Saturday 25 March 2017

آمر کے طور پر صرف پنجابی ضیاء الحق کو ھی نشانہ کیوں بنایا جاتا ھے؟


ایم آر ڈی کی تحریک اور خالصتان کا کھیل 1983 سے عروج پر پہنچنا شروع ھوا۔ جو کہ اصل میں را کا پاکستان اور آئی ایس آئی کا بھارت کو توڑنے کا کھیل تھا اور کھیل کا سبب دریاؤں کے پانی تھے جوکہ ذرعی معیشت میں اضافے کے لیے بھارت اور پاکستان کی اھم ضرورت ھیں۔

1988 میں ضیاء الحق کی موت نہ ھوتی تو را تو ایم آر ڈی کی تحرک کے ذریعے پاکستان کو نقصان نہ پہنچا سکی تھی۔ لیکن ضیاء الحق کے خالصتان پلان نے بھارت سے مشرقی پنجاب کو الگ کردینا تھا۔ جسکے بعد ظاھر ھے کہ کشمیر نے بھی بھارت میں نہیں رھنا تھا۔

1988 میں ضیاء الحق کی موت کے بعد ھندوستانی مھاجر مرزا اسلم بیگ پاکستان کی فوج کا سربراہ بنا اور سندھی بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیرِ اعظم بنیں۔ شکریہ کے طور پر ضیاء الحق کے خالصتان پلان پر عمل کرنے والے پنجابی سکھوں کی لسٹیں بھارت کو دے دی گئیں۔

سیاست کا کھیل اصل میں اقتدار کا کھیل ھے۔ مقصد اقتدار ھوتا ھے اور باقی سب افسانے یا بہانے ھوتے ھیں تاکہ سادہ لوح عوام کے جذبات سے کھیلا جائے اور اپنے مفادات کے لیے آلہء کار بنایا جائے۔ ورنہ پنجابی ضیاء الحق کے علاوہ پٹھان ایوب خان ' پٹھان یحیٰ خان اور مھاجر مشرف بھی پاکستان میں مارشل لاء لگا کر حکومت کر چکے ھیں لیکن سندھی ' مھاجر ' بلوچ ' پٹھان کی آنکھوں میں آمر کے طور پر رڑکتا اور دماغ میں کھٹکتا صرف پنجابی ضیاء الحق ھے۔

دراصل 5 جولائی 1977 کو پنجابی ضیاء الحق کے پاکستان کا اقتدار سمبھالنے سے پہلے اور پاکستان کے قیام سے لیکر صرف دو پنجابی وزیرِ اعظم بن سکے تھے اور وہ بھی ایک چوھدری محمد علی تیرہ مہینوں کے لیے۔ جس نے پاکستان کو پہلا آئین بنا کر دیا اور دوسرا فیروز خان نون دس مہینوں کے لیے۔ جس نے اومان سے پاکستان کو گوادر خرید کر دیا۔ جبکہ پاکستان کے قیام سے لیکر پاکستان کی فوج کا سربراہ ' پاکستان کا گورنر جنرل یا پاکستان کا صدر کوئی بھی پنجابی نہیں بنایا گیا تھا۔

پنجابیوں کے سندھیوں ' مھاجروں ' بلوچوں ' پٹھانوں سے آبادی میں زیادہ ھونے کے باوجود سندھی ' مھاجر ' بلوچ ' پٹھان چونکہ پنجابیوں کو پاکستان کے اقتدار سے باھر رکھنے میں کامیاب رھے تھے۔ کبھی جمہوریت اور کبھی آمریت کے ذریعے پاکستان کے اقتدار سے لطف اندوز ھو رھے تھے اور معاشی مفادات حاصل کر رھے تھے لیکن پنجابی ضیاء الحق نے سندھیوں ' مھاجروں ' بلوچوں ' پٹھانوں کے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔

جمہوریت اور آمریت مقصد نہیں نظام ھیں۔ مقصد چونکہ اقتدار سے لطف اندوز ھونا اور معاشی مفادات حاصل کرنا ھوتا ھے۔ اس لیے پنجابی ضیاء الحق کے آمریت کے ذریعے پاکستان کا اقتدار سمبھالنے کی وجہ سے پنجابیوں کو بھی پاکستان کے اقتدار سے لطف اندوز ھونے اور معاشی مفادات حاصل کرنے کے لیے سندھیوں ' مھاجروں ' بلوچوں ' پٹھانوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کرنے کا ماحول مل گیا اور پنجابیوں نے آمریت کے نظام کے بجائے سیاسی نظام کے ذریعے پاکستان کا اقتدار سمبھالنا اور معاشی مفادات کو حاصل کرنا شروع کردیا۔

