Tuesday 12 November 2019

“نظریہ پاکستان” اور “دو قومی نظریہ” الگ الگ نظریے ھیں۔

چوھدری رحمت علی گجر ایک مسلمان پنجابی تھے جو “نظریہ پاکستان” کے بانی تھے۔ ان کا شمار موجودہ پاکستان کو قائم کرنے کے لئے "پاکستان" کے نام کے تخلیق کار کے طور پر کیا جاتا ھے اور انہیں پاکستان کی تحریک کے بانی کے طور پر یاد کیا جاتا ھے۔ انہیں 1933 کے ایک مشہور پمفلٹ "ابھی یا کبھی نہیں؛ ھم رھتے ھیں یا ھمیشہ کے لئے ھلاک کردیے جائیں گے"؟ کے مصنف کے طور پر جانا جاتا ھے۔ اس پمفلٹ کو پاکستان کے اعلامیہ کے طور پر جانا جاتا ھے۔ “نظریہ پاکستان” کی تشریح کرنے کے لیے پمفلٹ ایک مشہور بیان کے ساتھ شروع ھوتا ھے؛

"بھارت کی تاریخ کے اس اھم دور میں جب برطانوی اور بھارتی سیاستدان اس ملک کے لیے ایک وفاقی آئین کی بنیادیں بچھانے جا رھے ھیں تو ھم ھمارے مشترکہ ورثے کے نام پر ' ھمارے تین کروڑ مسلمان بھائیوں (پنجاب ' سندھ ' بلوچستان ' سرحد ' کشمیر کے باشندوں) کی جانب سے ' اس اپیل کے ذریعے آپسے مخاطب ھیں ' جو پاکستان کے رھنے والے ھیں ۔ جس سے مراد ھے بھارت کے پانچ شمال مغربی یونٹس مطلب: پنجاب ' افغانیہ (صوبہ سرحد اور فاٹا کے علاقے) ' کشمیر ' سندھ ' بلوچستان"۔

چوھدری رحمت علی نے پمفلٹ میں بنگال کے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم وطن "بنگستان" کے نام سے تجویز کیا تھا۔ "عثمانستان" کے نام سے ایک مسلم ملک دکن اور یوپی ' سی پی کے مسلمانوں کے لیے تجویز کیا تھا اور "دینیاس" کے نام سے ایک ملک جنوبی ایشیا کے مختلف مذاھب کے لوگوں کے لیے تجویز کیا تھا۔ جبکہ اپنے پمفلٹ بعنوان "ابھی یا کبھی نہیں؛ ھم رھتے ھیں یا ھمیشہ کے لئے ھلاک کردیے جائیں گے"؟ میں لفظ "پاکستان" بھارت کے پانچ شمال مغربی یونٹس مطلب: پنجاب (بغیر تقسیم کے) ' افغانیہ (صوبہ سرحد اور فاٹا کے علاقے) ' کشمیر ' سندھ ' بلوچستان کے لیے تجویز کیا تھا"۔

جہاں تک “دو قومی نظریہ” کی بات ھے تو یہ سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔ “دو قومی نظریہ” میں تجویز کیا گیا تھا کہ؛ برٹش انڈیا کے تمام مسلمان ایک قوم ھیں۔ نہ صرف انکا مذھب ایک ھے بلکہ انکی زبان بھی ایک ھی ھے ' انکی ثقافت بھی ایک ھی ھے اور انکا سیاسی مفاد بھی ایک ھی ھیں۔ بلاشبہ یہ ایک مذھب انکا دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والا اسلامی فلسفہ تھا۔ ایک زبان انکی اردو زبان تھی۔ ایک ثقافت انکی گنگا جمنا کی ثقافت تھی اور ایک سیاسی مفاد انکا نئے مسلم ملک میں سینٹرل برٹش انڈیا کے اردو بولنے والے مسلمانوں کو برتری حاصل ھونا تھا۔

ایک ھی مذھب ھونے کے باوجود برٹش انڈیا کے مسلم اکثریتی علاقوں کے مسلمان دیوبندی اور بریلوی مکتبہء فکر والے اسلامی فلسفہ سے ھٹ کر مختلف مذھبی نقطہ نظر رکھتے تھے۔ انکی زبانیں الگ الگ تھیں۔ انکی ثقافتیں الگ الگ تھیں۔ انکی اپنی اپنی انفرادی تاریخ تھی۔ انکی اپنی اپنی منفرد قومی شناختیں تھیں اور انکے اپنے اپنے سیاسی مفادات تھے۔ اس لیے برٹش انڈیا کے مسلم اکثریتی علاقوں میں “دو قومی نظریہ” کو پذیرائی حاصل نہ ھوسکی۔ 1937 کے انتخابات میں “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر مہم کو چلایا گیا۔ لیکن آل انڈیا مسلم لیگ کو تمام مسلم اکثریت کے صوبوں میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا جو کہ “دو قومی نظریہ” کو مسترد کرنا اور “نظریہ پاکستان” کی حمایت تھا۔

No comments:

Post a Comment