کراچی کھلے دل کا روشن خیال شہر تھا جسے بتدریج تعصب اور تنگ نظری کی بند گلی میں دھکیل دیا گیا ہے۔

پاکستان بننے کے بعد یہاں لالوکھیت میں خیمہ بستی آباد ہوئی جو اب شہید ملت لیاقت علی خان کے نام سے منسوب ہے۔ اورنگی ٹاؤن بنا ' کورنگی  ' لانڈھی اورسہراب گوٹھ وجود میں آئے۔ کچی آبادیاں بنیں ' جو پہلے نا پید تھیں۔ پاکستان بننے سے پہلے کراچی میں کوئی ندی نالوں پر نہیں رہتا تھا۔ اب کراچی کا کوئی ندی نالہ نہیں رہتا۔ پاکستان بننے سے پہلے یہاں محمّد علی جناح ' حسسن علی آفندی اورعبدالله ہارون ہوا کرتے تھے۔ اب یہاں اجمل پہاڑی اور کامران مادھوری ہوتے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے یہاں دنیا بھر سے سیاح اورسرمایہ کار آتے تھے۔ اب صرف جنوبی افریقہ سے بھتہ خوروں کی کالز آتی ہیں۔ اور مقامی سرمایہ کار بھی ملک کے اندر دوسرے شہروں یا بیرون ملک منقل ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر ' انجینیؑر اور ہنر مند اس شہر سے بھاگ رہے ہیں۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ قیام پاکستان کے بعد کراچی  نے ترقی کی یا زوال پزیر ہوا ہے؟

Written by Muhammad Tariq Khan

No comments:

Post a Comment