دسمبر
1906 میں جب آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس مین شرکت کے لیے ھندوستان
کے مسلم رھنما ڈھاکہ میں جمع ھوئے تو کانفرنس کے اجلاس کے بعد ایک سیاسی انجمن کی
شکل میں "آل انڈیا مسلم لیگ" کا قیام عمل میں آیا۔
"آل
انڈیا مسلم لیگ" کی قرارداد ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ خان نے پیش کی تھی۔
برطانوی
حکومت کے تئیں وفاداری کے جذبہ کا فروغ ' ھندوستانی مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا
تحفظ اور ان کے اندر دوسرے فرقوں کے تئیں عداوت کا امتناع "آل انڈیا مسلم
لیگ" کے مقاصد قرار دیے گئے۔
"آل
انڈیا مسلم لیگ" کے اولین صدر سر محمد سلطان آغا خاں منتخب ھوئے اور نائب صدر
کی حثیت سے حکیم اجمل خاں کا انتخاب عمل میں آیا۔
"آل
انڈیا مسلم لیگ" نے مطالبہ کیا کہ 1905 میں وائسرائے لارڈ کرزن کے ذریعہ عمل
میں لائی جانے والی تقسیمِ بنگال کو منسوخ نہیں کیا جانا چاھیے۔
پہلے
"آل انڈیا مسلم لیگ" کا صدر دفتر علی گڑھ میں قائم تھا لیکن بعد ازاں
1916 میں اسے لکھنو متتقل کر دیا گیا اور اسی سال کانگریس اور لیگ کے درمیان
"میثاقِ لکھنو" پر دستخط ھوئے۔
اس
معاہدے کی رو سے جن نکات پر اتفاق رائے کیا گیا ان کی تفصیل کچھ یوں ھے؛
1۔
کانگریس نے مسلم لیگ کا مطالبہ برائے جداگانہ انتخاب تسلیم کر لیا۔
2۔
مرکزی قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کے لیے ایک تہائی نشستیں مخصوص کرنے سے بھی
کانگریس نے اتفاق کر لیا۔
3۔
ھندوؤں کو پنجاب اور بنگال میں Weight age دیا گیا۔ ان صوبوں میں ھندو نشستوں میں
اضافے کے ساتھ مسلم لیگ نے اتفاق کر لیا ۔
4۔
جن جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت نہیں تھی وھاں مسلم نشستوں میں اضافہ کر دیا
گیا ۔
5۔
اس بات سے بھی اتفاق کیا گیا کہ کوئی ایسا بل یا قرارداد جس کے ذریعے اگر ایک
قومیت متاثر ھو سکتی ھے اور اسی قومیت کے تین چوتھائی اراکین اس بل یا قرارداد کی
مخالفت کرے تو ایسا کوئی مسودہ قانون کاروائی کے لیے کسی بھی اسمبلی میں پیش نہیں
کیا جائے گا۔
مسلم
لیگ کے اجلاس میں بنگال سے فضل الحق ' عبدالرسول ' مولانا اکرم خان اور ابوالقاسم۔
پنجاب سے سر فضل حسین اور ذوالفقارعلی خان۔ یوپی سے سر رضا علی ' سرمحمد یعقوب '
آل نبی اور آفتاب احمد خان۔ بہار سے حسن امام اور مظفر حق نے شرکت کی اور
"لکھنو پیکٹ" طے پایا۔
"لکھنو
پیکٹ" آگے چل کے "دو قومی نظریہ" کی بنیاد بنا۔ آل انڈیا نیشنل
کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ دونوں نے مسلمانوں کے لئے جداگانہ انتخاب کو تسلیم کیا۔
گو مسلمان اور ھندوﺅں کا ایک بڑا طبقہ اس پیکٹ کے شدید خلاف تھا۔
1935
کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت ھونے والے الیکشن کے بعد کانگریس اور لیگ
کےدرمیان اختلافات نے شدت اختیار کر لی۔
دوسری
عالمی جنگ کے دوران مسلم لیگ نے برطانوی حکومت کا ساتھ دیا جبکہ کانگریس نے اس کی
مخالفت کی۔
23
مارچ 1940 کو مسلم لیگ نے لاھور میں منعقدہ اپنے اجلاس میں "قراداد
لاھور" پاس کی اور مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل "ریاستیں" قائم
کرنے کا مطالبہ پیش کر دیا۔
1940
سے 1947 تک لیگ نے قیام پاکستان کے سلسلہ میں کامیاب کوششیں کیں جن میں اسے
برطانوی حکومت کی تائید اور حمایت حاصل رھی۔
انجام
کار آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ھندوستان کے فرقہ وارانہ مسئلہ کے لیے
تقسیمِ ھند کو واحد حل تجویز کیا۔
برطانیہ
کی پارلیمنٹ کے " انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ 1947" کے تحت پر امن طور پر 15
اگست 1947 کو جب پاکستان اور بھارت وجود میں آئے تو اس وقت پنجاب نہ پاکستان میں
تھا اور نہ بھارت میں۔ پاکستان کے قیام کے 2 دن کے بعد 17 اگست 1947 کو پنجابیوں
کو بتایا گیا کہ پنجاب کے کون سے اضلاع پاکستان میں شامل کردیے گئے ھیں اور کون سے
اضلاع بھارت میں شامل کردیے گئے ھیں۔
17
اگست 1947 کو پنجاب کو تقسیم کرکے 17 مسلم پنجابی اکثریتی اضلاع پاکستان میں شامل
کردیے گئے اور 12 ھندو پنجابی و سکھ پنجابی اکثریتی اضلاع بھارت میں شامل کردیے
گئے۔ پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے مسلمان پنجابیوں ' ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں
کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ جسکی وجہ سے مار دھاڑ ' لوٹ مار اور قتل و غارتگری کا
سلسلہ شروع ھوا؛
جس
میں 20 لاکھ پنجابی مارے گئے۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے بڑی
قتل و غارتگری قرار دی جاتی ھے۔
جبکہ
2 کروڑ پنجابیوں نے نقل مکانی کی۔ جو کہ تاریخ میں دنیا کی مختصر وقت میں سب سے
بڑی نقل مکانی قرار دی جاتی ھے۔
اب
سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ؛ یہ سارا کھیل ھندوستان کے مسلمانوں کی آزادی کا تھا یا
مسلمان اور سکھ پنجابیوں کو آپس میں لڑواکر اور پنجاب کو تقسیم کرکے ' پاکستان کے
نام پر مسلمانوں کے ملک کو وجود میں لا کر اس ملک پر یوپی ' سی پی ' بہار کے
مسلمانوں کی سماجی ' سیاسی اور انتظامی بالادستی قائم کرنے کا؟