Wednesday 5 February 2020

پنجابیوں کو "ذلیل و خوار" کرنے کی عادت پٹھان ' بلوچ ' مھاجر کو کیسے پڑی؟

دھرم اور دھرتی دو الگ حقیقتیں ھیں۔ دھرم اپنا اپنا ھوتا ھے اور ھر انسان کا کوئی نہ کوئی مذھب ھوتا ھے۔ اس لیے ھی مسلمان قوم نہیں امت ھیں۔ جب امتِ مسلمہ کی بات ھوتی ھے تو چاھے عربی ھو یا عجمی ‘ بلا رنگ ‘ نسل ‘ زبان اور علاقے کے ساری دنیا کے مسلمان امتِ مسلمہ میں ھی شمار ھوتے ھیں۔ جبکہ زبان اور دھرتی کا مذھب نہیں ھوتا۔ عربی زبان مسلمان عربوں کے علاوہ عیسائی عرب اور یہودی عرب بھی بولتے ھیں اور عرب ممالک میں مسلمان عربوں کے علاوہ عیسائی عرب اور یہودی عرب بھی رھتے ھیں۔ جب عرب قوم کی بات ھوتی ھے تو اس میں صرف مسلمان نہیں بلکہ عیسائی اور یہودی بھی شامل ھوتے ھیں۔

پنجابی زبان مسلمان پنجابیوں کے علاوہ عیسائی پنجابی ' سکھ پنجابی اور ھندو پنجابی بھی بولتے ھیں اور پنجاب میں مسلمان پنجابیوں کے علاوہ عیسائی پنجابی ' سکھ پنجابی اور ھندو پنجابی بھی رھتے ھیں۔ جب پنجابی قوم کی بات ھوتی ھے تو اس میں صرف مسلمان پنجابی ھی نہیں بلکہ عیسائی پنجابی ' سکھ پنجابی اور ھندو پنجابی بھی شامل ھوتے ھیں۔ پاکستان بننے سے پہلے مسلمان پنجابی ' سکھ پنجابی ' ھندو پنجابی اور عیسائی پنجابی ایک ساتھ ھی رھتے تھے۔ پنجاب ایک سیکولر دیش تھا۔ دھرم ھر ایک کا اپنا اپنا تھا۔ دھرتی سانجھی تھی۔ پنجاب پر پنجابیوں کی سیاسی پارٹی " یونینسٹ" کی حکومت تھی۔ مسلمان پنجابی سر خضر حیات ٹوانہ وزیر اعظم تھے۔ پاکستان کی تحریک سے پنجاب کوسوں دور تھا لیکن ھندوستان کے مسلم ھندو تنازع کو بنیاد بنا کر 15 اگست 1947 کو پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا اور 17 اگست 1947 کو پنجاب کو تقسیم کرکے ایک حصہ پاکستان اور دوسرا حصہ ھندوستان کے سپرد کردیا گیا۔ جسکی وجہ سے 20 لاکھ پنجابی مارے گئے اور 2 کروڑ بے گھر ھوگئے۔

پنجابی قوم نے 1947 میں آپس میں لڑ کر 20 لاکھ پنجابی مار دیے تھے اور 2 کروڑ پنجابی اجاڑ دیے تھے۔ یہ پنجابی قوم کی آپس کی جنگ تھی۔ پنجابی قوم کی آپس میں جنگ کیوں ھوئی؟ پنجابی قوم خود آپس میں لڑی یا پنجابی قوم کو آپس میں لڑوایا گیا؟ یہ پنجابی قوم کا معاملہ ھے۔ پنجابی قوم اس معاملے کو خود ھی طے کرلے گی۔ پنجابی قوم کی آپس کی جنگ کی وجہ سے ھی پنجاب تقسیم ھوا اور غیر مسلمان پنجابی بھارت میں "ذلیل و خوار" ھو رھے ھیں۔ جبکہ مسلمان پنجابی قلیل سی آبادی مسلمان پٹھان ' مسلمان بلوچ ' مسلمان ھندوستانی مھاجر کے ھاتھوں پاکستان میں "ذلیل و خوار" ھو رھے ھیں۔ سوچنے کی بات یہ ھے کہ؛ پنجابی قوم نے تو آپس میں جنگ کے وقت آپس میں لڑ کر 20 لاکھ پنجابی مار دیے تھے اور 2 کروڑ پنجابی اجاڑ دیے تھے۔ اگر پنجابی قوم کسی غیر پنجابی قوم سے لڑ پڑی تو کیا ھوگا؟ پاکستان کے قیام میں پٹھانوں ' بلوچوں ' ھندوستانی مھاجروں کو خون خرابے سے نہیں گزرنا پڑا تھا۔ لیکن پنجابی قوم نے پاکستان کے قیام کے وقت آپس میں لڑ کر 20 لاکھ پنجابی مار دیے تھے اور 2 کروڑ پنجابی اجاڑ دیے تھے۔ اس لیے پنجابی قوم کو معلوم ھے کہ؛ آپس کی لڑائی جب شروع ھوجائے تو انجام کیا ھوتا ھے؟

