پاکستان کی سیاسی صورتحال یہ ھے کہ؛ ایک طرف قحط الرجالی کی وجہ سے پاکستان میں
پاکستان کی سطح کا تو کیا کسی ایک صوبے میں صوبائی سطح کا بھی کوئی سیاسی رھنما
نہیں ھے۔ دوسری طرف پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی سیاسی نظریہ کے بجائے شخصی
بنیادوں پر منظم ھیں۔ اس لیے قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کے بجائے لسانی ' فرقہ
ورانہ یا علاقائی گروہ کی حیثیت رکھتی ھیں۔ تیسری طرف نواز شریف اور مریم نواز کا
تعلق پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی سے ھے۔
پاکستان
کی 60٪ آبادی پنجابی ھے۔ جبکہ خیبر پختونخواہ کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے
پختون علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے بلوچ علاقے کی دوسری بڑی آبادی '
سندھ کی دوسری بڑی آبادی ' کراچی کی دوسری بڑی آبادی بھی پنجابی ھے۔ اس لیے
پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کی اکثریت کا تعلق بھی پنجاب اور پنجابی قوم
سے ھے۔ جبکہ پاکستان میں سماٹ ' ھندکو ' براھوئی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی '
کوھستانی ' چترالی ' راجستھانی ' گجراتی برادریوں کے ساتھ پنجابیوں کے دوستانہ
مراسم ھیں۔ صرف پٹھان ' بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کے ساتھ پنجابیوں کے دوستانہ
مراسم نہیں ھیں۔
پاکستان
میں چونکہ بین الاقوامی طاقتوں کا کھیل بھی جاری ھے۔ اس لیے پاکستان کی سیاست میں
پاکستان کے قیام کی سات دھائیوں کے بعد اب ایک نئی طرح کی سیاسی فضاء بن سکتی ھے۔
ظاھر ھے کہ؛ اس سیاسی فضاء میں فیصلہ کن کردار پاکستان کی 60٪ آبادی کا ھوگا جوکہ
پنجابی ھے۔ نواز شریف اس کھیل میں مریم نواز کو شامل کروا سکتا ھے یا پھر پاکستان
میں بین الاقوامی کھیل کھیلنے والی طاقتیں مریم نواز کو اپنے کھیل کے لیے استعمال
کر سکتی ھیں۔ لیکن 1999 سے لیکر اب تک کے 20 سالہ کھیل میں نواز شریف سمیت پنجابی
سیاستدانوں نے سیاسی ناپختگی کا ثبوت دیا ھے اور سیاست کے میدان میں ناکام رھے۔
وجہ سیاسی ناکامی اور سیاسی ناپختگی کی پنجابی سیاستدانوں کی سیاست میں پنجابی قوم
پرستی کے عنصر کا نہ ھونا رھا۔
پاکستان کی سب سے بڑی قوم پنجابی ھے لیکن پنجابیوں کی سیاسی پستی کا یہ حال ھے کہ؛
پاکستان کا صدر سندھ کا مھاجر ھے۔ پاکستان کا وزیر اعظم پنجاب کا پٹھان ھے۔
پاکستان کی سینٹ کا چیئرمین بلوچستان کا بلوچ نزاد ھے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا
اسپیکر خیبر پختونخوا کا پٹھان ھے۔ حتیٰ کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ بھی بلوچ نزاد ھے۔
پاکستان کے وفاق میں چاروں اھم سیاسی عہدوں کے علاوہ پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ تک
پنجابی نہیں ھے تو پنجابیوں کے سماجی مسائل و معاشی حقوق اور انتظامی معاملات و
اقتصادی مفادات کا سیاسی تحفظ پنجابی سیاستدانوں کی طرف سے سیاست میں پنجابی قوم
پرستی کا عنصر شامل کیے بغیر کیسے ھوگا؟
اس لیے اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ؛ مریم نواز کی سیاست میں پنجابی
قوم پرستی کا عنصر شامل کیا جائے یا پھر کوئی دوسرا پنجابی قوم پرست لیڈر سامنے
لایا جائے۔ وہ پنجابی قوم پرست لیڈر سندھ سے سماٹ کو ' بلوچستان سے براھوئی کو '
خیبرپختونخوا سے ھندکو کو اپنے ساتھ لے کر چلے اور پاکستان میں سماجی استحکام پیدا
کرے ' سیاسی افراتفری ختم کرائے ' انتظامی کارکردگی بہتر بنائے ' پاکستان کو معاشی
ترقی کے راستے پر گامزن کرے۔
No comments:
Post a Comment