انسان
کی زندگی خواھشات اور توقعات کے گرد گھومتی رھتی ھے۔ خواھشات حسنات والی ھوں یا
سیات والی ھوں۔ خواھشات ھوتی اپنی ھی ھیں اور ان خواھشات کی تکمیل میں
"ساتھ" دینے کی توقع دوسروں سے ھوتی ھے۔
جس
سے اپنی خواھشات کی تکمیل میں "ساتھ" دینے کی توقع کرلی جائے۔ اس سے
"سنگت" ھونے لگتی ھے۔ البتہ "سنگت" میں کامیابی یا ناکامی کا
ھونا توقع کے مطابق "ساتھ" دینے یا نہ دینے پر منحصر ھوتا ھے۔
جد
سنگت اچ سوبھ نصیب نہ ھووے
کیہڑا
فیدا اے مڑ بھج نس دا
اس لیے جان پہچان کے بعد واسطے داری جب "سنگت" میں تبدیل ھونے لگے تو کم
سے کم "ساتھی" والا ناطہ بننے کے امکانات ھونے چاھیئں۔
ذاتی
معاملات یا گھریلو اور کاروباری مسائل سے منسلک حسنات یا سیات والی خواھشات میں
"ساتھیوں" سے ھی "ساتھ" دینے کی توقعات ھوتی ھیں۔
اگر
"ساتھ" نبھنے نبھانے کا طور طریقہ سمجھ آجائے تو "سجن" اور
"بیلی" والا رشتہ بھی سمجھ آجاتا ھے۔ "سجن" اور
"بیلی" کی بھی پہچان ھونے لگتی ھے۔ "سجن" اور
"بیلی" کی اھمیت کا بھی اندازہ ھونے لگتا ھے۔ "سجن" سکھ دیتے
ھیں اور "بیلی" دکھ سے بچاتے ھیں۔
چنگے
سجن تے بخت خدا دیندا اے
ایہ
کم نئیں کہیں دے وس دا
خواھشات
کی تکمیل سکھ دیتی ھے اور خواھشات کی تکمیل نہ ھونے سے دکھ ھوتا ھے۔ سکھ اس کو
ملتا ھے جس کے "سجن" ھوں۔ "سجن" وہ ھوتا ھے جو حسنات والی
خواھشات کی تکمیل میں مدد فراھم کرتا ھے۔ "بیلی" وہ ھوتا ھے جو سیات
والی خواھشات سے بچنے میں مدد فراھم کرتا ھے۔
جان
پہچان کے بعد واسطے داری اگر "سنگت" میں تبدیل ھونے کے بعد
"ساتھی" والا ناطہ نہ بنا سکتی ھو تو بہتر ھے کہ؛ واسطے داری کو جان
پہچان تک رکھا جائے۔
دنیا
تے جو کم نہ آوے اوکھے سوکھے ویلے
اس
بے فیضے سنگی کولوں بہتر یار اکیلے
(میاں
محمد بخش)
No comments:
Post a Comment