پنجاب تقسیم ھوجانے اور 20 لاکھ پنجابی مارے جانے جبکہ 2 کروڑ پنجابی بے گھر ھو جانے کی وجہ سے پنجابیوں کے تباہ و برباد ھوجانے۔ پاکستان کا گورنر جنرل سندھی کے بن جانے۔ پاکستان کا وزیرِ اعظم ھندوستانی مھاجر کے بن جانے۔ پنجاب کا وزیر اعلیٰ پٹھان کے بن جانے پھر 1951 میں پنجاب اسمبلی ھی برخاست کرکے پنجاب کا گورنر ایک دوسرے پٹھان کو بنا دینے۔ پاکستان کی سرکاری اور تعلیمی زبان اردو ھو جانے اور مخالفت پر ملک دشمن تصور ھونے۔ گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دے دینے۔ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان مغربی پاکستان لاکر حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا دینے کے بعد پاکستان میں پنجابیوں کا یہ حال تھا کہ؛

نہ تو پنجابیوں کے مفاد کے برخلاف پنجاب کی تقسیم ' 20 لاکھ پنجابیوں کے مارے جانے اور 2 کروڑ پنجابیوں کے بے گھر ھوجانے کے بارے میں کسی سے بات کرنے کے قابل تھے۔ نہ پاکستان کا گورنر جنرل بنگالی کو نہ بنانے اور پاکستان کا وزیرِ اعظم پنجابی کو نہ بنانے کی بات کرنے کے قابل تھے۔ نہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ پنجابی کو نہ بنانے کی بات کرنے کے قابل تھے۔ نہ پنجاب کی سرکاری اور تعلیمی زبان پنجابی قرار دینے کی بات کرنے کے قابل تھے۔ نہ گنگا جمنا ثقافت کی شیروانی اور پاجامہ کو پاکستان کا قومی لباس قرار دینے کی مخالفت کرنے کے قابل تھے۔ نہ پنجاب کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرکے پٹھان کو پنجاب کا گورنر نامزد کرنے کی مخالفت کرنے کے قابل تھے۔ نہ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ' دارالعلوم دیو بند ' دار العلوم ندوة العلماء اور بریلوی مدرسوں سے فارغ التحصیل اردو بولنے والے ھندوستانی مسلمان مغربی پاکستان لاکر حکومت ' بیوروکریسی ' سیاست ' صحافت پر قابض کروا کر پاکستان پر اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کی انتظامی گرفت مظبوط کرنے کی مخالفت کرنے کے قابل تھے۔ بلکہ پنجابی آئندہ کئی نسلوں تک کے لیے سیاسی و سماجی اپاھج بن چکے تھے۔