پنجابیوں کے پاکستان کا اقتدار سمبھالنا شروع کردینے کی وجہ سے چونکہ سندھیوں ' مھاجروں ' بلوچوں ' پٹھانوں کے لیے پاکستان کا اقتدار سمبھالنا پنجابیوں کے پاکستان کی سب سے بڑی آبادی ھونے کی وجہ سے مشکل ھی نہیں بلکہ ناممکن ھو چکا ھے۔ اس لیے پنجابی ضیاء الحق سندھیوں ' مھاجروں ' بلوچوں ' پٹھانوں کی آنکھوں میں رڑکتا اور دماغ میں کھٹکتا رھتا ھے۔ جس نے پنجابیوں کو پاکستان کا اقتدار سمبھالنے کا ماحول بنا کر دیا تھا۔

مسئلہ یہ بھی ھے کہ سندھیوں ' مھاجروں ' بلوچوں ' پٹھانوں کا نہ ذرعی معیشت سے واسطہ ھے اور نہ ھی صنعتی معیشت سے۔ جبکہ دنیا بھر میں معاشی طور پر خوشحال ھونے کے ذرائے صرف دو ھی ھیں۔ جوکہ ایک تو ذراعت ھے اور دوسرا صنعت۔ اس لیے سندھیوں ' مھاجروں ' بلوچوں ' پٹھانوں کو دریاؤں کے پانی کی نہ ضرورت ھے اور نہ دلچسپی۔ جبکہ پنجاب کا خطہ ھزاروں سالوں سے دنیا کی سب سے بڑی ذرعی معیشت رھا ھے اور پنجابی قوم ھزاروں سالوں سے ذراعت پیشہ قوم رھی ھے۔ اس لیے دریاؤں کا پانی پنجاب اور پنجابی قوم کی اھم ضرورت ھے۔

پنجابی قوم کی اپنی زمین ذرعی معیشت کے طور پر خوشحال ھے۔ اس لیے پنجابی قوم نے دوسری قوموں کی زمینوں پر قبضے کرنے یا دوسری قوموں کے آلہ کار بننے کے بجائے ھزاروں سالوں سے پنجاب پر دھیان دیا ھے۔  پنجاب کے ذرعی معیشت کے لحاظ سے دینا بھر میں خوشخال خطہ ھونے کی وجہ سے ھی 1022 سے لیکر 1799 تک کے 777 سال پنجاب پر پنجاب کے مغرب کی طرف کے حملہ آوروں کا قبضہ رھا۔ جبکہ 1799 سے لیکر 1849 تک کے 50 سال کے لیے پنجاب کے خود مختیار ھونے کے بعد 1849 میں برطانیہ سے آکر انگریز نے قبضہ کرلیا۔ جبکہ سندھیوں ' مھاجروں ' بلوچوں ' پٹھانوں کے پاس ذرعی معیشت کے ذرائے نہیں ھیں اور نہ صنعت کاری کی طرف رحجان ھے۔ اس لیے سندھیوں ' مھاجروں ' بلوچوں ' پٹھانوں کا ھزاروں سالوں سے انحصار دوسری قوموں کی زمینوں پر قبضے کرنے یا دوسری قوموں کے آلہ کار اور خدمت گذار بننے میں رھا ھے۔

پنجابی قوم چونکہ پاکستان کا اقتدار حاصل کرنے کے بعد اب خود کو سیاسی طور پر مستحکم اور عسکری طور پر منظم کرچکی ھے۔ اس لیے پنجابی قوم کی آئندہ منزل پاکستان کو معاشی طور پر مظبوط کرنا ھے۔ اس لیے سندھیوں ' مھاجروں ' بلوچوں ' پٹھانوں کو اقتدار سے لطف اندوز کروانے کے بجائے پاکستان کا اقتدار خود اپنے پاس رکھے گی تاکہ پاکستان کو ذرعی معیشت کے ساتھ ساتھ صنعتی معیشت کے لحاظ سے بھی مظبوط کیا جاسکے۔ تاکہ پاکستان ترقی کرے اور پاکستان کی عوام خوشحال ھو۔ جبکہ سندھیوں ' مھاجروں ' بلوچوں ' پٹھانوں کا ھزاروں سالوں سے انحصار دوسری قوموں کی زمینوں پر قبضے کرنے یا دوسری قوموں کے آلہ کار اور خدمت گذار بننے میں رھا ھے۔ اس لیے پاکستان کے دشمن ملکوں کے آلہ کار اور خدمت گذار بننے دینے کے بجائے بہتر ھوگا کہ انہیں پنجابی قوم کے ھی آلہ کار اور خدمت گذار بنا کر رکھا جائے اور انکی دوسری قوموں کی زمینوں پر قبضے کرنے کی عادت کو ختم کروایا جائے۔

بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان میں پراکسی کرکے ' پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو پنجابی اسٹیبلشمنٹ قرار دلوا کر ' پنجاب کو غاصب قرار دلوا کر ' پاکستان کو پنجابستان قرار دلوا کر ' پاکستان ' پنجاب اور پنجابی قوم کے خلاف نفرت کا ماحول قائم کرواکر ' پاکستان کے اندر ' افغانی بیک گراؤنڈ پشتو بولنے والوں کو پشتونستان بنانے کی راہ پر ڈالنے کی سازش شروع کی ھوئی ھے۔ کردستانی بیک گراؤنڈ بلوچی بولنے والوں کو آزاد بلوچستان بنانے کی راہ پر ڈالنے کی سازش شروع کی ھوئی ھے۔ عربی نزاد اور بلوچ نزاد سندھیوں کو سندھودیش بنانے کی راہ پر ڈالنے کی سازش شروع کی ھوئی ھے۔ یوپی ' سی پی کے ھندوستانی بیک گراؤنڈ اردو بولنے والے مھاجروں کو جناح پور بنانے کی راہ پر ڈالنے کی سازش شروع کی ھوئی ھے۔

بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ ' اس طرح کی سازش کے ذریعے ' ماضی میں لسانی پراکسی کرکے ' مشرقی پاکستان میں ' 1971 میں بنگالی قوم کو پاکستان سے الگ کرنے میں کامیاب ھوچکی ھے لیکن 1971 میں نہ پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ پنجابی کے پاس تھی اور نہ ملٹری لیڈرشپ۔

 1971میں پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ بنگالی مجیب الرحمٰن اور سندھی بھٹو کے پاس تھی جبکہ پاکستان کی ملٹری لیڈرشپ میں کلیدی قردار اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جرنیلوں اور پٹھان جرنیلوں کا تھا۔ جبکہ پاکستان کا سربراہ بھی پٹھان یحیٰ خان تھا۔

پنجابی کے پاس تو پاکستان کی ملٹری لیڈرشپ 1975 میں جنرل ضیاءالحق کے پاکستان کی فوج کے پہلے پنجابی چیف آف آرمی اسٹاف بننے کے بعد آئی۔ جبکہ پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ 1988 میں نوازشریف کے پاکستان مسلم لیگ کا صدر بننے کے بعد ' 1990 میں پاکستان کا وزیرِاعظم بننے کے بعد ائی۔

جب 1971 میں بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ نے بنگالی قوم کو پاکستان سے الگ کرنے کی لسانی پراکسی شروع کی تو اس کے جواب میں پاکستان کو بھی مشرقی پنجاب اور کشمیر میں لسانی پراکسی کرنی چاھیئے تھی لیکن اس وقت پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ اور ملٹری لیڈرشپ پنجابی کے پاس نہیں تھی۔ جبکہ پاکستان کی ملٹری لیڈرشپ میں موجود اترپردیش کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر جرنیلوں ' پٹھان جرنیلوں اور مغربی پاکستان کے سیاسی لیڈر ' سندھی بھٹو نے بھارت میں لسانی پراکسی کرنے سے گریز کیا کیونکہ بھارت میں لسانی پراکسی کرکے بھارتی پنجاب اور کشمیر کو بھارت سے الگ کرکے پاکستان میں شامل کرنے سے پاکستان میں پنجابیوں کی آبادی کے 60٪ سے بڑہ کر 85٪ ھوجانے کی وجہ سے غیر پنجابی ھونے کی بنا پر وہ خوفزدہ تھے۔

