پاکستان
کے آئین میں پاکستان کے صدر ' وزیر اعظم ' چیف جسٹس ' چیف الیکشن کمشنر ' چیئرمین
نیب کی تعینانی کی مدت کا ذکر ھے۔ لیکن آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت کا ذکر نہیں
ھے۔ البتہ آرمی چیف کی تعیانی کا اختیار پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 243 کے مطابق
پاکستان کے صدر کے پاس ھے اور وزیر اعظم کے مشورے سے تعیناتی عمل میں آتی ھے۔ آئین
کے آرٹیکل 243 ' آرمی ایکٹ 1952 اور آرمی ریگولیشنز رولز 1998 میں کہیں بھی آرمی
چیف کی تعیناتی کی مدت اور ملازمت میں توسیع ' تنزلی یا دوبارہ تعیناتی کا ذکر نہ
ھونے کی وجہ سے آرمی چیف کا عہدہ آئینی یا قانونی نہیں بلکہ انتظامی قرار پاتا ھے
اور وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹی کے ماتحت ھوتا ھے۔
آئین
کے آرٹیکل 97 کے تحت وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹی کو اختیار حاصل ھے کہ قوائد و ضوابط
کے مطابق انتظامی عہدوں پر تقرری ' تنزلی ' ایکسٹینشن کے لیے ایگزیکٹو اختیارات کا
استعمال کرسکے۔ اسی ایگزیکٹو اختیار کے تحت اور قوائد و ضوابط کے مطابق ماضی میں
آرمی چیفس کی تعینانی کی جاتی رھی اور ملازمت کی مدت کا بھی تعین کیا جاتا رھا
جبکہ ایکسٹینشن بھی دی جاتی رھی۔ آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت اور ملازمت میں توسیع
' تنزلی یا دوبارہ تعیناتی کا ذکر اگر آئین میں ھوتا تو آرمی چیف کا عہدہ آئینی
قرار پانا تھا اور وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹی کے ماتحت نہیں رھنا تھا۔ لہٰذا وفاق
کی ایگزیکٹو اتھارٹی کو آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کی طرح تنزلی کا اختیار بھی
نہیں ھونا تھا۔ اس لیے صدر ' وزیر اعظم ' چیف جسٹس ' چیف الیکشن کمشنر ' چیئرمین
نیب کی تنزلی کی طرح آرمی چیف کی تنزلی کے لیے بھی آئین میں طریقہء کار بیان کرنا
پڑنا تھا۔
ھندوستانی
مھاجر وزیر قانون فروغ نسیم اور ھندوستانی مھاجر اٹارنی جنرل انور منصور سپریم
کورٹ کو آئین کے آرٹیکل 97 کے تحت وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹی کے آرمی چیف کی تقرری
یا تنزلی کرنے یا ایکسٹینشن دینے کے اختیار کا بتانے کے بجائے آئین کے آرٹیکل 243
' آرمی ایکٹ 1952 اور آرمی ریگولیشنز رولز 1998 کا بتاتے رھے۔
آئین کے آرٹیکل 243 میں درج ھے کہ؛
(1)
وفاقی حکومت کے پاس مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول ھوگا۔
(2)
قبل الذکر حکم کی عمومیت پر اثر انداز ھوئے بغیر ' مسلح افواج کی اعلیٰ کمان صدر
مملکت کے ھاتھ میں ھوگی۔
(3)
صدر مملکت کو قانون کے تابع یہ اختیار ھوگا کہ وہ (الف) پاکستان کی بری ' بحری اور
فضائی افواج اور مذکورہ افواج کے محفوظ دستے قائم کرے اور ان کی دیکھ بھال کرے؛
اور (ب) مذکورہ افواج میں کمیشن عطا کرے۔
(4)
صدر مملکت ' وزیراعظم کے ساتھ مشورے پر (الف) چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی
(ب) چیف آف آرمی اسٹاف (ج) چیف آف نیول اسٹاف (د) چیف آف ائیر اسٹاف کا تقرر
کرے گا اور ان کی تنخواھوں اور الائونسز کا تعین بھی کرے گا۔
ھندوستانی
مھاجر وزیر قانون فروغ نسیم اور ھندوستانی مھاجر اٹارنی جنرل انور منصور کو چاھیے
تھا کہ سپریم کورٹ کو بتاتے کہ آرمی چیف کا عہدہ آئینی یا قانونی نہیں بلکہ
انتظامی ھے۔ اس لیے آرمی چیف جنرل باجوہ کی تعیناتی کی مدت میں ایکسٹینشن آئین یا
قانون کا معاملہ نہیں ھے۔ لہٰذا آئین کے آرٹیکل 243 ' آرمی ایکٹ 1952 اور آرمی
ریگولیشنز رولز 1998 پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ھے۔ آرمی چیف کی تقرری یا تنزلی
کرنا یا ایکسٹینشن دینا ' آئین کے آرٹیکل 97 کے تحت ایگزیکٹو کے اختیار کا معاملہ
ھے اور یہ اختیار ایگزیکٹو نے قوائد و ضوابط کے مطابق استعمال کرنا ھے۔ اس لیے
آئین کے آرٹیکل 97 اور قواعد و ضوابط پر غور کرنے کی ضرورت ھے۔ آرمی چیف جنرل