اس لیے پٹھانوں ' بلوچوں ' ھندوستانی مھاجروں کو "اٹھکیلیاں" سوجھتی رھیں اور پنجابیوں سے "پنگے بازی" کرتے رھے بلکہ پنجابیوں کو "بلیک میل" کرنے کے عادی بن گئے۔ خاص طور پر پنجابیوں کو "ذلیل و خوار" کرنے کے باوجود پنجابیوں کی طرف سے جوابی ردِ عمل نہ ھونے کی وجہ سے پٹھانوں ' بلوچوں ' ھندوستانی مھاجروں کے حوصلے بڑھتے رھے۔ اس لیے پنجابیوں کو کھل کر "ذلیل و خوار" کرتے رھے۔ یہ الگ مسئلہ ھے کہ؛ پنجابی صرف پنجاب کی ھی سب سے بڑی آبادی نہیں ھیں بلکہ خیبر پختونخوا کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے پختون علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' بلوچستان کے بلوچ علاقے کی دوسری بڑی آبادی ' سندھ کی دوسری بڑی آبادی ' کراچی کی دوسری بڑی آبادی بھی پنجابی ھی ھیں۔ پاکستان میں 40% آبادی سماٹ ' براھوئی ' ھندکو ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' کوھستانی ' چترالی ' سواتی ' گجراتی ' راجستھانی ' پٹھان ' بلوچ ' ھندوستانی مھاجر کی ھے۔ جبکہ 60% آبادی پنجابی کی ھے۔ اس لیے پٹھانوں ' بلوچوں ' ھندوستانی مھاجروں کے پنجابیوں کو "ذلیل و خوار" کرنے کے باوجود صنعت ' تجارت ' ذراعت ' سیاست ' صحافت ' ھنرمندی کے شعبوں ' تعلیمی اداروں ' شہری علاقوں ' سرکاری ملازمتوں اور فوج کے اداروں میں پنجابی تعداد کے لحاظ سے زیادہ نظر آتے ھیں۔

اس ماجرے سے ھٹ کر ایک قصہ سنتے ھیں؛ ایک شیر نے ایک بزرگ سے بیعت کرلی۔ بزرگ نے شیر سے کہا کہ؛ تو جنگل کا بادشاہ ھے۔ اس لیے نہ اپنی دھاڑ سے جنگل کے جانوروں کو ڈرایا کر اور نہ ان کے ساتھ زیادتی کیا کر۔ شیر نے بزرگ کی ھدایت پر عمل کرنا شروع کردیا۔ جنگل کے جانوروں نے جب دیکھا کہ؛ شیر تودھاڑتا ھی نہیں بلکہ مرے ھوئے جانوروں کو کھا کر گذارا کرتا ھے۔ زندہ جانوروں کو کچھ کہتا ھی نہیں۔ تو جنگل کے دیگر جانور تو اپنی جگہ بندر اور گیدڑ تک شیر کو بادشاہ سلامت کے بجائے تو ' تو کہہ کر مخاطب ھونا شروع ھوگئے۔ پھر بھی شیر خاموش رھا تو کتے اور بلیاں بھی میدان میں آگئے اور شیر کی درگت بنانا شروع کردی۔ محسوس یہ ھونا شروع ھو گیا کہ؛ جیسے جنگل میں شیر کا نہیں بلکہ بندر ' گیدڑ ' کتے اور بلیاں راج کر رھی ھیں۔ جنگل میں ھر طرف افراتفری پھیلنے لگی اور شیر کو دم دبا کر بیٹھنا پڑگیا۔ ایک دن بزرگ نے شیر سے پوچھا کہ؛ جنگل کا نظام درھم برھم کیوں ھے؟ شیر نے ماجرا کہہ سنایا۔ بزرگ نے کہا کہ؛ میں نے تو دھاڑ کر جنگل کے جانوروں کو ڈرانے اور ان کے ساتھ زیادتی کرنے سے منع کیا تھا۔ جنگل میں افراتفری پھیلنے اور جنگل کا نظام درھم برھم ھونے سے بچانے کے لیے تجھے دھاڑنے سے منع نہیں کیا تھا۔ تاکہ بندر ' گیدڑ ' کتے اور بلیاں راج کرنے لگ جائیں۔ بلکہ تمہارے گلے پڑنے لگ جائیں۔ بزرگ نے کہا !!! شیر بنو شیر اور بادشاھت کرو۔ جنگل میں افراتفری پھیلنے اور جنگل کا نظام درھم برھم ھونے سے بچانے کے لیے دھاڑا کرو اور شیر ھونے کا ثبوت بھی دیا کرو۔ بندر ' گیدڑ ' کتے اور بلیاں ھی نہیں ' ھاتھی جیسے چلنے اور اژدھے جیسے رینگنے والے جانور کو بھی اپنی اوقات میں رکھا کرو۔ ورنہ خود تو برباد ھو رھے ھو ' جنگل کو بھی تباہ کردو گے۔

نوٹ:- اس قصہ کا پاکستان میں پنجابی کے کردار سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ھی پٹھان ' بلوچ ' مھاجر وغیرہ کا اس قصہ سے کوئی تعلق ھے۔ یہ ایک جنگل کا قصہ ھے۔ جہاں بندر ' گیدڑ ' کتے اور بلیاں راج کرنے لگے تھے۔

No comments:

Post a Comment