بحرحال ' اس وقت پاکستان کی ملٹری لیڈرشپ اور پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ پنجابی کے پاس ھے۔ پاکستان کی پنجابی ملٹری لیڈرشپ اور پنجابی سیاسی لیڈرشپ ' بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پاکستان میں پراکسی کے ذریعے پشتونستان ' آزاد بلوچستان ' سندھودیش اور جناح پور بنانے کی سازش کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی پراکسی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھنی ھے۔

بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ کی پراکسی کے ذریعے پاکستان میں پشتونستان ' آزاد بلوچستان ' سندھودیش اور جناح پور بنانے کی سازش کا ناکام ھونا تو یقینی ھے لیکن بھارت کی ھندی اسٹیبلشمنٹ کو سبق سکھانے کے لیے بھارت کے اندر پشتونستان کی پراکسی کے بدلے میں خالصتان ' آزاد بلوچستان کی پراکسی کے بدلے میں کشمیر ' سندھودیش کی پراکسی کے بدلے میں ھریانستان ' جناح پور کی پراکسی کے بدلے میں تامل لینڈ اور مشرقی پاکستان میں پراکسی کرکے 1971 میں مسلمان بنگالیوں کو پاکستان سے الگ کرنے کے بدلے میں ھندو بنگالیوں کا آزاد ملک بنانے کے لیے اب پاکستان کو بھرپور پراکسی جنگ کرنا ھوگی۔ جبکہ تیلگو قوم ' ملایالم قوم ' مراٹھی قوم ' گجراتی قوم ' راجستھانی قوم ' کنڑا قوم ' اڑیہ قوم ' آسامی قوم ' بھوجپوری قوم کو بھی اترپردیش  کے ھندی بولنے والے ' گنگا جمنا تہذیب و ثقافت والے ھندوستانیوں کی غلامی سے نجات دلوانی ھوگی۔

پاکستان تو پنجابی ' سندھی ' ھندکو اور براھوی بولنے والوں کا ملک ھے اور پاکستان کی 60٪ آبادی پنجابی ھے لیکن بھارت تو ھندی ' تیلگو ' تامل ' ملایالم ' مراٹھی ' گجراتی ' راجستھانی ' کنڑا ' اڑیہ ' آسامی ' بھوجپوری ' بنگالی اور پنجابی قوموں کا علاقہ ھے ' جہاں 25٪ آبادی ھندی ھے لیکن 75٪ آبادی ھندی نہیں ھے۔

پاکستان کی 60٪ آبادی ھونے کی وجہ سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں تو پنجابیوں کی ھی اکثریت ھونی تھی لیکن بھارت میں ھندوستانیوں (اترپردیش کے ھندی بولنے والے گنگا جمنا تہذیب و ثقافت والے) نے بھارت کی 75٪ آبادی کو ھندی اسٹیبلشمنٹ اور ھندی زبان کے ذریعے مغلوب کیا ھوا ھے۔

بھارت میں اقلیت میں ھونے کے باوجود ھندوستانیوں نے ھندی اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کے علاوہ ھندی زبان کا بھی غلبہ کیا ھوا ھے اور ھندوستانی میڈیا پر بھی غلبہ ھندی زبان کا ھی ھے لیکن پاکستان میں اکثریت میں ھونے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ میں تو پنجابیوں کی اکثریت ھے لیکن زبان کے لحاظ سے پاکستان میں غلبہ اردو زبان کا ھے ' جو کہ اصل میں ھندی زبان ھی ھے۔ پاکستانی میڈیا پر بھی غلبہ اردو زبان کا ھی ھے۔ اردو زبان کے غلبے کو ختم کرکے پنجابی ' سندھی ' ھندکو اور براھوی زبانوں کو پاکستان میں فروغ دینے کا مرحلہ اب آنے والا ھے۔ 

پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ھے۔ اس وقت پاکستان ایک ایٹمی طاقت بھی ھے۔ پاکستان عالمِ اسلام کا آبادی کے لحاظ سے دوسرا اور ایٹمی طاقت کے لحاظ سے واحد ملک ھے۔ اس وقت پاکستان جنوبی ایشیا کا ایک طاقتور ملک ھے۔

پاکستان کے ساتھ دنیا کے طاقتور ترین ممالک امریکہ ' روس ' برطانیہ ' فرانس ' جرمنی ' جاپان ' ترکی کے عزت و احترام والے تعلقات ھیں۔

پاکستان کے ساتھ پڑوسی ممالک چین ' ایرن ' متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے عزت و احترام والے تعلقات ھیں۔