باجوہ کی تعیناتی کی مدت کا ایگزیکٹو اتھارٹی کے اختیار کے تحت 3 سال کے لیے تعین
کیا گیا تھا اور ایگزیکٹو اتھارٹی کے اختیار کے تحت ھی تعیناتی کی مدت میں 3 سال
کی ایکسٹینشن کی جا رھی ھے۔ البتہ مزید 3 سال کے لیے ایکسٹینشن کے دوران قوائد و
ضوابط کے مطابق تعیناتی کرنے میں جو غلطیاں ' کوتاھئیاں اور غامیاں کی گئی ھیں '
انہیں درست کرکے قوائد و ضوابط کے مطابق کردیا جائے گا۔ اگر آرمی چیف کی تعیناتی
کی مدت اور ملازمت میں توسیع ' تنزلی یا دوبارہ تعیناتی کا ذکر آئین میں کردیا گیا
تو آرمی چیف کا عہدہ صدر ' وزیر اعظم ' چیف جسٹس ' چیف الیکشن کمشنر ' چیئرمین نیب
کی طرح آئینی قرار پائے گا اور وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹی کے ماتحت نہیں رھے گا۔
ھندوستانی
مھاجر وزیر قانون فروغ نسیم اور ھندوستانی مھاجر اٹارنی جنرل انور منصور نے نہ صرف
آرمی چیف جنرل باجوہ کی قوائد و ضوابط کے مطابق تعیناتی کی مدت میں ایکسٹینشن کے
دوران غلطیاں ' کوتاھئیاں اور غامیاں کیں بلکہ سپریم کورٹ کو آئین کے آرٹیکل 97 کے
تحت وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹی کا آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت میں ایکسٹینشن کے
بارے میں اختیار کا بتانے کے بجائے پہلے آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی از
سر نو تعیناتی کا بتاتے رھے اور بعد میں ایکسٹینشن دینا بتاتے رھے۔ اس لیے سپریم
کورٹ نے آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت مقرر کرنے اور ایکسٹینشن کے لیے آئین کے آرٹیکل
243 میں 6 ماہ کے اندر ترمیم کا حکم جاری کردیا اور آرمی چیف جنرل باجوہ کو صرف 6
ماہ کی ایکسٹینشن دی جوکہ 6 ماہ کے اندر آئین میں ترمیم نہ ھونے کی صورت میں خود
بخود ختم ھوجائے گی۔ لیکن اگر 6 ماہ میں آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت اور ملازمت
میں توسیع ' تنزلی یا دوبارہ تعیناتی کے لیے آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم کردی
گئی تو آرمی چیف جنرل باجوہ کو 3 سال کی ایکسٹینشن مل جائے گی لیکن آرمی چیف کا
عہدہ صدر ' وزیر اعظم ' چیف جسٹس ' چیف الیکشن کمشنر ' چیئرمین نیب کی طرح آئینی
قرار پائے گا اور وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹی کے ماتحت نہیں رھے گا۔
آرمی
چیف جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے معاملے میں ھندوستانی مھاجر وزیر قانون فروغ نسیم
اور ھندوستانی مھاجر اٹارنی جنرل انور منصور نے نا اھلی و نالائقی دکھائی یا عیاری
و مکاری کا مظاھرہ کیا؟ نا اھلی و نالائقی دکھائی گئی یا عیاری و مکاری کا مظاھرہ
کیا گیا لیکن اس سے نہ صرف آرمی چیف جنرل باجوہ بلکہ پاک فوج کے ادارے کی بھی جگ
ھنسائی ھوئی اور پاک فوج کے ادارے میں آئندہ کے 6 ماہ کے لیے عدم استحکام اور
بحران کا ماحول پیدا کردیا گیا۔
1۔
اگر عیاری و مکاری کا مظاھرہ کیا گیا تو اس کے پسِ پردہ عزائم کیا تھے؟
2۔
کیا عیاری و مکاری کا مظاھرہ صرف ھندوستانی مھاجر وزیر قانون فروغ نسیم اور
ھندوستانی مھاجر اٹارنی جنرل انور منصور نے ھی کیا یا ان کی پشت پناھی کرنے والے
پردہ نشیں بھی تھے؟
3۔
کیا ھندوستانی مھاجر وزیر قانون فروغ نسیم اور ھندوستانی مھاجر اٹارنی جنرل انور
منصور کی پشت پناھی کرنے والوں میں حکومتی اراکین بھی شامل تھے؟
4۔
آئین کے آرٹیکل 234 میں ترمیم کے لیے پاکستان کی قومی اسمبلی کے دو تہائی اراکین
کی ضرورت ھوگی جوکہ حکومت کے پاس نہیں ھے۔ کیا حکومتی اراکین اب آرمی چیف جنرل
باجوہ کی ایکسٹینشن کے لیے سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی 6 ماہ کی مدت میں آئین میں
ترمیم کرالیں گے یا نئی عیاری و مکاری کریں گے تاکہ آئین میں ترمیم نہ ھوسکے اور
آرمی چیف جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کی مدت ختم ھو جائے؟
No comments:
Post a Comment