بھارت اور افغانستان بھی پاکستان کے پڑوسی ملک ھیں۔ بھارت کھل کر پاکستان کے ساتھ جنگ تو نہیں کررھا اور نہ پاکستان کے ایٹمی صلاحیت والا ملک ھونے کی وجہ سے بھارت میں کھل کر پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کی ھمت ھے۔ لیکن پاکستان میں سیاسی ' سماجی اور معاشی عدمِ استحکام کے لیے بھارت سازشوں سے باز نہیں آرھا اور افغانستان کو اپنے ساتھ ملا کر پاکستان کے اندر "پراکسی وار" کر رھا ھے۔

افغانستان بھی بھارت کے پاکستان دشمنی کے کھیل میں بھارت کے ساتھ تعاون کر رھا ھے۔ پاکستان کے مغربی صوبوں کے پی کے اور بلوچستان میں تخریبکاری کرنے کے لیے اپنی زمین کو بھارت کی خفیہ ایجنسی "را" کو استعمال کے لیے دینے کے علاوہ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر خود بھی تخریبکاری میں مصروف رھتا ھے۔

چین اور پاکستان کے درمیان 2015 میں ھونے والے انرجی اور کیمیونیکیشن کوریڈورس کے معاھدے کے بعد اب 2030 تک انرجی اور کیمیونیکیشن کوریڈورس کا کام جاری رھنا ھے اور 2030 میں چین نے بحر ھند پر اپنی اجاراداری قائم کر لینی ھے جبکہ پاکستان نے "ایشین ٹائیگر" بن جانا ھے۔ انشا اللہ۔

ھندوستان نے چین کے کاشغر سے لیکر گوادر تک انرجی اور کیمیونیکیشن کوریڈورس کے بننے کو روکنا ھے۔ اس لیے ھندوستانی "را" اور دیگر پاکستان دشمن ملکوں نے پاکستان کے اندر "پراکسی وار" کے ذریعے پاکستان میں بھرپور سماجی اور سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش کرنی ھے۔ جبکہ پاکستانی "آئی ایس آئی" نے ھندوستانی "را" اور دیگر پاکستان دشمن ملکوں کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کا مقابلہ کرنا ھے۔

پختونستان ' آزاد بلوچستان اور سندھودیش کی پرانی تحریکوں اور 1986 سے جناح پور کی تحریک کے لیے سرگرم "را" کے نئے ایجنٹ الطاف اور اسکے ساتھیوں  کے علاوہ بھی پاکستان کے اندر دوسرے بھارتی آلہ کار موجود ھیں جو بھارت کی پاکستان کے اندر ھندوستانی "را" یا دیگر پاکستان دشمن ملکوں کی "پراکسی وار" کے دانستہ یا نادانستہ آلہ کار بنے ھوئے ھیں۔ بعض نے سیاسی لبادے پہن رکھے ھیں اور بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کے معزر اراکین بننے ھوئے ھیں۔ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن بلکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں وزیر اور مشیر تک بنتے رھتے ھیں۔ بعض نے کاغذی سیاسی تنظیمیں بنا رکھی ھیں۔ بعض دانشور ' صحافی یا سول سوسائٹی کے معززین بنے ھوئے ھیں یا فلاحی تنظیمیں بنا رکھی ھیں۔ جبکہ سرکاری ملازمین کی بھی بڑی تعداد دانستہ یا نادانستہ آلہ کار بنی ھوئی ھے۔ جن میں سے بعض تو بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر تعینات ھیں۔

پاکستان کے سیاستدانوں ' صحافیوں ' سماجی کارکنوں اور دانشوروں کے لیے احتیاط ضروری ھے کیونکہ  ھندوستانی "را" یا دیگر پاکستان دشمن ملکوں کے آلہ کار بن کر یا دانستہ اور نادانستہ ھندوستانی "را"  یا دیگر پاکستان دشمن ملکوں کے ایجنڈے پر کام کرکے پاکستان میں سماجی اور سیاسی بحران پیدا کرنے والے سیاستدانوں ' صحافیوں ' سماجی کارکنوں اور دانشوروں کے ساتھ اب اچھا سلوک نہیں ھوگا۔ بلکہ انہوں نے اب قانوں کے شکنجے میں آجانا ھے۔ انشا اللہ۔

No comments:

Post a Comment